دنیا بھر کے دانش ور وں کے نزدیک غور وفکر کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ: کرۂ ارض کی آبادی اس قدر تیز رفتاری کے ساتھ کیوں بڑھتی چلی جارہی ہے کہ زمین کے وسائل ختم ہونے کو آرہے ہیں او ر ایک قحط کا سا سماں پیدا ہونے لگا ہے؟۔ ایک خاص مدت کے بعد دنیا کے لوگ آخر کھائیں گے کیا اور پئیں گے کیا؟
اس مقصد کے لیے اقوامِ متحدہ جیسے بہت سے عالمی ادارے تک انتظامی منصوبے تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ ان کا مقصد یہ نہیں کہ وہ عالمی ذرائعِ حیا ت و وسائل کو مزید بڑھا ئیں، موجودہ وسائل و اسباب کو مزید ترقی دیں، اور افراد و اقوام کے عیاشانہ اخراجات کو کم کریں،بلکہ اس کے برعکس ان کی بھاگ دوڑ کا نتیجہ یہ ہے کہ خود انسانوں کی پیدایش اس زمین پر کم کردی جائے، بلکہ بالکلیہ ہی روک دی جائے۔ ان دانش وروں کے مطابق آبادی کو اس مرحلے پر اگرکہیں قدِ غن لگادی جائے تو آج کے لوگو ں کے لیے موجودہ ذخیرۂ آب وخوراک کافی ہوجائے گا۔ دراصل ان صاحبانِ دانش و بصیرت کا معاملہ مولانا مودودیؒ کے اس تبصرے کا سا ہے کہ ’’یہ لوگ خود تو ٹرین کے ڈبے میں کسی نہ کسی طرح گھس آئے ہیں، لیکن اب دوسرے مسافروں کو اس میںداخل نہیں ہونے دینا چاہتے ‘‘۔
اس بات سے قطع نظر کہ نسلِ انسانی کی پوری تاریخ میں آیا فی الحقیقت ایسی کوئی ہولناک صورتِ حال رونما ہوئی بھی ہے یا نہیں، حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں دو پہلو باہم منسلک ہیں: ۱- آبادی کا میزانیہ ۲- وسائل کا میزانیہ۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ اگر مسئلے کو حل کرنا ہے تو اس کے دونوں ہی پہلوئوں کو یکساں انداز سے دیکھا جائے ۔
حیرت انگیز طور پر شور تو بہت مچایا جاتا ہے کہ آبادی محدود کرکے نسبتاً ایک بہتر زندگی گزارنے کے قابل ہوا جائے ۔لیکن انسانی قوت و فراست کے ذریعے وسائل کو کس طرح فروغ دیا جائے، اس سلسلے میں وہ کوئی قابلِ رشک کارکردگی نہیں دکھاپاتے۔ خاندانی منصوبہ بندی کے اقدامات کے باعث گذشتہ عشروں میں آبادی میں قابلِ لحاظ کمی تو ضرور واقع ہوئی ہے لیکن یہ سوال بھی اسی طرح اہم ہے کہ اس کمی کے باعث کیا عا م لوگوں کی خوش حالی میں بھی کوئی اضافہ ہوا ہے؟۔افسوس کہ ہمارے پاس اس سوال کا جواب نفی کے علاوہ کچھ نہیںہے کیونکہ دنیا کے کروڑ ہا انسان آج بھی غربت کی آخری لکیر سے نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں۔
کسی بھی معاملے میں لوگ جب اپنے خالق ہی کو بھول جانے لگیں،جیسا کہ مغرب نے اس ضمن میں رویہ اپنایا ہوا ہے، تو بے شمار معاملات میں انھیںگمراہ کن نتائج ہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ صحیح منزل انھیں کبھی حاصل نہیں ہو سکے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بعض اقدامات غیر مرئی ہوتے ہیں جن کے ذریعے وہ اس دنیا کا انتظام و انصرام کررہا ہوتا ہے۔ایسے اقدامات ایک عام انسان تو کیا ، اعلیٰ پاے کے دانش وروں کو بھی نظر نہیں آتے۔ چنانچہ اسی کے نتیجے میں بہت سارے معاملات کہیں یکایک بالکل ٹھیک ہورہے ہوتے ہیں اور کہیں یکایک وہ بالکل بگڑے ہوئے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ دنیا بنا کر اللہ تعالیٰ ایک الگ گوشے میں کہیں بیٹھ گیا ہے، ایک بالکل گمراہ کن اور توہین آمیز نظریہ ہے۔
