سوال: ۱- اسلام کے قانون و اصول قطعی طور پر ناقابلِ تجزیہ ہیںیا کچھ گنجایش ہے؟ مثلاً اگر حکومت اجراے حدود کا قانون پاس کردے اور جج حضرات ان قوانین کے عملی نفاذ کے مجاز ہو جائیں لیکن معاشرے کی حالت یہی رہے جو اَب ہے اور اصلاح معاشرہ کے لیے کوئی قانون نافذ ہی نہ کیا جائے، تو اس صورت میں شرعی ثبوت کے بعد رجم اور حد کی سزا ظلم ہوگی یا نہیں؟...
۲-کیا حکومت کو اصلاح معاشرہ کے لیے اجراے حدود کو کچھ مدت کے لیے ملتوی رکھنا چاہیے اور احکامِ اسلامی کے اجرا میں کسی خاص ترتیب کو ملحوظ رکھنا چاہیے؟...
جواب: اس وقت اگر کوئی مسلمان حکومت اسلام کے تمام احکام و قوانین اور اس کی ساری اصلاحی ہدایات کو معطل رکھ کر اس کے قوانین میں سے صرف حدودِ شرعیہ کو الگ نکال لے اور عدالتوں میں ان کو نافذ کرنے کا حکم دے دے تو جو قاضی یا جج کسی زانی یا سارق یا شارب خمر پر حد جاری کرنے کا حکم دے گا وہ تو ظالم نہیں ہوگا، البتہ وہ حکومت ضرور ظالم ہوگی جس نے شریعت ِ الٰہیہ کے ایک حصے کو معطل اور دوسرے حصے کو نافذ کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں ایسی حکومت کو اُس آیتِ قرآنی کا مصداق سمجھتا ہوں جس میں فرمایا گیا ہے:
اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَ تَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَآئُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلَّا خِزْیٌ فِیْ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلٰٓی اَشَدِّ الْعَذَابِ (البقرہ ۲:۸۵) کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو؟ پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں، ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہوکر رہیں اور روزِ قیامت وہ شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیے جائیں گے۔
میں یہ تسلیم نہیں کرتا کہ جو حکومت خود شراب بنانے اور بیچنے کے لائسنس دیتی ہو اور جس کی تقریبات میں خود حکومت کے کارفرما اور ان کے معزز مہمان شراب سے شغل کرتے ہوں ان کے قانون میں اگر شارب خمر کے لیے ۸۰ کوڑے لگانے کی سزا مقرر کر دی جائے تو ہم اُسے اسلامی قانون نافذ کرنے والی حکومت کہنے میں حق بجانب ہوں گے۔ میں یہ نہیں مانتا کہ ایک طرف عورتوں اور مردوں کے آزادانہ اختلاط کو رواج دینا، لڑکوں اور لڑکیوں کو ایک ساتھ کالجوں میں پڑھانا، عورتوں سے سرکاری دفاتر میں مردوں کے ساتھ کام لینا، ننگی تصویروں اور عریاں فلموں اور فحش لٹریچر کی بے روک ٹوک اشاعت جاری رکھنا، ۱۶ سال سے کم عمر کی لڑکی اور ۱۸ سال سے کم عمر کے لڑکے کا نکاح قانوناً ممنوع ٹھیرانا، اور دوسری طرف زنا پر رجم اور کوڑوں کی سزا دینا فی الواقع اسلامی قانون کا اجرا ہے۔ مجھے یہ ہرگز تسلیم نہیں ہے کہ سود اور قمار کو حلال کرنے والی اور ان محرمات کو خود رواج دینے والی حکومت چوری پر ہاتھ کاٹنے کا قانون نافذ کر کے اسلامی قانون نافذ کرنے والی حکومت قرار دی جاسکتی ہے۔ اگر کوئی عالمِ دین اس متضاد طرزِ عمل کے جواز کے قائل ہوں اور ان کے نزدیک شریعت کے ٹکڑے کرنا اور اس کے اجزا میں سے بعض کو ترک اور بعض کو اخذ کرلینا ظلم نہیں بلکہ ایک نیکی ہو تو وہ اپنے دلائل ارشاد فرمائیں۔
