عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَدَأَ الْإِسْلَامُ غَرِيبًا، وَسَيَعُودُ كَمَا بَدَأَ غَرِيبًا، فَطُوبَى لِلْغُرَبَاءِ(صحیح مسلم) حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اسلام کا آغاز اجنبی کی حیثیت سے ہوا اور عنقریب پھر اسی طرح اجنبی ہو جائے گا جیسے شروع ہوا تھا ، خوش بختی ہے اجنبیوں کے لیے ‘‘۔
اسلام کی ابتدا اس حالت میں ہوئی کہ کوئی اسے جانتا نہ تھا، پھرایک وقت آیا کہ دنیا کے طول وعرض اسلام کی روشنی سے منور ہوگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام ایک مرتبہ پھر اپنے ابتدائی دور کی طرح لوگوں کے لیے اجنبی ہوجائے گا۔ موجودہ زمانے میں ہم یہی صورتِ حال دیکھ رہے ہیں۔ اسلام کا اصل تصور اور مقصد اکثر لوگوں کی نظر سے پوشیدہ ہوگیا ہے،اور مسلمانوں کی حالت تو یہ ہوگئی ہے کہ ؎
تھا جو ’ناخوب‘ بتدریج وہی ’خوب‘ ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
عربی زبان میں ’احیاء‘ کا لفظ زندہ کرنے اور ’حیاتِ نو‘دینے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ ’احیاء‘ کے مفہوم کو دیکھتے ہوئے ’احیائے اسلام ‘ کے معنی اسلام کو دوبارہ زندہ کرنا یا اسے حیاتِ نو دینا ہوگا۔ یہ کام انفرادی اور اجتماعی سطح پر کرنا ہوگا۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ اسی طریقے پر ہوگا جیسے ابتدائے اسلام میں ہواتھا ،لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ عصری تقاضوں سے صرفِ نظر کیا جائے۔ مشہور قول ہے کہمن لم یکن عالمًا بأهل زمانه فهو جاهل ،’’جو شخص اپنے زمانے کے حالات سے آگاہ نہیں، وہ جاہل ہے‘‘۔
سورۂ انفال میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلہِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ۰ۚ (الانفال ۸:۲۴)’’اے ایمان والو! اللہ اور اس کےرسول کی آواز پر لبیک کہو جب وہ تمھیں ایسی چیز کی طرف پکاریں جو تمھیں زندگی عطا کرے‘‘۔ جب بھی احیائے اسلام کی مخلصانہ جدوجہد کی جائے گی،اللہ راہنمائی فرمائےگا : وَالَّذِيْنَ جَاہَدُوْا فِيْنَا لَـنَہْدِيَنَّہُمْ سُـبُلَنَا۰ۭ (العنکبوت ۲۹:۶۹)،’’اور جو لوگ ہماری راہ میں کوشش کریں گے، ہم ان کو اپنے راستوں کی طرف رہنمائی کریں گے‘‘۔
احیائے اسلام کا طریقہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےاسوۂ حسنہ کی صورت ہمارے پاس موجود ہے۔ ابتدائے اسلام کے تیرہ سال ایمان کو دل میں اتارنے اور عملی زندگی میں کارفرما کرنے کی مسلسل محنت پر لگے،پھر اگلے دس سال اس بنیاد پر ایک مضبوط عمارت کی تعمیر کی گئی۔ دینِ اسلام کی عمارت کی بنیاد عقیدے پرقائم ہوتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ آج علم ہونے کے باوجود، عمل میں متوقع تبدیلی نظر نہیں آتی۔ اگرچہ علم کے نتیجے میں ہر انسان سے ایک ہی جیسے ردّعمل کی توقع نہیں کی جاسکتی کیونکہ وہ اپنی فطری صلاحیت اور استعداد کے مطابق ہی علم سے اثرلیتا ہے۔ لیکن ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ استعداد ہوتے ہوئے اور عمل کو زبانی اور ذہنی طور پر صحیح سمجھتے ہوئے بھی لوگ زندگی کی عملی ترجیحات میں ایسا نہیں کرتے۔
احیا ئے اسلام کا عظیم کام کثیر الجہتی حکمت عملی کا تقاضا کرتاہے، لیکن عقیدے اورایمان کی عملی حقیقت کو سمجھے اور دل میں اتارے بغیر یہ بظاہر ممکن نہیں ہوگا۔ اسوۂ رسولؐ اللہ سے یہی سبق ملتاہے۔ عصری تقاضوں کے مطابق احیائے اسلام کی جوبھی کوششیں کی جائیں اورجو حکمت عملی بھی اختیارکی جائے، چند اصطلاحات کی تفہیم ان کی بنیادی ضرورت ہے۔ عقیدہ اس ساری جدوجہد کا لازمی جزہے۔ علم اور تصورات کو عمل میں ڈھالنے سے ہی عملی طور پر احیائے اسلام کی کوششوں میں پیش رفت ہوسکتی ہے۔ اسی نقطۂ نظر سے چند اصطلاحات کااجمالی ذکر کیا جاتا ہے:
مسلمانوں کا اصل مسئلہ ذہنی سطح پر’علم‘ اور ’تصور‘ میں پھنس کر رہ جانا ہے۔ یہ علم کو یقین سے گزارتے ہوئے عقیدے کی مطلوبہ عملی سطح پر تبدیل کرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ آج مسلمانوں کی اکثریت میں آخرت ،جنت،جہنم وغیرہ پر ایمان تصوّرات کی سطح پر ہے، وہ ان تصوّرات کے تذکرے سنتے، پڑھتے اورعلم میں اضافہ بھی کرتے ہیں، لیکن یہ سب کچھ ان کو اتناجھنجوڑنے کا باعث نہیں بنتے جو عمل کا باعث بنے۔ وہ تصوّرات سے اوپر اٹھ کر عقیدے کی سطح پر نہیں آ سکے۔ احیائے اسلام کی جو بھی تحریک اور حکمت عملی اپنائی جائے، اس میں عقیدے کی درستی اور پختگی کو لازمی جز کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کو کما حقہٗ توجہ اور اہمیت دینا ہوگی۔ یہ کام تحریک یا دنیا سے کٹ کرنہیں ہوسکتا بلکہ احیائے اسلام کی عملی جدوجہد کی بھٹی میں ہی اسےکندن بنایا جاسکتا ہے۔
جب سورۂ آل عمران کی آیت ۹۲ نازل ہوئی لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ۰ۥۭ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَيْءٍ فَاِنَّ اللہَ بِہٖ عَلِيْمٌ۹۲ ’’تم ہرگزنیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ اپنی وہ چیزیں (خدا کی راہ میں) خرچ نہ کرو جنھیں تم عزیز رکھتے ہو، اور جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ اس سے بےخبر نہ ہوگا‘‘، تو حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے بیرحا کا ’محبوب ترین باغ ‘ اللہ کی راہ میں صدقہ کردیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خیبرکی بہترین زمین اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے اپنا محبوب ترین گھوڑا اللہ کی راہ میں دے دیا۔ اسی طرح جب تدریجی احکام کے بعد شراب کی حُرمت کا حکم آیا کہ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۹۰ (المائدہ۵: ۹۰) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، یہ شراب اور جوا اور یہ آستانے اور پانسے، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں، ان سے پرہیز کرو، اُمید ہے کہ تمھیں فلاح نصیب ہوگی‘‘،تو مدینہ کی گلیوں میں منادی کرادی گئی کہ شراب حرام کردی گئی ہے۔ جو لوگ اس وقت شراب پی رہے تھے، انھوں نے ہونٹوں سے شراب کے پیالے ہٹادیے، ہاتھ میں شراب کا پیالہ تھا تواسے وہیں پھینک دیا، شراب کےپیالے ، مٹکے اور گھڑے توڑ دیے گئے۔ حضرت حرام ابن ملجانؓ کے سینے میں ایک کافر نےنیزا گھونپا ، سینے سے خون کا فوارہ چھوٹاتو آپ رضی اللہ عنہ نے بےساختہ پکار کر کہا کہ فزۃ برب الکعبہ‘‘ (ربِ کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہوگیا)۔ آخرت پر راسخ عقیدے کے بغیر ایسی حالت میں یہ الفاظ کسی کی زبان سے ادا نہیں ہوسکتے!