کیا ہم دیکھتے نہیں ہیں کہ اپنی بصیرت سے اللہ تعالیٰ نہ صرف یہ کہ وسائل میں ہر نئے دن کوئی نہ کوئی حیرت انگیز اضافہ کررہا ہے، بلکہ آبادی کے بارے میں مستقل منصوبہ بندی بھی کررہا ہے۔ آخر وہ کون ہے جس نے دنیا والوں کے لیے یکا یک پیٹرول کی دولت عطا کی ہو ، گیسوں کے ذخائر اجاگر کیے ہوںاورنقل و حمل کے تیز ترین ذرائع سامنے لایاہو ؟ یہی نہیںبلکہ ہر ہر میدان میں جس نے انقلاب جیسی صورتِ حال جنم دی ہو ؟وہ کون ہے جس نے انسانوں کی لحمیاتی ضروریات پو را کرنے کی خاطر مرغبانی اور ماہی گیری کے کاروباری استعمالات کی سمجھ عطا کی ہو؟ اور وہ کون ہے جس نے انسانوں پرجدید ترین ٹکنالوجی اس لیے الہام کی ہو کہ وہ زمین میں معجزے دکھانے شروع کردیں؟ چنانچہ اگر یہ کہا جائے کہ آبادی کی منصوبہ بندی کی فکر آج کے انسانوں سے بڑھ کر خود اللہ تعالیٰ کو ہے تو کون کہہ سکتا ہے کہ ہمارا یہ تبصرہ غلط ہے؟
دنیا کی تاریخ میں کب ہو ا ہے کہ یہاں وسائل گھٹ گئے اور آبادی سسک سسک کر ہلاک ہوگئی ہو؟ کب ایسا ہوا ہے کہ یہاں آب و دانہ ختم ہوگیا ہو اور لوگ چیختے چلّا تے پھر رہے ہوں؟بالفرض اگر ایسا کہیں ہوا بھی ہے تواس میں انسانوں کی اپنی غلط منصوبہ بندیوں، اور انسانوں اور انسانوں کے درمیان روا رکھے جانے والے تفریقی رویوں کا بہت بڑا دخل ہے۔اللہ تعالیٰ تو دنیا کے انسانوں کے درمیان کبھی تفریق نہیں کرتا۔ اس کے نزدیک یورپ کے خوش حال لوگ زمین پر رہنے کے جس قدر حق دار ہیں ، مسلم ممالک کے پس ماندہ لوگ بھی اسی قدر حق دار ہیں، خواہ دانش وروں اور جابروں کو یہ انتظام کتنا ہی بُرا کیوں نہ لگے؟
کس کو نہیں معلوم کہ ماضی قریب میں جب دنیا کی آبادی فی گھرانہ ۱۲،۱۳؍ افراد کے وسیع کنبے پر مشتمل ہوا کرتی تھی ، آج دنیا کے وسائل اس کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔ معیارِ زندگی بھی اِس دور میں پہلے سے کہیں بہتر ہے، اور آبادی کی خدائی منصوبہ بندی کی وجہ سے زمین و آسما ن کا کوئی نہ کوئی خزانہ آئے روز ہی یہاں جلوہ گر ہوتا رہتا ہے۔ دنیا کے طول و عرض میں صرف بنجر زمین اس قدر پائی جاتی ہے کہ موجودہ تعداد جتنے لوگ اس میں ابھی اور بھی سماسکتے ہیں۔
قادرِ مطلق نے جب انسانوں کو یہاں بسایا ہے تو وہ ان کی فکر بھی رکھتا ہے۔ وہ ان کے لیے وسائل بھی فراہم کرتا ہے ،اور ان کی رہایش کے لیے زمین بھی ہموار کرتا ہے۔ چنانچہ دنیا میں وہ اتنے ہی انسانوں کو بھیجتا ہے جتنی یہاں بھیجنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ زائد انسانوں کو وہ خود ہی یہاں نہیں بھیجتا ۔ یہی وجہ ہے کہ روے زمین کے تمام قابل ترین دماغوں سے بھی زیادہ علیم و خبیر اور منصوبہ بند ہستی وہی اللہ ہے۔ وہ زوجین میں ملاپ کے بعد جنین میں عموماً بس ایک ہی بچے کا استقرار کرواتا ہے اور باقی تمام بیضے ضائع کر دیتا ہے۔ ایک قابلِ لحاظ تعداد یہاں ایسے جوڑوں کی بھی ہے جن کے گھروں میں شادی کے بعد عرصۂ دراز تک ایک بھی بچہ جنم نہیں لیتا۔ کبھی کبھی دنیا میں جڑواں بچے بھی ایک ساتھ جنم لے لیتے ہیں، جب کہ شاذ و نادر ایسا بھی ہو تا ہے کہ بعض مائوں کو وہ ایک ساتھ تین تین اور چار چار بچے بھی عطا کردیتا ہے۔ چنانچہ اس کے منصوبہ ساز ہونے ہی کی یہ کھلی دلیل ہے کہ ’کثرتِ اولاد‘ کی صورتِ حال عام طور پر واقع نہیں ہوتی۔ اگر انسانوں کو وہ اسی طرح تین تین چار چار اکٹھے بھیجنے کی منصوبہ بندی کرتا،اور ہر بانجھ جوڑے کوایک دو بچوں سے ضرور ہی نوازتا ،تو کون ہے جو اس کا ہاتھ پکڑ لیتا،اور کون ہے جو اسے ایسا کرنے سے روک سکتا؟۔
اتنی واضح حقیقت کیا یہ ثابت نہیں کرتی کہ زمینی آبادی کی بہترین منصوبہ بندی اللہ تعالیٰ ہی کررہا ہے۔اور کون ہے جو ٹھیک ٹھیک اس طرح کی منصوبہ بندی کرسکے؟ درحقیقت اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ایسا کر بھی نہیں سکتا۔ انسان تو ویسے بھی محدود عقل و صلاحیت کا مالک ہے۔اس لیے ۱۰۰فی صد درست منصوبہ بندی کی توقع اس سے کی ہی نہیں جاسکتی کیونکہ وہ ٹھیک ٹھیک کبھی نہیں بتاسکتا کہ زمین کے اندر کیا کیا وسائل کہاںکہا ں پنہاں ہیں،ا ور کب برآمد ہوں گے؟۔ اسے تو ۱۰،۲۰ برسوں کے بعد جا کر اچانک خبر ملتی ہے کہ کوئی نیا ذخیرۂ وسائل زیرِ ِ زمین یا سطحِ سمندر پر ابھر آیا ہے۔تیل تو عرب ممالک میں لاکھوں سال پہلے سے موجود تھا لیکن اس موجودگی کی خبر آخرکس کو تھی؟ ٹکنالوجی کا وسیع علم بھی انسانی ذہن کو اللہ تعالیٰ ہی نے عطا کیا ہے اور اسی باعث زمین کے وسائلِ خوراک ، پیداوار، اور سہولیات وغیرہ میں ایک دم کئی گنا اضافہ ہوتا چلا گیا۔ انسانوں کو یہ سہولت اللہ تعالیٰ نے اس لیے عطا کی تھی کہ اضافہء آبادی کے باعث انسان آیندہ کہیں بھوکا ننگا نہ رہ جائے، اور نہ علاج معالجے سے محروم رہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج کے عقل مند انسانوںنے اپنے لیے زندگی کے بجاے موت کو ترجیح دی ہے۔ وہ مہلک بارودی اسلحے ایجاد کرتا ہے، ایٹم بم سامنے لے کر آتا ہے۔ پست درجے کی نفرتوں کو ابھارتا ہے۔خونی جنگوں کو اپناطریقِ زندگی قرار دیتا ہے۔تجربہ گاہوں میں نت نئے مہلک جراثیم کی پرورش کرتا ہے۔ اور بدکاری میں زنا جیسی ہلاکت خیز برائی کو عام کرتا ہے جس کے باعث دردناک اور عجیب و غریب اموات اس کا مقدر بننے لگتی ہیں۔ ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ دنیا کے موجودہ وسائل کی تقسیم میں بھی وہ کبھی منصفانہ کردار ادا نہیں کرتا۔ ایک طرف اگر وہ صومالیہ اور دیگر افریقی ممالک میں قحط کے باعث ہزاروں انسانوںکو بھوک اور پیاس سے ہلاک کر رہا ہوتا ہے تو دوسری جانب وہ دنیا بھر کے محض ۱۰ یا ۱۵ ممالک کو زمین کے تمام وسائل کا قبضہ دے دیتا ہے۔ اکثر بڑے ممالک اپنے ذخیرۂ خوراک کو محض اس وجہ سے برباد کردیتے ہیں کہ وہ ان کی ضرورت سے بہت زیادہ ہوتا ہے۔ وہی امریکا جہاں خوش حالی راج کررہی ہوتی ہے ، وہیں بے شمار امریکی آج بھی ایسے ہیں جو بھوک سے مجبور ہیں اورمکان نہ ہونے کی وجہ سے فٹ پاتھ پر زندگی گزاررہے ہیں۔
