خفیہ ایجنسیوں کی ناکامی کے مظہر واقعات صرف امریکا اور ایران ہی میں نہیں ہوئے بلکہ ایسے واقعات بہت سے ممالک میں سامنے آتے رہتے ہیں۔حیرت کی بات یہ ہے کہ ان میں سے کئی واقعات کی پیشگی اطلاعات بھی ہوتی ہیں، مگر ان کو وقوع پذیر ہونے دیا گیا۔ جس کی توجیہہ ابھی تک سامنے نہیں آرہی ہے۔
مثال کے طور پر ۲۶ جنوری ۱۹۹۵ء کو انڈیا کے یومِ جمہوریہ کی تقریبات جموں کے مولانا آزاد اسٹیڈیم میں منعقد ہو رہی تھیں۔جموں و کشمیر کے اس وقت کے گورنر ، سابق آرمی چیف جنرل کے وی کرشنا راؤ نے پرچم لہرایا اور اپنی تقریر کا آغاز کرتے ہوئے خطے میں سیکورٹی فورسز کی کارکردگی کو سراہا اور انگریزی میں کہا کہ We have broken the backs of..... (’ہم نے کمر توڑ دی ہے‘....) ان کا یہ جملہ ادھورا ہی رہ گیا کہ گیٹ کے پاس اسٹیڈیم کی پارکنگ کی جگہ سے دھماکے کی آواز سے دھواں اُٹھا۔ سامعین کھڑے ہوگئے اور معلوم کرنے کی کوشش کررہے تھے کہ کیا ہوا؟ کرشنا راؤ اسٹیج پر کھڑے رہے، اورلوگوں کو پُرسکون رہنے کی تلقین کی کہ’’کسی نے پٹا خہ چھوڑا ہے‘‘۔ اسی دوران ان کے دائیں جانب کے اسٹینڈ میں ، جس میں زیادہ تر اطلاعات اور دیگر محکموں کا عملہ بیٹھا ہوا تھا، دوسرا دھماکہ ہوا۔ انسانی اجسام کے چیتھڑے ہوا میں اُڑتے اور خون کے چھینٹے اُڑاتے ہوئے اسٹیڈیم کے گراؤنڈ کو سرخ بناگئے!
اس دوران نیشنل سیکورٹی گارڈ کے کمانڈوز، گورنر کو ایک گاڑی میں دھکیل کر بڑی برق رفتاری سے اسٹیڈیم سے باہر نکل گئے۔ وہ ابھی شاید گیٹ تک بھی نہ پہنچے ہوں گے، کہ تیسرا بم اسٹیج کے نیچے پھٹ گیا۔ وہ اسٹیج ، جس پر چند لمحے قبل گورنر تقریر کر رہے تھے، اس کے پُرزے اُڑ گئے۔ نفسا نفسی کے عالم میں اسٹیڈیم خالی ہوگیا۔ دھماکے کے نتیجے میں ۱۸؍ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔
برسوں بعد، دہلی میں ایک سیمینار میںخفیہ ایجنسی ’ریسرچ اینڈ اینالیسز ونگ‘ (RAW) کے سربراہ سی ڈی سہائے نے، جو اس وقت جموں و کشمیر میں ایجنسی کے کمشنر تھے، انکشاف کیا کہ اس حملے کے بارے میں ان کو علم تھا اور گورنر کو بھی اس کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ ۲۵ جنوری ۱۹۹۵ء کی شام کوگورنر کرشنا راؤ نے سرحد پر تعمیر و ترقی و انفرا اسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے سیکورٹی اداروں کی ایک میٹنگ بلائی تھی۔ وہ ایک روز قبل کرشنا گھاٹی کے دورے سے واپس آئے تھے۔وہ اسی طرح کا اسٹرکچر اپنی سائڈ میں بھی بنانے کے خواہش مند تھے۔ سہائے کا کہنا تھا کہ اس میٹنگ میں جانے سے قبل انھوں نے جموں میں اپنے دفتر کے اہلکاروں سے پوچھا کہ کوئی اطلاع یا کوئی ایسا ایشو تو نہیں ہے، جس کو گورنر کے ساتھ میٹنگ میں اُٹھایا جائے؟ لیکن انھوں نے جواب دیا: ’’سر! بس معمول کی انفارمیشن ہے‘‘۔
