۱۱؍اپریل ۲۰۱۵ء کو پاکستانی وقت کے مطابق رات ۳۰:۹ بجے عالمِ اسلام کا ایک عظیم فرزند تختۂ دار پر جھول گیا۔ شہید محمد قمرالزمان ایک فرد نہیں بلکہ فی الحقیقت ایک تحریک تھے۔ وہ بنگلہ دیش میں تحریکِ اسلامی میں، ایک مدبر دینی و سیاسی رہنما، اور جماعت اسلامی کے مستقبل کے قائد تھے۔ وہ بہ یک وقت بزرگوں اور نوجوانوں میں مقبول اور نہایت سلجھی، متین اور متوازن طبیعت کے مالک تھے۔ انھوں نے دل و دماغ اور جسم کی تمام صلاحیتیں دین اسلام کی خدمت اور سرزمینِ بنگال میں مسلمانوں کی ترقی و سربلندی کے لیے کھپا دیں۔ صدافسوس کہ ایک سفاک، اذیت پسند اور بھارتی آلۂ کار گروہ نے انھیں موت کے گھاٹ اُتار دیا، اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔
جو اللہ کی راہ میں جان کا نذرانہ پیش کرتے ہیں، وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے، صرف اہلِ حق کی یادوں ہی میں نہیں بلکہ اللہ کے وعدے کے مطابق انھیں ہراعتبار سے حیاتِ جاوداں حاصل ہے:
وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ ط بَلْ اَحْیَآئٌ وَّ لٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۵۴) جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انھیں مُردہ نہ کہو، ایسے لوگ حقیقت میں زندہ ہیں، مگر تمھیں اُن کی زندگی کا شعور نہیں ہوتا۔
اور یہی وہ نفوسِ قدسیہ ہیں جنھیں ان کا خالق و مالک ان کی اس وفاشعاری کا پورا پورا اجر دے گا:
مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ ج فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ وَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًا o لِّیَجْزِیَ اللّٰہُ الصّٰدِقِیْنَ بِصِدْقِھِمْ وَ یُعَذِّبَ الْمُنٰفِقِیْنَ (الاحزاب ۳۳:۲۳-۲۴) ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے۔ ان میں کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ (یہ سب کچھ اس لیے ہوا) تاکہ اللہ سچوں کو ان کی سچائی کی جزا دے اور منافقوں کو سزا دے۔
اہلِ حق کی آزمایش کا یہ سلسلہ صبرواستقامت کے ساتھ جاری ہے۔
بنگلہ دیش کے وزیرقانون انیس الحق نے ۴؍اپریل کو پوری ڈھٹائی کے ساتھ ان الفاظ میں چیلنج کیا ہے کہ: ’’تحمل سے دیکھتے جایئے، انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کے دائرۂ کار میں وسعت لانے کے لیے ہم ایک ترمیم بہت جلد کابینہ میں پیش کر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں، اسی ٹریبونل سے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کو ایک مجرم پارٹی کے طور پر غیرقانونی قرار دلایا جائے گا‘‘۔ (روزنامہ سٹار، ڈھاکہ، ۵؍اپریل ۲۰۱۵ئ)
محمد قمر الزمان کو حسینہ واجد کی حکومت نے جھوٹے مقدمات میں ۱۳جولائی ۲۰۱۰ء کو گرفتار کیا۔ ۹مئی ۲۰۱۳ء کو ایک نام نہاد عدالت نے انھیں سزاے موت سنائی۔ اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل پر اختلافی فیصلہ ۱۸فروری ۲۰۱۵ء کو جاری ہوا، جس میں کثرت راے سے سزاے موت کو برقرار رکھا گیا۔ اس فیصلے کے خلاف ۵مارچ کو سپریم کورٹ میں اپیل کی گئی، اور سماعت کے لیے ۵؍اپریل کی تاریخ مقرر ہوئی۔ سپریم کورٹ بنگلہ دیش کے چیف جسٹس سریندر کمارسنہا کی صدارت میں قمرالزمان کی اپیل کو مستردکرتے ہوئے سزاے موت کے فیصلے کو برقرار رکھا گیا۔ اٹارنی جنرل محبوب عالم نے کہا: ’’اب پھانسی کی سزا پر عمل درآمد میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہی‘‘۔(روزنامہ سٹار، ڈھاکہ، ۶؍اپریل ۲۰۱۵ئ)
عالمی اور قومی سطح پر ردِعمل کی شدت کے باوجود عوامی لیگی حکومت بڑی تیزی سے معاملات کو ناقابلِ واپسی نشان تک پہنچا رہی تھی۔ بنگلہ دیش نیوز نیٹ ورک نے ۷؍اپریل کو خبر دی کہ سنٹرل جیل ڈھاکہ میں سزاے موت پر عمل درآمد کے منتظر قمر الزمان کے بچے جب شام ۴۵:۴ پر ملاقات کے بعد باہر آئے، تو انھوں نے انگلیوں سے فتح کا نشان بنایا۔ قمرالزمان کے سب سے بڑے بیٹے اقبال حسن نے بتایا:
ہمیں اس فیصلے پر کوئی پریشانی نہیں، ہم اپنے والد سے مسکراہٹوں کے ساتھ جدا ہوکر آرہے ہیں۔ یہ سارا مقدمہ بے بنیاد ہے اور اس مقدمے پر یہ فیصلہ شرم ناک ہے۔ ہمیں اللہ کے سوا کسی سے انصاف کی اُمید نہیں ہے۔ اس مقدمے کی تیاری اور فیصلے کے ذمہ داروں اور موجودہ نام نہاد وزیراعظم سے ہمارا اللہ ہی نبٹے گا، وہی حقیقی عادل ہے۔ (بی ڈی نیوز، ۷؍اپریل ۲۰۱۵ئ)
’ہیومن رائٹس واچ‘(HRW) ایشیا کے ڈائرکٹر مسٹر براڈ ایڈمز نے قمرالزمان کی سزاے موت کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ’’موت ایک ناقابلِ واپسی سزا ہے، اور جب ایسی سزا قانون کے تقاضوں کو نظرانداز کرکے دی جائے تو اس کے ظالمانہ ہونے میں دو راے نہیں ہوسکتیں۔ بنگلہ دیش میں جنگی جرائم کے مقدمات کا پورا عمل، شفاف قانونی طریقوں کی بے حُرمتی اور جانب دارانہ عدالتی طریق کار کسی مہلک بیماری میں مبتلا ہونے سے کم حیثیت نہیں رکھتا… بلاشبہہ ہم نے ۱۹۷۱ء میں مبینہ جنگی جرائم پر بازپُرس کی تائید کی تھی، مگر ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ: ’’ان مقدمات کی سماعت بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ قانونی و عدالتی معیارات کے تحت ہونی چاہیے۔ کیونکہ اُس وقت قانون اور عدل کی پاس داری انتہا درجے کی اہمیت اختیار کر جاتی ہے، جب معاملہ کسی فرد کو سزاے موت سنائے جانے پر پہنچ رہا ہو۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ قمرالزمان کے مقدمے کا، ان قانونی اور مبنی بر عدل معیارات کے مطابق فیصلہ نہیں ہوا‘‘۔ (بنگلہ دیشی اخبارات، ۷؍اپریل ۲۰۱۵ئ)
اقوامِ متحدہ کمیٹی براے انسانی حقوق (UNHRC) وہ ادارہ ہے، جو ’انسانی اور سیاسی حقوق کے عالمی معاہدوں‘ کی تشریح اور نگرانی کرتا ہے۔ اس کے مطابق: ’’سزاے موت کے فیصلوں کے عمل کو عادلانہ دفاع اور شفاف قانونی طریق کارکا اس درجے پابند ہونا چاہیے کہ کسی طرح کے شک و شبہے کی گنجایش نہ ہو۔ اور بنگلہ دیش نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ۱۸دسمبر ۲۰۰۷ء کو اس اتفاق راے پر مبنی قرارداد پر دستخط کیے ہیں، اس لیے بنگلہ دیش حکومت اس امر کی پابند ہے کہ وہ مسلّمہ عالمی عادلانہ اصولوں کی پاس داری کرے‘‘۔مگر جوشِ انتقام میں عوامی لیگی حکومت نے محمد قمرالزماں شہید کے معاملے میں اپنے تسلیم اور دستخط شدہ اصولوں کی دھجیاں اُڑائی ہیں۔
’انٹرنیشنل جیورسٹس یونین‘ (IJU) استنبول نے بنگلہ دیشی حکومت کی جانب سے سزاے موت سنائے جانے کے اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا: ’’محمد قمرالزمان کے لیے اس انتہائی سزا کا اہتمام اپنی سیاسی مدِمقابل جماعت کو ختم کرنے کا کھلا منصوبہ ہے۔ جس ادارے کے ذریعے موت کی سزائیں سنائی جارہی ہیں، وہ کسی بھی معیار اور کسی بھی اصول کے تحت نہ تو ’عالمی‘ ہے اور نہ ’عدالت‘ کے معیار پر پورا اُترتا ہے۔ اس ضمن میں دنیا بھر کے قانون پسند اور مقتدر حضرات اور اداروں کو بنگلہ دیشی حکومت پر دبائو ڈالنا چاہیے کہ وہ اس غیرمنصفانہ سزا کو نافذ نہ کرے۔ اسی طرح خود بنگلہ دیش کے انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کو ہیگ کے انٹرنیشنل کریمنل کورٹ (ICC) کے طے شدہ ضابطوں کے تحت تشکیل دیا جانا چاہیے، تاکہ کسی شک و شبہے اور زیادتی کی گنجایش نہ رہے‘‘۔(ورلڈ بلیٹن، ۸؍اپریل ۲۰۱۵ئ)
شہید قمرالزمان کے بڑے بیٹے اقبال حسن نے ۱۱؍اپریل کی شام، شہادت سے چند گھنٹے پہلے اپنے والد سے ۳۵منٹ کی آخری ملاقات کے بعد جیل سے باہر نکل کر اخبارنویسوں کو بتا دیا تھا کہ: ’’میرے والد نے شہید عبدالقادر مُلّا کی طرح، ایک ظالم اور عدل کی قاتل حکومت سے رحم کی اپیل نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ میرے والد کو آج صبح دو ججوں نے ملاقات میں یہ کہا کہ ’’آپ رحم کی اپیل کریں تو آپ کی جان بچ جانے کا پورا امکان ہے‘‘، مگر میرے والد نے انھیں واضح طور پر کہہ دیا:
