رضی الدین سید


تحریک صہیونیت اصل میں اشکنازی یہودیوں نے شروع کی تھی، جو سرخ و سفید رنگت رکھتے ہیں اور مذہب سے جن کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس کابانی تھیو ڈور ہرزل تھاجس کے انتقال کےبعد چیم ویزمین تحریک صہیونیت کا چیرمین بنا اور قیامِ اسرائیل کے بعد وہی ملک کاپہلا صدربھی بنا تھا۔ یہ لوگ یروشلم کے صہیون پہاڑ پر تخت ِداؤد لانا چاہتے ہیں ۔ یاد رہےکہ لادینی اور مذہبی دونوں ہی قسم کے یہودی مل کر ایک ہی مقصد پر کام کر رہے ہیں کہ تخت داؤد کو لایا جائے اور صہیون پہاڑ پر رکھا جائے۔ یہ دونوں گروہ گریٹر اسرائیل کی بھی بات کرتے ہیں اور اس نکتے پر متفق ہیں کہ گریٹر اسرائیل بنانا ان کا خدائی حق ہے ۔ ان کی پارلیمنٹ اور کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ ’’اسرائیل تیری سرحدیں فرات سے لے کر نیل تک ہیں‘‘۔ بلکہ وہ تو خیبر مدینے تک پر اپنا حق جتاتے ہیں،جہاں کبھی یہودی رہے بسے تھے ۔ اسرائیل نے ۱۹۸۸ء میں ایک سکہ جاری کیاتھا، جس میں دریائے نیل سے دریائے فرات تک کا علاقہ دکھایا گیا تھا ۔لیکن وہاںکے اسٹیٹ بینک نے اس کی یہ کہہ کر تردید کی تھی کہ نقشےکی غلط تشریح کی جارہی ہے۔اسرائیلی پرچم پر بھی اوپر نیچے نیلی دو سیدھی لکیریں اسی نظرئیے کی تائید کرتی ہیں۔

ان کے پروٹوکولز میں لکھا ہوا ہےکہ’’ہماری حکومت قائم ہونےکے وقت ہمارے مذہب کے علاوہ کسی اور مذہب کا باقی رہنا مناسب نہیں۔ ضروری ہے کہ ہم ہر قسم کے اعتقادات (ایمانیات) کا خاتمہ کردیں‘‘۔ (دستاویز نمبر ۱۴-۱۷)۔ان کا مذہبی عقیدہ ہے کہ ہم اعلیٰ ترین نسل اور خدا کے چنے ہوئے بندے ہیں۔ ہم تبلیغ بھی اسی لیے نہیں کرتے کہ ہماری نسل سب سے اعلیٰ ہے ۔ اس لیے دوسری قوموں کو ہم اپنے اندر کیسے ملا لیں؟ یہی وجہ ہے کہ ان کی تعداد آج کل بھی دو یا سوا دو کروڑ سے کبھی زیادہ نہیں ہو سکی ہے ۔ پروٹوکولز کے مطابق: ’’ہم یہ چاہتے ہیں کہ دُنیا کی تمام مملکتوں میںہمارے علاوہ صرف مزدوراور محنت کش طبقہ ہو‘‘۔ جب ہماری حکومت قائم ہوگی تو ہم سب سے پہلے یونی ورسٹیوں کی تعلیم کی از سرنو تنظیم کریںگے‘‘ (دستاویز نمبر بالترتیب ۷،۹،۱۶)

صہیونی یہودی دعویٰ کرتےہیں کہ ساری دنیا ہمارے کنٹرول میں ہوگی اور اسے ہم اپنے ماتحت رکھیں گے۔ ہمارا ایک میگا کمپیوٹر ہوگا، جس میں ایک ایک شہری کا ڈیٹا رکھیں گے ۔اور جو ہماری خلاف ورزی کرے گا اسے سزائیں سنائیں گے ۔  انھوں نے تو یہاں تک کہا ہے کہ دنیا کی ہر لڑکی ہماری لڑکی ہوگی۔

پروٹوکولز زوردیتے ہیںکہ ’’ہم قتل عام کرائیںگے اور اپنے کسی مخالف کومعاف نہیں کریں گے‘‘(نمبر ۹)۔دنیا میں بے حیائی پھیلانے کے ان کے جو طریقے ہیں، ان کی تفصیل بہت لمبی ہے۔ امریکا میں انھوں نے ہالی وُڈ اسی مقصد کے تحت قائم کیا تھا۔ ہالی وڈ جب پہلی دفعہ آیا تھا تو انھوں نے کچھ بے شرمی کی باتیں شروع کی تھیں، جس پر سنجیدہ عیسائی چیخ اُٹھے تھے کہ ایسی فلمیں بند کرو جن کے نتیجے میںہماری اخلاقی قدریں کمزور ہورہی ہیں۔ نتیجے میں صہیونی کچھ پیچھے ہٹے تھے۔ مگر پھر آہستہ آہستہ لوگوں کی حِس کو سُن کرکے مطلوبہ درجے پر پہنچ گئے۔

چنانچہ اگر ہم اسرائیلیوں کی باتیں تسلیم کر لیں گے تو ہمارے پاس بچے گا کیا؟پھر مسلمانوں ہی میں سے نعوذ باللہ حج اور عمرے کو برا بھلا کہا جائے گا۔لوگ کہیں گے کہ ’’یہ سب عیاشی ہے‘‘۔ اور دبے لفظوں میں یہ کہا جانے بھی لگا ہے۔ پھر کہا جائے گا: ’’ قربانی کی ضرورت ہی کیا ہے ؟‘‘ ۔ پھر ہماری زبان بدل جائے گی ، پھرہماری نظریں بدل جائیں گی۔ یوں رفتہ رفتہ وہ ثقافتی، تعلیمی اور مذہبی و اخلاقی حوالے سے بھی آگے بڑھتے جائیں گے، بلکہ بڑھ رہے ہیں۔

قیامِ اسرائیل سے اب ۷۵ برسوں تک دہشت گردی اور نسل انسانی کے مٹانے کے رویے میں وہاں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ جو بھی وزیراعظم آتا ہے، (اِس طبقے کا یا اُس طبقے کا)، اس نے اسرائیل کی توسیع ہی کی ہے۔ شروع میں جب اسرائیل کوبرطانیہ کی جانب سے بسانے کی اجازت دی گئی تھی تو نتیجے میں انھیںسات ،آٹھ ،یادس فی صد زمین دی گئی تھی۔ مگر سوچنے کی بات ہے کہ کیوں یہ ریاست آج ا س حد سے بھی آگے بڑھ گئی ہے؟مقامی فلسطینی آبادی گھٹ گئی اور یہودی آبادی بڑھ گئی ہے ۔ تو یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوا ؟ جیسا کہ پہلے بتایاگیا کہ اسرائیل کی کوئی حدود ہی متعین نہیں ہیں۔ دنیا کا یہ واحد ملک ہے جس کی کوئی حدود نہیں ہیں ۔یہودی کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ ’’اے اسرائیل تیری سرحدیں دریائے نیل سے دریائے فرات تک ہیں‘‘۔

امریکی کار کمپنی فورڈکے بانی ہنری فورڈنے یہودیوں کے خلاف اپنی معروف کتاب The International Jews ترجمہ عالمی یہودی فتنہ گر   از میاں عبدالرشید میں صہیونیوںکی کئی خفیہ سازشوںکو بے نقاب کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں فورڈ لکھتاہے کہ ’’کالجوں میں بھی یہودیوں نے وہی طریقہ اختیارکیا ہے، جس سے وہ ہمارے گرجوں کو تباہ کرچکے ہیں۔ نوجوانوںکو یہ تاثر دیا جاتاہے کہ وہ ایک نئی عظیم تحریک میںحصہ لے رہے ہیںجو انسانوں کی فلاح کے لیے ہے ‘‘۔ وہ سوال کرتاہے کہ پھرا س کا علاج کیا ہو؟ کہتاہے کہ ’’علاج بالکل آسان ہے۔ طلبہ کو بتایا جائے کہ ان تمام افکار کی پشت پر یہودی ہیں، جوہمیں اپنے ماضی سے منقطع کرکے آئندہ کے لیے مفلوج کرنا چاہتے ہیں۔انھیں بتایا جائے کہ وہ (عیسائی طلبہ) ا ن لوگوںکی اولاد ہیں جو یورپ سے تہذیب لے کر آئے ۔تہذیب ان کی گھٹی میںپڑی ہوئی تھی۔ اور اب یہ یہودی ہمارے اند ر گھس آئے ہیں۔ ان کی نہ کوئی تہذیب ہے نہ مذہب ‘‘۔وہ مزید آگاہ کرتا ہے کہ’’ یہودیوں کی مطبوعات، کتابوں، پمفلٹوں، اعلانوں، اوران کے اداروں کے دستوروں سے ثابت ہےکہ ان کے اندر غیریہودیوں کے لیے سخت نفرت پائی جاتی ہے‘‘ (ص ۱۴، ۵۱)۔آگے زور دیتے ہوئے وہ کہتاہے: ’’اب ہرحکومت کو یہودی مسئلے کانوٹس لینا پڑے گا کیونکہ اس وقت یہ مسئلہ دنیاکے تمام مسائل سے عظیم تر ہوچکاہے۔اور ساری دنیا کےچھوٹے بڑے قومی یا بین الاقوامی مسائل،اسی کی کوکھ سے جنم لے رہے ہیں ‘‘(ص ۵۷)۔ ہنری فورڈکا زمانہ ۳۴،۱۹۳۳ء کا تھا، جب جرمنی میں ہٹلر برسرِاقتدار تھا۔ ہٹلر نے اس کتاب پر فورڈ کو مبارک باد بھی دی تھی ۔کیونکہ اس نے ہٹلر کےکام کو علمی لحاظ سےمزید آسان کیا تھا۔

ایک اور اہم شخصیت نے بھی یہودیوں کی خباثت اور گہری سازشوں سے پردہ اٹھایا ہے۔ امریکی سی آئی اے کا ایک سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر جان کولمین تھا، جواپنی تحقیقی کتاب The Conspirators Hierarchy, the Committee of 300 میں ،جو اس کے بقول صہیونیوں کی ’نادیدہ عالمی تنظیم‘ ہے، انکشاف کرتاہے کہ یہ لوگ دنیا بھر میں ایسی جنسیاتی و ہذیانی کیفیت پیداکرنا چاہتے ہیں، جس میں کسی قسم کاکوئی خوف ، جھجک ،اور شرم نہ ہو ۔ڈاکٹرکولمین نےاس مقصد کے لیے ایک نئی اصطلاح استعمال کی ہے: Mindless Sex۔ یعنی ایسی شہوت اور بدکاری جس میںکوئی بھی ،کسی سے بھی ، کہیں بھی، اور کسی طرح بھی، باہمی مصروف ہوجائے۔ (ص ۵۴)

  یہ سوچنا چاہیے کہ ان کی ایک خفیہ تنظیم فری میسینری ہے۔ عظیم ملک ترکی کو انھوں نے اسی فری میسنری تنظیم کے سائے میں کاٹ کے ٹکڑے ٹکڑے کیا تھا۔ اور اب وہ پاکستان کے وجود کےدرپے ہیں۔ان کی نظریں ایٹم بم اور پاکستان کی سلامتی پر ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان میں ۷۰ء کےعشرے میں ایک کامیاب مہم کے نتیجے میں صہیونیوں کی ’فری میسنری تنظیم‘ پر پہلے ہی پابندی لگائی جاچکی ہے۔مگر ہم دیکھتے ہیں کہ زمین پر وہ پابندی غیرمؤثر ہوچکی ہے۔ اس ’سافٹ دہشت گرد تحریک‘ کے بارے میں پاکستانی قومی سلامتی کے اداروں کو حساس اور خبردار  ہونا چاہیے۔

غرض یہ تو اپنے مقاصد کو لے کے چل ہی رہے ہیں ۔ان کے پروٹوکولز کے کل۲۴ باب ہیں جنھیں ہمیں ضرور ہی پڑھنا چاہیے۔ مطالعہ کرنا چاہیے کہ دنیا پران یہودیوں نے کس طرح قبضہ کیا تھا؟ انقلاب انگلینڈ اور انقلاب اسپین انھی کی سازشوں کی وجہ سے آیا تھا ۔ انقلاب اسپین میں ملکہ اور بادشاہ کے سروں کو اُڑایا گیا تھا ، وہ عمل بھی انھی صہیونیوںنے انجام دیا تھا۔ یہ کہیں بھی ہوں، فساد کرتے ہیں۔اور یہ وہ قوم ہے جس کے دل میں رائی کے برابر بھی رحم نہیںہے ۔

یہودی ، اقوام متحدہ سمیت دنیا کے ہر بڑے عہدے پر موجود ہیں اور وہی مسلم ممالک کی معاشی و سیاسی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ آئی ایم ایف کے شکنجے میں کسے جانے والے تمام بجٹوں کے مشیر اصل میں یہی بڑے یہودی عہدیدار ہوتے ہیں۔

دنیا بھر کے دانش ور وں کے نزدیک غور وفکر کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ: کرۂ ارض کی آبادی اس قدر تیز رفتاری کے ساتھ کیوں بڑھتی چلی جارہی ہے کہ زمین کے وسائل ختم ہونے کو آرہے ہیں او ر ایک قحط کا سا سماں پیدا ہونے لگا ہے؟۔ ایک خاص مدت کے بعد دنیا کے لوگ آخر کھائیں گے کیا اور پئیں گے کیا؟

اس مقصد کے لیے اقوامِ متحدہ جیسے بہت سے عالمی ادارے تک انتظامی منصوبے تیار  کرنے میں مصروف ہیں۔ ان کا مقصد یہ نہیں کہ وہ عالمی ذرائعِ حیا ت و وسائل کو مزید بڑھا ئیں، موجودہ وسائل و اسباب کو مزید ترقی دیں، اور افراد و اقوام کے عیاشانہ اخراجات کو کم کریں،بلکہ اس کے برعکس ان کی بھاگ دوڑ کا نتیجہ یہ ہے کہ خود انسانوں کی پیدایش اس زمین پر کم کردی جائے، بلکہ بالکلیہ ہی روک دی جائے۔ ان دانش وروں کے مطابق آبادی کو اس مرحلے پر اگرکہیں قدِ غن لگادی جائے تو آج کے لوگو ں کے لیے موجودہ ذخیرۂ آب وخوراک کافی ہوجائے گا۔ دراصل ان صاحبانِ دانش و بصیرت کا معاملہ مولانا مودودیؒ کے اس تبصرے کا سا ہے کہ ’’یہ لوگ خود تو ٹرین کے ڈبے میں کسی نہ کسی طرح گھس آئے ہیں، لیکن اب دوسرے مسافروں کو اس میںداخل نہیں ہونے دینا چاہتے ‘‘۔

اس بات سے قطع نظر کہ نسلِ انسانی کی پوری تاریخ میں آیا فی الحقیقت ایسی کوئی ہولناک صورتِ حال رونما ہوئی بھی ہے یا نہیں، حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں دو پہلو باہم منسلک ہیں: ۱- آبادی کا میزانیہ ۲- وسائل کا میزانیہ۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ اگر مسئلے کو حل کرنا ہے تو اس کے دونوں ہی پہلوئوں کو یکساں انداز سے دیکھا جائے ۔

حیرت انگیز طور پر شور تو بہت مچایا جاتا ہے کہ آبادی محدود کرکے نسبتاً ایک بہتر زندگی گزارنے کے قابل ہوا جائے ۔لیکن انسانی قوت و فراست کے ذریعے وسائل کو کس طرح فروغ دیا جائے، اس سلسلے میں وہ کوئی قابلِ رشک کارکردگی نہیں دکھاپاتے۔ خاندانی منصوبہ بندی کے اقدامات کے باعث گذشتہ عشروں میں آبادی میں قابلِ لحاظ کمی تو ضرور واقع ہوئی ہے لیکن یہ سوال بھی اسی طرح اہم ہے کہ اس کمی کے باعث کیا عا م لوگوں کی خوش حالی میں بھی کوئی اضافہ ہوا ہے؟۔افسوس کہ ہمارے پاس اس سوال کا جواب نفی کے علاوہ کچھ نہیںہے کیونکہ دنیا کے کروڑ ہا انسان آج بھی غربت کی آخری لکیر سے نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں۔

 کسی بھی معاملے میں لوگ جب اپنے خالق ہی کو بھول جانے لگیں،جیسا کہ مغرب نے اس ضمن میں رویہ اپنایا ہوا ہے، تو بے شمار معاملات میں انھیںگمراہ کن نتائج ہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ صحیح منزل انھیں کبھی حاصل نہیں ہو سکے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بعض اقدامات غیر مرئی ہوتے ہیں جن کے ذریعے وہ اس دنیا کا انتظام و انصرام کررہا ہوتا ہے۔ایسے اقدامات ایک عام انسان تو کیا ، اعلیٰ پاے کے دانش وروں کو بھی نظر نہیں آتے۔ چنانچہ اسی کے نتیجے میں بہت سارے معاملات کہیں یکایک بالکل ٹھیک ہورہے ہوتے ہیں اور کہیں یکایک وہ بالکل بگڑے ہوئے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ دنیا بنا کر اللہ تعالیٰ ایک الگ گوشے میں کہیں بیٹھ گیا ہے، ایک بالکل گمراہ کن اور توہین آمیز نظریہ ہے۔                                                                       

کیا ہم دیکھتے نہیں ہیں کہ اپنی بصیرت سے اللہ تعالیٰ نہ صرف یہ کہ وسائل میں ہر نئے دن کوئی نہ کوئی حیرت انگیز اضافہ کررہا ہے، بلکہ آبادی کے بارے میں مستقل منصوبہ بندی بھی کررہا ہے۔ آخر وہ کون ہے جس نے دنیا والوں کے لیے یکا یک پیٹرول کی دولت عطا کی ہو ، گیسوں کے ذخائر اجاگر کیے ہوںاورنقل و حمل کے تیز ترین ذرائع سامنے لایاہو ؟ یہی نہیںبلکہ ہر ہر میدان میں جس نے انقلاب جیسی صورتِ حال جنم دی ہو ؟وہ کون ہے جس نے انسانوں کی لحمیاتی ضروریات پو را کرنے کی خاطر مرغبانی اور ماہی گیری کے کاروباری استعمالات کی سمجھ عطا کی ہو؟ اور وہ کون ہے جس نے انسانوں پرجدید ترین ٹکنالوجی اس لیے الہام کی ہو کہ وہ زمین میں معجزے دکھانے شروع کردیں؟ چنانچہ اگر یہ کہا جائے کہ آبادی کی منصوبہ بندی کی فکر آج کے انسانوں سے بڑھ کر خود اللہ تعالیٰ کو ہے تو کون کہہ سکتا ہے کہ ہمارا یہ تبصرہ غلط ہے؟

دنیا کی تاریخ میں کب ہو ا ہے کہ یہاں وسائل گھٹ گئے اور آبادی سسک سسک کر ہلاک ہوگئی ہو؟ کب ایسا ہوا ہے کہ یہاں آب و دانہ ختم ہوگیا ہو اور لوگ چیختے چلّا تے پھر رہے ہوں؟بالفرض اگر ایسا کہیں ہوا بھی ہے تواس میں انسانوں کی اپنی غلط منصوبہ بندیوں، اور انسانوں اور انسانوں کے درمیان روا رکھے جانے والے تفریقی رویوں کا بہت بڑا دخل ہے۔اللہ تعالیٰ تو دنیا کے انسانوں کے درمیان کبھی تفریق نہیں کرتا۔ اس کے نزدیک یورپ کے خوش حال لوگ زمین پر رہنے کے جس قدر حق دار ہیں ، مسلم ممالک کے پس ماندہ لوگ بھی اسی قدر حق دار ہیں، خواہ دانش وروں اور جابروں کو یہ انتظام کتنا ہی بُرا کیوں نہ لگے؟

کس کو نہیں معلوم کہ ماضی قریب میں جب دنیا کی آبادی فی گھرانہ ۱۲،۱۳؍ افراد کے وسیع کنبے پر مشتمل ہوا کرتی تھی ، آج دنیا کے وسائل اس کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔ معیارِ زندگی بھی اِس دور میں پہلے سے کہیں بہتر ہے، اور آبادی کی خدائی منصوبہ بندی کی وجہ سے زمین و آسما ن کا کوئی نہ کوئی خزانہ آئے روز ہی یہاں جلوہ گر ہوتا رہتا ہے۔ دنیا کے طول و عرض میں صرف بنجر زمین اس قدر پائی جاتی ہے کہ موجودہ تعداد جتنے لوگ اس میں ابھی اور بھی سماسکتے ہیں۔

قادرِ مطلق نے جب انسانوں کو یہاں بسایا ہے تو وہ ان کی فکر بھی رکھتا ہے۔ وہ ان کے لیے وسائل بھی فراہم کرتا ہے ،اور ان کی رہایش کے لیے زمین بھی ہموار کرتا ہے۔ چنانچہ دنیا میں وہ اتنے ہی انسانوں کو بھیجتا ہے جتنی یہاں بھیجنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ زائد انسانوں کو وہ خود ہی یہاں نہیں بھیجتا ۔ یہی وجہ ہے کہ روے زمین کے تمام قابل ترین دماغوں سے بھی زیادہ علیم و خبیر اور منصوبہ بند ہستی وہی اللہ ہے۔ وہ زوجین میں ملاپ کے بعد جنین میں عموماً بس ایک ہی بچے کا استقرار کرواتا ہے اور باقی تمام بیضے ضائع کر دیتا ہے۔ ایک قابلِ لحاظ تعداد یہاں ایسے جوڑوں کی بھی ہے جن کے گھروں میں شادی کے بعد عرصۂ دراز تک ایک بھی بچہ جنم نہیں لیتا۔ کبھی کبھی دنیا میں جڑواں بچے بھی ایک ساتھ جنم لے لیتے ہیں، جب کہ شاذ و نادر ایسا بھی ہو تا ہے کہ بعض مائوں کو وہ ایک ساتھ تین تین اور چار چار بچے بھی عطا کردیتا ہے۔ چنانچہ اس کے منصوبہ ساز ہونے ہی کی یہ کھلی دلیل ہے کہ ’کثرتِ اولاد‘ کی صورتِ حال عام طور پر واقع نہیں ہوتی۔ اگر انسانوں کو وہ اسی طرح تین تین چار چار اکٹھے بھیجنے کی منصوبہ بندی کرتا،اور ہر بانجھ جوڑے کوایک دو بچوں سے ضرور ہی نوازتا ،تو کون ہے جو اس کا ہاتھ پکڑ لیتا،اور کون ہے جو اسے ایسا کرنے سے روک سکتا؟۔

