پروفیسر خورشید احمد | جون ۲۰۰۹ | اشارات
آخر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ سوات میں امن اور نظامِ عدل کے قیام کی کوشش کا گلا، امریکا اور اس کے پاکستانی گماشتوں نے پیدایش سے پہلے ہی گھونٹ دیا۔ اس طرح سوات، اس کے گردونواح کے تمام علاقوں بشمول بونیر اور دیر وغیرہ کو خانہ جنگی کی آگ میں دھکیل دیا گیا۔ انجامِ کار پاکستانی حکمرانوں نے امریکی خوشنودی کی خاطر ۲۵، ۳۰ لاکھ انسانوں کو اپنے ہی وطن میں بے گھر اور بے سروسامان کر دیا۔
اس خطرناک اور خونیں اقدام سے امریکا اور اس کے اسٹرے ٹیجک اتحادیوں نے ایک طرف اس تاریخی عمل کو پٹڑی سے اُتار دیا، جو ۲۲اکتوبر ۲۰۰۸ء کو پاکستانی پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد کی شکل میں خارجہ پالیسی میں تبدیلی لانے، دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کی گرفت سے پاکستان کو نکالنے اور اس کی سالمیت کے دفاع کو درپیش خطرات سے نجات دلانے کے لیے شروع ہوا تھا۔ امریکا کی مسلط کردہ دہشت گردی کی اسی نام نہاد جنگ نے ملک کو سیاسی، معاشی، عسکری ہراعتبار سے کمزور اور مجروح کر دیا ہے۔ اس قرارداد میں سیاسی مسائل کے فوجی حل کو ترک کر کے سیاسی حل تلاش کرنے کی تلقین کی گئی تھی۔ جس کی روشنی میں پہلا اہم اقدام فروری ۲۰۰۹ء کا سوات امن معاہدہ اور شریعت پر مبنی نظامِ عدل کے نفاذ کی کوشش تھی۔
افسوس کہ اس نئی حکمت عملی کو قبول کرنے میں، وفاقی حکومت اور خاص طور پر صدرزرداری صاحب نے جس تردّد اور پُراسرار رویے اور عمل کا اظہار کیا، اسی نے اندیشہ ہاے دُوردراز پیدا کردیے تھے۔ بعدازاں کھلے کھلے امریکی دبائو کے تحت صوبائی حکومت، وفاقی حکومت اور فوج نے اس معاہدے کو قصۂ پارینہ قرار دے کر جس عجلت سے فوج کشی شروع کی اور سوات اور اہلِ سوات کی بربادی کے تباہ کن راستے پر بگ ٹٹ گامزن ہوگئے، وہ پاکستان کی تاریخ کا سنگین ترین المیہ ہے۔ اس اقدام نے ملک کے نقشے تک کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اس خونیں ڈرامے کے اہم کردار ہیں: مفاد پرست اربابِ اقتدار، پاکستان کے ہوشیار دشمن، اور نادان دوست! ان میں سے ہر ایک نے اپنا اپنا منفی کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان کو امریکی جنگ کی دلدل سے نکالنے کا جو عمل شروع ہوا تھا، اس عمل سے اسے پارہ پارہ کرکے وہ حالات پیدا کردیے گئے ہیں کہ جن کو اگر بروقت روکا نہ گیا تو خدانخواستہ پاکستان کا وجود، اس کی آزادی، سلامتی اور نظریاتی شناخت معرضِ خطر میں پڑ جائے گی۔
حالات کا صحیح تجزیہ، اصلاحِ احوال کی حکمت عملی کا تعین اور اس کے لیے ملک کے ۱۷کروڑ عوام کو پاکستان کے تحفظ اور بقا کی جدوجہد کے لیے بیدار اور متحرک کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ جن حالات کو ہمارے دشمن پاکستان کے ’وجود کو درپیش بحران‘ کہہ رہے ہیں، اسے قومی یک جہتی، قومی ترقی، قومی بقا اور بلندپایہ تہذیبی تشخص میں تبدیل کردینا ہماری قومی ذمہ داری ہے۔ ہم اس چیلنج کے مختلف پہلوئوں پر اپنی معروضات پیش کررہے ہیں۔
سب سے پہلے مسئلے کی نوعیت کو علمی دیانت اور دقتِ نظر سے سمجھنا ضروری ہے۔ دہشت گردی کے واقعات دنیا بھر میں اور تاریخ کے ہر دور میں ہوتے رہے ہیں، اور ان کا مقابلہ ملک کے نظامِ قانون، ریاستی اداروں اور دستوری ضوابط و اختیارات کے فریم ورک میں کیا جاتا رہا ہے۔ دنیابھر اور خود پاکستان میں ایسے واقعات کو ملک کے قانونِ فوجداری کے تحت گرفت میں لایا گیا ہے۔ عصرِحاضر کے ممالک اور اقوام نے جہاں دہشت گردی پر قرارواقعی گرفت کی ہے، وہیں یہ کوشش بھی کی ہے کہ قانون اور انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے۔ مسلمانوں کی تاریخ میں بھی خوارج اور باطنی فرقے کے assassins کے فتنے رونما ہوئے، مگر ان کا مقابلہ اصولِ انصاف اور ضابطۂ قانون کے تحت کیا گیا۔ یہ تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ امریکا نے اس روایت سے یکسر انحراف کرتے ہوئے، نائن الیون کے واقعے کے بعد دہشت گردی کے افسوس ناک واقعے کو بنیاد بناکر پوری دنیا میں ایک عالم گیر جنگ (Global war on terror) کا طبل بجادیا، جس کا نشانہ عملاً افغانستان، عراق اور پاکستان کو بنایا، جب کہ عام مسلمانوں کو بھی اس کی لپیٹ میں لے لیا۔ یوں ۸سال سے دنیا ایک مجہول، ناقابلِ شناخت اور غیرمحدود جنگ کی آگ میں جھونک دی گئی ہے۔ یہ ایسی افسوس ناک جنگ بلکہ دہشت گردی ہے جس کے نتیجے میں خود دہشت گردی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے: گروہی اور ریاستی دہشت گردی، اداراتی اور نسلی دہشت گردی۔
بین الاقوامی قانون، ملکی حدود میں قانون کی حکمرانی اور حقوقِ انسانی کا تحفظ بُری طرح پامال ہوئے ہیں۔ لاکھوں انسان جان کی بازی ہار گئے ہیں اور دنیا کا امن و چین تہ و بالا ہوا ہے۔ محتاط ترین اندازے کے مطابق صرف امریکا کو ۳ کھرب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔ گویا عالمی مالیاتی اور معاشی بحران پیدا کرنے اور دنیا میں غربت و افلاس کو بڑھانے میں اس نام نہاد جنگ کا بھی ایک کردار ہے۔ خود پاکستان کا حال یہ ہے کہ جو علاقے ۱۹۴۷ء سے پُرامن تھے وہ اب آتش فشاں بن گئے ہیں۔ ملک کی معیشت کو ڈھائی کھرب روپے کا نقصان ہوچکا ہے۔ ہر سال ۵ سے ۶ ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے اور اس سے بڑھ کر ملک کی آبادی کا سُکھ چین رخصت ہوگیا ہے۔ مزید یہ کہ ملک کی آزادی، خودمختاری اور سالمیت خطرے میں ہے۔
بلاشبہہ ماضی میں سیاسی، لسانی یا فرقہ وارانہ بنیادوں پر دہشت گردی کے اِکا دکا واقعات ہوتے رہے ہیں، لیکن امریکا کی ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ میں سابق آمرمطلق جنرل پرویز مشرف کی شرکت اور پاکستان کی سرزمین کو برادر ملک افغانستان پر امریکی فوج کشی کے لیے کندھا پیش کرنے سے دہشت گردی کی جو لہر رونما ہوئی ہے، اور پھر ۲۰۰۴ء میں خود پاکستان کی فوج کو جس طرح اس جنگ میں دھکیل دیا گیا ہے، اس کے نتیجے میں تباہ کن صورت حال پیدا ہوچکی ہے۔
جوہری اعتبار سے یہ صورت حال ایسی ہے کہ اسے معروف سیاسی، لسانی، نسلی اور فرقہ وارانہ فساد کے پس منظر میں رکھ کر نہیں دیکھنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ اس صورت حال کا روایتی انداز سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتاہے۔ یہ اس نوعیت کی بغاوت (insurgency) نہیں ہے جو سیاسی یا علیحدگی پسندی کی تحریکات کے نتیجے میں رونما ہوتی ہے۔ درحقیقت یہ مزاحمتی تحریک کا ایک حصہ ہے، جو افغانستان پر امریکا اور ناٹو افواج کے قبضے کے نتیجے میں رونما ہوئی ہے، جس کا اصل میدان جنگ تو افغانستان کو بنایا گیا تھا اور امریکی عزائم کے مطابق وہ اب تک میدانِ جنگ ہی ہے، البتہ جنرل پرویزمشرف کی امریکی جنگ میں شرکت،اور اپنی فوجوں کو ۲۰۰۴ء سے اس علاقے میں استعمال کے نتیجے میں یہ آگ خود ہمارے وطن میں آن پہنچی ہے، اور روز افزوں ہے۔ امریکا نے ہمیں اس جنگ میں فریق بنانے اور اپنی گرفت میں رکھنے کے لیے بڑی ہوشیاری اور چابک دستی سے ہمارے سرحدی اور قبائلی علاقوں کوخوفناک خطے قرار دینے کا پروپیگنڈا شروع کیا، اور ہمارے ایٹمی ہتھیاروں کے دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے کا واویلا کیا۔ جنرل مشرف کی پالیسیوں کے نتیجے میں جو مزاحمت افغانستان میں ہو رہی تھی اور جسے امریکا قابو کرنے میں بری طرح ناکام ہوگیا تھا اور ہے، اس جنگ کو خود پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دھکیل دیا گیا، تاکہ پاکستان کے وجود کو خطرناک ثابت کرنے کا جواز پیدا کیا جاسکے۔
اس پس منظر میں یہ بات سمجھنا ذرا بھی مشکل نہیں ہے کہ پاکستان کے سرحدی اور قبائلی علاقوں میں دہشت گردی اصلاً کسی داخلی سبب کی پیداوار نہیں ہے، بلکہ یہ افغانستان پر امریکی سامراجی قبضے کا نتیجہ ہے اور مشرف اور زرداری حکومتوں کی پالیسیوں سے اس جنگ کو ہماری سرزمین میں دَرآنے کا موقع ملا ہے۔ ۲۰۰۴ء سے جو فوجی ایکشن اس علاقے میں پاکستان اور خود امریکا کررہے تھے، اس نے یہ ساری آگ بھڑکائی ہے، اور جب ایسی آگ کے الائو بلند ہوتے ہیں تو پھر اس میں بہت سے داخلی عوامل بھی شریک ہوجاتے ہیں۔ دشمن قوتیں بھی حالات کو مزید بگاڑنے کے لیے اپنا اپنا ایجنڈا آگے بڑھاتی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بھارت اور اسرائیل نے ان حالات سے پورا فائدہ اٹھایا ہے۔ امریکا اور افغانستان کے وہ عناصر جو پاکستان سے دشمنی رکھتے ہیں، وہ بھی حالات کو مزید بگاڑ رہے ہیں۔ اس خرابی کا اصل سرچشمہ افغانستان پر امریکا کا قبضہ، وہاں امریکی اور ناٹو افواج کی موجودگی اور ان کی خون آشامی ہے۔ امریکی ڈرون حملے، تربیت کے نام پر امریکی فوجوں کی پاکستان میں موجودگی اور ان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کارگزاریاں، اس آگ پر تیل چھڑکنے اور اسے ملک کے طول و عرض تک پھیل جانے کا سامان کر رہے ہیں۔
