سوال : روایت ہے کہ حضرت ابوایوب انصاریؓ جب دنیا سے رخصت ہونے لگے تو فرمایا کہ میں نے ایک بات اب تک تم سے چھپا رکھی تھی۔ اب آخر وقت میں پیش کر رہا ہوں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا تھا کہ اگر تم سب لوگ ملائکہ کی طرح بے گناہ ہوجائو اور تم سے کوئی گناہ سرزد نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اور مخلوق پیدا کردے گا جو گناہ کر کے توبہ کریں گے۔(مسلم)
اس حدیث کی وضاحت کے سلسلے میں ایک کھٹک سی ذہن میں پیدا ہوتی ہے۔ کیا اس سے مراد یہ ہے کہ گناہ کیا جائے تاکہ اللہ تعالیٰ معاف کردے ورنہ وہ کوئی دوسری مخلوق پیدا کردے گا؟ نیز اس کی صحت کے بارے میں بھی واضح کردیجیے۔
جواب:آپ نے جس حدیث کا حوالہ دیا ہے وہ مسلم، کتاب التوبہ باب سقوط الذنوب بالاستغفار والتوبہ میں دو سندوں کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔ الفاظ یہ ہیں: لَوْلَا اَنَّکُمْ تُذْنِبُوْنَ لَخَلَقَ اللّٰہُ خَلْقًا یُذْنِبُوْنَ لِیَغْفِرَلَھُمْ۔ دوسری حدیث کے الفاظ یہ ہیں: لَوْ اَنَّکُمْ لَمْ تَکُنْ لَکُمْ ذُنُوْبٌ یَغْفِرُاللّٰہُ لَکُمْ لَجَائَ اللّٰہُ بِقَوْمٍ لَہُمْ ذُنُوْبٌ یَغْفِرُھَا لَھُمْ۔ حضرت ابوایوب انصاریؓ کی اس روایت کے بعد حضرت ابوہریرہؓ کی ایک روایت بھی مسلم میں نقل ہوئی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: وَالَّذِیْ نَفْسِی بِیَدِہٖ لَوْلَمْ تُذْنِبُوْا لَذَھَبَ اللّٰہُ بِکُمْ وَلَجَائَ بِقَوْمٍ یُذْنِبُوْنَ فَیَسْتَغْفِرُوْنَ اللّٰہَ فَیَغْفِرُلَہُمْ۔تینوں احادیث کا مفہوم یہ ہے کہ اگر تم گناہ نہ کرو یا تمھارے گناہ نہ ہوں تو اللہ دوسری ایسی قوم لے آئے گا یا ایسی مخلوق پیدا کردے گا جن کے گناہ ہوں گے اور وہ بخشش مانگیں گے تو اللہ ان کے گناہ معاف کردے گا۔
یہ حدیث سنداً تو بالکل صحیح حدیث ہے۔ اس لیے کہ مسلم ان کتابوں میں شامل ہے جو صحیح احادیث ہی پر مشتمل ہوتی ہیں۔ لیکن اس کا صحیح مفہوم سمجھنے کے لیے آپ پہلے تین باتوں کو اپنے ذہن میں رکھیں تاکہ اُلجھن اور کھٹک کا ازالہ ہوجائے۔
۱- پہلی بات یہ ہے کہ کسی حدیث و آیت کی تشریح و تفسیر کے لیے اسی موضوع سے متعلق دوسری آیات و احادیث کو سامنے رکھنا چاہیے۔
۲- دوسری بات یہ ہے کہ بعض آیات و احادیث کا اسلوبِ بیان قانونی ہوتا ہے جس میں محدود و مخصوص الفاظ میں شریعت کے قانون اور ضابطے کی وضاحت مقصود ہوتی ہے، اور بعض آیات و احادیث کا اسلوب خطیبانہ اور واعظانہ ہوتا ہے جس میں اصل حکم بیان کرنا مقصود نہیں ہوتا بلکہ ترغیب و ترہیب اصل مقصد ہوتا ہے۔ اس نوع کے واعظانہ، خطیبانہ اور ترغیبی یا ترہیبی کلام میں الفاظ کا لغوی مفہوم مراد نہیں ہوتا بلکہ جذبات کو اُبھارنا اور عمل پر آمادہ کرنا مقصود ہوتا ہے۔ اس قسم کے الفاظ میں مبالغہ اور فرضی قسم کی مثالیں بھی بیان ہوتی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معلمِ قانون بھی تھے اور واعظ بھی۔ اس لیے آپؐ کے کلام میں دونوں پہلو جلوہ گر ہوتے ہیں۔ سخن فہمی کا ذوقِ سلیم رکھنے والا شخص موقع و محل کی مناسبت سے اور دوسری احادیث کی روشنی میں رسولؐ اللہ کا منشا معلوم کرسکتا ہے۔