حکومت نے جھوٹا اور بددیانتی پر مبنی مقدمہ درج کیا تھا۔ جب میں نے کسی جرم کا ارتکاب ہی نہیں کیا تو پھر میں معافی کس چیز کی مانگوں؟ میں ایسی ظالم، بدعنوان اور انسانیت کی قاتل حکومت کے صدر سے اپنی زندگی کی بھیک نہیں مانگ سکتا۔ جو آپ کے جی میں آتا ہے کریں، میرا حامی و مددگار صرف میرا اللہ ہے۔
اقبال حسن کے بقول: ’’جب ہم اپنی والدہ اور بہن بھائیوں کے ہمراہ آخری ملاقات کے لیے والد محترم کی کوٹھڑی کے قریب پہنچنے تو وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ ہم ان سے ملنے قریب پہنچ چکے ہیں۔ مجھے اپنے والد کی پھانسی کوٹھڑی کا پتا دُور سے اُس آواز نے بتایا، جو اُن کی تلاوت قرآنِ پاک سے معمور تھی۔ جب ہم سلاخوں کے پیچھے کوٹھڑی کے قریب پہنچے تو انھوں نے مسکراہٹ سے ہمارا استقبال کیا، اور ’السلام علیکم‘ کہہ کر سب سے پہلی بات ہم سے یہ کہی کہ:
میں بنگلہ دیش میں اسلامی نظام کا نفاذ دیکھنا چاہتا تھا۔ اللہ کو میری اتنی ہی زندگی منظور ہے تو اب اگلے سفر کے لیے نوجوان اس تحریک کی قیادت سنبھالیں، اپنی بہترین صلاحیتیں پروان چڑھائیں اور ان صلاحیتوں کو اس راہ میں کھپائیں۔ ہم وطنوں کو بھارتی آلۂ کار حکومت کے ظلم اور غلامی سے بچائیں اور اس ظلم کا حساب بھی لیں۔ اس ظلم کا حساب یہ ہے کہ اس سرزمین پر اللہ کی حاکمیت قائم ہو اور اسی مقصد کے لیے جدوجہد کی جائے۔
انھوں نے ہم بہن بھائیوں کو یہ نصیحت کی کہ ہم اپنی تمام زندگی ایمان کے ساتھ اور ایمان پر عمل کے ذریعے گزاریں۔ہم اہلِ خانہ اور جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر [اسلامی جمعیت طلبہ] کے کارکنوں کو انھوں نے جو آخری پیغام دیا، وہ بہت مختصر ہے:
قرآن کو اپنا ساتھی بنائیں، قرآن کے سایے میں زندگی گزاریں ،اور قرآن و سنت ہی کو پوری زندگی کا رہنما بنائیں۔
جس وقت ہفتے کی رات ۳۰:۹ بجے محمد قمرالزمان کو پھانسی دی گئی، اُس وقت حکومتی اہتمام میں ’سیکولر کارکنوں‘ کا ایک جمگھٹا، سنٹرل جیل ڈھاکہ کے باہر: ’’پھانسی دو، پھانسی دو‘‘ کے نعرے بلند کر رہا تھا۔ پولیس اور مسلح اہل کاروں کی بڑی فورس کسی دوسرے فرد کو اس علاقے کے قریب بھی پھٹکنے نہیں دے رہی تھی، مگر اس ’پسندیدہ گروہ‘ کو جیل کے قریب لے جاکر نعرے لگوانے کا خصوصی اہتمام کیا گیا۔
بنگلہ روزنامہ نیادیگنتا کے مطابق جیل کے عملے نے بتایا:’’جب محمد قمرالزمان سے کہا گیا کہ: ’’وقت ہوگیا ہے، اب پھانسی گھاٹ چلنا ہے، تو وہ بسم اللہ پڑھ کر کھڑے ہوگئے۔ عملے کے دو آدمیوں نے سہارا دینے کے لیے قدم بڑھایا تو انھوں نے کسی طرح کا سہارا لینے سے انکار کردیا اور خود ہی منزل کی طرف چل پڑے۔ پھانسی گھاٹ کی طرف ان کے چلنے کی رفتار اتنی تیز تھی کہ ساتھ دینے والا عملہ تقریباً دوڑ رہا تھا۔ یوں قمرالزمان بلندآواز میں تلاوت کرتے ہوئے پھانسی کے تختے پر جاکھڑے ہوئے اور آخری لمحے تک بغیر کسی گھبراہٹ کے تلاوت ہی میں مصروف رہے‘‘۔
اتوار کو سحری کے وقت جب شہید محمد قمرالزمان کی میّت شیرپور کے گائوں کماری بازی ٹکھالی (Kumari Bazitkhali) لائی گئی تو اس چھوٹے سے گائوں کو چاروں طرف سے پولیس، ریپڈ ایکشن بٹالین (RAB) اور بارڈر گارڈ بنگلہ دیش (BGB)کے ہزاروں مسلح اہل کاروں نے گھیر رکھا تھا (بزدلی کی انتہا ہے)۔ سحری کے وقت صرف ۵۰؍افراد کو نمازِجنازہ پڑھنے کی اجازت دی گئی اور پاکستان کے وقت کے مطابق صبح چاربج کر ۴۵منٹ پر قمرالزمان کی تدفین عمل میں لائی گئی۔ ۸بجے کے بعد جوں ہی مسلح سرکاری اہل کاروں کا ایک حصہ وہاں سے واپس گیا، تو بی بی سی لندن کے مطابق مقامی صحافی عبدالرحمن نے بتایا:’’ بے شمار لوگ آہ و فغاں کرتے اور سسکیاں بھرتے قبرستان میں جمع ہوگئے‘‘۔ پھر کچھ دیر بعد ہزاروں لوگوں نے وہاں پر قمرالزمان کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کی۔
