کوئی تہذیبی و تمدّنی حرکت جمود کی چٹانوں سے نہیں روکی جاسکتی۔ اس کو اگر روک سکتی ہے تو ایک مقابل کی تہذیبی و تمدّنی حرکت ہی روک سکتی ہے۔ ہمارے ہاں اب تک سیلابوں کا مقابلہ چٹانیں کرتی رہی ہیں۔ اسی لیے ہمارے ملک سمیت قریب قریب تمام مسلمان ملک مغرب کے فکری و تہذیبی سیلابوں میں غرق ہوتے چلے گئے ہیں۔ اب ہم حرکت کا مقابلہ حرکت سے اور سیلاب کا مقابلہ جوابی سیلاب سے کر رہے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ ساری کھوئی ہوئی زمین واپس لے سکیں گے۔
سیلاب کا مقابلہ سیلاب سے: ہماری تحریک کسی ایک گوشے یا ایک میدان میں ان ضلالتوں کا مقابلہ نہیں کر رہی ہے بلکہ ہرمیدان میں ہمارا اور ان کا تصادم ہے۔ ہم نے ان کے تمام نظریات اور عملی طریقوں پر تنقید کی ہے اور ان کی کمزوریاں کھول کھول کر سامنے رکھ دی ہیں۔ ہم نے ہرمسئلۂ زندگی کا حل ان کے حل کے جواب میں پیش کیا ہے اور دلائل سے اسے صحیح ثابت کردیا ہے۔ ہم ان کے ادب کے مقابلے میں ایک صالح ادب لائے ہیں، ان کے فلسفے کے مقابلے میں ایک بہتر فلسفہ لائے ہیں، ان کی سیاست کے مقابلے میں ایک زیادہ مضبوط سیاست لائے ہیں، اور ہماری صفوں میں ان کا مقابلہ کرنے کے لیے صرف قال اللّٰہ وقال الرسول جاننے والے ہی نہیں ہیں بلکہ اس کے ساتھ قال ہیگل وقال مارکس وقال فرائڈ بھی انھی کے برابر جاننے والے ہیں۔ درس گاہوں میں جہاں ان کی فکر اور تہذیب کی اشاعت کرنے والے موجود ہیں وہیں انھی کی ٹکر کے فکری و تہذیبی مبلغ ہماری طرف سے بھی موجود ہیں۔ حکومت کے ہر شعبے میں ان کا زہر پھیلانے والے اگر اپنا کام کررہے ہیں تو ہمارے تریاق کے حاملین بھی بیکار نہیں ہیں۔ اگرچہ ان کو نکالنے کی پوری کوشش کی جارہی ہے لیکن اب خدا کے فضل سے ان سب کو چُن چُن کر نکال پھینکنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے اور ان شاء اللہ تجربہ ثابت کردے گا کہ کسی متحرک نظامِ فکروعمل کے متاثرین کو چُن کر چھانٹ پھینکنا صرف ایک بیوقوف ہی ممکن العمل سمجھ سکتا ہے۔ سوسائٹی کے ہرطبقے میں ان کے اثرات کے بالمقابل ہمارے اثرات بھی کم یا زیادہ کارفرما ہیں۔ مزدور اور کسان اور محنت پیشہ عوام جو اَب تک ان کا اجارہ بنے ہوئے تھے بتدریج ان کے اثر سے نکل کر ہمارے اثر میں آتے جارہے ہیں اور ایک طاقت ور راے عام غیر اسلامی افکار و اَخلاق و اَطوار کے خلاف تیار ہوتی جارہی ہے۔ پھر ان سب پر مزید یہ کہ انقلابِ قیادت کے لیے ہماری تحریک کی زد براہِ راست اُس اقتدار پر پڑتی ہے جس کے سہارے یہاں محض فرنگیت ہی نہیں، دوسری تمام چھوٹی بڑی ضلالتیں بھی پرورش پارہی ہیں۔
