حضرت ابویوسف عبداللہ بن سلامؓ مدینہ کے مشہور علماے احبار (یہودی علما) میں سے تھے۔ رسولِ اکرمؐ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہ بھی آپؐ کے دیدار کے لیے گئے۔ انھوں نے آپؐ کا چہرۂ انور دیکھا تو کہنے لگے کہ یہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہوسکتا اور اسی وقت اسلام قبول کرلیا۔ ان کا نام حصین تھا جسے بدل کر آپؐ نے عبداللہ رکھا۔
حضرت عبداللہ بن سلامؓ سے روایت ہے کہ میں نے مدینہ میں جو پہلی گفتگو نبی کریمؐ سے سنی وہ یہ روایت تھی۔ گویا یہ وہ پہلی ہدایات تھیں جو اہلِ مدینہ کو دی گئیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے لوگو! سلام کو عام کرو، کھانا کھلائو، صلۂ رحمی کرو اور رات کو جب لوگ سو رہے ہوں تو نماز پڑھو۔ (ایسا کرنے کی صورت میں) سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجائو گے‘‘۔ (احمد، ترمذی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے جوامع الکلم کی خصوصیت سے نوازا تھا۔ آپؐ مختصر گفتگو فرماتے تھے لیکن وہ اختصار و جامعیت کا شاہکار ہوتی اور اپنے اندر گہرے مفاہیم و معنی رکھتی تھی۔ آپؐ کے اکثر خطبے مختصر اور جامع ہوتے تھے۔ ایسی ہی گفتگو کا نمونہ یہ روایت بھی ہے، جو مختصر ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر وسیع مفاہیم اور نکات کو سموئے ہوئے ہے۔ یہی وہ ہدایات ہیں جنھوں نے اہلِ مدینہ پر اسلام اور مسلمانوں کا ایسا گہرا تاثر چھوڑا کہ ان کے دل اسلام کے لیے کھلتے چلے گئے اور فی الواقع مدینہ میں اسلامی انقلاب کی بنیاد پڑگئی۔
اہلِ مدینہ کو جس چیز نے سب سے بڑھ کر متاثر کیا وہ مواخات کا عمل تھا۔ مدینہ کی چھوٹی سی بستی میں بڑی تعداد میں مہاجرین کی آمد سے اہلِ مدینہ کو جن مسائل کا سامنا تھا اس کا حل نبی کریمؐ نے ایک مہاجر اور ایک انصاری کو ایک دوسرے کا بھائی بناکر جس طرح سے کیا، اور پھر انصار نے اپنے مہاجر بھائیوں کی ضروریات کا جس طرح سے خیال رکھا اور ان کو اپنے اُوپر ترجیح دی، اس خلوص، خیرخواہی، صلۂ رحمی نے یقینا اہلِ مدینہ کے دل مسلمانوں کے لیے کھول دیے ہوں گے۔ اسلامی معاشرت کی اس جیتی جاگتی تصویر نے قبولِ اسلام کے لیے راہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
ان ہدایات کے آخر میں آپؐ نے ان سب اعمال کے نتیجے میں سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہونے کی ضمانت بھی دی ہے۔
آج بھی ضرورت ہے کہ مثالی اسلامی بستی کا نمونہ پیش کیا جائے تاکہ لوگ عملاً اسلامی معاشرت کی برکات دیکھ سکیں۔ اگر کسی بستی کے لوگ یہ فیصلہ کرلیں کہ ہم اپنی بستی کے لوگوں کی خدمت کریں گے۔ ہماری بستی میں کوئی بھوکا ننگا ، بیمار یا پریشان حال ہوگا تو ہم اس کی بے غرض مدد کریں گے۔ وہ اپنے آپ کوتنہا نہ پائے گا، تو یقینا اس پُرخلوص جدوجہد کے اثرات بہت جلد سامنے آئیں گے۔ اگر اس کام کو منظم انداز میں مختلف بستیوں میں کیا جائے تو پھر اس ملک میں اسلامی انقلاب کو برپا ہونے سے کون روک سکتا ہے۔
اگر نماز کو اس کی حقیقی روح اور شعوری تقاضوں کے مطابق ادا کیا جائے تو یہ بھی اصلاحِ معاشرہ اور انقلاب اسلامی کا اہم ذریعہ ثابت ہوسکتی ہے۔ نماز جہاں اللہ کی بندگی و اطاعت کی عملی تربیت کا ذریعہ ہے وہاں تزکیۂ نفس اور احتساب و جائزے کا ذریعہ بھی۔ نماز صلۂ رحمی بھی سکھاتی ہے۔ صحابہ کرامؓ میں سے کوئی نماز کے لیے نہ آپاتا تو وہ اس کی خبرگیری کے لیے جاتے، کوئی بیمار پڑجاتا تو عیادت کرتے، اور پریشان حال ہوتا تو اس کی پریشانی کے ازالے کی فکر کرتے۔ ہم سال ہا سال ایک مسجد میں نماز ادا کرتے ہیں لیکن ایک نمازی دوسرے نمازی سے واقف نہیں ہوتا۔ اگر نماز کی اس روح کو زندہ کیا جائے اور اگر کوئی نمازی بیمار پڑجائے تو اس کی عیادت کو جائیں، اور کوئی حاجت ہو تو اسے پورا کرنے کی فکر کریں، تو ایسی بے لوث نیکی اور ایسا خلوص و محبت کیا دلوں کو بدل کر نہیں رکھ دے گا۔ مسلمان دن میں پانچ بار اس مشق سے گزرتے ہیں۔ اگر تسلسل سے اس عمل کو جاری رکھا جائے تو کیا بستی کی حالت بدل کر نہ رہ جائے گی۔ ضرورت صحیح سمت میں عمل کی ہے۔
اگر کسی بستی میں دینی تعلیم و تربیت، اخلاقی بگاڑ کے سدباب اور حاجت مندوں کی حاجت روائی، نیز سرکاری اداروں میں درپیش مسائل کے حل کے لیے بے لوث تعاون، اور اپنی مدد آپ کے تحت بستی کے مسائل حل کرنے کا ایک منظم نظام وضع کرلیا جائے اور مخلص لوگوں کی ایک جماعت اس کام کے لیے اپنے آپ کو وقف کردے، تو معاشرے کی حالت بدل سکتی ہے۔ اور کچھ نہیں اگر نماز ہی اس کی حقیقی روح کے ساتھ شعوری طور پر ادا کی جائے، اور نمازی ایک دوسرے کی ضروریات کا خیال رکھیں اور پریشانیوں کے ازالے کے لیے سرگرم ہوجائیں، تو نماز اصلاحِ معاشرہ کا اہم ذریعہ بن سکتی ہے۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں حکمرانوں کو بھی سماجی دبائو کے تحت بگاڑ کے سدباب اور عوام کے مسائل کے حل کے لیے مجبور کیا جاسکتا ہے۔
تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کو اپنی بستیوں کو اس کا عملی نمونہ بنانا چاہیے۔بلاشبہہ آج بھی نبی کریمؐ کی یہ ہدایات اسلامی انقلاب کی بنیاد اور جنت کی ضمانت بن سکتی ہیں!