نیوزی لینڈ آسٹریلیا کے جنوب مشرق میں واقع ہے جسے طویل سفید بادلوں کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے۔ یہ جنوبی بحرالکاہل کے ۲ بڑے جزائر شمالی آئی لینڈ اور جنوبی آئی لینڈ پر مشتمل ہے۔ ۱۶۴۲ء میں ولندیزی جہازران ایبل تسمان نے اسے دریافت کیا تھا اور پھر یہاں انگریز آباد ہوگئے۔ ۲ دسمبر ۱۹۰۷ء کو نیوزی لینڈ کو برطانیہ سے آزادی ملی۔ اس کا دارالحکومت ولنگٹن ہے۔ ملک میں پارلیمانی نظام رائج ہے۔ گورنر جنرل کا تقرر برطانیہ کرتا ہے، جب کہ عملاً سربراہِ حکومت وزیراعظم ہوتا ہے۔ اس ملک کو یہ تاریخی حیثیت حاصل ہے کہ ۱۸۹۳ء میں سب سے پہلے خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق یہیں دیا گیا۔ اُون، گوشت، ڈیری مصنوعات اور تجارت کے حوالے سے معروف ہے۔ گذشتہ برس چین نیوزی لینڈ فری ٹریڈ معاہدہ ہوا جو تجارت کے حوالے سے ایک بڑی پیش رفت ہے۔ ۲۰۰۶ء کی مردم شماری کے مطابق ملک کی آبادی ۴۰ لاکھ ۳۰ ہزار ہے۔ اکثریت (۵۶ فی صد) کا مذہب عیسائیت ہے، ۳۵ فی صد بے دین، جب کہ ۵ فی صد آبادی کا تعلق دیگر مذاہب، یعنی ہندومت، بدھ مت اور اسلام سے ہے۔ مسلمانوں کی تعداد اگرچہ کم ہے اور ان کی آبادی بھی منتشر ہے، تاہم ۱۹۷۰ء کے بعد سے مسلمانوں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا اور وہ زیادہ منظم ہوکر سامنے آئے ہیں۔ نیوزی لینڈ کے مسلمانوں کی سرگرمیوں کے بارے میں عام طور پر معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ اس لیے بھی ان کے احوال سے آگاہی دل چسپی کا باعث ہوگی۔
کہا جاتا ہے کہ نیوزی لینڈ میں سب سے پہلے چینی مسلمانوں کی آمد ۱۸۷۰ء میں ہوئی۔ یہ دنستان، اوٹاگو کی سونے کی کانوں میں کھدائی کی غرض سے آئے تھے۔ اس کے بعد ۱۹ویں صدی کے ابتدا میں ہندستان سے گجراتی مسلمانوں کے ۳ اہم خاندان یہاں آئے۔ اس طرح سے مسلمانوںکی آباد کاری کا سلسلہ شروع ہوا۔ ۱۹۵۰ء میں مشرقی یورپ سے ۶۰ سے زیادہ مسلمان پناہ گزین کے طور پر یہاں منتقل ہوئے۔
نیوزی لینڈ میں مسلمانوں نے اپنی پہلی تنظیم نیوزی لینڈ مسلم ایسوسی ایشن (NZMA) کے نام سے قائم کی۔گجراتی اور یورپی مسلمانوں کی مشترکہ کوششوں کے نتیجے میں ۱۹۵۹ء میں پہلا اسلامک سنٹر قائم کیا گیا۔ اس سنٹر میں دیگر سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ نماز کی ادایگی کے لیے بھی جگہ مختص کی گئی اور باقاعدہ نمازادا کی جانے لگی۔ ایک برس بعد گجرات سے مولانا سعید موسیٰ پٹیل کو بطور امام مدعو کیا گیا۔ یہ نیوزی لینڈ کے پہلے مسلمان امام تھے۔ اس طرح اسلامک سنٹر قائم کرنے کا سلسلہ بتدریج آگے بڑھتا چلا گیا جس میں سائوتھ ایشیا اور سائوتھ ایسٹ ایشیا کے طلبہ کا نمایاں کردار تھا۔
۱۹۷۹ء میں نیوزی لینڈ کے مسلمانوں نے مزید منظم انداز میں آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا اور اس ضمن میں متعدد اقدامات اٹھائے۔ مسلمانوں کی تین علاقائی تنظیموں کو جن کا تعلق کینٹربری، ولنگٹن اور آک لینڈ سے تھا، یک جا کر کے ایک ملک گیر تنظیم فیڈریشن آف اسلامک ایسوسی ایشن آف نیوزی لینڈ (FIANZ) قائم کی گئی۔ اس تنظیم کا بنیادی مقصد قرآن وسنت کی روشنی میں اسلامی تعلیمات کا فروغ، تعلیم و تدریس، مسلمانوں کی مختلف سطح کی سرگرمیوں کو منظم کرنا، باہمی تعاون کا فروغ، مسلم کمیونٹی کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لیے تعاون، رفاہی منصوبوں کے لیے عطیات کا حصول اور نیوزی لینڈ سے باہر مسلمانوں کی نمایندگی کرنا ہے۔ اس تنظیم کا مرکزی دفتر ولنگٹن میں ہے۔ اس کی ممبر ۷ مقامی تنظیمیں ہیں جن میں NZMA، سائوتھ آک لینڈ مسلم ایسوسی ایشن، انٹرنیشنل مسلم ایسوسی ایشن آف نیوزی لینڈ (IMAN)، اور اس کے علاوہ ہملٹن، پالمرسٹون نارتھ، کرسٹ چرچ اور ڈیونڈن کی ایسوسی ایشنیں بھی شامل ہیں۔
