ستمبر ۲۰۲۴

فہرست مضامین

تبدیلی ٔقیادت یا اصلاح حال اور طرزِ عمل

پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد | ستمبر ۲۰۲۴ | اشارات

Responsive image Responsive image

انسان عموماًکسی عمل کے اچھے نتائج اور کامیابی کو اپنے زورِ بازو اور ہنر مندی کا نتیجہ سمجھتا ہےاور ناکامی کو اللہ کی طرف سے ایک آزمائش تصور کرتے ہوئے صبر کی طرف مائل ہوتا ہے ، جب کہ قرآن کریم، اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے رحم و کرم اور انسان کی بھلائی کے حوالے سے یہ اصول بیان کرتا ہے کہ وہ اپنے بندوں پر رحمت و شفقت کو اپنے اوپر فرض کر چکا ہے۔ چنانچہ خرابی ،ظلم و فساد اور غارت گری کے واقع ہونے میں بنیادی طور پر انسان کی اپنی لغزشوں اور کوتاہیوں کا دخل ہوتا ہے۔ قرآن کریم نے اس سلسلے میں یہ قیمتی اصول بیان کیا ہے:

وَمَآ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيْبَۃٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِيْكُمْ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ۝۳۰ۭ  (الشوریٰ ۴۲: ۳۰) تم پر جو مصیبت بھی آئی ہے ، تمھارے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے آئی ہے، اور بہت سے قصوروں سے وہ ویسے ہی درگزر کر جاتا ہے۔

 یہ اس لیے کہ ربِّ کریم نے اپنے اوپر رحمت کو لازم کر لیا ہے ۔وہ اپنے بندوں پر ظلم وزیادتی نہیں کرتا ۔ اپنے بندوں پر ان کی برداشت سے زیادہ بوجھ کبھی نہیں ڈالتا اور ہمیشہ اپنے بندوں پر رحم و کرم کی بارش کرنے پر آمادہ رہتا ہے، اس کے کرم کی کوئی انتہا نہیں   ؎

کرم ہی سے تیرے پھولوں سے دامن بھر گیا میرا
کرم ہی سے تیرے کچھ اور گنجائش نکل آئی

اس لیے اگر کسی معاشرے میں انسانی حقوق کی پامالی، قید و بند اور تعذیب، پکڑ دھکڑ اور زباں بندی اور افواہ سازی کا دور دورہ ہو اور حق و انصاف کی آواز بلند کرنے والوں اور حق و انصاف کے لیے نکلنے والوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہو، تو صرف ظالم کے ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا کافی نہیں ہو سکتا۔ کیوں کہ شہادتِ حق کا تقاضا ہے کہ احتسابِ نفس کرتے ہوئے دیکھا جائے کہ ظلم کے غالب آنے میں خود مظلوموں کی اپنی کوتاہی و پسپائی کا کتنا دخل ہے؟ یہ ایک فطری امر ہے کہ اگر شہادت حق اور امر بالمعروف کا فریضہ مؤثرانداز میں ادا نہ کیا جائے تو معاشرے میں جو اخلاقی خلا پیدا ہو گا، اسے ابلیسی قوتیں ہی پُر کریں گی۔ گویا استقامت سے ہٹ کر اپنے فرائض و واجبات کو ادا نہ کرنا فطری طور پر ظلم اور نا انصافی کے لیے راستہ ہموار کرتا ہے، کیوں کہ ابلیسی قوتیں ہمیشہ اس تلاش میں رہتی ہیں کہ کہیں سے کوئی خلا ملے اور وہ اس میں گھس کر ظلم و فساد برپا کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس کے برعکس اگر غیر متزلزل طور پر استقامت کے ساتھ حق کی شہادت ادا کی جائے تو تاریخ گواہ ہے کہ ظلم ، جبر اور مکر کی تمام چالیں آخر کار ناکام ہو جاتی ہیں اور اللہ ربّ العزت کی تدبیر ہی غالب آکر رہتی ہے: وَمَكَرُوْا وَمَكَرَ اللہُ۝۰ۭ وَاللہُ خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ۝۵۴ (اٰل عمرٰن ۳:۵۴) ’’اور انھوں نے خفیہ چالیں چلیں تو اللہ نے بھی ان کا خفیہ توڑ کیا۔ اور اللہ بہترین توڑ کرنے والا ہے‘‘۔