اس صورتِ حال میں سوات کے مسئلے کو مرکزیت حاصل ہے۔ اسی طرح دیر اور بونیر کے حالات فوری توجہ کے مستحق ہیں۔ تاہم مسئلے کی اصل جڑ افغانستان پر امریکی تسلط ہی ہے۔ جب تک پاکستان کی حکومت قوم کے جذبات کا احترام اور پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد کے واضح پیغام کے مطابق اپنی خارجہ پالیسی کو حقیقی معنوں میں آزاد خارجہ پالیسی بنانے اور پاکستان کی بقا اور سلامتی کے مسئلے کو امریکا کی نظر سے نہیں، بلکہ پاکستان کے حالات، مفاد اور تاریخی خطرات کی روشنی میں دیکھنے، سمجھنے اور پالیسی تشکیل دینے کی کوشش نہیں کرتی ہے، مسائل نہ صرف جوں کے توں رہیں گے، بلکہ بد سے بدتر ہوتے چلے جائیں گے۔ پاکستان کی حکومت کو چاہیے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے علیحدگی کے عمل کو فی الفور شروع کردے۔ دنیا میں، خصوصیت سے افغانستان اور عراق میں امریکی جنگی حکمت عملی جس بری طرح ناکام ہورہی ہے، اسے دیکھتے ہوئے دانش مندی کا تقاضا یہی ہے کہ اب مزید اس تباہ کن کھیل کا حصہ نہ رہا جائے۔ جب تک ہماری حکومت ایسا نہیں کرتی، حالات میں بنیادی تبدیلی اور امن اور چین کی طرف حقیقی پیش رفت ممکن نہیں۔
دوسری بنیادی بات جسے قلب و نظر کے پورے اطمینان کے ساتھ سمجھنا ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ سیاسی مسائل خواہ کتنے ہی پیچیدہ اور کثیرجہت کیوں نہ ہوں، ان کا محض کوئی فوجی حل ممکن نہیں۔ بلاشبہہ کچھ حالات میں ریاستی قوت کا استعمال ضروری ہوتا ہے لیکن ہر وہ علاقہ جو سرزمینِ وطن کا حصہ ہے، وہاں پر سیاسی عمل، قانون کی حکمرانی، عوام کی مرضی اور انصاف کے قواعد و ضوابط کی پاسداری کے ذریعے ہی ریاستی عمل داری، اداروں کی بالادستی اور شہری زندگی کی بحالی ممکن ہے۔ کھلے کھلے بیرونی دبائو یا اندرونی اُلجھنوں اور مشکلات سے گھبرا کر قوت کا استعمال اور وہ بھی بے محابا عسکری قوت کا استعمال حالات کو بگاڑنے کا ذریعہ تو بن سکتا ہے، حالات کی اصلاح کا نہیں۔ تاریخ کا یہ بہت واضح سبق ہے، مگر اقتدار کے نشے میں مست قیادتیں اور بیرونی دبائو کے اسیر حکمران وہی غلطیاں کرتے چلے جاتے ہیں، جو ماضی میں اقوام کی تباہی اور انسانیت کی بربادی کا سبب بنی ہیں۔ موجودہ وفاقی حکومت اور سرحد کی صوبائی حکومت دونوں نے سوات کے معاملے میں تاریخی غلطیوں کا ارتکاب کیا ہے، اور سیکڑوں ہزاروں انسانوں کی ہلاکت اور ۳۰لاکھ سے زیادہ افراد کی خانہ بربادی کی ذمہ داری اپنے سر لی ہے۔
ہم اس بات کو بڑے واشگاف انداز میں کہنا چاہتے ہیں کہ سوات اور بونیر میں طالبان یا طالبان کے نام سے مختلف افراد اور گروہوں نے جو بھی غلطیاں کی ہوں، ان پر گرفت ضروری ہے۔ مگر ان کو وجہِ جواز بناکر امن کے پورے عمل کو برباد کرکے رکھ دینے، اور امریکی خواہشات کی تسکین کے لیے اپنی فوج کو، اپنی ہی قوم کے خلاف جنگ میں جھونک دینے کا کوئی جواز نہیں۔ مذاکرات، افہام و تفہیم، جرگہ اور مفاہمت کے سوا حالات کی اصلاح کا کوئی دوسرا حل نہیں ہے۔ قوت کا استعمال دراصل سیاسی قیادت اور اس کی حکمت عملیوں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے، اور ۳۰ لاکھ افراد کی خانہ بربادی اس پالیسی کے ناکام ہونے کا کھلا اظہار ہے۔
ہمیں تعجب ہوتا ہے کہ حکمران، لبرل سیکولر دانش ور اور کالم نگار بار بار یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ: ’’مذاکرات کس سے کیے جائیں‘‘؟ پارلیمنٹ کی قرارداد نے اس کا واضح جواب دے دیا ہے کہ تمام متعلقہ عناصر سے بات چیت ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے بلاشبہہ جنگ بندی ضروری ہے مگر ’پہلے ہتھیار پھینکو پھر بات کریں گے‘ کا مطالبہ سیاسی اورعسکری تاریخ سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا۔ جن کو دہشت گرد کہا جاتا ہے، انھی سے بات چیت کرنا ہوتی ہے اور پوری تاریخ اس پر گواہ ہے۔ کیا جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا سے، جسے مغربی اقوام نے دہشت گرد قرار دیا ہوا تھا، مذاکرات نہیں کیے گئے؟ کیا آئرلینڈ میں آئرش جنگ جوؤں سے مذاکرات نہیں ہوئے اور معاہدات طے نہیں ہوئے؟ ۱۸سال کی اس دہشت گردی اور جنگ و جدل کے ذمہ داران جن کا برطانوی ریڈیو یا ٹی وی پر نام نہیں لیا جاسکتا تھا، وہی مذاکرات اور معاہدات کے شریک نہیں بنے، اور طرفہ تماشا یہ کہ معاہدے کے ۱۵سال گزرنے کے بعد آج تک ہتھیاروں کی واپسی کا عمل مکمل طور پر پورا نہیں ہوا۔ کیا عراق میں مسلح جماعتوں کی قیادتوں سے امریکا اور عراق کی امریکا کی پروردہ قیادت نے بات چیت نہیں کی؟ کیا افغانستان میں ہلمند کے صوبے میں برطانوی فوج نے وہاں کے طالبان سے مذاکرات اور افہام و تفہیم کے راستے اختیار نہیں کیے؟ کیا اس وقت امریکا میں ’اچھے طالبان‘ اور ’بُرے طالبان‘ کا فرق پیدا کرکے مذاکرات کی راہیں ہموار نہیں کی جارہیں؟ کیا ہالبروک نے گلبدین حکمت یار کو ’عالمی دہشت گرد‘ کا خطاب نہیں دیا تھا؟ اور اب انھی سے سلسلہ جنبانی شروع کرنے کی کوشش نہیں کی جارہی؟
اگر پوری تاریخ مذاکرات، افہام و تفہیم اور سیاسی عمل کے ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے تو پاکستان میں جن کو دہشت گرد کہا جا رہا ہے، ان سے بات چیت کیوں نہیں ہوسکتی اور صرف ایک بار نہیں، بار بار کیوں نہیں ہوسکتی؟ مشکل حالات سے نکلنے کے لیے ایک نہیں سو بار بھی بات چیت کی جائے تو مضائقہ نہیں۔
اس باب میں امریکا کی پالیسی نہ صرف دوغلی ہے، بلکہ حقائق پر بھی مبنی نہیں ہے۔ اس نے نہ ویت نام سے کوئی سبق سیکھا ہے اور نہ لاطینی امریکا میں اپنے جارحانہ تجربات کی تلخ تاریخ سے۔ ایک طرف عراق سے افواج نکالنے کی بات کر رہا ہے، تو دوسری طرف افغانستان میں فوج بڑھانے کا عندیہ دے رہا ہے۔ سری لنکا میں سرکاری فوج کی تامل ٹائیگرز پر فوج کشی کی امریکا، برطانیہ، یورپی اقوام، حقوق انسانی کی تنظیموں اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے مذمت کی، مگر دوسری طرف پاکستان میں سوات پر فوج کشی پر تعریفوں کے ڈونگرے برسائے اور ڈالروں کی بارش کرنے کی طفل تسلیاں دیں۔ طالبان کی کارروائیوں کو حکومت کی رِٹ اور ملک کی حاکمیت پر ضرب قرار دیا اور اپنے ڈرون حملوں کو ’اپنے حق دفاع‘ کا نام دیا۔ امرِواقعہ یہ ہے کہ امریکی سرکاری ترجمان کے مطابق پاکستان کی سرزمین پر امریکی ڈرون حملوں کے نتیجے میں القاعدہ کے صرف ۱۴ افراد مارے گئے، جب کہ عام معصوم شہریوں کی ہلاکت ۷۰۰ سے زیادہ ہے، یعنی ۲ فی صد کی خاطر ۹۸ فی صد معصوم انسانوں کو قتل کیا گیا اور پاکستان کی آزادی اور عزت کا کھلا مذاق اڑایا گیا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ وقت آگیا ہے کہ پاکستانی قوم، پارلیمنٹ اور سیاسی قیادت کو بڑے بنیادی فیصلے کرنا ہوں گے۔ ملک میں امن و امان کا قیام حکومت کی اولین ذمہ داری ہے، لیکن حکومت اس سلسلے میں ہرجگہ ناکام رہی ہے۔ قتل و غارت ، دہشت گردی، اغوا براے تاوان، ڈاکے اور خوں ریز تصادم صرف قبائلی علاقہ جات، سوات اور مالاکنڈ ہی میں نہیں ہو رہے، پورے ملک میں ہورہے ہیں۔ کیا کراچی میں ۱۲مئی ۲۰۰۷ء اور پھر ۱۹ اپریل اور پھر طالبانائزیشن کا ہوا کھڑا کر کے ایک ہی دن میں ۴۰ افراد کو لقمۂ اجل نہیں بنایا گیا۔ مئی ۲۰۰۹ء میں قومی اسمبلی میں جو اعداد و شمار دیے گئے ہیں، ان کے مطابق موجودہ حکومت کے دور میں جنوری ۲۰۰۸ء سے مارچ ۲۰۰۹ء تک ملک بھر میں دہشت گردی کے ۱۸۴۲ واقعات ہوئے، جن میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ۱۳۹۵ ہے۔