تنظیم کی دیگر سرگرمیوں میں مقامی ایسوسی ایشنوں کو فنڈ کی فراہمی میں تعاون، بیرونِ ملک سے مقررین کے دوروں کا اہتمام، وڈیوز اور لٹریچر کی تقسیم، اور حسنِ قرأت کے مقابلوں کا اہتمام کرنا شامل ہے۔ ایک کمیٹی قائم کی گئی ہے جو عید کی تاریخوں کا تعین کرتی ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کی عالمی تنظیموں، مثلاً مسلم ورلڈ لیگ، دی ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ (WAMY)اور ریجنل اسلامک دعوۃ کونسل آف سائوتھ ایسٹ ایشیا اینڈ پیسیفک (RISEAP) وغیرہ سے وابستگی بھی ہے اور ان کی سرگرمیوں میں حصہ بھی لیا جاتا ہے۔
نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کی آبادی میں نمایاں اضافہ ۱۹۷۰ء میں اس وقت دیکھنے میں آیا جب فجی انڈین مسلمان حصول روزگار کے لیے یہاں آئے۔ اسی طرح ۱۹۹۰ء میں صومالیہ، بوسنیا، افغانستان، کوسووا اور عراق سے بھی بہت سے مسلمان پناہ گزین کی حیثیت سے نیوزی لینڈ آئے جس سے مسلمانوں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ اس طرح سے مسلمان پناہ گزینوں کی آمد سے مسلمان مزید مستحکم ہوگئے اور ان کی افرادی قوت میں بھی اضافہ ہوا۔ اس وقت مسلمانوں کی آبادی میں سب سے زیادہ تناسب چینی مسلمانوں کا ہے (۳ء۲ فی صد)، جب کہ انڈین مسلمانوں کا تناسب ۲ء۱ فی صد ہے۔ نیوزی لینڈ کی مسلم کمیونٹی ۳۵ مسلم ممالک کے نمایندوں پر مشتمل ہے، جن میں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، فجی انڈین، عرب، ملایشیا، انڈونیشیا، ایران، صومالیہ اور بلقان کے ممالک نمایاں ہیں۔ کچھ تعداد میں کیوی بھی پائے جاتے ہیں جو کہ مسلمان ہوچکے ہیں۔ ۱۹۹۶ء کی مردم شماری کے مطابق مسلمانوں کی آبادی ۱۳ ہزار ۵ سو ۴۵ ہے جو کہ کُل آبادی کے ۳۷ء۰فی صد پر مبنی ہے۔ مقامی مسلم قیادت کا دعویٰ ہے کہ ان کی آبادی ۴۰ ہزار ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت آک لینڈ میں رہتی ہے، جب کہ دارالحکومت ولنگٹن اور دیگر چار بڑے شہروں میں بھی مسلمان آباد ہیں۔
۱۹۶۰ء کے لگ بھگ جب مسلمانوں کی تعداد محدود تھی NZMA کے تحت اجلاس گھر یا دکان میں ہوتے تھے اور عید کی تقریبات کے لیے ہال کرایے پر لیے جاتے تھے۔ ۱۹۷۰ء کے وسط تک ۳ مزید مسلمانوں کے گروپ تشکیل پا گئے، جن میں فجی انڈین مسلمانوں کی تنظیم انجمن حمایت الاسلام نمایاں تھی۔ ۱۹۷۶ء میں نیوزی لینڈ کے مسلمانوں کے ایک وفد نے سعودی عرب کا دورہ کیا تو انھیں مشورہ دیا گیا کہ وہ مشترکہ فورم تشکیل دیں تاکہ زیادہ مؤثر انداز میں کام کیا جاسکے۔ چنانچہ انجمن حمایت اسلام اور NZMA نے اجتماعی طور پر نیوزی لینڈ مسلم ایسوسی ایشن کی بنیاد ڈالی۔ اس تنظیم کا قیام ۳۰ مارچ ۱۹۷۹ء کو عمل میں آیا اور اس کی پہلی ترجیح اسلامک سنٹر کا قیام اور مسجد کی تعمیر تھی۔ چنانچہ ۱۹۸۳ء میں نماز کے لیے مرکزی ہال تعمیر کیا گیا جس میں ۴۰۰ نمازیوں کی گنجایش تھی۔ ۱۹۹۰ء میں میٹنگ ہال اور امام صاحب کی رہایش گاہ تعمیر کی گئی۔