ملک عزیز میں ایک عرصہ سے یہ ایک علمی بحث کی جا رہی ہے کہ ایک عادل ڈکٹیٹر اور عوام کے ایک منتخب کردہ لیکن بد عنوان شخص دونوں میں افضل کون ہے؟اول الذکر کا نقص مطلق العنان ہونا ہے جو قرآن و سنت کے منافی ہے ،جب کہ آخر الذکر کو اگرچہ نام نہاد لبرل جمہوری انتخابات میں کامیابی ہوئی ہے لیکن وہ بدعنوانی کے لیے معروف ہے۔

پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نام نہاد جمہوریت، اسلامی ریاست کی روح کے منافی ہے۔یہ بات بھی کسی سے مخفی نہیں ہے کہ فوجی حکمران ہو یا ’عوامی ووٹ‘سے برسر ِاقتدار آنے والا سربراہ، ماضی میں دونوں عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہے ہیں اور اگر کسی چیز میں کامیاب رہے ہیں، تو وہ مہنگائی،بے روزگاری ، عدم تحفظ کو بڑھانااور معاشرے میں ناانصافی اور ظلم کو فروغ دینا ہے۔ گویا اگر انتخاب کیا بھی جائے تو ایک طرف گڑھا ہے اور دوسری طرف کھائی۔

 اس صورتِ حال میں کیا چوکیدار کی تبدیلی سے حالات میں بہتری ہوسکتی ہے ؟ کیا ایسے حالات میں نااُمید ہو کر ایک ہچکولے کھاتی کشتی کے بادبان سے ہاتھ کھینچ کر اسے ہوا اور پانی کی موجوں پر چھوڑ دیا جائے یا بادِ مخالف کو بادبان کا رُخ موڑ کر منزل کی طرف جانے کا ذریعہ بنایا جائے؟ یہ وہ اہم سوال ہے جو ہر محب وطن کو درپیش ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ کشتی کو ہوا اور موجوں پر چھوڑ دیا جائے ،جہاں اللہ کی مرضی ہو چلی جائے۔بعض سمجھتے ہیں کہ اس حدیث کی روشنی میں جس میں یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ ایک دو منزلہ کشتی میں سفر کیا جا رہا ہو اور نچلی منزل والے پانی کے حصول کے لیے کشتی کے تلے میں سوراخ کر رہے ہوں اور اوپر کی منزل والے ، اگر انھیں اس کام سے نہ روکیں گے تو دونوں منزلوں والے کشتی کے ساتھ غرق ہوں گے۔اس لیے ان ناسمجھ افراد کو سوراخ کرنے سے روکنا دوسروں پر فرض ہوگا۔

اس حدیث میں یہ سبق ہے کہ تماش بین بن کر کشتی کو ناسمجھ لوگوں کے حوالے کر دینا دین کے منشا کے منافی ہے۔جس کشتی میں آج پاکستانی قوم سوار ہے، اس پر جن ملاحوں کا قبضہ ہے وہ خود ہی کشتی میں سوراخ کرنے میں لگے ہیں۔اس وقت اس بحث سے قطع نظر کہ کشتی لکڑی سے بنی ہے یا لوہے سے، پہلے کشتی کو ڈوبنے سے بچانا عقلی تقاضا ہے۔اس کے بعد یہ طے کیا جا سکتا ہے کہ کشتی کی ساخت میں کیا تبدیلی کی جائے اور اسے کس طرح مکمل طور پر اسلام کے ابدی اصولوں سے ہم آہنگ کیا جائے؟

