جون ۲۰۰۹

فہرست مضامین

کلام نبویؐ کے سایے میں

عبد الغفار عزیز | جون ۲۰۰۹ | فہم حدیث

Responsive image Responsive image

حضرت ابوبکر صدیقؓ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے صبح کی نماز ادا کی، وہ اللہ کی پناہ میں آگیا۔ اللہ کے اس وعدے کی خلاف ورزی نہ کرو۔ اگر کسی نے اسے قتل کردیا تو اللہ تعالیٰ ’قاتل‘ کا پیچھا کرے گا یہاں تک کہ اسے منہ کے بل آگ میں لاپھینکے گا۔ (ابن ماجہ)

ہر جان یقینا قیمتی ہے، لیکن خالق کی نظر میں ایک مومن کی جان خصوصی حُرمت و اہمیت رکھتی ہے۔ اپنی مخصوص تعبیر دین و شریعت، کسی سیاسی مفاد، لسانی اور علاقائی عصبیت یا پھر شدت پسندی کے مبہم و مشکوک الزام کی آڑ میں خون ریزی کا بازار گرم کرنے سے پہلے ہر فرد، گروہ اور حکومت کو سوچ لینا چاہیے کہ اس حدیث میں مذکور وعید سے کیسے بچیں گے۔ نماز اور بالخصوص نمازِ فجر اللہ کی حفاظت و رحمت کا ذریعہ بنتی ہے۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن کا معاملہ عجیب ہے، وہ ہر حال میں فائدے میں رہتا ہے، اور یہ معاملہ صرف مومن ہی کے لیے ہے۔ اسے کوئی خوشی ملتی ہے اور وہ اس پر شکر کرتا ہے، تو یہ اس کے لیے مزید بھلائی کا سبب بنتا ہے، اور اگر اسے تنگی اور تکلیف پہنچتی ہے تو اس پر صبر کرتا ہے تو یہ بھی اس کے لیے بھلائی کا موجب ہے۔ (مسلم)

زندگی انھی دو صورتوں سے عبارت ہے، مصیبت یا راحت۔ مومن کا رویہ ہر حالت میں ایک ہی رہتا ہے اور رہنا چاہیے، یعنی اپنے رب کی رضا پر راضی رہنا۔ نعمت و راحت پر شکر، رنج و مصیبت اور آزمایش میں صبر۔ راحت پر شکر نعمتوں کے دوام کا ذریعہ بنتا ہے۔ تکلیف و آزمایش پر صبر اور رب سے التجا نہ صرف مصیبتوں کو دور کردیتی ہے بلکہ درجات کی بلندی اور خطاؤں کی معافی کا ذریعہ بھی بنتی ہے۔ آپؐ نے ایک اور حدیث میں فرمایا: مومن مرد یا عورت پر اس کی جان، مال اور اولاد کے حوالے سے آزمایشیں آتی رہتی ہیں اور ان سے اس کے گناہ معاف ہوتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب وہ اپنے اللہ سے ملتا ہے تو ان آزمایشوں کی بدولت اس کا کوئی بھی گناہ باقی نہیں بچتا۔


حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز صحابہ کرامؓ سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا: مجھے اپنے میں سے کسی کے بارے میں (منفی) بات نہ پہنچایا کرو کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ میں جب بھی تم سے ملوں تو میرا دل تم سب کے بارے میں صاف ہو۔ (ابوداؤد)

باہم محبت و اخوت، اسلامی معاشرے کی بنیاد، اساس اور پہچان ہوتی ہے۔ اس بنیاد کو کمزور کرنے والی ہر بات سے خالق نے منع فرمادیا۔ خاص طور پہ بغض و حسد، چغلی و غیبت، غرور و تکبر، چہ مہ گوئیاں، گروہ بندیاں، دوسروں کے بارے میں منفی احساسات رکھنا اور پیدا کرنا، شکوک و شبہات پھیلانا،  غرض ہر کمزوری کو برائی قرار دیتے ہوئے ان سے اور ان کے انجام سے خبردار کردیا گیا۔

