تحریک صہیونیت اصل میں اشکنازی یہودیوں نے شروع کی تھی، جو سرخ و سفید رنگت رکھتے ہیں اور مذہب سے جن کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس کابانی تھیو ڈور ہرزل تھاجس کے انتقال کےبعد چیم ویزمین تحریک صہیونیت کا چیرمین بنا اور قیامِ اسرائیل کے بعد وہی ملک کاپہلا صدربھی بنا تھا۔ یہ لوگ یروشلم کے صہیون پہاڑ پر تخت ِداؤد لانا چاہتے ہیں ۔ یاد رہےکہ لادینی اور مذہبی دونوں ہی قسم کے یہودی مل کر ایک ہی مقصد پر کام کر رہے ہیں کہ تخت داؤد کو لایا جائے اور صہیون پہاڑ پر رکھا جائے۔ یہ دونوں گروہ گریٹر اسرائیل کی بھی بات کرتے ہیں اور اس نکتے پر متفق ہیں کہ گریٹر اسرائیل بنانا ان کا خدائی حق ہے ۔ ان کی پارلیمنٹ اور کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ ’’اسرائیل تیری سرحدیں فرات سے لے کر نیل تک ہیں‘‘۔ بلکہ وہ تو خیبر مدینے تک پر اپنا حق جتاتے ہیں،جہاں کبھی یہودی رہے بسے تھے ۔ اسرائیل نے ۱۹۸۸ء میں ایک سکہ جاری کیاتھا، جس میں دریائے نیل سے دریائے فرات تک کا علاقہ دکھایا گیا تھا ۔لیکن وہاںکے اسٹیٹ بینک نے اس کی یہ کہہ کر تردید کی تھی کہ نقشےکی غلط تشریح کی جارہی ہے۔اسرائیلی پرچم پر بھی اوپر نیچے نیلی دو سیدھی لکیریں اسی نظرئیے کی تائید کرتی ہیں۔
ان کے پروٹوکولز میں لکھا ہوا ہےکہ’’ہماری حکومت قائم ہونےکے وقت ہمارے مذہب کے علاوہ کسی اور مذہب کا باقی رہنا مناسب نہیں۔ ضروری ہے کہ ہم ہر قسم کے اعتقادات (ایمانیات) کا خاتمہ کردیں‘‘۔ (دستاویز نمبر ۱۴-۱۷)۔ان کا مذہبی عقیدہ ہے کہ ہم اعلیٰ ترین نسل اور خدا کے چنے ہوئے بندے ہیں۔ ہم تبلیغ بھی اسی لیے نہیں کرتے کہ ہماری نسل سب سے اعلیٰ ہے ۔ اس لیے دوسری قوموں کو ہم اپنے اندر کیسے ملا لیں؟ یہی وجہ ہے کہ ان کی تعداد آج کل بھی دو یا سوا دو کروڑ سے کبھی زیادہ نہیں ہو سکی ہے ۔ پروٹوکولز کے مطابق: ’’ہم یہ چاہتے ہیں کہ دُنیا کی تمام مملکتوں میںہمارے علاوہ صرف مزدوراور محنت کش طبقہ ہو‘‘۔ جب ہماری حکومت قائم ہوگی تو ہم سب سے پہلے یونی ورسٹیوں کی تعلیم کی از سرنو تنظیم کریںگے‘‘ (دستاویز نمبر بالترتیب ۷،۹،۱۶)
صہیونی یہودی دعویٰ کرتےہیں کہ ساری دنیا ہمارے کنٹرول میں ہوگی اور اسے ہم اپنے ماتحت رکھیں گے۔ ہمارا ایک میگا کمپیوٹر ہوگا، جس میں ایک ایک شہری کا ڈیٹا رکھیں گے ۔اور جو ہماری خلاف ورزی کرے گا اسے سزائیں سنائیں گے ۔ انھوں نے تو یہاں تک کہا ہے کہ دنیا کی ہر لڑکی ہماری لڑکی ہوگی۔
پروٹوکولز زوردیتے ہیںکہ ’’ہم قتل عام کرائیںگے اور اپنے کسی مخالف کومعاف نہیں کریں گے‘‘(نمبر ۹)۔دنیا میں بے حیائی پھیلانے کے ان کے جو طریقے ہیں، ان کی تفصیل بہت لمبی ہے۔ امریکا میں انھوں نے ہالی وُڈ اسی مقصد کے تحت قائم کیا تھا۔ ہالی وڈ جب پہلی دفعہ آیا تھا تو انھوں نے کچھ بے شرمی کی باتیں شروع کی تھیں، جس پر سنجیدہ عیسائی چیخ اُٹھے تھے کہ ایسی فلمیں بند کرو جن کے نتیجے میںہماری اخلاقی قدریں کمزور ہورہی ہیں۔ نتیجے میں صہیونی کچھ پیچھے ہٹے تھے۔ مگر پھر آہستہ آہستہ لوگوں کی حِس کو سُن کرکے مطلوبہ درجے پر پہنچ گئے۔