عقیدے کی حقیقت کو اس سطح پر سمجھنا اور دل میں اتارنا ہی دین کے احیاء کا باعث بنا۔
صحابہ رضوان اللہ اجمعین یہ سمجھتے تھے کہ قرآن ان کے عمل لیے نازل ہوا ہے، مگر ہم اسے ثواب کے لیے پڑھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم قرآن پڑھتے تو ہیں ، لیکن نتیجتاً عمل میں بمشکل ہی کوئی تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔علامہ اقبالؒ نے اسی طرف اشارہ فرمایا ہے ؎
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گِرہ کُشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشّاف
ضمیر پر نزول ہی حق الیقین کی وہ سطح ہے، جو مطلوب ہے اور جو ’شہادت علی النفس‘ اور ’شہادت علی الناس‘ کا باعث بھی بنتی ہے ۔
ہم روزانہ درجنوں مرتبہ نماز میں’ اللہ اکبر‘ کہتے ہیں اور یہی الفاظ ’اذان‘ میں بھی سنتے ہیں۔ اللہ کے ’اکبر‘ ہونے کا تصور ہمارے ذہن میں ہے، لیکن عملاً اس پر ہمارا عقیدہ / یقین نہیں ہے۔ ٹریفک پولیس کا سپاہی جب ہاتھ کھڑا کر کے ٹریفک روکنے کا اشارہ کرتا ہے تو کوئی گاڑی والا اس کی خلاف ورزی نہیں کرتا ،جب کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں پکار پکار کر کہتا ہے کہ گمراہی کے اس راستے پر جانے سے رُک جاؤ لیکن ہم اللہ کی بات پر نہ توجہ دیتے ہیں اور نہ اس راستے سے رُکتے ہیں۔
یہی صورت دوسرے اسمائے حسنٰی کی بھی ہے۔ ہم اللہ کو علیم وخبیرکہتے اور مانتے ہیں۔ ہم لوگوں کے سامنے گناہ کرنے سے اجتناب کرتے ہیں کیونکہ ہمیں یقین ہوتا ہے کہ وہ ہمیں دیکھ رہے ہیں۔ لیکن اللہ کے بارے میں ہم ایسا یقین نہیں رکھتے اور لوگوں سے چھپ کر اللہ کے سامنے گناہ کرنےسے نہیں کتراتے۔ اگر ہم واقعی اللہ کو علیم و خبیر سمجھتے تو کیا وہ کام کرتے جن سے اللہ نے منع کیا ہے؟ یہ غور و فکر کا مقام ہے کہ کیا ہم عملاً لوگوں کو علیم و خبیر سمجھتے ہیں یا اللہ کو؟ ہم اللہ کوحاکم کہتے ہیں لیکن عملی زندگی میں کسی فرد ، ادارےیا قانون کو اللہ کی حاکمیت پر ترجیح دیتے ہیں۔ یہی معاملہ دوسرے اسمائے حسنٰی کابھی ہے ۔
اصطلاحات کے ’لغوی‘ اور ’اصطلاحی معانی‘ کے ساتھ ان کے ’عملی معانی‘ کو جاننا اور اس کی روشنی میں اپنا انفرادی و اجتماعی تجزیہ کرتے ہوئے کام کو آگے بڑھانا وہ بنیادی عنصر ہے جو احیائے اسلام کی کسی بھی تحریک اور حکمت عملی میں ممد و معاون ثابت ہوگا۔
عقیدہ ہی علم و تصورات کو عمل میں ڈھالنے کا باعث بنتاہے۔ احیائے اسلام کے لیے تمام جدید ذرائع کے شرعی حدود کے مطابق استعمال میں کسی کو اختلاف نہیں ہوسکتا ،لیکن عقیدہ اس کی بنیادی ضرورت اور قوت ہے۔اللہ، رسالت اور آخرت پر ایمان عقیدے کے اساسی اجزاء ہیں جن کے انفرادی اور اجتماعی، علمی اور عملی ادراک کےبغیر احیا ئے اسلام نہ ممکن ہوگا نہ پائیدار ۔
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نےہمیں زندگی میں ایک مرتبہ پھر رمضان کے روزے رکھنے کا موقع عطا فرمایا۔ اللہ ہمیں روزے کی حقیقت سمجھنے، اس پر عمل اور بھرپور فائدہ اُٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔
روزہ ایک فرض عبادت ہے۔ اس کا بنیادی مقصدانسان میں تقویٰ پیدا کرنا ہے۔ کھانے پینے سے پرہیز تقویٰ کے حصول کا ایک ذریعہ ہے:
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کر دیئے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیاءؑ کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔(البقرہ۲:۱۸۳)
صوم کا مطلب ہے (اپنے آپ کو ) روکنا ا ور اس کے معنی صبرہیں ۔ صبر کا کم سے کم تقاضا حرام سے رکنا ہے، اور مزید یہ کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی تعمیل کی جائے۔
رمضان کی عظمت قرآن کی وجہ سے ہے۔ اس میں قرآن نازل ہوا اور اس میں لیلۃ القدر ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ابن آدم کا ہر عمل اس کے لیے کئی گنا بڑھایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک نیکی دس سے سات سو گنا تک بڑھائی جاتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزے کا معاملہ اس سے جدا ہے کیونکہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔ (متفق علیہ)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے رمضان کے روزے رکھے ایمان اور خود احتسابی کے ساتھ اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے اور جو رمضان کی راتوں میں کھڑا رہا (قرآن سننے اور سنانے کے لیے) ایمان اور خود احتسابی کے ساتھ اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے‘‘۔ (بخاری، مسلم)
حضرت عبداللہ ؓبن عمرو کی روایت کردہ حدیث میں ہے: ’’روزہ اور قرآن (قیامت کے دن) بندےکے حق میں شفاعت کریں گے۔ روزہ عرض کرے گا : اے رب میں نے اس شخص کو کھانے پینے اور خواہشاتِ نفس سے روکھے رکھا تو اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما ! اور قرآن یہ کہے گا کہ میں نے اسے رات کے وقت سونے (اور آرام کرنے) سے روکے رکھا تو اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما ! چنانچہ دونوں کی شفاعت قبول کر لی جائے گی اور اس کے لیے جنت اور مغفرت کا فیصلہ فرما دیا جائے گا‘‘۔ پس رمضان میں خصوصی طور پر قرآن سے جڑنے، اس کی تلاوت کرنے اور اس کو سمجھ کر پڑھنے کا اہتمام کیا جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی درج ذیل احادیث میں روزے کی حقیقت بیان کی گئی ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے روزے کی حالت میں بے ہودہ باتیں (مثلاً: غیبت ، بہتان ، تہمت ، گالی گلوچ ، لعن طعن ، غلط بیانی وغیرہ) اور گناہ کا کام نہیں چھوڑا، تو اللہ تعالیٰ کو کچھ حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑدے۔ ( بخاری)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کتنے ہی روزہ دار ہیں کہ ان کو اپنے روزے سے سوائے بھوک پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا کیونکہ وہ روزے میں بھی بدگوئی ، بدنظری اور بدعملی نہیں چھوڑتے، اور کتنے ہی رات کو تہجد میں قیام کرنے والے ہیں، جن کو اپنے قیام سے ماسوا جاگنے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔(دارمی ، مشکوۃ)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’روزہ ڈھال ہے (کہ نفس و شیطان کے حملے سے بھی بچاتاہے، اور گناہوں سے بھی باز رکھتا ہے، اور قیامت میں دوزخ کی آگ سے بھی بچائے گا)، پس جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو نہ تو ناشائستہ بات کرے ، نہ شور مچائے۔ اگر کوئی شخص اس سے گالی گلوچ کرے یا لڑائی جھگڑا کرے تودل میں کہے یا زبان سے اس کو کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں (اس لیے تجھ کو جواب نہیں دے سکتا، کہ روزہ اس میں مانع ہے)۔ (بخاری ومسلم ، مشکوٰۃ)
روزہ ڈھال ہے جب تک (تم) اس میں سوراخ نہ کر دو۔(نسائی)
مندرجہ بالا احادیث میں جن بُرے اعمال کا ذکر کیا گیا ہے وہی اس ڈھال کے سوراخ ہیں جن سے روزہ کی افادیت اسی طرح متاثر ہوتی ہے جیسےڈھال میں سوراخ ہو جائے تو وہ بیکار ہوجاتی ہے۔
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے رمضان کار وزہ رکھا ، اور اس کی حدود کو پہچانا، اور جن چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیے ان سے پرہیز کیا، تو یہ روزہ اس کے گذشتہ گناہوں کا کفارہ ہو گا‘‘ (صحیح ابنِ حبان ، بیہقی)۔ یعنی کھانے پینے سے رُکنے کے ساتھ ساتھ بُرے اعمال سے بھی رکا جائے اور منہ کےروزے کے ساتھ دوسرے اعضا کا روزہ بھی ہونا ضروری ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ نظر ، شیطان کے تیروں میں سے ایک زہر میں بجھا ہوا تیر ہے، پس جس نے اللہ تعالیٰ کے خوف سے نظرِ بد کو ترک کر دیا، اللہ تعالیٰ اس کو ایسا ایمان نصیب فرمائیں گے کہ اس کی حلاوت کو اپنے دل میں محسوس کرے گا ۔(رواہ الحاکم )
کس قدر عجیب بات ہے کہ اللہ کے حکم پر ہم روزے میں سحری سے لے کر افطاری تک حلال کھانے سے تو پرہیز کرتے ہیں لیکن اسی اللہ نے قرآن مجید میں جس چیز (یعنی غیبت ) کو مُردہ بھائی کا گوشت کھانا قرار دیا ہے، اس حرام کو ہم رغبت سے کھاتے ہیں ،نعوذ بک من ذٰلک!
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِيْرًا مِّنَ الظَّنِّ۰ۡاِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا۰ۭ اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِيْہِ مَيْتًا فَكَرِہْتُمُوْہُ۰ۭ وَاتَّقُوا اللہَ۰ۭ اِنَّ اللہَ تَوَّابٌ رَّحِيْمٌ۱۲ (الحجرات ۴۹:۱۲)اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو ، بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ تجسّس نہ کرو۔ اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے ۔کیا تمھارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟ دیکھو ، تم خود اس سے گھِن کھاتے ہو۔ اللہ سے ڈرو ، اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے۔
افطار کے وقت روزہ دار حالتِ خوف اور امید کے درمیان مضطرب رہے کہ نہ معلوم اس کا روزہ اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبول ہوا یا مردُود ؟ بلکہ یہی کیفیت ہر عبادت کے بعد ہونی چاہیے۔ اور مقدور بھر کوشش کے بعد اللہ پر اچھا گمان رکھا جائے۔
اللہ ہمیں روزے کی حقیقت اور اس کے مقصد کو سمجھنے کا فہم عطا فرمائےا ور ایسا روزہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے جس سے ہم تقویٰ حاصل کر سکیں۔ اللہ ہمارے روزے قبول فرمائےاور ہمیں ان لوگوں میں شامل کرے جن کو روزے رکھنے پر بخشش کی بشارت دی گئی ہے۔ آمین یا ربّ العالمین!
ضروری نوٹ: راقم کو اپنی دعا ؤں میں(خصوصاً افطار کے وقت) یاد رکھنے کی درخواست ہے!