پھر اسی کش مکش کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ اس کے دونوں فریق اپنے اپنے نظریات ہی کی نمایندگی نہیں کر رہے ہیں بلکہ اس مخصوص کیرکٹر کی بھی نمایندگی کر رہے ہیں جو ان نظریات کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے۔ ایک طرف اگر اشتراکی اپنے اشتراکی اخلاق اور متفرنجین اپنی فرنگی سیرت کے ساتھ میدان میں موجود ہیں تو دوسری طرف جماعت اسلامی بھی خالی خولی تقریریں اور تحریریں اور اجتماعی سرگرمیاں لیے ہوئے سامنے نہیں آگئی ہے بلکہ وہ انفرادی سیرت اور جماعتی اخلاق بھی ساتھ لائی ہے جو اسلام کی اگر مکمل نہیں تو کم از کم صحیح نمایندگی ضرور کرتا ہے۔ اس کے اثرات جہاں جہاں بھی پہنچ رہے ہیں وہاں اسلامی خیالات کے ساتھ اسلامی تہذیب اور اسلامی اطوار کا مظاہرہ پورے فخر کے ساتھ سر اُونچا کرتے ہوئے کیا جا رہا ہے اور وہ کیفیت دُور ہورہی ہے کہ ماڈرن سوسائٹی میں ایک شخص نماز تک پڑھتے ہوئے شرماتا تھا اور ایک خاتون برقع اُوڑھنے پر لاکھ معذرتیں کرکے بھی ڈرتی تھی کہ نامعلوم تاریک خیالی کا دھبہ اس کے دامن سے مٹایا نہیں۔ (جماعت اسلامی، مقصد، تاریخ اور لائحہ عمل، ص ۹۰-۹۳)
منزل کے قریب: پچھلے ۳۰، ۴۰ سال کے دوران اسلامی خیالات کی اشاعت کا کام جتنے بڑے پیمانے پر ہوا ہے اور وہ صرف میں نے ہی نہیں کیا ہے، دوسرے لوگوں نے بھی کیا ہے، اس کے نتیجے میں ہمارے تعلیم یافتہ طبقے کی اکثریت اب اسلام کی خواہاں ہوگئی ہے۔ اگرچہ اس کے اخلاق بالکل اسلامی تعلیم کے مطابق نہیں ہوسکے لیکن اس میں اسلام کی سمجھ اور اسلامی نظام قائم کرنے کی تڑپ ضرور پیدا ہوگئی ہے۔ ہماری جو درس گاہیں لارڈ میکالے کے نظامِ تعلیم پر قائم تھیں، خدا کے فضل سے انھی میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ایسی پیدا ہوگئی ہے جو اسلام سے گہری قلبی عقیدت بھی رکھتی ہے اور اسلام کا فہم بھی بڑی حد تک اس کو حاصل ہوچکا ہے۔ اب ہمارے سامنے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری عام آبادی جو اَن پڑھ ہے، اس کے اندر کس طرح اسلام کے علم و فہم کو پھیلایا جائے۔ چونکہ راے دہندگان کی اکثریت اَن پڑھ ہے، اس لیے تعلیم یافتہ لوگوں کی ۱۰۰ فی صد تعداد بھی اگر صحیح کرنا چاہے تو وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔
تعلیم یافتہ لوگوں کی ذمہ داری: اس مرحلے پر میرے نزدیک یہ ضروری ہے کہ تعلیم یافتہ نوجوان اور علماے کرام شہروں، قصبوں اور دیہات کی اَن پڑھ آبادیوں میں دین اسلام کی واقفیت پیدا کرنے میں لگ جائیں۔ اس کے لیے لوگوں کا خواندہ ہونا ضروری نہیں ہے۔ حضوؐر کے زمانے میں کتابوں کے ذریعے سے دین نہیں پھیلا تھا، زبانی تلقین سے پھیلا تھا۔ اب بھی یہ ضروری نہیں کہ ہم ان سب کو پہلے پڑھا لکھا بنائیں، پھر انھیں دین سمجھائیں۔ عہدِرسالتؐ کی طرح آج بھی عام لوگوں کو زبانی تعلیم سے دین سمجھایا جاسکتا ہے۔ اسلام کے عقائد اور اُصولِ اخلاق سے انھیں آگاہ کیا جاسکتا ہے۔ فرائض اور ارکانِ دین کی اہمیت ان کے ذہن نشین کی جاسکتی ہے۔ حرام و حلال کی تمیز ان میں پیدا کی جاسکتی ہے۔ بڑے بڑے گناہوں کے عذاب کا خوف ان کے دلوں میں بٹھایا جاسکتا ہے۔ نیکیوں کے اجر کی رغبت انھیں دلائی جاسکتی ہے۔ قرآن کی آیات اور رسولؐ اللہ کی احادیث جنھوں نے عرب کی دنیا بدل ڈالی تھی، آج بھی اپنا معجزنما اثر دکھا سکتی ہیں، بشرطیکہ ہم ان سے اصلاحِ معاشرہ کا کام لینا چاہیں۔