اخبارات کو جاری کیے گئے ایک خط میں محمد قمرالزمان شہید کے بیٹے حسن زمان نے لکھا ہے:
ہمیں اپنے والد گرامی کی عظیم الشان شہادت پر فخر ہے۔ اے حسینہ واجد! آپ میرے والد کو شہید کرنے میں کامیاب رہیں، لیکن آپ کو شاید علم نہیں کہ میرے والد قمرالزمان شہید جنت الفردوس میں ہیں اور آپ کے والد شیخ مجیب الرحمن جہنم کا ایندھن بنے ہیں۔ آپ نے میرے والد کو اس جرم میں پھانسی کا سزاوار ٹھیرایا کہ انھوں نے ۱۹۷۱ء میں اپنے علاقے میں امن کے قیام اور بھارتی مداخلت کے خلاف رکاوٹ بننے کی کوششیں کی تھیں۔ اگر انھوں نے وہ جرائم کیے ہوتے جو آپ نے جھوٹ پر مبنی مقدمے میں درج کیے تھے، تو علاقے کے لوگوں کو بھی اس کا کچھ علم ہوتا مگر پورے علاقے میں ایسا کچھ نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے ۴۲برس تک کسی ایک فرد نے بھی میرے والد کو بُرے نام سے نہیں پکارا۔ آپ نے میرے والد کو ۲۰۱۰ء میں گرفتار کرکے مختلف جیلوں اور تشدد گاہوں میں حیوانی تشدد کا نشانہ بنایا، مگر انھوں نے اس تمام تشدد کو خندہ پیشانی اور صبر سے برداشت کیا۔ آپ نے ہرحربہ اختیار کیا کہ میرے والد کو نفسیاتی طور پر توڑ دیا جائے، مگر الحمدللہ وہ ثابت قدم رہے۔ آپ کا خیال تھا کہ وہ سزاے موت کے خلاف آپ لوگوں سے زندگی کی بھیک مانگیں گے، لیکن انھوں نے آپ کی اس مذموم خواہش کو پائوں کی ٹھوکر سے اُڑا دیا۔ (بنگلہ اخبارات)
روزنامہ جسارت نے اس موقعے پر ’قمرالزمان کی پھانسی اور پاکستان کی بے حسی‘ کے زیرعنوان اپنے اداریے میں لکھا: ’’بنگلہ دیش حکومت کے تمام اقدامات خالصتاً پاکستان کے خلاف معاندانہ رویے پر مبنی ہیں۔ بنگلہ دیش کے متنازع اور غیرقانونی ٹریبونل کے مقدمات اور الزامات دراصل سب کے سب پاکستان اور پاک فوج کے خلاف چارج شیٹ ہیں، لیکن پاکستانی حکومت اور دیگر سیاسی جماعتوں نے اسے بنگلہ دیش کا اندرونی مسئلہ قرار دے کر فرار کا راستہ اختیار کر رکھا ہے۔ اس مقام تک بات پہنچانے میں مغرب، یہود اور ہنود کے زیرکنٹرول پاکستانی میڈیا نے اہم کردار اداکیا ہے، بلکہ اس کو ایجنڈا ہی یہ دیا گیا ہے کہ پاکستان، نظریۂ پاکستان اور اسلام سے وابستگی کو گالی بنا دیا جائے۔ چنانچہ [آج] جب بنگلہ دیش میں خاص طور پر جماعت اسلامی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تو ہمارا میڈیا بالکل خاموش ہے… آج اگر بنگلہ دیش حکومت کو نہیں روکا گیا تو پھر وہ کل پاک فوج کے خلاف بھی اقدامات کرے گی، اور اس وقت اگر کچھ کہا گیا تو یہی یاد دلایا جائے گا کہ ’’یہ بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے‘‘۔(۱۳؍اپریل ۲۰۱۵ئ)
روزنامہ نواے وقت (۱۳؍اپریل) نے اداریے میں لکھا: ۱۹۷۱ء میں عالمی سازشوں کے نتیجے میں پاکستان دو ٹکڑے ہوا۔ اس سے قبل یہ دونوں علاقے مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کہلاتے تھے۔ جب بھارتی افواج اور اس کی حمایت یافتہ مکتی باہنی کے مسلح تخریب کاروں نے پاکستان کے خلاف کارروائیاں شروع کیں تو محب ِ وطن بنگالی پاکستانیوں نے اس کے خلاف حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کا ساتھ دیا۔ ان کا یہ فعل اپنے ملک کے دفاع کے لیے جائز اور برحق تھا۔ اب ۴۴برس بعد اپنے وطن کا دفاع کرنے والوں کو ’جنگی مجرم‘ قرار دے کر پھانسی پر لٹکائے جانے کا عمل نہایت افسوس ناک ہے۔ اگر یہ لوگ مجرم ہوتے تو بنگلہ دیش کے قیام کے بعد انھیں تختۂ دار پر کیوں نہیں لٹکایا گیا۔ اب حسینہ واجد کے دورِ حکومت میں ایسا [اس لیے] کیا جارہا ہے کہ جماعت اسلامی آج بھی بنگلہ دیش میں ایک مضبوط سیاسی جماعت ہے۔ جماعت اسلامی کے جن عہدے داروں کو پھانسی دی گئی ہے، انھوں نے بنگلہ دیش بننے کے بعد کبھی نئے ملک کی مخالفت نہیں کی، اور نہ اس کے خلاف کوئی کام کیا۔ وہ تو بنگلہ دیش کے پُرامن شہری بن کر رہے۔ پاکستان کو ایسے لوگوں کی پھانسی پر شدید ردعمل ظاہر کرنا چاہیے، کہ جن کو پاکستان کی حمایت کی سزا دی جارہی ہے، اور پاکستان کو ان لوگوں کی سزا ختم کرانے کے لیے کوششیں کرنی چاہییں‘‘۔
