آخر مولانا مودودی میں وہ کیا چیز ہے جس کی وجہ سے اس کی قید اور اس کی رہائی سے اَن گنت لوگ دل چسپی رکھتے ہیں۔ وہ کوئی فرشتہ یا کوئی فوق البشر ہستی نہیں ایک انسان ہے اور اسی طرح کا خاکی انسان ہے جیسے ہم سب ہیں۔ وہ کسی مقامِ خاص کا مدعی نہیں، اپنے آپ کو محض اُمت محمدیہ کے ایک مسلمان فرد کی حیثیت میں پیش کرتا ہے۔ وہ پیری کی مسند بچھا کر نہیں بیٹھتا بلکہ عام آدمیوں کی طرح رہتا سہتا ہے اور عام آدمیوں سے ملتا جلتا ہے۔ وہ اپنے لیے خصوصی امتیازات اور القاب و آداب نہیں چاہتا بلکہ کسی تکلف وتصنّع کے بغیر ہرقسم کے لوگ اس سے معاملات رکھتے ہیں۔ وہ کرامات اور شعبدے دکھا کر اور خواب اور کشف بیان کر کے کسی کو مسحور نہیں کرتا بلکہ سیدھے سیدھے استدلال سے بات کہتا اور بات کا جواب دیتا ہے۔ اس کے پاس ملک کا کوئی انتظامی و وزارتی منصب نہیں ہے کہ وہ اس کے ذریعے لوگوں پر دھونس جماتاہو۔ اس کے قبضے میں کوئی ایسااختیار نہیں ہے کہ وہ لوگوں کے نام الاٹ منٹیں کرکر کے، درآمدی برآمدی لائسنس بانٹ بانٹ کر ، پاسپورٹ دے دے کر ، ان کی سفارشوں پر ان کے کام بنابناکر، یا ان کی آزادیوں اور ان کی عزتوں پر چھاپے مارمار کر ان کو اپنا حمایتی اور قصیدہ خواں بنا رکھے۔ وہ فنِ سازش میں کوئی درک نہیں رکھتا کہ لوگوں کو شرپسندانہ نجویٰ کے ذریعے باہم دیگر توڑ توڑ کر اپنے اثرورسوخ کا راستہ نکالے۔ یہ سب کچھ نہیں ہے تو پھر وہ کیا چیز ہے جس نے مولانا مودودی کو ایک نمایاں حیثیت دے دی ہے؟
ایک متاع ایمان! ایک نورِعلم! ایک دعوتِ حق! ایک نظریہ و اصول! ایک پاکیزہ مقصد و نصب العین!ایک نقشۂ تعمیر! ایک جذبۂ خدمت! ایک متاعِ کردار! بس ’’یہی کچھ ہے ساقی متاعِ فقیر‘‘۔ (’اشارات‘، نعیم صدیقی، ترجمان القرآن، جلد۴۴، عدد۲-۳، شعبان ۱۳۷۴ھ ، مئی ۱۹۵۵ئ، ص۴-۵)
______________