ستمبر ۲۰۲۴

فہرست مضامین

احیائے اسلام میں عقیدے کا مقام

پروفیسر ڈاکٹر نجیب الحق | ستمبر ۲۰۲۴ | مذاکرہ: اسلامی احیاء کا مسئلہ

Responsive image Responsive image

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  بَدَأَ الْإِسْلَامُ غَرِيبًا، وَسَيَعُودُ كَمَا بَدَأَ غَرِيبًا، فَطُوبَى لِلْغُرَبَاءِ(صحیح مسلم) حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اسلام کا آغاز اجنبی کی حیثیت سے ہوا اور عنقریب پھر اسی طرح اجنبی ہو جائے گا جیسے شروع ہوا تھا ، خوش بختی ہے اجنبیوں کے لیے ‘‘۔

 اسلام کی ابتدا اس حالت میں ہوئی کہ کوئی اسے جانتا نہ تھا، پھرایک وقت آیا کہ دنیا کے طول وعرض اسلام کی روشنی سے منور ہوگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام ایک مرتبہ پھر اپنے ابتدائی دور کی طرح لوگوں کے لیے اجنبی ہوجائے گا۔ موجودہ زمانے میں ہم یہی صورتِ حال دیکھ رہے ہیں۔ اسلام کا اصل تصور اور مقصد اکثر لوگوں کی نظر سے پوشیدہ ہوگیا ہے،اور مسلمانوں کی حالت تو یہ ہوگئی ہے کہ  ؎

تھا جو ’ناخوب‘ بتدریج وہی ’خوب‘ ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

عربی زبان میں ’احیاء‘ کا لفظ زندہ کرنے اور ’حیاتِ نو‘دینے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ ’احیاء‘ کے مفہوم کو دیکھتے ہوئے ’احیائے اسلام ‘ کے معنی اسلام کو دوبارہ زندہ کرنا یا اسے حیاتِ نو دینا ہوگا۔ یہ کام انفرادی اور اجتماعی سطح پر کرنا ہوگا۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ اسی طریقے پر ہوگا جیسے ابتدائے اسلام میں ہواتھا ،لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ عصری تقاضوں سے صرفِ نظر کیا جائے۔ مشہور قول ہے کہمن لم یکن عالمًا بأهل زمانه فهو جاهل ،’’جو شخص اپنے زمانے کے حالات سے آگاہ نہیں، وہ جاہل ہے‘‘۔

سورۂ انفال میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلہِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا  يُحْيِيْكُمْ۝۰ۚ (الانفال ۸:۲۴)’’اے ایمان والو! اللہ اور اس کےرسول کی آواز پر لبیک کہو جب وہ تمھیں ایسی چیز کی طرف پکاریں جو تمھیں زندگی عطا کرے‘‘۔ جب بھی احیائے اسلام کی مخلصانہ جدوجہد کی جائے گی،اللہ راہنمائی فرمائےگا : وَالَّذِيْنَ جَاہَدُوْا فِيْنَا لَـنَہْدِيَنَّہُمْ سُـبُلَنَا۝۰ۭ (العنکبوت ۲۹:۶۹)،’’اور جو لوگ ہماری راہ میں کوشش کریں گے، ہم ان کو اپنے راستوں کی طرف رہنمائی کریں گے‘‘۔

احیائے اسلام کا طریقہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےاسوۂ حسنہ کی صورت ہمارے پاس موجود ہے۔ ابتدائے اسلام کے تیرہ سال ایمان کو دل میں اتارنے اور عملی زندگی میں کارفرما کرنے کی مسلسل محنت پر لگے،پھر اگلے دس سال اس بنیاد پر ایک مضبوط عمارت کی تعمیر کی گئی۔ دینِ اسلام کی عمارت کی بنیاد عقیدے پرقائم ہوتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ آج علم ہونے کے باوجود، عمل میں متوقع تبدیلی نظر نہیں آتی۔ اگرچہ علم کے نتیجے میں ہر انسان سے ایک ہی جیسے ردّعمل کی توقع نہیں کی جاسکتی کیونکہ وہ اپنی فطری صلاحیت اور استعداد کے مطابق ہی علم سے اثرلیتا ہے۔ لیکن ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ استعداد ہوتے ہوئے اور عمل کو زبانی اور ذہنی طور پر صحیح سمجھتے ہوئے بھی لوگ زندگی کی عملی ترجیحات میں ایسا نہیں کرتے۔