اتنی واضح حقیقت کیا یہ ثابت نہیں کرتی کہ زمینی آبادی کی بہترین منصوبہ بندی اللہ تعالیٰ ہی کررہا ہے۔اور کون ہے جو ٹھیک ٹھیک اس طرح کی منصوبہ بندی کرسکے؟ درحقیقت اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ایسا کر بھی نہیں سکتا۔ انسان تو ویسے بھی محدود عقل و صلاحیت کا مالک ہے۔اس لیے ۱۰۰فی صد درست منصوبہ بندی کی توقع اس سے کی ہی نہیں جاسکتی کیونکہ وہ ٹھیک ٹھیک کبھی نہیں بتاسکتا کہ زمین کے اندر کیا کیا وسائل کہاںکہا ں پنہاں ہیں،ا ور کب برآمد ہوں گے؟۔ اسے تو ۱۰،۲۰ برسوں کے بعد جا کر اچانک خبر ملتی ہے کہ کوئی نیا ذخیرۂ وسائل زیرِ ِ زمین یا سطحِ سمندر پر ابھر آیا ہے۔تیل تو عرب ممالک میں لاکھوں سال پہلے سے موجود تھا لیکن اس موجودگی کی خبر آخرکس کو تھی؟ ٹکنالوجی کا وسیع علم بھی انسانی ذہن کو اللہ تعالیٰ ہی نے عطا کیا ہے اور اسی باعث زمین کے وسائلِ خوراک ، پیداوار، اور سہولیات وغیرہ میں ایک دم کئی گنا اضافہ ہوتا چلا گیا۔ انسانوں کو یہ سہولت اللہ تعالیٰ نے اس لیے عطا کی تھی کہ اضافہء آبادی کے باعث انسان آیندہ کہیں بھوکا ننگا نہ رہ جائے، اور نہ علاج معالجے سے محروم رہے۔ 

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج کے عقل مند انسانوںنے اپنے لیے زندگی کے بجاے موت کو ترجیح دی ہے۔ وہ مہلک بارودی اسلحے ایجاد کرتا ہے، ایٹم بم سامنے لے کر آتا ہے۔ پست درجے کی نفرتوں کو ابھارتا ہے۔خونی جنگوں کو اپناطریقِ زندگی قرار دیتا ہے۔تجربہ گاہوں میں نت نئے مہلک جراثیم کی پرورش کرتا ہے۔ اور بدکاری میں زنا جیسی ہلاکت خیز برائی کو عام کرتا ہے جس کے باعث دردناک اور عجیب و غریب اموات اس کا مقدر بننے لگتی ہیں۔ ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ دنیا کے موجودہ وسائل کی تقسیم میں بھی وہ کبھی منصفانہ کردار ادا نہیں کرتا۔ ایک طرف اگر وہ صومالیہ اور دیگر افریقی ممالک میں قحط کے باعث ہزاروں انسانوںکو بھوک اور پیاس سے ہلاک کر رہا ہوتا ہے تو دوسری جانب وہ دنیا بھر کے محض ۱۰ یا ۱۵ ممالک کو زمین کے تمام وسائل کا قبضہ دے دیتا ہے۔ اکثر بڑے ممالک اپنے ذخیرۂ خوراک کو محض اس وجہ سے برباد کردیتے ہیں کہ وہ ان کی ضرورت سے بہت زیادہ ہوتا ہے۔ وہی امریکا جہاں خوش حالی راج کررہی ہوتی ہے ، وہیں بے شمار امریکی آج بھی ایسے ہیں جو بھوک سے مجبور ہیں اورمکان نہ ہونے کی وجہ سے فٹ پاتھ پر زندگی گزاررہے ہیں۔

کیا یہ ایک تلخ حقیقت نہیں ہے کہ د نیا کے وسائل کا ۵۰فی صد سے زائد محض جنگوں کی نذر ہوجاتا ہے ؟۔ کیا یہ جنگیں ہماری زندگی کا حصہ نہیں بن گئی ہیں؟ کیا آج کا مہذب انسا ن بھی غیرتہذیب یافتہ اَ دوار کی طرح محض جنگ و جدل ہی میں زندگی نہیں گزار رہا ہے؟ کیا حکومتی کارپر دازان اس جنگ کے بدلے بڑھتی ہوئی عالمی آبادی کو خوراک ، لباس ، سہولیات ، تعلیم ،اور علاج وغیرہ کی آسانیاں فراہم نہیں کرسکتے؟ چنانچہ صرف اسی ایک نکتے کی بنیا د پرہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ اضافۂ آبادی کا شور مچانا، انتہا درجے کی بے وقوفی بلکہ سفاکی ہے۔ خود اپنے حصے کا کام تو ہم کرتے نہیں، اور الزام اللہ تعالیٰ پر تھوپ دیتے ہیں ۔ لہٰذاس سوال کا جوا ب اب خود ہم ہی کو دینا چاہیے کہ دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ظلم ہم کر رہے ہیں یا وہ جس نے اس کائنات کوتخلیق کیا اور چلارہاہے؟ہرروز ہی کوئی نہ کوئی خوش کن خبر ،یہ کائنات دنیا والوں کے سامنے لے کر آتی چلی جارہی ہے۔بقول اقبال     ؎

یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید

کہ آرہی ہے دمادم صداے کُنْ فَیَکُوْں

بے شمار مواقع و وسائل ہر عشرے دو عشرے بعد دنیا کے سامنے آتے رہتے ہیں ۔ آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ اس کے وسائل میں بھی متناسب اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔اہم بات یہ ہے کہ بے مقصد پڑی ہوئی وسیع و عریض زمین کو کثرتِ آبادی کے غم خوار اگر کاشت کاری کے لیے استعمال کریں تو وہ لاکھوں ٹن اجناس اُگلنے کے لیے آج بھی تیار ہے۔اسی طرح کتنے ہی وسائل ٹنوں کے حساب سے زیرِ زمین اب بھی مزید موجود ہیں جن کا دریافت ہونا ابھی باقی ہے۔     پس ماندہ ممالک میں نااہل حکمرانوں اوراستحصال پسند طبقے نے عرصۂ دراز سے کوئی سرگرمی نہیں دکھائی ہے کیونکہ عوام کو سہولتوں کا دیا جانا وہ پسند نہیں کرتے۔ لالچی اور استحصال کے عادی لوگوں کو اپنی دولت و اقتدار کے سوا کچھ سجھائی نہیں دیتا ؟

حقیقت یہ ہے کہ دنیا بنانے والی ہستی، اللہ تعالیٰ کو انسانوں سے نفرت نہیں بلکہ پیار ہے۔ وہ ا ن سے کراہیت نہیں محبت رکھتا ہے۔ وہ جب بھی کسی معصوم بچے کو دنیا میں بھیجتا ہے تو اسے اس دنیا کے ذخائر و وسائل کا پتا ہوتا ہے۔ نئے بچے کو دنیا میں وہ نفرت سے نہیں بلکہ پیا ر کے جذبے سے بھیجتا ہے۔ و ہ بگاڑتا نہیں ، سنوارتاہے ۔وہ تباہی و بربادی کو نہیں بلکہ امن و انصاف کو پسند کرتا ہے۔ وہ اربوں گنا آبادی کی منصوبہ بندی کو بھی انتہائی عمدگی کے ساتھ کرتا ہے، تاکہ یہ دنیا بانجھ ہوکر نہ رہ جائے۔ لہٰذااس کی منصوبہ بندی پر ہی ہمیں مطمئن رہنا چاہیے۔

 انسان اگر دانش مندی کا مظاہرہ کرے تو بڑھتی ہوئی آبادی کو اپنے لیے فائدہ مند بناسکتاہے۔ مغرب فطرت سے انحراف کے نتیجے میں جہا ں سنگین ترین قلتِ آبادی کے باعث اب خود اپنی قوم کے اقلیت میں تبدیل ہوجانے کے خطرے سے دوچار ہے۔ظاہر ہے کہ مغرب کو اس بدترین صورتِ حال سے خود کو آبادی کی منصوبہ بندی کے ماہرترین گرداننے والوں نے ہی دوچار کیا ہے __ کیا بندوں کو پیدا کرنے والے سے بھی زیادہ بہتر منصوبہ بندی کوئی کر سکتا ہے!

یورپ اور امریکا میں عیسائیوں کی کم ہوتی، اور مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس معاملے کو سرسری انداز سے دیکھنے والے حضرات، ان مسلم دانش وروں پر جو اس کے اثرات کا تجزیہ کرتے ہیں، طنزیہ فقرے کستے ہیں کہ: ’’مسلمان تو بس اسی بات پر خوش ہوئے جارہے ہیں کہ مغرب اور دنیا بھر میں ان کی آبادی تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے‘‘۔ معلوم ہونا چاہیے کہ بات اتنی سرسری سی بھی نہیں ہے۔ آبادی کے اُتارچڑھائو، اور توازن و عدم توازن کے تہذیبی و تمدنی اثرات ہوتے ہیں۔

سادہ سی بات یہ ہے کہ اگر کسی دیگر مذہب کے اضافۂ آبادی سے مغربی ملک میں ان کی اپنی مقامی و دیرینہ آبادی اقلیت میں تبدیل ہوجاتی ہے، نتیجتاً وہاں کی معاشرت، مذہب ، طرزِ تعمیر، کاروبار، اور تعلیم و سیاست وغیرہ سب پر نمایاں اثرات چھوڑتی ہے۔ جیساکہ ہم یورپ کے بعض علاقوں میں آج نمایاں طور پر دیکھ رہے ہیں کہ وہاں حیران کن طور پر مسجدوں کے مینار، حجاب و نقاب اور اُردوو عربی الفاظ ۵۰ اور ۶۰ کے عشروں کے مقابلے میں بہت زیادہ دکھائی دے رہے ہیں۔

عدم توازن کی ابتدا:

یورپ میں صنعتی احیا کے بعد سے معاشرے کی اخلاقی و دینی قدروں میں جو زوال تیزی کے ساتھ رُونماہوا تھا، اس میں معاش کے بعد سب سے مرکزی توجہ ’عورت‘ ہی پردی گئی تھی۔ اس دور کی عام گھریلو عیسائی عورت کو راہِ راست سے ہٹاکر محض بازار کی جنس بنائے جانے کی ہمہ گیر مہم کے پیچھے جو قوتیں تھیں، ان میں ’یہودی‘ سرفہرست تھے۔ حقیقت   یہ ہے کہ اس کے پسِ پردہ ’آبادی گھٹائو اور عیش کرو‘ کا نعرہ کارفرما تھا۔ اس مقصد کے لیے ترغیب، رنگینی، انعامات،تحریص، دھونس اور دھمکی کے تمام حربے استعمال کیے۔ دُوراندیشی کی صفت سے محروم عورت بہرحال اس دامِ ہم رنگ میں پھنستی چلی گئی۔ نہ صرف یہ کہ وہ گھر سے باہر نکلی، بلکہ لباس کو بھی مختصر کیا، نہ صرف یہ کہ تمام عشوہ و ادا سے خود کو لیس کیا، بلکہ شادی شدہ ہونے کی صورت میں بچوں کو جنم دینے سے بھی وہ کترانے لگی۔ مادّہ پرست (یا مادَہ پرست) عناصر نے اس کا وہ سب سے بڑا جذبہ بھی بالآخر اس سے سلب کرلیا جس کی وجہ سے خالقِ کائنات نے اسے تمام مخلوقِ انسانی پر فضیلت عطا کی تھی، یعنی اس کا ’جذبۂ مادری‘ ۔

کم از کم دو سو برس پہلے اُٹھنے والی ’آبادی کم کرو‘ کی اس مہم پر کم اور زیادہ مسلسل عمل کرتے رہنے کے باعث مغرب کی صورتِ حال اب یہ ہوچکی ہے کہ پورے براعظم یورپ، اور براعظم  شمالی امریکا میں مقامی عیسائی آبادی آج نمایاں ترین قلت کا شکار ہو رہی ہے جسے دیکھ کر  ان کے ماہرین، اپنے ہی آباواجداد کے اس فلسفیانہ نعرے پر سر پکڑے ہوئے بیٹھے ہوئے ہیں۔

وہ بجا طور پر سوچ رہے ہیں کہ آج اگر ان کی آبادی کی صورتِ حال اس قدر پریشان کن ہے تو مزید تین چار عشروں کے بعد، یعنی ۲۰۵۰ء یا ۲۰۶۰ء تک پہنچ کر تو ان کے اکثر بڑے شہر ازخود مسلم شہروں میں تبدیل ہوجائیں گے اور ان کی حیثیت اپنے ہی شہروں میں ’اقلیت‘ کی شکل اختیار کرلے گی۔

ماضی کی مغربی آبادی کی خصوصیات کا مطالعہ اگر کسی نے کیا ہو تو اسے نظر آئے گا کہ آج سے محض سوسال پہلے تک مغربی گھرانوں، حتیٰ کہ خود بادشاہوں تک کے ہاں بھی آٹھ آٹھ اور دس دس اولادیں ہوا کرتی تھیں۔ ملکہ وکٹوریا برطانیہ (۱۸۹۱ء-۱۹۰۱ء) کے نو بچے تھے، جب کہ اس کے بیٹے جارج پنجم کے ہاں چھے بیٹے تھے ۔

لیکن بُرا ہو اس تصورِ مساوات، اور نام نہاد آزادیِ نسواں کی تحریک کا، جس نے مغرب کی عقلوں پر گذشتہ دوسو برسوں سے آج تک پردہ ڈال رکھا ہے۔ کسی قوم کی بربادی میں اس سے بڑاعامل اور کیا ہوگا کہ اس کی پوری کی پوری آبادی کی عقلوں پر محض چند سرغنہ ماہر افراد قبضہ کر کے بیٹھ جائیں اور اسے ہربات صرف اپنے ہی نقطۂ نظر سے سوچنے پر مجبور کردیں۔ سارے مغرب میں صورتِ حال آج یہی ہے۔ اگرچہ تمام عیسائی قوم قلت ِ آبادی کے شدید مسئلے سے دوچار ہے، لیکن افسوس کہ اب اس کی اصلاح بھی نہیں کی جاسکتی۔

مغربی آبادی کی تازہ ترین صورت حال

صورتِ حال کی بہتر تفہیم کی خاطر گھٹتی ہوئی اس آبادی کی چند مثالیں رسائل و جرائد سے اخذ کر کے ذیل میں پیش کی جاتی ہیں۔ اعداد و شمار آگاہ کرتے ہیں کہ:

  • اب سے بیس سال کے اندر اندر تک ۳۰ تا ۴۰ فی صد یورپی شہر مسلمان ہوچکے ہوں گے۔ (اوریانہ فلاسی، اطالوی صحافی، بحوالہ روزنامہ ڈان، کراچی ، ۱۳مارچ ۲۰۰۵ء)
  • l ۲۰۴۰ء تک برطانیہ میں عیسائی آبادی ۷۲ فی صد سے گھٹ کر محض ۳۲ فی صد تک رہ جائے گی۔ (روزنامہ نوائے وقت، کراچی ، ۶ستمبر ۲۰۰۵ء)
  • موجودہ صدی کے اختتام یعنی ۲۰۹۹-۲۰۹۰ء تک یورپ ایک مسلم اکثریتی علاقہ    بن جائے گا (برنارڈ لوئس، نوائے وقت، ۱۹جون ۲۰۰۵ء)
  • گلاسگو یونی ورسٹی میں ’رلیجیس اسٹڈیز‘ کی پروفیسر ’’نکول بورگ‘‘ کا کہنا ہے کہ: ’’وہ گلاسگو برطانیہ کے علاقے میں ایسے تنہا۲۰۰؍ افراد کو جانتی ہے جنھوں نے عیسائیت ترک کر کے اسلام قبول کیا ہے‘‘۔ (نوائے وقت، کراچی، ۵ مارچ ۲۰۰۷ء)
  • برطانوی پالیسی ساز ادارے ’کرسچئین ریسرچ‘ کا کہنا ہے کہ ۲۰۲۳ء تک برطانیہ کے ۴ہزار چرچ بند ہوجائیں گے۔ (نوائے وقت،کراچی، ۱۵مارچ ۲۰۰۷ء)
  • برطانیہ کے صرف ایک شہر برمنگھم میں ۱۶۵؍ مراکز ایسے ہیں جہاں یا تو مسجدیں پائی جاتی ہیں، یا وہاں نماز کے لیے جگہیں (Prayer Area)مخصوص ہیں۔
  • نائن الیون کے بعد امریکا میں مساجد کے قیام میں ۷۴ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ ۲۰۰۰ء تک امریکی ریاستوں میں مساجد کی تعداد ۱۲۰۹ تھی، جب کہ ۲۰۱۱ء تک وہ ۲۲۰۶ تک پہنچ چکی تھی اور صرف نیویارک شہر میں ۲۰۱۱ء تک مساجد کی تعداد ۱۹۲ تھی (روزنامہ جنگ کراچی ،۲مارچ ۲۰۱۰ء)۔ اُدھر خود ویٹی کن (روم) سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بھی اعتراف کیا گیا ہے کہ زیادہ شرحِ پیدایش اور قبولِ اسلام کے بعد مسلمانوں کی تعداد پاپاے روم کے ماننے والے کیتھولک عیسائیوں سے بھی زیادہ ہوگئی ہے۔ رپورٹ کہتی ہے کہ ساڑھے چھے ارب کی عالمی آبادی میں کیتھولک عیسائیوں کی تعداد ۴ء۱۷ فی صد ہے ، جب کہ مسلمانوں کی تعداد ۲ء۱۹ فی صد ہے۔ (بحوالہ جنگ، کراچی، ۳۱ مارچ ۲۰۰۸ء)

اس مختصر جائزے کے بعد اب ہم یہ دیکھنا چاہیں گے کہ تحلیل ہوتی ہوئی مغربی، اور اضافہ پاتی ہوئی مسلم آبادی کے اثرات مغربی دنیا پر کیا پڑ رہے ہیں؟

مغربی دنیا پر اثرات:

حقائق اور اعداد و شمار آگاہ کر رہے ہیں کہ آبادی کے اس اُلٹ پھیر کے نتیجے میں یورپی ممالک کے قوانین میں مسلمانوں کے لیے گنجایشیں نکالی گئی ہیں۔  ان کی تہذیب میں مسلم تہذیب نے راستے بنائے ہیں، اذانوں اور مسجدوں کی کثرت ہوئی ہے، حجاب،پردہ اور داڑھی ہر جگہ نمایاں نظر آنے لگے ہیں۔ مدارس اور دارالعلوموں کا سلسلہ جاری ہوا ہے۔ رمضان کے روزے اور تراویح کا چلن وسیع ہوا ہے۔ ذرائع ابلاغ، خصوصاً ٹی وی چینلوں پر مسلم علما، اسکالرز اور دیگر اہم شخصیتیں پیش ہونے لگی ہیں۔ ان کے لیے خصوصی پروگرام نشر کیے جانے لگے ہیں۔ ان کی سرکاری کابینائوں میں مسلم وزرا کا تقرر بھی ہونے لگا ہے۔ مذکورہ تبدیلیوں میں سے چند ایک کا ذکر اب ہم یہاں علیحدہ سے بھی کریں گے۔

حلال خوراک:

مغربی دنیا میں چونکہ حلال خوراک کا تصور نہیں ہے ، اس لیے وہاں منتقل ہونے والے مسلمان تاحیات سبزی اور انڈوں پر گزارا نہیں کرسکتے تھے۔ اس لیے اِکّا دکّا حلال ذبیحوں اور طعام گاہوں کا رواج شروع ہوا، جس کے بعد اب حال یہ ہے کہ حلال کھانے اور ذبیحے والا گوشت وہاں پہلے کی نسبت زیادہ آسانی سے دستیاب ہے۔

مستندحلال فوڈز کے ادارے بھی قائم ہونے لگے ہیں۔ اس طرز کے ادارے نہ صرف   یہ کہ اسلامی دنیا میں قائم ہیں بلکہ خود یورپی ممالک اور امریکا میں بھی موجود ہیں۔ حلال خوراک کی مقبولیت کا حال یہ ہے کہ ان مصنوعات کی عالمی صنعت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔

ایک خبر کے مطابق عالمی منڈی میں حلال خوراک کا حجم دو کھرب ڈالر تک پہنچ چکا ہے (جنگ، کراچی ۲۷ ؍اپریل۲۰۱۴ء)۔ ادھر جرمنی میں ’حلال کنٹرول‘ کمپنی گذشتہ چودہ برسوں سے کام کر رہی ہے، جو پورے یورپ میں مختلف مصنوعات کے حلال اور اسلامی معیار کے مطابق ہونے کی تصدیق کرتی ہے۔ ’فوڈ اینڈ نیوٹریشن کونسل آف امریکا‘ کے مطابق امریکا میں حلال مصنوعات کی قومی منڈی کی مالیت ۲۰؍ارب ڈالر ہے۔ (روزنامہ جنگ، کراچی، ۱۶مارچ ۲۰۱۴ء)

غیر سودی بنکاری:

روایتی اور استحصال پسندانہ سودی بنکاری نے دنیا بھر کے لوگوں کو جو معاشی و ذہنی نقصان پہنچایا ہے، اس کے نتائج سے وہ چیخ اُٹھے ہیں۔ اس کا متبادل صرف اسلامی غیرسودی بنکاری ہی تھا، جسے پہلے پہل بعض عرب ممالک نے، اور بعدازاں پاکستان اور ملیشیا وغیرہ نے بھی اختیار کیا۔ تاہم اب حال یہ ہے کہ خود مغربی بنکوں نے بھی عرصہ دراز سے اسے اپنے ہاں رواج دیا ہوا ہے۔ اکثر بڑے بنکوں نے مسلم اور مقامی سرمایہ کاروں کی سہولت کی خاطر غیرسودی شعبے قائم کردیے ہیں جن کی سربراہی مسلم دنیا کے معروف اسکالر کر رہے ہیں۔

فروری ۲۰۱۴ء تک کی رپورٹ کے مطابق ۵۸ (مسلم و غیرمسلم) ممالک میں ۴۰۰ اسلامی مالیاتی ادارے کام کر رہے ہیں۔ ان اعداد و شمار میں تکافل کمپنیاں شامل نہیں ہیں۔ دوسری طرف موجودہ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے بیان دیا ہے کہ: ان کا ملک اسلامی بنکاری کو      خوش آمدید کہنے میں فخر محسوس کرے گا۔ (روزنامہ جنگ، کراچی، ۳۰؍اکتوبر ۲۰۱۳ء)

حجاب اور داڑھی کا رواج:

مغربی دنیا داڑھی اور پردے سے جس قدر ’وحشت زدہ‘ رہتی تھی، اسی قدر وہاں ان کا رواج بڑھ رہا ہے۔ مسلم دنیا سے مغرب کی جانب نقل مکانی کی شرح جس تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے، پردے اور حجاب پر جمی رہنے والی خواتین، اور داڑھی رکھنے پر اصرار کرنے والے مرد بھی اس برہنہ معاشرے میں نمایاں نظر آرہے ہیں۔ نوائے وقت کراچی کی ایک خبر (۱۱؍اکتوبر ۲۰۰۹ء) کے مطابق پیرس کے ایک نواحی علاقے ’بیلیولی‘ میں متعدد مسلم خواتین پردے میں دکھائی دیتی ہیں، جس سے یہ خیال پیدا ہو رہا ہے کہ یورپ کے مسلمان تارکینِ وطن کے باعث وہاں مسلم کلچر کو ’غلبہ‘ حاصل ہو رہا ہے۔ مصری خاتون مروۃ الشربینی شہید پر جرمنی میں عین عدالتی کارروائی کے دوران جو اپنے شوہر کے ساتھ نقاب میں گواہی دے رہی تھی کہ   ایک گورے جنونی نے حملہ کر کے اسے شہید اور اس کے شوہر کو زخمی کردیا تھا۔

