مئی ۲۰۱۵

فہرست مضامین

اسلامی معاشرت کی بنیادیں

امجد عباسی | مئی ۲۰۱۵ | تزکیہ و تربیت

Responsive image Responsive image

حضرت ابویوسف عبداللہ بن سلامؓ مدینہ کے مشہور علماے احبار (یہودی علما) میں سے تھے۔ رسولِ اکرمؐ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہ بھی آپؐ کے دیدار کے لیے گئے۔ انھوں نے آپؐ کا چہرۂ انور دیکھا تو کہنے لگے کہ یہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہوسکتا اور اسی وقت اسلام قبول کرلیا۔ ان کا نام حصین تھا جسے بدل کر آپؐ نے عبداللہ رکھا۔

حضرت عبداللہ بن سلامؓ سے روایت ہے کہ میں نے مدینہ میں جو پہلی گفتگو نبی کریمؐ سے سنی وہ یہ روایت تھی۔ گویا یہ وہ پہلی ہدایات تھیں جو اہلِ مدینہ کو دی گئیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے لوگو! سلام کو عام کرو، کھانا کھلائو، صلۂ رحمی کرو اور رات کو جب لوگ سو رہے ہوں تو نماز پڑھو۔ (ایسا کرنے کی صورت میں) سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجائو گے‘‘۔ (احمد، ترمذی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے جوامع الکلم کی خصوصیت سے نوازا تھا۔ آپؐ   مختصر گفتگو فرماتے تھے لیکن وہ اختصار و جامعیت کا شاہکار ہوتی اور اپنے اندر گہرے مفاہیم و معنی رکھتی تھی۔ آپؐ کے اکثر خطبے مختصر اور جامع ہوتے تھے۔ ایسی ہی گفتگو کا نمونہ یہ روایت بھی ہے، جو مختصر ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر وسیع مفاہیم اور نکات کو سموئے ہوئے ہے۔ یہی وہ ہدایات ہیں جنھوں نے اہلِ مدینہ پر اسلام اور مسلمانوں کا ایسا گہرا تاثر چھوڑا کہ ان کے دل اسلام کے لیے کھلتے چلے گئے اور فی الواقع مدینہ میں اسلامی انقلاب کی بنیاد پڑگئی۔

  • سلام کوعام کرو: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہدایت کی روشنی میں مسلمانوں نے سلام کو شعار بنالیا۔ ملاقات پر ایک دوسرے کو سلام کہتے اور پھر آپؐ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ہرایک کو سلام کرو چاہے اسے پہچانتے ہو یا نہیں پہچانتے۔ سلام سلامتی کی دُعا، محبت کا اظہار اور  ایک دوسرے کی خیریت جاننے کا ذریعہ ہے۔اس اقدام کے نتیجے میں اہلِ مدینہ نے یہ جان لیا کہ مسلمان مخلص اور خیرخواہ ہیں۔ انھیں ہم سے کوئی لالچ نہیں بلکہ ہمارے سچّے ہمدرد ہیں جو پریشانی اور مشکل میں ہمارے کام آتے ہیں۔ یہ سلام کو عام کرنے اور اخلاص و خیرخواہی کا نتیجہ تھا۔
  •  کہانا کہلاؤ:آپؐ کی دوسری ہدایت تھی کہ ایک دوسرے کو کھانا کھلائو۔ اس کے نتیجے میں صحابہ کرامؓ کو یہ فکر لاحق ہوتی کہ ہمارے گردوپیش اور ہمسایے میں کوئی بھوکا نہ رہے۔ پھر باہمی محبت کے اظہار کے لیے بھی ایک دوسرے کو مہمان کرتے کہ آج چند لقمے میرے ساتھ کھائیں۔ اس سے جہاں ایک دوسرے کی خیریت سے آگہی ہوتی وہاں اللہ کے دین کی طرف دعوت بھی دی جاتی۔ پھر نبی کریمؐ نے یہ ہدایت بھی دی تھی کہ وہ شخص مومن نہیں جو خود تو پیٹ بھر کر کھانا کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہ جائے(مسلم)۔نبی کریمؐ نے مکہ میں جب دعوت کا آغاز کیا تھا تو اہلِ قریش کو کھانے کی دعوت پر بلایا تھا۔ کھانے یا چائے کی دعوت سے جو اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ سرسری گفتگو سے نہیں ہوتے۔ لہٰذا دعوتِ دین میں اس پہلو کو بھی سامنے رکھنا چاہیے۔ اس عمل نے لوگوں کو متاثر کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
  •  صلۂ رحمی کرو:نبی کریمؐ نے اپنی ابتدائی ہدایات میں اہلِ مدینہ کو یہ ہدایت بھی دی کہ وہ صلۂ رحمی کریں۔سلام کو عام کرنے اور کھانا کھلانے سے جہاں مسلمانوں کے خلوص اور خیرخواہی کا جذبہ عام ہوا وہاں صلۂ رحمی نے اس تاثر کو مزید گہرا کیا۔ پریشان حال اور مصیبت زدوں کی مدد کے لیے مسلمان بے قرار رہتے۔ اس کے نتیجے میں ایثار کے جذبے نے فروغ پایا۔ ایک مسلمان اپنے اُوپر دوسرے کی حاجت کو ترجیح دیتا۔ صلۂ رحمی اور ایثار کے نمونے جابجا لوگوں کے دیکھنے میں آئے۔ نبی کریمؐ نے یہ ہدایت بھی دی تھی کہ راستے کی تکلیف دہ چیز کو دُور کردینا بھی  صلۂ رحمی ہے اور اپنے بھائی کو مسکرا کر ملنا بھی صدقہ ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: ’’اور اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ) ہم تمھیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں۔ ہم نہ تم سے کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ شکریہ ‘‘۔(الدھر ۷۶: ۸-۹)