روزنامہ اُمت (۱۳؍اپریل)نے قمرالزمان کی شہادت پر جو خصوصی شذرہ شائع کیا، اس کا کچھ حصہ پیش ہے:
محمد قمرالزمان ۴جولائی ۱۹۵۲ء کو شیرپور کے ایک گائوں میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۶۹ء میں میٹرک کے دوران اسلامی جمعیت طلبہ کی دعوت قبول کی۔ ۱۹۷۱ء میں جب سالِ دوم کے طالب علم تھے، تو اپنے علاقے میں امن و امان کی بحالی کے لیے رضاکارانہ خدمات انجام دیں۔ ۱۹۷۶ء میں ڈھاکہ یونی ورسٹی سے ایم اے صحافت کیا۔ ۱۹۷۴ء سے ۱۹۷۷ء تک ڈھاکہ میں طلبہ کو منظم کیا اور ۶فروری ۱۹۷۷ء کو ڈھاکہ یونی ورسٹی میں اسلامی چھاترو شبر کی تاسیس میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس کے پہلے مرکزی سیکرٹری جنرل مقرر ہوئے، اور اگلے برس ۱۹۷۸ء میں مرکزی صدر منتخب ہوئے۔ تعلیم سے فارغ ہوتے ہی ۱۹۷۹ء میں جماعت اسلامی کے رکن بن گئے۔ ۱۹۸۰ء میں عملی زندگی کا آغاز ڈھاکہ ڈائجسٹ کے مدیر منتظم کی حیثیت سے کیا۔ ۱۹۸۳ء میں ہفت روزہ سونار بنگلہ کی ادارت سنبھالی۔ روزنامہ سنگرام کی مجلس ادارت کے کلیدی رکن کی حیثیت سے اہم صحافتی خدمات انجام دیں۔ وہ بنگلہ دیش کے صحافیوں کی پیشہ ورانہ تنظیموں کے سرگرم رکن رہے، جن میں ’ڈھاکہ یونین آف جرنلسٹس‘، ’بنگلہ دیش فیڈرل یونین آف جرنلسٹس‘ اور نیشنل پریس کلب شامل ہیں۔ ۱۹۸۳ء سے ۱۹۹۱ء تک جماعت اسلامی کے مرکزی سیکرٹری نشرواشاعت اور ۱۹۹۲ء سے تاحال مرکزی سینیر ڈپٹی سیکرٹری جنرل تھے۔
قمرالزمان کی بے گناہی کا ثبوت ان کی پوری زندگی ہے اور جس شان سے وہ سوے دار چلے اور موت کے پھندے کو اللہ کا نام لے کر چوم کر انھوں نے اس پر مہرتصدیق ثبت کردی۔ قمرالزمان ۱۹۷۱ء کے خون آشام دور کے بعد ڈھاکہ یونی ورسٹی میں اپنا سر فخر سے بلند کرتے ہوئے داخل ہوئے۔ وہی ڈھاکہ یونی ورسٹی جہاں عوامی لیگ کے طلبہ کا غلبہ تھا اور جو چھانٹ چھانٹ کر ان لوگوں کو نشانہ بنا رہے تھے، جن پر انھیں ’جنگی جرائم‘ کا شبہہ تھا۔ انھوں نے اسی یونی ورسٹی میں کھلے بندوں تعلیم حاصل کی۔ ایم اے میں اول پوزیشن حاصل کی، اسلامی چھاترو شبر کے سرگرم رکن رہے اور کسی نے ان پر انگلی نہ اُٹھائی۔ ۷۴-۱۹۷۳ء میں جب جنگی جرائم کے مرتکب افراد پر مجیب الرحمن کے دورِ حکومت میں مقدمات بنائے گئے تو ان کا کہیں ذکر نہ تھا۔ لیکن اب ۴۰برس بعد مجیب کی بیٹی اور اس کے حواریوں نے ان کو اس جھوٹے مقدمے میں محض سیاسی انتقام اور جماعت اسلامی کو زِک پہنچانے کے لیے پھانسا جسے عدالتی عمل میں ثابت نہ کیا جاسکا۔ سیکولر قوم پرستانہ ’انصاف‘ کی مثال دیکھیے کہ جن دیہات کے ۱۲۰؍افراد کو ’قتل کرنے‘ اور ’بے حُرمتی‘ اور ’لُوٹ مار‘ کا الزام لگایا گیا، وہاں سے ایک بھی گواہ پیش نہ کیا جاسکا۔ اور جو گواہ پیش کیے ان پر وکلاے صفائی کو جرح کا موقع تک نہ دیا گیا۔ محمدقمرالزمان نے اس ’عدالتی قتل گاہ‘ میں ظالموں کو ظالم کہا اور اپنی شہادت سے اپنے برحق ہونے کو ثابت کردیا۔
قمرالزمان سیاست دان اور صحافی ہی نہیں بلکہ ایک محقق اور دانش ور بھی تھے۔انھوں نے بہت سے مضامین اور متعدد بنگلہ کتب تصنیف کیں: mعصرِجدید اور اسلامی انقلاب mتحریک اسلامی اور عالمی منظرنامہ mمغرب کا چیلنج اور اسلام mانقلابی رہنما: پروفیسر غلام اعظم، جب کہ خرم مراد کی کتاب قرآن کا راستہ کا بنگلہ ترجمہ شامل ہیں۔
