اسلام ہرمعاملے میں اعتدال اختیار کرنے کی بنا پر تمام ادیان میں ممتاز و نمایاں ہے۔ اسلام نے اپنی امت کی ایک خصوصیت ’اعتدال‘ کو قرار دیا ہے۔ اسلام عمل و عقیدے اور روحانی و مادی ہر میدان میں توازن کو ترجیح دیتا ہے۔ وہ فرد کی زندگی میں روح اور مادہ، عقل اور قلب، دنیا اور آخرت اور حقوق و فرائض کے درمیان توازن کی بنیاد پر اپنا حکم نافذ کرتا ہے۔ دوسری طرف وہ فرد اور معاشرے کے درمیان میزانِ عدل قائم کرتا ہے۔ وہ فرد کو بے تحاشا آزادی اور حقوق نہیں دے دیتا کہ وہ معاشرے کے لیے دردِسر بن جائے، جیسا کہ سرمایہ دارانہ نظام نے کیا ہے۔ اسلام معاشرے کو ایسے اختیارات بھی نہیں دیتا کہ معاشرہ سرکش و ظالم بن جائے، یا فرد پر ایسی بے جا پابندیاں عائد کر دے کہ اُس کی شخصیت دب کر رہ جائے۔ اُسے پنپنے کا موقع نہ ملے، اس کی صلاحیتیں اور کارآمد قوتیںبروے کار نہ آ سکیں، جیسا کہ کمیونزم اور انتہا پسند اشتراکیت نے کیا۔ اسلام معاشرے میں عدل قائم کرنے کے لیے بے قید شخصی آزادیوں کا سرمایہ دارانہ نظریہ بھی قبول نہیں کرتا۔ خصوصاً اُن طبقات کی وجہ سے جو معاشرے میں کمزور اور پسے ہوئے ہوں۔
اسلام فرد کو فرد کا حق اور معاشرے کو معاشرے کا حق دیتا ہے۔ وہ کسی کے حق میں کوئی کمی کرتا ہے نہ دوسرے کے حق میں کوئی اضافہ۔ یہ تمام چیزیں شریعت کے احکام اور تعلیمات نے مرتب کر دی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام ملک کے باشندوں کی آزادی کی حفاظت اُسی طرح کرتا ہے جس طرح وطن کی آزادی کی۔ یہ حریت فکر ہے نہ کہ حُریت کفر، یہ ضمیر کی آزادی ہے لیکن حدود کے ساتھ، یہ حقوق کی آزادی ہے مگر حدود سے تجاوز کی آزادی نہیں۔
ہم یہاں اس عقیدے اور ایمان کا اظہار ضروری سمجھتے ہیں کہ انسانوں کو اُن کی مائوں نے آزاد پیداکیا ہے، لہٰذا کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ دوسرے پر مسلط ہو اور نہ کسی کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ لوگوں میں سے کچھ کو اللہ کے علاوہ رب بنا لے۔ دراصل حقیقی آزادی تو حقیقی توحید کا ثمر ہے اور لا الٰہ الا اللہ کے مفہوم کا لازمی نتیجہ ہے۔
اسلام واقعیت پسندی میں انفرادیت رکھتا ہے۔ اسلام انسان کے ضعف کا اعتراف کرتا ہے۔ اسی لیے اسلام نے انسانوں کو ترغیب بھی دی ہے اور ڈرایا بھی ہے، نیکی کی طرف بلانے اور برائی سے روکنے کا حکم دیا ہے۔ سزا ئیں بھی مقرر کی ہیں اور توبہ کا دروازہ بھی کھلا رکھا ہے۔ اسلام نے ضرورتوں کے لیے احکام وضع کیے ہیں۔ مجبور اور معذور لوگوں کے عذر کا خیال رکھا ہے۔ لہٰذا مختلف حالات میں رخصتیں اور استثنا کی گنجایش رکھی ہے، جیسے خطا، نسیان اور اِکراہ ہے۔ جب اعلیٰ اور ارفع صورت کو اختیار نہ کیا جا سکتا ہو تو ادنیٰ اور نسبتاً ہلکی صورت کو اپنا لینے کی اجازت دی ہے۔
اسلام کی واقعیت پسندی کی ایک مثال یہ ہے کہ وہ انسان کی تکریم کرتا ہے، اس کو اُوپر اٹھاتا ہے۔ وہ اُسے حیوانیت کے پست درجے پر نہیں گراتا اور نہ اُسے خداوندی کے مقام پر فائز کرتا ہے۔ وہ اُس کے ارفع شوق اور سفلی جذبات کا اعتراف کرتا ہے۔ وہ روحانی اور جسمانی، عقلی اور جذباتی، مردانہ اور نسوانی، انفرادی اور معاشرتی، ہراعتبار سے اس کا اعتراف کرتا ہے، اسے اہمیت دیتا اور اس کا لحاظ رکھتا ہے۔ وہ اس کے لیے جائز تفریح اور خوشی اور راحت کے مواقع فراہم کرتا ہے، تاکہ وہ پُرمسرت اور خوش گوار زندگی گزار سکے۔