ایک اور خبر کے مطابق لندن میں ایک جج نے مسلم ’نقاب پوش‘ خاتون کی گواہی قبول کرلی۔ خاتون نے کہا کہ وہ عدالت میں سب کے سامنے اپنا نقاب نہیں اُٹھا سکتی کیونکہ اس کا مذہب اسے ایسا کرنے سے روکتا ہے۔ جواب میں عدالت نے کہا کہ وہ اس کے عقائد کا تحفظ کرے گی اور اس کا چہرہ محض بند کمرے ہی میں دیکھے گی، تاکہ فیصلے پر پہنچنے میں آسانی ہو۔ (جنگ، کراچی، ۱۷ستمبر ۲۰۱۳ء)

قوانین میں لچک:

ایک خبر کے مطابق ریاست نیویارک میں مسلم پولیس افسروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ خبر کے مطابق دونوں محکموں کے پولیس افسران میں ایسے نوجوان بھی ہیں جو نماز، روزے اور حج و عمرے کی ادایگی کے لیے علانیہ چھٹیاں کرتے ہیں، جب کہ بعض پولیس افسران باقاعدہ روزے رکھ کر بھی اپنے فرائض ادا کر رہے ہیں۔ روزنامہ جنگ (۳جولائی ۲۰۱۳ء) کے امریکا میں متعین نمایندے کی ایک رپورٹ کے مطابق نیویارک پولیس نے ایک کتابچہ تیار کیا ہے جس کا نام ہی Commanders Guidelines for Ramzan ہے اور اس میں غیرمسلم پولیس افسروں کی تفہیم کے لیے مسلمانوں کی ادایگیِ عبادت کی پوری تفصیل دی گئی ہے۔

اسی طرح پروٹسٹنٹ چرچ آف انگلینڈ نے کہا ہے کہ: برطانیہ کے چند علاقوں میں اسلامی قوانین کو شامل نہ کرنا اب ممکن نہیں رہا ہے۔ برطانوی اسکالر ڈاکٹر رووِن نے راے دی ہے کہ اسلامی شریعت کے کچھ حصے اختیار کرنے سے برطانیہ میں سماجی ارتباط میں مدد ملے گی۔ (روزنامہ جسارت اور اُمت، کراچی، ۹فروری ۲۰۰۸ء)

حکومتوں پر مقامی دباؤ:

مغربی ممالک میں مسلم آبادی کے مناسب اضافے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ممالک کی حکومت پر مناسب سیاسی و مذہبی دبائو ڈال سکتے ہیں، جب کہ حکومت بھی اس اثر کو محسوس کرسکتی ہے۔ امریکا میں یہودی اپنی اس حیثیت سے خوب فائدہ اُٹھاتے ہیں اور دبائو ڈال کر اپنے مطالبات منواتے ہیں۔ پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو ترجیح دینے کی بیرونی ممالک کی حکمت عملی مسلم دشمنی کے علاوہ اس کی کم و بیش ایک ارب کی آبادی کا رُعب بھی ہے جس کے باعث انھیں وہاں ایک عظیم مارکیٹ دستیاب ہوتی ہے۔

عبایا کا فروغ:

مسلم دنیا میں خواتین کے عبایا کو جس قدر فروغ حاصل ہو رہا ہے، مغربی فیشن ڈیزائنر بھی عبایا کی مارکیٹنگ کے لیے ازخود ڈیزائننگ اور نمایش کر رہے ہیں، جس سے عبایا اور اسکارف کو خود بخود عالمی شہرت اور طلب حاصل ہورہی ہے۔ سلمیٰ نامی ایک عالمی فیشن ڈیزائنر خاتون بیان کرتی ہیں کہ عربی ملبوسات و عبایا، مغربی خواتین میں بھی راہ بنانے لگے ہیں۔ (روزنامہ جنگ، اپریل ۲۰۱۴ء)

اسلامی دعوت کا فروغ:

مغربی ممالک میں چونکہ تحریر و تقریر کی خاصی آزادی ہے۔ اس لیے وہاں کے دعوتی اور جوشیلے نوجوان مرد و خواتین اب کھلے عام سڑکوں اور بازاروں میں  اسٹال لگاکر Islam - The Religion of Today کے نمایاں بیج لگاکر مسیحیوں، ہندوئوں اور یہودیوں کو انفرادی طور پر دعوت دیتے نظر آتے ہیں۔ ان کے پاس انگریزی ترجمہ شدہ خوب صورت قرآنِ مجید ہوتے ہیں جو وہ اپنے مخاطبین کو بلامعاوضہ ہدیہ کرتے ہیں۔ اسی طرح وہاں کے  نومسلم مقامی افراد بھی اپنی تحریروں، تقریروں ، کانفرنسوں اور ٹی وی مذاکروں کے ذریعے دعوتِ دین کے کام کو فروغ دینے میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ ان میں سے بعض جوشیلے مقامی خواتین و حضرات  تو کھلے عام یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ ہم خود اپنے ملک میں بھی ’شریعت‘ نافذ کرنا چاہتے ہیں۔

یہ بیان کرنا بھی یہاں ضروری ہے کہ مغرب میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی ہی کا ایک اظہار یہ بھی ہے کہ اب ان کی قومی زبانوں میں اُردو اور عربی الفاظ بھی داخل کیے جانے لگے ہیں، مثلاً جہاد، اُمہ، رمضان، اُخوت وغیرہ۔ فرید زکریا اپنی کتاب ’امریکا کے بعد کی دنیا‘ میں آگاہ کرتے ہیں کہ امریکا کی ایجادات میں بے پناہ اضافہ اس وجہ سے بھی ہو رہا ہے کہ غیرملکی آبادی (بشمول مسلمان) وہاں کثرت سے پائی جاتی ہے (ص۱۸۳)۔ یہی نہیں بلکہ امریکا میں پینٹاگون، ناسا اور خود امریکی افواج میں بھی مسلم ماہرین اپنی خدمات انجام دیتے نظر آرہے ہیں۔

مغرب میں مسلم اثرات و دعوت کے بڑھتے ہوئے ان اثرات کی ایک بڑی وجہ وہاں پائی جانے والی تحریر و تقریر کی آزادی، اور عمومی رواداری و برداشت کا عنصر ہے ، تاہم کچھ حکمتیں اللہ تعالیٰ کی اپنی بھی ہیں۔ مغربی دنیا چاہے یا نہ چاہے، اسلام تو ان کے شہروں اور ملکوں میں بالادست ہوکر ہی رہے گا بلکہ عین ممکن ہے کہ اسلام کا ظہورِ ثانی بھی اب خود انھی کے اپنے ممالک سے ہو۔

پِلٹ ڈائون میں

برطانوی مفکر ’چارلس رابرٹ ڈارون (۱۸۰۹ء-۱۸۲۲ء) ، ایک ڈاکٹر کا بیٹااور ایک بایالوجسٹ تھا،ا ور خوش حال خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ اس نے اپنے دور میں نظریۂ ارتقا پر ایک کتاب On the Origin of Species تحریر کی تھی جس میں اس نے اپنی تحقیقات سے ثابت کیا تھا کہ ہر جان دارنے درجہ بدرجہ ترقی کرکے ہی اپنی موجودہ اصلی شکل اختیار کی ہے۔اس کا کہنا تھا کہ، مثلاً زرافے نے اپنی موجودہ گردن اونچی اونچی شاخوں سے غذا حاصل کرنے کے لیے ہی رفتہ رفتہ لمبی کی تھی۔ وہ کہتا ہے کہ انسان نے بھی درجہ بدرجہ ترقی کرتے ہوئے ہی اپنی موجودہ انسانی شکل اختیار کی ہے۔اس کے نزدیک بندر (چیمپینزی) نے پہلے پہل اپنے اگلے دونوں پائوں اُوپر اٹھائے تھے ،جھکی ہوئی حالت میں زندگی گزارنے کے قابل ہوا تھا، اورپھرر فتہ رفتہ اس کے جسم کے گھنے بال کم ہونے شروع ہوئے تھے ۔اس کے بعد ہی سے اس میں عقل کی نشوو نما بھی ہونے لگی تھی۔  چنانچہ قطعی حتمیت کے ساتھ اس کا کہنا ہے کہ انسان کے آبا ؤ اجداد اپنی اصل میں بندر تھے۔وہ زور دیتا ہے کہ انسان پہلے ’انسا ن نما بندر ‘، پھر ’بندر نما انسان‘، اور پھر آخر کار ’ مکمل انسان ‘بن سکا ہے۔

ڈارون کے اس انکشاف نے سائنس دانوں کی ایک بڑی تعداد کو گویا ہلا کر رکھ دیا تھا اور  وہ اس پر بلا تردّد ایمان رکھنے لگے ۔ حیرت انگیز طور پر آج کا ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ یہودی، ربی، ’بنجامن بلیخ ‘بھی اس کے نظریے کی تائید کرتا  ہوا نظر آتا ہے  ۔وہ سوال کرتا ہے کہ ’’ ہمیںتورات کی جانب دیکھنا چاہیے کہ وہ اس ضمن میں ہمیں کیا سکھا تی ہے؟ ۔ وہ کہتی ہے کہ موجودہ دنیا،     اپنی تکمیلی حالت میں ترقی کرتے ہوئے ہی اس آج کے دور تک نمودار ہوسکی ہے۔ بنجامن سمجھاتا ہے کہ تورات بیان کرتی ہے کہ’’ خدا نے تخلیقِ کائنات کا جب منصوبہ بنایا تھا تو سب سے پہلے دن  اس نے ’دن ‘کو جنم دیا تھا ۔پھردوسرے دن اس نے’ آسمان ‘کی پیدایش کی تھی۔ تیسر ے دن ’ اس نے ’خشک زمین ‘کو جنم دیا تھا۔ چوتھے دن سورج اور چاند تاروں کی تخلیق۔ پانچویں دن ’مچھلیوںاور پانی‘ کی تخلیق، اور آخری اور چھٹے دن’ چوپایوں اور انسانوں ‘کی تخلیق کی تھی‘‘۔ ربی’ بنجامن‘    سوال کرتا ہے کہ پھر اگر انسان بھی اسی طرح بندر کی شکل و صورت ،اور عادات و اطوار سے تبدیل ہوتے ہوتے موجودہ اصل انسانی حالت میں سامنے آیا ہے تو اس میں اچنبھے کی کیا بات ہے؟۔ (Jewish History and Culture ،امریکا،ص ۳۸-۳۹)۔اتفاق دیکھیے کہ کمیونزم کا بانی کارل مارکس بھی ڈارون کی اس کتاب پر اپنی پسندیدگی کااظہار کرتاہو ا نظر آتا ہے۔

 ربی کا یہ بیان بہرحال ہمیں یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی دشواری پیدا نہیں کرتا کہ یہودی مذہبی زعما بھی ڈارون کے نظریے سے متفق نظر آتے ہیں۔پھریہیںسے یہ بات بھی سمجھ میں آجاتی ہے کہ مفاد پرست حضرات جھوٹ اور فاسد امور کی خاطر دلائل بھی آخر کہاں کہاں سے لے کر آتے ہیں، یعنی وہ اس معاملے میںمقدس کتابوں تک کو بھی نہیں بخشتے!                                            

ایک طویل مدت تک ڈارون کے اس نظریے کی تشہیر ہوتی رہی۔ اپنی اصل الٰہی تخلیق، حضرت آدم ؑ و حو ؑا کو چھوڑ کر انھوں نے خود کو بآسانی بن مانسوں کی اولاد قرار دے لیا تھا۔اگرچہ   اس نظریے کے رد میں آج خود مغرب سے بے شمار کتابیں منظرعام پر آرہی ہیں لیکن کوئی مضائقہ نہیںاگراس کے ایک دو پہلوؤں کا ہم خود بھی جائزہ لے لیں۔                                                                

کہاگیا تھا کہ انسان بننے کی جانب قدم اٹھاتے ہوئے اس نے پہلے اپنے اگلے دونوں پائوں اٹھا لیے تھے اور جھک کر چلنے لگا تھا (اس قسم کی مفروضہ تصاویر بھی انسائی کلو پیڈیا میں عام نظر آتی ہیں)۔ تاہم عقل ان کی اس دلیل کو تسلیم کرنے سے اِبا کرتی ہے ۔ وہ اسے پہلی فرصت ہی میں رد کردیتی ہے کیونکہ انسان کچھ عرصے کے لیے تو جھک کر چل سکتا ہے لیکن اس صورت میں وہ خود کو مسلسل برقرار نہیں رکھ سکتا ۔ایسا کرنااس کے بس کی بات ہی نہیں ہے۔ حیوانات بے فکر ہو کر، اور آرام سے یا تو چاروں ہاتھ پائوں کی مدد سے چل سکتے ہیں یا پھر محض دو پیروں کی مدد سے۔لیکن یہ کہ ان کے پیر تو چار ہوں اور وہ چلیں سیدھے ہوکر محض دو پیروں کی مدد سے ، تویہ عمل حیوانات کے لیے ممکن ہی نہیں ہے! پھر یہ بھی کہا گیا کہ ارتقا کی منزل ہی میں زرافے نے اُونچے درختوں سے غذا حاصل کرنے کے لیے اپنی گردن موجودہ شکل میں تبدیل کی تھی۔حالانکہ یہ بھی محض ایک واہمہ ہی ہے کیونکہ سائنس دانوں نے بہت تحقیق کے بعد آگاہ کیا ہے کہ اب سے چار پانچ ہزار سال پہلے کے زرافے کے جو ڈھانچے دریافت ہوئے ہیں ،ان میں بھی اس کی گردن آج ہی کی مانندلمبی پائی گئی ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ڈارون کے نظریات و انکشافات شکوک و شبہات کی نذر ہونے لگے ۔ حیرت انگیز طورپر سائنسی تحقیق سے صورت حال ایک بالکل نئے انداز سے سامنے آنے لگی۔ معلوم ہو ا کہ حقائق وہ نہیں ہیں جو ڈارون نے پیش کیے تھے ،بلکہ حقائق اس کے ماسوا کچھ اور ہیں۔ سائنس دانوں نے بتایا کہ ڈارون نے اپنے یہ نظر یات کسی بھی لحاظ سے ٹھوس بنیادوں پر استوار نہیں کیے ہیں۔ بات کی وضاحت کی خاطر انھوں نے اس موضوع پر دلائل بھی فراہم کیے، اور مضامین و مقالات کا ایک نہ رُکنے والا سلسلہ بھی شروع کیا ۔انھوں نے بتایا کہ انسان اپنی ابتدا میں بھی آج ہی کی طرح کاایک مکمل انسان تھا جس کا بندروں کی نسل چیمپینزی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ لیکن حقائق کی روشنی میں لائے جانے کے باوجود مذکورہ بالاگمراہ کن نظریہ آج بھی حسب ِ سابق شدومد کے ساتھ پھیلا یا جارہا ہے۔نئی تحقیقات اپنی جگہ ،لیکن ڈارون کا نظریۂ ارتقا اپنی جگہ!۔ آخر ایسا کیوں ہے؟اس کی وجہ یہی ہے کہ دہریے نظریات کے حامل دانش ور ان، دنیا کے لوگوں کو    ان کے تخلیق کرنے والے خدا سے بالکل کاٹ کے رکھ دینا چاہتے ہیں۔ وہ ہرگز نہیں چاہتے کہ مذہب اور خدا کا دنیا میں کہیں بھی چرچا ہوتا رہے۔ اسی سلسلے کو یہ لوگ ’الیو میناتی نظام‘(یعنی روشنی کا نظام)قرار دیتے ہیں۔ الیومیناتی دانش وران قرار دیتے ہیںکہ دنیا میں محض ان کے جنم شدہ شیطانی نظام ہی کو بالادستی دی جانی ہوگی اور اسی کا سکہ یہاں رائج ہو کر رہے گا۔اگرچہ وہ اسے ’روشنی کا نظام ‘ قرار دیتے ہیں لیکن اپنی اصل میں یہ ’ اندھیرے اور شیطنیت کا نظام‘ ہے ۔

چنانچہ انھی کے تربیت یافتہ مادہ پرست ذرائع ابلاغ ،اور روحانیت سے جان چھڑانے والے باغی سائنس دان ہیں جن کی تاریک کتابیں روشنی کے اس دور میں بھی مسلسل سامنے آتی چلی جارہی ہیں۔عالمی ذرائع ابلاغ بھی انھی کی مانند اس نظریے کو فروغ دینے میںپیش پیش ہیں، کیونکہ ان کی توفطرت ہی یہ ہے کہ حقائق سے زیاد ہ وہ افسانوںاور سنسنی خیزیوںمیں دل چسپی لیتے ہیں۔ یہی ان کے روزگا ر کی شاہ کلید بھی ہے۔ چنانچہ انسانی ارتقا کے مختلف درجوں کی فرضی تصویریں دنیا بھر میںپھیلا دینے والے لوگ اور ادارے بھی یہی ہیں۔ انھی مفکرین نے کمپیو ٹر کی چال بازیوں کی مدد سے مردوں اور عورتوں(انسانوں) کو مکمل برہنہ حالت میں جسم پر گھنے بال رکھے ہوئے دکھا یا ہے اور انھیں تعلیمی نصاب میں شامل کروایا ہے۔ بلکہ حیرت انگیز طورپر وہ تو ان کے جسموں پر پتے بھی نہیں دکھاتے جن کا وہ تعلیمی اسباق میں بہت چرچاکرتے ہیں ۔حالانکہ بندر نما انسان یا انسان نما بندر اگر کسی حد تک چلنے پھرنے کے قابل ہوگیا تھا اور اس کا دماغ بھی کم از کم کسی درجہ ’ذہنی ترقی‘ بھی کرچکاتھا، تو اپنے پوشیدہ حصوںکو تو اسے فوراً ہی ڈھانپنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی کیونکہ شرم و حیا تو اللہ تعالیٰ نے جانوروںکے ا ندربھی رکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ مر غی سب کے سامنے کبھی انڈے نہیں دیتی اور جانور اپنی دموں کو عموماًگرا کر ہی رکھتے ہیں ۔

آج کی ترقی یافتہ خواتین بھی چوبیس گھنٹے اور تین سو پینسٹھ دن بغیر لباس کے زندگی نہیں گزار سکتیں ۔کیونکہ مرد ہو یا عورت ، انسان اپنی شرم و حیا کے ہاتھوں مجبور ہے۔ دوسری جانب موسموں کے بھی اپنے کچھ تقاضے ہوتے ہیں!۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ضمن میں ان الیومیناتی لوگوںکو ایک تصویر بھی اپنی اصلی حالت میں حاصل نہیں ہوسکی ہے!۔ سائنسی حقائق کے پہلو بہ پہلو یہ لوگ جعلی و مسترد شدہ نظریات کو بھی مسلسل گردش میں رکھتے ہیں ۔

پروپیگنڈا اصل میں ایک بہت طاقت ور ہتھیا ر ہے ۔ صحیح یا غلط ، دونوں نظریات کو بلا جبر، دنیا بھر کی ۷؍ ارب کی آبادی سے اگرازخود منوانے کا کسی کا ارادہ ہو تو کتب، رسائل ،اور دیگر  ذرائع ابلاغ ،اس کی اس آرزو کو چندسالوں ہی میں بآسانی پورا کرسکتے ہیں، جب کہ ان کی مدد کے بغیر ان کاذب نظریات کا رد ، اور اصل حقائق سے لوگوں کی با خبری،تقریباً ناممکن بنا دی جاتی ہے!۔

پِلٹ ڈاؤن مین (Piltdown Man)

ڈارون کے نظریے کی اشاعت کے کچھ ہی عرصے کے بعد اس کے خیالات کو بہ لطف و کمال آگے بڑھانے والے دین بے زار سائنس دانوں نے پھر ایک اور چال بھی چلی۔ انھوں نے بہت بعد میںایک ایسا درمیانی انسان بھی’دریافت ‘ کر لیا جو بقول ان کے ۳۰۰، ۴۰۰ سالوں کے بعد   بس مکمل انسان کی شکل میں ڈھلنے ہی والا تھا۔

یہ ۱۹۱۲ء کی بات ہے جب انگلینڈ میں اسی کے تقریباً ہم نام ایک اور سائنس دان چارلس ڈاسن نے برطانوی گائوں Piltdown  میں ایک حیوانی سر کا ڈھانچا پایا جس کی خصوصیت یہ تھی کہ اس کے سر کا ڈھانچا اور جبڑے کی ہڈی چیمپینزی کی، اور دانت انسانوں کے سے بتائے گئے تھے۔ چنانچہ اس کے بعد حتمی طور پر طے کردیا گیا کہ ڈارون کی جانب سے پیش کیا جانے والا نظریۂ ارتقا بالکل درست تھا،اور یہ کہ یہ انسان اس کا عملی و عقلی ثبوت ہے ۔ ڈھانچا چونکہ ’پِلٹ ڈائون ‘ نامی علاقے برطانیہ سے ملا تھا،اس لیے ڈھانچے کو بھی Piltdown Man  کہہ کر پکارا جانے لگا ۔

اپنی اس دریافت پر سائنس دان اس درجے خوش ہوئے کہ پھر اس پر وہ تحقیقی مقالے لکھنے لگے اور اسے نصاب میں شامل کروایا۔ کہا گیا کہ انسانی و حیوانی یہ ڈھانچا کم از کم ۵لاکھ سال پرانا ہے ۔مزید یہ بھی کہا گیا کہ یہ ڈھانچا کسی یورپی فرد کا ہے، جب کہ بعض اخبارات نے حسبِ دستور اسے کسی عورت کا ڈھانچا گردانا!۔ اپنے کارنامے پر یہ حضرات اس درجے پُر مسرت تھے کہ اس پر کم از کم ۵۰۰مقالے لکھے گئے اور ۴۰برسوں تک اسے اہمیت دی جاتی رہی۔ حدیہ ہے کہ آج کل کے ’ایچ جی ویلز‘ اور ’برٹرینڈ رسل‘ جیسے معروف دانش ور حضرات بھی اس پروپیگنڈے سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور انھوں نے اسے اپنی کتابوں بالترتیب  The Outline of Historyاور     A History of  Western  Philosophy  میں انسان کی جدید علمی فتوحات میں شمار کیا۔ تاہم دھوکے بازی زیادہ دیر تک اپنا بھرم نہیں رکھ سکی کیونکہ دھوکا بازی بہرحال دھوکا بازی ہی ہوتی ہے اور حقائق بہرحال اپنا آپ منوا کر ہی رہتے ہیں۔چنانچہ ۴۰برسوں کے بعد جاکر کہیں پتا لگا کہ   اس ڈھانچے کی تمام تر کہانی بے بنیاد ہے۔

