آج آزادی، جمہوریت، انصاف، اور انسانی حقوق کے مغربی دعوے ان کے اسرائیلی جنگی جرائم میں متحرک کردار اور شرمناک تعاون سے خود بخود بے وقعت ہوچکے ہیں۔ اس جنگ میں مغرب کے دو نظریات سچ ثابت ہو رہے ہیں: پہلا نظریہ، یہ کہ دنیا ایک شطرنج کی بساط ہے، ۱ اور مغرب اپنے مفادات کے مطابق اس میں مہروں کو حرکت دے رہا ہے، جو اسلامی دنیا میں اس کی جارحیت سے واضح ہے۔ دوسرا نظریہ تہذیبوں کے تصادم کا ہے، ۲ جس پر مغرب گذشتہ ایک چوتھائی صدی سے عمل پیرا ہے۔ شطرنج کے اس کھیل میں اسلام کی نظریاتی برتری کو نیچا دکھانے اور تہذیبوں کے تصادم میں اسلامی تہذیب کو کم تر ثابت کرنے کی کوششیں واضح کرتی ہیں کہ حقیقی وحشت و درندگی کا علَم بردار کون ہے اور کس کے پاس حقیقی تہذیب کا سرمایہ ہے؟
اس تناظر میں اسلام سب سے بڑا اسٹیک ہولڈر ہے۔ دنیا بھر کے مختلف ممالک میں تحریکات اسلامی اسلام کی نمائندگی کر رہی ہیں، اور موجودہ حالات میں انھیں اسلامی کاز کے لیے مزید فعال ہونا ہوگا۔ ان کے سامنے نئے چیلنج ہیں، جن کے جواب میں انھیں فکری محاذ پر نئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے عملی اقدامات، ان کے بنیادی افکار کے آئینہ دار ہونے چاہییں۔ سوال یہ ہے کہ موجودہ دور میں اپنے نصب العین کو پیش کرنے کے لیے کون سی نئی علمی کاوشیں ضروری ہیں، اور کن عملی اقدامات سے اسلام کی احیائی کوششوں کو مزید تیز کیا جا سکتا ہے؟
اسلام میں ’تجدید‘ اور ’احیائے اسلام‘ کی کوششیں اسلامی تعلیمات کا لازمی حصہ ہیں۔۳ احیائے اسلام کا مطلب یہ ہے کہ جب امت مسلمہ اسلامی تعلیمات کو بھول جائے یا اسلام کا کوئی پہلو نظرانداز ہو جائے، تو اسے دوبارہ زندہ اور متحرک کرنے کی کوشش کی جائے۔ جب زمانہ اسلام کے خلاف چیلنج پیش کرے، تو ان چیلنجوں کا فکری اور عملی سطح پر مقابلہ کرنا بھی احیائے اسلام کا حصہ ہوتا ہے۔
یہ یقین کہ اسلام آخری ہدایت نامہ ہے، مسلمانوں کو یہ جذبہ اور تحریک دیتا ہے کہ جب بھی جاہلیت اپنے نئے روپ میں لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرے، تو اس کا مقابلہ کریں اور اسلام کے حیات بخش پیغام کو اس طرح پیش کریں کہ لوگوں کو بجاطور پر یقین ہو جائے کہ ان کے مسائل کا حل صرف اسلام کے پاس ہے۔ چونکہ اسلام ہدایت کا آخری اور مکمل پیکج ہے، اس لیے ہر دور کے مسائل کا حل اسلام کے اندر تلاش کرنے کا عمل جاری رہا ہے اور مستقبل میں بھی یہ جاری رہے گا۔
اسلامی تاریخ میں مجدّدین نے ہمیشہ اسلامی تعلیمات کو اپنے عصری اسلوب میں اور نئے انداز میں پیش کرتے ہوئے زمانے کے چیلنجوں کا مدلل جواب دیا۔۴ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ ہر صدی کے آغاز میں امت کے لیے ایک ایسے شخص کو بھیجے گا جو دین کی تجدید کرے گا‘‘۔۵
یہ اللہ کا بڑا انعام ہے کہ ہر دور میں ایسے صالحین موجود رہے ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے، جو دین کی تجدید کریں گے اور اسلام کی روشنی کو برقرار رکھیں گے۔ ضروری نہیں کہ یہ تجدیدی شخصیات خود اس کا شعور رکھتی ہوں یا لوگوں میں ان کا تعارف ہو، یا وہ خود اپنا چرچا کریں۔ کچھ افراد اپنے کارناموں کی وجہ سے عالمی سطح پر معروف ہوں گے، جب کہ کچھ ایسے بھی ہوں گے جو اسلام کے کسی خاص پہلو پر یا مخصوص علاقے میں کام کریں گے۔
اسلامی احیاء ایک اہم اور ہمہ پہلو عمل ہے جو روحانی، سماجی، معاشی، اور سیاسی پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ مسلمانوں کو اسلام پر قائم رکھنے کے لیے یہ عمل ضروری ہے، خاص طور پر جب مسلم دنیا جدیدیت، سیکولرازم، مغربی فتنوں اور مختلف چیلنجوں کا سامنا کر رہی ہے۔ ایسے وقت میں اسلامی اصولوں اور بنیادوں کی طرف واپسی کی ضرورت بڑھ جاتی ہے۔ موجودہ دور میں ’اسلاموفوبیا‘ کے ماحول میں، احیائے اسلام کی کوششیں انتہائی ضروری ہو گئی ہیں۔
اس مختصر مضمون میں تمام اہم اسلامی اسکالرز کی تحقیقات اور مضامین کی روشنی میں مسلم اکثریتی اور اقلیتی ممالک میں اسلامی احیاء کو فروغ دینے کے ممکنہ فکری اور عملی اقدامات کا احاطہ کرنا تو مشکل ہے، لیکن ہم کچھ اہم پہلوؤں کی نشاندہی کریں گے:
اسلامی احیاء کی جڑیں تاریخ میں گہری ہیں۔ ان اصلاحی اور احیائی تحریکوں نے اسلامی اصولوں کے تحت عصرِحاضر کے مسائل و معاملات کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی اور موجودہ احیائی کوششوں کے لیے بنیادیں فراہم کیں، جن میں اسلام کی سائنسی اور تکنیکی ترقیات کے ساتھ ہم آہنگی پر زور دیا گیا۔ اطالوی نژاد امریکی پروفیسر جان ایسپوزیٹو کے مطابق: ماضی قریب کی تحریکوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: استعمار سے پہلے کی اسلامی تحریکیں، استعماری دور کی اسلامی تحریکیں، اور استعمار کے بعد کی اسلامی تحریکیں۔۶