چنانچہ اگر ہم اسرائیلیوں کی باتیں تسلیم کر لیں گے تو ہمارے پاس بچے گا کیا؟پھر مسلمانوں ہی میں سے نعوذ باللہ حج اور عمرے کو برا بھلا کہا جائے گا۔لوگ کہیں گے کہ ’’یہ سب عیاشی ہے‘‘۔ اور دبے لفظوں میں یہ کہا جانے بھی لگا ہے۔ پھر کہا جائے گا: ’’ قربانی کی ضرورت ہی کیا ہے ؟‘‘ ۔ پھر ہماری زبان بدل جائے گی ، پھرہماری نظریں بدل جائیں گی۔ یوں رفتہ رفتہ وہ ثقافتی، تعلیمی اور مذہبی و اخلاقی حوالے سے بھی آگے بڑھتے جائیں گے، بلکہ بڑھ رہے ہیں۔
قیامِ اسرائیل سے اب ۷۵ برسوں تک دہشت گردی اور نسل انسانی کے مٹانے کے رویے میں وہاں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ جو بھی وزیراعظم آتا ہے، (اِس طبقے کا یا اُس طبقے کا)، اس نے اسرائیل کی توسیع ہی کی ہے۔ شروع میں جب اسرائیل کوبرطانیہ کی جانب سے بسانے کی اجازت دی گئی تھی تو نتیجے میں انھیںسات ،آٹھ ،یادس فی صد زمین دی گئی تھی۔ مگر سوچنے کی بات ہے کہ کیوں یہ ریاست آج ا س حد سے بھی آگے بڑھ گئی ہے؟مقامی فلسطینی آبادی گھٹ گئی اور یہودی آبادی بڑھ گئی ہے ۔ تو یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوا ؟ جیسا کہ پہلے بتایاگیا کہ اسرائیل کی کوئی حدود ہی متعین نہیں ہیں۔ دنیا کا یہ واحد ملک ہے جس کی کوئی حدود نہیں ہیں ۔یہودی کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ ’’اے اسرائیل تیری سرحدیں دریائے نیل سے دریائے فرات تک ہیں‘‘۔
امریکی کار کمپنی فورڈکے بانی ہنری فورڈنے یہودیوں کے خلاف اپنی معروف کتاب The International Jews ترجمہ عالمی یہودی فتنہ گر از میاں عبدالرشید میں صہیونیوںکی کئی خفیہ سازشوںکو بے نقاب کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں فورڈ لکھتاہے کہ ’’کالجوں میں بھی یہودیوں نے وہی طریقہ اختیارکیا ہے، جس سے وہ ہمارے گرجوں کو تباہ کرچکے ہیں۔ نوجوانوںکو یہ تاثر دیا جاتاہے کہ وہ ایک نئی عظیم تحریک میںحصہ لے رہے ہیںجو انسانوں کی فلاح کے لیے ہے ‘‘۔ وہ سوال کرتاہے کہ پھرا س کا علاج کیا ہو؟ کہتاہے کہ ’’علاج بالکل آسان ہے۔ طلبہ کو بتایا جائے کہ ان تمام افکار کی پشت پر یہودی ہیں، جوہمیں اپنے ماضی سے منقطع کرکے آئندہ کے لیے مفلوج کرنا چاہتے ہیں۔انھیں بتایا جائے کہ وہ (عیسائی طلبہ) ا ن لوگوںکی اولاد ہیں جو یورپ سے تہذیب لے کر آئے ۔تہذیب ان کی گھٹی میںپڑی ہوئی تھی۔ اور اب یہ یہودی ہمارے اند ر گھس آئے ہیں۔ ان کی نہ کوئی تہذیب ہے نہ مذہب ‘‘۔