 احیا ئے اسلام کا عظیم کام کثیر الجہتی حکمت عملی کا تقاضا کرتاہے، لیکن عقیدے اورایمان کی عملی حقیقت کو سمجھے اور دل میں اتارے بغیر یہ بظاہر ممکن نہیں ہوگا۔ اسوۂ رسولؐ اللہ سے یہی سبق ملتاہے۔ عصری تقاضوں کے مطابق احیائے اسلام کی جوبھی کوششیں کی جائیں اورجو حکمت عملی بھی اختیارکی جائے، چند اصطلاحات کی تفہیم ان کی بنیادی ضرورت ہے۔ عقیدہ اس ساری جدوجہد کا لازمی جزہے۔ علم اور تصورات کو عمل میں ڈھالنے سے ہی عملی طور پر احیائے اسلام کی کوششوں میں پیش رفت ہوسکتی ہے۔ اسی نقطۂ نظر سے چند اصطلاحات کااجمالی ذکر کیا جاتا ہے:

  • خیال:کسی بھی مادی یا غیرمادی چیز کے بارے میں ذہن میں کسی بات کے آنے کو خیال کہتے ہیں، اس کے لیے علم ضروری نہیں ہے۔
  • سوچ:جب ذہن کسی خیال کے بارے میں مزید تفصیلات جاننے کی کوشش کرنے لگے توہم اسے ’سوچ‘ کہتے ہیں۔ اس کے کئی درجے ہو سکتے ہیں جس کے لیے ’علم‘ کی ضرورت ہوتی ہے۔
  • تصوّر: سوچ جب ذہن میں ایک منظم شکل اختیار کرلے تو اسے ’تصّور‘ کہا جاتا ہے۔ تصّورکی تشکیل علم سے ہوتی ہے،لیکن یہ فی نفسہٖ ذہن کا ایک غیر عملی داعیہ ہے اور اس کی کوئی قیمت یاحیثیت نہیں ہوتی جب تک یہ عملی زندگی میں نظر نہ آئے ۔
  • علم : کسی چیز کے بارے میں کچھ’جان لینا‘ ۔ جب شعور کی سطح پر ہو اور غور وفکر کے نتیجے میں انسان کسی چیزکی حقیقت کو ایک حد تک سمجھ لے تو یہ ’علم‘ کہلاتاہے۔ صرف معلومات کو ’علم‘ نہیں کہا جاسکتا۔عام طور علم کو دینی اور دنیاوی علم میں تقسیم کیا جاتا ہے لیکن اسلام اسے ’علم نافع‘ اور ’غیر نافع‘ میں تقسیم کرتا ہے۔علم نافع وہ ہے، جو اللہ کی مخلوق / انسانیت کے فائدے کے لیے استعمال ہو، غیر نافع وہ ہے جومخلوق کےنقصان کا باعث بنے، چاہے وہ دین کا علم ہو یا دنیا کا۔ علم کی یہ تقسیم عمل میں اس کی تنفیذ کو فائدہ مند اور آسان بنا دیتی ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ علم کا بہترین استعمال اسی وقت اور اسی طریقے کے مطابق ہوسکتا ہے جو انسانوں اور تمام جہانوں کے ربّ نے خودہمیں بتایا ہے اور اپنے محبوب نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اسے عملی طور پر دکھابھی دیا ہے۔اس بنیاد پر جو علم انسان کا تعلق اپنے ربّ سے جوڑے، وہ ا سلام کی نظر میں علم نافع اور جو ربّ سے دوری کا سبب بنے وہ غیرنافع ہوگا۔
  • دلیل: یہ ہے وہ ہتھیار جو کسی مقصد کی وضاحت اور مقصود تک رہنمائی کا ذریعہ ہو اور جو کسی دعوے کو ثابت کرے۔ یہ عقلی دلیل بھی ہوسکتی ہے اور ماورائے عقل (ادراک) بھی۔ یہ براہِ راست حواس خمسہ کی بنیاد پر حصولِ علم کے نتیجے پربھی ہوسکتی ہے، جیسے ہم بےشمار چیزوں کو اپنے علم کی بنیاد پر مانتے ہیں، جب کہ دلیل کسی دوسرے فرد یا افراد کے علم کی بنیاد پر بھی ہوسکتی ہے ، مثلاً بہت سے لوگ کسی ملک کو نہ دیکھنے کے باجود اس کے وجود کوتسلیم کرتے ہیں۔ایسے ہی علمِ وحی بھی علم اور دلیل کی ایک قسم ہے۔
  • ارادہ: داعیہ اور ارادہ وہ کیفیت ہے جوانسان کومستقبل میں کوئی نتیجہ حاصل کرنے کے لیے عمل پر اُبھارتا ہے ،لیکن یہ بذات خود عمل کی ضمانت نہیں ہے۔ ارادہ کمزور سے مضبوط درجے تک ہوسکتا ہے اور عمل میں اس کا اظہار ہی اس کااصل پیمانہ ہے۔
  • عقیدہ: عقیدہ وہ قوتِ محرکہ ہے جوعلم، تصورات،دل و دماغ کی کیفیات و محسوسات، جذبات اور خواہشات پر اثر انداز ہو کر ہمارے رجحانات کا تعین کرتا ہے۔ دراصل شعور کی اساس اور عمل کی بنیاد یہی ہے۔عقیدے کا تعلق براہ راست یقین سے ہے، بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ باہم مترادف ہیں۔ یقین کے تین درجے ہیں جو بتدریج تصورات،علم و فہم اور دلیل کے نتیجے میں حاصل ہوتے ہیں: پہلی سطح کوعلم الیقین، دوسری کو عین الیقین اور اعلیٰ ترین سطح کو حق الیقین کہا جاتا ہے۔ جب حق الیقین پیدا ہو جائے تو یہ عقیدے کا وہ درجہ ہے، جس میں انسان اپنے تمام جوارح سے اپنے علم کا عملی اظہار کرتا ہے۔