مغرب کی توسیع پسندی اور استعماریت سے پہلے بھی مسلم ممالک میں تجدید و احیا کا عمل جاری رہا۔ ہر زمانے اور مقام کے مسائل اور چیلنج مختلف تھے، اور اصلاح کی کوششیں بھی متنوع تھیں، جن میں کچھ صوفی تحریکوں کا بھی اس میں بڑا کردار رہا۔ ۷ ان تحریکوں کا مقصد تھا کہ مسلمان، خاص طور پر نوجوان، اسلام کے روحانی پہلو سے آشنا ہوں اور انھیں معاشرے کے لیے تعمیری قوت بنانے کے لیے منظم کیا جائے۔ ان تحریکوں میں تعلیمی اداروں کا قیام بھی شامل تھا، ۸ جہاں علما اور مختلف اُمور کے ماہرین کی تربیت اس طرح کی جاتی تھی کہ وہ اسلام کی دل نشین تعبیر و تشریح کرسکیں، ۹ ⁹ اور زمانے کے مسائل کا حل پیش کرسکیں۔ ان تحریکوں میں ثقافتی عناصر اور اسلامی تہذیب کا احیا بھی شامل تھا۔ ساتھ ہی ساتھ، وہ اپنے زمانے کے سیاسی نظام پر بھی اثر انداز ہوتے تھے۔ اس میں چشتی، نقش بندی، قادری، اور سہروردی سلسلوں نے اپنا کردار ادا کیا۔ بنگال میں اسلامی دعوت کی تحریکیں چلیں، دلی، لکھنؤ اور دیگر علاقوں میں دینی مدارس قائم ہوئے۔ ان سب میں نمایاں علمی کام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا تھا، جنھوں نے اسلامی تعلیمات کو عقل و استدلال کے ساتھ پیش کیا، تفقہ فی الدین پر زور دیا، حدیث پر نئے انداز سے کام کیا اور اجتہادی کارنامے انجام دیے۔۱۰
یورپی استعماریت کے دوران، جب مسلم ممالک کے بڑے حصے پر برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کا تسلط تھا، تب بھی مختلف علاقوں میں صلحائے امت اور مجدّدین نے تجدیدی کارنامے انجام دیے۔ ان کا کام مغربی استعمار کی مخالفت، مسلم نوجوانوں کو مغرب زدگی سے بچانے، اسلامی شناخت کی بقا، اور مغرب کے علمی سوالات کے جوابات پر مبنی تھا۔۱۱ ان تحریکوں کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ وہ مغرب کے طرز زندگی کے مخالف تھے، مگر مغربی علوم اور انکشافات سے استفادہ کرنے کے قائل تھے۔ وہ مسلم ممالک کی حکمرانی کے ڈھانچے کو جدید طرز پر ڈھالنا چاہتے تھے، جس میں دستور، پارلیمنٹ، اور انتخابات شامل ہوں۔ ان تحریکوں کے اثرات کسی ایک ملک تک محدود نہیں تھے بلکہ مختلف ممالک میں پھیلے ہوئے تھے۔
جمال الدین افغانی، محمد عبدہٗ، رشید رضا مصری، حسن البنا شہید، اور علامہ محمد اقبال ۱۲جیسی عظیم شخصیات کے افکار نے مسلمانوں میں ایک نئی تازگی پیدا کی۔ علامہ محمد اقبال نے اپنی مشہور کتاب تشکیلِ جدید الہٰیاتِ اسلامیہ ۱۳ میں اسلام کی ایک متحرک حکمت عملی اور ترقی کی راہیں کشادہ کرنے کے لیے دلائل فراہم کیے، جو عصرِحاضر کی زندگی سے ہم آہنگ ہو۔ انھوں نے اجتہاد (آزادانہ استدلال) کی ضرورت پر زور دیا اور اسلامی فریم ورک کے اندر فلسفیانہ اور سائنسی تحقیق کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ اقبال کا نظریہ، معاصر احیائی تحریکوں کے لیے ایک فلسفیانہ بنیاد فراہم کرتا ہے، اور ان کا کلام مسلمانوں کی عقل اور روح کی بیداری کا پیغام دیتا ہے۔
مغربی استعماری قوتوں کے زوال اور مسلم علاقوں کی آزادی کے بعد ابھرنے والی تحریکیں بنیادی طور پر اسلام سے جوڑنے کی تحریکیں تھیں۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ آزاد ہونے کے بعد مسلم ممالک کا نظام اسلام کی بنیادوں پر استوار ہو۔ ان تحریکوں نے حکومت، معیشت، تعلیم، عدلیہ، اور زندگی کے تمام شعبوں کو شریعت کی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی۔۱۴
مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ اور سید قطب شہید رحمۃ اللہ علیہ کی تحریریں استعماری دور میں سامنے آنا شروع ہوئیں اور استعماری قوتوں کے جانے کے بعد ان تحریروں نے مسلم ممالک کے نظام کی تشکیل کا واضح خاکہ پیش کیا اور عملی طور پر بھی یہ سرگرم رہے۔ ان کی محنت اور قربانیاں مستقبل کی تحریکوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ ان کی تحریکوں نے مسلم ممالک کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے اور ان کی بنیادی شناخت برقرار رکھنے کی کوشش کی۔
ہم نے ان تین دورانیوں کی تحریکوں کا تذکرہ اس لیے کیا ہے ، تاکہ آئندہ فکری اور عملی کام کے لیے ان تحریکوں کے رہنما نقوش اور قابل تقلید مثالیں بیان کی جا سکیں۔
اسلامی احیائی تحریکوں کے بنیادی مقاصد انفرادی اور معاشرتی تبدیلیوں پر مرکوز ہیں، اور ان کے چار اہم کام درج ذیل ہیں:
۱- اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر انفرادی اصلاح کو فروغ دینا۔
۲- اسلامی اقدار کو معاشرتی، اقتصادی، اور انتظامی ڈھانچوں میں شامل کرنا۔۱۵
۳- شرعی قانون کے تحت ایک اسلامی ریاست قائم کرنا، جو انصاف، مساوات، اور اخلاقی پاکیزگی کو فروغ دے۔۱۶
۴- لادینیت اور مغربیت کا مقابلہ کرتے ہوئے سیاسی اور معاشرتی زندگی کو اسلام کی طرف موڑنا۔
