عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَدَأَ الْإِسْلَامُ غَرِيبًا، وَسَيَعُودُ كَمَا بَدَأَ غَرِيبًا، فَطُوبَى لِلْغُرَبَاءِ(صحیح مسلم) حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اسلام کا آغاز اجنبی کی حیثیت سے ہوا اور عنقریب پھر اسی طرح اجنبی ہو جائے گا جیسے شروع ہوا تھا ، خوش بختی ہے اجنبیوں کے لیے ‘‘۔
اسلام کی ابتدا اس حالت میں ہوئی کہ کوئی اسے جانتا نہ تھا، پھرایک وقت آیا کہ دنیا کے طول وعرض اسلام کی روشنی سے منور ہوگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام ایک مرتبہ پھر اپنے ابتدائی دور کی طرح لوگوں کے لیے اجنبی ہوجائے گا۔ موجودہ زمانے میں ہم یہی صورتِ حال دیکھ رہے ہیں۔ اسلام کا اصل تصور اور مقصد اکثر لوگوں کی نظر سے پوشیدہ ہوگیا ہے،اور مسلمانوں کی حالت تو یہ ہوگئی ہے کہ ؎
تھا جو ’ناخوب‘ بتدریج وہی ’خوب‘ ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
عربی زبان میں ’احیاء‘ کا لفظ زندہ کرنے اور ’حیاتِ نو‘دینے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ ’احیاء‘ کے مفہوم کو دیکھتے ہوئے ’احیائے اسلام ‘ کے معنی اسلام کو دوبارہ زندہ کرنا یا اسے حیاتِ نو دینا ہوگا۔ یہ کام انفرادی اور اجتماعی سطح پر کرنا ہوگا۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ اسی طریقے پر ہوگا جیسے ابتدائے اسلام میں ہواتھا ،لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ عصری تقاضوں سے صرفِ نظر کیا جائے۔ مشہور قول ہے کہمن لم یکن عالمًا بأهل زمانه فهو جاهل ،’’جو شخص اپنے زمانے کے حالات سے آگاہ نہیں، وہ جاہل ہے‘‘۔
سورۂ انفال میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلہِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ۰ۚ (الانفال ۸:۲۴)’’اے ایمان والو! اللہ اور اس کےرسول کی آواز پر لبیک کہو جب وہ تمھیں ایسی چیز کی طرف پکاریں جو تمھیں زندگی عطا کرے‘‘۔ جب بھی احیائے اسلام کی مخلصانہ جدوجہد کی جائے گی،اللہ راہنمائی فرمائےگا : وَالَّذِيْنَ جَاہَدُوْا فِيْنَا لَـنَہْدِيَنَّہُمْ سُـبُلَنَا۰ۭ (العنکبوت ۲۹:۶۹)،’’اور جو لوگ ہماری راہ میں کوشش کریں گے، ہم ان کو اپنے راستوں کی طرف رہنمائی کریں گے‘‘۔
احیائے اسلام کا طریقہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےاسوۂ حسنہ کی صورت ہمارے پاس موجود ہے۔ ابتدائے اسلام کے تیرہ سال ایمان کو دل میں اتارنے اور عملی زندگی میں کارفرما کرنے کی مسلسل محنت پر لگے،پھر اگلے دس سال اس بنیاد پر ایک مضبوط عمارت کی تعمیر کی گئی۔ دینِ اسلام کی عمارت کی بنیاد عقیدے پرقائم ہوتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ آج علم ہونے کے باوجود، عمل میں متوقع تبدیلی نظر نہیں آتی۔ اگرچہ علم کے نتیجے میں ہر انسان سے ایک ہی جیسے ردّعمل کی توقع نہیں کی جاسکتی کیونکہ وہ اپنی فطری صلاحیت اور استعداد کے مطابق ہی علم سے اثرلیتا ہے۔ لیکن ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ استعداد ہوتے ہوئے اور عمل کو زبانی اور ذہنی طور پر صحیح سمجھتے ہوئے بھی لوگ زندگی کی عملی ترجیحات میں ایسا نہیں کرتے۔