آج بنگلہ دیش میں جو صورتِ حال ہے، اس کے بارے میں جماعت اسلامی کے قائم مقام سیکرٹری جنرل ڈاکٹر شفیق الرحمن کا یہ بیان قابلِ توجہ ہے: ’’عوامی لیگی حکومت کی فسطائی حکمت عملی کے نتیجے میں نہ صرف بڑے پیمانے پر جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر کے کارکنوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے، بلکہ گرفتار کرتے وقت اُن پر وحشیانہ تشدد بھی کیا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ ان کے گھروں میں لُوٹ مار بھی کی جاتی ہے اور گھروں کے برتن، فرنیچر اور شیشے تک توڑ پھوڑ دیے جاتے ہیں۔ یہ طرزِعمل دراصل اس لیے اختیار کیا جاتا ہے کہ اردگرد کے لوگوں میں دہشت پھیل جائے، اور خود نشانہ بننے والا گھرانہ دیر تک معاشی دبائو کی زد میں رہے۔سڑکوں پر اور مظاہروں میں ہمارے کارکنوں کو قتل کرنے کے لیے حکومتی مشینری اور عوامی لیگی کارکنوں کو کھلی چھٹی دے دی گئی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ اس نوعیت کے لاتعداد واقعات بھی ہیں: ۳؍اپریل کو گوبند گنج جیل میں اسلامی چھاترو شبر کے رکن سحرالاسلام کو تشدد کرکے شہید کردیا۔ انھیں دو ماہ قبل گرفتار کرتے وقت لاٹھیاں مار کر زخمی کر دیا تھا، اور زخمی حالت میں جیل میں ڈال دیا اور پھر تشدد کرکے مار دیا ۔ پھر ۶؍اپریل کو نواکھالی میں ’شبر‘ کے کارکن عمرفاروق کو گولی مار کر قتل کر دیا۔ ۲؍اپریل کو سراج گنج میں پولیس افسر نے ’شبر‘ کے ۱۸سالہ رکن انیس الرحمن انیس کو گولی مار کر شہید کردیا۔ اسی طرح پبنہ صدر میں جماعت اسلامی کے رکن محمدشریف الاسلام کو بھرے بازار میں چھرا گھونپ کر مار دیا۔ یہ واقعات روزانہ کی بنیاد پر ریاستی، حکومتی اور سیاسی فسطائیت کی بدترین مثالیں ہیں‘‘۔
تاریخ میں یہ انوکھی مثال ہے کہ ۴۰برس گزرنے کے باوجود عوامی لیگ، ہندستان کی بی ٹیم کی پوزیشن ہی پر قائم رہنا چاہتی ہے اور اسی حیثیت میں اپنے ہی لوگوں کو مار کر اپنے بیرونی آقائوں کو خوش کرنے میں دن رات مصروف ہے۔ ایسی ظالمانہ غلامی کی مثال مسلم دنیا نے کم ہی دیکھی تھی، لیکن علاقائی قومیت و لسانیت کے بت کی پوجا کرنے والوں نے ایسی قابلِ نفرت مثال پیش کی ہے۔
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ عوامی لیگ، بنگلہ دیش کو ایک آزاد مسلم ملک کے طور پر ترقی دینا چاہتی ہے تو یہ اُس کی کم فہمی ہے۔ جب مسلم لیگ سے الگ ہوکر عوامی لیگ بنی تھی، تب سے اس پارٹی کا اوّلین ہدف بھارتی برہمنوں کی خوشنودی رہا ہے۔ ۱۹۷۱ء میں جماعت اسلامی نے تو یقینا پاکستان کی سالمیت اور بھارتی گماشتوں اور بھارتی فوجوں کے مقابلے کے لیے جان ہتھیلی پر رکھی تھی، لیکن اس کے برعکس بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے وہ عناصر جو ۱۹۷۱ء میں عملاً عوامی لیگ ہی کا حصہ تھے، اس بی این پی کو بھی عوامی لیگ دم لینے کی مہلت نہیں دینا چاہتی، کیونکہ بی این پی کا موقف بھی یہ ہے کہ: ’’بنگلہ دیش کی خودمختاری کا تحفظ کیا جائے، اسے ہمسایہ بھارت کا تابع مہمل طفیلی ریاست نہ بنایا جائے‘‘۔ یہ چیز نہ بھارت کو ہضم ہوسکتی ہے اور نہ بھارت کے بنگلہ دیشی کارندوں کو راس آسکتی ہے۔
یہ بھارت اور حسینہ واجد کے اس منصوبے کا حصہ ہے کہ جماعت اسلامی اور دیگر اسلامی حلقوں کی سیاسی اور اجتماعی قوت کو بنگلہ دیش میں اس طرح کاٹ دیا جائے کہ وہ کبھی طاقت نہ پکڑسکیں۔ جماعت اسلامی کے دیگر اکابر رہنمائوں کو سزاے موت کی صف میں کھڑا کیا ہوا ہے۔ خصوصاً مئی ۲۰۱۵ء میں سیکرٹری جنرل علی احسن محمد مجاہد اور غالباً مطیع الرحمن نظامی کو ہدف بنانے کا خدشہ ہے۔ بعداز شہادت احتجاج کے بجاے، ان قیمتی جانوں کو بچانے کے لیے آج آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔
حیرت انگیز بات ہے کہ اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی انسانی ادارے اس ظلم و درندگی کو روکنے میں بہت سُست روی کے شکار دکھائی دیتے ہیں۔ حالانکہ بنگلہ دیشی جنگی جرائم کے نام نہاد ٹریبونل نہ صرف بنگلہ دیش میں، بلکہ دنیابھر کے انصاف پسند اور غیر جانب دار حلقوں میں، کسی درجے بھی قابلِ اعتماد عدالتی ادارہ تسلیم نہیں کیے گئے۔ سبھی نے انھیں برسرِاقتدار گروہ کے سیاسی مقاصد کی تکمیل کا بدترین آلۂ شر تصور کیا ہے۔
۱۵؍اپریل ۲۰۱۵ء کو بنگلہ دیش کے اخبارات میں امریکی محکمہ خارجہ کے نام ایک خفیہ برقی پیغام افشا ہوکر شائع ہوا، جس کے مطابق: ’’عوامی لیگی حکومت کے انتہاپسند عناصر کی راے ہے کہ: ’’یہی درست وقت ہے، جب جماعت اسلامی اور دیگر اسلامی پارٹیوں کو تباہ کیا جاسکتا ہے‘‘۔
بیرسٹر ٹوبی کیڈمین (Toby Cadman) برطانوی نژاد ، بین الاقوامی قانون کے عالمی ماہر ہیں۔ وہ بوسنیا اور روانڈا میں جنگی جرائم کی تحقیقات کے لیے ناقابلِ فراموش خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ انھوں نے بنگلہ دیش میں، جماعت اسلامی کے خلاف مقدمات کے اس عمل پر بہت سے مضامین لکھے ہیں۔ ان کے ایک مضمون سے چند حصے ملاحظہ ہوں:
’’بنگلہ دیش کا انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل مکمل طور پر ایک قومی [بنگالی] ادارہ ہے۔ اسے کسی بھی اعتبار سے بین الاقوامی نوعیت کا قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بنگلہ دیش بہت سے عالمی یا بین الاقوامی معاہدوں کا پابندہے، مگر پوری کوشش کی گئی ہے کہ ۱۹۷۱ء کے واقعات کے حوالے سے قائم کردہ ٹریبونل کی کارروائی میں کسی بھی بین الاقوامی معاہدے کا کچھ خیال نہ رکھا جائے۔ پھر اس ٹریبونل کو ایک آزاد، خودمختار اور غیر جانب دار ٹریبونل کی حیثیت سے کام کرنے کے قابل بنانے کے لیے مطلوب وسائل بھی فراہم نہیں کیے گئے‘‘۔
’’حقیقت یہ ہے کہ بنگلہ دیشی حکومت کی پہلے دن سے یہ کوشش رہی ہے کہ کوئی بین الاقوامی ماہر قانون اس ٹریبونل کے سامنے پیش نہ ہو۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ کئی عالمی ماہرین قانون نے بنگلہ دیشی حکومت کو جنگی جرائم کے ان نام نہاد مقدمات میں معاونت کی پیش کش کی، مگر ہربار اس پیش کش کو قبول کرنے سے انکار کردیا گیا۔ ایسا غالباً اس لیے کیا گیا ہے کہ بنگلہ دیشی حکومت کو یہ خوف لاحق ہے کہ غیر جانب دارانہ انداز سے مقدمات چلائے جانے کی صورت میں،اس کے لیے مطلوبہ فیصلوں کا حصول ناممکن ہوگا۔اس بارے میں جیوفرے رابرٹسن کی رپورٹ بہت اہم ہے،جن کے بقول: ’’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کے لیے غیرملکی اور غیر جانب دار ججوں کا تقرر لازم ہے، کیونکہ ملک کے اندر سے مقرر کیے جانے والے جج قومی عصبیت میں بہہ گئے ہیں اور قانون کے بنیادی اصولوں پر خاطرخواہ توجہ دینے میں ناکام رہے ہیں‘‘۔
’’اسی طرح بنگلہ دیش میں نام نہاد جنگی ٹریبونل کی کارروائی غیرمعمولی حد تک اُلجھی ہوئی اور متنازع ہے، جس میں انصاف کی فراہمی کے پورے عمل کو دائو پر لگادیا گیا ہے۔ مقدمات کی کارروائی کسی بھی اعتبار سے ایسی شفاف نہیں ہے کہ اس پر کہیں سے کوئی اعتراض کیا ہی نہ جاسکے۔ حالانکہ اس معاملے میں شفافیت اور جامعیت کا خیال رکھا جانا لازم ہے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں جانب داری اور ناانصافی کا الزام عائد کیا جانا بالکل فطری امر ہے۔ میں پورے یقین کی بنیاد پر یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ مدعا علیہان [جماعت اسلامی سے نامزد کردہ ملزمان] نے کسی بھی مرحلے پر معاملات کو خواہ مخواہ اُلجھانے اور بگاڑنے کی کوشش نہیں کی، اور ان کا ایسا کوئی ارادہ تھا ہی نہیں۔ وہ تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ جنگی جرائم کے نام نہاد مقدمات عالمی برادری کی نگرانی میں چلائے جائیں تاکہ غیرجانب دارانہ کارروائی کے نتیجے میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔ مگر بدقسمتی سے اس پورے عمل کا بنیادی محرک سیاسی انتقام دکھائی دیتا ہے۔ عالمی سطح پر دنیا مجموعی طور پر یہی سمجھتی ہے کہ بنگلہ دیش کی حکومت ’جنگی جرائم کی تحقیقات‘ کے نام پر اور غیرمعیاری طریق کار اپنا کر محض سیاسی انتقام لے رہی ہے‘‘۔(tobycadman.com)