اسلام خاندان کو معاشرے کی اساس خیال کرتا ہے۔اس لیے اسلام شادی کی ترغیب دیتا ہے۔ اس کے اسباب اور ذرائع کو آسان اور رکاوٹوں کو دُور کرتا ہے۔ ناروا پابندیوں کو رَد کرتا ہے جو شادی کو مشکل بناتی اور تاخیر کا سبب بنتی ہیں، مثلاً بہت زیادہ حق مہر مقرر کرنا، تحفے تحائف اور شادی ولیمے میں اسراف، زیب و زینت اور لباس میں تفاخر ،جو اللہ اور اس کے رسولؐ کو ناپسند ہے۔
اسلام حلال اور جائز ذرائع مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ حرام اور اُس کی طرف لے جانے والی عریانی، بنائو سنگھار، گفتگو، تصویر، ناول اور ڈراما وغیرہ سب کے دروازے بند کرتا ہے، خصوصاً ذرائع ابلاغ میں جو ہر گھر میں داخل ہو سکتے ہیں اور آنکھ اور کان تک پہنچ کر اُسے متاثر کر سکتے ہیں۔
اسلام میاں بیوی کے درمیان راحت و مودت، ہمدردی وسکون کے تعلقات، حقوق و فرائض کی ادایگی اور معروف کے ساتھ باہمی زندگی گزارنے کی بنیادیں فراہم کرتا ہے۔ وہ طلاق کو ناگزیر جراحی کی طرح اس وقت جائز قراردیتا ہے جب زوجین کا اکٹھے رہنا ناممکن ہو جائے اور صلح و ثالثی کے تمام طریقے آزمائے جا چکے ہوں۔ اسلام صرف اُس مومن کو دوسری شادی کی اجازت دیتا ہے جو اسباب و ذرائع بھی رکھتا ہو اور عدل کر سکے۔
اسلام والدین کی طرف سے مادی وجذباتی اور تربیتی پہلوئوں کی پوری پوری رعایت کو ملحوظ رکھتے ہوئے والدین اور اولاد کے درمیان تعلقات کو فرض ٹھیراتا ہے۔ اولاد کی طرف سے والدین کے ساتھ احسان اور اچھے برتائو کو واجب قرار دیتا ہے۔ اسلام معاشرے اور حکومت کی طرف سے ماں کی مامتا اور بچے کے بچپن، خصوصاً یتیم اور لاوارث بچوں کے بچپن کے حقوق اور نگہداشت کی پوری رعایت رکھتا ہے۔ اسلام خاندان کو وسعت دیتا ہے تاکہ نسبی اور قریبی رشتے دار اس دائرے میں آجائیں۔ ان رشتے داریوں کو قائم رکھنا فرض ہے اور انھیں توڑ دینا اللہ کے نزدیک کبیرہ گناہ ہے۔
اسلام قانون اور قانون سازی کی طرح تربیت اور رہنمائی کا بھی اہتمام کرتا ہے بلکہ قانون سازی اور قانون پر عمل درآمد سے قبل تربیت کا اہتمام کرتا ہے۔ صرف قوانین معاشروں کی تشکیل نہیں کرتے، بلکہ معاشروں کی تشکیل مسلسل تربیت اور رہنمائی سے ہوتی ہے۔ ہر تحریک اور تبدیلی کی بنیاد ایک صاحب ِفکر اور باضمیر انسان کی تشکیل ہوتی ہے۔ ایسا انسان جو صاحب ِاخلاق بھی ہو اور صاحب ِایمان بھی۔ یہی صالح انسان ایک صالح معاشرے کی اساس ہوتا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ تربیتی ادارے خواہ وہ ماں کی گود ہو یا یونی ورسٹی، ہر ایک رہنمائی کا فریضہ ادا کرنے پر خصوصی توجہ دے کہ نسلِ نو کو علوم اور مہارت کے ساتھ ساتھ ایمان و اخلاق کی تربیت بھی دی جائے۔
