قوموں کے عروج و زوال کا قانون ایک مستقل، بے لاگ اور اٹل قانون ہے۔ قومیں اس قانون کے تحت تشکیل، تعمیروشناخت، ترقی و استحکام، عروج و کمال، انحطاط و زوال کے مراحل سے گزرتی ہوئی بالآخر تباہی و خاتمے سے دوچار ہوتی ہیں۔ انسان کے عروج و زوال کا انحصار مادی اور اخلاقی دونوں قوتوں پر ہے۔ اگر بغور دیکھا جائے تو فیصلہ کن قوت اخلاقی قوت ہے، نہ کہ مادی طاقت۔ گویا کسی قوم کی قسمت کے بننے اور بگڑنے میں فیصلہ کن کردار اخلاقی قوت ادا کرتی ہے۔
قوموں کی زندگی میں اخلاق کی اس قدر اہمیت ہے کہ انسان کی نفسانی خواہشات اور فطرتِ صالح میں اگر کوئی قوت توازن پیدا کرتی ہے تو وہ عقل و بصیرت ہے۔ اس کے نتیجے میں انسان میں اعلیٰ اخلاقی اوصاف پروان چڑھتے ہیں جو ایک انسان کو حیوان سے ممتاز کرتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر نفسانی خواہشات انسان پر غلبہ حاصل کرلیں تو اس کی عقل ماری جاتی ہے، اعلیٰ اخلاقی اوصاف و اقدار مٹ جاتی ہیں، اور وہ جانوروں کی سطح سے بھی گر کرگھٹیا حرکات کا ارتکاب کرنے لگتاہے جسے قرآن نے اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ (سب نیچوں سے نیچ)سے تعبیر کیا ہے۔ اعلیٰ اخلاق ہی کسی فرد یا معاشرے میں شجاعت اور استقامت جیسی خوبیوں کو پروان چڑھاتے ہیں اور کسی قوم میں اصولوں کی خاطر قربانی دینے کا جذبہ اور حوصلہ پیدا کرتے ہیں اور وہ بڑے سے بڑے خطرے کا مقابلہ کرسکتی ہے۔ اس کے مقابلے میں اعلیٰ اخلاق سے محروم قوم میں ایسی کمزوریاں پیدا ہوجاتی ہیں جو اسے دوسروں کے لیے تر نوالہ بنا دیتی ہیں۔ اعلیٰ اخلاقی اوصاف کے حامل بلند کردار لوگوں کی کمی واقع ہوجاتی ہے اور قحط الرجال کے نتیجے میں قوم زوال کی طرف تیزی سے گامزن ہوجاتی ہے۔ وہ قوتیں اور توانائیاں جو ملت کی تعمیر میں صرف ہونی چاہییں وہ عیش و عشرت اور تخریبی سرگرمیوں کی نذر ہونے لگتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں انتشار پیدا ہوتا ہے جو قومی وحدت کو پارہ پارہ کردیتا ہے اور بالآخر قوم انحطاط و زوال کے بعد تباہی و بربادی کا شکار ہوجاتی ہے۔
معروف مؤرخ اور فلسفۂ تاریخ کے بانی علامہ ابن خلدون زوال ملک کے اسباب پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’جب حق تعالیٰ کسی قوم سے ملک چھیننا چاہتا ہے، تو اس قوم میں اخلاقِ ذمیمہ اور رذیل عادتیں پیدا کردیتا ہے۔ اس لیے وہ لوگ سیاسی خوبیوں سے محروم ہوجاتے ہیں اور جب یہ حرماں نصیبی بڑھ جاتی ہے تو حق تعالیٰ شانہٗ ان کے قبضے سے ملک نکال لیتا ہے اور کسی دوسری قوم کو دے دیتا ہے تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ ملک سے محرومی اور حکومت کا نکلنا خود ان کے اپنے کرتوتوں کا ثمرہ ہے۔ حق تعالیٰ نے انھیں ملک و عزت کی جو نعمت عطا فرمائی تھی، وہ ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے ان سے سلب کرلی گئی ہے‘‘۔ (مقدمہ ابن خلدون، جلد اول)
معروف مغربی مؤرخ ایڈورڈ گبن نے اپنی کتاب دی فال اینڈ ڈیکلائن آف رومن ایمپائر میں رومی سلطنت کے نابود ہوجانے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’بے راہ روی، بدکرداری، مذہبی تعصب اور کبھی نہ ختم ہونے والی جنگیں اس عظیم ایمپائر کو برباد کرنے میں معاون بنتی رہی ہیں‘‘۔
سید مودودیؒ عروج و زوال کے قانون کے تحت لکھتے ہیں: ’’اللہ رب العزت جو خالق کائنات ہے، اپنی اس سلطنت میں بنائو کو پسند کرتا ہے،بگاڑ کو پسند نہیںکرتا۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کی عطا کردہ صلاحیتوں اور قابلیتوں سے انسان دنیا میں بہتر طریقوں کو فروغ دے۔ وہ اس بات کو ہرگز پسند نہیں کرتا کہ اس کی دنیا بگاڑی جائے، اجاڑی جائے اور اسے بدنظمی سے، گندگیوں سے اور ظلم و ستم سے خراب کرڈالا جائے۔ انسانوں میں سے جو لوگ بھی دنیا کے انتظام کے امیدوار بن کر کھڑے ہوتے ہیں، جن کے اندر بنانے کی زیادہ سے زیادہ صلاحیت ہوتی ہے، انھی کو وہ یہاں انتظام کے اختیارات سپرد کرتا ہے۔ پھر وہ دیکھتا رہتا ہے کہ یہ لوگ بناتے کتنا ہیں اور بگاڑتے کتنا ہیں؟ جب تک ان کا بنائو ان کے بگاڑ سے زیادہ ہوتا ہے، اور کوئی دوسرا اُمیدوار اُن سے اچھا بنانے والا اور ان سے کم بگاڑنے والا میدان میں موجود نہیں ہوتا، اس وقت تک ان کی ساری برائیوں اور ان کے تمام قصوروں کے باوجود دنیا کا انتظام انھی کے سپرد رہتا ہے۔ مگر جب وہ کم بنانے اور زیادہ بگاڑنے لگتے ہیں تو خدا انھیں ہٹا کر پھینک دیتا ہے اور دوسرے امیدواروں کو اسی لازمی شرط پر انتظام سونپ دیتا ہے‘‘۔ (بناؤ اور بگاڑ، ص ۴-۵)
مولانا مودودیؒ ایک اور مقام پر لکھتے ہیں: ’’آج اسی سنت ِالٰہی کا اعادہ پھر ہماری نگاہوں کے سامنے ہو رہا ہے۔ جس شامت اعمال میں پچھلی قومیں گرفتار ہوئی تھیں، اسی شامت نے آج مغربی قوموں کو آن پکڑا ہے۔ جتنی تنبیہیں ممکن تھیں وہ سب ان کو دی جاچکی ہیں۔ جنگ عظیم کے مصائب، معاشی مشکلات، بے کاری کی کثرت [حالیہ عالمی معاشی بحران]، امراضِ خبیثہ کی شدت، نظامِ عائلی کی برہمی، یہ سب کھلی ہوئی روشن آیات ہیں جن سے وہ اگر آنکھیں رکھتے تو معلوم کرسکتے تھے کہ ظلم، سرکشی، نفس پرستی اور حق فراموشی کے کیا نتائج ہوتے ہیں مگر وہ ان آیات سے سبق نہیں لیتے۔ حق سے منہ موڑنے پر برابر اصرار کیے جا رہے ہیں۔ ان کی نظر علتِ مرض تک نہیں پہنچتی۔ وہ صرف آثارِ مرض کودیکھتے ہیں اور انھی کا علاج کرنے میں اپنی ساری تدابیر صرف کر رہے ہیں۔ اسی لیے جوں جوں دوا کی جاتی ہے مرض بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اب حالات کہہ رہے ہیں کہ تنبیہوں اور حجتوں کا دور ختم ہونے والا ہے۔ اور آخری فیصلے کا وقت قریب ہے...