اس سوال کا آسان اور مختصر جواب جس کے لیے کسی لمبی چوڑی تحقیق کی ضرورت نہیں ہے، یہ ہے کہ اصل حل تو یہی ہے کہ اسلام کے دیے ہوئے جامع اور کامل نظامِ حیات کو نافذ کیا جائے، کیونکہ ربِّ کریم نے اس نظام کو بھلائی اور نیکیوں کی بنیاد پر عدل اور حق کے تقاضوں کے پیش نظر خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے مدینہ کی فلاحی ریاست کی شکل میں جاری کروا کر اس کی عملیت اور جامعیت کو پایۂ ثبوت تک پہنچا دیا ۔ لیکن کیا یہ نفاذِ نظامِ اسلامی صرف نیک خواہشات اور مطالبات کے ذریعے ہو جائے گا؟ یا پھر اس کے لیے پہلے قوم کو اپنے نصب العین کا واضح تعین کرنے کے ساتھ ،حصول نصب العین کے لیے بنیادی ایمانی ،انسانی اور مادی وسائل کی تیاری اور فراہمی اور ماحول کی سازگاری کو واضح حکمت عملی اورمستقل مزاجی اور استقامت کے ساتھ قائم کرنے کی جدوجہد کرنی ہوگی؟ایسے افرادِ کار تیار کرنے ہوں گے جو بے غرضی اور بے نفسی کے ساتھ اپنی ہرشے اس عظیم مقصد کے حصول کے لیے لگانے پر آمادہ ہوں۔ تحریک اسلامی نے اس مسئلے کے حل کے لیے جو راستہ سوچ سمجھ کر منتخب کیا ہے وہ اقامت دین کے ذریعے اصلاح حال اور تبدیلیٔ نظام کا واضح نقشہ ہے۔ یہاں یہ بحث لا حاصل ہے کہ پہلے اوپر سے نظام تبدیل ہو یا مضبوط بنیادوں پر ایک ایک اینٹ رکھ کر حصولِ مقصد کی جدوجہد اختیار کی جائے، یا بیک وقت دونوں کام کیے جائیں؟

 حصول مقصد کے لیے تدبیر اور حکمت عملی جب تک زمینی حقائق کی بنیاد پر نہیں بنے گی، کامیابی نہیں ہو سکتی۔البتہ یہ بات ایک بدیہی حقیقت ہے کہ جو بھی حکمت عملی اختیار کی جائے اس کی بنیاد صرف قرآن اور سنت کو ہونا چاہیے۔کامیابی کا انحصار نصب العین کے واضح ہونے کے ساتھ صحیح اور بروقت حکمت عملی کے اختیار کرنے پر ہے۔ نظامِ ظلم کی جگہ نظامِ عدل کا قیام استقامت ،صبر اور اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی توفیق اور نصرت کے ساتھ مشروط ہے۔

تصورِ شریعت

 اس عظیم مقصد کے حصول کے لیے سب سے پہلے عوام الناس کے ذہنوں سے شریعت کے بارے میں ایک بے بنیاد اور منتشر الخیال تصورِ شریعت کو دُور کرنے کی ضرورت ہے جس کی بنیاد پر ان کے ذہن میں شریعت کے نفاذ کا مفہوم واضح شکل اختیار کر سکےاور وہ ایک روایتی اور محدود تصورِ شریعت سے نجات حاصل کر سکیں۔ اس گئے گزرے ماحول میں بھی ایک پڑھا لکھا شہری ہو یا ایک دیہاتی، اگر اس سے پوچھا جائے کہ جس اخلاقی ،معاشی ،سیاسی اور معاشرتی بحران میں ملک و ملت مبتلا ہیں اس سے کس طرح نکلا جا سکتا ہے؟تو اس کا ایک ہی جواب ہوگا کہ اس کا حل نہ سرمایہ دارانہ معیشت و سیاست میں ہے ، نہ اشتراکی تصورِ حیات میں ، دنیا ان دونوں نظاموں کے تباہ کن نتائج کو بھگت رہی ہے ۔ دونوں نظام مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔ لادینیت مشرق و مغرب میں کسی مسئلے کو حل نہیں کر سکی ۔ اس لیے اسلام کے عالم گیر اور آزمودہ نظامِ شریعت کا نفاذ ہی مسائل کا واحد حل ہے۔ لیکن اگر اگلا سوال یہ کیا جائے کہ شریعت کے نفاذ سے آپ کی مراد کیا ہے؟ عموماً جواب ملتا ہے کہ چور کا ہاتھ کاٹنا اور کسی کو بدنام کرنے والے یا افواہ سازی کرنے والے کو کوڑے مارنے اور کسی اخلاقی مجرم کو سنگسار کرنے کا نام شریعت کا نفاذ ہے ۔ اگر مزید سوال کیا جائے کہ کیا صرف ان سزاؤں کے نفاذ سے نظام میں اصلاح ہو جائے گی؟ تو عموما ًیہی کہا جاتا ہے کہ آخر دورِخلافت میں شریعت کے نفاذ نے امن و امان ،تحفظ اور معاشی خوش حالی دی تھی ،اس لیے آج بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ یہ بات درست ہے لیکن ہمارے خیال میں اس میں مزید گہرائی میں جا کر عقلی دلائل کے ساتھ شریعت کے مجموعی مفہوم کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