تاریخ میں تعلیم اورنظام تعلیم قوموں کے عروج و زوال کی اہم بنیاد رہا ہے۔ جس قوم نے بھی تعلیم کی اہمیت کو صحیح طریقے سے جانا اور اپنے تشخص اور نسلِ نو کی تربیت کا انتظام کیا وہ دنیا میں سرخرو ہوئی ۔ تعلیم قوموں کے بناؤ اور بگاڑ میں سب سے اہم کردار ادا کرتی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چنداحادیث سے اس کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔
حضرت ابوالدرداءؓ سے مروی ہے کہ ’’بے شک میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص علم کے حصول کی راہ میں چلا اللہ تعالیٰ اسے جنت کے راستوں میں سے ایک راستہ پر چلاتے ہیں اور بے شک ملائکہ اپنے پروں کو علم کے طالب کی خوشنودی کے لیے بچھاتے ہیں۔ اور عالم کے لیے زمین و آسمان کی تمام اشیاء مغفرت کی دعا کرتی ہیں اور مچھلیاں پانی کے پیٹ میں۔ اور بے شک عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسی چودھویں کے چاند کی فضیلت سارے ستاروں پر۔(متفق علیہ)
ایک اور حدیث میں آپؐ نے فرمایا: طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ ’’علم کا حصول ہرمسلمان (مرد اور عورت) پر فرض ہے‘‘۔
یہ بات واضح ہے کہ ہر مسلمان تمام دینی علوم حاصل نہیں کر سکتا لیکن اس حدیث کے مطابق ہم پرچار چیزوں کی تعلیم فرض ہے:
جنگ بدر میں جنگی قیدیوں کو چند افراد کو علم سکھانے کے بدلےآزاد کیا گیا۔یہ شایدتاریخ میں واحد مثال ہے کہ جنگی قیدیوں کو اس طرح آزاد کیا گیا ہو اور اس سے اسلام میں علم اور تعلیم کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
مدینہ میں ایک صحابی ؓ آواز بلند کرتے ہیں کہ لوگو تم سب کدھر ہو وہاں تو (مسجد نبویؐ) میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث تقسیم ہو رہی ہے۔لوگ بھاگ کر جاتے ہیں تو وہاں تعلیم و تعلّم کا حلقہ دیکھتے ہیں جس کو آپ ؐکی میراث کہا گیا تھا۔
بدقسمتی سے موجودہ نظام تعلیم میں پہلی جماعت سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک ، پورے کورس اور دورانیے میں شاذ ہی طالب علم کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ اچھا انسان اور مسلمان کیسے بننا ہے؟ تعلیمی نصاب سے اسلام اور اقدار کو تقریباً ختم کردیاگیا ہے۔
ہم بحیثیت قوم/امت علم کی اہمیت کو شاید ابھی تک نہیں سمجھ سکے اور آج ہم اسی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ بقول اقبال:
فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملّت کے گناہوں کو معاف
دوسری طرف عالمی قوتیں تعلیم کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ یہودیوں کی کتاب (جس کی تصدیق ونسٹن چرچل اور ہنری فورڈ نے بھی کی ہے)’دی پروٹوکولز‘ (The Protocols) میں تعلیم کے بارے میں خصوصی طور پر لکھا ہے۔پروٹوکول نمبر ۲ میں درج ہے :
[ترجمہ] غیر یہودی دانش ور ان نظریات سے لیس ہوکربغیر کسی منطقی تصدیق کے ان نظریات کو رُوبہ عمل لانے کی کوشش کریں گے اور ہمارے ماہر گماشتے اپنی کمال عیاری سے ان کی فکر کا رخ اس طرف موڑدیں گے جو ہم نے ان کے لیے پہلے سے مقرر کی ہوئی ہے۔ آپ کو ایک لمحے کے لیے بھی شبہہ نہیں ہونا چاہیے کہ یہ خالی خولی الفاظ ہیں۔
اس کے بعد درج ذیل پیراگراف بھی دیکھئے جس میں وضاحت کی گئی ہے کہ قوموں کے افکار میں تبدیلی کو وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کتنا ضروری سمجھتے ہیں:
[ترجمہ] ہمارے لیے دوسری قوموں کے خیالات کا تجزیہ کرنا اور ان کے خصائل و کردار کا مطالعہ کرنا اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ سیاسی اور انتظامی امور میں (ہماری) معمولی سی کوتاہی کا احتمال بھی باقی نہ رہے۔
اقبالؒ کو اس کا مکمل ادراک تھا کہ تعلیم ہی وہ بنیادی عنصر ہے جو قوم کے بناؤ اور بگاڑ میں سب سے بنیادی کرادر ادا کرتا ہےاور جس کے دُور رس اثرات قوم کے عمومی مزاج اور اور سوچ پر مرتب ہوتے ہیں ۔ اقبالؒ نے فرمایا:
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے، اسے پھیر
ثاثیر میں اکسیر سے بڑھ کر ہے یہ تیزاب
سونے کا ہمالہ ہو تو مٹّی کا ہے اک ڈھیر
موجودہ نظام تعلیم کابنیادی ہدف نوجوان طبقہ ہے،تاکہ آنے والی نسلوں کی سوچ مغرب ہی کی تہذیبی اور تعلیمی معیارات اور روایات کے مطابق ہو اور اس تعلیمی نظام کے ذریعے ایسے افراد تیار ہوں جو اپنی شناخت کھوکر ان آقاؤں کی غیر موجودگی میں ان کے موجودہ آلۂ کاروں سے بھی بہتر طریقے سےاس ملک کا نظام ان کی مرضی کے مطابق چلائیں۔اس ضمن میں اقبالؒ کہتے ہیں:
اور یہ اہلِ کلیسا کا نظامِ تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و مُروّت کے خلاف
____
وہ آنکھ کہ ہے سرمۂ افرنگ سے روشن
پُرکار وسخن ساز ہے ، نم ناک نہیں ہے
____
گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ
اقبال سمجھتے ہیں کہ اس نظام نے پوری نسل کی ذہنی غلامی اور تباہی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ساتھ ہی انسانی عقل کو ’عقلِ کُل‘ کا درجہ دے کر وحی اور روحانی تصورات کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔اس میں خودی اور وجدان ناپید ہیں:
وہ قوم کہ فیضانِ سماوی سے ہو محروم
حد اس کے کمالات کی ہے برق و بخارات
____
مدرسہ عقل کو آزاد تو کرتا ہے مگر
چھوڑ جاتا ہے خیالات کو بے ربط و نظام
مردہ لادینی افکار سے افرنگ میں عشق
عقل بے ربطی افکار سے مشرق میں غلام!
پختہ افکار کہاں ڈھوندنے جائے کوئی
اس زمانے کی ہوا رکھتی ہے ہر چیز کو خام
وہ اسی لیے مادہ پرست نظام ،جس میں دولت کو سب کچھ سمجھ لیا گیا، کے مقابلے میں ایسی تربیت پر زور دیتے ہیں، جو صرف عقل کی بنیاد پر قائم نہ ہو اور جس میں مادی علوم کے ساتھ ساتھ روحانیت اور وجدانیت بھی پروان چڑھے:
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نُور
چراغِ راہ ہے منزل نہیں ہے
ا ور:
دل بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں ہے
جب ہر چیز کی کسوٹی مادیت بن جاتی ہےتو اس کا نتیجہ نہ صرف انسانی رشتوں کی کمزوری بلکہ کافی حد تک ختم ہونے اور خدا کے وجود سے عملی انکار کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔
الحاد آج کے نوجون کا ایک بڑا مسئلہ بن چکاہے۔ سائنس کے نام پر ذہنوں میں خدا کے وجود اور ’ضرورت‘ کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کر دیے گئے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ اس کے مقابلے میں اسلام زندگی کا جو تصور دیتا ہے اسے مکمل طور پر ہر تعلیمی نظام سے نکال دیا گیا۔آج ہم اس یک طرفہ ’ذہن سازی‘کا نتیجہ الحاد کی صورت میں دیکھ رہے ہیں ۔تعلیم کے ذریعے ذہن کو اس سانچے میں ڈھالنے کے بارے میں اقبال نے فرمایا:
خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر
لبِ خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
ہم تو سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
اس کے ساتھ ہی ایک اور فتنہ ’آزاد خیالی‘ کےنام پر پھیلایا جارہا ہے، جو ہماری نئی نسل کے ذہنوں کو خصوصی طور پر پراگندہ کر رہا ہے۔ لگتا ہے میڈیا کو تو بس اسی کام پر لگایا گیا ہے کہ وہ اسلام اور پاکستا ن کے بارے میں منفی سوچ پیدا کرے۔ بے مقصد تعلیم اور ’آزادیٔ افکار‘ کے خوش نُما نعروں سے ذہنی تبدیلی کا عمل جاری ہے۔جب معاشرے اور تہذیب سے اسلامی شعائر کا خاتمہ ہوجائے تو مسلمان عملاً اسلام اور رفتہ رفتہ ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں:
لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ آوازۂ تجدید
مشرق میں ہے تقلیدِفرنگی کا بہانہ
آزادیِ افکار سے ہے اُن کی تباہی
رکھتے نہیں جو فکروتدبّر کا سلیقہ
ہو فکر اگر خام تو آزادیِ افکار
انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ!
ہر قوم اپنے مقاصد اور نظریات کے حصول لیے کام کرتی ہے۔یہ بات تویقینا اہم ہے کہ ہر کوئی دوسروں کی پلاننگ کو سمجھے اوراپنے لائحہ عمل میں اُن کی اچھی باتوں کو لینے اور بری باتوں سے احتراز کا بندوبست کرے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی اشد ضروری ہے کہ وہ اپنے مقاصد اور اہداف اپنے معیارات ، مفادات اور نظریات کے مطابق ترتیب دے۔صرف دوسروں پر تنقیدسے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔اصل بات توخو د تعمیری اور مثبت کام کرنا ہے۔ بغیر کسی پلاننگ کے اور بلاسوچے سمجھے صرف ڈنڈے سے نظام تبدیل نہیں ہوتا اور نہ یہ تبدیلی دیر پا ہو سکتی ہے۔
اور انتہائی قابلِ افسوس بات تو یہ ہے کہ مسلمان قوم کے ’پڑھے لکھے‘ (میں جان بوجھ کر ’تعلیم یافتہ‘ کا لفظ استعمال نہیں کر رہا) افراد کو یا تو اس صورتِ حال کی خبر ہی نہیں یا اس کی اہمیت کا احساس نہیں رکھتے۔ اقبالؒ نے اس کا اظہار یوں فرمایا:
وائے ناکامی! متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
بسا اوقات تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب کوئی اس اہم مسئلے کی طرف توجہ دلائے اور ان اہم حقیقتوں کی نشان دہی کرے تو لوگ اس کو نہ صرف غیر سنجیدگی سے لیتے ہیں بلکہ اس کا مذاق اڑانے سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔ مگر جب ان ہی کے بچےّ ان کی توقعات کے خلاف حرکتیں کرتے ہیں تو پھریہی لوگ نظام اور معاشرے سے گلے شکوے بھی کرتے ہیں کہ ان کےبچے بگڑ رہے ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ اس بگاڑ کا ذمہ دار کون ہے؟
یہاں اگر مولانا مودودی رحمہ اللہ کے اسلامیہ کالج میں طلبہ سے خطاب سےموجودہ نظامِ تعلیم کے بارے میں چند اقتباسات کا حوالہ دیا جائے تو بےجا نہ ہوگا تاکہ اندازہ ہو جائے کہ اس وقت (جب نظام تعلیم میں ایسی گمراہ کن تبدیلیاں کم ہی ہوئی تھیں جو آج ہیں)کے مسلمان مفکرین کی رائے ایک ہی تھی۔طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے وہ فرماتے ہیں:
دراصل میں آپ کی اس مادرِ تعلیمی کو اور مخصوص طور پر یہی نہیں بلکہ ایسی تمام مادرانِ تعلیم کو درس گاہ کی بجائے قتل گاہ سمجھتا ہوں اور میرے نزدیک آپ فی الواقع یہاں قتل کیے جاتے رہے ہیں اور یہ ڈگریاں جو آپ کو ملنے والی ہیں ، یہ دراصل موت کے صداقت نامے (Death Certificates) ہیں جو قاتل کی طرف سے آپ کو اس وقت دیے جا رہے ہیں، جب کہ وہ اپنی حد تک اس بات کااطمینان کر چکا ہے کہ اس نے آپ کی گردن کا تسمہ تک لگا رہنے نہیں دیا ہے....