اسلامی احیاء کا ایک واضح نظریاتی فریم ورک، اسلامی اصولوں کے مطابق دنیا کی تعمیر نو ہے۔ یہ تصور ایک ایسے جہان کی تشکیل پر مبنی ہے جہاں ہر فرد کو اس کا حق ملے، برائیوں کا سدباب ہو، نیکی کی راہیں آسان اور انصاف کا حصول ممکن ہو۔ اسلامی احیاء کے تحت صرف ایک ایسی ریاست کی تشکیل کی کوشش ہی پیش نظر نہیں ہے، جہاں انصاف، مساوات، اور امن غالب ہو، بلکہ اسلام کو ایک جامع نظام کے طور پر پیش کیا جائے جو سماجی، اقتصادی، سیاسی، اور روحانی پہلوؤں کا احاطہ کرے۔۱۷ ⁷ اس کے لیے ایک صالح معاشرے کی ضرورت ہے، اور جب معاشرہ اسلام کا حقیقی آئینہ بنے گا، تب سیاسی سطح کی تبدیلیاں بھی پائے دار ہوں گی۔ بصورت دیگر، کمزور بنیادوں پر تعمیر شدہ عمارت کی طرح، تبدیلیاں جلدی ختم ہو سکتی ہیں۔ معاشرے کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر فرد، زندہ ضمیر اور اسلام کا پختہ یقین رکھتا ہو، اور اسے اپنی عظیم اسلامی تہذیب پر فخر ہو۔ یہ یقین ہو کہ دنیا میں اس سے بہتر کوئی عقیدہ یا تصورِ حیات موجود نہیں۔
مسلم اکثریتی ممالک میں سرگرم تحریکوں کا بنیادی مقصد ہے کہ قانون سازی میں خدا کو مقتدر اعلیٰ تسلیم کیا جائے، یعنی کوئی بھی قانون اسلامی تعلیمات کے خلاف نہ ہو اور نظام حکومت جمہور کی حقیقی رائے سے تشکیل پائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام انسان، اللہ تعالیٰ کے خلیفہ ہیں، اور ان کا نمائندہ حکمران ان کی مرضی سے منتخب ہونا چاہیے۔ ۱۸ تاہم، عالمی سطح پر مغرب کا غالب نظام مسلم ممالک پر مختلف شکلوں میں مسلط ہے، جس کے مطابق قانون سازی ہوتی ہے اور یہ نظام ایک خاص طبقے کے مفادات کے حق میں ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں عوام کو ان کا حق نہیں ملتا اور غربت، مہنگائی، اور بے روزگاری ان کا مقدر بن جاتی ہے۔
مؤثر اسلامی احیاء کے فروغ کے لیے، فکری اور عملی اقدامات کا ملاپ ضروری ہے، جو مسلم اکثریتی اور اقلیتی سیاق و سباق میں مخصوص ضروریات اور چیلنجوں کو سامنے رکھتے ہوئے تیار کیا جائے۔
نظام اسلامی کے قیام کے لیے ایک نئے بیانیہ کی تشکیل کی ضرورت ہے، اور تیونس کی النہضہ پارٹی کے شریک بانی راشد غنوشی [پ: ۲۲جون ۱۹۴۱ء] جیسے عملیت پسند اسلامی مفکرین کے کام کو سمجھنا اہم ہے۔ راشد غنوشی، اسلامی ریاست کے قیام میں توسع پسندانہ رویہ رکھتے ہیں اور جدید طرزِ حکمرانی کے ساتھ ہم آہنگ اسلامی نظریے کو پیش کرتے ہیں۔ ان کا نظریہ شہری حقوق کے تحفظ اور مختلف سماجی دھاروں کی سیاسی شرکت پر زور دیتا ہے۔ وہ اسلام کے آئیڈیل اور غیر اسلامی طرز حکمرانی کے درمیان ایک راہ تجویز کرتے ہیں۔۲۲ ان کی فکر میں سیاسی میدان میں خواتین کی شرکت اور قیادت پر بھی زور دیا گیا ہے، جسے اسلامی تحریکوں میں کم پذیرائی حاصل ہے۔
موریطانیہ سے تعلق رکھنے والے محقق اور استاد ڈاکٹر محمد مختار شنقیطی [پ: ۱۹۶۶ء]بھی اسلام کے نظام حکمرانی کے بارے میں نیا نظریہ پیش کرتے ہیں۔ ان کے مطابق، اسلام موجودہ جمہوری نظام اور انسانی حقوق کے بیانیہ کے ساتھ ہم آہنگ ہو سکتا ہے، اور وہ غیر مسلموں کی شراکت کی بھی حمایت کرتے ہیں۔ وہ خدا کے اقتدار اعلیٰ اور اخلاقی فریم ورک کے تحت مختلف طرزِحکمرانی پر بات کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک صدارتی نظام، خلافت کے نظام کے قریب تر ہے ۔۲۳
تحریکات اسلامی کا موجودہ بیانیہ اور اس سے وابستہ فکر اگر متوقع نتائج پیدا نہ کر سکے، تو احیائے اسلام کے لیے کام کرنے والے مفکرین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ قرآن و سنت سے اجتہاد اور استنباط کرتے ہوئے نیا بیانیہ اور فکر تشکیل دیں، جو عوام اور خواص کے لیے زیادہ قابلِ فہم اور قابلِ عمل ہو۔
ایک نقطۂ نظر یہ بھی موجود ہے کہ اسلامی تحریکات اگر اپنے سامنے موجود حکومتوں کے ساتھ تصادم کے بجائے تعاون کی راہیں نکالنے پر غور کریں تو احیائے اسلام کی منزل قریب تر ہو سکتی ہے ۔۲۴
مکالمے (ڈائیلاگ) میں شامل ہونا بقائے باہمی اور باہمی افہام و تفہیم کو فروغ دے سکتا ہے۔ اس طرح موجودہ دور میں حکومت اور تحریکوں کے بیچ علامتی تنازعات سے آگے بڑھنے کے امکانات اور نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔ یہ نقطۂ نظر انتہا پسندانہ بیانیے کا مقابلہ کر سکتا ہے اور استحکام کو فروغ دے سکتا ہے۔ فعال شرکت اور رابطہ کاری (Engagement and Communication ) پر زور دینے سے مخالفانہ تعلقات کو باہمی تعاون کی کوششوں میں تبدیل کیا جا سکتا ہے، جس سے اسلامی تحریکوں اور ان ریاستوں دونوں کو فائدہ ہوگا، جن سے وہ بات چیت اور تعاون کی راہیں نکالیں گے ۔۲۵
سوچ میں تبدیلی ایک مشکل کام ہے، لیکن فکری میدان کے دانش وروں سے توقع ہے کہ وہ اسلامی تحریکوں کے لیے ایسی نئی راہیں تجویز کریں، جن سے ان کی منزل قریب تر ہو۔ حکومت کی سماجی فلاح و بہبود کی اسکیمیں، حادثات اور آفات کے متاثرین کی دادرسی، اصل میں حکومت اور تحریک اسلامی دونوں کا کام ہے، اور تعاون کی راہیں یہاں سے تلاش کی جا سکتی ہیں۔