چونکہ وہ فارغ ہی تھے، اس لیے انھوں نے اہلکاروں سے کہا کہ گورنر کے ساتھ پچھلی میٹنگ کے بعد کی جو فائلیں آئی ہیں، وہ ان کوپیش کی جائیں۔ یہ تقریباً ۱۳ فائلیں تھیں۔ جن میں چھ میں ۲۶جنوری کو مولانا آزاد اسٹیڈیم میں دھماکے اور گورنر کو ہلاک کرنے کی واضح اور تفصیلی اطلاعات موجود تھیں۔ حیرت کی بات یہ تھی، یہ سبھی فائلیں خود سہائے کے دستخطوں سے الماریوں کی نذر کی گئیں تھی۔ سہائے کا کہنا تھا کہ ’’جب میں نے یہ اطلاع گورنر کے ساتھ میٹنگ میں دی، تو وہاں سانپ سونگھ گیا۔ کسی نے تجویز دی کہ تقریب کی جگہ کو تبدیل کیا جائے۔ مگر گورنر نے پہلے خود اور پھر نئی دہلی میں خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان نے اس کو مسترد کیا اور دلیل یہ دی کہ اس سے ان کے اطلاع کے سورس کا قلع قمع ہو جائے گا۔ یوں طے ہوا کہ تقریب تو اسٹیڈیم میں ہی ہوگی، مگر بم ڈسپوزل اسکواڈ کو دوبارہ بلایا گیا کہ وہ باریک بینی کے ساتھ تلاشی لیں۔وہ رات بھر تلاشی لیتے رہے اور صبح سویرے انھوں نے اسٹیڈیم کو محفوظ قرار دیا۔سہائے کے مطابق: ’’یہ بم پریڈ گراؤنڈ میں دو فٹ نیچے دبائے گئے تھے اور جاپانی پلاسٹک کے ٹائمر میں لپٹے ہوئے تھے۔ جس کو پولیس کے کتے سونگھ سکتے تھے اور نہ ایکسرے ان کا پتا لگا سکتا تھا‘‘۔ ریموٹ ٹرگر کو بعد میں برآمد کیا گیا۔معلوم ہو اکہ ریموٹ دبانے والے کوپہلے گورنر کے اسٹیج کے نیچے والا بٹن دبانا تھا، مگر اس نے پہلے تین نمبردبایا ، جس سے پارکنگ کا بم پھٹ گیا۔ یعنی اگر گورنر اسٹیج سے بچ جاتا، تو ریسکیو ہوتے ہوئے اسٹیڈیم کے اسٹینڈ کے بم نمبر دو کی ز د میں آجاتا اور اگر اس سے بھی بچ جاتا، تو گیٹ کے پاس والا بم کا م کردیتا۔
اسی طرح ممبئی میں ۲۶ نومبر ۲۰۰۸ء کی خوفناک رات کو کئی جانیں بچائی جا سکتی تھیں، اگر تاج محل پیلس ہوٹل انتظامیہ ٹاور لابی کے باہر پکیٹ پر کھڑے سکیورٹی گارڈز کو کھانا فراہم کرنے پر راضی ہوجاتی۔برطانوی تحقیقاتی صحافیوں ایڈرین لیوی اور کیتھی سکاٹ کلارک کے مطابق ۲۶؍ انٹیلی جنس الرٹ تھے۔ انتباہ اس قدر درست اور مخصوص تھے کہ ڈپٹی کمشنر آف پولیس وشواس نانگرے پاٹل نے اکتوبر ۲۰۰۸ء میں تاج محل پیلس ہوٹل کے عملے کے ساتھ ایک حفاظتی مشق کی تھی۔ تاہم، ان کے چھٹی پر جاتے ہی حفاظتی اقدامات کو ختم کر دیا گیا تھا۔ان صحافیوں کا کہنا ہے کہ انھیں رات ۱۰ بجے غیرسرکاری طور پر متحرک کیا گیا تھا، ۲۶نومبر کو، ممبئی میں پہلی گولیاں چلنے کے صرف ۲۲ منٹ بعد۔لیکن ۷۰منٹ بعد، انھیں کابینہ سکریٹری کے ایم چندر شیکھر اور بعد میں ایک جوائنٹ سکریٹری (داخلی سلامتی) نے بغیر احکامات کے متحرک ہونے کے خلاف خبردار کیا مگر واقعہ ہوگیا۔
اسی طرح، ۱۴ فروری ۲۰۱۹ء کو پلوامہ حملے کے بارے میں فرنٹ لائن کی طرف سے ایک سال تک جاری رہنے والی تحقیقات کے مطابق حملے کی پیش گوئی کرنے والی کم از کم گیارہ انٹیلی جنس اطلاعات تھیں۔ کشمیر کے گورنر، ستیہ پال ملک نے بعد میں انکشاف کیا کہ ’’مجھے کسی بھی حفاظتی ناکامی کے بارے میں خاموش رہنے کی ہدایت کی گئی ہے‘‘۔بڑا سوال یہ ہے کہ مکمل انٹیلی جنس ہونے کے باوجود ایسے حملوں کو کیوں نہیں روکا گیا؟ ان سوالات کے کوئی واضح جوابات نہیں ہیں۔
