پروفیسر خورشید احمد | مئی ۲۰۱۵ | گاہے گاہے بازخواں
ایک خالص قانونی پہلو ہے۔ اگر کسی نے جرم کیا ہے اور اس کو قانون کے مطابق سزا ملتی ہے تو یہ اس کے جرم کا فطری انجام ہے ۔
اگر مجرم کو اپنی غلطی کا احساس اور اعتراف ہوتا ہے، اور وہ سزا کے ساتھ اپنے رب اور ان افراد سے جن کے حقوق پر اس نے ڈاکا ڈالا ہے، خلوصِ نیت سے معافی طلب کرتا ہے تووہ اخلاقی طور پر اپنے آپ کو سدھارنے (rehabilitate)کے عمل کا آغاز کرتا ہے اور اس طرح اپنے دامن کے داغ دھو کر ایک نئی صاف ستھری زندگی کا آغازکرتا ہے۔
جرم و سزا کے تعلق کی ایک تیسری شکل بھی ہے اور وہ یہ کہ ایک شخص نے کوئی جرم نہ کیا ہو، مگر اس معصوم انسان کو ظلم کا نشانہ بنایا جائے اور ایسی سزا دی جائے جس کا وہ مستحق نہیں، تو اس سزا کا سارا وبال ان ظالموں پر ہے، جو ایک معصوم انسان پر یہ ظلم ڈھاتے ہیں اور مظلوم اس کی سزا بھگتتا ہے اور وہ اخلاقی و روحانی، ہراعتبار سے کامیاب و کامران ہوتا ہے۔ اگر اس کی جان بھی تلف کردی جائے، تو وہ شہادت اور حیاتِ جاودانی سے شادکام ہوتا ہے۔
یہ انسان کے لیے بڑا سخت امتحان ہے لیکن ہماری تاریخ اللہ کے ان نیک بندوں سے بھری پڑی ہے، جنھوں نے ظلم کے ہر وار کو برداشت کیا، لیکن ظلم کے آگے سر نہ جھکایا۔ اس کی تازہ ترین مثالیں بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی کی قیادت کے دو گلہاے سرسبد نے پیش کی ہیں، یعنی محترم عبدالقادر مُلّاشہید اور محترم محمدقمرالزمان شہید۔ ان کو انصاف کا قتل کرتے ہوئے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا اور دین حق کے سپاہی، تحریکِ اسلامی کے کارکن اور پاکستان کے نظریے سے وفاداری کی پاداش میں موت کی سزا دی گئی۔ انھیں لالچ بھی دیا گیا کہ ظالم حکمرانوں سے معافی کی درخواست کردو تو سزاے موت سے بچ سکتے ہو، لیکن انھوں نے اللہ اور حق سے وفاداری کو ،محض جان بچانے کے لیے جھوٹے الزامات کو اُوڑھنے اور ظالموں سے رحم کی اپیل کرنے پر اپنی جاں، جاں آفریں کے سپرد کردینے کو ترجیح دی اور اس طرح اہلِ حق کے لیے ایک اور روشن اور تابناک مثال رقم کردی ؎
سلام اُسؐ پر کہ جسؐ کے نام لیوا ہر زمانے میں
بڑھا دیتے ہیں ٹکڑا سرفروشی کے فسانے میں
اس موقعے پر جماعت اسلامی کے بانی امیر مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی مثال بھی ذہنوں میں تازہ کیجیے___ آپ کو اپنی روح وجد کرتی ہوئی محسوس ہوگی۔ بانیِ جماعت کو مئی ۱۹۵۳ء میں لاہور کی مارشل لا کورٹ نے قادیانی مسئلہ نامی کتابچہ لکھنے کی پاداش میں موت کی سزا سنائی اور مولانا کو پھانسی کے احاطے میں منتقل کردیا گیا، اور پھر انھیں پیغام دیا گیا کہ اگر آپ رحم کی اپیل کریں تو جان بخشی ہوسکتی ہے۔