موجودہ اسلامی لٹریچر کی بہت سی خوبیوں کے باوجود تیزی سے بدلتے منظرنامے کا ایک منفی اثر یہ نظر آیا ہے کہ اس کے قارئین میں وقت کے نظام کے ساتھ تصادم کا مزاج پیدا ہو جاتا ہے۔ جب تحریکی لٹریچر سے متاثر افراد مغربی دنیا میں جاتے ہیں، تو وہ وہاں نظاموں کے ساتھ تعاون کی راہیں تلاش کرنے کی بجائے تنقید اور تردید کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ نفسیاتی اعتبار سے انسان ہمیشہ تین میں سے ایک کردار ادا کرتا رہتا ہے: کبھی وہ جارح (prosecutor) ہوتا ہے، کبھی مظلوم (victim) بن جاتا ہے، اور کبھی نجات دہندہ (rescuer) کا کردار ادا کرتا ہے ۔۲۶ ⁶ تحریک اسلامی کے لیے نئے بیانیہ میں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں انسانیت کے لیے نجات دہندہ کا کردار کیسے ادا کر سکتی ہے؟ یہ تجدید و احیا کی کوششوں کے لیے ایک سنہرا باب ہوگا۔
اسلامی تحریکوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اصولی اور نظریاتی طور پر یقین رکھتی ہیں کہ زندگی کے مسائل کا حل اسلام میں ہے، لیکن اس اصولی یقین کے بعد عملی خاکے اور حکومتوں کے ساتھ تعاون کے لیے منصوبے پیش کرنے کے معاملے میں وہ پیچھے رہ جاتی ہیں۔ ہر ملک کے حالات اور مسائل مختلف ہوتے ہیں، اور ایک ہی ملک میں حالات وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ تحریک اسلامی کے علمی اور فکری کام میں جمود کی حالت، کوئی یقین اور اعتماد پیدا نہیں کر سکتی۔ زندگی کے مختلف مسائل کے حل کے لیے منصوبے درکار ہیں، جو بتدریج تبدیلی لانے کے لیے ضروری ہیں۔ مثال کے طور پر، مسلم ممالک کی معاشی ترقی کے لیے تحریکات اسلامی کو جو منصوبے پیش کرنے چاہییں، ذیل میں اس کا ایک آئیڈیا دیا جا رہا ہے۔ اسلامی تحریکوں کی طرف سے مسلم ممالک کی سماجی و اقتصادی ترقی کا منصوبہ درج ذیل کلیدی اصولوں پر مرکوز ہوسکتا ہے:
خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی تحریکوں کو اسلامی اصولوں کی بنیاد پر پائے دار، مساوی، اور ماحول دوست اقتصادی ترقی پر توجہ دینی چاہیے، اور مسلم دنیا کے تنوع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مناسب اصلاحات کو اپنانا چاہیے۔ حکومت کو مؤثر پالیسیاں بنانے اور سبز شعبوں میں سرمایہ کاری کے لیے آمادہ کرنا چاہیے۔
جس طرح معاشی نظام کے حوالے سے علمی اور فکری کام کرنے اور منصوبے تیار کرنے کی ضرورت ہے، اسی طرح سیاسی، تعلیمی، اور خارجہ پالیسی کے میدانوں میں بھی اسلامی تحریکات کو نجات دہندہ کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ جب تک واضح راستہ متعین نہ کیا جائے، اہل علم کا طبقہ متاثر نہیں ہو سکتا اور وہ صرف دعوؤں، نعروں اور موہوم وعدوں پر مبنی باتوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔
اسلامی تحریکیں حکومت و اقتدار تک پہنچنے میں متعدد اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کا سامنا کرتے ہوئے بمشکل ہی وہاں تک پہنچ پاتی ہیں۔ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ مدرسے اور مسجد میں تعلیم و تبلیغ کے ایک اہم کام کے متوازی یہ ایک بڑا مشکل راستہ ہے، جس میں عوام، موجودہ حکومتیں، دفاعی ادارے، ایجنسیاں، اور عالمی طاقتیں رکاوٹیں کھڑی کرتی ہیں۔ اقامت دین کی منزل سے پہلے کچھ عبوری منازل ہیں، جنھیں طے کیے بغیر حتمی منزل تک پہنچنا ناممکن امر ہے۔
کسی بھی ملک کو چلانے میں بیوروکریسی، عدلیہ، اور انتظامیہ کا ایک بڑا عملہ درکار ہوتا ہے۔ ملکی نظام انھی کے بل بوتے پر چلتا ہے۔ ان کے ذمے جو امور ہوتے ہیں ان میں سے ایک بڑا حصہ وہ ہوتا ہے جس کا شریعت سے کوئی تصادم نہیں ہوتا، جیسے اسکولز چلانا، سڑکیں بچھانا، پل بنانا، بسیں اور ریل چلانا، پنشن اسکیمیں جاری کرنا، راشن کی دکانوں کا انتظام چلانا، کسانوں سے اناج خریدنا اور گودام میں محفوظ کرنا وغیرہ۔ ان کاموں کو انجام دینے والے افسران میں ایک بڑی تعداد رشوت خور ہوتی ہے۔ کچھ شعبے ایسے ہیں جہاں عوام پر ظلم ہوتا ہے، جیسے پولیس اور عدلیہ کا نظام۔ یہاں انصاف حاصل کرنے کے لیے بڑی محنت کرنی پڑتی ہے، اور صاحبِ اثر چھوٹ جاتے ہیں،جب کہ حقیقی مظلوم کی داد رسی اکثر ممکن نہیں ہوتی۔ تحریکات اسلامی کو ان میدانوں میں عملی اثر و نفوذ اختیار کرنا چاہیے۔ اس کے لیے کچھ اقدامات کیے جانے چاہییں، مثلاً:
اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں، جو عقیدہ پر مبنی تعلیم دیتے ہوئے قرآن و سنت کے مطابق کردار سازی کو مرکز بنائیں اور ایمان کی پرورش کریں۔ ان اداروں میں طلبہ کو سول سروس میں کردار ادا کرنے کے لیے بھی تیار کرنا چاہیے۔ ان کورسس میں مذہبی اور عمومی دونوں مضامین شامل ہونے چاہییں۔۳۲ ایسے اسکول اور ٹریننگ سینٹرز جگہ جگہ قائم ہونے چاہییں، جن کا معیار اتنا بلند ہو کہ لوگ وہاں داخلے کے لیے قطار میں کھڑے ہوں اور ان کی کامیابی کی شرح تقریباً سو فی صد ہو۔ ان اداروں کی یہ پہچان ہو کہ یہاں سے تعلیم و تربیت اور تکنیکی تربیت حاصل کرنے والے افراد سول سرونٹس بنتے ہیں۔
تحریکات اسلامی کو ایسے پروگرام تیار کرنے چاہییں، جو اسلامی نقطۂ نظر سے قائدانہ صلاحیتوں، اخلاقیات، اور حکمرانی پر مرکوز ہوں۔ ان پروگراموں میں عوامی خدمت میں تجربہ کار پیشہ ور افراد کے ساتھ ورکشاپس، انٹرنشپ، اور رہنمائی کے مواقع شامل ہونے چاہییں۳۳ تاکہ زیرتربیت نوجوانوں کے فکری، علمی اور عملی اُفق، بلندیوں کو چھو سکیں۔ ان تربیتی پروگراموں کو اس طرح ڈیزائن کیا جائے کہ ذمہ دار افسران ان میں دلچسپی لیں اور شرکت کریں، تاکہ ان کے اندر بے نفسی، اصلاح احوال، اور خدمت خلق کے جذبات پیدا ہوں۔ اس کے علاوہ، تحریکی فکر کے نوجوانوں کو بھی یہاں تربیت ملے تاکہ وہ معاشرے میں قیادت فراہم کر سکیں۔ یہ لیڈرشپ کالج اپنے ظاہر و باطن میں اعلیٰ معیار کا ہو اور اس کی شناخت اس کی کوالٹی سے ہو، نہ کہ تحریکی مینجمنٹ سے۔
کمیونٹی سروس کے لیے چھوٹے بڑے ادارے قائم کیے جانے چاہییں۔ رضاکار انجمنوں کے ذریعے کمیونٹی سروس اور ترقیاتی منصوبوں میں نوجوانوں کی شمولیت کی حوصلہ افزائی کی جائے، تاکہ ان میں احساس ذمہ داری پیدا ہو اور وہ حکمرانی اور انصاف کے لیے ہماری جدوجہد کا حصہ بنیں ۔۳۴
حکومتی سطح کے افسران اور نوجوان پیشہ ور افراد کے درمیان نیٹ ورک قائم کیے جائیں، جہاں وہ اپنے کام میں اسلامی اصولوں کو نافذ کرنے کے لیے علم، وسائل، اور حکمت عملیوں کا تبادلہ کریں۔ نوجوان، افسران کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں، جب کہ افسران نوجوانوں کے وقت اور جذبے کو معاشرے کی بہبود کے منصوبوں کے نفاذ میں استعمال کریں ۔۳۵
ان شعبوں پر توجہ مرکوز کرکے، اسلامی تحریکیں نوجوانوں کو حکومت میں اہم کردار ادا کرنے کے لیے مؤثر طریقے سے تیار کرسکتی ہیں اور اسلامی تعلیمات کے مطابق انصاف اور ترقی کو یقینی بناسکتی ہیں۔ دنیا کے بعض ممالک میں غیر اسلامی تحریکیں بھی انھی راستوں کو اپناتے ہوئے اقتدار تک پہنچیں اور ترقی کے زینے چڑھتی رہیں۔ یہاں تک کہ حکومت کسی کے بھی ہاتھ میں ہو، پالیسی، منصوبہ بندی اور نفاذ انھی کی فکر کے مطابق ہوتا ہے۔
مسلم اقلیتی ممالک کی تحریکوں کے لیے سب سے اہم فکری کام اپنے نظریات کا بیانیہ تشکیل دینا ہے۔ تحریکات کی فکری بنیادیں قرآن و سنت سے ماخوذ ہیں، جنھیں ہر دور کے مفکرین نے عصر حاضر کی اصطلاحات میں بیان کیا ہے۔ سید مودودی علیہ الرحمہ کی تحریریں اس باب میں بہت واضح ہیں، مگر انھوں نے ان موضوعات پر تب لکھا جب ہندستان استعماری دور سے گزر رہا تھا۔ تقریباً ایک صدی بعد حالات و واقعات بدل چکے ہیں اور دنیا میں اصطلاحات بھی تبدیل ہو چکی ہیں۔
مغرب نے منفی پراپیگنڈا کرتے ہوئے اسلامی تحریکات کے نظریات کو کچھ ایسے سانچے دیے ہیں، جن سے عام ذہنوں میں تحریکات کے بارے میں منفی رائے پیدا ہوئی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ تحریکات اپنی باتوں کو متنوع طریقے سے پیش کریں۔ تحریکات کو نہ ذہنی افلاس کا شکار ہونا چاہیے اور نہ ان میں اپنے مافی الضمیر کے اظہار کے لیے مناسب زبان کی کمی ہونی چاہیے۔ ’اقامت دین‘ قرآن کی اصطلاح ہے، اور اس آخری منزل تک تدریج کے ساتھ سفر کا خاکہ ذہنوں میں ہونا اَزبس ضروری ہے۔ اس سفر کے مختلف عبوری مرحلوں کے الگ الگ نام ہونے چاہییں، تاکہ ’جز ‘اور’ کل‘ کی نشاندہی ہو سکے۔ ’کل‘ مراد لیا جائے تو اس کے اجزا بھی ذہنوں میں واضح ہو سکیں۔ دراصل ہمارے ہاں دل نشین، عام فہم مدلل اظہار بیان کا مسئلہ ہے۔
مغربی ممالک میں کام کرنے والی تحریکات کے لیے سب سے بڑا فکری چیلنج یہ ہے کہ وہ تحریک کے نظریے کو اپنے زمان و مکان کے دائرے میں کس طرح بیان کریں کہ ایک مثبت رائے قائم ہو سکے۔ اس بیانیہ کی عدم موجودگی میں اپنے ملک کے اصول و ضوابط اور قوانین کے فریم ورک میں تحریک کا تعارف کمیونٹی سروس کی تنظیم کے طور پر ہی کرایا جاتا ہے، جو اپنی کمیونٹی کے افراد کو مذہب سے جوڑے رکھنے کے لیے ادارے قائم کرتی ہیں اور کانفرنسیں منعقد کرتی ہیں۔ ان کا تعارف یہ نہیں ہے کہ وہ جس ملک میں متحرک ہیں، اس ملک کو کچھ دینا چاہتی ہیں، وہاں کے نظام کے ساتھ تعاون کرنا چاہتی ہیں، اور نظام میں پائی جانے والی خرابیوں کے ازالے کی کوششوں میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتی ہیں، تاکہ اس سرزمین پر لوگ الٰہی ہدایات کے طالب ہوں اور ان کی زندگیاں سنور جائیں۔ اہل ملک کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ جن سنگین مسائل اور چیلنجز کا انھیں سامنا ہے، ان کے حل میں اسلام ان کی مدد اور رہنمائی کر سکتا ہے ۔۳۶