یقین جانیے یہ بات میں مبالغہ کی راہ سے نہیں کہہ رہا ہوں،اخباری زبان میں ’ سنسنی‘ پیدا نہیں کرنا چاہتا، فی الواقع اس نظام تعلیم کے متعلق میرا نقطۂ نظر یہی ہے…
ہر قوم کے بچے دراصل اس کے مستقبل کا محضر ہوتے ہیں ۔ قدرت کی طرف سے یہ محضر ایک لوحِ سادہ کی شکل میں آتا ہے اور قوم کو یہ اختیار دیا جاتا ہےکہ وہ خود اس پر اپنے مستقبل کا فیصلہ لکھے۔ ہم وہ دیوالیہ قوم ہیں جو اس محضر پر اپنے مستقبل کا فیصلہ خود لکھنے کےبجائے اسے دوسروں کے حوالے کر دیتے ہیں کہ وہ اس پرجو چاہیں ثبت کردیں خواہ وہ ہماری موت ہی کافتویٰ کیوں نہ ہو۔ (تعلیمات،ص ۵۳-۵۴،۵۸)
اگر اس وقت حالت یہ تھی تو آج کے حالات کا ہم خود اندازہ کر سکتے ہیں۔ ایسے میں مسلمان مفکرین اور اساتذہ کرام کی ذمہ داری پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
حالات کی تبدیلی میں استاد ہی بنیادی کردار ادا کر سکتاہے۔ بحیثیت مسلمان، استادکو نہ صرف اس پوری صورت حال کو اچھی طرح سمجھنا ہے کہ یہ نظامِ تعلیم ہی ہماری بربادی کا اصل سبب ہے، بلکہ اس کی اصلاح کے لیے اسے اپنا انفرادی اور اجتماعی کردار بھی ادا کرنا ہے ۔ اگر وہ اپنی ذمہ داری کماحقہٗ پوری کر لے تو دُور رس نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کُلُّکُمْ رَاعٍ وَّکُلُّکُمْ مَسْؤُلٍ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ (بخاری، کتاب الجمعۃ، باب الجمعۃ فی القریٰ والمدن، حدیث: ۸۶۷) کا مفہوم ہے کہ ’’ہر ایک اپنے حلقۂ اثرمیں ذمہ دار ہے‘‘۔ ہم گھر میں اپنے بچوں اور سکول یاکالج میں اپنے طلبہ کی صحیح تربیت کے ذمہ دار ہیں۔ جو کام ہمارے ذمے ہے وہ ہم نے کرنا ہے اور جو کام ہم نہیں کر سکتے اس میں اپنا وقت ضائع نہیں کرنا۔لیکن جو کام ہم کر سکتے ہیں وہ ہمیں ضرور کرنا ہے کیوں کہ ہمیں جواب اور حساب اسی کا دینا ہو گا۔ البتہ جو لوگ اس کے لیے اجتماعی جدو جہد کر رہے ہیں، حتی الوسع ان کا پشتی بان بھی بننا چاہیے۔
علم اور فن (Knowledge and Skill) دونوں تعلیم کے اہم ستون ہیں لیکن جب تک تیسرا ستون، یعنی ذہن (attitude) مثبت انداز میں نہیں بدلے گا اور طالب علم کو بحیثیت انسان اور مسلمان اپنے مقام اور ذمہ داری کا صحیح ادراک نہیں ہو گا تب تک وہ معاشرے میں مثبت تبدیلی کا ذریعہ نہیں بن سکے گا۔ نظام کے بدلنے کا انتظار کرنے کی بجائے ہمیں اپنے اپنے زیرِ اثر حلقہ میں کام کرنا چاہیے اور اگر ہم شعوری طور پر اس کو ایک قومی اور دینی ذمہ داری تسلیم کر لیں تو پھر ہرادارے اور ماحول میں اپنا کام کر سکتے ہیں اور اللہ سے اجر کے امیدوار بھی بن سکتے ہیں۔
رویّوں (attitude) کو بدلنے کے لیے ہم مقدور بھر کوشش کرنے پر ہی مکلّف ہیں ۔ نتیجے کا ذمہ اللہ تعالیٰ نےلے رکھا ہے۔ اس نے ہم سے اجر کا وعدہ بھی نتیجہ پر نہیں اخلاص کے ساتھ کوشش کرنے پر کیا ہے ۔ لیکن اگر ہم نے کوشش ہی نہیں کی تو اس کے لیے ہمیں ضرور جواب دینا ہوگا۔ مرد، عورت، جونیئر اور سینئر سب لوگ اپنی اپنی جگہ جواب دہ ٹھیریں گے۔
استاد کا تو بنیادی کام ہی شاگردوں کی روح کے علاج کی فکر کرنا ہے، یعنی ان کے اخلاق و کردار پر توجّہ دینا ہے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں :
شیخ مکتب ہے اِک عمارت گر
جس کی صنعت ہے روح انسانی
لیکن اگر استاد کو اس ذمہ داری کا احساس ہی نہ ہو تو وہ یہ کام کیسے کرسکتا ہے؟ اس لیے پہلی اہم بات ہی یہ ہے کہ استاد اپنے کام اور مقام کو سمجھ جائے اور اسے اپنی ذمہ داری کا احساس اور ادراک ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے آپ کو ’معلم‘ کہا ہے ۔ اس سے بڑھ کر ایک استاد کے لیے فخر کی بات کیا ہو سکتی ہے! استاد ہی تعلیمی نظام میں محور کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ اس نظام کے ریڑھ کی ہڈی ہے۔ اگر استاد کا اپنا ذہن صاف، تصورات واضح اور تربیت ٹھیک ہو تو وہ ہرحال اور ہر نظام میں اہم ،مثبت اور کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے لیکن اگر اس کا ذہن پراگندہ، تصورات مبہم اور مقصد غیر واضح ہو تو اچھے سے اچھا نصاب اور تعلیمی نظام بھی سود مند ثابت نہیں ہوگا۔
استاد کی حالت یہ نہ ہو کہ نام تو مسلمان کا ہو اور مقصد کسی اور کا پورا کر رہا ہو۔اپنی تعلیمی استعداد بڑھانے کے لیے وہ کسی بھی ادارے اور یونی ورسٹی سےتربیت / ٹریننگ حاصل کرسکتا ہے۔ بس بقول اکبر الٰہ آبادی ایک بات ہمیشہ اس کے پیش نظر رہے کہ:
بس ایک سخن بندۂ عاجز کا رہے یاد
اللہ کی اور اپنی حقیقت کو نہ بھولو
بدقسمتی سے آج اساتذہ کی اکثریت ایسی نہیں ہے۔ غیروں میں رہ کریا ملک کے اندر ان کے قائم کردہ اداروں میں ’ٹریننگ‘ کے نام پر جس رنگ میں وہ رنگ جاتے ہیں، وہ اپنے شاگردوں کو وہی رنگ منتقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ایسے ہی اساتذہ کے بارے میں اقبالؒ نے کہا تھا:
ترا وجود سراپا تجلّیِ افرنگ
کہ تُو وہاں کے عمارت گروں کی ہےتعمیر
مگریہ پیکر خاکی خودی سے ہے خالی
فقط نیام ہے تو ، زرنگار و بے شمشیر!
آج ہمارا المیہ ہی ’استاد‘ ہے۔اوراسی لیے اقبالؒ گلہ بھی استاد ہی سےکرتے ہوئے فرماتے ہیں:
شکایت ہے مجھے یا رب خداوندانِ مکتب سے
سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا
فکرِ معاش ایک ضرورت ہے ۔لیکن کیا معاش ہی سب کچھ ہے؟ اور کیا اسی گرداب میں پھنس کرہم اور بہت کچھ تو نہیں گنوا رہے اور اپنے اصل کام اور مقصد سے غافل تونہیں ہو گئے؟ بدقسمتی سے آج ہم بس فکر معاش میں ہی اُلجھ کر رہ گئے ہیں۔
اسی حالت کو اقبال نے یوں بیان فرمایا:
عصرِ حاضر مَلکُ الموت ہے تیرا ، جس نے
قبض کی رُوح تری دے کے تجھے فکرِ معاش
دل کی آزادی شہنشاہی ، شکمِ سامانِ موت
فیصلہ تیرا ترے ہاتھوںمیں ہے،دل یا شکم!
ہمارا ایمان ہے کہ جو رزق اللہ نے ہمارے لیے مقرر کیا ہے وہ ہم سے کوئی نہیں چھین سکتا، البتہ اس کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق اس کے لیے جدوجہد کرنا فرض ہے۔ استاد کو وقتی فوائد، گریڈ، چاپلوسی، کام چوری اور اسی طرح کی دوسری زنجیروں کو کاٹنا ہوگا کہ جب تک اس کے پاؤںمیں یہ زنجیریں پڑی رہیں گی تب تک وہ ایک اعلیٰ و ارفع مقصد کے طرف دلجمعی سے آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ رزق حلال کاحصول اگر ہم ضرورت کی حد تک رکھیں تو یہ نہ صرف جائز بلکہ احسن ہے۔
تعلیم اور تربیت دونوں استاد کی ذمہ داری ہے۔جب یہ دونوں موجود ہوں تو نتیجہ علم نافع کی صورت میں نکلتا ہے۔ ایسی ہی تعلیم کو اقبال امت کی زبوں حالی کا علاج سمجھتے ہیں:
مُرشد کی یہ تعلیم تھی اے مسلم شوریدہ سر
لازم ہے رہرو کے لیے دُنیا میں سامانِ سفر
شیدائیِغائب نہ رہ، دیوانۂ موجود ہو
غالب ہے اب اقوام پر معبودِ حاضر کا اثر
اس دور میں تعلیم ہے امراض ملت کی دوا
ہے خون فاسد کے لیے تعلیم مثل نیشتر
ایک مسلمان استاد جہاں کہیں بھی ہو اسے تعلیم و تربیت کا فرض نبھانا ہے۔ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ دل و دماغ آزاد ہوں گے تو ان شاء اللہ پھر حالت یہ ہو گی کہ:
دیکھے تو زمانے کو اگر اپنی نظر سے
افلاک منور ہوں تیرے نورِ نظر سے
اور اس لیے اقبال استاد سے درد مندانہ درخواست کرتے ہیں کہ :
اللہ رکھے تیرے جوانوں کو سلامت!