عقیدے کو خرافات سے محفوظ رکھنا، توحید کو شرک سے آلودہ نہ ہونے دینا، آخرت پر یقین، اخلاق میں استحکام، بات میں سچائی کو اپنانا، عمل میں پختگی، عہد و امانت کو پورا کرنا، حق کا واشگاف اظہار، دین میں وفاداری اور خیرخواہی کا مظاہرہ ، اللہ کی راہ میں جان و مال کے ذریعے جہاد، حسب استطاعت دل و زبان سے برائی کو روکنا، ظلم و سرکشی کے خلاف جدوجہد کرنا، ظالموں سے مرعوب ہو کر اُن کی طرف مائل نہ ہونا، خواہ اُن کے پاس فرعون جیسی سلطنت اور قارون جیسی دولت کیوں نہ ہو__ یہ تمام وہ نکات ہیںجو معاصر مسلمان طبقوں کی مطلوب تربیت کے اہم نشانات ہیں۔
پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو درست رخ پر رکھنے کے لیے بھی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ میڈیا لوگوں کی سوچ، میلانات اور دل چسپی کو ایک رُخ دیتا ہے اور پھر راے عام اُسی رُخ پر تشکیل پاتی ہے جسے میڈیا تشکیل دیتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ میڈیا کے ان پہلوئوں کی تطہیر کی جائے جو عقیدے کو خراب، سوچ کو آلودہ اور رویوں میں انحراف پیدا کرتے ہیں۔ میڈیا کی توجہ معیاری پروگراموں کے ذریعے جو سنسنی خیزی اور غلط فہمی پیدا کرنے سے دور ہوں، قوم کے بڑے مقاصد کی خدمت پر مرکوز ہونی چاہیے۔ میڈیا کا محور خبر کے اندر سچائی اور رہنمائی کا عنصر ہونا چاہیے۔ میڈیا کو اسلامی اقدار و روایات اور قومی پالیسی کا عکاس ہونا چاہیے۔
اِسلام اپنے ماننے والوں کے درمیان وحدت و اخوت کے تعلقات پر مبنی معاشرہ قائم کرتا ہے جہاں مختلف نسلوں کے درمیان کوئی تصادم ہوتا ہے اور نہ مختلف ادیان کے مابین کوئی کش مکش۔ نہ مختلف طبقات آپس میں دست و گریباں ہوتے ہیں، نہ مختلف مذاہب (مسالک) ایک دوسرے سے گتھم گتھا۔ یہاں تمام انسان بھائی بھائی ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا بندہ ہونا اور آدمؑ کی اولاد ہونا ان کے اتحاد کی وجہ ہے۔ ان کے درمیان طرح طرح کے اختلافات اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مشیت کا نتیجہ ہیں۔ اللہ قیامت کے روز ان کے باہمی اختلافات کا فیصلہ کرے گا۔
اسلام اسلامی معاشرے کے غیرمسلم باشندوں کو بھی احترام کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اسلام انھیں اللہ تعالیٰ، اس کے رسولؐ اور مسلمانوں کی امان میں دیتا ہے۔ گویا مسلمان اُن کے جان و مال کی حفاظت، دفاع اور اُن کے ساتھ حُسنِ سلوک اور عدل و انصاف کرکے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے۔ اگر یہ تعبیر بھی غیرمسلموں کے لیے تکلیف کا باعث ہو تو انھیں اُن کے فہم و شعور پر چھوڑ دینا چاہیے۔ بہرحال اسلام اُن کے لیے عقیدے اور عبادت کی آزادی فراہم کرتا ہے۔ اُن کے خون، عزت و آبرو اور مال و دولت کا اسی طرح محافظ ہے جس طرح مسلمانوں کا۔ اسلام اِن کو بھی اسی طرح اندرونی ظلم و ستم سے محفوظ رکھتا ہے جس طرح بیرونی دشمن کی جارحیت سے ان کا دفاع کرتا ہے۔ اسلام اُن کے لیے بھی وہ تمام حقوق مقرر کرتا ہے جو مسلمانوں کے لیے ہیں۔ ان کے اوپر بھی وہی فرائض عائد کرتا ہے جو مسلمانوں پر عائد ہیں سواے اُن مستثنیات کے جن کا تعلق دین کے فرق سے ہے۔ اسلام انھیں مادی و معنوی اور قانونی، تمام ضمانتیں اور تحفظ فراہم کرتا ہے جو اُن کے لیے اِن حقوق کے حصول کی ضمانت ہیں۔