۳- تیسری بات یہ ہے کہ خلافت ِ ارضی کا منصب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو نہیں دیا بلکہ انسان کو دیا ہے۔ فرشتوں کے اندر گناہ کی سرے سے قوت ہی نہیں ہے۔ اگر ان کو زمین کی خلافت دی جاتی تو اللہ کی قہاریت، جباریت، عفو، تواب اور غفار کی صفات کا ظہور نہیں ہوسکتا تھا۔ انسان کے اندر شر کی قوت بھی رکھی گئی ہے۔ اس کا نفس امارہ بالسوء بھی ہے اور لوامہ یامطمئنہ بھی ہے۔ انسان کبھی عالمِ بالا اور ملکیت کی جانب متوجہ ہوتا ہے اور کبھی عالم سفلی اور بہیمیت کی جانب متوجہ ہوجاتا ہے۔ انسان کامل، یعنی نبی ؑ سے چونکہ اصلاح اور دعوت و ارشاد کا کام لیا جاتا ہے، اس لیے بشر ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ اس کو گناہوں اور بُرائیوں سے محفوظ و معصوم رکھتا ہے۔ لیکن باقی انسان اپنے اعمال کے اعتبار سے رحمت و مغفرت کا مظہر بھی ہوتے ہیں اور قہروغضب کا مظہر بھی ہوتے ہیں۔ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ۔
پہلے نمبر پر بیان کردہ قاعدے کی روشنی میں جب ہم اس حدیث پر غور کرتے ہیں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ اس حدیث کا مقصد گناہوں پر آمادہ کرنا نہیں ہے بلکہ توبہ و استغفار کی ترغیب دلانا ہی اصل مقصد ہے اور مایوسی کے احساس کا ازالہ کرنا پیش نظر ہے۔ اس لیے کہ متعدد آیات و احادیث میں اللہ و رسولؐ کی نافرمانی سے اور گناہوں کے ارتکاب سے روکا گیا ہے اور گناہ کا ارتکاب کرنے والوں کو عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ انسانی و بشری کمزوریوں کی بناپر گناہوں کا صدور تو ہوتا رہے گا، اور اگر ان کو توبہ و استغفار کی فضیلت و اہمیت نہ بتائی جائے تو وہ مایوسی کا شکار ہوکر مزید گناہ کریں گے۔ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط اِِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ط (اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجائو، یقینا اللہ سارے گناہ معاف کردیتا ہے۔ الزمر ۳۹:۵۳) کا بھی یہی مفہوم ہے کہ اگرچہ اللہ کی رحمت و مغفرت کے بھروسے پر گناہوں کا ارتکاب کرنا حماقت و بغاوت ہے لیکن گناہ سرزد ہوجانے کے بعد اللہ کی اس رحمت و مغفرت سے مایوس ہو جانا بھی حماقت و جہالت ہی کی ایک قسم ہے۔