بہرحال اب قریب ہے کہ وراثت ارضی کا نیا بندوبست ہو اور ظالمین و مترفین کے بجاے کسی دوسری قوم کو (جوغالباً مستضعفین ہی میں سے ہوگی) زمین کی خلافت پر سرفراز کیا جائے۔ دیکھنا ہے کہ اس مرتبہ حضرتِ حق کی نظر انتخاب کس پر پڑتی ہے۔
ہمارے پاس یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ آیندہ کون سی قوم اٹھائی جائے گی۔ یہ اللہ کی دین ہے جس سے چاہتا ہے چھینتا ہے اور جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے، قُلِ الّٰلھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآئُ (اٰل عمرٰن ۳:۲۶)۔ مگر اس معاملے میں بھی اس کا ایک قانون ہے جسے اس نے اپنی کتابِ عزیز میں بیان فرما دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک قوم کو جب وہ اس کے بُرے اعمال کی وجہ سے گراتا ہے تو اس کی جگہ کسی ایسی قوم کو اٹھاتا ہے جو اس مغضوب قوم کی طرح بدکار اور اس کے مانند سرکش نہ ہو، وَاِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ثُمَّ لاَ یَکُوْنُوْٓا اَمْثَالَکُمْ (محمد ۴۷:۳۸) ’’اگر تم نے روگردانی کی تو تمھارے بجاے کسی اور قوم کو اٹھائے گا۔ پھر وہ لوگ تمھاری طرح نہ ہوں گے‘‘۔ (تنقیحات، ص ۶۱-۶۶)
امریکا جو نئے عالمی نظام (نیو ورلڈ آرڈر) کا دعوے دار تھا اور سرد جنگ کے خاتمے اور سوویت یونین کے انہدام کے بعد واحد عالمی طاقت کے طور پر اُبھر کر سامنے آیا تھا بالخصوص نائن الیون کے سانحے کے بعد ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ کے نام پر اپنی پوری طاقت کے ساتھ حملہ آور ہوا تھا___ آج اس امریکا کے خلاف پوری دنیا میں نفرت کی ایک لہر پائی جاتی ہے۔ آج وہ خود ’قوموں کے عروج و زوال کے قانون‘ کی زد میں ہے۔
دنیا میں امریکا کے زوال کے تجزیے کیے جا رہے ہیں۔ یہ تجزیے مفکرین اور تجزیہ نگار محض جذبات اور خواہشاتِ نفس کی بنیاد پر نہیں کر رہے، بلکہ اس کے پیچھے امریکی سیاست، ضابطۂ اخلاق، عالمی آمریت اور مذہب سے اس کی لاپروائی کی طویل تاریخ پنہاں ہے۔ اس سوچ بچار میں اضافہ خصوصاً نائن الیون کے سانحے کے بعد ہوا۔ جب جنون کی حالت میں مبتلا ہوکر گذشتہ منتخب صدرجارج بش اپنی عالمی چودھراہٹ اور غنڈا گردی میں یہ سمجھتے ہوئے بہت زیادہ آگے بڑھ گئے تھے کہ زوال ان کے مقدر میں نہیں لکھا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ کل تک بحروبر میں اپنی عظمت و سطوت کا پھریرا لہرانے والی ریاستیں اپنی سیاہ کاریوں اور زمانے کے اُتار چڑھائو کے سبب یا تو دنیا سے ایسی ناپید ہوئیں کہ آج دنیا ان کے آثار و باقیات تک سے ناواقف ہے، یا وہ سمٹ کر اتنی مختصر ہوگئی ہیں کہ عقل ان کا موجودہ جغرافیہ دیکھ کر ہی حیران رہ جاتی ہے۔ تاریخ کی قبل از تحریر قومیں، یعنی قومِ عادو ثمود، قوم فرعون و قومِ نوح وغیرہ وہ قومیں ہیں جن کا نام آج تاریخ کے صفحات میں محض عبرت کے طور پر باقی رہ گیا ہے۔ ایران و روم کی وسیع و عریض سلطنتیں آج سمٹ کر رہ گئی ہیں۔
ماضی قریب کی ایک اور سوپر پاور برطانیہ کی حدود میں سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا، یعنی اگر اس کی ایک نوآبادی میں سورج ڈوبتا تھا تو کسی دوسری نوآبادی میں طلوع ہو جاتا تھا۔ اللہ نے ایک طویل مہلت کے بعد اس کی ایسی پکڑ کی کہ آج وہاں سورج طلوع ہی نہیں ہوتا اور وہ محض ’پیروی کرنے‘ اور ’ہاں میں ہاں ملانے‘ والا ایک ملک بن کر رہ گیا ہے۔
متحدہ روس کا قصہ بھی ہم سے کچھ دُور نہیں ہے۔ محض ۷۰ سال کے مختصر عرصے میں اپنی جھلک دکھا کر ایسا ریزہ ریزہ ہوا کہ آج دنیا کے نقشے پر متحدہ سوویت یونین (USSR) کے نام سے کوئی ریاست موجود ہی نہیں ہے۔
آج امریکا کے زوال کے مختلف اسباب و عوامل زیربحث ہیں، یہاں کچھ کا تذکرہ کیا جا رہا ہے:
مملکتیں ایک لامتناہی اقتدار کے بعد اپنے زوال یا گمشدگی کی راہیں خود ہی ہموار کرتی ہیں۔ دنیا بھر میں اپنی ہیبت و عظمت کا پھریرا لہرا کر وہ اپنے اندر ظلم و تعدّی، ناانصافی، بے رحمی، لوٹ کھسوٹ، قوموں پر بلاوجہ چڑھائی، اندرونِ خانہ طبقاتی کش مکش، زنا و فحاشی کے مادر پدر فروغ اور سود و ربو.ٰ پر مبنی معیشت کے فروغ جیسی سنگین بیماریوں کو مسلسل جنم دیتی اور انھیں استحکام بخشتی ہیں۔ پھر یہ مملکتیں بدی کی اِن تمام جہتوں کو اپنے نظامِ زندگی کا حصہ بنا لیتی ہیں جس کے نتیجے میں وہ اندر ہی اندر سے اس طرح کھوکھلی ہوتی چلی جاتی ہیں کہ قوموں اور حکمرانوں کو اس کا احساس بھی نہیں ہوتا اور وہ ایک طویل دور کے بعد وقت ِ مقررہ پر زمین بوس ہوکر تاریخ کا حصہ بن جاتی ہیں۔