حالیہ برسوں میں NZMA تیزی سے آگے بڑھی ہے اور نمازِ جمعہ میں ۵۰۰ سے زائد نمازی شریک ہوتے ہیں۔ اسی طرح آک لینڈ میں مسلمانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ نیوزی لینڈ کے مسلمانوں کی ایک اور تنظیم IMAN کا قیام ۱۹۶۶ء میں ولنگٹن میں عمل میں لایا گیا۔ یہ بنیادی طور پر مسلمان طلبہ کی تنظیم تھی۔ یہ اسلامک سنٹر قائم کرچکی ہے اور ایک مسجد کی تعمیر کے لیے کوشاں ہے۔ ولنگٹن میں بھی مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اور IMAN ان کو زیادہ سے زیادہ سہولتوں کی فراہمی کے لیے سرگرم عمل ہے۔ مختلف مقامات پر نمازِ جمعہ کا باقاعدہ اہتمام کیا جا رہا ہے اور نمازیوں کی تعداد ۵۰۰ سے ۶۰۰ تک ہوتی ہے۔ اسی طرح ملک کے دوسرے حصے شمالی آئی لینڈ میں مسلمان کرسٹ چرچ، ڈیونڈن اور کنٹربری میں پائے جاتے ہیں۔ کینٹبربری میں کینٹربری مسلم ایسوسی ایشن ۱۹۷۷ء میں قائم ہوئی تھی۔ مسلمانوں کی تعداد اگرچہ کم ہے مگر وہ ۱۹۸۵ء تک مسجد تعمیر کرچکے تھے اور اسلامک سنٹر کے لیے کوشاں ہیں۔
نیوزی لینڈ کی یہ تنظیمیں اپنے اپنے دائرے اور دستیاب وسائل کے اندر رہتے ہوئے بہت سی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ ان میں دعوتِ دین کے فریضے کی ادایگی، دین کی بنیادی تعلیمات سے آگہی، نماز کی ادایگی کے لیے انتظام، رمضان کے موقع پر مختلف تقاریب کا انعقاد، عید و دیگر تقریبات کا اہتمام، قرآن مجید کی تعلیم اور عربی زبان سیکھنے کے لیے کلاسوں کا اجرا اور دیگر رفاہی و سماجی سرگرمیاں وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح حلال غذا کی فراہمی، شادی بیاہ کے لیے رشتوں کی سہولت اور تدفین کے انتظامات کی خدمات بھی انجام دی جاتی ہیں۔
بچوں کو معیاری تعلیم کی فراہمی، اسلامی اقدار سے روشناس کرانے اور تربیت کے لیے اسلامی اسکولوں کے قیام کی طرف بھی توجہ دی جارہی ہے، اگرچہ اس میں بڑے پیمانے پر پیش رفت نہیں ہوسکی۔ آک لینڈ میں المدینہ اسکول قائم کیا گیا ہے جو اسلامک ایجوکیشن اینڈ دعوۃ ٹرسٹ کی نگرانی میں چل رہا ہے۔ اس اسکول کا آغاز ۱۹۸۹ء میں بنیادی طور پر ہوم اسکولنگ کے طرز پر کیا گیا تھا۔ تقریباً ۳۰۰ سے زائد طلبہ و طالبات زیرتعلیم ہیں۔ ۲۰۰۱ء میں طالبات کے لیے ایک کالج بھی قائم کیا گیا۔ اس دوران ایک مزید کالج کھولا گیا جو فنڈ کی کمی کی بنا پر چلایا نہ جاسکا اور اب اس کو دوبارہ کھولنے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔
FIANZ کی کوشش ہے کہ ایسی تجارتی سرگرمیوں کو بھی فروغ دیا جائے جس سے تنظیم کو وافر وسائل فراہم ہوسکیں اور اسے عطیات پر انحصار نہ کرنا پڑے۔ اس کے لیے بھی کچھ سرگرمیاں جاری ہیں۔ اسلامی بنک کاری کے لیے بھی کوششیں جاری ہیں۔ غیرمسلموں میں اسلام کی اشاعت کے لیے ایک تنظیم اسلامک دعوۃ اینڈ کنورٹس ایسوسی ایشن کے نام سے قائم ہے۔ یہ غیرمسلموں کو اسلام کی دعوت دیتی ہے اور قبولِ اسلام کے بعد ان کو پیش آنے والی مشکلات میں تعاون بھی کرتی ہے۔ آک لینڈ میں ان کے ارکان کی تعداد ۱۰۰ کے قریب بتائی جاتی ہے۔ نیوزی لینڈ کے مسلمانوں کی یہ منظم اور ہمہ جہت جدوجہد نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کے روشن مستقبل کی پیش خیمہ ہے۔ (ماخوذ: wikipedia آن لائن انسائی کلوپیڈیا۔ ’دی مسلمز آف نیوزی لینڈ‘، مجلہ حج اینڈ عمرہ، ریاض، سعودی عرب، اپریل ۲۰۰۹ء)