اہلِ مدینہ کو جس چیز نے سب سے بڑھ کر متاثر کیا وہ مواخات کا عمل تھا۔ مدینہ کی چھوٹی سی بستی میں بڑی تعداد میں مہاجرین کی آمد سے اہلِ مدینہ کو جن مسائل کا سامنا تھا اس کا حل نبی کریمؐ  نے ایک مہاجر اور ایک انصاری کو ایک دوسرے کا بھائی بناکر جس طرح سے کیا، اور پھر انصار نے   اپنے مہاجر بھائیوں کی ضروریات کا جس طرح سے خیال رکھا اور ان کو اپنے اُوپر ترجیح دی، اس خلوص، خیرخواہی، صلۂ رحمی نے یقینا اہلِ مدینہ کے دل مسلمانوں کے لیے کھول دیے ہوں گے۔ اسلامی معاشرت کی اس جیتی جاگتی تصویر نے قبولِ اسلام کے لیے راہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

  •  تھجد پڑہو: اس روایت میں نبی کریمؐ نے مسلمانوں کو آخری ہدایت یہ دی کہ رات کو جب لوگ سو رہے ہوں تو نماز پڑھو، یعنی نمازِ تہجد ادا کرو۔ رات کی تنہائیوں میں تہجد اداکرنے سے قربِ الٰہی کے ساتھ ساتھ اخلاص میں اضافہ ہوتا ہے۔ سلام کو عام کرنا، کھانا کھلانا اور صلۂ رحمی، سب اللہ کی رضا کے حصول اور خلوص کے اظہار کا ذریعہ ہیں۔ تہجد کی ادایگی اس کیفیت میں مزید اضافے کا باعث ہوتی ہے۔ جب مسلمان راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر قیامِ لیل کرتے ہوں گے، قرآن پڑھتے ہوں گے اور خلوصِ دل  سے دُعا کرتے ہوں گے تو اس سے اہلِ مدینہ پر مسلمانوں کے خلوص کا نقش مزید گہرا ہوتا چلاگیا ہوگا اور ان کے اخلاص میں کسی قسم کا شبہہ باقی نہ رہا ہوگا۔ پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ ایسے مخلصین کا وہ دل و جان سے ساتھ نہ دیتے۔

ان ہدایات کے آخر میں آپؐ نے ان سب اعمال کے نتیجے میں سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہونے کی ضمانت بھی دی ہے۔

  •  مثالی اسلامی بستی بنایئے:نبی کریمؐ ۱۳ برس تک مکہ میں دعوتِ دین دیتے رہے لیکن بہت کم لوگوں نے اسلام قبول کیا، تاہم ہجرتِ مدینہ کے بعد قبولیت اسلام میں اضافہ ہوا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ نبی کریمؐ جس دین اور معاشرت کی دعوت دے رہے تھے لوگوں نے مدینہ کی بستی کی شکل میں اس کا عملی نمونہ دیکھ لیا تھا۔ صحابہ کرامؓ کا خلوص اور کردار ان کی نگاہوں کے سامنے تھا۔