جواب دھی کا احساس: بڑی اہمیت اس بات کی ہے کہ قرآن اور حدیث کی صاف صاف تعلیمات پیش کر کے ہم لوگوں کے دلوں میں یہ یقین پیدا کریں کہ تم سب کی نگاہوں سے چھپ سکتے ہو، مگر خدا سے نہیں چھپ سکتے۔ سب کی سزا سے بچ سکتے ہو مگر خدا کی سزا سے نہیں بچ سکتے۔ تمھارا پورا پورا اعمال نامہ تیار ہورہا ہے۔ ایک دن تمھیں یقینا مرنا ہے اور قیامت کے روز خدا کی عدالت میں پیش ہونا ہے۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ تم نماز ترک کردو، رمضان میں علانیہ کھاپی کر خداکے دین کی توہین کرتے رہو، بے باکی کے ساتھ گناہوں کی گندگی میں لَت پت ہوجائو، لوگوں کے حقوق مار کر خدا کے سامنے جائو، لوگوں کی عزت و آبرو لُوٹ کر اپنے رب کے حضور پیش ہو، لوگوں کی جانیں لے کر وہاں جائو، اور پھر اللہ کی عدالت سے چھوٹ جائو۔ اس دنیا میں تم چال بازیاں کرکے بچ سکتے ہو، خدا کی گرفت سے کیسے بچو گے۔ یہ چیزیں آپ عام لوگوں کے دماغ میں بٹھائیں تو رفتہ رفتہ آپ دیکھیں گے کہ ہماری عام آبادی کے اندر صحیح سمجھ بوجھ اور اخلاقی حس پیدا ہوجائے گی۔
اسلامی شعور کی بیداری: اس کے بعد جب لوگوں کو معلوم ہوگا کہ اب ہمیں اپنے ملک میں اسلامی نظام قائم کرنا ہے تو انتخابات کے موقعے پر وہ خود ہی سوچیں گے کہ اس کام کے لیے کیسے لوگوں کو آگے لائیں۔ عام لوگ اس بات کو جانتے ہیں کہ وہ بیمار ہوں تو کس ڈاکٹر کے پاس جائیں۔ اس بات کو جانتے ہیں کہ کوئی مقدمہ پیش آجائے تو کس وکیل کے پاس جائیں۔ اسی طرح جب آپ لوگوں میں اسلام کا شعور اور سمجھ پیدا کردیں گے تو وہ خود ہی دیکھ لیں گے کہ اسلامی نظام چلانے کے لیے وہ کن لوگوں کو منتخب کریں۔ پہلی بار اگر وہ کچھ غلطی کر بھی جائیں گے تو ان شاء اللہ دوسری مرتبہ نہ کریں گے، بشرطیکہ تعلیمِ عوام کا عمل برابر جاری رہے، اور حکمران اسلام سے ہٹ کر جو کام بھی کریں، اس پر معقول و مدلل تنقید کی جاتی رہے۔ بالفرض اگر غلط آدمیوں کی اکثریت منتخب ہوجائے اور وہ دوسرا انتخاب ناجائز ذریعے سے جیتنے کی کوشش کریں تو انھیں ویسی ہی تحریک کا سامنا کرنا ہوگا جس نے بھٹو جیسے جابر کے قدم اُکھاڑ دیے۔
مزدوروں میں شعور: تعلیمِ عوام کی بعض صورتیں خاص بھی ہیں، جن کی خصوصیات کو نگاہ میں رکھنا ہوگا، مثلاً مزدوروں کی یونینیں ہیں۔ مزدوروں میں عام طور پر اس خیال کو پھیلایا جائے کہ تمھارے لیے منصفانہ معاشی نظام سوشلزم [یا سرمایہ داری] نہیں ہے، اسلام ہے۔ تمھاری مشکلات اس کی پیروی سے رفع ہوں گی۔ کوئی انصاف سوشلزم [اور سرمایہ داری] نے مزدوروں کے ساتھ نہ کبھی کیا ہے، نہ آج کر رہا ہے اور نہ آیندہ کرے گا۔