امریکا سے آج دنیا کانپتی ہے اور اس کی ہیبت پوری دنیا پر چھائی ہوئی ہے، لیکن مذکورہ بالا تمام تباہ کن بیماریاں اندر ہی اندر اس میں سرایت کرچکی ہیں۔ دنیا کو غلام بنانے، خصوصاً پس ماندہ مسلم ممالک کے ہرشعبے میں دخل اندازی کرنے کے مستقل امریکی طرزِعمل یا ’دہشت گردی‘ کے نام پر بالخصوص سامراجی عزائم اور عالمی سطح پر دہشت پھیلانے کی روش نے امریکا کو آج دنیا بھر میں قابلِ نفرت ملک بنادیا ہے۔ ادھر یورپ میں بھی امریکی دخل اندازی کے خلاف مضبوط راے عامہ پروان چڑھ رہی ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ یورپی ممالک نے ڈالر کی استحصالی معیشت کے خلاف اپنی نئی مشترکہ کرنسی ’یورو‘ متعارف کرائی ہے۔
خاص طور پر نائن الیون کے بعد ’دہشت گردی‘ کے نام پر جس طرح امریکا نے دنیا کے مروجہ قوانین و ضوابط کی دھجیاں اڑائیں، اپنے مزعومہ مقاصد کے لیے فریب اور جھوٹے پروپیگنڈے کی بنا پر افغانستان اور عراق پر چڑھائی کی، بے دردی سے انسانی خون بہایا اور بڑے پیمانے پر تباہی و بربادی پھیلائی، اس امر نے بھی عالمی ضمیر کو اس جنگ اور امریکا کے کردار کے خلاف آواز اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے۔ آج امریکا دنیا میں امن اور تعمیر سے زیادہ بگاڑ، تخریب اور فساد کا باعث بن رہا ہے، اور یہی چیزیں کسی بھی قوم کے زوال میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
دنیا کی قوموں میں پائی جانے والی یہ مشترکہ نفرت امریکا کے وجود کے لیے ہمیشہ سوالیہ نشان بنی رہے گی اور اس کی سالمیت ہمیشہ دائو پر لگی رہے گی۔ مستقبل قریب میں نظر آنے والے امریکی زوال کا ایک بڑا سبب یہ عالم گیر نفرت بھی ہوگی۔
کوئی بھی قوم اپنے استحکام کے بعد جب اپنی توانائیاں، وسائل اور قوتیں عیش و عشرت، اخلاقی اقدار کی پامالی اور تخریبی سرگرمیوں کی نذر کرنے لگتی ہے تو اخلاقی انحطاط کا باعث بنتی ہے۔ شہوت اور بدکاری کا فروغ اس قوم کی تباہی میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور اس معاشرے کو اندر ہی اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے۔ جنسی بے راہ روی نے انسانوں کو کبھی پنپنے نہیں دیا، جب کہ امریکا میں تو یہ سب سے سوا ہے۔ ان کے ہاں ماں اور بہن کے مقدس رشتے بھی عرصے سے پامال ہو رہے ہیں۔ ۱۰، ۱۲ برس کی نابالغ بچیاں بھی زنا بالرضا یا زنا بالجبر کا شکار ہیں۔
مغربی معاشرے کی مانند امریکا میں بھی صنفِ مخالف کے ساتھ بدکاری کے ساتھ اب مردوں کو اپنے ہی مرد دوستوں اور عورتوں کو اپنی ہی خاتون دوستوں کے ساتھ عصمت دری پر فخر محسوس ہونے لگا ہے۔ ایسے افراد کو Lesbians (لیسبئین) اور Gays (گے)کہا جاتا ہے اور یہ لوگ خود کو بلاجھجک ہم جنس پرست کہہ کر متعارف کراتے ہیں۔ امریکی فوج میں بھی جنسی حیوانیت اب عروج پر ہے۔ مرد فوجی افسران کی جانب سے ماتحت خاتون فوجیوں پر جنسی حملے اب عام بات ہے۔ فوج میں عورتوں کی بے روک ٹوک بھرتی نے فوج کے اخلاق پر منفی اثر ڈالا ہے۔ اس موضوع پر مستند اعداد و شمار اور کتابیں بھی منظرعام پر آنے لگی ہیں۔
’ننگوں کے عوامی کلب‘ کا قیام اس بدکاری کی ایک اور بگڑی ہوئی شکل ہے۔ بدکاری و بے حیائی کی اس سے زیادہ تفصیل بیان کرنے سے قلم کو بھی حیا محسوس ہوتی ہے۔ ان بنیادوں پر معاشرہ آخر کب تک متحد و مضبوط رہ سکتا ہے؟ ماضی میں بھی ’صدوم‘ کا شہر اپنی جنسی بدکاریوں اور عملِ قومِ لوط کی وجہ ہی سے تباہ ہوگیاتھا۔ امریکا کو آج اس کلیے سے استثنا کیسے مل سکتا ہے؟
اخلاقی زوال محض جنسیات اور فحاشی ہی کو نہیں کہا جاتا، بلکہ کذب و افترا اور سفاکی و بے رحمی کو بھی اخلاق و کردار کی موت گردانا جاتا ہے جس میں امریکی حکومتیں کبھی شرم محسوس نہیں کرتیں، جیساکہ عراق پر جنگ مسلط کرنے کے لیے من گھڑت الزامات تراشے گئے، نائن الیون کا قصہ گھڑا گیا اور تاحال اس کی منصفانہ تحقیقات نہیں کروائی گئیں۔ امریکا نے مروجہ عالمی قوانین و ضوابط کو بری طرح پامال کیا، انسانی حقوق کو مجروح کیا، عالمی اداروں خاص طور پر اقوام متحدہ کی ساکھ متاثر کی، گوانتانامو اور ابوغریب جیلوں میں جس بُری طرح انسانیت کی تذلیل کی، یہ سب امریکا کے اخلاقی انحطاط کی واضح علامات ہیں۔