دراصل یہ مسئلہ محض اس سادہ سے قانونی سوال پر بحث کر کے حل نہیں کیا جاسکتا کہ موجودہ حالات میں شرعی حدود کا نفاذ جائز ہے یا نہیں۔
اللہ اور اس کے رسولؐ نے ہم کو محض احکام ہی نہیں دیے ہیں بلکہ ان کے ساتھ کوئی حکمت بھی سکھائی ہے جس سے کام لے کر ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ایک مدتِ دراز تک کفروفسق کی فرماں روائی کے تحت رہنے کے بعد ہمارے ملک میں جو حالات پیدا ہوچکے ہیں ان میں اقامت ِ دین کا کام اب کس طرح ہونا چاہیے۔ جہاں تک میں نے شریعت کو سمجھا ہے اس کے نظام میں اصلاح، سدِّباب ذرائع اور تعزیر کے درمیان ایک مکمل توازن قائم کیا گیا ہے۔ ایک طرف وہ ہر پہلو سے تزکیۂ اخلاق اور تطہیر نفوس کی تدابیر ہمیں بتاتی ہے، دوسری طرف وہ ایسی ہدایات ہمیں دیتی ہے جن پر عمل درآمد کر کے ہم بگاڑ کے اسباب کی روک تھام کرسکتے ہیں، اور تیسری طرف وہ تعزیرات کا ایک قانون ہمیں دیتی ہے تاکہ تمام اصلاحی و انسدادی تدابیر کے باوجود اگر کہیں بگاڑ رونما ہوجائے تو سختی کے ساتھ اس کا تدارک کر دیا جائے۔ شریعت کا منشا اس پوری اسکیم کو متوازن طریقے سے نافذ کر کے ہی پورا کیا جاسکتا ہے۔ اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے اس کے کسی جز کو ساقط اور کسی کو نافذ کرنا حکمت ِ دین کے بالکل خلاف ہے۔
اس کے جواز میں یہ استدلال نہیں کیا جاسکتا کہ جس جز کو ہم نافذ کر رہے ہیں اس کے نفاذ کا حکم قرآن میں موجود ہے۔ اس استدلال کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے ایک حکیم کا مرتب کردہ نسخہ کسی اناڑی کے ہاتھ آجائے اور وہ اس کے بہت سے اجزا میں سے صرف دوچار اجزا نکال کر کسی مریض کو استعمال کرائے اور اعتراض کرنے والے کا منہ بند کرنے کے لیے یہ دلیل پیش کرے کہ جو اجزا میں استعمال کرا رہا ہوں وہ سب حکیم کے نسخے میں درج ہیں۔ اس کی اس دلیل کا جواب آخر آپ یہی تو دیں گے کہ بندئہ خدا حکیم کے نسخے میں جو مصلحات اور بدرقے [معاون ادویات] درج تھے ان سب کو چھوڑ کر تو صرف سمیّات [زہریلی چیزیں] مریض کو استعمال کرا رہا ہے اور نام حکیم کا لیتا ہے کہ میں اس کے نسخے سے علاج کر رہا ہوں۔ حکیم نے تجھ سے یہ کب کہا تھا کہ تو میرے نسخے میں سے جس جز کو چاہے چھانٹ کر نکال لے اور جس مریض کو چاہے کھلا دے۔
