یہ کہنا درست ہے کہ تحریکی ناکامی بھی کامیابی ہے کیونکہ مقصود تو اللہ کی رضا ہے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ تحریکیں اپنی کامیابیوں سے توانائی حاصل کرتی ہیں، اور یہ بھی درست ہے کہ مسلسل ناکامیاں حوصلے توڑتی ہیں۔ انسان کتنا بھی روحانی ہو اُس کی روح اُس کے جسم میں مقیّد ہوتی ہے جو توانائی کے سوتوں سے دُور نہیں رہ سکتی۔ بصورتِ دیگر وہ نااُمیدی کا شکار ہوسکتا ہے۔ جو شے اُسے حرارت دیتی ہے اور اُمید دلاتی ہے وہ حصولِ مقصد کی قربت ہے نہ کہ اُس سے مسلسل دُوری۔
تمثیلاً کہا جاسکتا ہے کہ جب گاڑی نہ چل رہی ہو یا چلتے چلتے رُک جاتی ہو، تو بونٹ کھولنا پڑتا ہے۔ بیٹری دیکھنی پڑتی ہے کہ کہیں توانائی اور اسپرٹ میں کمزوری تو نہیں آگئی، یا جس ذریعے سے توانائی آتی تھی اُس میں کوئی خلل تو واقع نہیں ہوا۔
بالفاظِ دیگر جو چیز بھی بالنفس حرارت رکھتی ہو، وہ اُسی صورت میں زندگی کا دعویٰ کرسکتی ہے، جب کہ وہ جمود کی جکڑ سے آزاد حرکت پذیر ہو۔اس کے لیے ضروری ہے کہ اُس کے ضابطۂ اسلوبِ کار کو جو اُس کے لیے لکھا گیا ہو اُسے پڑھا، اور پھر اُس کی روشنی میں، اُس کی اصلاح کرکے اُسے رواں کردیا جائے۔
وہ تنظیمیں جو اسلوبِ کار کا ضابطہ رکھتی ہیں کہ جس سے اب تک وہ توانائی حاصل کرتی رہی ہوں، اُن کے لیے لازم ہوتا ہے کہ وہ دیکھیں:
منطقی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اصل مسئلہ توانائی اور حرکت کا ہے، جو اپنی قدروقیمت میں تنظیم سے بالا تر ہے۔ ایسے میں اگر ہم تنظیم کو توجہ دیتے بھی ہیں تو وہ ثانوی ہے نہ کہ اوّل۔ اسی طرح خود احتسابی اور نظرثانی حرکت پذیر تحریکوں کے نصاب کا اہم ترین باب ہے۔ امریکی عیسائی مبلغ ڈاکٹر بلی گرام نے ایک دفعہ اپنے ریڈیو پروگرام میں یہ حیران کن اعتراف کیا تھا کہ وہ اب تک تیس بار اپنے طریق کار کا جائزہ لے چکے ہیں۔اب تک کی آراء جو سامنے آئی ہیں اُن میں کچھ چیزیں قدرِ مشترک ہیں اور وہ ہیں مقصد سے محبت، روشنی پھیلانے کی فکر اور جمود توڑ کر آگے بڑھنے کی جستجو۔
علم درحقیقت مشاہدے، حسیّات اور تجربے کا خلاصہ ہے۔ ماضی پر مشتمل تاریخ ہو یا عصرحاضر کا بیان، اپنے اندر اسباق رکھتے ہیں اور اُن سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ہمارے سامنے چار ماڈل ہیں اور چاروں اپنے اندر کامیابیاں سمیٹے ہوئے ہیں: ترکیہ کی جسٹس پارٹی، فلسطین کی حماس، ایران کی تحریک اور افغانستان کے طالبان۔ یہاں کامیابی سے مراد عوام الناس کی تائید حاصل کرنا اور اُن کی اُمیدوں کا مرکز و محور وبننا ہے۔
ہمارا خیال ہے کہ اپنے اپنے ملک کے مخصوص حالات ہونے کے باوجود، ان ماڈلوں کا بہت باریک بینی سے مشاہدہ اور تجزیہ ہونا چاہیے تھا۔
کراچی میں زمانۂ قریب میں جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ تحریک کے کام کو، محض لفظ ’اسلام‘ کے بجائے، مسائل اور خدمت سے جوڑا جائے اور اس طرح عوام کے دلوں اور ذہنوں کے دروازے کھولے جائیں۔ یہ ایک تعمیری اور نتیجہ خیز پیش رفت ہے، اسے دوسری جگہوں پر بھی آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔
مسلمانوں کے ارتقاء اور احیاء میں سب سے بڑی رکاوٹ مغرب کی پرانی عداوت، اور دوسری طرف خود مسلمانوں کی ذہنی ساخت ہے۔ صاف نظر آتا ہے کہ ہم خود شناسی سے محروم، اُمید سے عاری، مغرب سے مرعوب، شکست خوردہ قوم بن چکے ہیں۔
علامہ اقبالؒ نے جو علما اور مشائخ سے نشاتِ ثانیہ کی اپیل کی تھی، اُس کی بازگشت آج بھی سنی جاسکتی ہے ؎
دل توڑ گئی ان کا دو صدیوں کی غلامی
دارو کوئی سوچ ان کی پریشاں نظری کا
بیسویں صدی کی آزادی کی لہر اور اُس کا تلاطم تو عرصۂ دراز ہوا تھم چکا۔
غلامی کا تصور ایک زمانہ میں خارجی یلغار اور جغرافیائی مقبوضیت میں تھا۔
غلامی کی میراث پریشان نظری ہے اور آزادی کا تقاضا نئی ذہن سازی ہے، تاکہ غلامی کے خلاف قوتِ مدافعت کی آبیاری کی جاسکے۔ لیکن نہ بیماری کا پتہ چلایا جاتا ہے اور نہ اُس کے علاج کی پرواہ کی جاتی ہے۔ اُمت پر تھکن کے یہ آثار ہردائرے میں نمایاں ہیں۔
ہم سب، عالم گیریت (Globalization) اور اُس کی ہمہ گیریت کا حصہ بغیر کسی ذہنی تحفظ کے بن چکے ہیں۔
ہم نے عالم گیریت کو اقتصادیات کی نظر سے تو دیکھا مگر اُس سے پیوست فتنے کو دیکھ نہ پائے۔ہمیں یہ احساس ہوا ہی نہیں کہ ہم ایک نئے نوآبادیاتی دور سے گزر رہے ہیں۔ پرانا نوآبادیاتی عہد، تہذیبی اور علمی اجارہ داری اور تسلط میں تبدیل ہوچکا ہے۔ یہ ورچول (virtural) عہدہے۔
تکثیریت (Pluralism)جس کا بڑا شہرہ اور دور دورہ ہے۔ یہ تکثیریت آج قوموں اور ثقافتوں کی انفرادیت کی تصدیق کرتی ہے اور اپنے جوہر میں یہ تہذیبی یکسانیت اور وحدت کا عنوان ہے۔ اسی چیز نے غلامی کو دوام بخش دیا ہے۔
اس صورتِ حال میں اسلامی تحریکوں کا کام کیا ہونا چاہیے؟ زمانۂ حاضر جیساکہ عرض کیا ہے تہذیبی وحدت اور یکسانیت کا ہے۔ اس وحدت کے جبر کو توڑنے کی کوشش کا نام اسلامی تحریک ہے۔ علامہ اقبال نے درست کہا تھا ع
ہر نئی تعمیر کو لازم ہے تخریبِ تمام
اگرہم اس اصطلاح کو قبول کرلیتے ہیں تو پھر ایک اسلامی گروہ کا کام تہذیبی نوعیت کا ہی ہونا چاہیے، جس سے سوچ بدلے ،ر ویوں میں تبدیلی آئے۔
اس کے لیے ایک اہم پیش رفت، متبادل تفریح یا میڈیا (وسیع تر معنی میں) کے میدان میں ہوسکتی ہے۔
زمانۂ قدیم میں قصہ گوئی ابلاغ کا ایک اہم میڈیم تھا، جس نے بتدریج کاغذ کی ایجاد اور پرنٹنگ پریس کی اختراع سے، ناول اور اس سے جڑی نوٹنکی نے فلم سازی کی نئی شکل اختیار کی۔ یہ سب قصہ گوئی کا ارتقائی سفر ہے۔ اس سے دُور رہ کر ہم ذہن سازی کے عمل کو محدود کر رہے ہیں۔