سابق امریکی صدر جمی کارٹر امریکا کے اخلاقی بحران پر تشویش کا اظہار اپنی کتاب: Our Endangered Values: America's Moral Crisisمیں کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: امریکا داخلی انتظامی حوالے سے شدید بحران کا شکار ہے (ص ۲۳)۔ ۳۵ زیادہ آمدنی والے ملکوں میں ہونے والے مجموعی قتلوں سے ۱۹ گنا زیادہ قتل امریکا میں ہوتے ہیں۔ گویا سب سے زیادہ قتل امریکا میں ہوتے ہیں (ص ۲۹)۔ امریکی لڑکیاں فرانسیسی لڑکیوں کے مقابلے میں ۷ گنا زیادہ تعداد میں ایک بچے کی ماں ہیں، جب کہ یہ ایک مرتبہ اسقاطِ حمل کرا چکی ہیں۔ ۷۰ گنا زیادہ لڑکیاں سوزاک کا شکار ہوچکی ہیں۔ اس کے علاوہ جرمنی کے ٹین ایجرز کے مقابلے میں ۵ گنا زیادہ امریکی ٹین ایجرز ایڈز کا شکار ہوتے ہیں (ص ۸۰)۔ جب امریکیوں سے ہم جنسی پرستی کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو ان کی اکثریت اثبات میں جواب دیتی ہے (ص ۳۰)۔ اب طلاق خطرناک حد تک عام ہوچکی ہے۔ تمام امریکی بالغوں میں سے ۲۵ فی صد کو کم از کم ایک مرتبہ طلاق ہوچکی ہے (ص ۷۵)۔ (امریکا کا اخلاقی بحران، جمی کارٹر، مترجم: محمد احسن بٹ، دارالشعور، لاہور)
خارجہ پالیسی میں انتہاپسندانہ رویہ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں انسانی حقوق کی پامالی پر مذمت کرتے ہوئے وہ امریکا کی بقا کے لیے مشورہ دیتے ہیں کہ امریکا کو ایسا مرکز بننا چاہیے جس کے گرد جمع ہوکر دنیا کے سارے ملک سلامتی اور ماحول کو لاحق خطرات سے لڑیں۔ ہمیں ضرورت مند لوگوں کو انسانی امداد مہیا کرنے میں سب سے آگے ہونا چاہیے (ایضاً، ص ۱۸۳)___ مگر امریکا کی روش اور حقیقت سب پر عیاں ہے کہ وہ تباہی کی کس راہ پر گامزن ہے۔
کسی بھی قوم کے زوال میں خاندانی نظام کی تباہی کا بھی نمایاں کردار ہوتا ہے۔ امریکا کی تباہی میں ایک دوسرا سبب اس کے خاندانی نظام کی تباہی ہے۔ پورے مغرب کی طرح امریکا میں خاندان یک جا و متحد نہیں ہے۔ حالانکہ خاندان کی مضبوطی ہی سے معاشرے اور ملک مضبوط ہوتے ہیں۔ پیسے کی اندھا دھند ہوس اور خاندانی ذمے داریوں سے فرار، بے پناہ مصروفیات، شہوت اور جنسیت، نیز ناجائز بچوں کی بھرمار نے ان کے اندر باپ بیٹے، میاں بیوی اور دیگر خونی رشتوں کی تقدیس ختم کر کے رکھ دی ہے۔ خاندان کے خاندان بکھر چکے ہیں اور کوئی کسی کا سہارا بنتا ہوا نظر نہیں آتا۔ جس کو جو کرنا ہے، وہ خود کرے یا حکومت اس کی کفالت کرے۔
ہرشخص سمجھتا ہے کہ وہ کیوں کسی کا بوجھ اٹھائے، خواہ وہ اس کی بیٹی اور ماں ہی کیوں نہ ہو۔ بڑی عمر کے والدین بھی انھی بنیادوں پر ان کے لیے بوجھ بن گئے ہیں اور اِس ’بیکار حیثیت‘ میں امریکی اپنے بزرگوں کے مسائل میں حصہ دار بننے کو تیار نہیں ہیں۔ اسی وجہ سے پوری امریکی قوم نے بزرگوں کے لیے ’اولڈ ہائوسز‘ کو ایک قطعی ضرورت کے طور پر لازم سمجھ لیا ہے۔ زندگی کو ’ٹھیک ٹھاک‘ طور پر گزارنے کے لیے ماں اور باپ دونوں کو ملازمت کی ضرورت ہے، اس لیے تھوڑی بہت پیدا ہونے والی جائز و ناجائزاولاد کے لیے بھی ان میں سے کسی کے پاس وقت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’اولڈ ہائوسز‘ کے ساتھ ’بے بی ڈے کیئر‘ مراکز بھی امریکی معاشرے کا ایک لازمی حصہ بن چکے ہیں۔ اصل خاندان کے بدلے اب حکومت ان کا خاندان بننے کی کوشش کر رہی ہے جس کے نتیجے میں حکومت پر غیرضروری مالی دبائو کا اضافہ ہو رہا ہے۔ انھی وجوہات کی بنیاد پر امریکا میں خودکشیوں کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔ محبت، شفقت، سہارے اور دکھ درد میں شرکت کے بغیر آخر کوئی کب تک زندہ رہ سکتا ہے؟ حد سے زیادہ بے رحم معاشرے میں پھر خودکشیاں ہی جنم لے سکتی ہیں۔ یہ تمام عوامل کسی ملک کے استحکام کے خلاف ایک بڑا خطرہ سمجھے جاتے ہیں۔