دے ان کو سبق خود شکنَی ، خود نِگری کا
دل توڑ گئی ان کا دو صدیوں کی غلامی
دارُو کوئی سوچ ان کی پریشاں نظرَی کا
استاد کو نہ صرف اس عیارانہ اور کافرانہ حکمت عملی کے نتیجے میں نظامِ تعلیم میں پیدا ہونے والی خرابیوں کا مکمل ادراک کرنا ہے بلکہ اس کی اصلاح کے لیے اس کارِ خیر میں اپنا حصّہ بھی ڈالنا ہے۔ انفرادی کوششیں مل کر ہی اجتماعی اصلاح کا ذریعہ بنتی ہیں۔ ہمیں غیروں کے رنگ میں رنگ کر اس نظام کو تقویت نہیں دینی کہ یہ تو کاروبارِ لات و منات ہی کو زندہ کرنے میں آلۂ کار بننے کے مترادف ہوگا۔ استاد کو نہ صرف اپنی ذاتی تربیّت اور صلاحیت کی فکر کرنی ہے بلکہ بہت سوچ کریہ فیصلہ بھی کرنا ہو گا کہ وہ جو تعلیم اپنے شاگردوں کو دے رہا ہے اس کا نتیجہ کیا نکل رہا ہے؟بقول اقبال:
حریم تیرا ، خودی غیر کی! معاذ اللہ
دوبارہ زندہ نہ کر کاروبارلات و منات
اپنے اقدار، تہذ یب اور دین کو دوبارہ زندہ کرنے کی جدوجہد ہر فرد کی انفرادی اور بحیثیت مسلمان قوم ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔ مگر اس کے لیے اَن تھک محنت اور منظم جدوجہد اولیّن شرط ہے۔اقبال سمجھتے ہیں کہ یہ آسان کام نہیں ہے یہ غیروں کی صدیوں کی محنت اور ہماری صدیوں کی غفلت اور ذہنی غلامی کی پیدا کردہ صورت حال کا نتیجہ ہے۔
بدقسمتی سے مسلم دُنیا کے حکمرانوں اور اہلِ دانش مل کر مسلمانوں کے نظام تعلیم کو خراب اور برباد کرنے میں اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔
ہمیں بحیثیت مسلمان استاد یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ معلمّی پیشہ نہیں بلکہ ایک مشن ہے۔ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث ہے۔ معلّم کا کام صرف معلومات منتقل کرنا نہیں بلکہ طلبہ کی تربیت اور تزکیہ بھی اس کی ذمہ داری میں شامل ہے۔ اگر ایک طالب علم کو اسلام کے مطابق ’مقصد زندگی‘ کی تعلیم نہ دی جائے اور وہ اپنی تعلیم کو صرف دنیاوی آسایشوں اور حصول دولت کا ذریعہ سمجھنے لگے، تو اُس سےفراغت کے بعد معاشرے میں ایک تعمیری اور مثبت کردار کی توقع عبث ہوگی۔
پاکستان کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں وسائل کی کمی نہیں بلکہ ایک ایسی مخلص، قابل اور صالح قیادت اور انتظامیہ ( بیوروکریسی) کی کمی ہے جوموجودہ وسائل کاصحیح استعمال کرے اور اس ملک کے عوام کی تقدیر بدل دے۔ایسے افراد اسی نظام تعلیم کی پیداوار ہو سکتے ہیں جس کا مطمح نظر اور مقصد ایسے باکردار اور باصلاحیت افراد تیار کرنا ہو۔
اساتذہ کی اپنی تربیت موجودہ تعلیمی نظام کو قومی اور اسلامی خطوط پر استوار کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ ان کی مشترکہ جدوجہد سے قوم کے نونہال پوری امّت مسلمہ کے لیے مشعل راہ بن سکتے ہیں۔علم کے ذریعے تبدیلی کی جدو جہد ہرمسلمان استاد کا قومی فریضہ اور دینی ذمہ داری ہے۔ اگراسے زندگی میں یہ تبدیلی دیکھنا نصیب ہو گئی تو فبہا، اور اگر ایسا نہ بھی ہوا تو پھر بھی اسے اللہ کے حضور سر خرو ہونے کی قوی امید رکھنی چاہیے۔
اسلام دین فطرت ہے۔ اس پر عمل کرنے اور اس کے حدود و قیود کی پابندی کرنے سے انسان ترقی کر کے اس منزل کو پا سکتا ہے، جو فرشتوں کے مقام و مرتبہ سے بھی بلند و بالا ہے۔ انسانیت کی معراج کا حصول محبت و اطاعت الٰہی اور اتباع سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہی ہے۔
فرائض و عبادات میں رمضان المبارک کی اہمیت ایک خاص شان رکھتی ہے۔ مسلمانوں کا معاشرہ اس مہینے میں ایک روحانی موسم لیے ہوتا ہے۔ ہر مریض اور توانا اس بات کا خواہش مند ہوتا ہے کہ اس ماہِ مبارک کی برکتوں سے پوری طرح فیض یاب ہو سکے۔رمضان سے متعلق تمام احکامات اصلاً تو ایسے لوگوں کے لیے ہیں جو صحت مند ہوں،کیونکہ مریضوں کو ایک حد تک رخصت دی گئی ہے۔ تاہم، مرض کی نوعیت اور روزے کی وجہ سے مرض اور اس کے جسم پر مرتب ہونے والے ممکنہ اثرات وہ بنیادی عوامل ہیں جن کو سامنے رکھتے ہوئے مریض اور ڈاکٹر باہمی مشورے سے روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔ البتہ اگر صورتِ حال ایسی ہو کہ تکلیف سے جسم کے کسی عضو کو شدید نقصان پہنچنے یا موت واقع ہو جانے کا اندیشہ ہو، تو ایسی ناگزیر ضرورت میں نہ صرف مریض کے لیے لازم ہے کہ روزہ نہ رکھے بلکہ ڈاکٹر کے لیے بھی لازم ہے کہ وہ مریض کو صورت حال سے مکمل طور پر آگاہ کر کے روزہ نہ رکھنے کا مشورہ دے۔
اس ضمن میں روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کے لیے درج ذیل صورتوں کو پیش نظر رکھا جانا چاہیے:
l ایسی معمولی بیماری کی صورت میں، جس سے مریض کو کوئی خطرہ لاحق ہو، نہ اس کو بہت زیادہ تکلیف ہو ،اسے روزہ رکھنا چاہیے۔
l ایسی بیماری جس میں روزہ رکھنے سے جسم کے کسی ایسےعضوکےخراب یا ضائع ہونے کا اندیشہ ہو، جو بقاے حیات (Vital organ) کے لیے ضروری ہو، مثلاً گردہ، دل، دماغ یا پھیپھڑے وغیرہ، تو روزہ نہیں رکھنا چاہیے۔
l اگر مریض کسی عارضی بیماری کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکے تو بعد میں قضاروزے ضرور رکھے۔ بعض اوقات دائمی بیماریوں سے بھی مریض صحت یاب ہو جاتا ہے، ایسی صورت میں بھی قضا روزے رکھ لینا ضروری ہیں، اگرچہ فدیہ بھی دے چکا ہو۔
l اگر مرض ایسا ہے جس میں دوالینے کے اوقات تبدیل کرکے، دوا صبح و شام (سحری اور افطاری کے وقت) دی جاسکتی ہو اور اس سے مریض پر برے اثرات بھی مرتب نہ ہوتے ہوں تو ایسی صورت میں روزہ رکھا جاسکتا ہے۔
l وہ بیمار جو رُوبصحت ہوں لیکن اگر وہ روزہ رکھیں تو صحت دوبارہ خراب ہونے کا قوی امکان ہو تو ایسے بیمار روزہ نہ رکھیں اور مکمل صحت یاب ہونے کے بعد قضا روزے رکھیں۔
l بیماری یا سفر کی وجہ سے کوئی شخص اگر روزہ نہ رکھ سکتا ہو تو اس کے لیے رمضان کے تقدس کو ملحوظ رکھنا لازم ہے۔ اسے چاہیے کہ کھلے عام کھانے پینے سے اجتناب کرے۔
l درد کی شدّت میں بھی روزہ چھوڑاجاسکتاہے،لیکن اس شدت کی برداشت کاتعین مریض خودکرے گا۔
کورونا کی وبا اور موجودہ حالات کے پیش نظر سب سے پہلے اس کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اس وقت تک دنیا میں کورونا کی وبا سےتقریباً ۲۵ لاکھ افراد متاثرہوچکے ہیں اور اموات کی تعداد بھی دولاکھ تک پہنچ چکی ہے۔کورونا کا کوئی تیر بہدف علاج نہیں ہے اور بیماری سے بچاؤہی وہ واحد ذریعہ ہے، جس سے ہم اللہ کے فضل اورکرم سے اس بیماری پر قابو پا سکتے ہیں۔ شوگر کے بیمار، عمررسیدہ افراد، دل کی بیماریوں اور قوت مدافعت کی کمی والے دوسرے بیماروں کو بیماری لگنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ مسلسل جسمانی تھکاوٹ اور ذہنی دباؤبھی قوت مدافعت میں کمی کا سبب بن سکتا ہے۔
کورونا وبا کے دوران رمضان میں مریضوں کے لیے شریعت مطہرہ کے پس منظر میں عمومی ہدایات کا خلاصہ ذیل میں دیا جاتا ہے:
۱- جن افراد کی قوت مدافعت کم ہواور اپنے گھروں میں رہیں تو وہ پچھلے برسوں کی طرح روزہ رکھ سکتے ہیں ۔ البتہ اگر ان کو کسی اور وجہ سے کورونا وائرس سے بیماری کا خطرہ ہو تو وہ روزہ نہ رکھیں ، اپنی قوت مدافعت بڑھانے پر توجہ دیں اور بعد میں قضا روزے رکھ لیں۔
۲- اگر ڈاکٹر کی راے یہ ہو کہ کسی مریض کو کسی مخصوص وجہ سے کورونا بیماری لگنے کا غالب امکان ہے اور روزہ نہ رکھنے کا مشورہ دے تو مریض کو ڈاکٹر کے مشورے پر عمل کرنا چاہیے۔
۳- جن افراد کو سخت کھانسی اوربخار ہو تو وہ اپنی حالت کی شدّت کے مطابق روزہ چھوڑ سکتے ہیں اور بعد میں قضا کر لیں۔ البتہ جن لوگوں کو یہ علامات کورونا بیماری کی وجہ سے ہوں (یعنی ٹیسٹ مثبت ہو) تو ایسے مریض کو سختی سے ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے۔
۴- رمضان میں باجماعت تراویح پڑھنا ایک نہایت مستحسن امر اور اسلامی عبادات کا اہم حصّہ ہے لیکن فرض نہیں ہے۔وبا کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر تراویح گھروں میں پڑھی جائے۔
عید کے موقعے پر لوگوں سے ملنا ایک مباح عمل اور اسلامی ثقافت کا حصّہ ہے، لیکن وبا کی موجودگی میں رشتہ داروں اوردوستوں کے گھروں میں جانے ، ملاقاتوں، ہاتھ ملانے اور اور گلے ملنے سے اجتناب کیا جائے۔
m روزہ دار کا آنکھ، ناک یا کان میں دوا ڈالنا:آنکھ میں دوا ڈالنے کے بارے میں فقہاکی عمومی راے یہ ہے کہ اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ ناک میں دوا ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ کان کے اندرونی پردے (Tympanic membrane) کے صحیح اور سالم ہونے کا سوفی صد یقین ہو تو روزہ نہیں ٹوٹے گا۔البتہ شک کی صورت میں بہتر یہی ہے کہ ماہرڈاکٹر سے تصدیق کر لی جائے۔ پردہ پھٹا ہو یا اس میں سوراخ ہو تو دوائی ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جائےگا۔