مولانا محترم نے ایک لمحے کے توقف کے بغیر رحم کی اپیل کرنے سے انکار کردیا اور فرمایا کہ: ’’اگر میرا وقت آگیا ہے تو کوئی مجھے بچا نہیں سکتا، اور اگر میرا وقت نہیں آیا تو یہ لوگ اُلٹے بھی لٹک جائیں تو میرا کوئی نقصان نہیں کرسکتے‘‘۔ انھوں نے اپنی اہلیہ، اولاد اور ذمہ دارانِ جماعت کو بھی مشورہ دیا کہ کوئی کسی بھی شکل میں رحم کی اپیل نہ کرے اور فیصلہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دے۔پھر ملک اور عالمِ اسلام میں شدید ردعمل کے دبائو میں حکومت نے سزاے موت کو عمرقید میں تبدیل کر دیا۔
مَیں اُس وقت اسلامی جمعیت طلبہ کراچی کا ناظم تھا اور ہم نے کراچی میں بڑے پیمانے پر احتجاج کیا۔ ایئرپورٹ پر اس وقت کے وزیراعظم محمدعلی بوگرا کے خلاف حکومت کی ساری پیش بندیوں کے باوجود بھرپور مظاہرہ کیا۔ اس لمحے ہم نے برادر عزیز ظفراسحاق انصاری کو لاہور روانہ کیا تاکہ مرکزی نظم سے رابطہ قائم کریں اور اگر ممکن ہو تو خود مولانا محترم سے بھی ملنے کی کوشش کریں۔ چند احباب کے تعاون سے ظفراسحاق بھائی، محترم مولانا مودودی سے سزاے موت کے عمرقید میں تبدیل ہونے کے اگلے ہی دن جیل میں ان سے ملے، اور ان سے یہ سوال کیا کہ: ’’آپ نے رحم کی اپیل کیوں نہیں کی؟‘‘ یہ تاریخی گفتگو ظفراسحاق انصاری نے میرے اصرار پر میرے گھر اپنی آواز میں محفوظ کرا دی ہے، جسے ہدیۂ ناظرین کیا جا رہا ہے:
ڈاکٹر ظفراسحاق انصاری نے روایت کی ہے: ’’مئی ۱۹۵۳ء میں، اچانک یہ خبر آئی کہ مولانا مودودیؒ کو سزاے موت سنا دی گئی ہے، تو خورشید بھائی اور خرم بھائی کے مشورے سے میں (کراچی سے) لاہور گیا، اور لاہور میں ایف سی کالج میں مقیم ہوا۔ اللہ کا شکر ہے کہ جلد ہی جو سزا سنائی گئی تھی، اسے سزاے عمرقید میں تبدیل کردیا گیا۔ اس طرح ہم نے بھی ایک لحاظ سے اطمینان کا سانس لیا۔
میں کہہ نہیں سکتا کہ وہ تاریخ کون سی تھی، لیکن سزاے موت منسوخ ہونے کے زیادہ سے زیادہ ایک دن بعد، ایک صبح اپنے دوست کی مدد سے مَیں بورسٹل جیل گیا، جہاں مولانا مودودی قید تھے۔
مولانا محترم اپنے معمول کے لباس میں ملبوس نہیں تھے، یعنی جیل ہی کا دیا ہوا لباس پہنے ہوئے تھے۔مجھے دیکھا تو کہنے لگے کہ: ’’بھئی آپ کیسے یہاں آگئے؟‘‘
میں نے ان سے کہا کہ:’’مولانا! میں نے سنا تھاکہ آپ کو یہ مشورہ دیا گیا تھا کہ سزاے موت کے بارے میں آپ رحم کی اپیل کریں۔ یہ تجویز جو دی گئی تو آپ نے کیا محسوس کیا؟‘‘
بالکل غیرجذباتی انداز میں انھوں نے کہا کہ جب یہ بات کہی گئی تو میرے دماغ میں معاً تین باتیں آئیں:
__ اور مسکرا کر کہنے لگے کہ میں نہیں سمجھتا کہ اپنی قوم کو یہ ’سزا‘ دوں۔
یہ مختصر سی گفتگو تھی جو دو یا تین منٹ کی تھی۔ میں نے کوشش کی ہے کہ انھی الفاظ میں اسے یادداشت سے بیان کردوں۔