احیا ئے اسلام کا عظیم کام کثیر الجہتی حکمت عملی کا تقاضا کرتاہے، لیکن عقیدے اورایمان کی عملی حقیقت کو سمجھے اور دل میں اتارے بغیر یہ بظاہر ممکن نہیں ہوگا۔ اسوۂ رسولؐ اللہ سے یہی سبق ملتاہے۔ عصری تقاضوں کے مطابق احیائے اسلام کی جوبھی کوششیں کی جائیں اورجو حکمت عملی بھی اختیارکی جائے، چند اصطلاحات کی تفہیم ان کی بنیادی ضرورت ہے۔ عقیدہ اس ساری جدوجہد کا لازمی جزہے۔ علم اور تصورات کو عمل میں ڈھالنے سے ہی عملی طور پر احیائے اسلام کی کوششوں میں پیش رفت ہوسکتی ہے۔ اسی نقطۂ نظر سے چند اصطلاحات کااجمالی ذکر کیا جاتا ہے:
مسلمانوں کا اصل مسئلہ ذہنی سطح پر’علم‘ اور ’تصور‘ میں پھنس کر رہ جانا ہے۔ یہ علم کو یقین سے گزارتے ہوئے عقیدے کی مطلوبہ عملی سطح پر تبدیل کرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ آج مسلمانوں کی اکثریت میں آخرت ،جنت،جہنم وغیرہ پر ایمان تصوّرات کی سطح پر ہے، وہ ان تصوّرات کے تذکرے سنتے، پڑھتے اورعلم میں اضافہ بھی کرتے ہیں، لیکن یہ سب کچھ ان کو اتناجھنجوڑنے کا باعث نہیں بنتے جو عمل کا باعث بنے۔ وہ تصوّرات سے اوپر اٹھ کر عقیدے کی سطح پر نہیں آ سکے۔ احیائے اسلام کی جو بھی تحریک اور حکمت عملی اپنائی جائے، اس میں عقیدے کی درستی اور پختگی کو لازمی جز کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کو کما حقہٗ توجہ اور اہمیت دینا ہوگی۔ یہ کام تحریک یا دنیا سے کٹ کرنہیں ہوسکتا بلکہ احیائے اسلام کی عملی جدوجہد کی بھٹی میں ہی اسےکندن بنایا جاسکتا ہے۔
جب سورۂ آل عمران کی آیت ۹۲ نازل ہوئی لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ۰ۥۭ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَيْءٍ فَاِنَّ اللہَ بِہٖ عَلِيْمٌ۹۲ ’’تم ہرگزنیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ اپنی وہ چیزیں (خدا کی راہ میں) خرچ نہ کرو جنھیں تم عزیز رکھتے ہو، اور جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ اس سے بےخبر نہ ہوگا‘‘، تو حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے بیرحا کا ’محبوب ترین باغ ‘ اللہ کی راہ میں صدقہ کردیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خیبرکی بہترین زمین اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے اپنا محبوب ترین گھوڑا اللہ کی راہ میں دے دیا۔ اسی طرح جب تدریجی احکام کے بعد شراب کی حُرمت کا حکم آیا کہ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۹۰ (المائدہ۵: ۹۰) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، یہ شراب اور جوا اور یہ آستانے اور پانسے، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں، ان سے پرہیز کرو، اُمید ہے کہ تمھیں فلاح نصیب ہوگی‘‘،تو مدینہ کی گلیوں میں منادی کرادی گئی کہ شراب حرام کردی گئی ہے۔ جو لوگ اس وقت شراب پی رہے تھے، انھوں نے ہونٹوں سے شراب کے پیالے ہٹادیے، ہاتھ میں شراب کا پیالہ تھا تواسے وہیں پھینک دیا، شراب کےپیالے ، مٹکے اور گھڑے توڑ دیے گئے۔ حضرت حرام ابن ملجانؓ کے سینے میں ایک کافر نےنیزا گھونپا ، سینے سے خون کا فوارہ چھوٹاتو آپ رضی اللہ عنہ نے بےساختہ پکار کر کہا کہ فزۃ برب الکعبہ‘‘ (ربِ کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہوگیا)۔ آخرت پر راسخ عقیدے کے بغیر ایسی حالت میں یہ الفاظ کسی کی زبان سے ادا نہیں ہوسکتے!