m روزے دار کا دانت نکلوانا:دانت نکلوانے کے لیے عام طور پہ (Local Anesthesia) کا استعمال کیاجاتا ہے، اس دوران پانی کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ اس بات کا قوی امکان موجود ہوتا ہے کہ پانی، دوا، خون اور مسوڑھوں کے گوشت کے اجزا وغیرہ میں سے کوئی چیز حلق سے نیچے اتر جائے اور اس طرح روزہ ٹوٹ جائے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ صرف اشد ضرورت میں ہی افطار سے پہلے دانت نکلوایا جائے اور اگر ممکن ہو تو افطار کے بعد دانت نکلوایا جائے۔ دانت کی filling اور Scaling میں بھی اس کا خیال رکھا جائے۔
m انجکشن اور روزہ :انجکشن چاہے جِلد، گوشت یا رگ میں لگایا جائے، اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ روزہ ٹوٹنے کے لیے ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ کوئی چیز بدن میں معتاد (Natural Orifices) راستے سے بدن میں داخل ہو۔ مثلاً منہ، ناک یا مقعد کے ذریعے۔ غیر معتاد راستے سے کسی چیز کے بدن میں داخل ہونے سے اصولاً روزہ نہیں ٹوٹتا ۔
یہاںاس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ انجکشن کی نوعیت اور مقصد کا تعین انتہائی اہم ہے کہ انجکشن کا استعمال طاقت کے لیے ہے ( مثلاً وٹامن کے انجکشن یا ڈرپ وغیرہ )یا بخاراور درد وغیرہ کے لیے؟ اگر کوئی مریض پیاس بجھانے کے لیے یا بھوک مٹانے کے لیے روزے میں انجکشن (ڈرپ) کا استعمال کرتا ہے تو یہ روزے کی روح کے خلاف ہے اور اس مقصد یا اس نیت سے انجکشن کا استعمال انتہائی نامناسب حرکت ہے۔ لیکن اگر یہ درد یا بخار کا زور توڑنے کے لیے استعمال کیا جائے، تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ کسی خصوصی صورت حال مثلاً درد وغیرہ میں انجکشن کا استعمال کرنا یا نہ کرنا مریض کے اپنے تقویٰ پر بھی موقوف ہے۔ اگر وہ سمجھتا ہے کہ درد کو افطاری تک برداشت کرسکتا ہے اور اجازت کے باوجود انجکشن نہیں لگواتا اور تکلیف برداشت کرتا ہے تو اجر پائے گا۔
m آپریشن(Surgery) اور روزہ :آپریشن دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک وہ جن کو فوری طور پر(Emergency)کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ایسے آپریشن روزے کے دوران فوری طور پر کر لیے جائیں مثلاً Appendicitis یاحادثے کی صورت میں ہڈی کا ٹوٹ جانا وغیرہ۔ دوسرے وہ جو کسی بھی مناسب وقت پر طے کر کے کیے جائیں۔ ان کوElective Surgery / Cold Operation بھی کہتے ہیں۔ یعنی ایسے آپریشن جن کو جلدی میں کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔اس صورت میں مریض کو سمجھا دیا جائے کہ آپریشن کو رمضان کے بعد تک بہ آسانی موخر کیا جاسکتا ہے اور ایسا کرنے سے اسے کوئی خطرہ بھی نہیں ہوگا۔ اس طرح اسے رمضان کے بابرکت مہینے کے روزے رکھنے کی سعادت بھی حاصل ہو جائے گی۔
ایسے آپریشنز جن میں(Local Anesthesia) کا استعمال ہوتا ہو، مثلاً آنکھ کے آپریشن یا جسم پر معمولی زخم یا پھوڑے وغیرہ کا آپریشن ، یہ روزے کے دوران بھی کیے جاسکتے ہیں اور اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔یہاں یہ بات بھی بیان کردینا ضروری ہے کہ اگر کوئی مریض یا ڈاکٹر آپریشن کو رمضان تک صرف اس لیے موخر کرتے ہیں کہ اس طرح روزوں سے بھی جان چھوٹ جائے گی تو یہ انتہائی نامناسب ہے کیونکہ یہ روزے جیسی اہم عبادت کے بارے میں ایک بہت غیر محتاط اور ناروا رویہ ہوگا۔
m حاملہ اور بچوں کو دودھ پلانے والی خواتین: اگر حاملہ عورت روزہ رکھنے سے تکلیف کی شدت محسوس کرتی ہو یا وہ خود تو حمل کی وجہ سے اپنی کسی موجودہ بیماری سے واقف نہ ہو یا روزہ کی وجہ سے دوران حمل پیدا ہونے والے متوقع مضراثرات سے لا علم ہو، لیکن ڈاکٹر کو یہ علم ہو کہ اس وقت حمل اور روزے کے جمع ہونے کی وجہ سے حاملہ عورت ایک ایسی صورت حال سے دوچار ہوسکتی ہے کہ اگر وہ روزہ رکھتی ہے، تو آیندہ اسے کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہونے کا قوی اندیشہ ہے، جو خود اسے یا اس کے ہونے والے بچے کے لیے باعث تکلیف ہوگی، تو ڈاکٹر اسے روزہ نہ رکھنے کا مشورہ دے سکتا ہے۔ عورت خود اپنے تجربے کی بنیاد پر بھی روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ کرسکتی ہے۔
اسی طرح بچے کو اپنا دودھ پلانے والی عورت اگر تجربے کی بنیاد پر قوی امکان محسوس کرے کہ روزہ رکھنے سے اسے خود یا بچے کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے یا معالج ڈاکٹر محسوس کرے کہ اگر یہ عورت روزہ رکھ کر بچے کو دودھ پلاتی رہے تو اسے یا اس کے بچے کو نقصان پہنچنے کا امکان ہے، تو وہ روزہ نہ رکھنے کا فیصلہ کرسکتی ہے اور ڈاکٹر بھی اسے روزہ نہ رکھنے کا مشورہ دے سکتا ہے۔ان دونوں صورتوں میں جتنے روزے نہیں رکھے گئے، بعد میں قضا روزے رکھ کر تعداد پوری کرنا فرض ہوگا۔
m دمہ (Asthma) :دمہ کے ایسے مریض جنھیں سانس کی تکلیف کبھی کبھار ہوتی ہو، جو وقتی طور پر دوا کے استعمال سے ٹھیک ہو جاتے ہوں اور پھر کئی کئی دن یا ہفتے دوائی کی ضرورت پیش نہیں آتی، انھیں روزہ رکھنا چاہیے۔ البتہ دمہ کے وہ مریض روزہ نہ رکھیں، جنھیں روزانہ دوائی کی ضرورت ہوتی ہے اور گولیاں اور Inhalers دونوں استعمال کرنا ضروری ہوتا ہو۔ ایسے مریض رمضان کے بعد جب دن چھوٹے ہوں یا ان کی بیماری میں کمی ہو جائے تو روزے پورے کرلیں۔ اگر بیماری کے بہتر ہونے کا امکان کم ہو کہ وہ روزے رکھ سکیں تو بہتر ہے کہ بروقت فدیہ ادا کردیں۔ ایسے مریض جنھیں سینے کی تکلیف اتنی زیادہ ہو کہ سانس مسلسل خراب رہتا ہو اور دواؤں کے بغیر گزارہ نہ ہوتا ہو ، ان کے لیے روزے نہ رکھنا بہتر ہے۔
انہیلر (Inhaler) کے ذریعے بالعموم دوا کا زیادہ حصہ سانس کی نالی کے ذریعے پھیپھڑوں میں داخل ہو جاتا ہے، لیکن کچھ دوا حلق میں بھی چلی جاتی ہے، جو معدے میں پہنچ جاتی ہے۔ اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ یہی صورتِ حال Spacer یا Nebulizer (جو انہیلر کے نعم البدل کے طور پہ استعمال کیا جاتا ہے) کے ذریعے دوا کے استعمال کی بھی ہے۔ ان سے بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔البتہ بعض علما کی راے روزہ نہ ٹوٹنے کی بھی ہے۔اگر مرض اتنا شدید ہو کہ روزے کے دوران بھی انہیلر کا استعمال ناگزیر ہو تو بہتر یہی ہے روزہ نہ رکھے اور بعد میں قضا روزے مکمل کر لے یا دائمی صورت میں فدیہ ادا کردے۔
m گردے کی پتھری (Kidney stones) : رمضان میں پانی کے کم استعمال سے گردے کی پتھری کے مریضوں کو درد شروع ہو سکتا ہے، خاص کر گرمیوں کے روزوں میں اس کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ اگرچہ کچھ مریضوں میں روزوں کے باوجود درد کی شکایت نہیں ہوتی۔ اگر مریض کو یہ تجربہ ہو چکا ہے کہ روزہ رکھنے سے اسے شدید درد شروع ہو جاتا ہے تو ایسے مریضوں کو سال کے دوسرے مہینوں میں جب موسم سرد ہو اور دن چھوٹے ہوں ، قضا روزے رکھنے چاہییں۔
m یرقان (Hepatitis): یرقان/ہپاٹائٹس اے ، بی، سی ، ای یا دوائیوں کے مضر اثرات (Side effects)، دونوں صورتوں میں شروع کے چند دن یا ہفتے روزہ نہ رکھنے کی گنجایش موجود ہوگی، کیونکہ عام طور پر ان دنوں میں مریضوں کو کھانے میں میٹھی چیزوں (گلوکوز وغیرہ) کا استعمال زیادہ کرنا پڑتا ہے۔ ایسے مریض اگر زیادہ دیر تک کھانے کا استعمال نہ کریں تو خون میں شوگر کی کمی واقع ہوجاتی ہے۔
دائمی یرقان یعنی ہپاٹائٹس بی اور سی کے وہ مریض کہ جن کو کوئی پیچیدگی درپیش نہ ہو، روزہ رکھ سکتے ہیں۔ یرقان کے ایسے مریض جن کا وزن زیادہ ہو توانھیں روزے سے فائدہ بھی ہو سکتا ہے۔ مریضوں کو یہ بات بھی بتا دینی چاہیے کہ اگر ان کا علاج رمضان کے بعد تک مؤخر کیا جائے توان کی بیماری بڑھنے کا کوئی امکان نہیں اور چونکہ اللہ نے ان کو رمضان کے روزے رکھنے کا موقع دیا ہے، اس لیے ان کے لیے بہتر یہی ہے کہ اس موقعے کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔
البتہ یرقان کے وہ مریض، جنھیں کسی پیچیدگی کا سامنا نہ ہو، مثلاً پیٹ میں پانی کا جمع ہوجانا (Ascites) یا جگر کی بیماری کی وجہ سے نیم بے ہوشی کی صورت حال پیدا ہوگئی ہو (Hepatic Encephalopathy) تو ان کو روزہ نہیں رکھنا چاہیے اور فدیہ دینا ہی زیادہ بہتر ہوگا کیونکہ بعد میں بھی روزے رکھنے سے تکلیف کے بڑھنے کا احتمال ہوتا ہے اور مکمل صحت یا بی کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔
m شوگر کی بیماری: شوگر کے کنٹرول کے لیے کچھ مریضوں کو انسولین کے انجکشن مسلسل استعمال کرنے پڑتے ہیں اور اس کے بغیر شوگر بہتر طریقے سے کنٹرول نہیں ہو سکتی۔ ان مریضوں میں بعض اوقات انجکشن کے استعمال سے خون میں شوگر کی مقدار میں کمی واقع ہو سکتی ہے اور یہ امکان ان مریضوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے جو شوگر کے لیے گولیوں کا استعمال کرتے ہیں۔ اس لیے وہ مریض جو انسولین استعمال کرتے ہیں، ان کے لیے عمومی طور پر روزہ نہ رکھنا ہی بہتر ہوتا ہے اور ان کو فدیہ دینا چاہیے۔ کیونکہ اس بات کا امکان کم ہوتا ہے کہ مریض اتنا ٹھیک ہو جائے کہ اس کو انسولین کی ضرورت بھی نہ رہے اور روزہ رکھنے کے قابل بھی ہو جائے۔البتہ وہ مریض جن کی شوگر افطاری میں ایک انجکشن لگانے سے کنٹرول ہو سکتی ہو تو ایسے مریض اپنے تجربے کی بنیاد پر روزہ رکھ سکتے ہیں، البتہ ان کو شوگر کی کمی کی علامات پوری طرح معلوم ہونی چاہییں ۔