امریکا اور برطانیہ جیسے مغربی ممالک میں اسلامی تحریکوں کو صرف سماجی تنظیموں کے طور پر نہیں بلکہ سماجی و سیاسی مسائل کے حل میں شراکت دار کے طور پر پیش کرنا چاہیے۔ انھیں پُرامن اور جمہوری طریقوں سے سماجی و سیاسی منظرنامے کو بہتر بنانے کی اپنی خواہش کو نمایاں کرنا چاہیے۔
یہ بات واضح ہے کہ 'مغرب اب بہت سی اسلامی تحریکوں کے لیے سرگرمی کا ایک اہم مرکز ہے، کیونکہ حالیہ برسوں میں ان تحریکوں کو اپنے آبائی ممالک میں بڑھتے ہوئے جبر اور ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا ہے ۳۷ ،جب کہ مغربی ممالک میں ان کے لیے آسانی ہے کہ وہ اپنی بات کو دلائل کے ساتھ پیش کر سکتے ہیں۔
ان گروہوں کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے حکومت اور دیگر عناصر و عوامل کے ساتھ فعال طور پر تعاون کرنا چاہیے۔ انھیں ایسی بیان بازی سے پرہیز کرنا چاہیے، جو تنگ نظری یا انتہا پسندی کو فروغ دیتی ہو، بلکہ انھیں معاشرے میں مثبت انداز سے نفوذ، سیاست میں شرکت، اور غیر مسلموں کے ساتھ تعاون پر توجہ دینی چاہیے۔ انھیں اپنے اہداف اور ایجنڈوں کے بارے میں شفاف ہونا چاہیے اور مثبت تبدیلی کے حصول کے لیے قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔
ان ممالک میں اسلامی تحریکوں کو یہ پہلو بہت واضح طور پر بیان کرنا چاہیے کہ وہ اِس ملک میں عدل و انصاف کی سرگرمیوں میں معاون ہیں اور انسانی حقوق کے تحفظ میں اسلامی نقطۂ نظر کو صاف طور پر پیش کرتے ہیں۔ ان ممالک میں ان کا ایجنڈا تدریج کے اصول کے تحت، نفاذِ شریعت کے بجائے مقاصد شریعت ہونا چاہیے، اور اس عبوری منزل سے گزرے بغیر اگلے مرحلے میں قدم رکھنا ناممکن ہے۔ انھیں اپنا بیانیہ مقاصد شریعت کی روشنی میں تیار کرنا چاہیے۔
اقلیتی ممالک میں کام کرنے والی اسلامی تحریکوں کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ مسلم اقلیتوں کے لیے فقہ تیار کریں، جو شریعت کے عملی اطلاق پر توجہ مرکوز کرے اور مقامی قوانین اور معاشرتی اصولوں کے مطابق ممکن حد تک گنجائش پیدا کرے، تاکہ مذہبی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے اجنبیت میں کمی لائی جاسکے، اور بقائے باہم کو فروغ دیا جاسکے ۔۳۸ ، ۳۹
مسلم اقلیتی ممالک کی تحریکات کے عملی محاذ
آج سے ۳۰ سال قبل، طلبہ تنظیم کی کانفرنس میں شرکت کے لیے مجھے سوڈان جانا ہوا۔ وہاں اسلامی تحریک کے ممتاز رہنما ڈاکٹر حسن ترابی صاحب [۱۹۳۲ء-۲۰۱۶ء]سے تفصیلی ملاقات ہوئی۔ انھوں نے ہندستانی تحریک اسلامی کے لیے اپنی عقیدت اور محبت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ’’ہم مسلم ممالک میں پیدا ہوئے اور یہاں کی سیاست پر اثر انداز ہونے کے مقصد کے اطراف تحریک چلاتے ہیں، جب کہ آپ دگنی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں۔ ایک طرف، آپ خدا سے غافل انسانوں کو خدا کی طرف بلانے کا عظیم فریضہ انجام دے رہے ہیں اور دوسری طرف، آپ اپنے ملک کی سیاست کو ظلم سے پاک کرنے، عدل قائم کرنے، اور نظام کو فساد سے دُور اور صلاح کے قریب کرنے کی قابل تحسین کوششیں کر رہے ہیں‘‘۔ یہ سب سے بڑا عملی کام ہے جو کارکنان تحریک کو ہر حال میں کرنا ہے۔ اس کے لیے کئی ذرائع اپنائے جا سکتے ہیں، مگر دو ذرائع اہم بھی ہیں اور وقت کی ضرورت بھی۔
حقائق کسی کی پسند اور ناپسند کے محتاج نہیں ہوتے۔ آج کے زمانے میں فلم کمیونی کیشن کا ایک طاقت ور ذریعہ ہے۔ جب باطل اسے جاہلیت کے فروغ کے لیے استعمال کرتا ہے تو اس میں اسلام دشمنی ہوتی ہے، یا کم از کم اخلاق و کردار کی کمی تو ضرور ہوتی ہے۔ اسی لیے لوگ فلموں کو فی نفسہٖ حرام سمجھتے ہیں، حالانکہ خیالات اور نظریات کے اظہار کا یہ مؤثر وسیلہ ہے۔ اسلام مخالف تصورات پر مبنی فلمیں بنائی اور پھیلائی جا رہی ہیں۔ یہ فلمیں نظریۂ سازی کا کام کرتی ہیں اور عوام کی ایک بڑی تعداد جذبات کے ذریعے معاملات کو سمجھتی ہے۔ اسلام کے خلاف جذبات اُبھارنے اور نظریات پیش کرنے اور ان کے لیے افراد کو کھڑا کرنے میں فلمیں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
یہ بحث ایک الگ سے تفصیلی مضمون کی طالب ہے، مگر میں یہاں یہ کہنا چاہوں گا کہ اسلام کے حق میں مثبت رائے عامہ کی تشکیل کے لیے، دیگر ذرائع کے ساتھ فلمیں بھی اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ فلمیں بنانا اعلیٰ تکنیکی مہارت اور بڑے بجٹ کی متقاضی ہوتی ہیں، مگر ان کے اثرات کئی گھنٹوں کی تقریروں اور سیکڑوں کتابوں سے زیادہ ہوتے ہیں۔ اسلام کے بہت سے اہم تصورات، جیسے خواتین کے ساتھ حسن معاشرت، وراثت، بین المذاہب شادیوں پر اسلامی نقطۂ نظر، امن، مساوات، انسان دوستی، اسلامی تہذیب، اسلامی معیشت، جائیداد اور اوقاف کے موضوعات، پر فلمیں بننی چاہییں۔