عقیدے کی حقیقت کو اس سطح پر سمجھنا اور دل میں اتارنا ہی دین کے احیاء کا باعث بنا۔
صحابہ رضوان اللہ اجمعین یہ سمجھتے تھے کہ قرآن ان کے عمل لیے نازل ہوا ہے، مگر ہم اسے ثواب کے لیے پڑھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم قرآن پڑھتے تو ہیں ، لیکن نتیجتاً عمل میں بمشکل ہی کوئی تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔علامہ اقبالؒ نے اسی طرف اشارہ فرمایا ہے ؎
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گِرہ کُشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشّاف
ضمیر پر نزول ہی حق الیقین کی وہ سطح ہے، جو مطلوب ہے اور جو ’شہادت علی النفس‘ اور ’شہادت علی الناس‘ کا باعث بھی بنتی ہے ۔
ہم روزانہ درجنوں مرتبہ نماز میں’ اللہ اکبر‘ کہتے ہیں اور یہی الفاظ ’اذان‘ میں بھی سنتے ہیں۔ اللہ کے ’اکبر‘ ہونے کا تصور ہمارے ذہن میں ہے، لیکن عملاً اس پر ہمارا عقیدہ / یقین نہیں ہے۔ ٹریفک پولیس کا سپاہی جب ہاتھ کھڑا کر کے ٹریفک روکنے کا اشارہ کرتا ہے تو کوئی گاڑی والا اس کی خلاف ورزی نہیں کرتا ،جب کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں پکار پکار کر کہتا ہے کہ گمراہی کے اس راستے پر جانے سے رُک جاؤ لیکن ہم اللہ کی بات پر نہ توجہ دیتے ہیں اور نہ اس راستے سے رُکتے ہیں۔
یہی صورت دوسرے اسمائے حسنٰی کی بھی ہے۔ ہم اللہ کو علیم وخبیرکہتے اور مانتے ہیں۔ ہم لوگوں کے سامنے گناہ کرنے سے اجتناب کرتے ہیں کیونکہ ہمیں یقین ہوتا ہے کہ وہ ہمیں دیکھ رہے ہیں۔ لیکن اللہ کے بارے میں ہم ایسا یقین نہیں رکھتے اور لوگوں سے چھپ کر اللہ کے سامنے گناہ کرنےسے نہیں کتراتے۔ اگر ہم واقعی اللہ کو علیم و خبیر سمجھتے تو کیا وہ کام کرتے جن سے اللہ نے منع کیا ہے؟ یہ غور و فکر کا مقام ہے کہ کیا ہم عملاً لوگوں کو علیم و خبیر سمجھتے ہیں یا اللہ کو؟ ہم اللہ کوحاکم کہتے ہیں لیکن عملی زندگی میں کسی فرد ، ادارےیا قانون کو اللہ کی حاکمیت پر ترجیح دیتے ہیں۔ یہی معاملہ دوسرے اسمائے حسنٰی کابھی ہے ۔
اصطلاحات کے ’لغوی‘ اور ’اصطلاحی معانی‘ کے ساتھ ان کے ’عملی معانی‘ کو جاننا اور اس کی روشنی میں اپنا انفرادی و اجتماعی تجزیہ کرتے ہوئے کام کو آگے بڑھانا وہ بنیادی عنصر ہے جو احیائے اسلام کی کسی بھی تحریک اور حکمت عملی میں ممد و معاون ثابت ہوگا۔
عقیدہ ہی علم و تصورات کو عمل میں ڈھالنے کا باعث بنتاہے۔ احیائے اسلام کے لیے تمام جدید ذرائع کے شرعی حدود کے مطابق استعمال میں کسی کو اختلاف نہیں ہوسکتا ،لیکن عقیدہ اس کی بنیادی ضرورت اور قوت ہے۔اللہ، رسالت اور آخرت پر ایمان عقیدے کے اساسی اجزاء ہیں جن کے انفرادی اور اجتماعی، علمی اور عملی ادراک کےبغیر احیا ئے اسلام نہ ممکن ہوگا نہ پائیدار ۔