شوگر کے وہ مریض جو گولیوں کا استعمال کرتے ہیں، ان میںگولیاں عمومی طور پر دو گروپس کی ہوتی ہیں۔ ایک گروپ(Biguanides) کہلاتا ہے، جو بازار میں Glucophage اور دوسرے ناموں سے دستیاب ہیں۔ اگر مریض صرف ان کا استعمال کررہا ہے تو یہ مریض عام طور پر روزے رکھ سکتا ہے۔ دوسرا گروپSulphonylurea کہلاتا ہے اور بازار میں یہ Daonil اور دوسرے ناموں سے دستیاب ہے۔ یہ مریض بھی روزے رکھ سکتے ہیں۔ لیکن اگر ان میں شوگر کے کم ہونے کی پرانی تاریخ موجود ہے تو ڈاکٹر کو چاہیے کہ اس صورت میں مریض کو مکمل طور پر دوا کے اثرات سے بھی آگاہ کرے اور باہمی تبادلہ خیال کے بعد روزے رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ کریں۔
عام طور پر دوا کا استعمال صبح اور شام کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر حضرات دوا کی مقدارمیں ضروری تبدیلی کرکے سحری میں کم اور شام میں زیادہ کرسکتے ہیں، تاکہ دن میں روزے کے دوران خون میں شوگر کی کمی کا امکان کم سے کم ہو جائے۔
m شوگر کی علامات: دل کی دھڑکن کا تیز ہو جانا، ہلکے ٹھنڈے پسینے آنا، زیادہ بھوک لگنا اور میٹھی چیز کھانے کی فوری خواہش پیدا ہونا، ذہنی حالت کا متغیر ہونا(Disorientation) یا بے ہوشی طاری ہونا۔ آخرالذکر دو علامات مریض خود نہیں بلکہ دوسرے لوگ ہی دیکھ کر بتاسکتے ہیں اور اس صورت میں آس پاس موجود لوگ اس مریض کو روزے کی حالت میں ہی کوئی میٹھی چیز فوراً کھلا کر نزدیکی ڈاکٹر کے پاس یا ہسپتال لے جائیں۔ یہ روزہ بعد میں قضارکھا جا سکتا ہے۔
شوگر کے تمام مریضوں کو عموماً اور رمضان کے دوران خصوصاً اپنے ساتھ کوئی نہ کوئی میٹھی چیز، مثلاً چینی، ٹافیاں وغیرہ ضرور رکھنی چاہییں، تاکہ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں ان کا استعمال کیا جاسکے۔ نیز شوگر کے مریض ہمیشہ اپنے ساتھ ایک کارڈ رکھیں، جس میں نشاندہی کی گئی ہو کہ وہ شوگر کا مریض ہے، تاکہ بے ہوشی کی صورت میں اسے ابتدائی طبی امداد مہیا کی جاسکے۔
یاد رکھیے، شوگر کے نیم بیہوش مریض کے خون میں شوگر کم یا زیادہ ہو سکتی ہے، لیکن اصول یہ ہے کہ اگر کمی یا زیادتی کا فیصلہ کرنے میں شک ہو، تو انتظار کیے بغیر مریض کو روزے کی حالت میں ہی فوری طور پر چینی دی جائے، کیونکہ ایسا نہ کرنے سے مریض کو زیادہ خطرہ ہوگا اور اگر مریض کی شوگر کم ہے تو یہ مریض کی موت کا سبب بن سکتی ہے۔ لیکن اگر مریض کی شوگر زیادہ ہے اور آپ اس کو کچھ مزید بھی دے دیں، تو وقتی طور پر شوگر کی زیادتی زندگی کے لیے خطرے کا سبب نہ بنے گی۔
m معدے کی بیماریاں (السر یا زخم معدہ) اور تیزابیت :معدے کی تیزابیت کم کرنے اور السر کے علاج کے لیے اس وقت بہت سی ادویات دستیاب ہیں اور ان کا اثر چند گھنٹوں سے لے کر ایک یا دودن (۲۴ سے ۴۸ گھنٹے) تک ہوتا ہے۔ اس لیے دوا کے استعمال کے بعد اب اس بات کا امکان بہت کم ہوتا ہے کہ مریض کو کوئی خطرہ مثلاً تیزابیت کے بڑھنے یا Perforationکا خطرہ لا حق ہو۔ اگر مریض سحری میں زیادہ اثر والی اور زیادہ دیر تک اثر رکھنے والی(Long Acting) دوا استعمال کریں، تو بغیر کسی تکلیف کے روزہ رکھ سکتے ہیں۔ بہت کم مریض ایسے ہوتے ہیں جو دوا کے کم استعمال کی وجہ سے تکلیف میں ہو سکتے ہیں، انھیں روزہ نہ رکھنے کی رعایت دی جاسکتی ہے۔
کچھ خصوصی حالات جن میں معدے کی تیزابیت اور زخم بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ مثلاً (Zolinger Ellison Syndrome)تو ان میں روزہ رکھنے سے اجتناب کرنا بہتر ہے۔ یہ بات بھی ثابت شدہ ہے کہ معدے کی کئی دوسری بیماریاں مثلاً بدہضمی(Dyspepsia) وغیرہ روزے میں بہتر ہو جاتی ہیں بشرطیکہ سحری اور افطاری میں احتیاط برتی جائے۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ رمضان میں افطاری کے بعد چٹ پٹے اور چٹخارے دار پکوانوں سے اجتناب کرنے سے نظام ہضم ٹھیک رہتا ہے۔
m دل کی بیماریاں:خون کے انجماد (کلاٹ)کی بنا پر دل کا دورہ ایک ایسی بیماری ہے ،جس میں دل اپنی پوری قوت سے خون کو پمپ نہیں کرسکتا اور دل کا سائز بڑھ جاتا ہے جس کے نتیجے میں مریض کو سانس لینے میں تکلیف ہوتی ہے اور سانس جلد پھول جاتی ہے ساتھ ہی ساتھ پاؤں میں سوجن بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ بعض اوقات یہ بیماری کم ہوتی ہے اور صبح شام دوائی استعمال کرنے سے مریض ٹھیک رہتا ہے اور اس کو سانس کی تکلیف یا پاؤں کی سوجن وغیرہ نہیں ہوتی، ایسے مریض روزہ رکھ سکتے ہیں۔ لیکن اگر وہ محسوس کریں کہ سانس کی تکلیف ہے تو پھر روزہ رکھنے سے اجتنا ب کرنا چاہیے۔ یہ بیماری جب زیادہ ہو جائے تو نہ صرف یہ کہ معمولی کام کرنے سے بلکہ بعض اوقات تو بیٹھے بیٹھے یا لیٹنے سے بھی سانس کی تکلیف ہوتی ہے۔ ایسے مریضوں کو دوسری دواؤں کے ساتھ ساتھ اکثر پیشاب آور دوائیں بھی استعمال کرنا پڑتی ہیں، جس کی وجہ سے پیاس بھی زیادہ لگتی ہے۔ ایسے مریض جن کو بیماری زیادہ ہو، ان کو روزہ نہیں رکھنا چاہیے، اور بعد میں جب حالت بہتر ہوجائے تو قضا روزے رکھے جاسکتے ہیں۔
چند صورتیں ایسی بھی ہیں جن میں مکمل صحت یا بی کا امکان نسبتاً کم ہوتا ہے مثلاً Cardiomyopathy وغیرہ کے مریضوں کو فدیہ دینا ہی بہتر ہے۔
دل کی ایک اور بیماری جسے انجائنا (Angina) کہتے ہیں۔ اس میں مریض کو سینے یا ہاتھ میں درد کی شکایت ہوتی ہے۔ درد اگر صبح شام دوا کے استعمال سے کنٹرول ہو سکے تو روزہ رکھا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر درد کنٹرول کرنے کے لیے دن میں بھی دوا استعمال کرنی پڑرہی ہو تو روزہ نہیں رکھنا چاہیے کیونکہ درد زیادہ وقت رہے تو دل کی تکلیف خطرناک صورت بھی اختیار کرسکتی ہے۔ ایسے مریضوں کو اکثر اوقات دواؤں کے استعمال سے افاقہ ہو جاتا ہے اور یہ بعد میں قضاروزے رکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ بصورت دیگر فدیہ ادا کرسکتے ہیں۔
m گھبراہٹ / اداسی کی بیماری (Depression/ Anxiety) :ان بیماریوں کے شدید دور کے گزر جانے کے بعد مریض، ڈاکٹر کے مشورے سے، ہر۲۴گھنٹے میں Antidepressants Benzodiazepines کی بالعموم ایک یا دو خوراکوں کے استعمال سے اپنی صحت کو برقرار رکھتے ہوئے روزے رکھ سکتا ہے۔ یہ خوراک حسب ہدایت افطارکے بعد یا سحری کے وقت لی جاسکتی ہے۔
m مرگی (Epilepsy):اس بیماری میں استعمال ہونے والی وہ دوائیں جو دو وقت دی جاتی ہیں، وہ بہ آسانی سحر و افطار میں دی جاسکتی ہیں، تاہم کچھ دوائیں دن میں تین مرتبہ بھی تجویز کی جاتی ہیں جنھیں سحر و افطار اور بعد از تراویح لیا جا سکتا ہے۔ کچھ صورتوں میں دوائی کی مقدار بڑھاکر اسے دو وقت (سحر و افطار) بھی دیا جاسکتا ہے۔یہاں یہ خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ خون میں شکر کی مقدار کی کمی اور نیند کی بے قاعدگی سے دورے آنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اگر مریض اپنے تجربے سے یہ بات جانتا ہے کہ روزہ رکھنے سے اسے دورہ پڑتا ہے تو روزہ نہ رکھے۔
مریضوں کو یہ مشورہ دیا جانا چاہیے کہ سحری میں اچھی خوراک لیں اور افطاری میں دیر نہ کریں۔ جہاں تک نیند کی بے قاعدگی کا تعلق ہے، مریضوں کو رمضان میں سونے کے لیے نئے معمول پر چلنے کی ہدایت کی جاسکتی ہے، جیسے تراویح کے فوراً بعد سوجانا اور سحری کے بعد نہ سونا، اس ہدایت پر عمل کرنے سے عبادت کے لیے بھی اچھا خاصا وقت مل سکتا ہے۔
ان بیماریوں میں مبتلا اکثر مریض بغیر کسی مسئلے کے روزہ رکھنے کے قابل ہوتے ہیں، تاہم دوائیوں کی مقدار اور دوائی لینے کے اوقات کا خیال رکھنا اور اگر ضرورت پڑے تو اَزسر نو انھیں متعین کرنا ضروری ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ کچھ مریض اپنی بیماری یا علاج کی ضرورت کی وجہ سے روزہ رکھنے پر قادر نہیں ہوتے۔ البتہ جہاں تک ممکن ہو، روزہ رکھنے کی خواہش کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے کیونکہ روزہ انھیں اپنے روزمرہ معمولات پر دسترس اور اپنے دینی فرائض کی ادایگی کے قابل ہونے کی وجہ سے ایک عظیم مسلم امہّ کا حصہ ہونے کا احساس دلائے گا، جو ان کی جسمانی اور نفسیاتی صحت کے لیے بھی بہت فائدہ مند ثابت ہوگا، ان شاءاللہ۔
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نےہمیں زندگی میں ایک مرتبہ پھر رمضان کے روزے رکھنے کا موقع عطا فرمایا ۔ اسی کی توفیق سے ہم روزوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی دعا کرتے ہیں۔ اللہ ہمیں روزے کی حقیقت سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے، آمین!