نفاذِ شریعت کا مفہوم

تحریک اسلامی تبدیلیٔ نظام کو اسلامی نظام حیات کے نفاذ کے ساتھ مشروط کرتی ہے۔ گویا نہ صرف قانون بلکہ تمام ریاستی نظام کو وہ تعلیم ہو یا معیشت و سیاست اور ثقافت، ہر شعبہ کو اسلامی اخلاقی اصولوں کا تابع کیا جانا شریعت کا نفاذ ہے ۔لیکن عوام الناس کا تصورِ نفاذِ شریعت اور تحریک اسلامی کا تصورِ نفاذِ شریعت عملاً ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے۔ جس کی بنا پر ایک وسیع ابلاغی خلا مستقلاً موجود رہتاہے اور اس فرق کو دُور کرنے کی فوری ضرورت ہے۔کسی بھی مسلم ملک میں عوامی رائے معلوم کی جائے تو نفاذِ شریعت کا مطلب حدود کا نفاذ ہی لیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی ایک زمانے میں اسلامی نظام کے قیام کے نعرے کے تحت حدود آرڈیننس جاری کر کے یہ تصور دیا گیا کہ ایک فوجی حکومت نے عوامی خواہش کے احترام میں یہ اقدام اٹھایا ہے۔

اس تصورِ نفاذِ شریعت نے نہ صرف اسلام کے سیاسی استعمال کے تصور کو فروغ دیا بلکہ وسیع پیمانے پر اسلامی شریعت اور حدود کے نفاذ کے نعرے کو یکساں تصور کیا جانے لگا۔ساتھ ہی ملک کے لبرل ابلاغ عامہ اور بیرونی برقی ابلاغ خصوصاً بی بی سی نے دستاویزی فلمیں بنا کر یہ تاثر گہرا کردیا کہ خواتین کو تعلیم سے محروم رکھنا،گھر میں قید کرنا اور اخلاقی جرائم کی سزا میں کوڑے مارنا اورچادر سے ڈھانک کر کلاشن کوف سے گولی مارنے اور سنگسار کرنے کا نام ہی نفاذِ شریعت ہے۔ اس طرح ایک تیر سے دو شکار کیے گئے۔ ایک جانب اسلامی حدود کے نفاذ کو سفاکیت قرار دے کر اسلام دشمنی کی گئی اور دوسری جانب حدود کا نشانہ خواتین کو بنا کر عالم گیر پیمانہ پر مسلم دنیا میں خواتین کے ساتھ ظالمانہ رویے کے تصور کو ذہنوں میں راسخ کر دیا گیا،جو شریعت کے بنیادی مقصد سے عدم آگاہی کا واضح ثبوت ہے۔اس تصورِ شریعت کو مغربی ابلاغ عامہ نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور دل کھول کر اس کی تشہیر کی گئی، حتیٰ کہ پڑھے لکھے مسلمانوں میں بھی نفاذشریعت کا خوف دل و دماغ میں سرایت کر گیا۔تحریک اسلامی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے موقف کو عام فہم انداز میں عوام کے سامنے رکھے اور اہل علم کے ذریعے پورے ملک میں سیمیناروں اور سماجی مجلسوں اور علمی نشستوں کے ذریعے نفاذِ اسلام کی مثبت اور جامع تصویر کو ذہنوں میں واضح کرے۔

