اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں سے دُعامانگنا بالکل ایسا ہے، جیسے کوئی شخص درخواست لکھ کر ایوانِ حکومت کی طرف جائے، مگر اصل حاکم ذی اختیار کو چھوڑ کر وہاں جو دوسرے سائلین اپنی حاجتیں لیے بیٹھے ہوں،اُنھی میں سے کسی ایک کے آگے اپنی درخواست پیش کردے اور پھر ہاتھ جوڑ جوڑ کر اس سے التجائیں کرتا چلا جائے کہ ’’حضور ہی سب کچھ ہیں، آپ ہی کا یہاں حکم چلتا ہے، میری مراد آپ ہی بَر لائیں گے تو بَر آئے گی‘‘۔
یہ حرکت اوّل تو بجائے خود سخت حماقت و جہالت ہے، لیکن ایسی حالت میں یہ انتہائی گستاخی بھی بن جاتی ہے، جب کہ اصل حاکم ذی اختیار سامنے موجود ہو، اور عین اس کی موجودگی میں اُسے چھوڑ کر کسی دوسرے کے سامنے درخواستیں اور التجائیں پیش کی جارہی ہوں۔
پھر یہ جہالت اپنے کمال پر اُس وقت پہنچ جاتی ہے، جب وہ شخص جس کے سامنے درخواست پیش کی جارہی ہو، خود بار بار اُس کو سمجھائے کہ مَیں تو خود تیری ہی طرح کا ایک سائل ہوں، میرے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے، اصل حاکم سامنے موجود ہیں، تو اُن کی سرکار میں اپنی درخواست پیش کر، مگر اس کے سمجھانے اور منع کرنے کے باوجو د یہ احمق کہتا ہی چلا جائے کہ ’’میرے سرکار تو آپ ہیں، میرا کام آپ ہی بنائیں گے تو بنے گا‘‘۔
اس بات کو ذہن میں رکھ کر اللہ تعالیٰ کے اِس ارشاد کو سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ ’’مجھے پکارو، تمھاری دُعائوں کا جواب دینے والا میں ہوں، انھیں قبول کرنا میرا کام ہے‘‘۔(’تفہیم القرآن ‘، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۶۲، عدد۱، ستمبر ۱۹۶۴ء، ص۲۹، ۳۰)