سب سے زیادہ واقعات بلوچستان میں ہوئے ہیں، جہاں ۱۱۲۲ واقعات میں ۴۳۶ افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ کیا حکومت کی رِٹ کا تعلق صرف سوات اور مالاکنڈ سے ہے، اور یہ جو تازہ ترین اطلاعات امریکا سے آرہی ہیں، کہ اس کی فوجیں افغانستان کے ساتھ ساتھ صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ قبائلی علاقوں میں بھی آپریشن کے لیے داخل ہورہی ہیں اور نیوکلیر اثاثہ جات پر قبضہ کرنے کے لیے پرتول رہی ہیں یا موقعے کا انتظار کر رہی ہیں۔ کیا ان سب مداخلتوں کا کوئی تعلق حکومت کی رِٹ سے نہیں ہے ؟
ہم اصولی طور پر سیاسی مسائل کا سیاسی حل تلاش کرنے کو صحیح حکمت عملی سمجھتے ہیں۔ قوت کا کامیاب ترین استعمال بطور دبائو (deterrence) تو روا رکھا جاسکتا ہے مگر بطور فوج کشی نہیں۔ قانون نافذ کرنے کا کام سول اداروں کو کرنا چاہیے۔ پولیس، اسکائوٹس، لیوی اور فرنیٹرکور کا یہ منصبی کردار ہے۔ نیز سول انتظامیہ اور روایتی جرگہ اس علاقے کا ایک بہت مؤثر اور تاریخی طور پر بڑا کارگر ادارہ ہے۔ مذاکرات اور افہام و تفہیم کا عمل ان کے ذریعے آگے بڑھنا چاہیے اور کوشش ہونی چاہیے کہ تمام متعلقین کو اس میں شریک کیا جائے ،اور معاملات کو مل جل کر مشاورت کے ذریعے طے کیا جائے، جس میں اعتمادسازی کے اقدامات سے لے کر اساسی نوعیت کے ایشوز پر اتفاق راے اور فیصلوں کے نفاذ کا طریقہ اور آداب طے کیے جائیں۔
فوج کا اولیں اور اصل کام ملک کی سرحدوں کا دفاع ہے، اپنی قوم پر گولیاں برسانا نہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں سول معاملات میں فوج کے استعمال کے جتنے تجربات ہوئے ہیں وہ سب ناکام رہے ہیں، خواہ ان کا تعلق بلوچستان سے ہو، یا مشرقی پاکستان سے، یا قبائلی علاقہ جات سے۔ خود سوات میں یہ تیسرا فوجی آپریشن ہے جو اپنی تباہ کاری میں اپنے پیش روؤں سے بازی لے گیا ہے اور اس کے ختم ہونے کی بھی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے۔ یہ دعویٰ کہ: ہم دہشت گردوں کو تباہ کردیں گے ایک بے سروپا دعویٰ ہے۔ دہشت گردی کو ختم کرنے کی کوشش ضرور ہونی چاہیے لیکن بش اور اوباما سے لے کر مشرف اور زرداری تک جو یہ دعوے کر رہے ہیں کہ وہ ان تمام لوگوں کو جنھیں وہ دہشت گرد قرار دیتے ہیں تباہ و برباد کر دیں گے، یہ طاقت کے ذریعے ایک ناقابلِ حصول ہدف ہے جس میں ہٹلر کے دعوؤں کی بازگشت سنی جاسکتی ہے۔ اس لب و لہجے میں نہ ہٹلر کامیاب ہوا اور نہ آج کے مزعومہ ہٹلر کامیاب ہوسکتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ فوجی حکومت ہو یا جمہوری سب کے رنگ ڈھنگ ایک ہی جیسے ہیں: دھونس، دھمکی، گولی اور تباہی۔ افسوس کہ مکالمہ، حکمت اور دل جیتنے کے راستے پر قدم بڑھانے سے یہ گھبراتے ہیں ؎
زمامِ کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا!
طریق کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی
ہم یہ بات بھی بہت صاف الفاظ میں کہہ دینا چاہتے ہیں کہ سوات کے معاہدے میں بہت سے سقم تھے، مگر ان سب کے باوجود وہ صحیح سمت میں ایک درست قدم تھا اور اس پر عمل ہونا چاہیے تھا۔ بلاشبہہ اس سلسلے میں سرحد کی صوبائی حکومت سے بھی بہت سی غلطیاں ہوئی ہیں لیکن ان سب کے باوجود معاہدے میں یہ صلاحیت تھی کہ سوات اور مالاکنڈ امن کی طرف پیش قدمی کرسکتے تھے۔ وفاقی حکومت اور امریکی قیادت نے، صوبائی حکومت کو اس معاہدے پر عمل کا موقع ہی نہیں دیا۔ جناب صوفی محمدصاحب کی خوش گفتاریاں اپنی جگہ اور طالبان کے کچھ عناصر کی ریشہ دوانیاں بھی امرِواقعہ ہیں، لیکن اصل ناکامی زرداری صاحب کی حکومت اور صوبائی حکومت کی ہے۔ پھر پاکستانی فوج کی قیادت نے بھی بہت جلدبازی کا مظاہرہ کیا اور گمان غالب ہے کہ یہ سب کچھ امریکا کے شدید دبائو، سیاسی بلیک میل اور معاشی رشوت کا کیا دھرا ہے۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ ہماری قیادت میں یہ دم خم اور یہ صلاحیت کیوں نہیں ہے کہ وہ اپنے ملک کے مفاد اور اپنے عوام کے جذبات اور احساسات کے مطابق فیصلے کرے اور امریکا کی تابع مہمل نہ ہوجائے۔ امریکا کی پوری تاریخ ہمارے سامنے ہے اور اس کے عالمی عزائم ایک کھلی کتاب کے مانند ہیں۔ امریکا کے اس کردار کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، لیکن اس باب میں بنیادی مجرم ہماری اپنی قیادت ہے، جو امریکا کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے اور اپنی قوم اور اپنے ملک کے مفادات کا خون کر رہی ہے۔ اقبال نے بجاطور پر کہا تھا ؎
یورپ کی غلامی پہ رضامند ہوا ُتو
مجھ کو تو گلا تجھ سے ہے ، یورپ سے نہیں ہے
حالات کو خراب کرنے میں حکمرانوں کی کمزوری، بے حکمتی اور مفاد پرستی کے ساتھ امریکا کا دبائو اور ہمارے ملکی معاملات میں اس کا اس قدر دخل کہ عمومی پالیسی سازی (macro- management) سے لے کر اب تو انتظامی معاملات اور اہم مقامات پر افراد کی تعیناتی یا منتقلی تک میں جسے micro-management کہا جاتا ہے، اس کا عمل دخل ہے۔ سیاسی قیادت، فوجی ذمہ داران، انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہ، اہم اپوزیشن جماعتوں کے کرتا دھرتا سب تک ان کی رسائی ہے۔ ترغیب و ترہیب (carrot and stick) کا ہرحربہ وہ بے دریغ استعمال کر رہے ہیں۔ یہ بڑی خطرناک صورت حال ہے اور سوات کے امن معاہدے، پھر سوات، دیر، بونیر، مالاکنڈ اور فاٹا میں عملاً فوج کشی میں ان کا کردار ہرحد کو پامال اور ملک کی آزادی اور سالمیت کو مخدوش کر رہا ہے۔ امریکا کی کھلی مداخلت کے ساتھ امریکا، بھارت اور اسرائیل کی خفیہ کارروائیاں اور تخریبی عناصر کے ذریعے ہماری سیاسی زندگی میں ان کی دراندازیاں ایک کھلی کتاب کی مانند ہیں۔ اگر قوم اپنی آزادی اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے اب بھی نہیں اٹھتی ہے تو ہمیں ڈر ہے کہ پھر اٹھنے اور آزادی کو بازیافت کرنے کے مواقع سے بھی محرومی ہمارا مقدر بن سکتی ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے ہم یہ بات بھی واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ جہاں مذاکرات، افہام و تفہیم اور مسائل کے سیاسی حل کو ہم اصلاحِ احوال کا واحد مؤثر ذریعہ سمجھتے ہیں، وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ سیاسی عمل، سفارت کاری اور معاہدہ بندی کے جو معروف اصول اور طریقے ہیں، ان کا اہتمام بھی کیا جائے۔ ورنہ تدبیر کی غلطیوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے سیاسی عمل مجروح اور ناکام ہوسکتا ہے۔ اپنی غلطیوں اور ناکامیوں کا وبال سیاسی عمل پر نہیں ڈالا جاسکتا، سوال تو اس عمل کو بروے کار لانے کا ہے۔ افسوس کہ بے تدبیری، عجلت پسندی، اور دُوراندیشی سے عاری رویوں کا تمام تر ملبہ محض مذاکرات کی افادیت پر ڈال دیا جاتا ہے۔
اس سلسلے میں اگر سوات معاہدے کے طریق کار اور متعلقین کے کردار کا جائزہ لیا جائے، تو اس کی ناکامی کے اسباب کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں۔ پہلی چیز طالبان اور امریکا دونوں کی طرف سے دبائو اور صوبائی حکومت کی کمزور پوزیشن ہے، جسے ہر مرحلے پر دیکھا جاسکتا ہے۔ پھر صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت کا ایک فکری سطح پر باہم تعاون کے لیے آمادۂ کار نہ ہونا ہے۔ صدر زرداری اس معاہدے کے پہلے دن سے مخالف تھے اور اس کے بارے میں منفی تاثر دینے میں لگے ہوئے تھے۔ بے اعتمادی اور صوبائی حکومت کے بے اثر ہونے کا تاثر بھی ان کے رویے ہی سے پیدا ہوا۔ اس پورے زمانے میں صدر کچھ کہہ رہے تھے، ان کے وزیرداخلہ کچھ اور فرما رہے تھے۔ فوجی ترجمانوں کی زبان کچھ اور صوبائی حکومت کچھ اور ہی راگ الاپ رہی تھی، بلکہ صوبائی حکومت نے مرکزی اور صوبائی حکومتوں سے علیحدگی کی دھمکی پر معاہدے کی راہ ہموار کی۔ معاہدہ ہونے کے بعد صدرمملکت نے ۸ ہفتے تک معاہدے پر دستخط نہیں کیے، کہ جس کے بغیر وہ نہ قانونی دستاویز کا مقام حاصل کرسکتا تھا اور نہ اس کے نفاذ کو حقیقی قرار دیا جاسکتا تھا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ صوبائی حکومت نے معاہدے کے نفاذ کا اعلان ۱۶ فروری کو کردیا، جب کہ اس پر دستخط اپریل کے وسط میں قومی اسمبلی کے ڈرامے کے بعد کیے گئے، اور اس طرح کیے گئے کہ امریکا میں وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن سے لے کر تمام سرکاری اور فوجی ترجمانوں اور پورے میڈیا نے اس عمل پر پاکستانی حکومت کو ہتھیار ڈالنے کا طعنہ دیا۔ پھر کہا کہ اب طالبان اسلام آباد اور نیوکلیر اثاثوں پر قبضہ کرلیں گے بلکہ ہیلری کلنٹن نے تو پاکستان کے عوام تک سے اپیل کی کہ اس کے خلاف اعلانِ بغاوت کریں اور مزاحمت کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں۔