مغرب کو ہلاکت اور تباہی کی طرف لے جانے والا ایک اہم پہلو قطع نسل، یعنی آبادی کم کرنے کا رجحان ہے۔ پورا مغرب مالتھس کے نظریۂ آبادی کا مارا ہوا ہے اور جگہ اور غذا کی قلّت کے احمقانہ خوف سے اپنی شرحِ پیدایش کو جنون کی حد تک کم کرتا چلا جا رہا ہے۔ امریکا بھی ان ممالک میں سے ایک ہے جن کی آبادی کم ہوتی چلی جارہی ہے۔ اپنے ریاستی امور چلانے کے لیے اسے آج افرادی قوت کی قلت کا سامنا ہے۔ معمر افراد کی تعداد وہاں بڑھ رہی ہے، جب کہ نوجوانوں کا تناسب گھٹتا جا رہا ہے۔ یورپ اور امریکا میں غیرملکی افراد اور آبادی کا تناسب بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ تارکینِ وطن کی بڑھتی ہوئی تعداد ان کے لیے تشویش کا باعث بنتی جارہی ہے۔
سابق ری پبلکن صدارتی امیدوار، اور گذشتہ تین صدور کے مشیر پیٹرک جے بکانن نے بھی مقامی آبادی کے مسلسل گھٹنے اور مسلم آبادی کے پیہم بڑھنے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اپنی کتاب Death of The West میں اس نے اعداد و شمار کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ ان حالات میں مغرب اپنی موت کو خود دعوت دے رہا ہے۔ بکانن نے امریکا کے بارے میں بھی زور دے کر کہا ہے کہ اب امریکیوں کو بھی خود اپنی بقا کا مسئلہ درپیش ہے۔
امریکا اور یورپ کے دانش وروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مقامی آبادی کی قلت اور مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث یورپ اور امریکا کے بعض شہر ازخود مسلم شہروں میں تبدیل ہوجائیں گے۔ ان ممالک کی مقامی و مرکزی حکومتوں میں مسلم ورزا کا تقرر پہلے ہی ہونے لگا ہے۔ امریکی سرکاری اداروں حتیٰ کہ اس کے دفاعی شعبوں میں بھی آج لاتعداد مسلمان اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں، جب کہ نجی و کاروباری شعبوں کے لحاظ سے تو کہنا چاہیے کہ دنیا بھر سے آنے والے مسلمان ہی ان شعبوں کو چلا رہے ہیں۔ اپنی آبادی کی قلت کے باعث امریکا مجبور ہے کہ وہ باہر سے درآمد شدہ مسلم کارکنوں کو اپنے ہاں کھپائے ورنہ اس کا نظام تلپٹ ہوجائے گا۔ انسانی کوششیں ناکامی کا منہ دیکھ سکتی ہیں لیکن فطرت کی خاموش کارروائیاں اپنے اثرات چھوڑے بغیر نہیں رہتیں اس لیے کہ فطرت کی سزائیں تو ہمیشہ ہی بے رحم ہوتی ہیں۔ بقول اقبال ع
حذر اے چیرہ دستاں بہت سخت ہیں فطرت کی تعزیریں
یھود کا اثر ورسوخ اور عیسائی دشمنی
امریکا کے زوال کی ایک اور اہم وجہ یہودیوں کی وہ ازلی فطرت ہے جس کے تحت ان کے دلوں میں عیسائیوں کے خلاف بدترین کینہ و انتقام موجود ہے۔ عیسائیوں نے گذشتہ ۲ ہزار برسوں میں انھیں ہر مقام پر ناقابلِ تصور طور پر ظلم و تشدد سے دوچار کیا ہے (کیونکہ وہ انھیں اپنے پیغمبر کا قاتل گردانتے ہیں)۔ یہودی مذہبی کتابوں تالمود وغیرہ میں عیسائیوں کے خلاف یہودیوں نے صاف صاف احکام درج کیے ہیں کہ انھیں جہاں پایا جائے، قتل کردیا جائے اور زمین کو ان سے پاک کردیا جائے۔ اس لیے اس وقت بظاہر ان کے ساتھ دوستی کا رویہ رکھتے ہوئے بھی (جسے وہ اپنے تقیے کے لحاظ سے جائز قرار دیتے ہیں) یہودی انھیں تاراج کرنے کے اپنے خفیہ منصوبوں پر عمل پیرا رہتے ہیں۔
ٹوئن ٹاورز امریکا پر نائن الیون کے بدترین حملے کا واقعہ بھی آہستہ آہستہ اب ساری دنیا پر اپنی حقیقت آشکار کرتا جا رہا ہے۔ خود امریکی و مغربی مصنفین کہنے لگے ہیں کہ یہ حملہ سراسر ایک اسرائیلی سازش تھی جس کے ذریعے وہ ایک طرف مسلمانوں کو اور دوسری طرف خود امریکا کو بھی نقصان پہنچانا چاہتا تھا۔ امریکا میں اب ایسی کئی کتابیں منظرعام پر آرہی ہیں جن کے مصنفین نائن الیون کی اس سازش کو کھلے عام یہودیوں سے منسوب کر رہے ہیں۔ ریگن انتظامیہ کے دور کے اسسٹنٹ سیکرٹری آف ٹریژر ڈاکٹر پاول رابرٹس نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ۱۱ستمبر کو ہونے والا حملہ بش انتظامیہ کے عہدے داروں، امریکی سی آئی اے اور اسرائیلی موساد کی مشترکہ کارستانی کا نتیجہ تھا جس کا مقصد عرب ممالک کو اپنا مطیع بنانا اور افغانستان و عراق پر کارروائی کا جواز پیدا کرنا تھا۔
ایڈمرل تھامس مُورر نے یہ حیران کن بات بھی کہی کہ ’’اگر امریکی عوام کو یہ علم ہوجائے کہ ہماری حکومت پر اسرائیلی گماشتوں کی گرفت کس قدر مضبوط ہے، تو وہ اُن کے خلاف بغاوت پر اُتر آئیں۔ ہمارے شہریوں کو تو علم ہی نہیں ہے کہ (اندرونِ خانہ ہماری حکومتوں میں) کیا ہو رہا ہے؟ سابق سینیرایڈوائزر اسٹینلے ہلٹن نے بھی یہ بات اس انداز سے کہی ہے کہ ان لوگوں کا ایک ایسا واضح ایجنڈا ہے جو ہمارے ملک کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ (ملاحظہ فرمائیں، ویب سائٹ:rense.com)