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ o (البقرہ۲:۱۸۳) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کردیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا ؑ کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔
روزہ ایک فرض عبادت ہے۔ اس کا بنیادی مقصدانسان میں تقویٰ پیدا کرنا ہے۔ کھانے پینے سے پرہیز اسی تقویٰ کے حصول کا ایک ذریعہ ہے۔
’صوم‘ کا مطلب ہے (اپنے آپ کو ) روکنا ا ور اس کے معنی صبرہیں ۔ صبر کا کم سے کم تقاضا حرام سے رُکنا ہے، اور مزید یہ کہ اللہ اور رسولؐ کے احکام کی تعمیل جائے۔
رمضان کی عظمت قرآن کی وجہ سے ہے۔ اس میں قرآن نازل ہوا اور اس میں لیلۃ القدر ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ابن آدم کا ہر عمل اس کے لیے کئی گنا بڑھایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک نیکی ۱۰ سے ۷۰۰ گنا تک بڑھائی جاتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزے کا معاملہ اس سے جدا ہے کیوںکہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔ (متفق علیہ)
مَن صَامَ رَمَضَانَ ایمانًـا وَّاحتسابًـا غُفِرَلَہُ ما تَقدَّمَ مِن ذنبہ ومَن قامَ رَمَضَانَ ایمانًـا وَّاحتسابًـا غُفِرَلَہُ ما تَقدَّمَ مِن ذنبہ (بخاری ، مسلم)جس نے رمضان کے روزے رکھے ایمان اور خود احتسابی کے ساتھ اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے اور جو رمضان کی راتوں میں کھڑا رہا (قرآن سننے اور سنانے کے لیے) ایمان اور خود احتسابی کے ساتھ اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔
الصَّیَامُ و القرآنُ یَشفعَانِ لِلْعَبْدِ ، یَقُوْلُ الصِّیَامُ: اَی ربِّ اِنّیِ مَنَعْتُہُ الطَّعَامَ والشَّھوات ِ بِالنَّھارِ فشَفِّعْنِیْ فِیْہِ ، وَ یقُو لُ الْقُرْاٰنُ مَنَعْتُہُ النَّو مَ باللَّیلِ فَشِفِّعْنِیْ فِیْہِ ، فَیُشَفَّعَانِ (مشکوٰۃ) روزہ اور قرآن (قیامت کے دن) بندےکے حق میں شفاعت کریں گے۔ روزہ عرض کرے گا : اے رب! میں نے اس شخص کو کھانے پینے اور خواہشاتِ نفس سے روکھے رکھا تو اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما ۔ اور قرآن یہ کہے گا : میں نے اسے رات کے وقت سونے (اور آرام کرنے) سے روکے رکھا تو اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔ چنانچہ دونوں کی شفاعت قبول کر لی جائے گی(اور اس کے لیے جنت اور مغفرت کا فیصلہ فرما دیا جائے گا)۔
پس رمضان میں خصوصی طور پر قرآن سے جڑنے ، اس کی تلاوت کرنے اور اس کو سمجھ کر پڑھنے کا اہتمام کیا جائے۔نیز قرآن کے پیغام کو دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کریں۔
درجہ بالا احادیث میں جن بُرے اعمال کا ذکر کیا گیا ہے وہی اس ڈھال کے سوراخ ہیں جن سے روزے کی افادیت اسی طرح متاثر ہوتی ہے جیسےڈھال میں سوراخ ہو جائے تو وہ بیکار ہوجاتی ہے اور اس سے بچاؤ کا کام نہیں لیا جا سکتا۔
کس روزے پر اجر کا وعدہ ہے؟
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے رمضان کار وزہ رکھا ، اور اس کی حدود کو پہچانا، اور جن چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیے، ان سے پرہیز کیا، تو یہ روزہ اس کے گذشتہ گناہوں کا کفارہ ہو گا‘‘ (صحیح ابنِ حبان ، بیہقی)۔ گویا کھانے پینے سے رُکنے کے ساتھ ساتھ بُرے اعمال سے بھی رکا جائے اور منہ کے روزے کے ساتھ دوسرے اعضا کا روزہ بھی ہونا ضروری ہے۔
وہ روزہ جس میں آنکھ ، زبان ، کان ، ہاتھ ، پاؤں اور دیگر اعضا کے گناہوں سے بچا جائے، وہی حقیقی روزہ ہے۔ یہی ان اعضا کا روزہ بھی ہے جس پر اللہ سے پورے اجر کی اُمید کی جا سکتی ہے اور جو زندگی میں تبدیلی کا باعث بھی بنے گا۔
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَھُمْ ط ذٰلِکَ اَزْکٰی لَھُمْ ط اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌم بِمَا یَصْنَعُوْنَo (النور ۲۴:۳۰) اے نبیؐ، مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے۔ جوکچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر رہتا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ’’نظر ، شیطان کے تیروں میں سے ایک زہر میں بجھا ہوا تیر ہے، پس جس نے اللہ تعالیٰ کے خوف سے نظرِ بد کو ترک کر دیا، اللہ تعالیٰ اس کو ایسا ایمان نصیب فرمائیں گے کہ اس کی حلاوت کو اپنے دل میں محسوس کرے گا‘‘ ۔(الحاکم )
کس قدر گناہ کی بات ہے کہ کئی مسلمان ٹی وی اور کمپیوٹر پر بے ہودہ اور فحش فلمیں اور پروگرام دیکھتے ہیں، یا فضول ناول یا کتابیں پڑھتے ہیں، اورپھر کہتے ہیں کہ بس کیا کریں روزہ ہے، وقت گزارنے کے لیے کر رہے ہیں۔
کان کا روزہ یہ ہے کہ حرام اور مکروہ اور فضول باتوں کے سننے سے پرہیز رکھے، کیونکہ جو بات زبان سے کہنا حرام ہے اس کا سننا بھی حرام ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْھَا لَغْوًا اِلَّا سَلٰمًا ط (مریم ۱۹: ۶۲)وہاں وہ کوئی بے ہودہ بات نہ سنیں گے، جو کچھ بھی سنیں گے ٹھیک ہی سنیں گے۔
سورئہ واقعہ میں ہے کہ لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْھَا لَغْوًا وَّلَا تَاْثِیْمًا o (۵۶:۲۵) ’’ وہاں وہ کوئی بے ہودہ کلام یا گناہ کی بات نہ سنیں گے‘‘۔ اسی طرح سورۃ النبا میں ہے: لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْھَا لَغْوًا وَّلَا کِذّٰبًا (۷۸:۳۵) ’’ وہاں کوئی لغو اور جھوٹی بات وہ نہ سنیں گے‘‘۔
روزے کا تقاضا یہی ہے کہ اس پر عمل کیا جائے اور صرف یہ نہیں کہ فضول، گناہ والی اور جھوٹی باتیں کرنے سے پرہیز کیا جائے بلکہ ان کو سنا بھی نہ جائے۔ لغو سے پرہیز بہت اہم کام ہے اور یہ لفظ تینوں آیات میں مشترک ہے اور اس سے مراد تمام لایعنی اور بے مقصد باتیں ہیں۔ عموماً یہی بے ہودہ باتیں گناہ ، جھوٹ اور بے حیائی کی بنیاد فراہم کرتی ہیں ۔
زبان کا روزہ یہ ہے کہ زبان کی حفاظت کرے اور اس کو بے ہودہ باتوں ، جھوٹ ، غیبت ، چغلی ، جھوٹی قسم اور لڑائی جھگڑے سے محفوظ رکھے۔ اسے خاموشی کا پابند بنائے اور ذکر و تلاوت میں مشغول رکھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ’’روزہ ڈھال ہے۔ پس، جب تم میں کسی کا روزہ ہو تو نہ کوئی بے ہودہ بات کرے، نہ جہالت کا کوئی کام کرے، اور اگر اس سے کوئی شخص لڑے جھگڑے یا اسے گالی دے، تو کہہ دے کہ میر ا روزہ ہے‘‘۔
کس قدر عجیب بات ہے کہ اللہ کے حکم پر ہم روزے میں سحری سے لے کر افطاری تک حلال کھانے سے تو پرہیز کرتے ہیں، لیکن اسی اللہ نے قرآن میں جس چیز (یعنی غیبت ) کو مُردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا ہے اس حرام کو ہم رغبت سے کھاتے ہیں :
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِيْرًا مِّنَ الظَّنِّ ز اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا ط اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِيْهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ ط وَاتَّقُوا اللّٰهَ ط اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِيْمٌ o (الحجرات ۴۹: ۱۲) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ تجسس نہ کرو۔ اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے ۔کیا تمھارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟ دیکھو ، تم خود اس سے گھن کھاتے ہو۔ اللہ سے ڈرو ، اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے۔
حرام سے پرہیز تو ہر حال میں ضروری ہے مگر اِفطارکے وقت حلال کھانے میں بھی بسیار خوری نہ کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’پیٹ سے بدتر کوئی برتن نہیں، جس کو آدمی بھرے‘‘۔ ( احمد ، ترمذی ،ابن ماجہ ،الحاکم)
اگر شام کو دن بھر کی ساری کسر پوری کرلی تو روزے سے شیطان کو مغلوب کرنے اور نفس کی شہوانی قوت توڑنے کا مقصد حاصل کرنا مشکل ہو گا۔ افطار کے وقت پیٹ میں کوئی مشتبہ چیز نہ ڈالے، کیونکہ اس کے کوئی معنی نہیں کہ دن بھر تو حلال سے روزہ رکھا اور شام کو حرام چیز سے روزہ کھولا یا روزہ کھولتے ہی حرام کھانے پینے میں مشغول ہو جائے۔
افطار کے وقت روزہ دار حالت خوف اور امید کے درمیان مضطرب رہے کہ نہ معلوم اس کا روزہ اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبول ہوا یا مردُود ؟ بلکہ یہی کیفیت ہر عبادت کے بعد ہونی چاہیے،اور مقدور بھر کوشش کے بعد اللہ پر اچھا گمان رکھا جائے۔
وَلَا تَــقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ ۭ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰۗىِٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْــــُٔــوْلًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۳۶) کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمھیں علم نہ ہو۔ یقینا آنکھ ، کان اور دل سب ہی کی باز پُرس ہونی ہے۔
اَلْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰٓي اَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَآ اَيْدِيْهِمْ وَتَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ o (یٰسٓ ۳۶: ۶۵)آج ہم ان کے منہ بند کیے دیتے ہیں ، اِن کے ہاتھ ہم سے بولیں گے اور اُن کے پاؤں گواہی دیں گے کہ یہ دنیا میں کیا کمائی کرتے رہے ہیں۔
دل کا حقیقی اور اعلیٰ روزہ یہ ہے کہ دُنیوی افکار سے قلب کار وزہ ہو، اور ماسوااللہ سے اس کو بالکل ہی روک دیا جائے ۔ البتہ وہ دُنیا جو دین کے لیے مقصود ہو وہ تو دُنیا نہیں بلکہ توشۂ آخرت ہے۔ چار چیزوں کی کثرت سے پرہیز کیا جائے: طعام، کلام، نیند اور اختلاط۔ اور ان راستوں کی نگہبانی کی جائے جہاں سے دل کی بیمار ی لاحق ہونے کا خدشہ ہوتا ہے، یعنی آنکھ، کان، زبان اور شرم گاہ کی حفاظت کی جائے ۔
ہمیں لیلۃ القدر کی فضیلت تو یاد رہتی ہے اور ہونی بھی چاہیے اور اسے رمضان کی آخری طاق راتوں میں ڈھونڈنے کی (ترجیحاً اعتکاف میں)کوشش بھی کرنی چاہیے لیکن حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کردہ اس حدیث کو بھی نہیں بھولنا چاہیے جس میں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’بخشش کی جاتی ہے میر ی اُمّت کی رمضان کی آخری رات میں‘‘۔ عر ض کیا گیا: یارسولؐ اللہ! کیا یہ لیلۃ القدر ہوتی ہے؟ فرمایا:’’نہیں، بلکہ کا م کرنے والے کی مزدوری اس کا کا م پورا ہونے پر ادا کر دی جاتی ہے‘‘۔ گویا جب اہلِ ایمان پورے اہتمام سے حقیقی روزہ رکھتے ہیں تو رمضان المبارک کی آخری شب اُجرت اور انعام کے طور پر ان کی بخشش کر دی جاتی ہے۔
ہمیں یہ رات فضولیات اور خرافات میں نہیں بلکہ عبادات اور دوسرے نیک اعمال میں گزارنی چاہیے کہ معلوم نہیں پھر یہ رات ہمیں نصیب ہو یا نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ ہمیں روزے کی حقیقت اور اس کے مقصد کو سمجھنے کا فہم عطا فرمائے اور ایسا روزہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے جس سے ہم تقویٰ حاصل کر سکیں۔ اللہ ہمارے روزے قبول فرمائے اور ہمیں ان لوگوں میں شامل کرلے جن کو روزے رکھنے پر بخشش کی بشارت دی گئی ہے، آمین!