اس کے علاوہ معاشرے کے سلگتے مسائل پر فلمیں بنا کر غیر محسوس طریقے سے اسلامی حل پیش کرنے کی ضرورت ہے، جیسے منشیات کی وبا، سیل فون کا ایڈکشن، سیل فون کے ذریعے برائیوں کا ایڈکشن، نوجوانوں کی بے راہ روی، سودی نظام کی لعنت، اور عورتوں پر ہونے والے مظالم وغیرہ۔ ایسی فلمیں بنائی جائیں جن سے ناظرین نظام باطل کے ظالمانہ رویوں کو سمجھ سکیں اور ان پر حق آشکار ہو، اور ان فلموں میں پیش کیے گئے حل ان کو فطرت کی آواز محسوس ہوں۔۴۰ ، ۴۱
کاروبار اور چیمبر آف کامرس، اسلام کے حق میں ایک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ تحریکی کاموں کے لیے مالی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ باطل اپنے مقاصد کے حصول کے لیے پیسہ پانی کی طرح بہاتا ہے، تاکہ جھوٹ کو سچ کی طرح پیش کرے اور ضمیر کی خرید و فروخت کرے۔ حق کو باطل کا مقابلہ کرنے کے لیے مالی وسائل کی کمی کا سامنا نہ ہو۔ اکثر تحریکیں مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے رک جاتی ہیں۔ جب دولت مند لوگ ایمان والے اور تحریکی فکر کے حامل ہوں، تو وہ اپنی دولت تحریک کی راہ میں نچھاور کر سکتے ہیں۔
ہندستان کے ساحلوں پر عرب تاجر ، ظہورِ اسلام سے پہلے بھی آتے تھے اور ظہورِ اسلام کے بعد بھی۔ مؤرخین کے مطابق جب عرب تاجر مسلمان ہو گئے تو انھوں نے ہندستان کو نہ صرف تجارت سے مالا مال کیا بلکہ اپنے نظریے کو بھی لے کر آئے، جسے یہاں کے عوام نے قبول کیا۔ ان کی تجارت نے ہندستان کی معاشی صورتِ حال کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا، جس کی وجہ سے حکمرانوں نے مسلم تاجروں کا پرتپاک استقبال کیا۔ انھوں نے مسلم تاجروں کے لیے خصوصی محلے بسانے اور مساجد بنانے کا حکم دیا اور بندرگاہوں پر ان کے تجارتی سامان کی حفاظت کے انتظامات کیے۔۴۲
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تجارت بھی دعوت کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ حکمرانوں کو فکر ہوتی ہے کہ ملک کی معاشی پیداوار میں اضافہ ہو، اور جب ایمان دار تاجر تحریک سے وابستہ ہوں، تو تحریک اور ملک دونوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ اس کے لیے خصوصی چیمبر آف کامرس تشکیل دینے کی ضرورت ہے، جہاں نئی نسل کو انٹرپرینیورشپ کا ہنر سکھایا جائے، چھوٹے کاروباریوں کو بڑے خواب دکھائے جائیں اور انھیں ترقی کی راہیں بتائی جائیں۔ تجارت کے سلسلے میں حکومتی مراعات سے فائدہ اٹھانے کے منصوبے بنائے جائیں اور عالمی تجارت میں تحریک کے قائم کردہ چیمبر آف کامرس ایک نمائندہ کردار ادا کریں، جس سے ملک کی پیداوار میں اضافہ ہو۔ ہر شہر میں اس طرح کے چیمبر آف کامرس بنائے جا سکتے ہیں، ان سے درج ذیل باتیں مطلوب ہیں:
ان اقدامات کے ذریعے، کاروبار اور چیمبر آف کامرس مختلف معاشروں میں اسلام کے بارے میں ایک مثبت بیانیہ تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
دنیا بھر میں اسلامی تحریکات کو علمی اور عملی دونوں میدانوں میں بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ اسلام کی نشاتِ ثانیہ کے لیے ضروری ہے کہ تحریکات کے مفکرین احیائے اسلام کی فکری کاوشوں کو ایک نئے انداز میں پیش کریں۔ صرف نظریاتی یقین کافی نہیں، بلکہ اسلامی تحریکات کو انسانی معاشرے کے مسائل کے لیے نئے منصوبے اور خاکے، قابلِ قبول شکل میں دنیا کے سامنے لانا ہوں گے۔ بدقسمتی سے، اسلام دشمن عناصر نے تحریکات کے بارے میں خوف پیدا کر دیا ہے، اس لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اسلامی تحریکات لوگوں کو یقین دلائیں کہ ان کے تجویز کردہ اسلامی حل دنیا میں ترقی، خوشی، اور وسعت کا سبب بنیں گے۔ اس مقصد کے لیے بے شمار ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس مضمون میں ایسے چند اہم اداروں اور ان کی پیش رفت پر گفتگو کی گئی ہے۔
1. The Grand Chess Board, chapter 3 , Zbigniew Brzezinski · 2016
2. The Clash of Civilizations and the Remaking of the World Order, Samuel P Huntington 2007
3. The Nature Of Islamic Resurgence, Prof. Khurshid Ahmad
https://khurshidahmad.info/the-nature-of-islamic-resurgence/
4- تجدید و احیائے دین، مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی، ۱۹۶۴ء، لاہور
5- سنن ابی داؤد، حدیث نمبر۴۲۹۱
6. Voices of Resurgent Islam, John L. Esposito
7. South Asian Islamic Education in the Precolonial, Colonial, and Postcolonial Periods
https://link.springer.com/referenceworkentry/10.1007/978-981-15-0032-9_67
8. A Brief Survey of Muslim Education in Pre-Colonial India (1206-1857) May 2017, 5(
2): Authors: , Muhammad Anwar Farooq, Mazher Hussain.