اس طریقے سے مزدور تحریکوں کو رفتہ رفتہ اسلامی تحریکوں میں تبدیل کردیا جائے اور مزدوروں میں یہ شعور پیدا کردیا جائے کہ وہ جانچ پرکھ کر دیکھ لیں کہ ان کے لیڈر مارکس اور لینن کے ماننے والے ہیں یا اللہ اور اس کے رسولؐ کے ماننے والے۔ پھر یہ فیصلہ انھی پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ حشر کے روز مارکس اور لینن کے ساتھ اُٹھنا چاہتے ہیں یا رسولِؐ رب العالمین کے ساتھ۔
کسانوں کی رھنمائی: اسی طرح سے، مثلاً کسان اپنے کچھ الگ مسائل رکھتے ہیں۔ ان کا اسلامی حل بھی انھیں سمجھایئے۔ رسولؐ اللہ جب مدینے تشریف لے گئے تھے تو وہاں کے انصار زراعت پیشہ لوگ تھے۔ اسلام سے قبل ان کے ہاں زمین دار اور کسان اور مزارع کے جھگڑے برپا تھے اور دیہات سے غلہ لانے والوں کو شہری تاجر اور دلال بُری طرح لوٹتے تھے۔ حضوؐر وہاں پہنچے تو آپؐ نے انصاف کے ساتھ ان سب خرابیوں کی اصلاح کی اور اس اصلاح کی تفصیلات احادیث میں موجود ہیں۔ انھیں آج بھی کسانوں کو بتاکر آپ مطمئن کرسکتے ہیں کہ ان مسائل کا عادلانہ حل اسلام ہی نے کیا ہے اور وہی کرسکتا ہے۔
یہ کام جتنا جتنا ہوتا جائے گا، آپ دیکھیں گے کہ رفتہ رفتہ انتخابات کے نتائج صحیح ہوتے چلے جائیں گے اور جتنے جتنے دین کو جاننے والے ایمان دار آدمی اکثریت سے منتخب ہوں گے، اتنے ہی ہم خلافت ِ راشدہ کے مثالی نظام کی طرف قدم بڑھاتے چلے جائیں گے۔ (رسول اللّٰہ کا نظامِ حکومت اور پاکستان میں اس کا نفاذ، ص ۱۷-۲۰)
مشکلات اور رکاوٹوں کی حقیقت: نامساعد حالات میں قرآنِ مجید اور سیرتِ نبویؐ سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے عزمِ صمیم کے ساتھ پیہم جدوجہد کرتے چلے جانے سے ہی بالآخر وہ حالات پیدا ہوکر رہیں گے جن کے نتیجے میں اسلامی نظام عملاً قائم ہوگا۔ جہاں تک رُکاوٹوں کا تعلق ہے تو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ رکاوٹیں ہماری حقیقی کامیابی کی نشان دہی کرتی ہیں۔ یہ رکاوٹیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہم حق پر ہیں اور یہی رکاوٹیں ہماری تربیت میں بھی حصہ لیتی ہیں۔ اگر اُن رکاوٹوں کے بغیر ہی ہم اپنے مقصد میں بظاہر کامیاب ہوگئے تو ہمارے پاس اعلیٰ اخلاق کے حامل باصلاحیت اور ایسے تربیت یافتہ کارکنان نہیں ہوں گے جو معاملات کو صحیح اصولوں کے مطابق نبھاسکیں۔ ہمارا کام رکاوٹوں سے بددل ہونا نہیں بلکہ خدا کے بتائے ہوئے راستے پر خلوصِ نیت کے ساتھ جدوجہد جاری رکھنا ہے۔ اور ہمارے نزدیک صحیح راستے پر چلتے ہوئے جان دے دینا اس سے بہتر ہے کہ غلط راستے پر چلتے ہوئے اعلیٰ ترین دُنیاوی مناصب پر فائز ہوجائیں۔ اسلامی نظام صرف رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فلسفۂ انقلاب پر عمل کرنے سے ہی قائم ہوسکتا ہے۔ رسول اکرمؐ اور صحابۂ کرامؓ مصائب و اَلم کی بھٹی سے نکلنے کے بعد ہی اسلامی ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہوئے تھے (تصریحات، ص۲۲۲-۲۲۳)۔(انتخاب و ترتیب: امجد عباسی)