امریکا کے ایک اور معروف فلسفی اور اسرائیلی و امریکی حکومتوں کے ناقد پروفیسر نوم چومسکی نے امریکا کو ’دنیا کا سب سے بڑا دادا گیر ملک‘قرار دیا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ ویت نام میں امریکی جارحیت ۲۰ویں صدی کی سب سے بڑی جارحیت تھی۔ اس نوع کے تبصرے اس نے اپنی بہت زیادہ فروخت ہونے والی کتاب دی روگ اسٹیٹ میں کیے ہیں۔
ایک اور اہم سبب جس کے تحت امریکا کا زوال دیوار پر لکھا ہوا نظر آرہا ہے،وہ حالیہ برسوں میں اس کی پایدار و مضبوط معیشت کا بدترین بحران سے دوچار ہونا ہے۔ معیشت کے منفی اثرات کے تحت وہاں کے ایک دو بڑے بنک بھی دیوالیہ ہوگئے ہیں، جب کہ ایک سے زائد بین الاقوامی کارپوریشنوں نے اپنے کاروبار کو محدود کرکے ہزاروں ملازمین کو ان کے کاموں سے فارغ کردیا ہے۔ بل گیٹس کی عالمی سوفٹ ویئر کمپنی نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ ہزاروں ملازمین کا بوجھ مزید برداشت کرنے کے قابل نہیں رہی ہے۔ امریکا میں مکانوں کی قیمتوں میں تیزی سے زوال آیا ہے لیکن اس کمی کے باوجود وہاں لوگوں میں مکانات خریدنے یا اس کاروبار میں سرمایہ کاری کرنے کی ہمت نہیں ہے۔ امریکی معیشت کے اس ناگہانی ہچکولے نے پوری دنیا کو چونکا کے رکھ دیا ہے اور عالمی مفکرین پیش گوئی کرنے لگے ہیں کہ اس کا لازمی نتیجہ ملک کے عدم استحکام کی شکل میں سامنے آئے گا۔ خود امریکی نیشنل انٹیلی جنس نے بھی واضح کیا ہے کہ امریکا کو درپیش چیلنجوں میں جاری معاشی بحران سب سے بڑا خطرہ ہے۔ نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائرکٹر ڈینئیس بلیئر نے سینیٹ میں بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی معاشی بحران اور اس کے نتیجے میں ممکنہ طور پر بھڑک اٹھنے والی عدمِ استحکام کی آگ، امریکا کے لیے انتہائی فوری نوعیت کا خطرہ بن گئے ہیں۔ اس بیان سے امریکا کی ساکھ کے لیے طویل المدت خطرے کی اہمیت بھی اجاگر ہوتی ہے۔ (روزنامہ جنگ، کراچی، ۱۴ فروری ۲۰۰۹ء)
ایک اور رپورٹ کے مطابق بے روزگاری اور ملازمتوں سے فارغ کرنے کا اعلان امریکا میں اس قدر معمول بن گیا ہے کہ امریکی صدر اوباما نے میڈیا سے گفتگو کرنے سے قبل مائیکروسوفٹ اور دیگر پانچ ممتاز امریکی کمپنیوں کا نام لے کر بتایا تھا کہ یہ کمپنیاں ایک ہی دن میں کئی ہزار افراد کو ملازمتوں سے فارغ کرنے کا اعلان کرچکی ہیں، جب کہ معیشت میں ابھی مزید بدحالی آنے کا امکان ہے اور اس کا کوئی حل بھی تاحال پیش نہیں کیا جاسکا ہے۔ کاروباری گہماگہمی والے علاقوں میں ایسی دکانیں اور دفاتر مسلسل نظر آنے لگے ہیں جن پر ’کرایے کے لیے خالی‘ کے بورڈ لگے ہوئے ہیں۔ مکانات اور پراپرٹی کی قیمتوں میں بھی نمایاں کمی آئی ہے اور مزید کمی کے آثار بھی نظرآرہے ہیں، جب کہ خریداروں کا ملنا مشکل نظر آرہا ہے۔ ماہرین کے مطابق ۲۰۰۹ء کا سال بھی امریکی کمپنیوں اور کاروبار کے لیے مایوسیوں اور ناکامیوں کا سال ثابت ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔
ادھر روسی صدر پیوٹن نے خود امریکا ہی کو اپنی معیشت کی تباہی کا ذمے دار ٹھیرایا ہے۔ انھوں نے سابق امریکی انتظامیہ (بش اور اس کی کابینہ) پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ سال (۲۰۰۸ء) میں کونڈولیزارائس نے دعویٰ کیا تھا کہ امریکا ایک بہت مضبوط اور محفوظ معاشی طاقت ہے، تاہم گذشتہ ۶ماہ میں وال اسٹریٹ سے بڑے بڑے مالیاتی امریکی اداروں کا غائب ہوجانا امریکی غلطیوں کا واضح ثبوت ہے۔
روس کے بکھر جانے کے عمل میں دیگر بہت سے عوامل کے علاوہ اس کی زوال سے دوچار معیشت بھی تھی جس نے وہاںکے کروڑوں افراد کو اپنے حکمراں گروہ کے خلاف سڑکوں پر آنے پر مجبور کر دیا تھا۔ جنگ ِ عظیم دوم کے بعد برطانوی معیشت بھی بُری طرح ڈوب چکی تھی، اس لیے برطانیہ نے بھی مقبوضہ نوآبادیات کا بوجھ اپنے سروں سے اُتار پھینکنا شروع کر دیا تھا اور یوں اپنی سلطنت کو اُس کی ابتدائی حدود میں سمٹ جانے پر مجبور کر دیا تھا۔ ملک کی سالمیت یا عدمِ سالمیتکی صورتِ حال میں معیشت کے اہم کردار کو کبھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