دوسرے الفاظ میں نفاذِ شریعت کے مغربی ابلاغ عامہ کے قائم کردہ مسخ شدہ تصور کی جگہ قرآن و سنت پر مبنی مثبت اور تعمیری تصور کو ہر سطح پر آسان زبان میں واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ مثلا ًشریعت کے سات معروف مقاصد یعنی lتوحید l عدل l حفظِ نفس l حفظِ دین l حفظِ عقل  lحفظِ نسل اور lحفظِ مال ہیں۔

انسانی جان کا تحفظ: شریعت کا اہم مقصد

ان میں ایک سب سے اہم مقصد انسانی جان کا تحفظ ہے ۔ یعنی امن عامہ کی صورتِ حال کو اس درجہ بہتر بنا دیا جائے کہ گلیوں ، بازاروں اور گھروں میں ہر فرد محفوظ و مامون ہو ، کوئی کسی کو راہ چلتے گولی کا نشانہ نہ بنا سکے ۔ کوئی راہ چلتے کسی فرد یا کاروبار میں مصروف کسی تاجر کوا سلحے کی نوک پر لوٹنے کا تصور بھی نہ کر سکے ۔ خواتین ، بچے اور معاشرےکے ہر طبقےکی جان و مال اور عزّت و آبرو کو بھرپور ریاستی تحفظ حاصل ہو۔ اسلامی شریعت کے انسانی جان کو تحفظ دینے اور انسانی حقوق کے حوالے سے نفاذِ شریعت کا یہ پہلو آج اچھے خاصے پڑھے لکھے مسلمانوں کی نگاہ سے بھی اوجھل ہے۔اس کی جگہ نفاذِ شریعت کا تصور صرف پھانسی ، کوڑے اور سنگسار کرنے کے ساتھ وابستہ ہوکر رہ گیا ہے ۔

انسانی جان کے تحفظ کے مقصد ِشریعت پر اگر ایک اور پہلو سے نگاہ ڈالی جائے تو بات زیادہ آسان ہو جائے گی یعنی انسانی جان کا تحفظ اس وقت ممکن ہے، جب عوام کو غذا اور فضا میں جراثیم ، آلودگی اور ہر قسم کی ملاوٹ اورگندگی سے پاک، صاف و شفاف پانی، غذا اور ماحول فراہم کیا جائے ۔ گویا نفاذِ شریعت کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف شہروں میں بلکہ گاؤں اور قصبوں میں بھی آلائشوں اور گرد آلود پانی کی جگہ صاف پانی وہوا فراہم کی جائے، تاکہ عوام طرح طرح کی بیماریوں کے شکار نہ ہوں۔ انسانی جان کا تحفظ اسی وقت ممکن ہے جب سڑکوں اور بازار میں جو انسان سانس لے رہے ہیں انھیں وہ ہوا میسرآئے جس میں کاربن اور دیگر گیسوں کی آمیزش اور مضر صحت اجزا موجود نہ ہوں۔ گویا ماحولیاتی آلودگی کا خاتمہ شریعت کے نفاذکے بنیادی مقاصد میں سے ہے۔

انسانی جان اسی وقت محفوظ ہو سکتی ہے، جب زندگی بچانے والی معیاری اور اصلی ادویات عوام کو مناسب نرخوں پر دستیاب ہوں ۔ جعلی ادویات کی تیاری اور ان کی بازار میں فراہمی اور فروخت پر سخت پابندی ہو، چنانچہ ایسے افراد اور اداروں کے خلاف قانونی کاروائی مقاصد شریعت کا ایک لازمہ ہے ۔ گویا شریعت نافذ ہو گی تو سرکاری اداروں کو پوری قوت سے جعل سازوں کو نہ صرف جعلی ادویات کی تیاری سے روکنا ہو گا بلکہ اگر کوئی فرد یا ادارہ یا گروہ اس مکروہ کاروبار میں ملوث پایا جائے تو عدل و انصاف کے تقاضوں کو بروئے کار لاتے ہوئے معاشرے میں ایسے جعل ساز دشمنوں کو مثالی سزائیں دی جائیں گی۔ اس پہلو پر اگر درست طور پر عمل نہ کیا جارہا ہواور جعلی ادویات کی تیاری و فروخت کی آزادی ہو،تو اس کا مطلب ہے کہ مسجدوں میں نمازیوں کی تعداد چاہے کتنی ہی بڑھ جائے ، اس کے باوجود شریعت نافذ نہیں ہوئی ۔انسانی جان کے تحفظ کے اصول اور مقصد کے جامع مفہوم میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ہر شہری کو اس کی جسمانی ضرورت کے لحاظ سے نہ صرف معیاری غذا، شفاف پانی، معیاری ادویات اور آلودگی سے پاک ہوا کی فراہمی ممکن بنائی جائے بلکہ اس کی دیگر بنیادی ضروریات کو بھی ریاستی نگرانی میں پورا کیا جائے ۔