اِسلام پیشوائیت کو نہیں مانتا۔ اسلام میں کوئی ایسا تصور نہیں جو پیشوائیت کے منصب پر براجمان کسی طبقے کا قائل ہو۔ ایسا طبقہ جو دین کو دیوار سے لگا کر خود لوگوں پر حکومت کرنے لگے۔ لوگوں پر اللہ کا دروازہ بند کر دے۔ اگر کھولے تو اپنے ذریعے سے۔ کسی کو کچھ عطا کرنے کا فیصلہ بھی اسی طبقے سے صادر ہو اور کسی کو بخش دینے کا مژدہ بھی یہی طبقہ سنائے۔ اسلام کے نزدیک کسی شخص کو اپنے اور اپنے رب کے درمیان کسی واسطے کی ضرورت نہیں۔ اس کا رب تو اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ علماے دین کی حیثیت تو دین کے ماہرین کی ہے۔ ان کی طرف بھی کوئی شخص اسی طرح رجوع کرتا ہے جس طرح وہ کسی دوسرے علم کے ماہر سے استفادہ کرتا ہے۔ یہ حق ہر مسلمان کو حاصل ہے کہ وہ جب چاہے دین کے مطالعے کے ذریعے اس میں تخصص حاصل کرکے عالم بن جائے۔ یہ منصب نہ کسی وراثت کا مرہونِ منت ہے نہ کسی لقب اور مخصوص لباس کا متقاضی۔
اسلام میں دینی اور غیردینی جماعتوں اور تنظیموں کی تقسیم نہیں ہے۔ اس اعتبار سے لوگوں کے درمیان، قوانین کے درمیان، تنظیموں اور جماعتوں کے درمیان کوئی تقسیم نہیں ہے۔ ناگزیر ہے کہ یہ سب کے سب اسلام کی خدمت میں لگے ہوئے ہوں۔
اِسلام امت کے اس حق کو یقینی بناتا ہے کہ وہ امورِ سلطنت کو انجام دینے کے لیے اپنے حکمرانوں کا انتخاب کرے۔ کسی کو حکمران بنا کر اس کے اوپر مسلط نہیں کیا جا سکتا جو اس کی مرضی کے خلاف اس کی قیادت کرے۔ امت مسلمہ تو حکمرانوں کو مزدور اور خادم سمجھتی ہے۔ امت کے پاس اُن کی نگرانی اور محاسبے کا حق ہے۔ وہ اِن حکمرانوں کی مدد اور خیرخواہی کے لیے مصروف ہوتی ہے۔ معروف میں ان کی اطاعت کو فریضہ سمجھتی ہے۔ اسی طرح اُس کی اطاعت کا فریضہ امت پر سے ساقط ہوجاتا ہے جو معصیت کا حکم دے اور انحراف کی روش اپنا لے۔ ایسے حکمران کو نصیحت اور رہنمائی کرنا فرض ہے۔ اگر یہ چیز مفید نہ ہو سکے تو اس کو معزول اور حکومت سے بے دخل کردینا ضروری ہے۔ اگرکوئی حکومت خواہ وہ اسلامی ہی ہو، اس طرح کی روش اختیار کر لے تو وہ اُن معنوں میں دینی حکومت نہیں ہے جس سے عہد وسطیٰ میں مغرب آشنا ہوا۔ یہ تو بیعت اور شورٰی اور عدل پر قائم حکومت تھی۔ یہ اس قانون کی مدد سے حکمران تھی جو نہ اس نے بنایا تھا نہ اُس کو بدلنے کی طاقت اور اختیار رکھتی تھی۔ اس کے اعیانِ سلطنت علماے دین نہیں تھے، بلکہ طاقت و امانت اور علم و حفاظت کی صلاحیت رکھنے والے فرد ہوتے تھے۔ یہ وہ لوگ ہوتے تھے جنھیں اگر اللہ زمین میں حکمرانی عنایت کرے تو وہ نماز کا نظام قائم کریں، زکوٰۃ اداکریں، معروف کا حکم دیں اور منکر سے منع کریں۔
اسلام سرکش اور ظالم حکمرانوں سے تصادم کے دوران ایسی تمام عملی صورتوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جو حکمرانوں کے مقابلے میں قوموں اور طاقتوروں کے مقابلے میں کمزوروں کے حقوق کی ضامن ہوں۔ خواہ ان کا تعلق اُن دساتیر سے ہو جو مقتدر قوتوں کے درمیان فرق قائم کرتے ہیں، یا منتخب پارلیمان سے ہو، بااختیار عدلیہ سے ہو، آزاد صحافت سے ہو، آزاد محراب و منبر سے ہو، یا متعارض گروپوں سے۔ ان تمام چیزوں کا اسلام کی روح اور اس کے مقاصد کلّیہ سے ہم آہنگ ہونا ضروری ہے خواہ ان کے بارے میں اسلام کی براہِ راست جزوی نصوص موجود نہ بھی ہوں۔