معاہدے پر عمل درآمد کا ابھی آغاز بھی نہیں ہوا تھا کہ اسے سبوتاژ کرنے کا منظم کام شروع ہوگیا۔ فوج کی نقل و حرکت بھی شروع ہوگئی۔ معاہدے کے چند دن کے بعد فوج کے ایک قافلے کو طالبان کی مزاحمت کی وجہ سے واپس آنا پڑا اور اس فوجی حرکت نے بے اعتمادی کی فضا کو بڑھا دیا۔ طالبان کی طرف سے بھی پے درپے ناقابلِ فہم غلطیاں اور حماقتیں ہوئیں، جن میں جناب صوفی محمد کے بیانات اور بونیر کی طرف طالبان کی نقل و حرکت نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ امریکا نے اپنے ترپ کے پتے بڑی ہوشیاری سے استعمال کیے۔ صدر زرداری اور افغان صدر کرزئی کو بلیک میل کی عالم گیر فضا میں واشنگٹن بلایا اور امریکا کی فوجی قیادت نے پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت پر طرح طرح سے ’کمانڈو ایکشن‘ کیا اور بالآخر یہ معاہدہ زمین پر چکناچور ہوگیا۔
امن کی جو ننھی سی کرن روشن ہوئی تھی، وہ دم توڑ گئی۔ آسمانوں سے گولے برسنے لگے اور سوات کے بے بس شہری دربدر ہونے پر مجبور ہوگئے۔ لاکھوں بے گھر ہوئے اور جو گھروں سے نہ نکل سکے ان کے گھر ہی قیدخانے اور عقوبت خانے بن گئے اور وہ بے کسی اور کسمپرسی کے عالم میں دربدر کی ٹھوکریں کھانے لگے۔
سرحد حکومت کی دو اور غلطیاں بھی ہیں جن کی نشان دہی ضروری ہے۔ مرکز کا عدم تعاون بلکہ اس عمل کو درہم برہم کرنے کی کوششیں اپنی جگہ، اور امریکا کا دبائو اور ریشہ دوانیاں بھی مسلّم، مگر صوبائی حکومت نے صرف ایک شخص جناب صوفی محمد پر غیرضروری اور غیرمعمولی اعتماد کیا اور مذاکرات کے عمل میں علاقے کے تمام متعلقہ طبقوں بشمول طالبان کے نمایندوں کو شامل نہیں کیا۔ محترم صوفی محمدصاحب اس علاقے کی ایک معروف شخصیت ہیں۔ ان کا علمی مقام خواہ کچھ ہو، مگر ان کا خلوص اور سادگی اور علاقے میں ان کی پذیرائی ایک جانی بوجھی حقیقت ہے۔ لیکن اس امر سے بھی سبھی واقف ہیں کہ جمہوریت وغیرہ کے بارے میں ان کے کچھ مخصوص خیالات ہیں جن کا وہ گذشتہ ۲۰سال سے اظہار کرتے رہے ہیں، یہ کوئی نئی چیز نہیں۔ لیکن ان کو اشتعال دلاکر یا ایک منصوبے کے تحت ان سے کچھ باتیں اگلوائی گئیں اور پھر ان کی بڑے پیمانے پر تشہیر کرکے انھیں معاہدے کو پرزے پرزے کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ یہ کھیل صاف دیکھا جاسکتا ہے اور بدقسمتی سے صوبائی حکومت بھی اس کا شکار ہوگئی۔ اگر صوبائی حکومت نے تمام عناصر کو شریکِ معاہدہ کیا ہوتا تو ایک فرد کی کسی راے سے وہ فساد نہ اٹھایا جاسکتا۔ یہ بھی طرفہ تماشا ہے کہ ایک طرف ایک تنظیم کو کالعدم کہا جا رہا ہے، دوسری طرف اس کے سربراہ سے سربراہ کی حیثیت سے معاہدہ کیا جاتا ہے۔
دوسری بنیادی غلطی یہ ہوئی کہ ماضی کے معاہدات اور ان کی ناکامی سے کوئی سبق نہیں سیکھا گیا۔ ہرمعاہدے کو امریکا نے سبوتاژ کیا، اس لیے پیش بندی کی ضرورت تھی۔ اس سے بھی زیادہ اہم چیز یہ تھی کہ معاہدے میں ایک داخلی خودکار انتظام اس امر کا ہونا چاہیے تھا کہ خلاف ورزی کی صورت میں اختلافات کو رفع کرنے کا طریق کار کیا ہوگا؟ پشتون علاقے کی جرگے کی روایات کا یہ ایک حصہ ہے کہ خلاف ورزی کے تعین کا طریقہ، ثالثی اور خلاف ورزی کی سزا معاہدے کا حصہ ہوتا ہے۔ جدید اصولِ قانون (Jurisprudence) میں جسےalternate Justice (قیامِ انصاف کا متبادل نظام )کہا جاتا ہے، اس کا ایک معروف اصول یہ ہے کہ ثالثی اور خلاف ورزیوں پر قابو پانے کا انتظام معاہدے کا حصہ ہوتا ہے۔ اس علاقے میں پچھلے ۲سال میں ۶ معاہدوں کی ناکامی کے پس منظر میں صوبائی حکومت کی ذمہ داری تھی کہ معاہدے میں خلاف ورزی اور اس سے نمٹنے کے طریقے اور نظامِ کار کا اہتمام کرتی۔ لیکن جلدبازی میں یا دبائو کے تحت ان بنیادی امور کو ملحوظ نہیں رکھا گیا، جس کی بڑی بھاری قیمت یہ علاقہ اور پوری قوم ادا کر رہی ہے۔
اس دلدل میں جس طرح فوج دھنستی چلی جارہی ہے، وہ قومی سلامتی اور فوج اور قوم کے درمیان اعتماد اور یک رنگی کے رشتے کو بُری طرح متاثر کر رہا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ سیاسی اور فوجی قیادت بڑے شفاف انداز میں اور دستور کی اسکیم، جمہوری اور اسلامی آدابِ حکمرانی کے مسلّمہ اصولوں اور ضابطوں کی روشنی میں اس پورے معاملے پر غور کرے۔ جلد از جلد فوج کو سیاسی کردار اور داخلی آپریشن کی دلدل سے نکالنے کا کام انجام دیا جائے۔ طالبان سے فوج اور اس کی ایجنسیوں کے تعلق، اور خصوصیت سے گذشتہ ۶ سال کے مختلف فوجی آپریشنوں اور ان آپریشنوں کے وقت، دورانیے اور تفویض کردہ اہداف کی روشنی میں بڑے پریشان کن سوالات سامنے آرہے ہیں، جن کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
مثال کے طور پر بار بار یہ بات کہی جاتی ہے کہ: ’’فوج کی تربیت روایتی جنگ کے لیے ہوئی ہے اور اندرونی انتشار کے مقابلے کی نہ اس کو تربیت دی گئی ہے، اور نہ اس کے پاس اس کام کے لیے مطلوبہ سازوسامان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فوج ان علاقوں میں فضائی قوت اور بھاری توپ خانہ استعمال کر رہی ہے‘‘۔ بظاہر ان باتوں میں وزن بھی نظر آتا ہے لیکن گہرائی میں جاکر حالات کا جائزہ لیا جائے تو تصویر کے بہت سے دوسرے رُخ بھی سامنے آتے ہیں۔ پیادہ فوج (انفنٹری) اور کمانڈو یونٹوں کی تربیت اور ان کے میدان کار کو پیش نظر رکھا جائے تو اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ زمینی میدانِ جنگ کے حالات سے نمٹنا ان کا حصہ ہے۔ فضائی قوت اور بھاری توپ خانے کا استعمال جنگی حکمت عملی کا حصہ ہوتا ہے، مجبوری نہیں۔ یہ وہ حکمت عملی ہے جسے امریکا نے استعمال کیا ہے، تاکہ فوج، انسانی ٹکرائو اور مقابلے کے جواب میں تکنیکی جنگ کے ذریعے مدمقابل کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچا سکے اور اپنے جانی نقصان کو کم سے کم رکھ سکے۔ لیکن انسانی نقطۂ نظر سے یہ بڑی ظالمانہ اور سفاکانہ حکمت عملی ہے جس کے نتیجے میں مجرموں کے مقابلے میں عام انسانی جانیں بڑے پیمانے پر ضائع ہوتی ہیں، اور بڑی بڑی آبادیاں برباد کر دی جاتی ہیں۔
فوج نے جو حکمت عملی اس علاقے میں اختیار کی ہے، اس کا منطقی تقاضا بڑے پیمانے پر جانوں کا اتلاف اور علاقوں کی بربادی ہے۔ اعتراض ملٹری آپریشن پر بھی ہے اور اس طریق کار اور حکمت عملی پر بھی، جو اختیار کی گئی ہے جس کے نتیجے میں عوام کا نقصان بڑے پیمانے پر واقع ہو رہا ہے۔ جن کو اصل نشانہ قرار دے کر آپریشن کا آغاز کیا گیا ہے، وہ خود فوجی ترجمان کے بقول بچ نکلتے ہیں۔ اعتراض اس پر بھی ہے کہ یہ پورا عمل کسی قومی مشاورت اور کسی اتفاق راے کے بغیر انجام دیا جا رہا ہے۔ اگر اس کے طریق واردات کا جائزہ لیا جائے تو امریکی مطالبات سے ان کا رشتہ بہت صاف نظر آتا ہے۔ اسی طرح امریکی قیادت سے پاکستان میں یا امریکا میں ملاقاتوں کے ساتھ بھی ان کا بڑا واضح تعلق سامنے آتا ہے۔ یہ تمام چیزیں پورے عمل کو بڑا مخدوش بنا دیتی ہیں۔ طالبان اور دہشت پسندوں کے مارے جانے کے جو دعوے کیے جاتے ہیں، ان کی بھی آزاد ذرائع سے توثیق یا تردید کے تمام راستے بند کردیے گئے ہیں۔ سرکاری دعووں میں عام شہریوں اور معصوم خواتین و حضرات اور بچوں کی ہلاکت کا کوئی ذکر نہیں کیا جاتا، جب کہ عوامی سطح پر جو حقائق سامنے آتے ہیں، ان میں بڑا نقصان عام انسانوں ہی کا بتایا جاتا ہے، اور جو افراد ان علاقوں سے نقل مکانی کرکے آئے ہیں ان کی داستانیں سن کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اپنی ہی فوج کے ہاتھوں، اپنے بھائی، بہنوں اور بچوں کی ہلاکت اور تباہی کے احوال دیکھ اور سن کر انسان کلیجہ تھام کر رہ جاتا ہے۔