برطانوی عجائب گھر کے ایک نگراں Kennith Okley  نے ۱۹۵۲ء میں اس پر کچھ مزید طبی و سائنسی تحقیقات کیں تو پتا لگا کہ اس کے بارے میں جو کچھ کہا اور لکھا گیا ہے ، وہ کئی لحاظ سے درست نہیں ہے۔ ا س نے آگاہ کیا کہ کسی فرد نے چیمپینزی کے بڑے دانتوں کو گھس کر انسانوں  جیسا چھوٹا کیا ہے اور ڈھانچے کو ایک خاص رنگ سے رنگ دیا ہے تاکہ ایک نئی انسان و بندر نما  شکل سامنے آسکے۔                                                      

اس نئے انکشاف نے تو گویا سائنس کی دنیا میں ایک بار پھر وہی قدیم ہلچل مچا دی ۔کس کو پتا تھا کہ عظیم سائنس دان ’ڈارون‘ کا نظریہ یوں بالکل تار تار ہوجائے گا کیونکہ اس طرح کی  صورتِ حال کا کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا۔بہرحال بہت چھان پھٹک کرنے کے بعد آ خر کا ر اعلان کردیا گیا کہ ’’دریافت شدہ ڈھانچا سائنسی لحاظ سے تاریخ کا سب سے بڑا دھوکا ہے !‘‘۔ جدید ماہرین نے واضح کیا کہ مذکورہ ’ شکل و صورت‘ میں بعض جعل سازیاں کی گئی ہیں اور انسان کی شکل میںڈھالنے کی ایک دانستہ کوشش کی گئی ہے۔ نیز یہ کہ چیمپینزی کا جبڑا وغیرہ بھی کسی لاکھوں سال پہلے کا نہیں بلکہ محض حالیہ مرے ہوئے کسی بندر کا ہے۔ اس انکشاف کے نتیجے میں ہلچل کے بعد سے پلٹ ڈائون مین کا وہ ڈھانچا برطانوی عجائب گھر سے فوری طور پر ہٹا دیا گیا جہاں ۴۰برسوں سے وہ مسلسل دنیا کی’ معلومات‘ میں اضافہ کررہا تھا!۔

ڈارون اور اس کے قبیل کے دیگر مفکرین کے یہ نظریات علمی وسائنسی فضا میں تقریباً ایک صدی محض اس لیے چھائے رہے کہ اس دور تک جدید سفری آسانیاں ، حساس تحقیقاتی آلات ، خورد بین ودُوربین، تشخیصی سہولتیں ، سائنسی علوم، اور غور و فکر کی صلاحیتیں وغیرہ، ہمہ معیاری اور بااعتماد حد تک سامنے نہیں آسکی تھیں۔لیکن جوں جوں سائنس آگے بڑھتی رہی ،اور علم اپنا دامن وسیع تر کرتا رہا، ڈارون کے نظریات بھی اسی لحاظ سے شکوک و شبہات کی زد میں آتے چلے گئے۔

حقائق اور تہہ تک پہنچ جانے والے علم کی آج کی یہ دنیا، نہ تو چارلس ڈارون کے نظریۂ ارتقا کو درست مانتی ہے اور نہ چارلس ڈاسن کے خود ساختہ ’پِلٹ ڈائون مین‘ کو کوئی اہمیت دینے کو تیار ہے۔ کل کا دھوم مچادینے والا ’پِلٹ ڈائون مین‘ آج کا محض افسانہ بن کر رہ گیا ہے!

_______________

کتابیات

۱- ہارون یحییٰ Tell Me About  the Creation - New Delhi 

۲- انسائی کلوپیڈیا، جلدنمبر۱۲،کولییرز،امریکا      ۳- انٹر نیٹ ، وکی پیڈیا سرچ

۴- Jewish History and Culture, Alpha Publishers, U.S.A.

۵-عظمتِ قرآن، مولانا وحید الدین خان، بھارت

زبانیں ہمیں تہذیب کا سفر طے کراتی ہیں۔وہ اپنا آغاز ایک بالکل اجنبی اور نامانوس زبان کی حیثیت سے کرتی ہیں، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ،اور مختلف تہذیبوں کے ملتے جلتے رہنے کے باعث ایک بالکل ہی نئی اور شان دار حیثیت سے دنیا کے سامنے آتی ہیں۔ علم وادب کا ایک وسیع ذخیرہ اور الفاظ ومعانی کا ایک دریا ان کے اندر موجود ہوتا ہے۔ دنیا کی کسی بھی زبان کو دیکھیں۔ وہ اس زبان سے قطعی مختلف ہوگی، جو اپنی ابتدا میں تھی، حتیٰ کہ اکثر اوقات اس ابتدائی زبان کو خود اس کے اپنے ماہرین بھی سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ فرانسیسی، لاطینی، انگریزی، اردو اور فارسی وغیرہ نے تاریخ کے سفر میں اَن گنت شکلیں بدلی ہیں اور تب جاکر وہ آج کی موجودہ شکل میں ہمارے سامنے آئی ہیں۔

اصولاً یہ معاملہ قرآن پاک کی عربی زبان کے ساتھ بھی پیش آنا چاہیے تھا۔ اسے بھی تبدیل ہوکر کچھ سے کچھ ہوجانا چاہیے تھا۔ قرآن پاک آج سے ۱۵سو سال قبل نازل ہوا تھا، چنانچہ اُس وقت کی عربی زبان ، آج کی اس اکیسویں صدی میں ہمارے لیے بالکل اجنبی ہونا چاہیے تھی۔ اگر فی الحقیقت ایسا ہوا ہوتا، تو قرآن پاک سے ہمارا رشتہ آج ٹوٹ چکا ہوتا اور دین اسلام ہمارے لیے اجنبیت اختیار کرجاتا۔بالکل اسی طرح جیسے انجیل اور تورات کی اصلی زبانیں آج کہیں موجود نہیں ہیں او ر  یہ دونوں کتابیں اب ہمارے ہاں غیر مستند سمجھی جاتی ہیں۔ لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ قرآن پاک کی عربی آج بھی اپنے اندر حُسن، کشش،ادبی ذخیرہ اور زبان وبیان کا اعلیٰ مقام لیے ہوئے ہے۔ اس عربی کا کوئی بھی لفظ آج تک نہ متروک ہوسکا ہے اور نہ اس سے برتر کوئی اور لفظ سامنے آسکا ہے۔

 جیسے جیسے اسلام کی اشاعت کرّۂ ارض پر ہوتی چلی گئی ، اسے اسی قدر نت نئی زبانوں سے سابقہ بھی پیش آتا رہا۔ جب اسلام یورپ، ایشیا اور افریقہ  جیسے دیگر براعظموں کے اندر داخل ہوا تو عربی سے واقف کوئی ایک فرد بھی وہاں موجود نہ تھا۔ اسلام نے وہاں بعض علاقوں میں ۵۰۰سے۶۰۰ برسوں سے زیادہ حکم رانی کی ہے ،مگر کسی جگہ کی کتنی ہی طاقت ور زبان، عربی زبان پر اثر انداز نہ ہوسکی۔ عراق، مصر ، ایران اور روم بڑی جان دار تہذیبوں کے مراکز تھے، لیکن ان میں سے کوئی بھی تہذیب عربی زبان کو مسخر نہ کرسکی، بلکہ اس کے برعکس الٹا عربی زبان ہی نے ان کی زبانوں میں بڑے بڑے ردّوبدل کردیے، حتیٰ کہ ان کی زبانیں اور طرز تحریر تک بدل کے رکھ دیے۔ جیسا کہ ہم اپنی مقامی سندھی زبان کو دیکھتے ہیں کہ سندھ کی عرب فتوحات کے بعد اس کا رسم الخط تبدیل ہوکر عربی ہوگیا۔

اس قرآنی زبان کو مٹانے کے لیے بڑی بڑی تدبیریں اختیار کی گئیں۔ ایرانی حکم رانوں نے عربی کے کتب خانوں کو جلایااور مدرسوں کو اجاڑدیا۔ انگریزوں اور فرانسیسیوں نے عربی زبان کے خلاف اپنی پوری قوت صَرف کردی اورتمام تعلیم انگریزی اور فرانسیسی زبان میں دینے لگے، لیکن اس کے باوجود تمام علاقوں میں عربی زبان بدستور اپنی اصل حالت میں موجود رہی ۔اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ قرآن پا ک ایک زندۂ جاوید کلام کی حیثیت سے سدا سے موجود چلا آرہا ہے۔

قبل اسلام، عرب میں اچھے شعر کی ایک تعریف یہ بھی رائج تھی کہ اس میں زیادہ سے زیادہ جھوٹ شامل ہونا چاہیے، اور اس جھوٹ میں شدید مبالغہ آرائی ہونی چاہیے۔ لیکن قرآن پاک نے سورۂ رحمن میں حقائق کا اتنا خوب صورت بیان کیا کہ اس سے زیادہ خوب صورت بیان ممکن نہیں تھا۔اسی وجہ سے اسے عروس القرآن(قرآن کی دلہن) کا خطاب دیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن پاک کی عربی نے عربوں کو نت نئے الفاظ ہی نہیں دیے بلکہ ان کے وسیع مفا ہیم بھی دیے جن سے پہلے وہ خود بھی ناآشنا تھے۔

زبانوں کی ترقی وتبدیلی میں اُدبا اور شعر ا کا سب سے زیادہ کردار ہوتا ہے۔ہر بڑا شاعر اور ادیب زبان کو نئے زاویے اور نئی حیات عطا کرتا ہے۔ زبانیں اسی طرح بدلتی ہیں، یہاں تک کہ دوتین صدیوں کے بعد اوّلین زبان کو لوگ شرحوں اور لغتوں کے بغیر سمجھ بھی نہیں پاتے!۔ اس کلیے میں صرف ایک استثنا ہے اور وہ ہے عربی زبان کا استثنا۔ عربی آج بھی اسی آسانی اورفصاحت سے سمجھ میں آجاتی ہے، جیسی کہ وہ اپنے اوّلین دور میں سمجھی جاتی تھی۔ بے شک حالات کے حساب سے چند نئے الفاظ اور اصطلاحات بھی عربی میں رائج ہوئیں، لیکن قرآن کی عربی مبین پر وہ ہر گز اثر انداز نہ ہو سکیں۔ زندگی کے حقائق کو قرآن پاک نے اتنے فصیح وبلیغ عربی انداز میں بیان کیا ہے کہ دنیا میں کوئی شخص بھی اس سے بہتر زبان اور انداز میں انھیں بیان نہیں کرسکتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قرآن پاک کے الفاظ میں معنی کے لحاظ سے بے حد وسعت ہوئی اور اس کے جدید ترین مطالب سامنے آئے ہیں۔ یقینا مستقبل کی صدیوں میں ان کے مزید جدید مطالب سامنے آئیں گے جن کی مدد سے اس دور کا ماحول اوربھی بہتر انداز میں سمجھ میں آسکے گا۔ لیکن مطلب کی اس جدت نے عربی الفاظ اور اصطلاحوں کو متروک اور ناکارہ نہیں کیا،بلکہ آج بھی ان کی تازگی اور حُسن پہلے ہی کی طرح برقرار ہے۔ ابتدائی دور کا کوئی عرب زندہ ہوکر آج اگر عرب ممالک میں اپنی گفتگو کرے تو اس کی زبان صدیوں کے فاصلے کے باوجود اسی کے زمانے کے مطابق سمجھی اور سنی جائے گی۔

معروف انگریز مؤرخ فلپ کے حِتی اپنی کتاب ہسٹری آف دی عربسمیں اعتراف کرتا ہے کہ’’ قرآن پاک کی عربی اتنی ہمہ گیر اور مکمل ہے کہ مختلف عربی لب ولہجے کے باوجود عربی زبان کے ٹکڑے نہیں ہوئے حالانکہ خود رومی زبان بھی بعد میں کئی حصوں میں تقسیم ہوگئی تھی۔    بے شک ایک عراقی یمنی عربی کی زبان سمجھنے میںمشکل محسوس کرے گا لیکن وہ اسی کی لکھی ہوئی عربی کو بآسانی سمجھ لے گا‘‘ (ص ۱۲۷)۔عالم اسلام کے ممتاز مفسر سید قطب شہیدؒ کہتے ہیں کہ جو ممالک اسلام کے لیے مفتوح ہوئے اور جہاں بہت سے غیر معمولی عصری علوم وفنون اُبھر کے سامنے آئے، وہ ان کی اپنی اور اصل قدیم زبانوں میں نہیں بلکہ اس نئی زبان، اس دین کی زبان، اسلامی زبان (عربی) میں سامنے آئے۔ ان نئے حقائق، نئے فنون ،اور نئے افکار کو پیش کرتے وقت یہ بات بالکل ظاہر نہ ہوتی تھی کہ یہ اجنبی زبان میں ہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان علوم وفنون کے لیے عربی زبان گویا ان کی اپنی مادری زبان بن گئی تھی۔(فی ظلال القرآن،جلد سوم، ص۳۱۲)

تفسیر مذکورہ کے مترجم عالم دین سید حامد علیؒ اس تشریح کے ضمن میں مزید حیرت انگیز وضاحت کرتے ہیں کہ تفسیر ،فقہ، کلام، تصوف، فلسفہ، جغرافیہ، سائنس، عربی لغات اور تاریخ وغیرہ، تمام علوم وفنون میں چھوٹی بڑی بلکہ ضخیم مجلدات تصنیف کرنے والے لوگ ۹۰ فی صد عجمی تھے اور انھوں نے یہ سارا کام عربی زبان میں اس طرح کیا  تھا کہ گویا وہ ان کی اپنی ہی زبان ہو۔ یہی نہیں بلکہ اس دور میں پوری متمدن(ومہذب) دنیا کی علمی زبان عربی تھی۔(ایضاً ص۳۱۲)۔ یہ جو   آج ہم ماضی کے مسلم مفکرین و سائنسدان، مثلاً ابنَ فرناس، ابنِ سینا، ابنِ بطوطہ، ابنِ خلدون اور علامہ ابنِ کثیر وغیرہ کے کارنامے سنتے اور پڑھتے ہیں ، وہ سب کے سب عرب خطوںکے باشندے  بہرحال نہیں تھے ۔ لیکن انھوںنے اپنی کثیر تصنیفات کا  بیش تر حصہ عربی زبان ہی میں تیا ر کیا تھا۔

اپنی اصل میں عربی زبان محض ایک زبا ن ہی ثابت نہیں ہوئی بلکہ وہ ایک تہذیب ساز عامل بھی بن کے سامنے آئی۔ دنیا کے جس خطے میں بھی وہ گئی ، اس نے وہاں جا کر ایک بالکل ہی نئی تہذیب کی بنیاد رکھ دی۔دنیا کی موجودہ عالمی زبانوں کی لغت میں آج لاتعداد الفاظ عربی کے پائے جاتے ہیں کیونکہ دنیا کے ایک تہائی خطے پر کبھی اسلام کا پرچم لہرایا کرتا تھا۔ astrolobe, stable, camel, sugar, zenith,  lick,  rim,  وغیرہ جیسے الفاظ دراصل عربی الاصل ہی ہیں۔

ایک مغربی مفکر نے۱۸۹۰ء میںکتنی اچھی بات کہی تھی کہ’’ عربی زبان کا نہ کوئی بچپن ہے نہ بڑھاپا۔ وہ اپنے ظہور کے پہلے دن جیسی تھی، ویسی ہی آج بھی ہے‘‘۔ گویا وہ شروع ہی سے ایک بالغ اور بھر پور زبان رہی ہے ۔واضح رہے کہ اس نے عربی کی یہ تعریف اٹھارھویں صدی کے آخری دور میں کی تھی ،جب کہ زمانہ آج اکیسویں صدی کا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی تمام زبانوں میں عربی زبان سے زیادہ کوئی اور زبان معجزاتی نہیں ہے اور نہ کسی اور زبان میں الفاظ کا اتنا ذخیرہ ہی موجود ہے جتنا عربی زبان میں ہے۔کیونکہ بعض اوقات صرف ایک اسم کے تعارف کے لیے اس میں ۵۰ سے زیادہ الفاظ پائے جاتے ہیں۔ اسی لیے اس کے بارے میں یہ کہنا بجا ہے کہ عربی وہ زبان ہے جسے وقت کی آندھیاں بوسیدہ نہ کر سکیں!

سید مودودیؒ کے بقول:’’۱۴ سو برس گزرنے کے بعد بھی آج تک یہ کتاب اپنی زبان کے ادب کا سب سے اعلیٰ نمونہ ہے جس کے برابر تو درکنار، جس کے قریب بھی عربی زبان کی کوئی کتاب اپنی ادبی قدروقیمت میں نہیں پہنچتی۔ یہی نہیں، بلکہ یہ کتاب عربی زبان کو اس طرح پکڑ کر بیٹھ گئی ہے کہ ۱۴ صدیاں گزر جانے پر بھی اِس زبان کا معیارِ فصاحت وہی ہے جو اس کتاب نے قائم کر دیا تھا، حالانکہ اتنی مدت میں زبانیں بدل کر کچھ سے کچھ ہو جاتی ہیں۔ دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں ہے جو اتنی طویل مدت تک املا، انشاء، محاورے، قواعدِزبان اور استعمالِ الفاظ میں ایک ہی شان پر باقی رہ گئی ہو۔ لیکن یہ صرف قرآن کی طاقت ہے جس نے عربی زبان کو اپنے مقام سے ہلنے نہ دیا۔ اُس کا ایک لفظ بھی آج تک متروک نہیں ہوا ہے۔ اُس کا ہر محاورہ آج تک عربی ادب میںمستعمل ہے۔ اُس کا ادب آج بھی عربی کا معیاری ادب ہے، اور تقریر و تحریر میں آج بھی فصیح زبان وہی مانی جاتی ہے جو ۱۴۰۰برس پہلے قرآن میں استعمال ہوئی تھی۔ کیا دنیا کی کسی زبان میں کوئی انسانی تصنیف اِس شان کی ہے؟‘‘(تفہیم القرآن، جلد۵، ص ۱۷۵-۱۷۶)

 

اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام کا نظامِ معیشت ایک مستحکم اور پُر رحمت معاشی نظام ہے، جس کی بنیاد انسان دوستی پر ہے۔ ’’جو کچھ ہے، انسان کے لیے ہے اور جو کچھ بھی کیا جائے گا، انسانوں ہی کے لیے کیا جائے گا‘‘، یعنی اصل اہمیت انسان کی اور اُسے آسانی اور سہولت مہیا کرنے کی ہے، جب کہ دیگر معاشی نظاموں میں ذاتی مفادات، خواہشاتِ نفس اور پرستش دولت و وقار کو تمام تر اہمیت حاصل ہے۔ یہ ایک بہت بڑا جوہری فرق ہے جو اسلامی اور غیر اسلامی معاشی نظاموں کو ایک دوسرے سے جدا کرتاہے۔ لہٰذا بنیادی مقاصد کے شدید اختلاف کے باعث ہی ہردو کے معاشی اقدامات بھی بالکل جدا جدا ہوتے ہیں۔ ایک کے اقدامات انسانوں کے باہمی احترام اور ان کی لازوال فلاح و بہبود کی طرف رہنمائی کرتے ہیں، جب کہ دوسرے نظام کے اقدامات سے سنگ دلی، انسانوں کی بے احترامی اور آمدوخرچ میں استحصال کا راستہ کھلتا ہے۔

مغربی نظام معیشت کا رائج الوقت مادی اصول یہ ہے کہ قیمتوں کا تعین طلب و رسد کی فضا سے ہوتا ہے۔ بظاہر دل کو لگنے والا یہ اصول اندر سے دراصل ایک جارح اصول ہے۔ مغربی ماہرین معیشت فرماتے ہیں کہ مارکیٹ میں جب طلب اشیا میں اضافہ ہوگا تو لازم ہے کہ وہاں قیمتوں میں بھی اسی حساب سے اضافہ ہو، اور جب رسد اشیا (supply) میں اضافہ ہوگا تو قدرتی طور پر اشیا کی قیمتوں میں بھی اسی حساب سے کمی ہوگی۔ حالانکہ دیکھا گیا ہے کہ جب اشیا کی رَسد میں اضافہ ہوا ہے تو عموماً ان اشیاء کی قیمتیں نہیں گر سکی ہیں، یا اگر گرائی گئی ہیں تو متناسب لحاظ سے نہیں گرائی گئی ہیں۔ خصوصاً ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک میں تواس کلیے پر بہت ہی کم عمل ہوتا ہے۔ تاہم اپنی جگہ پر یہ بات بھی بہت اہمیت کی حامل ہے کہ اگر طلب بڑھ بھی جائے تب بھی اشیا کی قیمتیں بڑھا دینا محض منافع خوری اور بے رحمی کا ایک طریقہ ہے۔ ان ’سنہری‘ موقعوں پر تاجران و صنعت کاران کی دیرینہ تمنا ہوتی ہے کہ مذکورہ اصول کو آڑ بنا کر ڈھیروں منافع ایک ساتھ کما لیا جائے۔ حالانکہ انسان دوستی کے لحاظ سے اگر اس طرزِعمل کا جائزہ لیا جائے تو یہ وہ زمانہ ہوتا ہے جب ضرورت کے مارے ہوئے لوگوں کو کم از کم پرانی قیمت پر تو اشیا کی فراہمی جاری رکھی ہی جانی چاہیے۔ انسانوں کو مصیبت میں مبتلا دیکھ کر بے رحمی سے اپنی جیبیں بھرنا مغربی طرزِ معیشت تو ہوسکتا ہے،اسلامی نہیں۔ اگر مارکیٹ میں اشیا کی قلّت پائی جاتی ہے اور ان کی مانگ میں اضافہ ہوگیا ہے تو وہاں موجود  ذخیرۂ اشیا کو تو بہرحال ایک مقام پر آکے ختم ہو ہی جانا ہے، خواہ پرانی قیمت پر فروخت کرکے یا خواہ من مانی زائد قیمت پر نکاسی کرکے۔ اس لیے ایسے موقعوں پر بے رحمی اختیار کرنا اور ناجائز منافع خوری کا فیصلہ کرنا کہاں کی انسان دوستی اور کہاں کا ’سنہرا‘ اصول ہے؟