اسلام دولت کی حفاظت کرتا ہے۔ اسلام کا نظریہ ہے کہ دولت انسانی زندگی کا مدار اور سرچشمۂ اسباب ہے۔ اس کے بغیر دنیا کی زندگی کی تعمیر نہیں ہو سکتی، نہ دین کی نصرت و حمایت اس کے بغیر ممکن ہے۔ یہ اللہ کی ایسی نعمت ہے جس کا شکر ادا کرنا فرض ہے۔ یہ ایسی امانت ہے جس کی حفاظت کرنا واجب ہے۔ اسی طرح یہ آزمایش اور امتحان بھی ہے کہ اللہ یہ عطا کرکے انسانوں کو آزماتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے حلال اور جائز طریقوں سے کمانا ضروری ہے۔ اس میں واجب ہونے والے حقوق کو ادا کرنا اور اسے بے جا اور تعیشات و فضولیات پر خرچ ہونے سے بچانا ضروری ہے۔ خاص طور پر دولت عامہ کی حفاظت نہایت ضروری ہے، یعنی وہ مال ودولت جس کو اسلام میں عظیم حرمت عطا کی گئی ہے، جیسے مالِ یتیم کی حرمت۔
اسی طرح اسلام پوری قوت کے ساتھ قوم کی اقتصادی ترقی کے لیے کام کرتا ہے۔ وہ اس کے مادی ذرائع کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ اس کی افرادی قوت کو تربیت فراہم کرتا ہے اور وہ اُمت کے تمام شہریوں کو ایک دوسرے کے لیے سہارا بناتا ہے تاکہ ہر ایک خود کفیل ہو سکے۔ زراعت و صنعت کے میدانوں میں وہ اپنی ضرورت کے مطابق اشیا پیدا کر سکیں۔ وہ دوسروں کے دست نگر نہ رہیں۔ اسلام دنیا کے لیے کیے جانے والے عمل کو دین کا ایک جزو سمجھتا ہے۔ وہ زمین کی آباد کاری کو عبادت قرار دیتا ہے۔ معاشرے کی ترقی کو فرض ٹھیراتا ہے۔امت کی تہذیبی وعسکری اور جہاد فی سبیل اللہ کے حوالوں سے ترقی و تقویت، معاشی طور پر امت کو آزاد اور خودمختار و خودکفیل بنانے کے لیے جدوجہد تقربِ الی اللہ کا افضل ترین عمل ہے۔ یوں اسلام امت کو ایسے معنوی محرکات، ترغیبات، ذرائع اور طریقے مہیا کرتا ہے جو اس کی گاڑی کو پوری قوت کے ساتھ آگے کی طرف دوڑاتے ہیں۔ انسان کی ایسی پوشیدہ قوتیں جو ترقی کا ہدف ہوں ان کو بھی اسلام نے اپنے قالب میں ڈھال کر کارآمد بنایا ہے۔
معاشرے کے کمزور طبقات مزدور، کسان، ہنرمند اور وہ چھوٹے ملازمین جو امن میں ضروریاتِ زندگی فراہم کرتے ہیں اور حالت جنگ میں مددو نصرت کے لیے تیار کھڑے ہوتے ہیں، اسلام ان پر بہت زیادہ توجہ دیتا ہے۔ وہ ان کو تحفظ فراہم کرنے والی ضمانتوں اور اُن کے حقوق کا محافظ ہے۔ ہر آجر سے اس کی حیثیت کے مطابق لیا جائے گا اور ہراجیر کو اس کی محنت اور ضرورت کے مطابق دیا جائے گا۔ دونوں ایک دوسرے کی استطاعت و استعداد کو ملحوظ رکھتے ہوئے معاملات طے کریں گے۔ اسی طرح کام نہ کر سکنے والوں یا اپنی محنت مزدوری سے اپنی ضروریات پوری نہ کرسکنے والے حاجت مندوں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کا بھی اسلام خیال رکھتا ہے، اور ان کے لیے سالانہ اور عمومی مدات میں حقوق مقرر کرتا ہے۔ یہ حقوق مال دار افراد کے مال و دولت، قومی بیت المال میں جمع غنائم، فے اور دیگر تمام ذرائع آمدن میں سے دیے جاتے ہیں۔ اسلام اس عمل کے ذریعے کمزور طبقات اور دولت مند افراد کے درمیان ایک مضبوط قربت پیدا کرتا ہے تاکہ کمزور طبقات کو امیروں کے ظلم سے محفوظ رکھا جا سکے اور فقرا کی سطح سے اوپر اٹھایا جا سکے۔ اسلام اس صورتِ حال کو قبول نہیں کرتا کہ معاشرے میں کوئی فرد شکم سیر ہو کر رات گزارے اور اس کا پڑوسی اس کے پہلو میں بھوکا رہے۔ اسلام کے نزدیک حکومت ایسے لوگوں کی نگہداشت کی براہِ راست جواب دہ ہے۔ کیونکہ حکمران اور قائد چونکہ نگران ہے، لہٰذا وہ اپنی رعایا کے بارے میں جواب دہ ہے۔
اسلام اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا کہ مسلمان اپنے وطن سے محبت رکھے اور اس پر فخر کرے، یااپنی قوم سے محبت کا دم بھرے اور اس پر فخر کے جذبات رکھے۔ جب تک یہ چیز مسلمان کے اپنے دین اور اس پر فخر سے متصادم نہ ہو، اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس صورت میں وطنیت اور قومیت کے حوالے سے اسلام کا دامن تنگ نہیں بشرطیکہ ان میں ایسے نظریات نہ ہوں جو اسلام سے متصادم ہوں یا اسلام دشمن ہوں، جیسے الحاد، سیکولرزم، مادہ پرستی، جاہلی عصبیت وغیرہ۔ اس کے ذریعے اسلام تعمیر کا خواہاں ہے تخریب کا نہیں۔ وہ وحدت و اتحاد قائم کرتا ہے تفریق و انتشار نہیں۔ وہ تقویت فراہم کرتا ہے ضعف پیدا نہیں کرتا۔ وہ وطن کے اتحاد اور اس کی مضبوطی کا داعی ہے۔ لہٰذا امت اسلامیہ کا اتحاد مشترکہ اخلاقی اصولوںکے تحت انسانیت کے اتحاد اور اس کے امن و سلامتی کی کوشش ہے۔
اسلام نظریے کا مقابلہ نظریے سے کرتا ہے اور شبہے کا مقابلہ حجت سے۔ اس لیے کہ دین میں کوئی جبر نہیں اور نہ نظریے میں کوئی جبر ہے۔ وہ تشدد کو طریقہ اور دہشت گردی کو ذریعہ بنا لینے کی تردید کرتا ہے۔ خواہ اس کا مظاہرہ حکمرانوں کی طرف سے ہو، یا عوام کی جانب سے۔ اسلام بامقصد تعمیری مکالمے پر یقین رکھتا ہے۔ ایسا مکالمہ جو ہرفریق کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنا نقطۂ نظر گفتگو کے آداب اور معروضیت کو مدنظر رکھتے ہوئے پوری وضاحت کے ساتھ پیش کرے۔ قرآنِ مجید نے اس اصول کی طرف یوں اشارہ کیا ہے: وَ جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَن (النحل۱۶:۱۲۵) ’’اور اُن سے احسن طریقے سے مکالمہ کرو۔‘‘
اِسلام یہ یقین رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ایک دوسرے سے مختلف پیدا کیا ہے۔ وَ لَوْ شَآئَ رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً (ھود۱۱:۱۱۸) ’’بے شک تیرا رب اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک گروہ بنا سکتا تھا‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام دوسروں کی راے کو وزن اور اہمیت دیتا ہے، خواہ یہ دین کی فقہ و فہم میں ہو یا سیاست کے میدان میں۔ جب متعدد آرا اور اجتہادات سامنے آئیں تب تو یہ اختلاف رحمت اور خیر ہوتا ہے۔ اسلامی نظام میں ایک سے زیادہ گروہوں کا وجود اسلام کے اصولوں اور قطعی احکام کی روشنی میں ایک جائز امر ہے۔ اسی طرح اسلام کے لیے کام کرنے والی جماعتوں اور تحریکوں کا ایک سے زیادہ ہونا مضر نہیں ہے بشرطیکہ یہ زیادتی صرف تنوع اور تخصص کی حد تک ہو نہ کہ مخالفت اور تصادم کے لیے، باہمی تعاون اور ایک دوسرے کے دست وبازو بننے کے لیے ہو نہ کہ نفرت و عداوت کی فضا پیدا کرنے کے لیے۔ اہم مسائل اور امور میں سب کے لیے اپنے جزوی اختلافات کو نظرانداز کرکے صف واحد کے طور پر کھڑا ہونا ضروری ہو۔ سب کا محور قرآن و سنت ہو۔ سب کا ہدف اسلام کا غلبہ ہو۔ ہمہ پہلو غلبہ، یعنی اعتقادی، شرعی اور اخلاقی، ہر اعتبار سے غلبہ ۔ سب کا ایک ہی شعار ہو اور وہ یہ کہ ہم جن باتوں پر متفق ہیں اُن میں ایک دوسرے سے تعاون کریں اور جن امور میں اختلاف ہے وہاں ایک دوسرے کے عذر کو قبول کریں۔
اسلام ماضی کی شان دار تہذیب کے گن گانے پر اکتفا نہیں کرتا، بلکہ وہ موجودہ اسلامی تہذیب کے اندر جدت لانے پر بھی کام کرتا ہے۔ آج کی تہذیب کے پاس سائنس و ٹکنالوجی اور انتظامی و اداراتی عناصر کی جو بہترین خوبیاں ہیں، یہ تہذیب ان کو اختیار کر لیتی ہے اور اپنی اصل اور خصوصیات کو بھی محفوظ رکھتی ہے۔ اسلامی تہذیب میں روحانی قدریں انسانی مفاہیم سے مربوط ہوتی ہیں۔ اس میں اسلام کی اصل اور زمانے کی روح روزِ روشن کی طرح نمایاں ہوتی ہے۔ سائنس اور ایمان اس میں مجتمع ہو جاتے ہیں۔ حق اور قوت کا آپس میں ملاپ ہوتا ہے۔ مادی جدت اور اخلاقی ترقی کا توازن موجود ہوتا ہے۔ اس میں عقل کی روشنی اور وحی کے نور کا تعلق برادرانہ ہوتا ہے۔
یہ ایسی تہذیب ہے جس میں اسلام کی خصوصیات اور مبادیات ابھر کر سامنے آتی ہیں۔ فرد کی تعمیر، خاندان کی تشکیل، معاشرے کی ترکیب، ریاست کے قیام اور بہترین راستے کی طرف انسانیت کی رہنمائی کرنے میں اسلام کے اہداف و مقاصد اس تہذیب میں مجسم دکھائی دیتے ہیں۔
یہ تہذیب مادی و الحادی مشرقی کیمپ اور سود خور سیکولر مغربی کیمپ سے منفرد و ممتاز ہے۔ یہ نہ دائیں بازو سے وابستہ ہوتی ہے نہ بائیں سے، بلکہ یہ صرف اسلام کے ساتھ وابستہ ہے۔ یہ اسلام ہی سے مدد لیتی، اسی پر انحصار کرتی، اسی کو مقصد ٹھیراتی اور اسی کے ذریعے نمایاں ہوتی ہے۔
یہ تہذیب اپنے امتیاز و انفرادیت کے باوجود مختلف ثقافتوں کے مابین میل ملاپ، مختلف تہذیبوں کے درمیان بات چیت، مختلف قوموں کے درمیان تعارف، اور بنی نوعِ انسان جہاں بھی ہوں ان کے درمیان اخوت پر یقین رکھتی ہے___ لیکن یہ تہذیب کسی دوسری تہذیب میں ضم ہوجانا گوارا نہیں کرتی کہ یوں وہ اپنی اصلیت اور انفرادیت کھو بیٹھے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تہذیب ہرقسم کی ثقافتی یلغار اور اجنبی و بیرونی تسلط کو قطعاً قبول نہیں کرتی۔ یہ اُن گھنائونے حربوں کے سامنے ڈٹ جاتی ہے جن کے ذریعے آج کے حملہ آور انسانیت کی آڑ میں اس میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔
اسلام شریعت کے قانونی پہلو کے ظاہری نفاذ کو ہی اپنی سب سے بڑی پریشانی نہیں بناتا۔ خاص طور پر حدود و قصاص میں سزائوں کے ہی نفاذ پر سارا زور نہیںدیتا، اگرچہ یہ پہلو شریعت کے احکام کا ایک جزو ہے اور اس کو معطل کر دینا جائز نہیں ہے۔
