اسلام ایک ابدی دین ہے،جو رہتی دنیا تک کے لیے ہے اور قیامت تک بنی نوع انسان کے لیے واحد الٰہی ہدایت ہے۔ اللہ ربّ العزت نے قرآن مجید میں ایک بڑی حقیقت کی وضاحت کے لیے جس اسلوب اور دلائل کو اختیار کیا ہے، اس کی مثالیں قرآن مجید میں جگہ جگہ موجود ہیں:
قرآن کا آغاز سورۂ فاتحہ سے ہوتا ہے جس میں اللہ کی ربوبیت کی طرف انسانی ذہنوں کو متوجہ کیا گیا ہے۔ اس میں ایک بڑا سبق ہے۔ اللہ نے انسان کو متلون مزاج پیدا کیا ہے۔ جیسے جیسے زمانہ آگے بڑھا، تہذیب و تمدن تبدیل ہوئے تو انسان کے سوچ وفکر کے دھارے بھی تبدیل ہوئے۔ ہر دور میں داعیانِ حق نے اسلام کے پیغام کو ہر دور کی اصطلاحات اور تہذیبی و علمی نہج کو سامنے رکھا۔ جب پیغمبرؐ اسلام نے فاران کی چوٹیوں سے پہلی بار دعوت پیش کی، اس وقت جو اسلوب اختیار فرمایا، وہ اس دور کے رائج طریقے کے مطابق تھا ۔یہی پیغمبرانہ اسلوب ہر دور میں داعیانِ اسلام نے ملحوظ خاطر رکھا ۔ آج بھی اسی اسلوب کو اپنانے کی ضرورت ہے۔
آج سائنسی ٹکنالوجی کا دور ہے۔ اذہان و قلوب ایسی ہی اصطلاحات کے عادی ہیں۔ ابھی آیات قرآنی میں ہم نے دیکھا کہ آفاق و انفس کی طرف بار بار اشارہ کرتے ہوئے قرآن نے حق کو پیش کیا ہے۔ آج یہ نشانیاں اس قدر نمایاں ہیں کہ ان سے ہر کوئی واقف ہے۔ ایک طرف کائنات اور انفس کی تنظیم و توازن اور نیوٹرون ،پروٹون میں تناسب ہے۔ دوسری طرف مختلف ڈیوائسز یا الیکٹرانک مصنوعات عام و خاص کی زندگی میں داخل ہو چکی ہیں، اور ان میں ذرّہ برابر خلل سے جو بگاڑ پیدا ہوتا ہے ہر فرد آئے دن اس تجربے سے دوچار ہوتا ہے۔ کائنات میں جو توازن ہے، اس کو سائنٹفک انداز میں کیمسٹری اور فزکس کے اصولوں کے مطابق واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ جب عقل کے دریچے وا ہوں، تب اس عظیم حقیقت کو پیش کیا جائے جسے قرآن کا ابلاغی اسلوب ہمارے سامنے بیان کرتا ہے۔
ذرا یاد کریں یہ دریچے آج بھی وا ہوسکتے ہیں اور ہوتے رہے ہیں، جس مقام پر پہنچ کر آئن اسٹائن نے کہا تھا ’میں دہریہ نہیں ہوں‘۔ دراصل، ہمیں جو مسئلہ درپیش ہے، وہ ہمارے محدود ذہنوں کے مقابلے پر انتہائی عظیم ہے۔ ہماری مثال اس بچے کی سی ہے، جو ایک ایسی وسیع و عریض لائبریری میں داخل ہوتا ہے، جس کی بے شمار الماریاں مختلف زبانوں کی بہت سی کتابوں سے بھری ہوئی ہے۔ بچے کو معلوم ہے کہ کسی نے ضرور یہ کتابیں لکھی ہوں گی، لیکن یہ نہیں پتہ کیسے؟ 'اسے وہ زبانیں نہیں آتیں جن میں یہ کتابیں لکھی گئی ہیں۔ بچہ کتابوں کی ترتیب میں ایک پُراسرار ترتیب دیکھتا ہے، لیکن اسے پتہ نہیں وہ ترتیب کیا ہے؟ بالکل اسی طرح ہم کائنات کو دیکھتے ہیں، جو پُراسرار طریقے سے ترتیب دی گئی ہے اور وہ بعض قوانین کے تابع ہے، لیکن وہ ان قوانین کو بہت مبہم انداز میں سمجھتا ہے۔
اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ۰ۣ میں پورے کائناتی دین کی خبر دی گئی ہے ۔ قرآن کے پیغام کو پیش کرنے کے لیے یہ قرآنی ابلاغی اسلوب، اور موجودہ زمانے میں مطلوبہ نقطۂ نظر کے درمیان جو خلیج حائل ہے، اس کو پُر کرنے کےلیے غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے ۔ اسلام عالم گیر ابدی دین ہے اور اس دنیا میں الٰہی اسکیم کا ایک حصہ ہے۔