اس کے برعکس اسلامی نظامِ معیشت ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ضرورت کے موقعوں پر ہم اپنے بھائیوں کے لیے دستِ تعاون مزید دراز کریں اور منافع جاتی لحاظ سے اگر قیمتیں کم نہ کرسکیں تو انھیں کم از کم اتنی بلندی پر تو نہ لے جائیں کہ ضرورت مند فرد سسکنے اور مرنے پر تیار ہوجائے۔  خلیفۂ ثانی حضرت عثمان غنیؓ بذاتِ خود ایک بڑے تاجر و کامیاب درآمد و برآمد کنندہ تھے۔ لیکن مکّے کے ایک سنگین قحط کے دوران آپؓ نے اشیاے خوردونوش سے بھرے ہوئے کئی اُونٹوں کو مکّے کے شہریوں میں فی سبیل اللہ محض مفت تقسیم کروا دیا حالانکہ مکّے کے تمام بڑے تاجر آپ کو مذکورہ مال کی ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر پیش کش کررہے تھے۔ کیا حضرت عثمانؓ کے لیے یہ ایک بہترین موقع نہیں تھا کہ وہ بھی ایک عام تاجر کی مانند مذکورہ اصول پر عمل کر کے زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹ لیتے؟ لیکن اس موقع پر انھوں نے محض خوفِ خدا اور انسان دوستی کا ثبوت دیا۔ اسلام دراصل کاروباری شخصیات کو آنے والی دوسری دنیا کے منافع کی طرف بھی متوجہ رہنے کی ہدایت کرتا ہے۔

معیشت کے سلسلے میں ایک معروف حدیث یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی ہے کہ مزدور کو مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اداکردو۔ اگرچہ یہ ایک مختصر سی ہدایت ہے لیکن اپنی روح کے اعتبار سے یہ ایک ایسا زریں اصول ہے جس کی بنیاد پر ملازمین کو دکھ اور غم سہنے کا کوئی موقع ہی نہ ملے۔ پسینہ خشک ہونے سے قبل ہی ادایگی کر دینے کا مطلب اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ اوّل تو ملازم کو اس کی گھریلو معیشت چلانے میں کبھی کوئی دقت پیش نہ آئے، اور دوسرے آجر کے خلاف اس کے دل میں کبھی کوئی کینہ نہ پیدا ہو۔ ملازموں سے کام تو پورا لینا لیکن معاوضوں کے لیے انھیں تڑپانا، استحصال نہیں تو اور کیا ہے! ہمارے تمام آجران اگر اس سنہرے اصول پر عمل کرنا شروع کر دیں تو ملازموں کی جانب سے انھیں کبھی ہڑتال یا فیکٹری کا پہیہ آہستہ کر دو اور مظاہروں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ خود صنعتی امن قائم رکھنے کے لیے بھی یہ ایک سنہرا اصول ہے۔

ایک دوسری ہدایت میں آپؐ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر تمھارا غلام (ملازم) دھوئیں، گرمی اور دھوپ سے گزر کر تمھارے کھانے کے لیے کچھ لائے تو تم پر لازم ہے کہ اس کھانے میں سے کچھ حصہ اسے بھی دیا کرو۔ یہ ہدایت آپؐ نے اس لیے جاری فرمائی کہ خوراک کی تیاری کی مشقت کے بعد اس خوراک میں ملازم کا حصہ ازخود بن جاتا ہے۔ یہ اصول گویا ملازموں کے اضافی فوائد، مثلاً بونس، گریجوئیٹی اور دیگر فوائد کی طرف رہنمائی کرتا ہے کیونکہ کھانا پکانے کی تنخواہ تو ملازم کی پہلے سے طے ہوتی ہے، البتہ کھانا کھلانا اس کا ایک اضافی حق بن جاتا ہے۔ اگرچہ یہ ایک مختصر ہدایت ہے لیکن اس سے آپؐ نے ملازمین کے حقوق کا مزید تعین کیا ہے۔ یوں ایک طرف آجر و اجیر کے درمیان بہترین رشتہ استوار ہوتا ہے، اور دوسری جانب ملازم کو بھی ذہنی سکون حاصل ہوتا ہے۔

ایک اور اہم ہدایت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمائی ہے کہ معیشت کے معاملے میں   تم اپنے سے نیچے والوں کو دیکھو جب کہ نیکیوں کے معاملے میں تم اپنے سے اُوپر والوں کو دیکھو۔ آپؐ کی یہ مختصر سی ہدایت کیا ہے، گویا ہماری زندگی کے بہت سے معاملات کو ازخود درست کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔ کھاتے پیتے اور صاحب ِ ثروت لوگوں سے مقابلہ کر کے گویا ہم اپنی ذاتی معیشت کو خود ہی غیرمتوازن کرنے کا سامان کرتے ہیں، اور حسد، طبقاتی کش مکش، حرام آمدنی اور قرض کے دروازے کھولنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ اپنے سے کم حیثیت افراد کی زندگیوں کو سامنے رکھ کر ہماری اپنی زندگی میں اطمینان و قناعت کا رنگ اُبھرتا ہے بلکہ اس کے برعکس یہ جذبہ بھی زور کرتا ہے کہ کیوں نہ ہم بھی ان کم استطاعت والے اپنے بھائیوں کی مدد کو آگے بڑھیں۔ یہ ہدایت بھی گویا فضول معاشی کش مکش اور بے جا اصراف کی جڑ کاٹتی ہے۔

معاشی حالات مزید درست کرنے کی خاطر آپؐ نے ایک ہی نوعیت کی مزید کئی اور ہدایات بھی دی ہیں۔ ایک حدیث میں آپؐ نے فرمایا: ’’محنت اور جدوجہد کرکے رزق حاصل کرنے والا شخص اللہ کا بہت محبوب ہوتا ہے‘‘۔ ایک موقع پر آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ بے عمل بن کر  تم مسلمانوں (معاشرے) پر بوجھ نہ بنو۔ اسی کے ساتھ آپؐ نے یہ بھی ہدایت فرمائی ہے کہ اُوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے۔ بظاہر ایک ایک سطر کے یہ تین مختصر سے ارشادات ہیں لیکن دیکھا جائے تو ان میں انسانی زندگی کی کم از کم آدھی معیشت پنہاں ہے۔ معیشت کا تمام تر دارومدار دراصل معاشی نقل و حرکت اور پیداواری عمل میں شرکت پر ہوتا ہے۔ معاشی سرگرمی جتنی تیز اور پیداواری نقل و حرکت جتنی زیادہ ہوگی، معاشرے میں معاشی بہتری بھی اتنی ہی زیادہ آئے گی۔ اسی لیے ہدایت کی گئی ہے کہ انسان محنت مزدوری (پیداواری عمل) میں ضرور حصہ لے اور نکمّا بن کر گھر میں نہ بیٹھ جائے۔ اسے بھیک اور مفت خوری سے کنارہ کشی اختیار کرنی چاہیے بلکہ معاشرے کا فعال حصہ بننا چاہیے، اور معاشرے پر کبھی بوجھ نہ بننا چاہیے۔ یہ تمام اقدامات نجی و ملکی معیشت درست کرنے کا آسان نسخہ ہیں۔ ہدایت کی گئی ہے کہ نیچے والا ہاتھ بننے کے بجاے اُوپر والا ہاتھ بننے کی جدوجہد کرو کیونکہ نیچے والا ہاتھ عموماً غیرپیداواری (non-productive) ہوتا ہے۔

اس ضمن میں حضرت عمر فاروقؓ کا ایک واقعہ ہمارے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ایک بار جب آپؓ نے چند نوجوانوں کو مسجد میں بیٹھے ذکر اذکار کرتے دیکھا تو انھیں تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اُٹھو اور محنت مزدوری کر کے اپنا رزق حاصل کرو۔ یاد رکھو کہ آسمان سے کبھی سونے اور چاندی کے سکّے نہیں گرتے۔ جو شخص محنت و مزدوری کا عادی ہوگا،اسے جب شام میں مزدوری ملے گی تبھی اسے صحیح معنوں میں حقیقی مسرت حاصل ہوسکے گی۔ (لاتحزن از حیدرقرنی، سعودیہ)

ایک موقع پر نبی کریمؐ نے محض چند الفاظ میں ایک اہم معاشی نکتہ بیان کیا۔ آپؐ نے فرمایا: ’’جس چیز کے پیسے میرے پاس نہیں ہوتے، میں وہ چیز نہیں خریدتا‘‘۔ اپنی ذاتی و قومی معیشت درست کرنے کا یہ کتنا سادہ سا نسخہ ہے۔ اسراف، فضول خرچی اور ہوسِ زر کی اس نسخے سے جڑ کٹ جاتی ہے۔ محض شان و شوکت، آرایش و سجاوٹ، نقالی اور نام و نمود کی خاطر انسان آخر خود کو کیوں ہلاکت میں ڈالے اور کیوں قرضوں اور دُہری تہری ملازمتوں کی دلدل میں پھنسے؟ قرضوں اور حرام آمدنیوں نے کسی انسان/معاشرے کی معیشت آخر کب سدھاری ہے، بلکہ یہ تو ذہنی و روحانی دونوں لحاظ سے نقصان کے سودے ہیں۔ کتنی بڑی بات ہے کہ انسان اپنی کوئی جائز خواہش محض اسی وقت پوری کرسکے، جب کہ اس کے پاس اس کے حصول کے جائز ذرائع موجود ہوں۔ وسائل نہ ہوں تو وہ بس قناعت ہی کا رویّہ کیوں نہ اپنائے؟ یہ وہ معاشی سبق ہے جو ایک عام فرد پر منطبق ہونے کے ساتھ ساتھ اداروں اور حکومتوں پر بھی یکساں لاگو ہوتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ اس مختصر سی سنہری ہدایت پر عمل کر کے ہمارا وطن بھی ان بھاری قرضوں کی دلدل سے نکل سکے جن کے باعث ہمارے حکمرانوں نے اسے غیرملکی قوتوں کے ہاتھوں میں دھکیل دیا ہے۔

دولت اگر تالوں اور خزانوں میں بند کر کے رکھ دی جائے اور اسے گردش میں نہ رکھا جائے تو معیشت پر اس کے ہمیشہ منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ معاشیات کا واضح کلیہ یہی ہے کہ دولت کو مسلسل گردش میں رکھا جائے۔ اسلام بھی اس اہم کلیے سے پوری طرح باخبر ہے۔ اسی لیے اس نے معاشرے میں سود کو جبراً روکنے اور زکوٰۃ کو قانوناً نافذ کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ سودی نظام کے تحت سرمایہ کروڑوں لوگوں کے ہاتھوں سے نکل کر محض چند افراد کے ہاتھوں میں جمع ہوتا ہے، جب کہ نظامِ زکوٰۃ میں دولت چند صاحب ِ ثروت لوگوں کے ہاتھوں سے نکل کر لاکھوں کمزور لوگوں کے ہاتھوں میں منتقل ہوتی ہے۔ دولت کو جمود سے روکنے اور زر کو گردش میں لانے کے لیے یہ ایک بہت بڑی ہدایت ہے۔ اسی لیے اسلام نے اس کے نفاذ کے لیے قوت کے استعمال کا بھی حکم دیا ہے، جیساکہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے منکرین زکوٰۃ سے جہاد کرتے وقت دوٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ اگر انھوں نے زکوٰۃ کی مد میں اُونٹ کی ایک رسّی بھی روکی تو میں ان سے ضرور جہاد کروں گا۔ زکوٰۃ کی مانند نبی کریمؐ نے انسانی ذاتی اقتصادیات درست رکھنے کی خاطر عید میں فطرے، معذوری کی صورت میں روزوں کے فدیے اور عیدالاضحی میں قربانی کے گوشت کی تقسیم کی بھی ہدایات فرمائی ہیں تاکہ سرمایہ (روپیہ اور اشیا دونوں) گردش میں رہیں۔ زکوٰۃ کے علاوہ دیگر نفلی صدقات کے لیے بھی مسلمانوں کو مسلسل اُبھارا گیا ہے۔ اسی طرح وراثت کے اسلامی اصولوں پر بھی سختی سے عمل درآمد کرنے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ جایداد کی تقسیم آگے منتقل ہوتی رہے اور معاشرے میں آسودہ حال لوگوں کا تناسب بڑھتا رہے۔

ایک بار آپؐ نے فرمایا تھا: قیامت کے دن مَیں تین آدمیوں کا مخالف ہوں گا، جن میں سے ایک وہ ہوگا جو مالک ہے اور مزدور سے کام تو پورا لیتا ہے، لیکن اس کی مزدوری اس کی      محنت و صلاحیت کے مطابق ادا نہیں کرتا۔ معاشرے کو استحصال اور نفرتوں سے محفوظ رکھنے کے لیے یہ بھی ایک عمدہ معاشی ہدایت ہے جو اگرچہ مختصر ہے لیکن اپنے ہمہ گیر اثرات رکھتی ہے۔

پیداواری عمل میں مسلسل شرکت، راہِ قناعت کی جانب رغبت، آجروں کے استحصالی رویے کی مذمت، اور ملازمین کے حقوق کے تحفظ کی مسلسل ہدایات کے باوجود معاشرے کا کوئی فرد یا گھرانہ اگر بے یارومددگار، غربت کا شکار، اور لاوارث و لاچار رہتا ہے تو پھر حکومت (ریاست) خود اس شخص کی مدد کو آتی ہے اور اس کی تمام ضروریات کو اپنے سر لے لیتی ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مقروض و صاحب ِ اولاد فرد کی وفات کے بعد مَیں اس کا کفیل ہوں گا۔ اس کے وارثین اپنے مسائل کے حل کے لیے میرے (یعنی حکومت کے)  پاس آئیں۔ نیز فرمایا: جس مرد و عورت نے اپنے پیچھے کوئی ذمے داری چھوڑی تو اس کی ادایگی کرنا ہماری (سربراہِ مملکت کی) ذمے داری ہے، جب کہ اس کی چھوڑی ہوئی وراثت سے ہمارا (ریاست کا) کوئی تعلق نہیں ہوگا، یعنی واجبات حکومت کے ہوں گے اور اثاثہ جات وارثین کے ہوں گے۔ انسان کی معاشی زندگی سدھارنے کی یہ کتنی بڑی ہدایت ہے جس کا اعلان اسلام ازخود کرتا ہے۔

اسلامی نظامِ معیشت کے یہ چند نمایاں پہلو ہیں: lقیمتوں کے تعین کے لیے طلب و رسد کے اصول کو استعمال نہ کیا جائے l مزدور کو مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دی جائے l ملازم کو اس کی محنت کے عوض حقِ اُجرت کے علاوہ کچھ اور فوائد بھی پہنچائے جائیں lمعیشت کے معاملے میں اپنے سے نیچے والوں کو دیکھا جائے lمحنت اور جدوجہد کرکے رزق حاصل کیا جائے l بے عمل بن کر معاشرے پر بوجھ نہ بنا جائے l لینے والا ہاتھ بننے کے بجاے دینے والا ہاتھ بنا جائے l خواہ مخواہ قرض لے کر خریداری نہ کی جائے l زکوٰۃ ادا کی جائے lسود کو ممنوع قرار دیا جائے l مزدور کو اس کی صلاحیت کے مطابق پورا معاوضہ دیا جائے lاسلامی حکومت ’جو کچھ نہیں رکھتے‘ کی کفالت کرے۔ ان قیمتی نکات پر اگر غور کیا جائے تو ہر صاحب ِ دانش پکار اُٹھے گا کہ اقتصادیات کو کسی بھی سطح پر درست کرنے کے لیے ان سے بہتر کوئی اور اصول نہیں ہوسکتے۔

قوموں کے عروج و زوال کا قانون ایک مستقل، بے لاگ اور اٹل قانون ہے۔ قومیں اس قانون کے تحت تشکیل، تعمیروشناخت، ترقی و استحکام، عروج و کمال، انحطاط و زوال کے مراحل سے گزرتی ہوئی بالآخر تباہی و خاتمے سے دوچار ہوتی ہیں۔ انسان کے عروج و زوال کا انحصار مادی اور اخلاقی دونوں قوتوں پر ہے۔ اگر بغور دیکھا جائے تو فیصلہ کن قوت اخلاقی قوت ہے، نہ کہ مادی طاقت۔ گویا کسی قوم کی قسمت کے بننے اور بگڑنے میں فیصلہ کن کردار اخلاقی قوت ادا کرتی ہے۔

قوموں کی زندگی میں اخلاق کی اس قدر اہمیت ہے کہ انسان کی نفسانی خواہشات اور فطرتِ صالح میں اگر کوئی قوت توازن پیدا کرتی ہے تو وہ عقل و بصیرت ہے۔ اس کے نتیجے میں انسان میں اعلیٰ اخلاقی اوصاف پروان چڑھتے ہیں جو ایک انسان کو حیوان سے ممتاز کرتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر نفسانی خواہشات انسان پر غلبہ حاصل کرلیں تو اس کی عقل ماری جاتی ہے، اعلیٰ اخلاقی اوصاف و اقدار مٹ جاتی ہیں، اور وہ جانوروں کی سطح سے بھی گر کرگھٹیا حرکات کا ارتکاب کرنے لگتاہے جسے قرآن نے اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ (سب نیچوں سے نیچ)سے تعبیر کیا ہے۔ اعلیٰ اخلاق ہی کسی فرد یا معاشرے میں شجاعت اور استقامت جیسی خوبیوں کو پروان چڑھاتے ہیں اور کسی قوم میں اصولوں کی خاطر قربانی دینے کا جذبہ اور حوصلہ پیدا کرتے ہیں اور وہ بڑے سے بڑے خطرے کا مقابلہ کرسکتی ہے۔ اس کے مقابلے میں اعلیٰ اخلاق سے محروم قوم میں ایسی کمزوریاں پیدا ہوجاتی ہیں جو اسے دوسروں کے لیے تر نوالہ بنا دیتی ہیں۔ اعلیٰ اخلاقی اوصاف کے حامل بلند کردار لوگوں کی کمی واقع ہوجاتی ہے اور قحط الرجال کے نتیجے میں قوم زوال کی طرف تیزی سے گامزن ہوجاتی ہے۔ وہ قوتیں اور توانائیاں جو ملت کی تعمیر میں صرف ہونی چاہییں وہ عیش و عشرت اور تخریبی سرگرمیوں کی نذر ہونے لگتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں انتشار پیدا ہوتا ہے جو قومی وحدت کو پارہ پارہ کردیتا ہے اور بالآخر قوم انحطاط و زوال کے بعد تباہی و بربادی کا شکار ہوجاتی ہے۔

عروج و زوال کا قانون

معروف مؤرخ اور فلسفۂ تاریخ کے بانی علامہ ابن خلدون زوال ملک کے اسباب پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’جب حق تعالیٰ کسی قوم سے ملک چھیننا چاہتا ہے، تو اس قوم میں اخلاقِ ذمیمہ اور رذیل عادتیں پیدا کردیتا ہے۔ اس لیے وہ لوگ سیاسی خوبیوں سے محروم ہوجاتے ہیں اور جب یہ حرماں نصیبی بڑھ جاتی ہے تو حق تعالیٰ شانہٗ ان کے قبضے سے ملک نکال لیتا ہے اور کسی دوسری قوم کو دے دیتا ہے تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ ملک سے محرومی اور حکومت کا نکلنا خود ان کے اپنے کرتوتوں کا ثمرہ ہے۔ حق تعالیٰ نے انھیں ملک و عزت کی جو نعمت عطا فرمائی تھی، وہ ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے ان سے سلب کرلی گئی ہے‘‘۔ (مقدمہ ابن خلدون، جلد اول)

معروف مغربی مؤرخ ایڈورڈ گبن نے اپنی کتاب دی فال اینڈ ڈیکلائن آف  رومن ایمپائر میں رومی سلطنت کے نابود ہوجانے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ  ’’بے راہ روی، بدکرداری، مذہبی تعصب اور کبھی نہ ختم ہونے والی جنگیں اس عظیم ایمپائر کو برباد کرنے میں معاون بنتی رہی ہیں‘‘۔

سید مودودیؒ عروج و زوال کے قانون کے تحت لکھتے ہیں: ’’اللہ رب العزت جو خالق کائنات ہے، اپنی اس سلطنت میں بنائو کو پسند کرتا ہے،بگاڑ کو پسند نہیںکرتا۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کی عطا کردہ صلاحیتوں اور قابلیتوں سے انسان دنیا میں بہتر طریقوں کو فروغ دے۔ وہ اس بات کو ہرگز پسند نہیں کرتا کہ اس کی دنیا بگاڑی جائے، اجاڑی جائے اور اسے بدنظمی سے، گندگیوں سے اور ظلم و ستم سے خراب کرڈالا جائے۔ انسانوں میں سے جو لوگ بھی دنیا کے انتظام کے امیدوار بن کر کھڑے ہوتے ہیں، جن کے اندر بنانے کی زیادہ سے زیادہ صلاحیت ہوتی ہے، انھی کو وہ یہاں انتظام کے اختیارات سپرد کرتا ہے۔ پھر وہ دیکھتا رہتا ہے کہ یہ لوگ بناتے کتنا ہیں اور بگاڑتے کتنا ہیں؟ جب تک ان کا بنائو ان کے بگاڑ سے زیادہ ہوتا ہے، اور کوئی دوسرا اُمیدوار اُن سے اچھا بنانے والا اور ان سے کم بگاڑنے والا میدان میں موجود نہیں ہوتا، اس وقت تک ان کی ساری برائیوں اور ان کے تمام قصوروں کے باوجود دنیا کا انتظام انھی کے سپرد رہتا ہے۔ مگر جب وہ کم بنانے اور زیادہ بگاڑنے لگتے ہیں تو خدا انھیں ہٹا کر پھینک دیتا ہے اور دوسرے امیدواروں کو اسی لازمی شرط پر انتظام سونپ دیتا ہے‘‘۔ (بناؤ اور بگاڑ، ص ۴-۵)

مولانا مودودیؒ ایک اور مقام پر لکھتے ہیں: ’’آج اسی سنت ِالٰہی کا اعادہ پھر ہماری نگاہوں کے سامنے ہو رہا ہے۔ جس شامت اعمال میں پچھلی قومیں گرفتار ہوئی تھیں، اسی شامت نے آج مغربی قوموں کو آن پکڑا ہے۔ جتنی تنبیہیں ممکن تھیں وہ سب ان کو دی جاچکی ہیں۔ جنگ عظیم کے مصائب، معاشی مشکلات، بے کاری کی کثرت [حالیہ عالمی معاشی بحران]، امراضِ خبیثہ کی شدت، نظامِ عائلی کی برہمی، یہ سب کھلی ہوئی روشن آیات ہیں جن سے وہ اگر آنکھیں رکھتے تو معلوم کرسکتے تھے کہ ظلم، سرکشی، نفس پرستی اور حق فراموشی کے کیا نتائج ہوتے ہیں مگر وہ ان آیات سے سبق نہیں لیتے۔ حق سے منہ موڑنے پر برابر اصرار کیے جا رہے ہیں۔ ان کی نظر علتِ مرض تک نہیں پہنچتی۔ وہ صرف آثارِ مرض کودیکھتے ہیں اور انھی کا علاج کرنے میں اپنی ساری تدابیر صرف کر رہے ہیں۔ اسی لیے جوں جوں دوا کی جاتی ہے مرض بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اب حالات کہہ رہے ہیں کہ تنبیہوں اور حجتوں کا دور ختم ہونے والا ہے۔ اور آخری فیصلے کا وقت قریب ہے...