پھر اگر ان ستم زدہ انسانوں کی داستانوں کا تجزیہ کیا جائے تو بڑے پریشان کن سوالات اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور آپریشن کا ہدف بننے والے علاقے میں فوج کی چوکیاں اور مبینہ طالبان کی چوکیاں اپنے اپنے مقامات پر موجود رہتی ہیں۔ فضائی بم باری اور توپ خانے کی بم باری سے ان پر کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ اسی طرح دہشت پسندوں کے بہت سے ٹھکانے صرف اس وقت تباہ ہوتے ہیں، جب وہ ان کو خالی کر کے دوسرے مقامات پر منتقل ہوچکے ہوتے ہیں۔ ہزاروں افراد کو تو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے، مگر بڑے بڑے مطلوبہ دہشت گرد ہرگرفت سے آزاد رہتے ہیں۔ وہ ایف ایم ریڈیو کہ جنھیں غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ کے طلبہ کہتے ہیں کہ ہم غیرمؤثر اور جام کرسکتے ہیں،وہ برابر آتش افشانی کرتے رہتے ہیں اور سول و فوجی قیادت اپنی بے بسی کا اظہار کرتی ہے۔ اسی طرح دہشت گردوں کے پاس ڈالروں کی فراوانی اور تازہ ترین اسلحے کا واویلا کیا جاتا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ ان کی سپلائی کے راستوں کو ختم کرنے کے لیے کیا کیا گیا؟ اس کا عوام یا عوامی نمایندوں کو کچھ پتا نہیں ہے۔ کیا وجہ تھی کہ مقامی پولیس نے فتنے کے ابتدائی ادوار ہی میں اسے قابو کرنے کی کوشش نہیں کی؟
روزنامہ ایکسپریس ، اسلام آباد کے ایک کالم نگار فضل ربی راہی نے اپنے مضمون: ’اپنا اثاثہ کون ضائع کرتا ہے‘ کے تحت ایسے ہی واقعات کے انبار میں سے چند نکات کو سوالیہ نشان کے ساتھ پیش کیا ہے، جن کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا:
۱- جب مولانا فضل اللہ کو اسلحہ بارود فراہم کیا جارہا تھا اور ان کے ساتھیوں کو ’ضروری ٹریننگ‘ دی جا رہی تھی تو اس وقت حساس اداروں نے کیوں اپنی آنکھیں بند کیے رکھیں؟
۲- جب مولانا فضل اللہ کی سرگرمیاں روکنے میں مقامی پولیس بھی کامیاب ہوسکتی تھی تو اس وقت جوابی کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ ایک مقامی ایس ایچ او کے مطابق: ’’اگر اس وقت مجھے فری ہینڈ دے دیا جاتا تو چند گھنٹوں کے اندر ہی وہ اپنے تمام ساتھیوں سمیت حوالات میں بند ہوتے‘‘۔ لیکن بقول ان کے انھیں سختی سے ہدایات دی گئی تھیں کہ وہ اس معاملے میں ٹانگ نہ اڑائیں۔
۳- جب مشرف دور میں سوات کے راستے لنڈا کی چیک پوسٹ پر مبینہ طور پر اسلحے سے بھرا ہوا ایک ٹرک پکڑ لیا گیا تھا، تو کسی نے اُوپر سے احکامات جاری کردیے تھے کہ اسے بحفاظت امام ڈھیری تک پہنچنے دیا جائے۔
۴- سوات میں اس سے قبل بھی ۳ بار فوجی آپریشن چلتے رہے ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق اپرسوات اور تحصیل خوازہ خیلہ کی بعض چیک پوسٹوں پر ’طالبان‘ کو باقاعدہ آمدورفت کی اجازت تھی، جب کہ ان ہی آرمی چیک پوسٹوں پر عام شہریوں کو خوب تنگ کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ چیک پوسٹ کے قریب طالبان نے متعدد دفعہ لوگوں کو ’شرعی سزائیں‘ دیں، لیکن چیک پوسٹ پر تعینات سیکورٹی فورسز تماشا دیکھتیں اور ’کاروبارِ طالبان‘ میں کوئی مداخلت کی جرأت نہ کرتیں۔ حالانکہ اس وقت فضا میں گن شپ ہیلی کاپٹر بھی محوِپرواز ہوتے، لیکن ان کی فائرنگ کا نشانہ پہاڑ ہوتے۔
۵- سابقہ آپریشنز جو قریباً ڈیڑھ سال تک جاری رہے، ان میں شہری آبادی کا غیرمعمولی جانی و مالی نقصان ہوتا رہا۔ قریباً ۲ ہزار عام شہری، مارٹر گولوں اور سیکورٹی فورسز کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ ہزاروں گھر اور دکانیں تباہ ہوئیں، لاکھوں لوگوں نے متاثرہ علاقوں سے نقل مکانی کی۔ ایک سال تک سوات بھر میں کرفیو نافذ رہا، لیکن اس کے باوجود عسکریت پسندوں کو ختم نہیں کیا جاسکا۔ سوات کے ۲۰۰ اسکولوں کو تباہ ہونے سے نہیں بچایا جاسکا۔
۶- سابق آپریشنوں میں ۵۰ طالبان بھی نہیں مارے گئے ہیں اور اس کی تصدیق نہ صرف غیرجانب دار میڈیا کرے گا، بلکہ سوات میں رہنے والے کسی بھی فرد سے پوچھا جاسکتا ہے کہ مختلف علاقوں میں کتنے طالبان کی نمازِ جنازہ پڑھائی گئی ہیں؟
کالم نگار نے ان واقعات کا ذکر کرنے کے بعد بجا طور پر یہ سوال اٹھایا ہے کہ: درج بالا حقائق کی روشنی میں سوات کے لوگ اب بھی موجودہ آپریشن کو ’ڈراما‘ سمجھتے ہیں، اور ان کا خیال ہے کہ جس فوجی کارروائی کے لیے ۱۵ لاکھ سے زائد لوگوں کو اپنے ہی ملک میں بے گھر کرکے دربدر کیا گیا، یہ کارروائی کمانڈو ایکشن کے ذریعے چند دنوں میں بہ آسانی مکمل کی جاسکتی تھی۔ ایک حاضرسروس میجر نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ پاک فوج کے پاس اتنی صلاحیت موجود ہے کہ اگر وہ چاہے تو محض ۶ گھنٹوں میں پورے سوات کو عسکریت پسندوں سے خالی کرسکتی ہے۔
پاک فوج کی صلاحیت کے بارے میں سوال بار بار اٹھایا جا رہا ہے، اور امریکا بھی اس کا سہارا لے کر پاک فوج میں ’تربیت فراہم کرنے‘ کے نام پر، اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے لیے کوشاں ہے۔ تاہم حال ہی میں سری لنکا کی فوج کی کارروائیوں کے بارے میں جو جائزے آئے ہیں، ان میں یہ دل چسپ اور چشم کشا بات سامنے آئی ہے کہ سری لنکا کی فوج کو داخلی بغاوت کا مقابلہ کرنے کی تربیت جن ممالک نے دی تھی، ان میں پاکستانی فوج بھی شامل ہے۔ ملاحظہ ہو، دی نیوز کی رپورٹ Pakistan's Role in Death of LITTE (۲۰ مئی ۲۰۰۹ء)۔ صرف ایک اقتباس:
سری لنکا کی فوج کے ہاتھوں تامل ٹائیگرز کی بغاوت کو کچلنے میں سری لنکا کے ساتھ پاکستان کے دفاعی تعاون نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ تعاون ہائی ٹیک فوجی سامان کی فراہمی کی شکل میں تھا۔ یہ بات کہ سری لنکا اور پاکستان کی افواج میں تامل ٹائیگرز بغاوت کا مقابلہ کرنے کے لیے باہمی تعاون تھا، اس کی تصدیق سری لنکا کی فوج کے ترجمان بریگیڈیئر اودیا ناناکارا نے ۲۸ اپریل ۲۰۰۶ء کو کی تھی کہ پاکستان اور بھارت دونوں سری لنکا کی افواج کو تامل ٹائیگرز کی بغاوت کو ختم کرنے کے لیے تربیت دے رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سری لنکا کی فوج نے دونوں ممالک سے جدید ترین ٹکنالوجی حاصل کی۔
اگر سری لنکا کی فوج کو پاکستانی فوج یہ یہ کچھ صلاحیت دے سکتی ہے تو پھر تہی دامن ہونے کا گلہ___ چہ معنی دارد؟ خود سوات کے لوگوں کا اس بارے میں کیا احساس ہے؟ اسے سوات ہی کے ایک روزنامہ آزادی (۲۲ مئی ۲۰۰۹ء) میں بی بی سی کے نمایندے کے الفاظ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:
بی بی سی نے دعویٰ کیا ہے کہ سوات میں فوجی کارروائی میں طالبان کی شکست، مختلف علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے اور کامیاب نتائج برآمد ہونے کا دعویٰ سراسر غلط ہے۔ سوات میں فوج کی کارروائی میں طالبان نہیں، بلکہ عام شہری نشانہ بن رہے ہیں۔ سوات کے ایک رہایشی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر سوات کی حقیقی صورت حال سے آگاہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا: میں سوات میں رہتا ہوں، سوات میں طالبان ابھی تک موجود ہیں۔ حکومت میڈیا کو اجازت کیوں نہیں دیتی کہ وہ یہاں کی صورت حال سامنے لائے؟ انھوں نے کہا: حکومت کا یہ دعویٰ بے بنیاد ہے کہ فوج نے کچھ علاقوں کا کنٹرول حاصل کرلیا ہے اور آپریشن میں کامیابی ہورہی ہے اور دورانِ آپریشن کئی عسکریت پسند بھی ہلاک کردیے ہیں۔ یہ دعویٰ سراسر غلط ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہاں پر نہ تو کوئی فوج ہے اور نہ سرکاری اہل کار نظر آرہے ہیں۔ اگر کارروائی ہو بھی رہی ہے تو وہ معصوم لوگوں کے خلاف ہو رہی ہے۔ اس کارروائی میں طالبان کے بجاے عام شہریوں کا قتلِ عام ہو رہا ہے۔ طالبان کے علاقے پر کنٹرول کے حوالے سے اس شخص کا کہنا تھا کہ ۱۰۰ فی صد علاقوں پر طالبان کا کنٹرول ہے۔ میں اس بات کا یہاں پر کئی دنوں سے مشاہدہ کر رہا ہوں۔ فوج کی شیلنگ [گولہ باری] کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ فوج رات کے وقت آکر بم باری کرتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ علاقے سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔ ٹیلی فون کے تاروں کو کاٹ دیا گیا ہے۔ یہاں نہ تو بجلی ہے اور نہ پانی۔
یہ صورت حال ۲۰، ۲۲ مئی کی ہے۔ بعد میں حالات جو بھی ہوں، ان تمام سوالات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، کہ جو خصوصیت سے گذشتہ ۵،۶ سال پر پھیلے ہوئے فوجی آپریشنوں کے تسلسل میں سامنے آئے ہیں اور جن کی مطابقت آج کی کارروائیوں سے گہری ہے۔ ہم ان تمام شبہات اور سوالیہ نشانات کی نہ توثیق کرسکتے ہیں اور نہ تردید۔ لیکن ان کا شفاف انداز میں سامنا کیے بغیر کوئی چارۂ کار نہیں!