یہ سوال کہ عصر حاضر میں احیائے دین کے لیے اب تک کی کوششوں میں اس تصورِ دین کے ابلاغ کو فروغ نصیب ہوا ہے یا اس دین کے پھیلانے کے عمل میں ضرر رسانی میں اضافہ؟ غیرجانب دارانہ تجزیہ کریں تو تبلیغ دین کی مختلف تحریکات اس عظیم فریضے کو اخلاص کے ساتھ انجام دینے والے گروپس کے نصاب اور نصب العین کی تفہیم، ان کی پروگرامنگ اورمنصوبہ بند کارکردگی کے مطالعے سے یہ چیز کھل کر سامنے آتی ہے کہ تصورِ دین کی عالم گیریت اور ابدی ساخت محدود ہو گئی ہے اور ٹکڑوں اور ٹولیوں میں بٹ گئی ہے۔ یہ ایسا نقصان ہے، جس نے دینِ اسلام کے تعارف کو ہی فی زمانہ نقصان نہیں پہنچایا بلکہ بہت سارے سوالات بھی پیدا کر دیئے ہیں۔ اس پہلو پر اُمت مسلمہ اور خاص کر مختلف پلیٹ فارم سے تعلق رکھنے والے دین دوست افراد کو سوچنا اور باہمی اتحاد کے جذبے سے اجتماعی اور انفرادی سطح پر بھی، غور کرنے اور ہمدردانہ طورپر تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے ۔
ایک خطرناک سوال جو باطل کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں کی طرف اُچھالا جارہا ہے وہ یہ ہےکہ ’’ مسلمان ماضی میں جینے والی قوم ہے‘‘۔یہ سوال اسلام کو بطور دینِ انسانیت متعارف کرانے میں بھی مانع ہے ۔ اسلام کی تعلیمات اور ہدایات پر عمل کے ذریعے جو کردار ماضی میں تیار ہوئے اور دورِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت راشدہ میں جو بے مثال شخصیات پیدا ہوئیں، اور انھوں نے قرآن کے سائے میں انفس و آفاق میں غوطہ زن ہو کر کل امت مسلمہ کو اس دنیا میں قرآنی اصطلاح کے مطابق خیر امت اور اس سر زمین پر الٰہی حکومت برپا کرنے میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیا۔زندگی کے مختلف میدانوں میں اسلام کے ثمرات انھی کاوشوں کے نتیجے میں حاصل ہوئے۔
علوم کی درجہ بندی ہوئی اور دنیاوی علوم کو حاصل کرکے مختلف ایجادات کیں، جن سے تمام اقوام عالم نے فیض حاصل کیا ۔ مگر پھر خیر اُمت کا یہ مفہوم آہستہ آہستہ ذہنوں سے اوجھل ہوتا چلا گیا۔ مسلمانوں نے قرآن کی رہنمائی میں نہ اپنا تزکیہ کیا اور نہ اپنی صلاحیتوں و علوم کا ارتقاء کیا، بلکہ خیرامت اور امربالمعروف و نہی عن المنکر کا مفہوم بھی تبدیل کر دیا ۔ اگر ہم ایمان داری سے سوچیں تو اس آئینے میں مسلمان ماضی میں جینے والی قوم بن چکی ہے کیونکہ یوں دکھائی دیتا ہے کہ ہمیں نہ اس دنیا میں ہونے والے ظلم و نا انصافی سے غرض ہے اور نہ انسانیت کو درپیش دکھ درد سے کوئی واسطہ ہے، اور نہ اللہ کے بندوں کے لیے اس سر زمین پر رہنے بسنے اور آسانی مہیا کرنے میں کوئی دلچسپی ہے ۔