https://www.researchgate.net/publication/317045796_A_Brief_Survey_of_Muslim_
Education_in_Pre-Colonial_India_1206-1857
9. South Asian Islamic Education in the Precolonial, Colonial, and Postcolonial Periods.
https://link.springer.com/referenceworkentry/10.1007/978-981-15-0032-9_67
10. ibid.
11. To Be A Muslim, Author: Fathi Yakan
https://islambasics.com/chapter/iii-the-islamic-movement-its-task-characteristics-and-tools/?
12. The Rise of British Colonialism to the End of the Ottoman Empire, by Marilyn.R. Waldman & Malika Zeghal
13. The Reconstruction of Religious Thought in Islam, by Mohammad Iqbal
14. Islamist Movements from the 1960s by Marilyn.R. Waldman & Malika Zeghal
https://www.britannica.com/topic/Islamic-world/Islamist-movements-from-the-1960s
15. Islamic Revival: https://en.m.wikipedia.org/wiki/Islamic_revival?
16. Islamic Revivalism and the Quest for Political Power, by Nasser Momayezi
https://journals.lib.unb.ca/index.php/jcs/article/view/11753/12527
17- اسلامی تحریک کا فکری سفر، پروفیسر خورشید احمد، ص ۱۲۱
18- اسلامی ریاست، فلسفہ، نظام کار اور سول حکمرانی، مؤلف:سیّد ابو الاعلیٰ مودودی، (مرتب: خورشید احمد)، تصور خلافت، ص ۳۹۳، ۱۹۶۸ء، لاہور
19. Islamism https://en.m.wikipedia.org/wiki/Islamism?
20. Islamic Fundamentalism، Religion and Politics، Actions Also known as: Islamist Movement, Encyclopaedia Britannica
https://www.britannica.com/topic/Islamic-fundamentalism
21. Radical Islam/ Islamic Radicalism: Towards a Theoretical Framing، January 2013. https://www.researchgate.net/publication/266030514_Radical_Islam_Islamic_
Radicalism_Towards_a_Theoretical_Framing
22. Public Freedoms in the Islamic State، by Rached Ghannouchi، Translated by David L. Johnston, Yale University press
23- اسلامی تمدن میں آئینی بحران : مختار شنقیطی، (ترجمہ: محی الدین غازی)، لاہور، دہلی
24. Understanding: Islamism by John Jenkins, Dr. Martyn Frampton and Tom Wilson
https://policyexchange.org.uk/understanding-islamism/
25. Muslim Networks and Movements in Western Europe , Pew Research Center
https://www.pewresearch.org/religion/2010/09/15/muslim-networks-and-
movements-in-western-europe/
26. Born to Win: Transactional Analysis with Gestalt Experiments, Book by Dorothy Jongeward and Muriel James
27. https://www.scirp.org/journal/paperinformation?paperid=53713&
28. https://eprints.um.edu.my/3335/1/SUSTAINABLE_ECONOMIC_
DEVELOPMENT.pdf
29. ibid
30. Quran 12:55
31. https://www.cgdev.org/sites/default/files/archive/doc/commentary/timmer_USAIDw.pdf
32- Priorities of the Islamic Movement in the Coming Phase by Yusuf al Qardawi
33. https://www.linkedin.com/pulse/learning-from-past-envisioning-future
-role-muslim-youth-junaid-ahmad
34. https://www.cetri.be/Islamic-Youth-Movements?lang=fr&
35. https://www.iias.asia/sites/default/files/2020-11/IIAS_NL32_22.pdf
36. https://www.cambridge.org/core/journals/government-and-opposition/article/
37. https://policyexchange.org.uk/understanding-islamism/
38. https://acrobat.adobe.com/id/urn:aaid:sc:AP:6d83fa84-0c6a-41a5-8249-29e32c976a6a
39. https://www.cambridge.org/core/books/abs/sharia-in-the-modern-era/muslim-minorities
-implementation-of-sharia-in-general-andfiqh-alaqalliyyatin-particular/
40. https://acrobat.adobe.com/id/urn:aaid:sc:AP:bd99e127-6597-457f-9237
-d398ea5f0982
41. https://acrobat.adobe.com/id/urn:aaid:sc:AP:be7a4951-32b1-4885
-84b2-5829968dff37
42. Influence of Islam and India by Tara Chand,s Allahabad
43. https://www.researchgate.net/publication/268002558_Islamic_Business_Ethics
44. https://en.wikipedia.org/wiki/Islamic_Chamber_of_Commerce,_Industry
and_Agriculture
45. ibid
46. https://ummahpreneur.com/blog/reasons-muslims-should-consider-entrepreneurship/
47. https://www.linkedin.com/pulse/what-role-businesses-entrepreneurship-islam-
dr-farrah-arif
_______________