 انسانی جان کے تحفظ کا ایک بنیادی مطالبہ یہ بھی ہے کہ انسانوں کو دھوپ ،گرمی ،سردی، بارش اور دیگر ماحولیاتی خطرات سے سے محفوظ رکھنے کے لیے لباس اور سر چھپانے کے لیے گھر میسر ہو۔ اس کے ساتھ انسان کی بنیادی ضرورت یہ علم ہے کہ کس چیز میں خیر ہے اور کس میں شرہے، کیا چیز حلال ہے اورکیا حرام ؟کیونکہ شریعت کا معروف اصول ہے کہ حلال اور طیب طور طریقے زندگی کو ترقی دیتے ہیں اور حرام اور خبیث اطوار زندگی کو نقصان پہنچاتے ہیں اور تباہ کرتے ہیں۔ گویا انسانوں کو معروف و منکر کی تعلیم فراہم کرنا ، حق و صداقت سے آگاہ کرنا ، فسق و فجور کے تباہ کن اثرات سے خبردار کرنے کا نام نفاذِ شریعت ہے۔

ایک ریاست پانی ،غذا، مکان، کاروبار، خاندانی زندگی فراہم کر دے لیکن یہ نہ بتائے کہ کیا چیز اخلاقی اور قانونی طور پر جائز یا حلال اور کیا حرام ہے تو جان کا تحفظ کیسے ہوگا؟ کیا محض روٹی، کپڑا اور مکان دینا اور حلال و حرام ذرائع معیشت ، سیاست ، معاشرت اور ثقافت پر توجہ نہ دینے کا نام نفاذِ شریعت ہے؟ گویا جس شریعت کا نفاذ تحریک اسلامی چاہتی ہے، وہ قرآن و سنت کے دیے ہوئے اصولوں اور مقاصد کے مجموعے اور کُلی نفاذِ قرآن و سنت کا نام ہے۔ یہ صرف حدود کے نافذکرنے کا نام نہیں ہے، حدود اسلام کے وسیع تر نظام کا ایک جزو ہیں، لیکن کُل نہیں ہیں۔

ہم نے شریعت کےسات بنیادی مقاصدیعنی توحید، عدل ،حفظ نفس، حفظ عقل،حفظ دین، حفظ نسل اور حفظ مال میں سےصرف ایک مقصد اور اصول کو عام فہم مثالوں کے ذریعے ایک عام شہری کے لیے واضح کرنے کوشش کی ہے، بقیہ چھ مقاصد اور اصولوں میں سے ہر ایک وضاحت کا مستحق ہے۔ فی الوقت صرف ایک کا ذکر اختصار کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ مغرب اور مغرب زدہ افراد کا شرعی سزاؤں کے پہلو کو مبالغہ آمیز حد تک ڈرامائی انداز میں بیان کرنے کا مقصد نفاذِ شریعت کے ان پہلوؤں پر پردہ ڈالنا رہا ہے، جن کا ہم نے سطور بالا میں ذکر کیا ہے۔

نظام کی تبدیلی

آغاز میں یہ بات کہی گئی تھی کہ ملک میں اصلاح کے تناظر میں اکثر کہا جاتا ہےکہ ایک عادل ڈکٹیٹر یا ایک ظالم عوامی منتخب کردہ نمائندہ میں سے بہتر کون ہو گا ؟