یہی بات زیربحث حدیث میں بیان ہوئی ہے کہ مغفرت و رحمت اللہ کی صفت ہے۔ اس کا ظہور ہوکر رہے گا۔ اگر بالفرض تمھارے گناہ سرے سے موجود ہی نہ ہوں تو اللہ تعالیٰ کوئی دوسری مخلوق پیدا کرے گا جو گناہ کرنے کے بعد مایوس نہیں ہوگی بلکہ توبہ و استغفار کرے گی۔ لہٰذا تم سے بھی اگر کوئی گناہ صادر ہوجائے تو مایوس ہونے کے بجاے توبہ واستغفار کے حکم پر عمل کرو۔ نہ صرف یہ کہ توبہ واستغفار سے تمھارے گناہ معاف ہوجائیں گے بلکہ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِھِمْ حَسَنٰتٍ ط (ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بدل دے گا۔ الفرقان ۲۵:۷۰) سے معلوم ہوتا ہے کہ مزید حسنات و درجات سے بھی نوازے جائو گے۔
دوسرے قاعدے کی روشنی میں دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ زیربحث حدیث میں اسلوبِ کلام خطیبانہ اور واعظانہ ہے۔ اور مقصد یہ نہیں ہے کہ تم گناہ کرو تاکہ اللہ تعالیٰ مغفرت کرے بلکہ مقصد یہ ہے کہ چونکہ تم سے گناہ صادر ہوتے ہیں اس لیے توبہ و استغفار کرو تاکہ اللہ تعالیٰ معاف کردے۔ گناہ کے صدور کی خبر دے کر توبہ کا حکم دیا گیا ہے۔ گناہ کا حکم دے کر توبہ کا حکم نہیں دیا گیا۔
تیسرے قاعدے کی رُو سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی خلافت انسانوں کے لیے ہے جو رحمت کا مظہر بھی ہیں اور غضب کا مظہر بھی۔ حدیث میں یہ نہیں کہا گیا کہ میں دوسری مخلوق پیدا کرتا ہوں بلکہ یوں کہا گیا ہے کہ اگر تم گناہ نہ کرتے تو میں دوسری مخلوق پیدا کردیتا لیکن چونکہ تم گناہ کرتے ہو تو صفت ِ غفاریت کے ظہور کے لیے دوسری مخلوق پیدا کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔
حاصل بحث یہ ہے کہ انسان گناہ کرتے رہیں گے لیکن اللہ بھی مغفرت فرماتے رہیں گے بشرطیکہ انسان توبہ و استغفار کرتا رہے۔ اس لیے مایوس نہیں ہونا چاہیے(مولانا گوہر رحمٰن)۔ (تفہیم المسائل، حصہ اوّل،ص ۳۹-۴۳)
س : میری خالہ کافی عرصے کے بعد امریکا سے اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ آئی ہیں۔ ان کی بیٹیاں جینز پہنتی ہیں، لیکن جب وہ گھر سے باہر نکلتی ہیں تو سارے کپڑے چادر سے چھپاکر نکلتی ہیں۔ میں نے بہت دفعہ اپنی کزن کو جینز پہننے سے منع کیا لیکن وہ کہتی ہیں کہ جینز پہننا کوئی گناہ نہیں ہے، نہ یہ مردوں کی مشابہت ہے اور نہ کافروں کی۔ وہ یہ جواز پیش کرتی ہیں کہ آج پوری دنیا میں عورتیں پینٹ پہن رہی ہیں۔ امریکا میں بھی مسلم عورتیں پہنتی ہیں۔ ایران، سعودی عرب، دبئی، ترکی اور خود پاکستان میں بھی عورتیں جینز پہنتی ہیں۔ اب یہ لباس مسلمانوں میں بھی رواج پاچکا ہے۔ کافروں کی مشابہت یہ جب ہوتا جب اسے صرف کافر ہی پہنتے۔ اگر پینٹ چست نہ ہو، ڈھیلی ڈھالی ہو، قمیص پینٹ کے اندر نہ ہو بلکہ باہر ہو، ڈھیلی ڈھالی ہو اور کم از کم رانوں تک ہو اور ستر نمایاں نہ ہو تو پینٹ جائز ہے۔ دوسرے، یہ بات کہ یہ مردوں کی نقل ہے، تو یہ بھی ٹھیک نہیں ہے کیونکہ ہمارے ہاں جس طرح عورتوں اور مردوں کی شلواریں ایک جیسی ہوتی ہیں، اسی طرح سب جگہ پر پینٹ بھی مردوں اور عورتوں کی ایک جیسی ہیں۔ اگر کوئی لڑکی پینٹ کوٹ پہنے یا مردانہ قمیص شلوار پہنے، یا کوئی خاص مردوں کا لباس پہنے تو وہ مردوں کی نقل ہوگا، اور اسی طرح کوئی عورت خاص کافر عورتوں کا لباس پہنے تو وہ کافروں سے مشابہت ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں اس کی وضاحت فرما دیں۔
ج:لباس کے بارے میں اصولی ہدایات سورئہ اعراف، آیت ۲۶، ۲۷، ۲۸،۳۱، ۳۲ میں دی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک اصولی ہدایت یہ ہے کہ لباس تقویٰ کا ہو۔ مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ لباس التقوٰی کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:’’انسان کے لیے لباس کا صرف ذریعۂ سترپوشی اور وسیلۂ زینت و حفاظت ہونا ہی کافی نہیں ہے، بلکہ فی الحقیقت اس معاملے میں جس بھلائی تک انسان کو پہنچنا چاہیے، وہ یہ ہے کہ اس کا لباس تقویٰ کا لباس ہو۔ یعنی پوری طرح ساتر بھی ہو، زینت میں بھی حد سے بڑھا ہوا یا آدمی کی حیثیت سے گرا ہوا نہ ہو، فخروغرور اور تکبر و ریا کی شان لیے ہوئے بھی نہ ہو اور پھر ان ذہنی امراض کی نمایندگی بھی نہ کرتا ہو جن کی بناپر مرد زنانہ پن اختیار کرتے ہیں، عورتیں مردانہ پن کی نمایش کرنے لگتی ہیں اور ایک قوم دوسری قوم کے مشابہ بننے کی کوشش کرکے خود اپنی ذلت کا اشتہار بن جاتی ہے‘‘۔(تفہیم القرآن، ج۲،ص ۲۰)
ایک قوم کا دوسری قوم کے مشابہ بننے سے یہی مراد نہیں ہے کہ ان کے شعار کو اپنائے بلکہ ان کے طور طریقوں، وضع قطع، تراش خراش کو اپنانا بھی ان کے مشابہ بننا ہے۔ پھر دوسری قوموں کے ساتھ مشابہت کے علاوہ مسلمانوں میں ایسے لوگ اور ایسے طبقات جو دوسروں کی تہذیب و روایات کو اپنائے ہوئے ہوں، ان کے رہن سہن، ان کے لباس کو پہنتے ہوں، ان کے ساتھ بھی مشابہت نہ ہو، بلکہ صلحا اور متقین جو اسلامی تہذیب و اقتدار کو سینے سے لگائے ہوئے ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام اور سلف صالحین، مردوں اور عورتوں کے لباس کی یاد تازہ کرتے ہوں، ان کی پیروی اور نقالی کرنے والے ہوں۔ ان کے ساتھ مشابہت کرنے والے اہلِ تقویٰ اور اسلامی اقدار و روایات کو اپنانے والوں کی شکل اختیار کریں گے تو اللہ تعالیٰ ظاہر کا اثر باطن پر بھی ڈال دے گا۔ تواضع اور انکساری کا لباس آدمی میں تواضع اور انکساری پیدا کرتا ہے اور تکبر و غرور کا لباس آدمی میں تکبر و غرور پیدا کرتا ہے۔