عراق اور افغانستان کو اپنا باجگزار بنانے کی خاطر امریکا نے گذشتہ چند عشروں سے ان ممالک پر جو جنگیں مسلط کی ہوئی ہیں، ان پر اٹھنے والے بھاری اخراجات نے بھی امریکی معیشت پر کاری ضرب لگائی ہے۔ اس وقت تک امریکی بجٹ کے ارب ہا ڈالر اس بے مقصد جنگ کی نذر ہوچکے ہیں جو اگر ملک کے اندر صرف ہوتے تو وہاں اِس قدر تیزی سے زوال نہ آتا۔
دوسری طرف معاشرے میں کریڈٹ کارڈز کے بڑھتے ہوئے فیشن نے بھی امریکیوں کو کنگال کردیا ہے۔ ’جیب میں کچھ نہ ہو، اور سب کچھ خرید لو‘ کے دھوکے نے پورے امریکی معاشرے کو کئی عشروں سے جکڑا ہوا ہے۔ ’قرض کی اس مے‘ کو آخرکار کبھی نہ کبھی رنگ لانا ہی تھا۔ سو اس کے اثرات اب ظاہر ہونے لگے ہیں۔ سود کے بے رحمانہ نظام کے باعث بھی ہر امریکی گردن تک شکنجے میں جکڑا ہوا ہے اور پورے معاشرے کی دولت سمٹ کر ۲، ۳ فی صد بنکاروں کے ہاتھوں میں مرتکز ہورہی ہے۔ گردشِ زر جو معیشت میں دورانِ خون کا درجہ رکھتی ہے، سود اسے مفلوج کردیتا ہے اور اسی لیے اسلام نے اسے حرام قرار دیا ہے۔ یہودیت میں بھی کم از کم باہمی طور پر تو سود کو شرعاً حرام ہی ٹھیرایا گیا ہے۔ ہماری روزمرہ زندگی میں بھی سودی قرضوں کے باعث اشخاص انفرادی طور پر اور کاروباری ادارے اجتماعی طور پر تباہ و برباد ہوتے دیکھے گئے ہیں۔ پاکستان بھی غیرملکی سودی قرضوں کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہونے کے باعث استعماری طاقتوں کا مُہربلب غلام بننے پر مجبور ہے۔
صحافی رابرٹ سیموئیل نے امریکی ہفت روزہ نیوزویک کے شمارے میں لکھا ہے کہ دو سال قبل کوئی بڑے سے بڑا ماہر بھی ان حالات کی پیشین گوئی نہیں کرسکتا تھا۔ لوگوں کو عیش و عشرت کی جو عادت پڑی ہوئی ہے، اسے اب دوبارہ نہیں لایا جاسکتا۔ وہ کہتا ہے کہ امریکیوں کا اصل مسئلہ ان کا آسایشوں کا عادی ہونا ہے۔ آسایشیں ان کے لیے ’بنیادی ضرورت‘ کا درجہ اختیار کرگئی ہیں۔
امریکی معیشت کی خرابی کا مزید امکان اس وجہ سے بھی ہے کہ امریکیوں کو اب ٹیکسوں میں مہیب اضافے کے خطرات کا بھی سامنا ہے۔ کانگریس کے بجٹ آفس کے تخمینوں کے مطابق موجودہ (ملازمتی) فوائد کو اگر جوں کا توں بھی رکھا جائے، تب بھی ۲۰۳۰ء تک ٹیکسوں میں ۵۰ فی صد تک کا اضافہ کرنا تو ناگزیر ہی ہوگا۔ (بحوالہ معارف فیچر سروس، کراچی، یکم جنوری ۲۰۰۹ء)
معروف امریکی جریدے نیوزویک کے ایڈیٹر فریدزکریا نے بھی امریکی زوال پر ایک کتاب دی پوسٹ امریکن ورلڈ لکھی ہے جس میں اس نے اس راے کا اظہار کیا ہے کہ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ امریکا کے مقابلے میں چین، بھارت، برازیل، روس، جنوبی افریقہ اور کینیا جیسے ممالک معاشی طور پر نہایت تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔ دنیا کی بڑی بڑی عمارتیں، بڑے بڑے ڈیم، سب سے زیادہ کاروبار کرنے والی فلمیں، موبائل فون، کاریں، کمپیوٹر پروگرامز، سب کے سب امریکا سے باہر ہی بن رہے ہیں۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ اب صرف امریکا ہی واحد طاقت نہیں رہا ہے بلکہ طاقت کے یہ مراکز اب امریکا سے کہیں باہر منتقل ہو رہے ہیں اور یہی امریکا کا زوال ہے (ص ۸)۔ وہ کہتا ہے کہ ’’بہت سے تبصرہ نگاروں اور ماہرین نے دنیا کی اس نئی ظاہر ہونے والی طاقت کو دیکھ کر نتیجہ اخذ کیا ہے کہ امریکا کے دن اب گنے جاچکے ہیں۔ کسی بھی ملک میں تنزل کی رفتار اتنی زیادہ تیز نہیں دیکھی گئی جتنی تیزامریکا میں دیکھی گئی ہے (ص ۴۱، ۴۸)۔ فرید زکریا نے امریکا کے عالمی کردار پر بصیرت افروز تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’امریکا نے دنیا کو تو عالم گیر بنا دیا لیکن بدقسمتی سے وہ خود اپنے آپ کو عالم گیر بنانا بھول گیا‘‘۔ (ص ۴۹)