بہرحال اب قریب ہے کہ وراثت ارضی کا نیا بندوبست ہو اور ظالمین و مترفین کے بجاے کسی دوسری قوم کو (جوغالباً مستضعفین ہی میں سے ہوگی) زمین کی خلافت پر سرفراز کیا جائے۔ دیکھنا ہے کہ اس مرتبہ حضرتِ حق کی نظر انتخاب کس پر پڑتی ہے۔

ہمارے پاس یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ آیندہ کون سی قوم اٹھائی جائے گی۔ یہ اللہ کی دین ہے جس سے چاہتا ہے چھینتا ہے اور جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے، قُلِ الّٰلھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآئُ (اٰل عمرٰن ۳:۲۶)۔ مگر اس معاملے میں بھی اس کا ایک قانون ہے جسے اس نے اپنی کتابِ عزیز میں بیان فرما دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک قوم کو جب وہ اس کے بُرے اعمال کی وجہ سے گراتا ہے تو اس کی جگہ کسی ایسی قوم کو اٹھاتا ہے جو اس مغضوب قوم کی طرح بدکار اور اس کے مانند سرکش نہ ہو، وَاِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ثُمَّ لاَ یَکُوْنُوْٓا اَمْثَالَکُمْ (محمد ۴۷:۳۸) ’’اگر تم نے روگردانی کی تو تمھارے بجاے کسی اور قوم کو اٹھائے گا۔ پھر وہ لوگ تمھاری طرح نہ ہوں گے‘‘۔ (تنقیحات، ص ۶۱-۶۶)

امریکا جو نئے عالمی نظام (نیو ورلڈ آرڈر) کا دعوے دار تھا اور سرد جنگ کے خاتمے اور سوویت یونین کے انہدام کے بعد واحد عالمی طاقت کے طور پر اُبھر کر سامنے آیا تھا بالخصوص نائن الیون کے سانحے کے بعد ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ کے نام پر اپنی پوری طاقت کے ساتھ حملہ آور  ہوا تھا___ آج اس امریکا کے خلاف پوری دنیا میں نفرت کی ایک لہر پائی جاتی ہے۔ آج وہ خود ’قوموں کے عروج و زوال کے قانون‘ کی زد میں ہے۔

دنیا میں امریکا کے زوال کے تجزیے کیے جا رہے ہیں۔ یہ تجزیے مفکرین اور تجزیہ نگار محض جذبات اور خواہشاتِ نفس کی بنیاد پر نہیں کر رہے، بلکہ اس کے پیچھے امریکی سیاست، ضابطۂ اخلاق، عالمی آمریت اور مذہب سے اس کی لاپروائی کی طویل تاریخ پنہاں ہے۔ اس سوچ بچار میں اضافہ خصوصاً نائن الیون کے سانحے کے بعد ہوا۔ جب جنون کی حالت میں مبتلا ہوکر گذشتہ منتخب صدرجارج بش اپنی عالمی چودھراہٹ اور غنڈا گردی میں یہ سمجھتے ہوئے بہت زیادہ آگے بڑھ گئے تھے کہ زوال ان کے مقدر میں نہیں لکھا۔

تاریخ بتاتی ہے کہ کل تک بحروبر میں اپنی عظمت و سطوت کا پھریرا لہرانے والی ریاستیں اپنی سیاہ کاریوں اور زمانے کے اُتار چڑھائو کے سبب یا تو دنیا سے ایسی ناپید ہوئیں کہ آج دنیا ان کے آثار و باقیات تک سے ناواقف ہے، یا وہ سمٹ کر اتنی مختصر ہوگئی ہیں کہ عقل ان کا موجودہ جغرافیہ دیکھ کر ہی حیران رہ جاتی ہے۔ تاریخ کی قبل از تحریر قومیں، یعنی قومِ عادو ثمود، قوم فرعون و قومِ نوح وغیرہ وہ قومیں ہیں جن کا نام آج تاریخ کے صفحات میں محض عبرت کے طور پر باقی رہ گیا ہے۔ ایران و روم کی وسیع و عریض سلطنتیں آج سمٹ کر رہ گئی ہیں۔

ماضی قریب کی ایک اور سوپر پاور برطانیہ کی حدود میں سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا، یعنی اگر اس کی ایک نوآبادی میں سورج ڈوبتا تھا تو کسی دوسری نوآبادی میں طلوع ہو جاتا تھا۔ اللہ نے ایک طویل مہلت کے بعد اس کی ایسی پکڑ کی کہ آج وہاں سورج طلوع ہی نہیں ہوتا اور وہ محض ’پیروی کرنے‘ اور ’ہاں میں ہاں ملانے‘ والا ایک ملک بن کر رہ گیا ہے۔

متحدہ روس کا قصہ بھی ہم سے کچھ دُور نہیں ہے۔ محض ۷۰ سال کے مختصر عرصے میں اپنی جھلک دکھا کر ایسا ریزہ ریزہ ہوا کہ آج دنیا کے نقشے پر متحدہ سوویت یونین (USSR) کے نام سے کوئی ریاست موجود ہی نہیں ہے۔

آج امریکا کے زوال کے مختلف اسباب و عوامل زیربحث ہیں، یہاں کچھ کا تذکرہ کیا جا رہا ہے:

ظلم و ستم اور فساد

مملکتیں ایک لامتناہی اقتدار کے بعد اپنے زوال یا گمشدگی کی راہیں خود ہی ہموار کرتی ہیں۔ دنیا بھر میں اپنی ہیبت و عظمت کا پھریرا لہرا کر وہ اپنے اندر ظلم و تعدّی، ناانصافی، بے رحمی، لوٹ کھسوٹ، قوموں پر بلاوجہ چڑھائی، اندرونِ خانہ طبقاتی کش مکش، زنا و فحاشی کے مادر پدر فروغ اور سود و ربو.ٰ پر مبنی معیشت کے فروغ جیسی سنگین بیماریوں کو مسلسل جنم دیتی اور انھیں استحکام بخشتی ہیں۔ پھر یہ مملکتیں بدی کی اِن تمام جہتوں کو اپنے نظامِ زندگی کا حصہ بنا لیتی ہیں جس کے نتیجے میں وہ اندر ہی اندر سے اس طرح کھوکھلی ہوتی چلی جاتی ہیں کہ قوموں اور حکمرانوں کو اس کا احساس بھی نہیں ہوتا اور وہ ایک طویل دور کے بعد وقت ِ مقررہ پر زمین بوس ہوکر تاریخ کا حصہ بن جاتی ہیں۔

امریکا سے آج دنیا کانپتی ہے اور اس کی ہیبت پوری دنیا پر چھائی ہوئی ہے، لیکن مذکورہ بالا تمام تباہ کن بیماریاں اندر ہی اندر اس میں سرایت کرچکی ہیں۔ دنیا کو غلام بنانے، خصوصاً پس ماندہ مسلم ممالک کے ہرشعبے میں دخل اندازی کرنے کے مستقل امریکی طرزِعمل یا ’دہشت گردی‘ کے نام پر بالخصوص سامراجی عزائم اور عالمی سطح پر دہشت پھیلانے کی روش نے امریکا کو آج دنیا بھر میں قابلِ نفرت ملک بنادیا ہے۔ ادھر یورپ میں بھی امریکی دخل اندازی کے خلاف مضبوط راے عامہ پروان چڑھ رہی ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ یورپی ممالک نے ڈالر کی استحصالی معیشت کے خلاف اپنی نئی مشترکہ کرنسی ’یورو‘ متعارف کرائی ہے۔

خاص طور پر نائن الیون کے بعد ’دہشت گردی‘ کے نام پر جس طرح امریکا نے دنیا کے مروجہ قوانین و ضوابط کی دھجیاں اڑائیں، اپنے مزعومہ مقاصد کے لیے فریب اور جھوٹے پروپیگنڈے کی بنا پر افغانستان اور عراق پر چڑھائی کی، بے دردی سے انسانی خون بہایا اور بڑے پیمانے پر تباہی و بربادی پھیلائی، اس امر نے بھی عالمی ضمیر کو اس جنگ اور امریکا کے کردار کے خلاف آواز اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے۔ آج امریکا دنیا میں امن اور تعمیر سے زیادہ بگاڑ، تخریب اور فساد کا باعث بن رہا ہے، اور یہی چیزیں کسی بھی قوم کے زوال میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

دنیا کی قوموں میں پائی جانے والی یہ مشترکہ نفرت امریکا کے وجود کے لیے ہمیشہ سوالیہ نشان بنی رہے گی اور اس کی سالمیت ہمیشہ دائو پر لگی رہے گی۔ مستقبل قریب میں نظر آنے والے امریکی زوال کا ایک بڑا سبب یہ عالم گیر نفرت بھی ہوگی۔

اخلاقی انحطاط

کوئی بھی قوم اپنے استحکام کے بعد جب اپنی توانائیاں، وسائل اور قوتیں عیش و عشرت، اخلاقی اقدار کی پامالی اور تخریبی سرگرمیوں کی نذر کرنے لگتی ہے تو اخلاقی انحطاط کا باعث بنتی ہے۔ شہوت اور بدکاری کا فروغ اس قوم کی تباہی میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور اس معاشرے کو اندر ہی اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے۔ جنسی بے راہ روی نے انسانوں کو کبھی پنپنے نہیں دیا، جب کہ امریکا میں  تو یہ سب سے سوا ہے۔ ان کے ہاں ماں اور بہن کے مقدس رشتے بھی عرصے سے پامال ہو رہے ہیں۔ ۱۰، ۱۲ برس کی نابالغ بچیاں بھی زنا بالرضا یا زنا بالجبر کا شکار ہیں۔

مغربی معاشرے کی مانند امریکا میں بھی صنفِ مخالف کے ساتھ بدکاری کے ساتھ اب مردوں کو اپنے ہی مرد دوستوں اور عورتوں کو اپنی ہی خاتون دوستوں کے ساتھ عصمت دری پر    فخر محسوس ہونے لگا ہے۔ ایسے افراد کو Lesbians (لیسبئین) اور Gays (گے)کہا جاتا ہے اور یہ لوگ خود کو بلاجھجک ہم جنس پرست کہہ کر متعارف کراتے ہیں۔ امریکی فوج میں بھی جنسی حیوانیت اب عروج پر ہے۔ مرد فوجی افسران کی جانب سے ماتحت خاتون فوجیوں پر جنسی حملے اب عام بات ہے۔ فوج میں عورتوں کی بے روک ٹوک بھرتی نے فوج کے اخلاق پر منفی اثر ڈالا ہے۔ اس موضوع پر مستند اعداد و شمار اور کتابیں بھی منظرعام پر آنے لگی ہیں۔

’ننگوں کے عوامی کلب‘ کا قیام اس بدکاری کی ایک اور بگڑی ہوئی شکل ہے۔ بدکاری و  بے حیائی کی اس سے زیادہ تفصیل بیان کرنے سے قلم کو بھی حیا محسوس ہوتی ہے۔ ان بنیادوں پر معاشرہ آخر کب تک متحد و مضبوط رہ سکتا ہے؟ ماضی میں بھی ’صدوم‘ کا شہر اپنی جنسی بدکاریوں اور عملِ قومِ لوط کی وجہ ہی سے تباہ ہوگیاتھا۔ امریکا کو آج اس کلیے سے استثنا کیسے مل سکتا ہے؟

اخلاقی زوال محض جنسیات اور فحاشی ہی کو نہیں کہا جاتا، بلکہ کذب و افترا اور سفاکی و بے رحمی کو بھی اخلاق و کردار کی موت گردانا جاتا ہے جس میں امریکی حکومتیں کبھی شرم محسوس نہیں کرتیں، جیساکہ عراق پر جنگ مسلط کرنے کے لیے من گھڑت الزامات تراشے گئے، نائن الیون کا قصہ گھڑا گیا اور تاحال اس کی منصفانہ تحقیقات نہیں کروائی گئیں۔ امریکا نے مروجہ عالمی قوانین و ضوابط کو بری طرح پامال کیا، انسانی حقوق کو مجروح کیا، عالمی اداروں خاص طور پر اقوام متحدہ کی ساکھ متاثر کی، گوانتانامو اور ابوغریب جیلوں میں جس بُری طرح انسانیت کی تذلیل کی، یہ سب امریکا کے اخلاقی انحطاط کی واضح علامات ہیں۔

سابق امریکی صدر جمی کارٹر امریکا کے اخلاقی بحران پر تشویش کا اظہار اپنی کتاب: Our Endangered Values: America's Moral Crisisمیں کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: امریکا داخلی انتظامی حوالے سے شدید بحران کا شکار ہے (ص ۲۳)۔ ۳۵ زیادہ آمدنی والے ملکوں میں ہونے والے مجموعی قتلوں سے ۱۹ گنا زیادہ قتل امریکا میں ہوتے ہیں۔ گویا سب سے زیادہ قتل امریکا میں ہوتے ہیں (ص ۲۹)۔ امریکی لڑکیاں فرانسیسی لڑکیوں کے مقابلے میں ۷ گنا زیادہ تعداد میں ایک بچے کی ماں ہیں، جب کہ یہ ایک مرتبہ اسقاطِ حمل کرا چکی ہیں۔ ۷۰ گنا زیادہ لڑکیاں سوزاک کا شکار ہوچکی ہیں۔ اس کے علاوہ جرمنی کے ٹین ایجرز کے مقابلے میں ۵ گنا زیادہ   امریکی ٹین ایجرز ایڈز کا شکار ہوتے ہیں (ص ۸۰)۔ جب امریکیوں سے ہم جنسی پرستی کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو ان کی اکثریت اثبات میں جواب دیتی ہے (ص ۳۰)۔ اب طلاق   خطرناک حد تک عام ہوچکی ہے۔ تمام امریکی بالغوں میں سے ۲۵ فی صد کو کم از کم ایک مرتبہ طلاق ہوچکی ہے (ص ۷۵)۔ (امریکا کا اخلاقی بحران، جمی کارٹر، مترجم: محمد احسن بٹ، دارالشعور، لاہور)

خارجہ پالیسی میں انتہاپسندانہ رویہ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں انسانی حقوق کی پامالی پر مذمت کرتے ہوئے وہ امریکا کی بقا کے لیے مشورہ دیتے ہیں کہ امریکا کو ایسا مرکز بننا چاہیے جس کے گرد جمع ہوکر دنیا کے سارے ملک سلامتی اور ماحول کو لاحق خطرات سے لڑیں۔ ہمیں ضرورت مند لوگوں کو انسانی امداد مہیا کرنے میں سب سے آگے ہونا چاہیے (ایضاً، ص ۱۸۳)___ مگر امریکا کی روش اور حقیقت سب پر عیاں ہے کہ وہ تباہی کی کس راہ پر گامزن ہے۔

خاندانی نظام کی تباھی

کسی بھی قوم کے زوال میں خاندانی نظام کی تباہی کا بھی نمایاں کردار ہوتا ہے۔ امریکا کی تباہی میں ایک دوسرا سبب اس کے خاندانی نظام کی تباہی ہے۔ پورے مغرب کی طرح امریکا میں خاندان یک جا و متحد نہیں ہے۔ حالانکہ خاندان کی مضبوطی ہی سے معاشرے اور ملک مضبوط ہوتے ہیں۔ پیسے کی اندھا دھند ہوس اور خاندانی ذمے داریوں سے فرار، بے پناہ مصروفیات، شہوت اور جنسیت، نیز ناجائز بچوں کی بھرمار نے ان کے اندر باپ بیٹے، میاں بیوی اور دیگر خونی رشتوں کی تقدیس ختم کر کے رکھ دی ہے۔ خاندان کے خاندان بکھر چکے ہیں اور کوئی کسی کا سہارا بنتا ہوا نظر نہیں آتا۔ جس کو جو کرنا ہے، وہ خود کرے یا حکومت اس کی کفالت کرے۔

ہرشخص سمجھتا ہے کہ وہ کیوں کسی کا بوجھ اٹھائے، خواہ وہ اس کی بیٹی اور ماں ہی کیوں نہ ہو۔ بڑی عمر کے والدین بھی انھی بنیادوں پر ان کے لیے بوجھ بن گئے ہیں اور اِس ’بیکار حیثیت‘ میں امریکی اپنے بزرگوں کے مسائل میں حصہ دار بننے کو تیار نہیں ہیں۔ اسی وجہ سے پوری امریکی    قوم نے بزرگوں کے لیے ’اولڈ ہائوسز‘ کو ایک قطعی ضرورت کے طور پر لازم سمجھ لیا ہے۔ زندگی کو ’ٹھیک ٹھاک‘ طور پر گزارنے کے لیے ماں اور باپ دونوں کو ملازمت کی ضرورت ہے، اس لیے تھوڑی بہت پیدا ہونے والی جائز و ناجائزاولاد کے لیے بھی ان میں سے کسی کے پاس وقت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’اولڈ ہائوسز‘ کے ساتھ ’بے بی ڈے کیئر‘ مراکز بھی امریکی معاشرے کا ایک لازمی حصہ بن چکے ہیں۔ اصل خاندان کے بدلے اب حکومت ان کا خاندان بننے کی کوشش کر رہی ہے جس کے نتیجے میں حکومت پر غیرضروری مالی دبائو کا اضافہ ہو رہا ہے۔ انھی وجوہات کی بنیاد پر  امریکا میں خودکشیوں کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔ محبت، شفقت، سہارے اور دکھ درد میں شرکت کے بغیر آخر کوئی کب تک زندہ رہ سکتا ہے؟ حد سے زیادہ بے رحم معاشرے میں پھر خودکشیاں ہی جنم  لے سکتی ہیں۔ یہ تمام عوامل کسی ملک کے استحکام کے خلاف ایک بڑا خطرہ سمجھے جاتے ہیں۔

آبادی کم کرنے کا جنون

مغرب کو ہلاکت اور تباہی کی طرف لے جانے والا ایک اہم پہلو قطع نسل، یعنی آبادی کم کرنے کا رجحان ہے۔ پورا مغرب مالتھس کے نظریۂ آبادی کا مارا ہوا ہے اور جگہ اور غذا کی قلّت کے احمقانہ خوف سے اپنی شرحِ پیدایش کو جنون کی حد تک کم کرتا چلا جا رہا ہے۔ امریکا بھی ان ممالک میں سے ایک ہے جن کی آبادی کم ہوتی چلی جارہی ہے۔ اپنے ریاستی امور چلانے کے لیے اسے آج افرادی قوت کی قلت کا سامنا ہے۔ معمر افراد کی تعداد وہاں بڑھ رہی ہے، جب کہ نوجوانوں کا تناسب گھٹتا جا رہا ہے۔ یورپ اور امریکا میں غیرملکی افراد اور آبادی کا تناسب بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ تارکینِ وطن کی بڑھتی ہوئی تعداد ان کے لیے تشویش کا باعث بنتی جارہی ہے۔

سابق ری پبلکن صدارتی امیدوار، اور گذشتہ تین صدور کے مشیر پیٹرک جے بکانن نے بھی مقامی آبادی کے مسلسل گھٹنے اور مسلم آبادی کے پیہم بڑھنے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔  اپنی کتاب Death of The West میں اس نے اعداد و شمار کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ    ان حالات میں مغرب اپنی موت کو خود دعوت دے رہا ہے۔ بکانن نے امریکا کے بارے میں بھی زور دے کر کہا ہے کہ اب امریکیوں کو بھی خود اپنی بقا کا مسئلہ درپیش ہے۔

امریکا اور یورپ کے دانش وروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مقامی آبادی کی قلت اور مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث یورپ اور امریکا کے بعض شہر ازخود مسلم شہروں میں تبدیل ہوجائیں گے۔ ان ممالک کی مقامی و مرکزی حکومتوں میں مسلم ورزا کا تقرر پہلے ہی ہونے لگا ہے۔ امریکی سرکاری اداروں حتیٰ کہ اس کے دفاعی شعبوں میں بھی آج لاتعداد مسلمان اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں، جب کہ نجی و کاروباری شعبوں کے لحاظ سے تو کہنا چاہیے کہ دنیا بھر سے آنے والے مسلمان ہی ان شعبوں کو چلا رہے ہیں۔ اپنی آبادی کی قلت کے باعث امریکا مجبور ہے کہ وہ باہر سے درآمد شدہ مسلم کارکنوں کو اپنے ہاں کھپائے ورنہ اس کا نظام تلپٹ ہوجائے گا۔ انسانی کوششیں ناکامی کا منہ دیکھ سکتی ہیں لیکن فطرت کی خاموش کارروائیاں اپنے اثرات چھوڑے بغیر نہیں رہتیں اس لیے کہ فطرت کی سزائیں تو ہمیشہ ہی بے رحم ہوتی ہیں۔ بقول اقبال  ع

حذر اے چیرہ دستاں بہت سخت ہیں فطرت کی تعزیریں
یھود کا اثر ورسوخ اور عیسائی دشمنی

امریکا کے زوال کی ایک اور اہم وجہ یہودیوں کی وہ ازلی فطرت ہے جس کے تحت ان کے دلوں میں عیسائیوں کے خلاف بدترین کینہ و انتقام موجود ہے۔ عیسائیوں نے گذشتہ ۲ ہزار برسوں میں انھیں ہر مقام پر ناقابلِ تصور طور پر ظلم و تشدد سے دوچار کیا ہے (کیونکہ وہ انھیں اپنے پیغمبر کا قاتل گردانتے ہیں)۔ یہودی مذہبی کتابوں تالمود وغیرہ میں عیسائیوں کے خلاف یہودیوں نے صاف صاف احکام درج کیے ہیں کہ انھیں جہاں پایا جائے، قتل کردیا جائے اور زمین کو ان سے پاک کردیا جائے۔ اس لیے اس وقت بظاہر ان کے ساتھ دوستی کا رویہ رکھتے ہوئے بھی (جسے وہ اپنے تقیے کے لحاظ سے جائز قرار دیتے ہیں) یہودی انھیں تاراج کرنے کے اپنے خفیہ منصوبوں پر عمل پیرا رہتے ہیں۔

ٹوئن ٹاورز امریکا پر نائن الیون کے بدترین حملے کا واقعہ بھی آہستہ آہستہ اب ساری دنیا پر اپنی حقیقت آشکار کرتا جا رہا ہے۔ خود امریکی و مغربی مصنفین کہنے لگے ہیں کہ یہ حملہ سراسر ایک اسرائیلی سازش تھی جس کے ذریعے وہ ایک طرف مسلمانوں کو اور دوسری طرف خود امریکا کو بھی نقصان پہنچانا چاہتا تھا۔ امریکا میں اب ایسی کئی کتابیں منظرعام پر آرہی ہیں جن کے مصنفین نائن الیون کی اس سازش کو کھلے عام یہودیوں سے منسوب کر رہے ہیں۔ ریگن انتظامیہ کے دور کے اسسٹنٹ سیکرٹری آف ٹریژر ڈاکٹر پاول رابرٹس نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ۱۱ستمبر کو ہونے والا حملہ بش انتظامیہ کے عہدے داروں، امریکی سی آئی اے اور اسرائیلی موساد کی مشترکہ کارستانی کا نتیجہ تھا جس کا مقصد عرب ممالک کو اپنا مطیع بنانا اور افغانستان و عراق پر کارروائی کا جواز پیدا کرنا تھا۔