مسلمانوں کا اصل مسئلہ ذہنی سطح پر’علم‘ اور ’تصور‘ میں پھنس کر رہ جانا ہے۔ یہ علم کو یقین سے گزارتے ہوئے عقیدے کی مطلوبہ عملی سطح پر تبدیل کرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ آج مسلمانوں کی اکثریت میں آخرت ،جنت،جہنم وغیرہ پر ایمان تصوّرات کی سطح پر ہے، وہ ان تصوّرات کے تذکرے سنتے، پڑھتے اورعلم میں اضافہ بھی کرتے ہیں، لیکن یہ سب کچھ ان کو اتناجھنجوڑنے کا باعث نہیں بنتے جو عمل کا باعث بنے۔ وہ تصوّرات سے اوپر اٹھ کر عقیدے کی سطح پر نہیں آ سکے۔ احیائے اسلام کی جو بھی تحریک اور حکمت عملی اپنائی جائے، اس میں عقیدے کی درستی اور پختگی کو لازمی جز کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کو کما حقہٗ توجہ اور اہمیت دینا ہوگی۔ یہ کام تحریک یا دنیا سے کٹ کرنہیں ہوسکتا بلکہ احیائے اسلام کی عملی جدوجہد کی بھٹی میں ہی اسےکندن بنایا جاسکتا ہے۔

  • قرآن سے تعلق: عقیدے کی حقیقت کو سمجھنے اور دل میں اتارنے کے لیے پہلا اور لازمی قدم قرآن پرکماحقہٗ یقین اور اس سے مسلسل تعلق ہے،ایسا تعلق جو احیائے اسلام کی جدوجہد کے ہرموڑ میں راہنمائی کرسکے۔ قرآن ہمارے پاس لفظ بہ لفظ اسی حالت میں موجود ہے، جس طرح یہ ڈیڑھ ہزار سال پہلے نازل ہوا تھا۔ اِس نے صحابہ رضی اللہ عنہم کی زندگی کی کایا پلٹ دی تھی لیکن آج ہماری زندگی تبدیل نہیں ہورہی، حالانکہ قرآن تو وہی ہمارے سامنے ہے۔ ہمیں صحابہ رضی اللہ عنہم کی زندگی میں کئی واقعات ملتے ہیں جن سےعملی زندگی میں عقیدہ کی حقیقت اور اہمیت کھل کر واضح ہوتی ہے۔

 جب سورۂ آل عمران کی آیت ۹۲ نازل ہوئی لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ۝۰ۥۭ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَيْءٍ فَاِنَّ اللہَ بِہٖ عَلِيْمٌ۝۹۲ ’’تم ہرگزنیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ اپنی وہ چیزیں (خدا کی راہ میں) خرچ نہ کرو جنھیں تم عزیز رکھتے ہو، اور جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ اس سے بےخبر نہ ہوگا‘‘، تو حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے بیرحا کا ’محبوب ترین باغ ‘ اللہ کی راہ میں صدقہ کردیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خیبرکی بہترین زمین اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے اپنا محبوب ترین گھوڑا اللہ کی راہ میں دے دیا۔ اسی طرح جب تدریجی احکام کے بعد شراب کی حُرمت کا حکم آیا کہ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝۹۰ (المائدہ۵: ۹۰) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، یہ شراب اور جوا اور یہ آستانے اور پانسے، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں، ان سے پرہیز کرو، اُمید ہے کہ تمھیں فلاح نصیب ہوگی‘‘،تو مدینہ کی گلیوں میں منادی کرادی گئی کہ شراب حرام کردی گئی ہے۔ جو لوگ اس وقت شراب پی رہے تھے، انھوں نے ہونٹوں سے شراب کے پیالے ہٹادیے، ہاتھ میں شراب کا پیالہ تھا تواسے وہیں پھینک دیا، شراب کےپیالے ، مٹکے اور گھڑے توڑ دیے گئے۔ حضرت حرام ابن ملجانؓ کے سینے میں ایک کافر نےنیزا گھونپا ، سینے سے خون کا فوارہ چھوٹاتو آپ رضی اللہ عنہ نے بےساختہ پکار کر کہا کہ فزۃ برب الکعبہ‘‘ (ربِ کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہوگیا)۔ آخرت پر راسخ عقیدے کے بغیر ایسی حالت میں یہ الفاظ کسی کی زبان سے ادا نہیں ہوسکتے!