اپنے تجزیے کے آخر میں وہ لکھتا ہے کہ دنیا زیادہ عشروں تک یک قطبی (unipolar) نہیں رہے گی بلکہ ایک دن اچانک بدل جائے گی اور کئی نئی طاقتیں اُبھر کر سامنے آجائیں گی۔ امریکا، اگر پرچار کسی ایک چیز کا کرتا ہے اور عمل کسی دوسری چیز پر کرتا ہے، تو ایسا طرزِعمل قول و فعل کے تضاد پر مبنی ہے جو امریکا کی ساکھ کو نقصان پہنچانے والا ہے۔ امریکا کو اپنی سوچ میں وسعت پیدا کرنی چاہیے اور طاقت کے غیرضروری استعمال سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ اس سے اس کی مخالفت میں اضافہ ہوگا۔ امریکا کو جس قسم کے بین الاقوامی چیلنج درپیش ہیں، ان کا تقاضا ہے کہ وہ دشمنوں میں اضافہ کرنے کے بجاے دوستوں کی تعداد میں اضافہ کرے۔ (فی الوقت) دنیا میں اس کے دوستوں کی تعداد کم ہورہی ہے، جب کہ اس کے مخالف اور دشمن بڑھ رہے ہیں۔ وہ ایک ایسی دنیا کے بارے میں سوچ رہے ہیں جہاں امریکا کا کوئی کردار نہ ہو، یعنی دنیا امریکا کے بغیر ہو (اختتامی صفحات) ___ اوباما کی افغانستان اور پاکستان کے بارے میں حالیہ پالیسی سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے امریکا نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا اور وہ اپنے مخالفین میں اضافے اور اپنی تباہی پر تُلا بیٹھا ہے۔
ایک روسی دانش ور اور سفارت کار ایگورپینارین (Igor Panarin) نے بھی ۱۹۹۸ء میں پیشین گوئی کی تھی کہ ۲۰۱۰ء تک امریکا ۴ حصوں میں ٹوٹ جائے گا لیکن اس وقت اس کی پیشین گوئی پر کان نہیں دھرے گئے، جب کہ اب اس کی فراست و بصیرت کی تحسین کی جارہی ہے۔ پینارین کے بقول: اقتصادی بحران، بڑے پیمانے پر نقل مکانی اور اخلاقی انحطاط کے نتیجے میں سول وار ہوگی اور ڈالر کی قیمت گر جائے گی۔ اس کے نتیجے میں ۲۰۱۰ء تک امریکا، ۶ آزاد ریاستوں میں تقسیم ہوجائے گا۔ کیلی فورنیا جمہوریہ کیلی فورنیا بن جائے گا اور چین کے زیراثر آجائے گا۔ ٹیکساس جمہوریہ ٹیکساس بن جائے گا جو میکسیکو کے زیراثر چلا جائے گا۔ واشنگٹن ڈی سی اور نیویارک اٹلانٹک امریکا کا حصہ ہوں گے جو یورپی یونین میں بھی شامل ہوسکتا ہے۔ سنٹرل نارتھ امریکا جمہوریہ کینیڈا کی عمل داری میں ہوگا۔ جمہوریہ ہوائی چین یا جاپان کے مفادات کو پیش نظر رکھے گا، جب کہ الاسکا روس میں شامل ہوجائے گا۔ یہ ماضی میں بھی روس کا حصہ رہا ہے۔
دسمبر ۲۰۰۸ء میں معروف امریکی جریدے وال اسٹریٹ جرنل میں روسی فلاسفر آئیگور نکول وچ نے اسی پیشین گوئی کو دہرایا کہ ۲۰۱۰ء میں امریکا کے ۶ ٹکڑے ہوجائیں گے۔ دوسری طرف ماہرین کے تجزیوں اور عالمی سرووں کے مطابق حالیہ مالیاتی بحران سے امریکا کا سنبھلنا ممکن نظر نہیں آتا بلکہ اس سال کے آخر میں بحران سنگین تر ہوجائے گا۔ رئیل اسٹیٹ صنعت کے اُبھرنے کے امکانات نظر نہیں آرہے، لوگوں میں خریدنے یا کرایے پر لینے کی سکت نہیں، لاکھوں افراد بے روزگار ہوچکے ہیں، لوگ کاروباری مراکز کرایے پر لینے کے لیے تیار نہیں۔ لہٰذا امریکا کا مستقبل مخدوش ہے۔
مندرجہ بالا حقائق اور اعداد و شمار سے یہ حقیقت بہت واضح طور پر اُبھر کر سامنے آرہی ہے کہ امریکا اپنے زوال کی طرف گامزن ہے۔ اگرچہ روسی اسکالر نے امریکا کے ٹوٹ جانے کی پیشین گوئی محض ۲۰۱۰ء کی ہے لیکن ضروری نہیں ہے کہ یہ حادثہ فی الفور وقوع پذیر ہوجائے۔ ایک قدیم و مستحکم ملک کو منتشر ہوتے ہوئے بھی ۱۰، ۲۰ سال کا عرصہ مزید لگ سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا کو زوال سے دوچار کرنے میں خود اس کی اپنی پالیسیاں اور عوامل نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس کی ان پالیسیوں پر خود امریکا میں بھی علمی حلقوں اور عوامی سطح پر احتجاج کیا جا رہا ہے۔ اگر وہ اپنی روش نہیں بدلتا اور مجموعی طور پر دنیا میں فساد اور بگاڑ ہی کا باعث بنتا ہے تو خدا کے قانون کے تحت زوال اس کا مقدر ہے۔ دنیا میں اُبھرتی ہوئی نئی قوتیں اس تبدیلی کی نشان دہی بھی کر رہی ہیں۔ امریکا کے نئے عالمی نظام کی ناکامی سے ایک ایسے منصفانہ عالمی نظام کی پیاس بھی بڑھ رہی ہے جو انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے، امن و امان کا ضامن بن سکے اور انسان دنیا میں چین کی زندگی گزار سکے۔ یقینا اس حوالے سے اسلام کو نظریاتی برتری حاصل ہے اور وہ ایک متبادل عالمی نظام کے خلا کو پُر کرسکتا ہے مگر عالمِ اسلام کو اس مقام کے حصول کے لیے ابھی بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ عالمی امن کا ’ضامن‘ تو اسلام ہی ہے اور اسے ہی بالآخر غالب آنا ہے، اور اس طرف پیش رفت بھی ہو رہی ہے، تاہم وقتی ضرورت کی تکمیل کے لیے خدا کی طرف سے عارضی نظام کا قیام ناگزیر ہے۔