ایڈمرل تھامس مُورر نے یہ حیران کن بات بھی کہی کہ ’’اگر امریکی عوام کو یہ علم ہوجائے کہ ہماری حکومت پر اسرائیلی گماشتوں کی گرفت کس قدر مضبوط ہے، تو وہ اُن کے خلاف بغاوت پر اُتر آئیں۔ ہمارے شہریوں کو تو علم ہی نہیں ہے کہ (اندرونِ خانہ ہماری حکومتوں میں) کیا ہو رہا ہے؟ سابق سینیرایڈوائزر اسٹینلے ہلٹن نے بھی یہ بات اس انداز سے کہی ہے کہ ان لوگوں کا ایک ایسا واضح ایجنڈا ہے جو ہمارے ملک کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ (ملاحظہ فرمائیں، ویب سائٹ:rense.com)

امریکا کے ایک اور معروف فلسفی اور اسرائیلی و امریکی حکومتوں کے ناقد پروفیسر نوم چومسکی نے امریکا کو ’دنیا کا سب سے بڑا دادا گیر ملک‘قرار دیا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ ویت نام میں امریکی جارحیت ۲۰ویں صدی کی سب سے بڑی جارحیت تھی۔ اس نوع کے تبصرے اس نے اپنی بہت زیادہ فروخت ہونے والی کتاب دی روگ اسٹیٹ میں کیے ہیں۔

عالمی معاشی بحران کی زد میں

ایک اور اہم سبب جس کے تحت امریکا کا زوال دیوار پر لکھا ہوا نظر آرہا ہے،وہ حالیہ برسوں میں اس کی پایدار و مضبوط معیشت کا بدترین بحران سے دوچار ہونا ہے۔ معیشت کے منفی اثرات کے تحت وہاں کے ایک دو بڑے بنک بھی دیوالیہ ہوگئے ہیں، جب کہ ایک سے زائد بین الاقوامی کارپوریشنوں نے اپنے کاروبار کو محدود کرکے ہزاروں ملازمین کو ان کے کاموں سے فارغ کردیا ہے۔ بل گیٹس کی عالمی سوفٹ ویئر کمپنی نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ ہزاروں ملازمین کا بوجھ مزید برداشت کرنے کے قابل نہیں رہی ہے۔ امریکا میں مکانوں کی قیمتوں میں تیزی سے زوال آیا ہے لیکن اس کمی کے باوجود وہاں لوگوں میں مکانات خریدنے یا اس کاروبار میں سرمایہ کاری کرنے کی ہمت نہیں ہے۔ امریکی معیشت کے اس ناگہانی ہچکولے نے پوری دنیا کو چونکا کے رکھ دیا ہے اور عالمی مفکرین پیش گوئی کرنے لگے ہیں کہ اس کا لازمی نتیجہ ملک کے عدم استحکام کی شکل میں سامنے آئے گا۔ خود امریکی نیشنل انٹیلی جنس نے بھی واضح کیا ہے کہ امریکا کو درپیش چیلنجوں میں جاری معاشی بحران سب سے بڑا خطرہ ہے۔ نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائرکٹر ڈینئیس بلیئر نے سینیٹ میں بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی معاشی بحران اور اس کے نتیجے میں ممکنہ طور پر بھڑک اٹھنے والی عدمِ استحکام کی آگ، امریکا کے لیے انتہائی فوری نوعیت کا خطرہ بن گئے ہیں۔ اس بیان سے امریکا کی ساکھ کے لیے طویل المدت خطرے کی اہمیت بھی اجاگر ہوتی ہے۔ (روزنامہ جنگ، کراچی، ۱۴ فروری ۲۰۰۹ء)

ایک اور رپورٹ کے مطابق بے روزگاری اور ملازمتوں سے فارغ کرنے کا اعلان امریکا میں اس قدر معمول بن گیا ہے کہ امریکی صدر اوباما نے میڈیا سے گفتگو کرنے سے قبل مائیکروسوفٹ اور دیگر پانچ ممتاز امریکی کمپنیوں کا نام لے کر بتایا تھا کہ یہ کمپنیاں ایک ہی دن میں کئی ہزار افراد کو ملازمتوں سے فارغ کرنے کا اعلان کرچکی ہیں، جب کہ معیشت میں ابھی مزید بدحالی آنے کا امکان ہے اور اس کا کوئی حل بھی تاحال پیش نہیں کیا جاسکا ہے۔ کاروباری گہماگہمی والے علاقوں میں ایسی دکانیں اور دفاتر مسلسل نظر آنے لگے ہیں جن پر ’کرایے کے لیے خالی‘ کے بورڈ لگے ہوئے ہیں۔ مکانات اور پراپرٹی کی قیمتوں میں بھی نمایاں کمی آئی ہے اور مزید کمی کے آثار بھی نظرآرہے ہیں، جب کہ خریداروں کا ملنا مشکل نظر آرہا ہے۔ ماہرین کے مطابق ۲۰۰۹ء کا سال بھی امریکی کمپنیوں اور کاروبار کے لیے مایوسیوں اور ناکامیوں کا سال ثابت ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔

ادھر روسی صدر پیوٹن نے خود امریکا ہی کو اپنی معیشت کی تباہی کا ذمے دار ٹھیرایا ہے۔ انھوں نے سابق امریکی انتظامیہ (بش اور اس کی کابینہ) پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ سال (۲۰۰۸ء) میں کونڈولیزارائس نے دعویٰ کیا تھا کہ امریکا ایک بہت مضبوط اور محفوظ معاشی طاقت ہے، تاہم گذشتہ ۶ماہ میں وال اسٹریٹ سے بڑے بڑے مالیاتی امریکی اداروں کا غائب ہوجانا امریکی غلطیوں کا واضح ثبوت ہے۔

روس کے بکھر جانے کے عمل میں دیگر بہت سے عوامل کے علاوہ اس کی زوال سے دوچار معیشت بھی تھی جس نے وہاںکے کروڑوں افراد کو اپنے حکمراں گروہ کے خلاف سڑکوں پر آنے پر مجبور کر دیا تھا۔ جنگ ِ عظیم دوم کے بعد برطانوی معیشت بھی بُری طرح ڈوب چکی تھی، اس لیے برطانیہ نے بھی مقبوضہ نوآبادیات کا بوجھ اپنے سروں سے اُتار پھینکنا شروع کر دیا تھا اور یوں اپنی سلطنت کو اُس کی ابتدائی حدود میں سمٹ جانے پر مجبور کر دیا تھا۔ ملک کی سالمیت یا عدمِ سالمیتکی صورتِ حال میں معیشت کے اہم کردار کو کبھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

عراق اور افغانستان کو اپنا باجگزار بنانے کی خاطر امریکا نے گذشتہ چند عشروں سے ان ممالک پر جو جنگیں مسلط کی ہوئی ہیں، ان پر اٹھنے والے بھاری اخراجات نے بھی امریکی معیشت پر کاری ضرب لگائی ہے۔ اس وقت تک امریکی بجٹ کے ارب ہا ڈالر اس بے مقصد جنگ کی نذر ہوچکے ہیں جو اگر ملک کے اندر صرف ہوتے تو وہاں اِس قدر تیزی سے زوال نہ آتا۔

دوسری طرف معاشرے میں کریڈٹ کارڈز کے بڑھتے ہوئے فیشن نے بھی امریکیوں کو کنگال کردیا ہے۔ ’جیب میں کچھ نہ ہو، اور سب کچھ خرید لو‘ کے دھوکے نے پورے امریکی معاشرے کو کئی عشروں سے جکڑا ہوا ہے۔ ’قرض کی اس مے‘ کو آخرکار کبھی نہ کبھی رنگ لانا ہی تھا۔ سو اس کے اثرات اب ظاہر ہونے لگے ہیں۔ سود کے بے رحمانہ نظام کے باعث بھی ہر امریکی گردن تک شکنجے میں جکڑا ہوا ہے اور پورے معاشرے کی دولت سمٹ کر ۲، ۳ فی صد بنکاروں کے ہاتھوں میں مرتکز ہورہی ہے۔ گردشِ زر جو معیشت میں دورانِ خون کا درجہ رکھتی ہے، سود اسے مفلوج کردیتا ہے اور اسی لیے اسلام نے اسے حرام قرار دیا ہے۔ یہودیت میں بھی کم از کم باہمی طور پر تو سود کو شرعاً حرام ہی ٹھیرایا گیا ہے۔ ہماری روزمرہ زندگی میں بھی سودی قرضوں کے باعث اشخاص انفرادی طور پر اور کاروباری ادارے اجتماعی طور پر تباہ و برباد ہوتے دیکھے گئے ہیں۔ پاکستان بھی غیرملکی سودی قرضوں کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہونے کے باعث استعماری طاقتوں کا مُہربلب غلام بننے پر مجبور ہے۔

صحافی رابرٹ سیموئیل نے امریکی ہفت روزہ نیوزویک کے شمارے میں لکھا ہے کہ دو سال قبل کوئی بڑے سے بڑا ماہر بھی ان حالات کی پیشین گوئی نہیں کرسکتا تھا۔ لوگوں کو عیش و عشرت کی جو عادت پڑی ہوئی ہے، اسے اب دوبارہ نہیں لایا جاسکتا۔ وہ کہتا ہے کہ امریکیوں کا اصل مسئلہ ان کا آسایشوں کا عادی ہونا ہے۔ آسایشیں ان کے لیے ’بنیادی ضرورت‘ کا درجہ اختیار کرگئی ہیں۔

امریکی معیشت کی خرابی کا مزید امکان اس وجہ سے بھی ہے کہ امریکیوں کو اب ٹیکسوں میں مہیب اضافے کے خطرات کا بھی سامنا ہے۔ کانگریس کے بجٹ آفس کے تخمینوں کے مطابق موجودہ (ملازمتی) فوائد کو اگر جوں کا توں بھی رکھا جائے، تب بھی ۲۰۳۰ء تک ٹیکسوں میں ۵۰ فی صد تک کا اضافہ کرنا تو ناگزیر ہی ہوگا۔ (بحوالہ معارف فیچر سروس، کراچی، یکم جنوری ۲۰۰۹ء)

امریکا کے بعد

معروف امریکی جریدے نیوزویک کے ایڈیٹر فریدزکریا نے بھی امریکی زوال پر ایک کتاب دی پوسٹ امریکن ورلڈ لکھی ہے جس میں اس نے اس راے کا اظہار کیا ہے کہ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ امریکا کے مقابلے میں چین، بھارت، برازیل، روس، جنوبی افریقہ اور کینیا جیسے ممالک معاشی طور پر نہایت تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔ دنیا کی بڑی بڑی عمارتیں، بڑے بڑے ڈیم، سب سے زیادہ کاروبار کرنے والی فلمیں، موبائل فون، کاریں، کمپیوٹر پروگرامز، سب کے سب امریکا سے باہر ہی بن رہے ہیں۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ اب صرف امریکا ہی واحد طاقت نہیں رہا ہے بلکہ طاقت کے یہ مراکز اب امریکا سے کہیں باہر منتقل ہو رہے ہیں اور یہی امریکا کا زوال ہے (ص ۸)۔ وہ کہتا ہے کہ ’’بہت سے تبصرہ نگاروں اور ماہرین نے دنیا کی اس نئی ظاہر ہونے والی طاقت کو دیکھ کر نتیجہ اخذ کیا ہے کہ امریکا کے دن اب گنے جاچکے ہیں۔ کسی بھی ملک  میں تنزل کی رفتار اتنی زیادہ تیز نہیں دیکھی گئی جتنی تیزامریکا میں دیکھی گئی ہے (ص ۴۱، ۴۸)۔  فرید زکریا نے امریکا کے عالمی کردار پر بصیرت افروز تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’امریکا نے دنیا کو تو عالم گیر بنا دیا لیکن بدقسمتی سے وہ خود اپنے آپ کو عالم گیر بنانا بھول گیا‘‘۔ (ص ۴۹)

اپنے تجزیے کے آخر میں وہ لکھتا ہے کہ دنیا زیادہ عشروں تک یک قطبی (unipolar) نہیں رہے گی بلکہ ایک دن اچانک بدل جائے گی اور کئی نئی طاقتیں اُبھر کر سامنے آجائیں گی۔ امریکا، اگر پرچار کسی ایک چیز کا کرتا ہے اور عمل کسی دوسری چیز پر کرتا ہے، تو ایسا طرزِعمل قول و فعل کے تضاد پر مبنی ہے جو امریکا کی ساکھ کو نقصان پہنچانے والا ہے۔ امریکا کو اپنی سوچ میں وسعت پیدا کرنی چاہیے اور طاقت کے غیرضروری استعمال سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ اس سے  اس کی مخالفت میں اضافہ ہوگا۔ امریکا کو جس قسم کے بین الاقوامی چیلنج درپیش ہیں، ان کا تقاضا ہے کہ وہ دشمنوں میں اضافہ کرنے کے بجاے دوستوں کی تعداد میں اضافہ کرے۔ (فی الوقت) دنیا میں اس کے دوستوں کی تعداد کم ہورہی ہے، جب کہ اس کے مخالف اور دشمن بڑھ رہے ہیں۔ وہ ایک ایسی دنیا کے بارے میں سوچ رہے ہیں جہاں امریکا کا کوئی کردار نہ ہو، یعنی دنیا امریکا کے بغیر ہو (اختتامی صفحات) ___ اوباما کی افغانستان اور پاکستان کے بارے میں حالیہ پالیسی سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے امریکا نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا اور وہ اپنے مخالفین میں اضافے اور اپنی تباہی پر تُلا بیٹھا ہے۔

ایک روسی دانش ور اور سفارت کار ایگورپینارین (Igor Panarin) نے بھی ۱۹۹۸ء میں پیشین گوئی کی تھی کہ ۲۰۱۰ء تک امریکا ۴ حصوں میں ٹوٹ جائے گا لیکن اس وقت اس کی  پیشین گوئی پر کان نہیں دھرے گئے، جب کہ اب اس کی فراست و بصیرت کی تحسین کی جارہی ہے۔ پینارین کے بقول: اقتصادی بحران، بڑے پیمانے پر نقل مکانی اور اخلاقی انحطاط کے نتیجے میں سول وار ہوگی اور ڈالر کی قیمت گر جائے گی۔ اس کے نتیجے میں ۲۰۱۰ء تک امریکا، ۶ آزاد ریاستوں میں تقسیم ہوجائے گا۔ کیلی فورنیا جمہوریہ کیلی فورنیا بن جائے گا اور چین کے زیراثر آجائے گا۔ ٹیکساس جمہوریہ ٹیکساس بن جائے گا جو میکسیکو کے زیراثر چلا جائے گا۔ واشنگٹن ڈی سی اور نیویارک اٹلانٹک امریکا کا حصہ ہوں گے جو یورپی یونین میں بھی شامل ہوسکتا ہے۔ سنٹرل نارتھ امریکا جمہوریہ کینیڈا کی عمل داری میں ہوگا۔ جمہوریہ ہوائی چین یا جاپان کے مفادات کو پیش نظر رکھے گا، جب کہ الاسکا روس میں شامل ہوجائے گا۔ یہ ماضی میں بھی روس کا حصہ رہا ہے۔

دسمبر ۲۰۰۸ء میں معروف امریکی جریدے وال اسٹریٹ جرنل میں روسی فلاسفر آئیگور نکول وچ نے اسی پیشین گوئی کو دہرایا کہ ۲۰۱۰ء میں امریکا کے ۶ ٹکڑے ہوجائیں گے۔ دوسری طرف ماہرین کے تجزیوں اور عالمی سرووں کے مطابق حالیہ مالیاتی بحران سے امریکا کا سنبھلنا ممکن  نظر نہیں آتا بلکہ اس سال کے آخر میں بحران سنگین تر ہوجائے گا۔ رئیل اسٹیٹ صنعت کے اُبھرنے کے امکانات نظر نہیں آرہے، لوگوں میں خریدنے یا کرایے پر لینے کی سکت نہیں، لاکھوں افراد بے روزگار ہوچکے ہیں، لوگ کاروباری مراکز کرایے پر لینے کے لیے تیار نہیں۔ لہٰذا امریکا کا مستقبل مخدوش ہے۔

مندرجہ بالا حقائق اور اعداد و شمار سے یہ حقیقت بہت واضح طور پر اُبھر کر سامنے آرہی ہے کہ امریکا اپنے زوال کی طرف گامزن ہے۔ اگرچہ روسی اسکالر نے امریکا کے ٹوٹ جانے کی پیشین گوئی محض ۲۰۱۰ء کی ہے لیکن ضروری نہیں ہے کہ یہ حادثہ فی الفور وقوع پذیر ہوجائے۔ ایک قدیم و مستحکم ملک کو منتشر ہوتے ہوئے بھی ۱۰، ۲۰ سال کا عرصہ مزید لگ سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا کو زوال سے دوچار کرنے میں خود اس کی اپنی پالیسیاں اور عوامل نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس کی ان پالیسیوں پر خود امریکا میں بھی علمی حلقوں اور عوامی سطح پر احتجاج کیا جا رہا ہے۔ اگر وہ اپنی روش نہیں بدلتا اور مجموعی طور پر دنیا میں فساد اور بگاڑ ہی کا باعث بنتا ہے تو خدا کے قانون کے تحت زوال اس کا مقدر ہے۔ دنیا میں اُبھرتی ہوئی نئی قوتیں اس تبدیلی کی نشان دہی بھی کر رہی ہیں۔ امریکا کے نئے عالمی نظام کی ناکامی سے ایک ایسے منصفانہ عالمی نظام کی پیاس بھی بڑھ رہی ہے جو انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے، امن و امان کا ضامن بن سکے اور انسان دنیا میں چین کی زندگی گزار سکے۔ یقینا اس حوالے سے اسلام کو نظریاتی برتری حاصل ہے اور وہ ایک متبادل عالمی نظام کے خلا کو پُر کرسکتا ہے مگر عالمِ اسلام کو اس مقام کے حصول کے لیے ابھی بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ عالمی امن کا ’ضامن‘ تو اسلام ہی ہے اور اسے ہی بالآخر غالب آنا ہے، اور اس طرف پیش رفت بھی ہو رہی ہے، تاہم وقتی ضرورت کی تکمیل کے لیے خدا کی طرف سے عارضی نظام کا قیام ناگزیر ہے۔