اسلامی تحریکوں کے نصاب اور اکثر لیکچرز ،اسلامی کورس اور نصابات کو دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ زیادہ تر ماضی کے مسلمانوں کے کارنامے سنانے اور ان کی وضاحت پر مشتمل ہوتے ہیں ۔اگر کوئی یہ کہے کہ 'ماضی کو یاد رکھنا اور اس کو آنے والی نسلوں تک منتقل کرنا ضروری ہے ' تو اس سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔ مگر ہم پر لازم ہے کہ اس اعتراض کو سنیں، اور اپنی تحقیق جاری رکھیں کہ ہم سے کیا غلطی ہو رہی ہے،اور بار بار یہ سوال اپنے سے پوچھیں کہ کیا حقیقت واقعی ایسی صورت تو نہیں بنتی جا رہی ہے، جس طرف غیروں نے اشارہ کیا ہے؟ تقریر کرنے اور تقریر سننے میں کچھ زیادہ محنت نہیں لگتی،مگر تقریر کے مندرجات کا عملی جواب بہرحال ایک مشکل اور مطلوب کام ہے۔
ہماری جدید نسل اسی راہ پر گامزن نظر آتی ہے۔ سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں ان کی بہترین صلاحیتوں کا حصہ محض باطل کے پروجیکٹس پر کام کرنے اور تحقیقات میں صرف ہورہا ہے۔ اُن کی خدمات، صلاحیتوں اور خوابوں کو ایک پُرکشش تنخواہ کے عوض خرید لیا جاتا ہے۔ چونکہ اس پورے عمل میں مادی وسائل غیروں کی طرف سے آتے ہیں، اور اعلیٰ اداروں میں ہمارے اسکالروں کے مقاصد کو بروئے کار لاتے ہیں، حالانکہ اس کے بالمقابل دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی غربت اور کسمپرسی کا سامنا کررہی ہے۔ ان میں پائے جانے والے امراض،ضروریات اور سہولیات میں ان تحقیقات اور ایجادات کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ زیادہ تر ریسرچ آج باطل دنیا میں سائنس کے ذریعے اپنی بھرپور حاکمیت (Supermacy) قائم کرنے کے لیے ہورہی ہے۔ اربوں ڈالر کے ایسے پروجیکٹوں پر ہمارے اسکالر کام کرنے پر مجبور ہیں۔ کہاں ہیں اسلامی مقاصد؟ کوئی ڈھونڈ کے بتائے ۔ظلم و ناانصافی کو ختم کرنے کے لیے اسلام کے اہداف موجود ہیں، لیکن آج ظلم و نا انصافی کے منصوبوں پر ہمارے کتنے اسکالر مصروفِ کار ہیں؟
ہماری نئی نسل، دین کے کاموں میں بھی پیش پیش ہے۔مساجد میں حاضری اچھی خاصی ہے۔ مغربی دنیا میں عید ملن اور مشاعروں کے پروگرام ہوتے ہیں، جنھیں ہمارے دین کا شعار سمجھا گیا ہے ۔مغرب کی مساجد خوب صورت ہیں۔ باریش اور عربی لباس میں ملبوس نوجوان درس قرآن بھی دیتا اور امامت بھی کرتا نظر آتا ہے۔ دوسری طرف وہ کسی مغربی یونی ورسٹی میں سائنس یا انجینئرنگ اور میڈیسن کا پروفیسر بھی ہوتا ہے، لیکن ساتھ ہی وہ اپنی علمی اور پروفیشنل زندگی میں غیروں کے مقاصد کی خدمت گزاری کے لیے دل و دماغ کی تمام قوتیں لگادینے میں مصروف ہوتا ہے ۔
آج اسلامی تحریکات کی ذمّہ داری ہے کہ مذکورہ اسلامی اہداف اور اسلامی کاز کے حصول کے لیے وسائل فراہم کرنے کی طرف حکومتوں کو توجہ دلائیں اور ایسے پروجیکٹ تیار کرنے کی حوصلہ افزائی کریں، جو اسلام کے مقاصد کو جِلا بخشنے والے ہوں۔ اسلامی تحریکات کی یہ بھی ذمہ داری ہے کے عوام میں اس شعور کو بیدار کریں کہ عصر حاضر میں احیائے دین کے لیے مختلف حل سوچنے سے پہلے اس تکلیف دہ صورت حال پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ان شاء اللہ راستہ خود نکل آئےگا کہ منزل اب دور نہیں ہے ، مگر اس کے لیے ایمان، عمل، جستجو اور تحقیق کے لیے سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