امریکی قیادت جن میں پہلے صدر بش اور اب صدر اوباما سب سے نمایاں ہیں۔ یہاں پاکستانی حکمران جن میں جنرل پرویز مشرف اور آصف علی زرداری سب سے پیش پیش ہیں۔ اب ان آوازوں میں وزیراعظم یوسف رضاگیلانی اور مسلم لیگ ن کے قائد جناب میاں محمد نواز شریف بھی اپنی آواز ملا رہے ہیں، پورے دعوے کے ساتھ دو باتیںکہہ رہے ہیں: ایک یہ کہ پاکستان، امریکا بلکہ پوری دنیا کو اصل خطرہ انتہاپرستی اور ’دہشت گردی‘ سے ہے۔ دوسرا یہ کہ ان کو پوری قوت، خصوصیت سے فوجی قوت سے ختم کرنے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں۔ اس سلسلے میں القاعدہ اور طالبان کو خصوصی ہدف قرار دیا جا رہا ہے۔
ہم سب سے پہلے تحریکِ اسلامی کے اس اصولی اور تاریخی موقف کا اعادہ ضروری سمجھتے ہیں، کہ جہاں اسلام وہ دین ہے جو انسانیت کے لیے اللہ کی آخری ہدایت، اور جو زندگی کے ہرشعبے کے لیے واضح احکام اور رہنمائی فراہم کرتا ہے، وہیں تحریکِ اسلامی پہلے دن سے اس بنیادی حکمت عملی کی داعی ہے کہ زندگی کے پورے نظام میں اسلام کی مطلوبہ تبدیلی قوت اور جبر سے نہیں لائی جاسکتی۔ اس کے لیے قلب ونظر اور اخلاق و کردار کی تبدیلی سب سے بنیادی چیز ہے۔ اجتماعی زندگی میں قانون کا بھی ایک مقام ہے اور اس کے نفاذ کے لیے، ریاست کی قوت ناگزیر ہے۔ لیکن یہ سارا عمل الہامی ہدایت اور قانون کے فریم ورک میں انجام دیا جانا دین کا تقاضا ہے۔ پاکستان اور پوری دنیا میں اسلامی انقلاب دعوت و تبلیغ اور جمہوری، آئینی اور اخلاقی ذرائع ہی سے برپا کیا جاسکتا ہے۔ اسلامی تحریک اسی جدوجہد میں مصروف ہے جسے وہ اصول اور عملی حکمت عملی دونوں اعتبار سے ضروری سمجھتی ہے۔ جہاد، اسلام کا ایک بنیادی اصول ہے جس پر کوئی سمجھوتا ممکن نہیں۔ البتہ جہاد کا مقصد، طریق کار اور آداب، خود اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے طے کردیے ہیں، جن کا مکمل احترام ہرحال میں اور ہردور میں ضروری ہے۔
اس اصولی وضاحت کے ساتھ ہم یہ بھی واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ انتہاپسندی اور دہشت گردی کو ایک ہی حقیقت کے دو روپ قرار دینا اور دونوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا ایک اسٹرے ٹیجک فاش غلطی ہے، جو حالات کو بگاڑنے کا بڑا سبب رہی ہے۔ انتہاپسندی ایک فکری عمل ہے، جس کا مقابلہ ڈنڈے اور گولی سے نہیں کیا جاسکتا۔ اس چیلنج کا مقابلہ دلیل، تعلیم، مذاکرے اور مجادلے کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ یہ ایک تاریخی عمل ہے، جو ہر دور میں اور ہرتہذیب و تمدن کے درمیان رونما ہوتا رہا ہے۔ پوری انسانی تاریخ دو انتہائوں کے درمیان کش مکش، مبادلہ اور رد و قبول کے عمل سے عبارت ہے اور درمیان کا راستہ بھی اسی فکری اور تمدنی لین دین، سمجھوتے اور مفاہمت سے روپذیر ہوتا ہے۔
انتہاپسندی مختلف شکلوں میں آج بھی دنیا کے ہر معاشرے میں موجود ہے۔ کیا امریکا میں نیوکونز اور فنڈامنٹلسٹ ایک جیتی جاگتی حقیقت نہیں؟ کیا برطانیہ اور یورپ میں انتہاپسندی کی تحریکیں موجود نہیں ہیں؟ بلکہ تیزی سے غالب نظریے کو چیلنج کر رہی ہیں۔ یورپ کے کتنے ممالک ہیں جن میں انتہاپسند جماعتیں، سیاست میں کردار ادا کر رہی ہیں اور شریکِ اقتدار بھی ہیں یا شریکِ اقتدار رہی ہیں۔ کیا نازی اور فسطائی جماعتیں آج امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، یونان میں موجود نہیں ہیں اور کیا خود اسرائیل میں جسے جمہوری ملک کہتے ہوئے یورپ اور امریکا کے دانش وروں اور سیاست کاروں کی زبان نہیں تھکتی، ایک نہیں، نصف درجن ایک سے ایک انتہاپسند اور متعصب جماعت موجود نہیں ہے؟ اور اس وقت بھی وہاں کی حکومت میں شریک نہیں؟ کیا دنیا میں انتہاپسندی کو کبھی قوت سے ختم کیا جاسکا ہے؟ انتہاپسندی اور دہشت گردی اگر ایک دوسرے کو متاثر کر بھی رہی ہوں، تب بھی ان کا مقابلہ، صرف ایک حکمت عملی سے نہیں کیا جاسکتا، چہ جائیکہ ڈنڈے اور گولی سے اس کا قلع قمع کرنے کو واحد طریقہ سمجھ لیا جائے۔ یہ دونوں الگ الگ حقیقتیں ہیں اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے الگ الگ حکمت عملیوں کی تشکیل اور ان پر عمل ضروری ہے۔
رہا معاملہ دہشت گردی کا تو اس سلسلے میں بھی ہم دو باتوں کا اظہار ضروری سمجھتے ہیں: ایک یہ کہ حقیقی دہشت گردی کا توڑ اسی وقت ممکن ہے، جب اس کے اسباب کا صحیح صحیح تعین کرلیا جائے، اور ان اسباب کو دُور کیے بغیر دہشت گردی سے نجات ناممکن ہے۔ دوسرے یہ کہ دہشت گردی پر گرفت دستور اور قانون کے دائرے میں ہونی چاہیے۔ جنگ کے نام پر دستور، قانون، اخلاق اور مہذب معاشرے کی تمام اقدار کو پامال کرتے ہوئے، محض قوت کے ذریعے سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ دہشت گردی کو پروان چڑھانے اور فروغ دینے کا نسخہ ہے، اسے ختم کرنے کا نہیں۔ ان حربوں کے نتیجے میں سمجھ لینا چاہیے کہ اگر ایک دہشت گرد مارا جاتا ہے تو ۱۰ نئے دہشت گرد پیدا کردیے جاتے ہیں۔ اس لیے ایک جامع اور مربوط حکمت عملی کے بغیر کسی بھی معاشرے میں اور خاص طور پر پاکستان میں موجود دہشت گردی سے نجات ناممکن ہے۔
جہاں تک القاعدہ اور طالبان کا تعلق ہے، ان کے بارے میں بھی جذبات اور مفادات سے بالا ہوکر تمام امور کے معروضی مطالعے کی ضرورت ہے۔ القاعدہ اور طالبان دو الگ الگ حقیقتیں ہیں، اور ان کو گڈمڈ نہیں کرنا چاہیے۔ پھر افغانستان کے طالبان اور شے ہیں اور گذشتہ چند سال میں پاکستان میں طالبان کے نام پر جو تحریک وجود میں آئی ہے، وہ ایک دوسری حقیقت ہے۔ طالبان کی حقیقت سے انکار ہمالہ سے بڑی غلطی ہوگی۔ البتہ اس بات کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ افغانستان میں طالبان ایک خاص تاریخی پس منظر میں اور حالات کی ایک خاص صورت اختیار کرلینے کی وجہ سے رونما ہوئے۔ پھر ان کا ایک کردار ہے جو اَب ۲ عشروں پر پھیلا ہوا ہے۔ ان کا ایک دور وہ تھا، جب وہ افغانستان میں مجاہدین کی جماعتوں کی باہم آویزش، خانہ جنگی اور لاقانونیت کے تناظر میں وجود میں آئے، اور کچھ ممالک اور قوتوں نے اس میں ایک خاص کردار اداکیا۔ پھر ان کا ۷،۸ سال کا وہ دورِ اقتدار ہے جس کے مثبت اور منفی دونوں پہلو ہیں۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ طالبان نے افغانستان کے ۹۰ فی صد علاقے پر طاقت کے ذریعے نہیں بلکہ ایک سیاسی عمل کے ذریعے اقتدار حاصل کیا تھا۔ ان کے دور میں امن و امان قائم ہوا اور لوگوں کو انصاف، حتیٰ کہ کچھ طالبان کی غلطیوں یا زیادتیوں کے خلاف بھی انصاف میسر آیا۔ علاقائی سطح پر جنگ جُو لیڈروں کی تباہ کاریوں سے عوام کو نجات ملی اور افغانستان کی تاریخ میں ایک مدت کے بعد ان عناصر کو اسلحے سے پاک (de-weaponize) کیا گیا۔ جرائم میں بے پناہ کمی واقع ہوئی اور خصوصیت سے پوست کی کاشت جسے کوئی قابو نہیں کرسکا تھا، اس کا کسی تشدد کے بغیر قلع قمع کردیا گیا۔ اقوام متحدہ کے منشیات کے خاتمے سے متعلق محکمے کو اعتراف کرنا پڑا کہ افغانستان کی تاریخ میں سن ۲۰۰۰-۲۰۰۱ء وہ سال ہے، جس میں پوست کی کاشت تقریباً ختم ہوئی اور ’منشیات کی تجارت‘ نے دم توڑ دیا۔