مغرب میں میڈیا پر جو کام ہوا ہے، اُس سے ثابت ہواکہ ہر میڈیم کے بذاتِ خود اپنے اثرات ہیں۔ کسی بھی میڈیم کے دو اجزاء ہیں: مواد یا نصاب جو پہنچایا جاتا ہے اور واسطہ یا ذریعہ جس کی مدد سے پہنچتا ہے۔ نصاب کی اہمیت کو بیان کرنے کے لیے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ مرئی ہے، اس کا ادراک قوتِ باصرہ کرسکتی ہے۔ لیکن اس کا واسطہ یا میڈیم (الیکٹرانک اور پرنٹ) ہیں، جن کے اثرات کی نوعیت، باوجود مشینی عمل کے ذہنی اور جذباتی ہوتی ہے۔ اسی کو مارشل میک لوہن نے اپنے مشہورِ زمانہ فقرے ’میڈیم بذاتِ خود پیغام‘ ہے (Medium is the message) میں بیان کیا ہے۔
متبادل میڈیم کی بات پر تحفظات ظاہر کیے جاسکتے ہیں اور ہونے بھی چاہئیں لیکن ساتھ ہی ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ہمارے تحفظات زمینی ہیں یا خلائی؟
فکری طور پر اس پر سوچ بچار ہونا چاہیے کہ کہاں تک ہمارے اعتقادات اس سے متصادم ہیں؟ فرض کیا کہ ایسا کوئی تصادم نہیں تو پھر ہمیں کیا کرنا ہوگا؟
ہمارے خیال میں دو اہم اقدامات کرنے پڑیں گے:
موضوعات کی نوعیت ہی فکری طور پر ہماری اقدار کی ترویج میں ممدومعاون ہوگی۔ مثلاً ہماری اساسی اقدار، جیسے ایمانیات، حیا، عفت اور ممنوعات جیسے شراب نوشی، جواء ، اسراف وغیرہ۔
صفات، جیسے شجاعت، ایمان داری، حلال و حرام، شہادت، سچائی، محنت و مشقت، سادگی، شادی بیاہ میں شوہر اور بیوی کی مطلوبہ صفات، خاندان کی مرکزیت و اہمیت۔ یہ سارے موضوعات اپنے جوہر میں اسلامی متن کی تکرار کے بغیر بھی اسلامی ہیں۔
مزید برآں، تاریخ اور زمانہ ساز شخصیات کے پیغام اور کارناموں کی تفہیم و اشاعت۔اس ضمن میںہمارے ہاں مسلمان سلاطین کے خلاف جو ذہن سازی ہوچکی ہے، اس پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ مسلم تاریخ تو خلافت ِ راشدہ کے خاتمے پر ختم ہوجانی چاہیے۔ اس کے نتیجے میں ایک بے توقیر ماضی ہمیں گھور رہا ہوگا۔ ایسا تاریخی خلا جس میں شاید کہانی تو ہو لیکن کردار نہیں ہوگا۔ ایسی صورتِ حال نہ قوموں کے لیے مفید ہوتی ہے، نہ تحریکوں کے لیے۔
ڈراما اور فلم سازی کے لیے ترکیہ اور ایران مضبوط حوالے ہیں۔ اس ضمن میں ان فقہی اصولوں کا مطالعہ کیا جانا چاہیے جن پر اُن کے اہل علم نے اجتہاد کیا۔ اس ذریعۂ ابلاغ کی اثرپذیری کا اس سے اندازہ لگائیں کہ ترکیہ کی خلافت عثمانیہ سیریز سے نہ صرف لاکھوں لوگ متاثر ہوئے، بلکہ کئی غیرمسلم مسلمان بھی ہوگئے۔
قدامت پسندی ماضی کے گہوارے میں بیٹھنا پسند کرتی ہے، جب کہ آزاد روی ماضی کے ہرنشان سے بے زاری و نفرت سکھاتی ہے۔ یہ دونوں غیرمتوازن اور متحارب رویے مسلمانوں کی نشاتِ ثانیہ میں رکاوٹ ہیں۔ ایک اجتہاد سے گریز کرتی ہے، دوسری اجتہادی عمل سے نفرت کرتی ہے کہ اس میں اسے ماضی کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ اسی طرح تعمیری تحریکیں ماضی کو بوجھ نہیں سمجھتیں، نہ اس سے آزاد ہونا چاہتی ہیں، لیکن ساتھ ہی وہ اسے اپنے پائوں کی زنجیر نہیں بناتیں۔ وہ زمانہ شناس اور زمانہ ساز ہوتی ہیں اور اجتہادی روح سے سرشار ہوتی ہیں۔ اجتہادی روح کو کچل دیا جائے تو احیاء اور نشاتِ ثانیہ کے الفاظ بھی گم ہوجاتے ہیں۔