کیا یہ ایک تلخ حقیقت نہیں ہے کہ د نیا کے وسائل کا ۵۰فی صد سے زائد محض جنگوں کی نذر ہوجاتا ہے ؟۔ کیا یہ جنگیں ہماری زندگی کا حصہ نہیں بن گئی ہیں؟ کیا آج کا مہذب انسا ن بھی غیرتہذیب یافتہ اَ دوار کی طرح محض جنگ و جدل ہی میں زندگی نہیں گزار رہا ہے؟ کیا حکومتی کارپر دازان اس جنگ کے بدلے بڑھتی ہوئی عالمی آبادی کو خوراک ، لباس ، سہولیات ، تعلیم ،اور علاج وغیرہ کی آسانیاں فراہم نہیں کرسکتے؟ چنانچہ صرف اسی ایک نکتے کی بنیا د پرہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ اضافۂ آبادی کا شور مچانا، انتہا درجے کی بے وقوفی بلکہ سفاکی ہے۔ خود اپنے حصے کا کام تو ہم کرتے نہیں، اور الزام اللہ تعالیٰ پر تھوپ دیتے ہیں ۔ لہٰذاس سوال کا جوا ب اب خود ہم ہی کو دینا چاہیے کہ دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ظلم ہم کر رہے ہیں یا وہ جس نے اس کائنات کوتخلیق کیا اور چلارہاہے؟ہرروز ہی کوئی نہ کوئی خوش کن خبر ،یہ کائنات دنیا والوں کے سامنے لے کر آتی چلی جارہی ہے۔بقول اقبال ؎
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دمادم صداے کُنْ فَیَکُوْں
بے شمار مواقع و وسائل ہر عشرے دو عشرے بعد دنیا کے سامنے آتے رہتے ہیں ۔ آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ اس کے وسائل میں بھی متناسب اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔اہم بات یہ ہے کہ بے مقصد پڑی ہوئی وسیع و عریض زمین کو کثرتِ آبادی کے غم خوار اگر کاشت کاری کے لیے استعمال کریں تو وہ لاکھوں ٹن اجناس اُگلنے کے لیے آج بھی تیار ہے۔اسی طرح کتنے ہی وسائل ٹنوں کے حساب سے زیرِ زمین اب بھی مزید موجود ہیں جن کا دریافت ہونا ابھی باقی ہے۔ پس ماندہ ممالک میں نااہل حکمرانوں اوراستحصال پسند طبقے نے عرصۂ دراز سے کوئی سرگرمی نہیں دکھائی ہے کیونکہ عوام کو سہولتوں کا دیا جانا وہ پسند نہیں کرتے۔ لالچی اور استحصال کے عادی لوگوں کو اپنی دولت و اقتدار کے سوا کچھ سجھائی نہیں دیتا ؟
حقیقت یہ ہے کہ دنیا بنانے والی ہستی، اللہ تعالیٰ کو انسانوں سے نفرت نہیں بلکہ پیار ہے۔ وہ ا ن سے کراہیت نہیں محبت رکھتا ہے۔ وہ جب بھی کسی معصوم بچے کو دنیا میں بھیجتا ہے تو اسے اس دنیا کے ذخائر و وسائل کا پتا ہوتا ہے۔ نئے بچے کو دنیا میں وہ نفرت سے نہیں بلکہ پیا ر کے جذبے سے بھیجتا ہے۔ و ہ بگاڑتا نہیں ، سنوارتاہے ۔وہ تباہی و بربادی کو نہیں بلکہ امن و انصاف کو پسند کرتا ہے۔ وہ اربوں گنا آبادی کی منصوبہ بندی کو بھی انتہائی عمدگی کے ساتھ کرتا ہے، تاکہ یہ دنیا بانجھ ہوکر نہ رہ جائے۔ لہٰذااس کی منصوبہ بندی پر ہی ہمیں مطمئن رہنا چاہیے۔
انسان اگر دانش مندی کا مظاہرہ کرے تو بڑھتی ہوئی آبادی کو اپنے لیے فائدہ مند بناسکتاہے۔ مغرب فطرت سے انحراف کے نتیجے میں جہا ں سنگین ترین قلتِ آبادی کے باعث اب خود اپنی قوم کے اقلیت میں تبدیل ہوجانے کے خطرے سے دوچار ہے۔ظاہر ہے کہ مغرب کو اس بدترین صورتِ حال سے خود کو آبادی کی منصوبہ بندی کے ماہرترین گرداننے والوں نے ہی دوچار کیا ہے __ کیا بندوں کو پیدا کرنے والے سے بھی زیادہ بہتر منصوبہ بندی کوئی کر سکتا ہے!