ان مثبت پہلوئوں کے ساتھ طالبان کے دور کے منفی پہلو بھی ہیں، جن میں ان کے تصورِ اسلام کی تنگی اور اسلام اور پختون قبائلی روایات کا آپس میں گڈمڈ ہو جانا نمایاں ہیں۔ تعلیم اور خصوصیت سے لڑکیوں کی تعلیم اور مسلم معاشرے میں عورت کے کردار کے بارے میں ان کے خیالات اُمت مسلمہ کے معروف مسلک سے ہٹ کر تھے۔ اسی طرح عصرِحاضر کے تقاضوں اور ان کی روشنی میں ملک کی تعلیم،صحت، معیشت و صنعت، انتظامی و سیاسی ڈھانچے کی ترقی کے باب میں ان کے تصورات، اپنے حالات سے مخصوص تھے۔ دنیا کی اسلامی تحریکات کے خیالات سے ہم آہنگ نہ تھے۔ ان کے دورِ حکومت کا ایک اور پریشان کن پہلو افغانستان کی دوسری قومیتوں کے بارے میں ان کا رویہ بھی تھا، جس کی وجہ سے افغانستان کے تمام علاقوں اور جملہ قومیتوں میں ہم آہنگی اور اتفاق و اتحاد رونما نہ ہوسکا۔
ان تمام پہلوئوں کے علی الرغم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ طالبان، افغانستان کی ایک اہم قوت تھے اور ہیں۔ ان کو نظرانداز کر کے یا ان کو تباہ کرکے اور مٹادینے کے منصوبوں کے ساتھ افغانستان میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ صرف افغانستان ہی میں نہیں، بلکہ اس پورے خطے میں امن کا قیام ان سے معاملہ کیے بغیر ممکن نہیں۔ اس وقت افغانستان کا اصل مسئلہ ملک پر امریکی اور ناٹو افواج کا قبضہ ہے، اور افغانستان میں طالبان اس بیرونی قبضے کے خلاف مزاحمت اور آزادی کی تحریک کی علامت ہیں۔ یہ ایک قومی مزاحمت ہے، جس میں طالبان کے نام اور جھنڈے تلے تمام مزاحمتی قوتیں جمع ہوگئی ہیں۔ اس حقیقت کا ادراک معاملات کے سیاسی حل کے لیے ضروری ہے۔
جہاں تک پاکستان کے پشتون علاقوں میں طالبان کے مختلف گروہوں کا تعلق ہے یہ ایک نیا حوالہ ہے، اور اس کو وجود میں لانے کا اصل سبب جنرل مشرف کی وہ ظالمانہ پالیسیاں ہیں، جن میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر امریکی فوجوں کا حلیف بننا، پاکستان کی سرزمین کو افغانستان پر امریکی فوج کشی کے لیے استعمال کرنا اور پھر خود فاٹا، مالاکنڈ، سوات اور دیر میں پہلے امریکا کے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے القاعدہ اور اس کے معاونین کے خلاف فوج کشی۔ آخرکار القاعدہ تو محض عنوان بن کر رہ گئی ہے، لیکن اب یہ جنگ پاکستانی فوج اور پاکستانیوں اور خصوصیت سے دینی قوتوں کے خلاف جنگ بن گئی ہے، جس آگ میں اس وقت ہم سب جھلس رہے ہیں۔
ان حالات سے فائدہ اُٹھاکر متعدد قوتوں نے اس جنگ میں اپنا اپنا کردار تلاش کرلیا۔ عنوان تو طالبان کا ہے، لیکن اس میں حقیقی طالبان کے علاوہ مختلف مقامی اور بیرونی گروہ شریک ہوگئے ہیں، جن میں مختلف ممالک اور قوتیں اپنا اپنا کھیل کھیل رہی ہیں۔ معاشرے کے وہ مجرم عناصر جو اس علاقے کو اپنی مذموم کارروائیوں کے لیے ایک مدت سے استعمال کر رہے تھے، وہ بھی اسی چھتری تلے اپنا کھیل کھیل رہے ہیں۔ اسی طرح پاکستان دشمن قوتیں، خصوصیت سے بھارت، اسرائیل اور افغانستان کے وہ عناصر جو اپنی پاکستان دشمنی کے لیے جانے پہچانے جاتے ہیں، سب اس خونیں کھیل میں شریک ہیں۔ جب تک ان میں سے ہرعنصر کا الگ الگ تعین، اس کے مقاصد و اہداف، طریق کار اور کارگزاریوں کا ادراک نہ ہو، کوئی جامع حکمت عملی تیار نہیں کی جاسکتی۔
دو امور نے اس پیچیدہ صورت حال کو اور بھی پیچیدہ اور گمبھیر بنا دیا ہے۔ ایک وہ قوتیں اور عناصر جو ایک مدت سے ملک میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلا رہے ہیں۔ انھوں نے بھی اس صورت حال سے فائدہ اٹھا کر اپنا کھیل کھیلنا شروع کر دیا، اور کرم ایجنسی میں خاص طور پر اور پورے علاقے بلکہ پورے ملک میں اس فتنے کو ہوا دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
دوسرا پہلو زیادہ گہرا اور زیادہ اہم ہے۔ وہ یہ کہ طالبان کے طریق کار میں جو بھی غلطیاں اور سقم ہوں، اس علاقے میں جو سیاسی اور انتظامی خلا مختلف حکومتوں کی غلطیوں اور غفلتوں کی وجہ سے رونما ہوا تھا اس کی وجہ سے جو روایتی نظام وہاں قائم تھا، یعنی پولیٹیکل ایجنٹ، ملک اور جرگہ سسٹم وغیرہ وہ درہم برہم ہوگیا ہے۔ سول انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے کا روایتی نظام جو پولیس، اسکائوٹ اور فرنٹیر کانسٹیبلری سے عبارت تھا، غیرمؤثر ہوگیا ہے۔
جنرل مشرف کے دور میں یہ خلا اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ اسے دستور اور علاقے کی ضرورت کی روشنی میں پُر کرنے کی کوئی کوشش نہیں ہوئی۔ مذکورہ طالبان نے نہ صرف اس صورت حال کو ہوا دی، بلکہ مقامی قوانین اور بااثر طبقات کی جو گرفت تھی اور عوام کا جو استحصال وہ کر رہے تھے، اسے اپنے تصورات کے مطابق طبقاتی ہم آہنگی، مظلوم کی دادرسی، اجتماعی انصاف کی فراہمی کے ایک متبادل نظام کے تحت دُور کر کے لوگوں کو تحفظ فراہم کیا۔ بلاشبہہ اس میں انھوں نے قوت کا استعمال بھی کیا، اور اپنی دانست میں جن روایات کو صحیح سمجھتے تھے ان کو اختیار کرنے کے لیے لوگوں کو مجبور بھی کیا۔ لیکن اس پورے عمل کے جلو میں جو سماجی تبدیلی، مظلوم طبقات کی بحالی اور اجتماعی عدل کی پیاس رونما ہوئی اس کے سماجی اور سیاسی مضمرات نے ہر اعتبار سے اس علاقے کے پورے تناظر کو متاثر کیا ہے۔ اندریں حالات پہلے والی جوں کی توں کیفیت (status quo) کی بحالی ناممکن ہوگئی ہے۔
آج جب طالبان کا لفظ حکومت، میڈیا اور امریکا کی عنایت سے ایک گالی بنادیا گیا ہے، اور ان کے لیے کلمۂ خیر کہنے والے کو نکّو بنایا جا رہا ہے، اس اعتراف کی ضرورت ہے کہ طالبان کی اس علاقے میں مداخلت سے جہاں قوت کے بے جا استعمال کی ایک غلط روایت قائم ہوئی ہے، کہ جس کی اصلاح کی ضرورت ہے، وہیں سماجی، اخلاقی اور معاشی اعتبار سے جو نیا ایجنڈا لوگوں کے سامنے آیا ہے، اس کا ادراک کیے بغیر حالات کی اصلاح اور امن و استحکام کا حصول ناممکن ہے___ ہم چاہتے ہیں کہ اس نکتے کی وضاحت کے لیے طالبان کے مخالفین کی تحریروں سے کچھ حقائق پیش کریں، تاکہ مسئلے کو اس کے اصل تناظر میں سمجھا جاسکے۔ طالبان کو گردن زدنی قرار دینے کی جو مہم واشنگٹن سے کراچی اور اسلام آباد سے لندن تک چلائی جارہی ہے، اس کے تباہ کن ہونے اور پورے مسئلے کو قطعی طور پر ایک غیرحقیقی انداز میں پیش کرنے کی بھیانک غلطی کی اصلاح ہوسکے۔
مرتضیٰ بھٹو کی صاحبزادی فاطمہ بھٹو صاحبہ پر تو طالبان پسندی کا شبہہ بھی نہیں کیا جاسکتا، وہ تو لبرلزم اور جدیدیت کی علَم بردار ہیں۔ دیکھیے وہ مسئلے کے اس پہلو کے بارے میں کیا کہتی ہیں:
مسئلے کا حل زیادہ رقوم فراہم کرنا نہیں ہے بلکہ یہ تسلیم کرنے میں ہے کہ طالبان سوات کے رہنے والوں کا انتخاب نہیں ہیں۔ طالبان وہاں اس لیے ہیں کہ انھوں نے وہ سڑکیں بنائیں جو کئی عشروں سے نہیں بنائی گئی تھیں۔ انھوں نے کم سے کم لڑکوں کے لیے تعلیم فراہم کی، جب کہ سرکاری اسکولوں میں لاکھوں مقامی طلبہ ناکام ہوئے۔ انھوں نے میڈیکل سنٹر کھولے، جب کہ سرکاری ہسپتال وسائل نہ ہونے کی وجہ سے بند تھے۔ انھوں نے انصاف فراہم کیا، جب کہ عدالتوں نے بجاے عوام کے حکومت کا تحفظ کرنا شروع کر دیا۔ (Obama is Part of the Problem، نیو سٹیٹس مین، لندن، ۱۴ مئی ۲۰۰۹ء)
شیریں رحمن، پیپلزپارٹی کی رکن قومی اسمبلی اور سابق وزیراطلاعات ہیں۔ ان پر بھی طالبان نوازی کا ’الزام‘ نہیں لگ سکتا۔ لیکن دیکھیے وہ بھی کیا کہہ رہی ہیں۔ دی نیوز (۲۱ مئی ۲۰۰۹ء) میں اپنے مضمون Why the IDPS Matter میں کہتی ہیں:
کسی کو یہ امید نہیں کرنا چاہیے کہ جو خاندان پاپیادہ یا کرایے کی ٹرانسپورٹ میں بونیر، سوات اور دیر سے صدمے کی کیفیت میں آرہے ہیں وہ طالبان کی، جنھوں نے ان کو قید میں رکھا، کھل کر مذمت کریں گے۔ بہت سے نجی طور پر اس خوف کی کیفیت کا ذکر کرتے ہیں جس میں وہ رہے۔ لیکن ساتھ ہی بہت سے طالبان کے ماتحت سماجی انصاف کے امکان کی بات بھی کرتے ہیں۔