حالانکہ اصل سوال یہ ہونا چاہیے کہ دو برائیوں میں کم تر برائی کی جگہ وہ کون سی صفات ہیں، جن کے حامل افراد کو قیادت پر لایا جائے؟ گویا اصل حل دو برائیوں میں سے ایک کو اپنے اوپر مسلط کرنا نہیں ہے بلکہ اصلاح حال اور تبدیلیٔ نظام ہے۔ جس کے لیے تین بنیادی وسائل ضروری ہیں: lایمان l انسانِ مطلوب اور lماحولیاتی وسائل کی مناسب منصوبہ بندی۔ ان وسائل کی تیاری اور فراہمی کے بغیر یہ کام نہیں ہو سکتا۔ یہ کام صبر آزما اور مستقل مزاجی کے ساتھ جذبات و احساسات پر قابو رکھتے ہوئے کرنا ہوگا۔ وقتی مسائل میں اُلجھ کر یہ کام نہیں ہو سکتا۔اس کے لیے ترجیحات کا تعین اور حد بندی لازمی ہے۔ نیکی کا فروغ اور غلبہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب ایک کارکن ہو یا قائد، اس کا کردار و عمل اس کے عقیدہ اور دعوت کا عملی ثبوت پیش کر رہا ہو۔ وہ بات کہنا جس پر ایک شخص خود عمل نہ کرر ہا ہو ، قرآن پاک کی نگاہ میں فسق ہے، جو ایمان کے منافی ہے۔

اصلاحِ حال صرف اسی وقت ہو سکتی ہے جب نفاذِ شریعت اور اقامت دین کے اس عام فہم تصور کو ہرباشعور شہری کے ذہن نشین کرا دیا جائے تاکہ وہ دل کی آمادگی کے ساتھ نفاذِ شریعت اور اقامت دین کی جدوجہد میں رضاکارانہ طور پر شامل ہو اور ہر بستی اور وادی میں نیکی ،خیر ،فلاح اور سعادت کا پرچم لہرائے ۔تحریک اسلامی جب اقامت دین کی بات کرتی ہے تو اولاً اس کی مراد اصلاحِ عقیدہ یعنی زندگی میں توحید کے اثرات کا ظاہر ہونا ہے۔اگر زبان سے تو لا الٰہ الااللہ کہا لیکن تمام اُمیدیں بیرونی قرضہ جات سے وابستہ ہیں اور ا سے رزق دینے والا تسلیم کیا جا رہا ہے، تو یہ عقیدۂ توحید کے منافی عمل ہے۔تحریک کی پہلی ترجیح اپنے کارکنوں اور تمام انسانوں کے عقیدہ کی اصلاح ہے اور اصلاح کی روشنی میں معیشت اور سیاست کے دیوتائوں کی جگہ اللہ ربّ العالمین کی حاکمیت کا نفاذ ہے۔

جہاں تک سوال قیادت کا ہے ، یعنی موروثی سیاست اور قوت کے استعمال سے اداروں پر قبضہ کرنے والوں میں سے ایک کا انتخاب، تو دونوں طریقے مقاصد شریعت کے منافی ہیں۔ قرآن و سنت کسی فوجی یا غیر فوجی یا پارلیمانی آمر کو حاکمیت کا حق نہیں دیتے۔ اس کے مقابلے میں بغیر کسی دباؤ کے آزادی کے ساتھ ایک امانت دار، متقی، صاحب ِعلم و عمل اور دینی فراست اور انتظامی صلاحیت رکھنے والے فرد کو عوامی انتخاب کے ذریعے ذمہ داری سونپنے کا نام نفاذِ شریعت کی سمت ایک سفر ہے ۔اسلام نے اس بات کو بہت آسان بنا دیا ہے۔ قرآن و سنت کی جانب سے یہ اصول طے کیا گیا ہے کہ اپنی امانتیں، امانت دار افراد کے سپرد کرو کیوں کہ یہی کامیابی کا راستہ ہے۔ اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو فتنہ و فساد، ظلم اور استحصال کا ہونا فطری امر ہے۔