اس کے ساتھ یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ شریعت آیا اپنے نفاذ کے لیے مومن و متقی کارکن چاہتی ہے یا فاسق و فاجر لوگ اور وہ لوگ جو اپنے ذہن میں اس کے احکام کی صحت کے معتقد تک نہیں ہیں؟ اس معاملے میں بھی محض جواز اور عدمِ جواز کی قانونی بحث مسئلے کا فیصلہ کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ مجرد قانونی لحاظ سے ایک کام جائز بھی ہو تو یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ حکمتِ دین کے لحاظ سے وہ درست بھی ہے یا نہیں۔ کیا حکمتِ دین کا یہ تقاضا ہے کہ احکامِ شرعیہ کا اجرا ایسے حکام کے ذریعے سے کرایا جائے جن کی اکثریت رشوت خور، بدکردار اور خدا و آخرت سے بے خوف ہے، اور جن میں ایک بڑی تعداد عقیدتاً مغربی قوانین کو برحق اور اسلامی قوانین کو غلط اور فرسودہ سمجھتی ہے؟ میرے نزدیک تو اسلام کو دنیا بھر میں بدنام کردینے اور خود مسلم عوام کو بھی اسلام سے مایوس کردینے کے لیے اس سے زیادہ کارگر نسخہ اور کوئی نہیں ہوسکتا کہ ان لوگوں کے ہاتھوں احکامِ شریعت جاری کرائے جائیں۔ اگر چند بندگانِ خدا پر بھی جھوٹے مقدمے بناکر سرقے اور زنا کی حد جاری کردی گئی تو آپ دیکھیں گے کہ اس ملک میں حدودِ شرعیہ کا نام لینا مشکل ہوجائے گا اور دنیا میں یہ چیز اسلام کی ناکامی کا اشتہار بن جائے گی۔
اس لیے اگر ہم دین کی کچھ خدمت کرنا چاہتے ہیں، اُس سے دشمنی نہیں کرنا چاہتے تو ہمیں پہلے اس امر کی کوشش کرنی چاہیے کہ ملک کا انتظام ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں منتقل ہوجائے جو دین کی سمجھ بھی رکھتے ہوں اور اخلاص کے ساتھ اس کو نافذ کرنے کے خواہش مند بھی ہوں۔ اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوگا کہ اسلام کی پوری اصلاحی اسکیم کو ہرجہت سے ہمہ گیر طریقے پر نافذ کیا جائے اور اسی سلسلے میں حدودِ شرعیہ کا اجرا بھی ہو۔ یہ کام بڑا صبر اور بڑی حکمت چاہتا ہے۔ یہ ہتھیلی پر سرسوں جمانا نہیں ہے کہ آج مجلسِ قانون ساز میں ایک دو نشستیں ہاتھ آگئیں اور کل حدودِ شرعیہ جاری کرنے کے لیے ایک مسودۂ قانون پیش کر دیا گیا۔
اس سلسلے میں ایک بات اور بھی سمجھ لینی چاہیے۔ ایک حالت تو وہ ہوتی ہے جس میں پہلے سے ملک کے اندر اسلامی قانون نافذ چلا آ رہا ہو اور بعد میں بتدریج انحطاط رونما ہوتے ہوتے یہ نوبت آگئی ہو کہ شریعت کے بعض حصے متروک ہوگئے ہوں اور جن حصوں پر عمل ہو بھی رہا ہو، ان کو نافذ کرنے والے بدکردار لوگ ہوں۔ اس حالت میں حکمت ِ دین کا تقاضا یہ نہ ہوگا کہ شریعت کے جو حصے نافذ ہیں ان کو بھی چھوڑ دیا جائے بلکہ یہ ہوگا کہ عام اصلاح کی کوشش کر کے ایک طرف صالح عناصر کو برسرِاقتدار لایا جائے اور دوسری طرف شریعت کے باقی ماندہ حصوں کو نافذ کیا جائے۔ دوسری حالت وہ ہے جس میں کفروفسق کا سیلاب سب کچھ بہا لے گیا ہو اور اب ہم کو نئے سرے سے تعمیر کا آغاز کرنا ہو۔ اس صورت میں ظاہر ہے کہ بنیادوں سے تعمیر شروع کرنی ہوگی نہ کہ اُوپر کی منزلوں سے۔ (رسائل و مسائل، چہارم، ص ۲۶۹-۲۷۶)