اُمت مسلمہ تاریخ کے جس نازک دور سے گزر رہی ہے۔ اس ماحول میں استعماری قوتیں اور مسلم دُنیا کے غاصب طبقے، مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کے مستقبل کی صورت گری کا اختیار اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔ اس کے لیے وہ سیاسی، فکری، معاشی، تعلیمی، عسکری، ابلاغی، ثقافتی اور سفارتی قوتیں بروئے کار لارہے ہیں۔ ان قوتوں کے نزدیک مسلمانوں کی عمومی، مذہبی اور رواجی زندگی کو تو کسی حد تک برداشت بھی کیا جاسکتاہے، لیکن کسی مسلمان کی جانب سے اسلامی تہذیب اور اسلامی نظامِ زندگی کی جانب ایک قدم بڑھانا بھی ناقابلِ برداشت ہے۔ دوسری طرف مسلم اُمہ بہت سے تضادات اور فکری انتشار کی شکار نظر آتی ہے۔ اس کش مکش میں یہ سوال نمایاں ہوکر سامنے آتا ہے:
عصرحاضر میں ایک جانب مسلم اکثریتی ملکوں میں اور دوسری طرف مسلم اقلیتی ممالک میں اسلامی احیاء کے لیے کون کون سے فکری اور عملی اقدامات کیے جانے چاہئیں؟
اس سوال کے جواب میں جن اہلِ علم کی تحریریں اگست ۲۰۲۴ء میں شائع کی گئیں، ان کے اسمائے گرامی ہیں:lفتح محمد ملک
ڈاکٹر محمد ذکی کرمانی۔ اب اس سلسلے کی دوسری قسط شائع کی جارہی ہے اور آیندہ شمارے میں تیسری قسط۔ یہ جوابات اور تجزیے مختلف نقطہ ہائے نظر پیش کرتے ہیں، جن سے ادارہ ترجمان کا اتفاق ضروری نہیں ہے۔ تاہم، اس طرح قارئین مختلف افکار و خیالات سے مستفید ہوکر بہتر نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں۔(ادارہ)