اسلام کا اولین معرکہ، بہت بڑی مہم اور پیہم سعی حقیقی اسلامی زندگی قائم کرنا ہے__ ایسی زندگی جو انسانوں کے دلوں کی ا صلاح کا کام کرے تاکہ اللہ تعالیٰ ان کی حالت بہتر بنا دے۔ اس زندگی کی چھائوں میں ایک مومن انسان، متحد خاندان، مربوط معاشرے اور عادل ریاست کی تشکیل ہوتی ہے۔ قوت اور دیانت داری جس کی خوبی ہو__ یعنی کامل اسلامی زندگی، اسلام کا عقیدہ جس کی رہنمائی کرتا ہے، اسلام کی شریعت جس پر حکمرانی کرتی ہے، اسلام کے معانی جس کی قیادت کرتے ہیں، اسلام کے اخلاق جس کے لیے ضابطہ ہیں اور اسلام کے آداب جس کے لیے باعث جمال ہیں۔
باہمی حقوق کے ضامن متحد معاشرے کی زندگی جس کا ایک حصہ دوسرے کے لیے دیوار کی اینٹوں کی مانند مضبوطی کا سبب بنتا ہے۔ جس میں کوئی فرد یوں بھوکا نہیں رہ سکتا کہ اس کا ہمسایہ تو پیٹ بھر کر کھاتا ہو اور وہ بھوکا رہ جائے۔ جس میں ایک جاہل کے لیے مفید علم حاصل کرنے کے وافر مواقع میسر ہوں۔ ہر بے روزگار کے لیے مناسب روزگار موجود ہو۔ ہر مزدور کے لیے عادلانہ مزدوری ملنے کا ماحول ہو۔ ہر بھوکے کے لیے اس کی ضرورت کے مطابق غذا مہیا ہو۔ ہر مریض کو مؤثر علاج کی سہولت حاصل ہو۔ ہرشہری کے لیے صحت مند رہایش کا بندوبست ہو۔ ہر محتاج کی ضرورت کا پورا سامان میسر ہو۔ ہر مجبور کا مادی اور معاشرتی ہر حوالے سے خیال رکھا جاتا ہو۔ خصوصاً بچوں، بوڑھوں، معذوروں اور بیوائوں کے حقوق کا خاص خیال ہو۔ اسی طرح اس زندگی میں ہر پہلو سے بھرپور قوت موجود ہو۔ فکر جان دار ہو، روح توانا ہو، بدن مضبوط ہو، اخلاق اعلیٰ ہوں، معاشیات کے اندر طاقت ہو، عسکری تیاری اور اسلحہ کے اعتبار سے استحکام ہو، اس کے ساتھ یک جہتی و اتحاد اور فولادی عزم کی دولت بھی موجود ہو__ اور اس سب کچھ کی اساس ایمان کی قوت ہو!
اسلام کا نظریہ ہے کہ مسلمان جہاں بھی ہوں، سب کے سب جسد ِ واحد کی طرح امت واحدہ ہیں۔ ان کے ایک معمولی فرد کی ضمانت بھی قابل اعتبار ہے۔ وہ اپنے دشمنوں کے خلاف ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔ وہ سب ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ ایک عقیدے، ایک قبلے، ایک کتاب، ایک رسولؐ اور ایک شریعت پر ایمان نے انھیں ایک جمعیت بنا دیا ہے۔ یہ اِن کا فرض ہے کہ اپنی جماعت کے لیے باعث انتشار تمام عوامل اور وجوہات کا خاتمہ کریں، جیسے نسلی و علاقائی عصبیت سے دَب جانا، درآمدشدہ دائیں بازو اور بائیں بازو کی تنظیموں اور طریقوں کے تابع ہوجانا، حکمرانوں کی من مانیوں اور ذاتی انائوں کے پیچھے چلنا، جو حقیر، معمولی اور عارضی مطالبات کی خاطر امت کے بڑے بڑے مفادات کو دائو پر لگا دیتے ہیں۔
مسلمانوں کے کرنے کا ایک کام یہ بھی ہے کہ وہ ’اسلامی یک جہتی ‘ کو زبانی سطح سے عملی شکل کی طرف منتقل کریں۔ اُسے مضبوط بنائیں، اس کا دائرہ بڑھائیں۔ یہاں تک کہ وہ موجودہ دنیا کے اتحادوں یا بلاکوں جیسی ایک سیاسی شکل اختیار کر لے۔ ہماری امت اس قابل ہے کہ یہ ایک عظیم بلاک کی شکل اختیار کر لے بشرطیکہ یہ اپنے رب کی اس ندا پر لبیک کہہ دے:
وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا(اٰلِ عمرٰن۳:۱۰۳) سب مل کر اللہ کی رسّی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔
[alqardawi.net]