وہ مزید آگاہ کرتا ہے کہ’’ یہودیوں کی مطبوعات، کتابوں، پمفلٹوں، اعلانوں، اوران کے اداروں کے دستوروں سے ثابت ہےکہ ان کے اندر غیریہودیوں کے لیے سخت نفرت پائی جاتی ہے‘‘ (ص ۱۴، ۵۱)۔آگے زور دیتے ہوئے وہ کہتاہے: ’’اب ہرحکومت کو یہودی مسئلے کانوٹس لینا پڑے گا کیونکہ اس وقت یہ مسئلہ دنیاکے تمام مسائل سے عظیم تر ہوچکاہے۔اور ساری دنیا کےچھوٹے بڑے قومی یا بین الاقوامی مسائل،اسی کی کوکھ سے جنم لے رہے ہیں ‘‘(ص ۵۷)۔ ہنری فورڈکا زمانہ ۳۴،۱۹۳۳ء کا تھا، جب جرمنی میں ہٹلر برسرِاقتدار تھا۔ ہٹلر نے اس کتاب پر فورڈ کو مبارک باد بھی دی تھی ۔کیونکہ اس نے ہٹلر کےکام کو علمی لحاظ سےمزید آسان کیا تھا۔
ایک اور اہم شخصیت نے بھی یہودیوں کی خباثت اور گہری سازشوں سے پردہ اٹھایا ہے۔ امریکی سی آئی اے کا ایک سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر جان کولمین تھا، جواپنی تحقیقی کتاب The Conspirators Hierarchy, the Committee of 300 میں ،جو اس کے بقول صہیونیوں کی ’نادیدہ عالمی تنظیم‘ ہے، انکشاف کرتاہے کہ یہ لوگ دنیا بھر میں ایسی جنسیاتی و ہذیانی کیفیت پیداکرنا چاہتے ہیں، جس میں کسی قسم کاکوئی خوف ، جھجک ،اور شرم نہ ہو ۔ڈاکٹرکولمین نےاس مقصد کے لیے ایک نئی اصطلاح استعمال کی ہے: Mindless Sex۔ یعنی ایسی شہوت اور بدکاری جس میںکوئی بھی ،کسی سے بھی ، کہیں بھی، اور کسی طرح بھی، باہمی مصروف ہوجائے۔ (ص ۵۴)
یہ سوچنا چاہیے کہ ان کی ایک خفیہ تنظیم فری میسینری ہے۔ عظیم ملک ترکی کو انھوں نے اسی فری میسنری تنظیم کے سائے میں کاٹ کے ٹکڑے ٹکڑے کیا تھا۔ اور اب وہ پاکستان کے وجود کےدرپے ہیں۔ان کی نظریں ایٹم بم اور پاکستان کی سلامتی پر ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان میں ۷۰ء کےعشرے میں ایک کامیاب مہم کے نتیجے میں صہیونیوں کی ’فری میسنری تنظیم‘ پر پہلے ہی پابندی لگائی جاچکی ہے۔مگر ہم دیکھتے ہیں کہ زمین پر وہ پابندی غیرمؤثر ہوچکی ہے۔ اس ’سافٹ دہشت گرد تحریک‘ کے بارے میں پاکستانی قومی سلامتی کے اداروں کو حساس اور خبردار ہونا چاہیے۔
غرض یہ تو اپنے مقاصد کو لے کے چل ہی رہے ہیں ۔ان کے پروٹوکولز کے کل۲۴ باب ہیں جنھیں ہمیں ضرور ہی پڑھنا چاہیے۔ مطالعہ کرنا چاہیے کہ دنیا پران یہودیوں نے کس طرح قبضہ کیا تھا؟ انقلاب انگلینڈ اور انقلاب اسپین انھی کی سازشوں کی وجہ سے آیا تھا ۔ انقلاب اسپین میں ملکہ اور بادشاہ کے سروں کو اُڑایا گیا تھا ، وہ عمل بھی انھی صہیونیوںنے انجام دیا تھا۔ یہ کہیں بھی ہوں، فساد کرتے ہیں۔اور یہ وہ قوم ہے جس کے دل میں رائی کے برابر بھی رحم نہیںہے ۔
یہودی ، اقوام متحدہ سمیت دنیا کے ہر بڑے عہدے پر موجود ہیں اور وہی مسلم ممالک کی معاشی و سیاسی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ آئی ایم ایف کے شکنجے میں کسے جانے والے تمام بجٹوں کے مشیر اصل میں یہی بڑے یہودی عہدیدار ہوتے ہیں۔