عالمی ادارے اس امر میں مکمل طور پر ناکام دکھائی دیتے ہیں کہ وہ بنگلہ دیش کی غیرقانونی حکومت کو مجبور کریں کہ وہ بددیانتی پر مبنی عدالتی ڈرامے کے بجاے درست عدالتی عمل کو شروع کرے۔
نام نہاد جنگی جرائم ٹریبونل کے یہ تمام مقدمات ظاہر کرتے ہیں کہ گذشتہ برسوں میں عدلیہ میں عوامی لیگ کی سیاسی بھرتیوں نے ایسی صورت حال پیدا کردی ہے کہ وہاں کے چیف جسٹس سے لے کر نچلی سطح تک، ججوں میں انصاف کی پاس داری سے بڑھ کر زمانۂ طالب علمی کی عوامی لیگ کی سیاست پرستی رنگ جما رہی ہے۔ اسلامی قوتوں اور خصوصاً جماعت اسلامی سے نفرت کے جذبات رکھنے والے برسلز، بلجیم میں مقیم ڈاکٹر احمد ضیاء الدین اس خونیں ڈرامے کے ہدایت کار ہیں، جنھیں اکانومسٹ لندن اور وال سٹریٹ جرنل نے دسمبر ۲۰۱۲ء میں بے نقاب کردیا تھا۔ یاد رہے کہ اُس وقت مذکورہ متنازع ٹریبونل کے چیئرمین جسٹس نظام الحق اور ضیاء الدین کی اس گفتگو کو اکانومسٹ نے ان لفظوں میں شائع کیا تھا: ’’ڈاکٹر ضیاء الدین نے جسٹس نظام الحق سے کہا تھا کہ وہ جلد از جلد فیصلے نمٹائیں (فیصلوں کا مطلب سزاے موت سنانا ہے)۔ کوئی بھی آپ کو مقدمات کی سماعت سے نہیں روک سکے گا، اور ان ملزموں کو اسی سرزمین پر پھانسی دی جائے گی‘‘۔ (روزنامہ اسٹار، ڈھاکہ، ۳مارچ ۲۰۱۳ئ)۔ بیرسٹر ٹوبی کیڈمین کے بقول: ’’نظام الحق اور ضیاء الدین کی اس گفتگو سے بالکل واضح شکل سامنے آئی کہ بنگلہ دیش ’وار کرائمز ٹربیونل‘ کے سربراہ تو نظام الحق تھے، مگر وہ کام ڈاکٹر ضیاء الدین کی ہدایات کی روشنی میں کرتے تھے‘‘۔ان حقائق کی بنیاد پر نام نہاد ٹریبونل کی عدالتی دیانت کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوٹ گیا تھا۔
اس سارے پس منظر میں سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ پاکستان کا دفاع کرنے والوں کے قتلِ عام پر پاکستان کی حکومت، سیاسی پارٹیوں اور سیاست دانوں کا رویہ تقریباً لاتعلقی کا ہے۔ وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خاں نے اس المیے پر جرأت مندانہ اور حقیقت پسندانہ بیان دیا، لیکن دوسری طرف وزیراعظم اور وزارتِ خارجہ کا اس ضمن میں رویہ ناقابلِ فہم اور حددرجہ مداہنت پر مبنی ہے۔یہ اس بیماری کی علامت ہے کہ ہمارے پاکستانی حکمران، دانش ور اور صحافتی حلقے اپنے اپنے مفادات کے اسیر ہیں۔ انھیں پروا نہیں کہ پاکستان کی تاریخ کے درست تناظر کو بگاڑا جارہا ہے اور ایک نیا جعلی تناظر تیار کیا جارہا ہے۔حالانکہ ان کا دشمن اپنی تمام تر حکمت عملی اُس تاریخ کی بنیاد پربنا رہا ہے، جو خود دشمن کے ہاتھوں مسخ کرکے لکھی اور جھوٹی داستانوں کی شکل میں پھیلائی گئی ہے۔صد افسوس کہ ہمارے مقتدر اور حکمران طبقے بھی اسی پر ایمان لابیٹھے ہیں۔
بنگلہ دیش میں تمام تر ریاستی فسطائیت دراصل اسلام پسند قوتوں کو کچلنے کی سازش ہے۔ تاہم قمرالزمان کی شہادت کے باوجود اہلِ بنگلہ دیش پُرعزم ہیں، اللہ کے اس فرمان کے پیش نظرکہ اللہ کے دین کو بہرحال غالب آکر رہنا ہے۔ وہ غلبۂ اسلام کی جدوجہد کو ایک نئے عزم، ولولے اور صبرواستقامت سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِھِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ o (الصف ۶۱:۸) یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔
اسلام دشمن قوتوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ظلم و ستم اور جبر و سفاکیت سے اسلام کو غالب آنے سے نہیں روکا جاسکتا۔