اگر ایک دیہاتی سے بھی یہ سوال پوچھا جائے کہ اگر ہم نے ایک شخص کو پانچ سال دن رات طبّ کی تعلیم و تربیت دے کراسے سکھایا ہے کہ انسانی جسم کے اعضاء کس طرح کام کرتے ہیں اور کس طرح انھیں صحت مند رکھا جا سکتا ہے؟ پھر کم از کم دو سال کسی ہسپتال میں مصروف رکھ کر عملا ًمریضوں کے مسائل کو سمجھنااور ان کا حل کرنا سکھایا ہے۔لیکن اگر اس سات سالہ تعلیم و تربیت کے بعد ہم اسے فوج کے سربراہ کے طور پر مقرر کر دیں تو کیا ایک کم پڑھا لکھا شخص بھی اسے سمجھ داری قرار دے گا ؟اور سمجھے گا کہ ایک میڈیکل ڈاکٹر ملک کے اندرونی اور بیرونی دفاعی خطرات کو سمجھ کر ملک کا دفاع کیسے کرسکے گا؟ اسی طرح اگر ایک شہری کو جس نے کبھی بندوق بھی نہ چلائی ہو مسلح افواج کا سربراہ بنا دیا جائے تو کیا وہ سرحدوں کا دفاع کر سکے گا؟ کیا کوئی صاحب ِعقل ایسا کارنامہ انجام دے سکتا ہے؟

قرآن و سنت کا دو ٹوک فیصaلہ ہے کہ مطلوبہ صلاحیت اور صفات کے بغیر کسی کا حاکم مقرر کیا جانا یا خود حاکم بن جانا امانت کے منافی اور خیانت ہے۔ اس لیے گڑھےاور کھائی میں سے کسی ایک کے انتخاب کی جگہ دین کی واضح تعلیمات کی روشنی میں اہلیت، امانت، علم و سیرت و کردار والے فرد ہی کو ملکی قیادت سپرد کرنا دین اسلام کا تقاضا ہے ۔

 دین کو اس کے بھیجنے والے نے خود آسان بنا کر بھیجا ہے۔ اس کو بلا وجہ فلسفیانہ اُلجھاؤ میں ڈال کر مشکل بنانا دین کے مقصد اور مدعا کے خلاف ہے۔ ’قیادت کا مستحق کون ہے؟‘ جیسا سوال قرآن نے ایک لفظ سے حل کر دیا ہے کہ اس کا اہل ہونا شرط ہے( امانتیں ان کے اہل کے حوالے کرو)، اور جو اہل نہ ہو اس کا کسی ذمہ داری کو قبول کر لینا یا اسے ذمہ داری سپرد کرنا دونوں اسلام سے واضح انحراف ہے۔ جب بھی دین سے انحراف کیا جائے گا نتائج منفی اور نقصان دہ ہوں گے اور جب قرآن کی ہدایت پر عمل ہوگا اور قیادت اہلیت رکھنے والے افراد کو جو اللہ کے خوف، سیرت و کردار کے لحاظ سے صرف اللہ کے احکامات پر عمل کرنے والے ہوں ، وہ خود عہدے کے طالب نہ ہوں، تو اللہ تعالیٰ کی مدد سے عدل، سکون ،تحفظ اور ترقی قوم کا مقدر ہوگی۔

 حقیقت یہ ہے کہ قرآن و سنت کے عالمگیر اخلاقی اصولوں پر عمل کرنے اور ان کے مملکت میں نفاذ کا نام شریعت کی حکومت ہے۔مسلمان مفکرین اور فقہاء نے بادشاہت اور آمریت دونوں کو یکساں برائی قرار دے کر صرف کراہت کے ساتھ، فتنہ اور فساد سے تحفظ کی حد تک گوارا کیا ہے۔

تحریکاتِ اسلامی دعوتی، اصلاحی اور اجتہادی تحریکات ہونے کے سبب عسکری قوت کی جگہ قوتِ ایمانی اور کردار اور سیرت کی تعمیر کے ذریعے وہ تبدیلی لانا چاہتی ہیں، جو اندر سے ہو، دیرپا ہو اور دستور و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کی جائے۔یہ عام انقلابی تحریکات کی طرح محض قوت کے استعمال کو جائز نہیں سمجھتیں۔ اس بنا پر ان کے اہداف طویل المیعاد ہوتے ہیں۔ فوری تبدیلی کی جگہ بتدریج تبدیلی ان کا شعار ہے۔ یہی چیز پروگرام، اہداف اور حکمت عملی پر غالب رہنی چاہیے۔