اسلام کی نشاتِ ثانیہ اسی چیز کا نام ہے جس چیز کا نام دعوتِ اسلامی ہے۔ دعوتِ اسلامی ایک فرد سے شروع ہوتی ہے۔ دنیا میں جتنی بھی قومیں گزری ہیں ان کے اندر ایک نبی آیا۔ اس نے دعوتِ اسلامی شروع کی، اس دعوت کو جن لوگوں نے سمجھا اور سمجھ کر اس پر ایمان لائے اور جو اس کے لیے اپنی جان، مال، وقت اور محنت کی قابلیتیں صرف کرنے کو تیار ہوگئے، ان سے وہ دعوت شروع ہوئی۔ اب اس میں یہ کہنا کہ کتنے فی صد امکانات ہیں تو بعض انبیا ایسے گزرے ہیں جن کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ ایک دو آدمیوں کے سوا ان پر کوئی ایمان نہیں لایا۔ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں، مثلاً حضرت عیسٰی ؑکی ۳ سالہ تبلیغ پر کُل ۱۲ آدمی ان کے ساتھ ہوئے اور ان میں سے بھی ایک وہ غدار تھا، جس نے انھیں پکڑوا دیا۔ اس لیے سارا انحصار اس بات پر ہے کہ اس دعوت کو اور اس کی سچائی کو جاننے اور سمجھنے کے بعد کتنے لوگ اپنی جان، مال، وقت اور محنتیں اور قابلیتیں صرف کرنے کے لیے آمادہ ہوتے ہیں۔ اگر ایسے لوگ تیار ہو جائیں تو جتنی بڑی تعداد میں وہ تیار ہوں گے اتنے ہی زیادہ امکانات اس دعوت کے دنیا میں پھیلنے کے پیدا ہوجائیں گے۔ جتنے کم آدمی تیار ہوں گے، تو وہ درحقیقت اس دعوت کی ناکامی نہیں بلکہ اس قوم کی ناکامی ہے جس کے سامنے حق پیش کیا جائے اور وہ اس سے منہ موڑے۔
اگر حق کو پیش کرنے میں کوتاہی حق کو پیش کرنے والوں کی طرف سے ہو اور وہ اس کو واضح طور پر لوگوں کے سامنے ان کی عقل، ان کی فہم اور ان کی سمجھ بوجھ کے مطابق پیش نہ کرسکیں تو یہ ان کی طرف سے قصور ہے، اور اگر اس صورت میں نشاتِ ثانیہ نہیں ہوتی تو اس کا الزام ان کی طرف جاتا ہے۔ لیکن اگر انھوں نے کھول کر، وضاحت کے ساتھ ایک ایک پہلو کو پیش کر دیا کہ یہ حق ہے اور یہ ہیں اس کے تقاضے، اور یہ ہیں اس کے مطالبات، اور کس طرح سے اس حق کو زندگی کے اندر نافذ کیا جاسکتا ہے، اور زندگی کے ہر پہلو کی تعمیر ان اصولوں کے اُوپر کیسے ہوسکتی ہے___ اگر یہ کام انھوں نے کر دیا تو اس کے بعد ساری ذمہ داری اس قوم پر عائد ہوتی ہے جس قوم میں یہ کام پیش کیا گیا۔ اگروہ قوم اس کو قبول نہیں کرتی تو ناکام وہ ہے اور وہ لوگ ناکام نہیں ہیں جو اس دعوت کو پیش کریں۔
اب ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ ہماری قوم میں خدا کے فضل سے اس وقت تعلیم یافتہ طبقے کا جہاں تک تعلق ہے وہ بڑی حد تک حق کو حق سمجھ رہا ہے۔ اس کو معلوم ہے کہ توحید کیا چیز ہے۔ وہ یہ جان گیا ہے کہ توحید کے تقاضے کیا ہیں۔ وہ جان گیا ہے کہ توحید کے مطالبات کیا ہیں۔ اس کے اندر اگر کوئی کوتاہی ہے تو یہ ہے کہ وہ اس کے لیے اپنی جان لڑانے اور خطرات مول لینے اور اپنا وقت کھپانے کی وہ ہمت نہیں دکھا رہا ہے جو ایمان لانے کے بعد دکھانی چاہیے۔ یہ اس کی طرف سے کوتاہی ہے۔ جہاں تک ہمارے عوام کا تعلق ہے وہ جانتے ہی نہیں کہ اسلام کس چیز کا نام ہے، کیا اس کے مطالبے ہیں اور کیا اس کے تقاضے ہیں۔ یہ ہمارے تعلیم یافتہ طبقے پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ عوام کو خبردار کریں، ان کی جہالت دُور کریں، ان کو سمجھائیں، ان کے دین سے ان کو آگاہ کریں تاکہ ان میں اسلامی شعور پیدا ہو۔ اس کے لیے لوگوں کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری نہیں۔ اسلام کی ابتدائی تبلیغ جو ہوئی تھی وہ کتابوں اور رسالوں کے ذریعے سے نہیں ہوئی تھی، زبانی تلقین سے ہوئی تھی۔ اب بھی جو پڑھے لکھے لوگ ہیں، جو دین کو سمجھ چکے ہیں، ان کا کام ہے کہ عوام کے اندر جائیں اور جاکر زبانی تلقین کریں۔ ان کو بتائیں کہ تمھارا دین کیا ہے۔
رہا یہ سوال کہ اسلام کی نشاتِ ثانیہ میں کتنی مدت درکار ہے تو اس معاملے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کہ کامیابی کے امکانات کتنے فی صد ہیں اور کتنے فی صد نہیں ہیں۔ ہمارا کام کوشش کرنا ہے۔ اپنی حد تک جہاں تک بھی ہمارے بس میں ہے کوشش میں ہم کوتاہی کریں تو ہم قصوروار، لیکن اگر ہم کوشش کا حق ادا کرتے رہیں تو ہم اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس فرض سے سبکدوش ہیں۔ آگے جو کچھ بھی نتیجہ ہو اس کی ذمہ داری ان لوگوں پر ہے جو اس کو قبول نہ کریں۔(۳ اکتوبر ۱۹۷۲ء کو وکلا سے گفتگو بحوالہہفت روزہ ایشیا، ۱۲نومبر ۱۹۷۲ء)