امریکا یا یورپ میں بالخصوص ستمبر ۲۰۰۱ء سے مسلمان کے طور پر زندگی گزارنا عملی طور پر ایک جرم بن گیا ہے۔ ان کے خلاف بے شمار قوانین وضع کیے گئے ہیں۔ بظاہر ان اقدامات کا مقصد ’انتہاپسندوں‘ پر قابو پانا ہے لیکن عملاً تمام ہی مسلمان شک وشبہے کی نگاہ سے دیکھے جا رہے ہیں۔ سیکورٹی چیک کے بہانے انھیں الگ کھڑا کردیا جاتا ہے، جب کہ بعض کو تو جہاز سے بھی اُتار لیاجاتا ہے۔ سیکڑوں مسلمانوں کومحض شبہے میں گرفتار کر کے ان کی زندگیوں کو تباہ کردیاگیا ہے جیساکہ  گذشتہ ماہ لندن کی ۲۳ سالہ ثمینہ ملک کو محض جہادی شاعری کی بنیاد پر دہشت گرد قرار دے دیا گیا تھا۔ امریکا اور کینیڈا میں مسجدوں اور اسلامی طرز کے اسکولوں کو غنڈا گردی کا نشانہ بنایاگیا ہے اور حجاب پہننے والی خواتین پر آوازے کسے جاتے ہیں۔ ان اقدامات کو مغرب میں ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں جائز قرار دیا جاتا ہے۔ 
اس ناروا سلوک پر مسلمان سراپا احتجاج ہیں۔ کینیڈا کے کئی اسکولوں اور جامعات میں مسلم طلبہ کوجب اس بنیاد پر نماز کی سہولت فراہم کرنے سے انکار کیاگیا کہ تعلیمی ادارے سیکولر بنیادوں پر قائم ہیں تو مقامی طلبہ کی ایک تنظیم ’اونٹاریو فیڈریشن آف اسٹوڈنٹس‘ نے تعلیمی اداروں پر چھا جانے والے ’اسلامو فوبیا‘ کے خلاف جدوجہد کا اعلان کیا ہے۔
امریکی مسلم خواتین کی ایک تنظیم نیشنل ایسوسی ایشن آف مسلم امریکن وومن، ناما (NAMAW) نے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے باقاعدہ قانونی جدوجہد کا آغاز کیا ہے۔ اس تنظیم نے امریکی محکمۂ انصاف کے پاس جنوری ۲۰۰۷ء میں امریکی عربوں اور مسلمانوں کے خلاف صہیونی لابی کی حرکتوں پر مبنی ایک شکایت درج کرائی تھی جس میں سول رائٹس ڈویژن کے سربراہ مارک کیپل ہوف سے استدعا کی گئی تھی کہ وہ اس امر کی تحقیقات کرائے کہ کئی شخصیات اور اداروں نے قانون نافذ کرنے والے امریکی اداروں کو گمراہ کن اور حدسے زیادہ سیاسی اطلاعات فراہم کی ہیں جن کا مقصد امریکی عربوں اور مسلمانوں کے خلاف مالی، سماجی، قانونی اور سیاسی ماحول پیدا کرنا ہے تاکہ ان کے ساتھ مذہبی امتیاز پر مبنی پالیسی بنائی جاسکے اور انھیں پوچھ گچھ کے مرحلوں سے گزارا جاسکے۔ درخواست میں کہا گیا تھا کہ اس وجہ  سے مسلمانوں کو ان کے جائز آئینی حقوق سے بھی دستبردار کیا جا رہاہے۔
ناما کسی ایسے فرد یا ادارے کو براہِ راست نامزد کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتی جسے وہ امریکی عرب اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کا اور ان کی ساکھ متاثر کرنے کا ملزم گردانتی ہو۔ اس کے نزدیک اس جرم کا ارتکاب کرنے والی شخصیات وتنظیمات میں امریکن اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی (AIPAC)، امریکن جیوش کمیٹی (AJC)، اینٹی ڈیفامیشن لیگ (ADL)، امریکن جیوش کانگرس (AJC)، جیوش کونسل آن پبلک افیئرز (JCPA) ہیں، اور شخصیات میں اسٹیوایمرسن، ڈینیل پائپس، ریٹاکاٹز، اسٹیون شوائز اور ایوئن کوہل مین وغیرہ شامل ہیں۔ ان تنظیمات اور شخصیات نے ایسی تقریریں اور بیانات نشر کیے جن کی بنیاد پر امریکی عربی اور عام مسلمانوں کے خلاف معاندانہ ماحول پیدا ہوا اور انھیں شہری آزادیوں اور حقوق سے دستبردار ہونا پڑا۔
اپنی عرضداشت میں ناما کی چیئرپرسن ڈاکٹر انیسہ عبدالفتاح نے مذکورہ شخصیات کی تقریروں، تحریروں اور بیانات کو منسلک کیا ہے جن کے باعث بعض اوقات نفرت انگیزی کی انتہا کردی گئی ہے، اور سرکاری محکمہ جات کو مسلمانوں کے خلاف مغالطے میں مبتلا کیا گیا ہے جن میں امریکی کانگریس بھی شامل ہے۔ اس نفرت انگیز مواد کی نشرواشاعت کا مقصد یہ تھا کہ عربوں اور مسلمانوں کے خلاف ایسے قوانین منظور کروائے جائیں جن سے ان کے آئینی حقوق پر ڈاکا ڈالا جاسکے۔ عرضداشت میں خصوصی طور پر یونائیٹڈ اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ فار پیس کے سابقہ بورڈ ممبر ڈینیل پائپس کے ایک حالیہ مضمون کاحوالہ دیا گیا ہے جو نیویارک پوسٹ کی ۲۶دسمبر ۲۰۰۶ء کی اشاعت میں بعنوان ’فاشسٹوں اور کمیونسٹوں کو شکست دینے کے بعد کیا اب مغرب ’اسلام پسندوں‘ کو بھی شکست دے سکتا ہے؟‘ شائع ہوا ہے۔ واضح رہے کہ ڈینیل پائپس اسلام دشمنی کی ایک طویل تاریخ رکھتا ہے۔ اس نے خود کہا تھا کہ اسلام پسند، مقدس اسلامی قوانین، یعنی شریعت کے مطابق زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر انیسہ عبدالفتاح لکھتی ہیں: ’’اگر ہم ڈینیل کی مذکورہ تعریف کو قبول کرلیں جیساکہ امریکا میں قانون نافذ کرنے والے اور پالیسی بنانے والے اداروں نے عام طور پر اسے قبول کیا ہوا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا دنیا کے ہرمسلمان حتیٰ کہ خود مذہب اسلام سے بھی حالتِ جنگ میں ہے۔ ڈینیل پائپس کے نزدیک مسلمانوں کی قانونی سرگرمیاں، ان کی غیرقانونی سرگرمیوں سے کہیں زیادہ دُور رس چیلنج کو جنم دیتی ہیں کیونکہ اس طرح امریکا میں سیاسی معاملات میں صہیونی اجارہ داری پر زد پڑتی ہے۔
کسی بھی قسم کا ابہام باقی نہ رہنے دینے کے لیے ڈاکٹر فتاح نے امریکی محکمۂ انصاف کو دوٹوک الفاظ میں لکھا ہے کہ:
۱- یہودی تنظیموں اور سرگرم افراد نے یہاں امریکا میں مسلمانوں، عربوں اور سفیدفام  قوم پرست تنظیموں پر مشتمل اپنے ’دشمنوں‘ کی ایک فہرست تیار کی ہے جس میں ان افراد اور گروپوں کو نامزد کیا گیا ہے جو اسرائیلی ریاست کے لیے خطرہ یادشمن تصورکیے جاتے ہیں۔
۲- ان یہودی تنظیموں نے مسلمانوں، عربوں اور خود اسلام کے خلاف راے عامہ کو گمراہ کرنے کے لیے اپنے مالی وسائل اور سیاسی اثر ورسوخ کو استعمال کیا ہے تاکہ سیاسی مقاصد کے لیے انھیں غیرمؤثر کیا جائے، انھیں جائز آئینی و قانونی حقوق سے محروم کیا جائے اور اسلام کی عطاکردہ آزادی پر قدغن لگائی جائے۔
ناما کی طرف سے دائر کردہ اس کی درخواست میں امریکی محکمۂ انصاف سے استدعا کی گئی ہے کہ مذکورہ شکایات کی تحقیقات کی جائیں اور اس قسم کے اقدام کے خاتمے کے لیے ضروری کارروائی کی جائے، تاہم سیاسی اثروسوخ کی بنا پر صہیونی لابی کے خلاف کوئی مناسب اقدام اٹھائے جانے کی امید کم ہے ۔ لیکن نتائج کی پروا کیے بغیر ناما اور اس کی چیئرپرسن کے اس اقدام کی داد ضرور دی جانی چاہیے کہ انھوں نے صہیونی لابی کے نفرت انگیز اقدام کو سرکاری سطح پر نمایاں کیا ہے جس کی وجہ  سے کئی عشروں سے امریکی پالیسیاں صہیونیوں کی یرغمال بنی ہوئی ہیں۔
_______________

مغرب ہمیں ’کم بچے خوش حال گھرانا‘ کا سبق پڑھا رہا ہے۔ ہمارے حکمران اسے ترقی کے پھل ہر گھر تک پہنچانے کا نسخہ سمجھ کر بے سوچے سمجھے اس پر دل و جان سے عمل پیرا ہیں‘ لیکن خود مغرب کو جو قانونِ قدرت سے لڑنے میں ایک مدت گزار چکے ہیں اس کے کیا پھل مل رہے ہیں‘ اس نے ان کے اہلِ فکر کو پریشان کر رکھا ہے۔ اس پر مستزاد اس مسئلے میں مسلم عنصر کا دخل بھی ہے جس کی وجہ سے انھیں کافی ڈرائونے خواب آرہے ہیں۔ معلوم نہیں کیا سمجھ کر خود ہی نائن الیون کیا‘ اور کیوں خود ہی اپنی رات کی نیندیں حرام کرلی ہیں۔ بے بنیاد افواہ پر بھی شہر کے شہر سُونے ہوسکتے ہیں۔ مل جل کر رہنے کے بجاے‘ تصادم کا راستہ اپنایا‘ اب اسی کے نتائج کا سامنا کررہے ہیں۔ مالتھس نے نظریہ پیش کیا‘ مغربی تہذیب نے اسے اپنا لیا۔ اس کے پیچھے یہودی ہاتھ بتایا جاتا ہے جس نے اس طرح عیسائی دنیا کو مسائل کا شکار کردیا۔

تاریخ نے دیکھا ہے کہ تاتاریوں کے قبولِ اسلام کے بعد کعبے کو صنم خانے سے پاسباں  مل گئے‘ آج بھی یہ عمل دہرایا جاسکتا ہے اس لیے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ اگر آج مسلمان صرف رفتارِ پیدایش پر تکیہ نہ کریں‘ بلکہ عصرِحاضر کے دعوتی تقاضوں کو کماحقہ پورا کریں‘ چیلنجوں کا ادراک کریں اور ان کا قرار واقعی مقابلہ کریں تو جو بات مغرب کے اہلِ فکر کچھ دُور دیکھ رہے ہیں‘ اللہ اپنی مشیت سے اسے بہت جلدی برپا کرسکتا ہے۔ اگر غیرمسلم معاشرے مسلمان ہوجائیں تو ہمیں اور کیا چاہیے۔ ہمارے لشکر جب کہیں حملہ کرنے جاتے تھے تو پہلا آپشن یہی دیتے تھے۔ نئے تناظر میں سارا مغرب دارالدعوۃ ہے۔ ہم جو وہاں موجود ہیں ‘ اسلام کے سچے داعی ہوں‘ اور ہم ۱۵۷ نہ سہی‘ ۱۰‘ ۲۰ ممالک میں اسلامی معاشرہ قائم کرلیں‘ تو رسل و رسائل کی ترقی کی وجہ سے اس کے اثرات پریشان اور سکون سے محروم معاشروں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل جائیں گے۔ انسان اپنے فطری دین کی طرف پلٹ آئے گا۔

عیسائی مملکتوں میں آبادی آج اتنی گھٹ گئی ہے کہ وہاں خطرے کا الارم بج چکا ہے۔ دسیوں قسم کے خطرے وہاں کے حکمرانوں اور دانش وروں کو آیندہ محض چند برسوں میں پیش آتے نظر آرہے ہیں۔ اسی حوالے سے بعض چونکا دینے والے حقائق قابلِ غور ہیں:

  •   برطانوی ماہرین اپنے ملک میں خطرناک حد تک کم شرح پیدایش سے انتہائی پریشان ہیں (روزنامہ اسلام‘ کراچی‘ ۲۵ جنوری ۲۰۰۶ء) کیونکہ وہاں ملک چلانے کے لیے مطلوبہ افراد موجود نہیں ہیں۔
  •    آیندہ تین عشروں میں (یعنی ۲۰۳۰ء تک) جاپان‘ یورپ اور امریکا میں بچوں کے چچا‘ ماموں اور پھوپھا نہیں ہوں گے بلکہ ان کے رشتے دار صرف دادا اور پردادا ہوں گے کیونکہ وہاں بچوں (بھائی بہنوں) کی پیدایش خطرناک حد تک گر گئی ہے۔ (معارف فیچر سروس‘ ۱۶مئی ۲۰۰۱ء)
  •  ۲۰۴۰ء تک برطانیہ میں عیسائی آبادی ۷۲ فی صد سے گھٹ کر صرف ۳۲ فی صد رہ جائے گی۔ (نواے وقت‘ کراچی‘ ۶ستمبر ۲۰۰۵ء)
  •  جاپان کا معاشرہ اس وقت ایک ایسا معاشرہ ہے جو بچوں سے خالی ہے کیونکہ وہاں   شرح پیدایش تیزی سے گر گئی ہے۔ جاپانی خواتین کی انجمنوں کا کہنا ہے کہ معاشرے کا عمومی رویہ بچے پیدا کرنے کے حق میں نہیں ہے۔ (نواے وقت‘کراچی‘ ۵دسمبر ۲۰۰۶ء)
  •  جاپان میں اگر بچوں کی شرح پیدایش موجودہ ۲۹ء۱ کے حساب سے برقرار رہی تو ۳۳۰۰ء تک پوری جاپانی قوم دنیا سے ختم ہوجائے گی۔ (معارف فیچرسروس‘ کراچی‘ ۱۶فروری ۲۰۰۶ء بحوالہ ٹائم میگزین‘ ۱۶ جنوری ۲۰۰۶ء)
  •  روس میں شرح پیدایش آج ۰۳ء۱ ہے‘ جب کہ ۱۹۸۰ء کے عشرے میں یہ ۳ء۲ تھی۔ (نیوزویک‘ ۴ نومبر ۲۰۰۶ء)
  •  فرانس میں ایک خاتون پر بچوں کی اوسط تعداد آج ۹ء۱ ہے‘ جب کہ آبادی میں اضافے کے لیے اسے کم از کم ۰۷ء۲ ہونا چاہیے۔ (معارف سروس فیچر‘ کراچی‘ ۱۶اکتوبر ۲۰۰۵ء بحوالہ ٹائم میگزین ۳اکتوبر ۲۰۰۵ء) گویا فرانس کی شرحِ پیدایش کو اس وقت موجودہ سے ڈیڑھ گنا ہونا چاہیے۔
  •  فرانس میں زیادہ بچے پیدا کرنے والی مائوں کے لیے پُرکشش مراعات کا اعلان کیا گیا ہے کیونکہ وہاں شرحِ پیدایش خطرناک حد تک گر گئی ہے جو شرحِ اموات سے بھی کم ہے۔ (روزنامہ اسلام‘ کراچی‘ ۲۵ستمبر ۲۰۰۵ء)
  •  آسٹریلیا میں بھی کم سن لڑکیوں کے حاملہ ہوجانے کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے اور بچے کی پیدایش پر انھیں بونس دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ پہلے انھیں ۲۱۰۰ امریکی ڈالر فی بچہ دیے جائیں گے جسے بڑھا کر بعد میں ۳۵۰۰ امریکی ڈالر کردیا جائے گا۔ (نواے وقت‘ کراچی ۳۰ جون ۲۰۰۶ء)
  • دنیا میں ۲۰۵۰ء تک ہر تین میں سے ایک فرد بوڑھا ہوگا۔ ۲۰۵۰ء تک جاپان‘ آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ‘ یورپ اور جنوبی امریکا میں سالانہ ۱۰ لاکھ افراد کی کمی ہوگی‘ جب کہ اس سال تک جاپان میں ۸۰ فی صد آبادی بوڑھوں پر مشتمل ہوگی۔ (روزنامہ عوام‘ کراچی‘ ۸مارچ ۲۰۰۵ء بحوالہ رپورٹ اقوام متحدہ)
  •   چین کے ایک صوبے گوانگ ڈونگ میں حکومت نے فی خاندان ایک بچے کے حکم کی خلاف ورزی کے جرم میں خواتین کے ۲۰ہزار حمل ضائع کروا دیے۔ (نواے وقت‘ کراچی‘ اے این پی ۹اگست ۲۰۰۱ء)
  •  چین میں ایک بچے کی پالیسی کی وجہ سے لڑکیاں ’قتل‘ کی جارہی ہیں۔ اندازہ ہے کہ  ۲۰۲۰ء تک ۳۰ کروڑ چینی لڑکے اپنے لیے بیوی تلاش نہیں کرسکیں گے۔ (روزنامہ جسارت‘ ۳۰مئی ۲۰۰۷ء)

آبادی میں کمی کے جو حقائق اُوپر بیان کیے گئے ہیں‘آبادی منصوبہ بندی کا وہ صرف ایک پہلو ہیں۔ یعنی کام کرنے والے ہاتھوں کی شدید کمی۔ لیکن اس کا دوسرا پہلو بھی اہمیت کا حامل ہے وہ یہ کہ  یورپ اور امریکا میں مقامی عیسائی آبادی کا تناسب تیزی سے کم‘ اورمسلم آبادی کا تناسب تیزی سے زیادہ ہورہا ہے۔ مغرب اس وقت افزایش نسل پر عمل پیرا نہیں ہے۔ اگرچہ تحدید آبادی کا اثر مسلمانوں پر بھی پڑا ہے‘ لیکن اس کے باوجود ایک مسلم خاندان میں آج بھی تین چار بچے تو ہوتے ہی ہیں۔ یوں آبادی کا تناسب ازخود مسلمانوں کے حق میں جارہا ہے۔ دوسری طرف مغرب میں افرادِ کار کی شدید قلت کے باعث اسلامی ممالک سے مسلم نوجوانوں کی مغرب میں تیزی سے آمد کے باعث بھی وہاں مسلمانوں کی آبادی عیسائیوں سے بڑھ رہی ہے‘ یا کم از کم ان کے برابر آرہی ہے۔ وہ اپنے ہاں مسلمانوں کی آمد کو روک نہیں سکتے کیونکہ انھیں اپنا کاروبارِ ریاست بھی چلانا ہے۔ یوں آبادی کے لحاظ سے وہ دوطرفہ دبائو میں ہیں۔ وہاں کے دانش ور‘ صحافی‘ پروفیسر اور حکمران سب واویلا مچارہے ہیں کہ اگر آبادی کا تناسب اسی طرح الٹتا رہا تو عیسائی خود اپنے ہی ممالک میں اقلیت بن کر رہ جائیں گے۔ ملاحظہ ہو:

  •  مشہور اطالوی صحافی خاتون اوریانا فلاسی نے اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ آیندہ ۲۰ برس کے اندر نصف درجن یورپی شہر ۳۰ تا ۴۰ فی صد مسلمان ہوجائیں گے اور اسلام کی ایک کالونی بن جائیں گے۔ اس نے کہا کہ اس کی اصل وجہ یورپ میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ (ڈان‘ کراچی‘ ۱۳ مارچ ۲۰۰۵ء)
  •  آج یورپی یونین کے اہم رکن فرانس میں مسلمانوں کی آبادی ۵۰لاکھ (یعنی یورپ میں سب سے بڑی مسلم آبادی) اور جرمنی میں ۳۵ لاکھ ہے۔ آیندہ چند عشروں میں یورپ کے کئی بڑے شہروں کے مسلم اکثریتی شہر بننے کا امکان ہے۔ (نواے وقت‘کراچی‘ ۱۹ جون ۲۰۰۵ء)
  •  یورپ میں اشاعتِ اسلام کی رفتار اگر یہی رہی تو آیندہ ۲۵ برسوں میں مسلمانوں کی تعداد وہاں ۶ کروڑ سے تجاوز کرجائے گی۔ (واضح رہے کہ اکثر یورپی ممالک کی آبادی بمشکل ۵تا ۶ کروڑ ہے)۔ یورپی یونین میں ترکی کی شمولیت کی مخالفت کی ایک بڑی وجہ  اس کی مسلم آبادی بھی ہے جس کے باعث یورپی یونین کی مسلم آبادی عیسائی آبادی سے بڑھ جائے گی۔ (جنگ‘ کراچی‘ ۱۶ فروری ۲۰۰۷ء )
  •  برطانوی پالیسی ساز ادارے کرسچین ریسرچ کے مطابق ۲۰۲۲ء تک برطانیہ کے ۴ ہزار چرچ بند ہوجائیں گے۔ (نواے وقت‘ کراچی‘ ۱۵ مارچ ۲۰۰۷ء)
  •  مشہور مستشرق برنارڈ لیوس نے پیشن گوئی کی ہے کہ ۲۱ویں صدی کے اختتام یعنی ۲۰۹۰ء تک سارا یورپ مسلم اکثریتی علاقہ بن جائے گا۔ (نواے وقت‘ کراچی‘ ۱۹جون ۲۰۰۵ء)

مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی اور بنیاد پرستی کا جو عالمی پروپیگنڈا ہورہا ہے‘ اس سے خیر کا یہ پہلو برآمد ہوا ہے۔ مغرب میں اسلام کو سمجھنے اور پھر قبول کرنے کا رجحان بڑھا ہے۔ اس وقت جاپان سمیت امریکا اور یورپ میں مقامی عیسائی آبادی کے قبولِ اسلام کے واقعات تیزی کے ساتھ رونما ہورہے ہیں جس میں ان کے نمایاں اور ممتاز افراد بھی شامل ہیں۔

  •  یورپی نوجوانوں میں اسلام سے دل چسپی کا رجحان بہت بڑھا ہے۔ اس لیے یورپی ممالک کو اندیشہ ہے کہ وہاں اسلامی انقلاب کی آواز زیادہ بلند ہوجائے گی۔ (نواے وقت‘ ۱۹ جون ۲۰۰۵ء)
  •  فرانس اور برطانیہ میں گذشتہ ۱۰ برسوں کے اندر ایک لاکھ سے زیادہ مقامی افراد نے اسلام قبول کیا ہے۔ (جنگ‘ کراچی‘ ۱۶ فروری ۲۰۰۷ء بحوالہ ایک فرانسیسی جریدہ)
  • امریکی عیسائیوں میں قرآن پاک کے مطالعے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔   (نواے وقت‘ کراچی‘۴ جون ۲۰۰۵ء)
  • امریکا میں اس وقت مسلمانوں کی تعداد ایک کروڑ ہے‘ جب کہ ہر سال ۶ فی صد کے حساب سے ۲۰ ہزار لاطینی امریکی اسلام قبول کر رہے ہیں (نواے وقت‘ کراچی ۷فروری ۲۰۰۵ء)۔ واضح رہے کہ شمالی امریکا میں لاطینی امریکیوں کی بھی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔
  •  فرانس میں مساجد کی تعداد ۴ ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ تحقیقی ادارے اسلام آرکائیوز سنٹرل انسٹی ٹیوٹ نے تخمینہ پیش کیا ہے کہ ۲۰۴۶ء تک مسلمان جرمنی کی اکثریتی آبادی بن جائیں گے۔ گلاسگو یونی ورسٹی برطانیہ میں مذہبی مطالعے کی پروفیسر نکول بورگ کا کہنا ہے کہ وہ تنہا گلاسگو کے علاقے میں ۲۰۰ ایسے افراد کو جانتی ہے جنھوں نے عیسائیت ترک کرکے اسلام قبول کیا ہے۔ (نواے وقت‘ کراچی‘ ۵ مارچ ۲۰۰۷ء)
  •  آسٹریلیا کی ایک نومسلم خاتون عائشہ نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ یہاں ہرہفتے آپ کو ملک بھر سے نئے لوگوں کے مسلمان ہوجانے کی خبریں سنائی دیتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ آسٹریلیا میں مسلمان ہونے والی ۸۰ فی صد تعداد خواتین کی ہوتی ہے۔ (مضمون از پال لمیاتھاکس‘ جنگ سنڈے میگزین‘۲۹ اپریل ۲۰۰۷ء)

مغرب میں مسلمانوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کا ایک لازمی نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ عیسائیوں کی تہذیب و ثقافت پر مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت اثرانداز ہورہی ہے۔ یورپ اور امریکا کے ہر بڑے شہر میں مسجدوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور بلند ہوتے ہوئے مینار جابجا اسلامی اثرات کو نمایاں کر رہے ہیں۔ وہاں سڑکوں پر اسکارف پہنی خواتین اور داڑھی ٹوپی والے مرد زیادہ نظر آنے لگے ہیں۔ دکانوں پر عربی اور دوسری مشرقی زبانوں کے بورڈ بھی پہلے سے زیادہ آویزاں نظر آتے ہیں۔ اُردو اور عربی اخبارات ورسائل کی اشاعت میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے۔ مسلم آبادی کے بڑھتے ہوئے دبائو کے باعث اب وہاں مقامی اور ریاستی حکومتوں میں مسلم شخصیات کی تعداد بڑھ رہی ہے‘ جب کہ ایوانِ عام اور ایوانِ بالا میں بھی مشرقی و نومسلم افراد نشستیں حاصل کر رہے ہیں۔ حال ہی میں امریکی کانگریس میں ایک نومسلم فرد نے قرآن پاک پر حلف اٹھانے کا تاریخی کارنامہ انجام دیا ہے۔ نواے وقت(کراچی ‘ ۲۱ مئی ۲۰۰۷ء) کی ایک خبر کے مطابق فرانس میں پہلی بار ایک مسلمان خاتون وزیر نے حکومت میں شمولیت اختیار کی ہے۔ اس خاتون کا تعلق شمالی افریقہ سے ہے۔ لہٰذا جیسے جیسے ان ممالک میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جائے گا‘ مرکزی حکومتوں اور سینٹ و کانگریس میں ان کی نمایندگی کا تناسب بھی بڑھتا چلا جائے گا۔

مسلم آبادی میں اضافے کی وجہ سے مغرب میں عملی‘ دعوتی اور اسلام پسند نوجوانوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگا اور ان کے اثرات وسیع ہوں گے۔ لہٰذا مغرب جو یہ خدشہ ظاہر کررہا ہے کہ عنقریب عیسائی دنیا اپنے ہی اکثریتی علاقوں میں اقلیت بن کر رہ جائے گی اور مسلمان وہاں غالب آجائیں گے تو اس میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے۔ اس سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ یورپی عیسائی ایک بار پھر اپنی آبادی بڑھانے کی کوشش کریں۔ لیکن مغربی مرد و عورت اپنے عیش و آزادی میں اب اتنے آگے جاچکے ہیں کہ وہاں سے پلٹ کر آنا ان کے بس میں نہیں رہا ہے۔