عقیدے کی حقیقت کو اس سطح پر سمجھنا اور دل میں اتارنا ہی دین کے احیاء کا باعث بنا۔

صحابہ رضوان اللہ اجمعین یہ سمجھتے تھے کہ قرآن ان کے عمل لیے نازل ہوا ہے، مگر ہم اسے ثواب کے لیے پڑھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم قرآن پڑھتے تو ہیں ، لیکن نتیجتاً عمل میں بمشکل ہی کوئی تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔علامہ اقبالؒ نے اسی طرف اشارہ فرمایا ہے   ؎

ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گِرہ کُشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشّاف

ضمیر پر نزول ہی حق الیقین کی وہ سطح ہے، جو مطلوب ہے اور جو ’شہادت علی النفس‘ اور ’شہادت علی الناس‘ کا باعث بھی بنتی ہے ۔

  • تصوّر اور عقیدے کا   فرق: تصور اور عقیدے(یقین) کے اسی فرق پرسنجیدگی سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کو سمجھ لیا جائے تو اللہ کے فضل سے یہ احیائےاسلام کاذریعہ بنے گا۔ اس بات کو دو مثالوں سے مزید واضح کرنے کی کوشش کرتےہیں:

ہم روزانہ درجنوں مرتبہ نماز میں’ اللہ اکبر‘ کہتے ہیں اور یہی الفاظ ’اذان‘ میں بھی سنتے ہیں۔ اللہ کے ’اکبر‘ ہونے کا تصور ہمارے ذہن میں ہے، لیکن عملاً اس پر ہمارا عقیدہ / یقین نہیں ہے۔ ٹریفک پولیس کا سپاہی جب ہاتھ کھڑا کر کے ٹریفک روکنے کا اشارہ کرتا ہے تو کوئی گاڑی والا اس کی خلاف ورزی نہیں کرتا ،جب کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں پکار پکار کر کہتا ہے کہ گمراہی کے اس راستے پر جانے سے رُک جاؤ لیکن ہم اللہ کی بات پر نہ توجہ دیتے ہیں اور نہ اس راستے سے رُکتے ہیں۔

یہی صورت دوسرے اسمائے حسنٰی کی بھی ہے۔ ہم اللہ کو علیم وخبیرکہتے اور مانتے ہیں۔ ہم لوگوں کے سامنے گناہ کرنے سے اجتناب کرتے ہیں کیونکہ ہمیں یقین ہوتا ہے کہ وہ ہمیں دیکھ رہے ہیں۔ لیکن اللہ کے بارے میں ہم ایسا یقین نہیں رکھتے اور لوگوں سے چھپ کر اللہ کے سامنے گناہ کرنےسے نہیں کتراتے۔ اگر ہم واقعی اللہ کو علیم و خبیر سمجھتے تو کیا وہ کام کرتے جن سے اللہ نے منع کیا ہے؟ یہ غور و فکر کا مقام ہے کہ کیا ہم عملاً لوگوں کو علیم و خبیر سمجھتے ہیں یا اللہ کو؟ ہم اللہ کوحاکم کہتے ہیں لیکن عملی زندگی میں کسی فرد ، ادارےیا قانون کو اللہ کی حاکمیت پر ترجیح دیتے ہیں۔ یہی معاملہ دوسرے اسمائے حسنٰی کابھی ہے ۔

اصطلاحات کے ’لغوی‘ اور ’اصطلاحی معانی‘ کے ساتھ ان کے ’عملی معانی‘ کو جاننا اور اس کی روشنی میں اپنا انفرادی و اجتماعی تجزیہ کرتے ہوئے کام کو آگے بڑھانا وہ بنیادی عنصر ہے جو احیائے اسلام کی کسی بھی تحریک اور حکمت عملی میں ممد و معاون ثابت ہوگا۔

 عقیدہ ہی علم و تصورات کو عمل میں ڈھالنے کا باعث بنتاہے۔ احیائے اسلام کے لیے تمام جدید ذرائع کے شرعی حدود کے مطابق استعمال میں کسی کو اختلاف نہیں ہوسکتا ،لیکن عقیدہ اس کی بنیادی ضرورت اور قوت ہے۔اللہ، رسالت اور آخرت پر ایمان عقیدے کے اساسی اجزاء ہیں جن کے انفرادی اور اجتماعی، علمی اور عملی ادراک کےبغیر احیا ئے اسلام نہ ممکن ہوگا نہ پائیدار ۔