آج بھی ضرورت ہے کہ مثالی اسلامی بستی کا نمونہ پیش کیا جائے تاکہ لوگ عملاً اسلامی معاشرت کی برکات دیکھ سکیں۔ اگر کسی بستی کے لوگ یہ فیصلہ کرلیں کہ ہم اپنی بستی کے لوگوں کی خدمت کریں گے۔ ہماری بستی میں کوئی بھوکا ننگا ، بیمار یا پریشان حال ہوگا تو ہم اس کی بے غرض مدد کریں گے۔ وہ اپنے آپ کوتنہا نہ پائے گا، تو یقینا اس پُرخلوص جدوجہد کے اثرات بہت جلد سامنے آئیں گے۔ اگر اس کام کو منظم انداز میں مختلف بستیوں میں کیا جائے تو پھر اس ملک میں اسلامی انقلاب کو برپا ہونے سے کون روک سکتا ہے۔

اگر نماز کو اس کی حقیقی روح اور شعوری تقاضوں کے مطابق ادا کیا جائے تو یہ بھی اصلاحِ معاشرہ اور انقلاب اسلامی کا اہم ذریعہ ثابت ہوسکتی ہے۔ نماز جہاں اللہ کی بندگی و اطاعت کی عملی تربیت کا ذریعہ ہے وہاں تزکیۂ نفس اور احتساب و جائزے کا ذریعہ بھی۔ نماز صلۂ رحمی بھی سکھاتی ہے۔  صحابہ کرامؓ میں سے کوئی نماز کے لیے نہ آپاتا تو وہ اس کی خبرگیری کے لیے جاتے، کوئی بیمار پڑجاتا تو عیادت کرتے، اور پریشان حال ہوتا تو اس کی پریشانی کے ازالے کی فکر کرتے۔ ہم سال ہا سال ایک مسجد میں نماز ادا کرتے ہیں لیکن ایک نمازی دوسرے نمازی سے واقف نہیں ہوتا۔ اگر نماز کی اس روح کو زندہ کیا جائے اور اگر کوئی نمازی بیمار پڑجائے تو اس کی عیادت کو جائیں، اور کوئی حاجت ہو تو اسے پورا کرنے کی فکر کریں، تو ایسی بے لوث نیکی اور ایسا خلوص و محبت کیا دلوں کو بدل کر نہیں رکھ دے گا۔ مسلمان دن میں پانچ بار اس مشق سے گزرتے ہیں۔ اگر تسلسل سے اس عمل کو جاری رکھا جائے تو کیا بستی کی حالت بدل کر نہ رہ جائے گی۔ ضرورت صحیح سمت میں عمل کی ہے۔

اگر کسی بستی میں دینی تعلیم و تربیت، اخلاقی بگاڑ کے سدباب اور حاجت مندوں کی حاجت روائی، نیز سرکاری اداروں میں درپیش مسائل کے حل کے لیے بے لوث تعاون، اور اپنی مدد آپ کے تحت بستی کے مسائل حل کرنے کا ایک منظم نظام وضع کرلیا جائے اور مخلص لوگوں کی ایک جماعت اس کام کے لیے اپنے آپ کو وقف کردے، تو معاشرے کی حالت بدل سکتی ہے۔ اور کچھ نہیں اگر نماز ہی اس کی حقیقی روح کے ساتھ شعوری طور پر ادا کی جائے، اور نمازی ایک دوسرے کی ضروریات کا خیال رکھیں اور پریشانیوں کے ازالے کے لیے سرگرم ہوجائیں، تو نماز اصلاحِ معاشرہ کا اہم ذریعہ بن سکتی ہے۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں حکمرانوں کو بھی سماجی دبائو کے تحت بگاڑ کے سدباب اور عوام کے مسائل کے حل کے لیے مجبور کیا جاسکتا ہے۔

تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کو اپنی بستیوں کو اس کا عملی نمونہ بنانا چاہیے۔بلاشبہہ آج بھی نبی کریمؐ کی یہ ہدایات اسلامی انقلاب کی بنیاد اور جنت کی ضمانت بن سکتی ہیں!