مولانا مفتی محمد شفیعؒ اس موضوع پر اس آیت کی تفسیر لکھتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: ’’لباسِ تقویٰ کے لفظ سے اس طرف بھی اشارہ پایا جاتا ہے کہ ظاہری لباس کے ذریعے سترپوشی اور زینت و تجمل سب کا اصل مقصد تقویٰ اور خوفِ خدا ہے جس کا ظہور اس کے لباس میں بھی اسی طرح ہونا چاہیے کہ اس میں پوری سترپوشی ہو، کہ قابلِ شرم اعضا کا پورا پردہ ہو، وہ ننگے بھی نہ رہیں، اور لباس بدن پر ایسا چست بھی نہ ہو جس میں یہ اعضا مثل ننگے کے نظر آئیں۔ نیز اس لباس میں فخروغرور کا انداز بھی نہ ہو بلکہ تواضع کے آثار ہوں، اسراف بے جا بھی نہ ہو، ضرورت کے موافق کپڑا استعمال کیا جائے۔ عورتوں کے لیے مردانہ اور مردوں کے لیے زنانہ لباس بھی نہ ہو، جو اللہ کے نزدیک مبغوض و مکروہ ہے۔ لباس میں کسی دوسری قوم کی نقالی بھی نہ ہو جو اپنی قوم و ملّت سے غداری اور اعراض کی علامت ہے۔ اس کے ساتھ اخلاق و اعمال کی درستی بھی ہو، جو لباس کا اصل مقصد ہے۔(معارف القرآن، ج۳،ص ۵۳۶)
آپ نے جیز کی جو صورت تحریر کی ہے، وہ بے شک وہی ہو جو آپ نے لکھی ہے کہ ساتر ہو، اس میں مردوں کے ساتھ مشابہت نہ ہو، لیکن یہ ہمارے معاشرے کی نہیں، بلکہ مغربی معاشرے کی ایجاد اور مغرب کا لباس ہے۔ آپ تو بے شک اسے اس طرح استعمال کریں گی جو ساتر ہوگی، لیکن اپنی اصل کے اعتبار سے تو یہ ساتر نہیں ہے بلکہ اصل میں یہ مغربی لباس کی نقالی ہے۔ اس کے بجاے آپ اسلامیت اور پاکستانیت کو پھیلائیں، پاک و ہند کے دینی گھرانوں کو پیش نظر رکھیں۔ آپ پاکستان اور عالمِ اسلام کی صالحات کی پیروی کریں۔ اس سے دینی اور اسلامی ذہنیت نشوونما پائے گی، آخرت کی فکر پیدا ہوگی اور نیک خواتین کی طرح آپ میں بھی نیکی کا جذبہ پیدا ہوگا۔
نیک لوگوں کا لباس نیکی اور بُرے لوگوں کا لباس بُرائی کی ذہنیت پیدا کرتا ہے۔ انسان کا لباس، انسان کی صحبت تو آدمی پر اثرانداز ہوتی ہی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بکریوں والوں میں مسکنت اور تواضع پائی جاتی ہے اور فخروغرور اُونٹوں کی دُموں کو پکڑ کر چلنے والوں میں پایا جاتا ہے۔ لباس دراصل ذہنی طور پر اہلِ لباس کی صحبت ہے اور اس پر وہی اثرات مرتب ہوتے ہیں جو صحبت پر مرتب ہوتے ہیں۔ اس لیے خواتین کو جینز کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
آپ کی کزن نے ایران، سعودی عرب اور پاکستان کے جن اُونچے گھرانوں کی خواتین کا حوالہ دیا ہے کہ وہ بھی پینٹ پہنتی ہیں، تو اس بارے میں عرض ہے کہ یہ وہ خواتین ہیں جو مغربی تہذیب کی نقالی کرتی ہیں۔ اس لیے آپ ان سے کہہ دیجیے کہ ان کی نقالی کو چھوڑ دیجیے۔ ان کے بجاے دنیا کے اسلامی گھرانوں کی خواتین کو اپنے لیے نمونہ بنائیں جو مغربی تہذیب سے متاثر اور اس کی دل دادہ نہیں۔ وہ مغربی تہذیب کو باعث ِ عزت و فخر سمجھنے کے بجاے اسلامی تہذیب و روایات کی قدر کرتی ہیں اور اس میں شرف و وقار سمجھتی ہیں۔ (مولانا عبدالمالک)