قیادت خواہ جس سطح کی بھی ہو کارکنان اس کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ تمام کارکنان کے بارے میں یکساں خلوص و صاف دلی کے لیے ناگزیر ہے کہ ان عوامل کا سدّباب کیا جائے، ان باتوں کی حوصلہ شکنی کی جائے کہ جن سے دلوں میں میل آجاتا ہے۔ آپؐ نے مختصر الفاظ میں بے انتہا بیماریوں کا شافی علاج کردیا: ’’میں چاہتا ہوں کہ جب بھی میں تم سے ملوں تو میرا دل تم سب کے بارے میں صاف ہو‘‘۔


حضرت ابو برزہ الاسلمیؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے وہ لوگو    جو زبانی ایمان تو لے آئے ہو لیکن ایمان ابھی تک تمھارے دلوں میں داخل نہیں ہوا، مسلمانوں کی غیبت نہ کیا کرو۔ ان کی کمزوریوں کی ٹوہ میں نہ لگا کرو۔ جو (اپنے بھائیوں) کی کمزوریوں کے پیچھے پڑے گا، اللہ تعالیٰ اس کی کمزوریوں کا پردہ کھول دے گا اور جس کی کمزوریوں کا پردہ اللہ تعالیٰ کھول دے گا، اسے خود اس کے اپنے اہل خانہ کے سامنے بھی بدنام کردے گا۔ (ابوداؤد)

گویا اپنے بھائیوں کی کمزوریوں کی ٹوہ میں لگے رہنے اور غیبتیں کرتے رہنے کے بعد ایمان صرف زبانی دعویٰ رہ جاتا ہے۔ یہ وعید بھی اسی لیے شدید ہے کہ غیبت، خوردہ گیری اور دوسروں کی کمزوریوں کی ٹوہ میں پڑے رہنے سے اجتماعیت اور باہمی اعتماد و اخوت کی عمارت ڈھے جاتی ہے۔ انسان اپنے ہی کچھ ساتھیوں کو بدنام کرنے اور انھیں نیچا دکھانے میں لگ جاتا ہے۔ تعمیرِ حیات اور اقامت ِدین کا عظیم الشان فریضہ صرف ایک دعویٰ اور خام خیالی ہوکر رہ جاتا ہے۔ حدیث کا آخری جملہ دل دہلا دینے والا ہے کہ پھر وہ انسان اپنے سب سے قریبی افراد، اپنے اہلِ خانہ کی نظروں سے بھی گر جاتا ہے، خود اپنے ضمیر کا مجرم قرار پاتا ہے۔


حضرت ابو سعید خدری ؓ روایت کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی نیا لباس زیب تن فرماتے تو اس کا نام لے کر، مثلاً قمیص / عمامہ وغیرہ فرماتے: پروردگار! تمام تر شکر تیرے ہی لیے ہے کہ تو نے مجھے یہ لباس پہنایا۔ پروردگار! میں تجھ سے اس کی خیراور بھلائی مانگتا ہوں اور اس بھلائی کا سوال کرتا ہوں کہ جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے۔ پروردگار میں اس کے شر سے اور اس شر سے کہ جو اس کے ذریعے آسکتا ہے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ (ابوداؤد)

انسان اپنے رب کی بے انتہا نعمتوں سے دن رات مستفید ہوتا ہے، لیکن بعض اوقات نعمتیں دینے والے رب ہی سے غافل ہوجاتا ہے۔ رسولِ اکرم ؐ نے ہر نعمت کا شکر ادا کرنے کی تعلیم دی خواہ وہ لباس یا لباس کا ایک حصہ ہی کیوں نہ ہو۔ نعمت اگر خیر اور بھلائی کا ذریعہ بنے تو نعمت رہتی ہے۔ اللہ کی رحمت و عافیت اٹھ جائے تو وہی نعمت، عذاب اور آزمایش بن جاتی ہے۔ خوراک ہی صحت و قوت کاموجب ہوتی ہے اور اگر اللہ ایسا نہ چاہے تو وہی خوراک مرض و ابتلا کا سبب بن جاتی ہے۔ کتنی بار ایسا ہوا ہے کہ انسان کے لیے زیب و زینت والا رومال ہی گلے کا پھندا بن گیا۔ راحت و سکون دینے والی چھت، مسافتیں طے کرنے والی سواری، محبت سے پالی پوسی جانے والی اولاد، دکھ سکھ کے ساتھی، عزت کا تاج پہنانے والے عہدے اور حفاظت کا ذریعہ بننے والے ہتھیار ہی موت و عذاب کی صورتیں اختیار کرلیتے ہیں۔ رب کا حقیقی شکر اور اس سے عافیت کی دُعا، نعمتوں کے دوام اور اس میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔


حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسی عورتیں جو لباس پہن کر بھی ننگی رہتی ہیں، خود بھی (برائی کی طرف) مائل رہتی ہیں اور دوسروں کو بھی مائل کرنے کی کوشش کرتی ہیں، ایسی عورتیں نہ صرف یہ کہ جنت میں داخل نہیں ہوں گی بلکہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پاسکیں گی۔ حالانکہ جنت کی خوشبو ۵۰۰ سال کی مسافت سے سونگھی جاسکتی ہے۔(موطا امام مالک)

شفاف، تنگ اور مختصر لباس، بظاہر تو لباس ہی ہوتا ہے، لیکن پردے کے بجاے بے حجابی اور شرم و حیا کے بجاے بے حیائی اور بداخلاقی کا ذریعہ بنتا ہے۔ لباس و حیا یقینا ایک نعمت ہے لیکن کچھ بدقسمت اسی کو اپنے اور دوسروں کے لیے گناہ اور عذاب کا ذریعہ بنادیتے ہیں۔ صرف رسم و رواج اور فیشن و ڈیزائن کی خاطر، جنت ہی نہیں جنت کی خوشبو سے بھی محرومی___ کیا اس سے بڑا کوئی اور خسارہ ہوسکتا ہے!


صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایک تنومند نوجوان کو مستعدی سے کام کرتے دیکھا تو کہا: کاش! یہ نوجوان اللہ کی راہ میں جدوجہد کرتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو فرمایا: ایسا نہ کہو۔ اگر یہ نوجوان اپنے چھوٹے بچوں کے لیے رزق کی تلاش میں نکلا ہے، تو یہ فی سبیل اللہ یعنی اللہ کی راہ میں ہی ہے۔ اگر یہ اپنے بوڑھے والدین کے لیے لقمہء حیات فراہم کرنے کے لیے نکلا ہے تو اللہ کی راہ میں ہی نکلا ہے، اور اگر خود کو دوسروں کا محتاج ہونے سے بچانے کے لیے محنت کرنے نکلا ہے تو بھی اللہ کی راہ میں ہی نکلا ہے۔ ہاں! اگر یہ نوجوان فخر و غرور اور نمود و نمایش کے وسائل فراہم کرنے کے لیے نکلا ہے تو پھر یہ شیطان کی راہ میں نکلا ہے۔ (طبرانی)

رزق حلال کے حصول اور محتاجی و سوال سے بچنے کی جدوجہد کو آپؐ نے جہاد فی سبیل اللہ کے مترادف قرار دیا۔ یہ جدوجہد تعمیر و نمو کا موجب بھی بنتی ہے اور رضاے خداوندی کا ذریعہ بھی۔ ہر فرد جدوجہد اور اپنی اپنی ذمہ داریوں کی ادایگی میں لگ جائے تو انفرادی کوششیں بالآخر اجتماعی محنت و عمل میں  بدل جاتی ہیں۔ اسی طرح رزق حلال کی پابندی انسان کو زندگی بھر کے لیے حلال کی پابندی اور حرام سے اجتناب کا خوگر کردیتی ہے۔ حلال ذرائع سے حاصل ہونے والے رزق میں جتنا بھی اضافہ ہوجائے، مذموم نہیں، بشرطیکہ اس میں سے انفرادی و اجتماعی حقوق ادا کیے جاتے رہیں۔ ہاں، اگر جدوجہد کے اہداف و مقاصد اور محنت کی جہت تبدیل ہوجائے، اصل ہدف فخر و تکبر، حرص و نمایش اور عیش و عشرت بن جائے تو وہی فی سبیل اللہ عمل، فی سبیل الشیطان قرار پاتا ہے۔