اسی طرح مجھے یا دہے کہ شاید یکم اکتوبر ۱۹۹۶ء کی صبح سرینگر سے حریت لیڈر سید علی گیلانی کے دفتر سے فون آیا اور انھوں نے کہا: ’’کیا آپ مجھے ایئرپورٹ تک چھوڑ سکتے ہیں؟ وہ ان دنوں علاج کی غرض سے دہلی میں تھے اور انھی دنوںجموںو کشمیر میں نو سال بعد اسمبلی کے انتخابات ہورہے تھے، جن کے بائیکاٹ کی انھوں نے اپیل کی تھی۔ اگلے روز شاید حریت کانفرنس کی کوئی میٹنگ ہونے والی تھی، جس کے لیے ان کو سرینگر بلایا گیا تھا۔ خیر میں نے ان کو ایئرپورٹ پر رخصت کردیا۔ جب وہ دہلی میں ہوتے تھے، تو دارلحکومت میں جموں و کشمیر کے خفیہ محکمے کے اہلکار ان کے ساتھ سائے کی طرح پیچھا کرتے رہتے تھے۔ یوں ان سے اب جان پہچان بھی ہوجاتی تھی۔ مگر ایئر پورٹ پر ایک اور شخص میرے پاس آکر بار بار ان کی فلائٹ کا نمبر ، وقت وغیر ہ پوچھ رہا تھا۔ میں نے خفیہ پولیس والوں سے پوچھا کہ ’’یہ شخص کس محکمے کا ہے؟‘‘ معلوم ہوا کہ وہ ان کے لیے بھی اجنبی تھا۔ ابھی موبائل فون کا زمانہ نہیں تھا۔ رات کو میری اہلیہ کو پتہ چلا کہ گیلانی صاحب تو سرینگر پہنچے ہی نہیں ہیں، کیونکہ سرینگر میں اس دن پرواز نہیں اُتر سکی۔ جہاز امرتسر میں اُتر گیا ہے اور مسافروں کو کسی ہوٹل میں ٹھہرایا گیا ہے۔
اسی رات حیدر پور میں سیّد علی گیلانی صاحب کے گھر پر دو راکٹ داغے گئے۔ نشانہ اتنا زبردست تھا کہ یہ راکٹ دوسری منزل پر گیلانی صاحب کے بیڈ روم کی دیوار میں شگاف کرتے ہوئے، سیدھے اُن کے بیڈ کو، اڑا کر باتھ روم کو تباہ کرتے ہوئے دوسری دیوار سے نکل گئے۔ یعنی اسی بیڈ کو ان راکٹوں نے نشانہ بنایا، جس پر ان کو اس رات سونا تھا۔ مگر دہلی والے اس نامعلوم شخص کو شاید پتہ نہیں چل سکا تھاکہ جہاز سرینگر کے بجائے امرتسر میں اُتر گیا ہے۔ (یہ بالکل اسی طرح کی کارروائی تھی، جس طرح تہران میں اسماعیل ہنیہ کے کمرے کو تباہ کرکے ہلاک کیا گیا ۔ یعنی دیگر کمروں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا)۔
اس دن حیدر پورہ کے مکان میں نیچے جو افراد سو رہے تھے، انھوں نے دھماکوں کی آوازیں تو ضرور سنیں ، مگر ان کو بھی پتا نہیں چل سکا کہ ان کی اُوپر والی منزل کو ہی نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان دنوں رات بھر کشمیر میں دھماکوں کی آوازیں آنا معمول کی بات تھی۔
جب تصویروں میں اس بلڈنگ کو جس میں اسماعیل ہنیہ کو نشانہ بنایا گیا، دیکھ رہا تھا، تو مجھے یہ واقعہ یاد آگیا۔ اس لیے نیویارک ٹائمز کی یہ کہانی کہ اس کمرے میں اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں نے بم رکھا تھا، مجھے ہضم نہیں ہوئی۔ بم تو پورے کمرے کو ہی اُڑا دیتا۔ یہ میزائل یا راکٹ کا حملہ تھا، جو بالکل ٹارگٹ پر لگا، اور فلسطین کا عظیم مزاحمتی قائد شہید ہوگیا۔