دی نیوز ہی کی ایک اور لبرل مضمون نگار کاملہ حیات اپنے مضمون میں رقم طراز ہیں:
ملکی سلامتی کی صورت حال نے عسکریت اور جہادی گروپوں اور سرکاری طاقتوں کے روابط میں اضافہ کیا ہے۔ اس کا مطلب ریاست کے لیے کچھ مخصوص ترجیحات کا تعین بھی تھا۔ عوام کو ضروری سہولتیں فراہم نہ کرنے میں ناکامی طالبان کے بڑھنے کا کلیدی سبب ہے۔ مہاجر کیمپوں میں جو اسکول قائم کیے گئے ہیں ان میں ۴۰ سے ۵۰ فی صد بچوں نے کہا ہے کہ ان کے خاندان طالبان کے حامی ہیں خاص طور پر اس وجہ سے کہ انھوں نے انفراسٹرکچر اور سہولتوں کو بہتر بنایا ہے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ محرومیاں اور مایوسیاں دوسری جگہوں پر بھی پائی جاتی ہیں۔ اگر ہمیں اپنی بقا مطلوب ہے تو ان احساسات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ضرورت ہے کہ ریاست نئے کردار میں سامنے آئے اور عوام کی ضروریات کو اوّلیت دے۔ (The Whole Picture، کاملہ حیات، دی نیوز، ۲۱ مئی ۲۰۰۹ء)
پاکستان کے سابق سفیر آصف ایزدی اپنے مضمون Drawing the Right Lesson from Swat میں مسئلے کے ان پہلوئوں پر بڑی جرأت سے اظہارِ خیال کرتے ہیں، جن پر مفادپرست اور تعصب کے پجاری پردہ ڈالتے ہیں اور سارے معاملے کو صرف ’انتہاپسندی اور دہشت گردی‘ کے عنوان سے پیش کرتے ہیں:
زرداری حکومت کے زیادہ تر فیصلوں کی طرح سوات میں فوجی آپریشن کا فیصلہ بھی دبائو کے تحت کیا گیا۔ خارجی دبائو اوباما انتظامیہ کی طرف سے آیا جسے پریشانی تھی کہ سوات دوسرے قبائلی علاقوں کی طرح القاعدہ کے لیے محفوظ جنت نہ بن جائے۔ لیکن داخلی دبائو بھی تھا۔ یہ دبائو روشن خیال اعتدال پسندوں کا اتنا نہیں تھا جو ایک لڑکی کے کوڑے لگانے پر نالاں تھے، اور نہ ان کا تھا جو فوری اور کڑے انصاف کے نظام کو من مانا سمجھتے تھے۔ فوجی ایکشن کے لیے حقیقی دبائو دراصل ان زمین داروں اور ان لوگوں کی طرف سے آیا جن کو خطرہ ہوا کہ ان کی جایدادیں طالبان کے ہاتھوں محفوظ نہ رہیں گی۔
ان کی نگاہ میں جنگ جوؤں کا اصل جرم یہ نہیں تھا کہ وہ شریعت کی تبلیغ کر رہے تھے بلکہ اسلامی مساوات کی بات بھی کر رہے تھے جو کچھ لوگوں کو طبقاتی جنگ سے مختلف نہیں لگ رہا تھا۔ طالبان نے اپنے نئے نظام کا پیشگی اندازہ اس وقت کروایا جب انھوں نے چند بڑے زمین داروں کو سوات چھوڑنے اور اپنی زمین بے زمین لوگوں کو دینے پر مجبور کر دیا۔ یہی نہیں بلکہ زمرد کی کانوں پر قبضہ کیا گیا اور آمدنی کا بڑا حصہ مزدوروں کو دیا گیا۔ جنگلات کا منافع جو اس سے پہلے لکڑی مافیا اپنی جیبوں میں بھرتے تھے تقسیم کیا گیا۔ پولیس اور حکومت کے وہ اہل کار جو جاگیرداری نظام کا سہارا تھے ان کو نشانہ بنایا گیا۔ ان اقدامات سے خطرے کی گھنٹیاں نہ صرف صوبہ سرحد بلکہ پورے پاکستان میں بجنے لگیں۔ چند صاحب ِدولت کی زمینوں کی ملکیت پر حملہ کر کے جو ہمارے موجودہ سیاسی، سماجی اور معاشی نظام کا کلیدی پتھر ہے، خطرے کی سرخ لکیر عبور کرلی گئی۔ پورے نظام کو خطرے میں ڈالے بغیر اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی تھی۔ اس لیے تعجب کی بات نہیں کہ ریاست نے پلٹ کر اس طرح حملہ کیا جس طرح اس نے کیا ہے۔
فوجی اقدام ان خرابیوں کا جن کی جڑیں سماجی معاشی ناانصافی میں ہیں، کوئی حل فراہم نہیں کرتا۔ موجودہ بے چینی و اضطراب کی بنیادی وجہ وہ جاگیرداری نظام ہے جو عام آدمی کو اس کی حالت ِ زار سے نجات کی کوئی اُمید نہیں دلاتا، جب کہ چند مراعات یافتہ لوگ ہی ساری دولت سمیٹ لیتے ہیں۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہے گا، وہ غلطی پر ہیں کیونکہ وقت بدل چکا ہے، چاہے انھیں معلوم نہ ہو۔
اگر فوجی آپریشن طالبان کو ختم کرنے کا اپنا مقصد حاصل بھی کرلے تب بھی یہ بے چینی اور اضطراب ختم نہیں ہوگا۔ جب تک ریاست سنجیدگی سے سماجی انصاف کے مسائل کو حل نہیں کرتی، سیاسی استحکام حاصل نہیں ہوگا۔ (دی نیوز، ۲۱ مئی ۲۰۰۹ء)
ان حقائق کا کوئی ذکر امریکا اور پاکستان کی سیاسی و فوجی مقتدرہ قوتوں اور ان کے ہم نوا میڈیا کے واویلا میں نہیں ملے گا۔ وہاں تو صرف دہشت گردوں کو مارنے اور ان کو تباہ و برباد کرنے کی گھن گرج کی تکرار ہوتی ہے۔ لیکن اب چند مغربی صحافی بھی، ان حقائق کا تذکرہ کرنے پر مجبور ہیں___ واشنگٹن پوسٹ کی نامہ نگار پامیلا کانسٹیبل ۱۰ مئی ۲۰۰۹ء کی اشاعت میں لکھتی ہے:
سوات میں شرعی عدالتوں کا مطالبہ طالبان کا فسانہ نہیں تھا بلکہ یہ سیکولر ریاست کے عدالتی نظام سے عوام کی شدید بے اطمینانی کا نتیجہ تھا۔ پورے ملک میں اس پر سست رو اور بدعنوان ہونے کی بنیاد پر تنقید کی جاتی ہے۔ جہاں مقدمے کئی عشروں تک چلتے ہیں اور بااثر لوگ اکثر پولیس کو خرید لیتے ہیں اور اپنے غریب فریقوں کے مقابلے میں مقدمات جیت لیتے ہیں۔ اسلامی عدالتیں عمومی طور پر چھوٹی، تیزرفتار اور کم خرچ ہیں۔
جگہ کی قلت کے باوجود ہم نے ان افراد کی زبان میں حقائق کے اس پہلو پر توجہ مرکوز کی ہے، جو حقیقی ہیں لیکن طالبان دشمنی اور اسلام بے زاری کے جذبات سے مغلوب ہوکر، ہمارا لبرل اور روشن خیال طبقہ اور امریکی و یورپی دانش ور اور سیاسی رہنما تو ذکر نہیں کرتے یا پھر اظہارِ حق کو اپنے مفاد سے متصادم پاتے ہیں۔ لیکن کم از کم پاکستانی قوم اور اس کی پارلیمنٹ کو تو تعصبات سے بالاہوکر تمام عوامل کا گہری نظر سے مطالعہ کرکے ایسی حکمتِ عملی بنانی چاہیے، جو پاکستان اور اس کے اپنے عوام کے مفاد میں ہو۔
پس چہ باید کرد
ہم نے جو معروضات ان صفحات میں پیش کی ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ:
۱- پاکستان کی اولین ترجیح دنیا پر اور خود اپنے علاقے اور ملک پر مسلط کردہ امریکا کی ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ سے کنارہ کشی اور ایک حقیقی آزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل و تنفیذ ہونی چاہیے۔ اس کے بغیر مسئلے کا کوئی حل نہیں۔
۲- سوات، مالاکنڈ، فاٹا اور بلوچستان میں فوجی آپریشن جلد از جلد بند ہونا چاہیے، اور ہردو علاقوں کے مسائل کا حقیقی سیاسی حل مذاکرات، افہام و تفہیم اور باہمی مشاورت سے نکالنے پر ساری توجہ، صلاحیت اور قوت کا استعمال ہونا چاہیے۔ اس میں نہ وقت کی کوئی قید ہے اور نہ مذاکرات کے بننے اور بگڑنے کی تعداد کی۔ مسئلہ سیاسی اور انسانی ہے اور اس کا حل بھی سیاسی اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ہی ہوسکتا ہے۔
۳- جہاں تک نفاذِ عدل ریگولیشن کا تعلق ہے، وہ اس پوری صورت حال کا حصہ نہیں۔ اس کا اپنا ایک مستقل وجود اور دائمی ضرورت بھی ہے۔ ان قواعد کو اپنے الفاظ اور روح کے ساتھ پورے علاقے میں نافذ ہونا چاہیے۔ جو تلخی یا تصادم پیدا ہوا ہے، اس کا اس عمل پر کوئی اثر نہیں ہونا چاہیے۔
۴- اس سیاسی عمل میں ان علاقوں کے تمام عناصر کی شرکت ضروری ہے، اور بیرونی مداخلت کا مکمل خاتمہ ناگزیر ہے۔
۵- امریکا سے برابری کی بنیاد پر اپنی آزادی، نظریاتی شناخت اور قومی اور ملّی مفادات کے فریم ورک میں دوستانہ تعلقات ضرور استوار کیے جائیں، مگر افغانستان میں امریکی فوجی کارروائی سے مکمل برأت کا اعلان ہو، ڈرون حملوں کا بھرپور جواب دیا جائے۔ جو مراعات اور سہولتیں امریکا اور ناٹو افواج کو پاکستان کی سرزمین پر حاصل ہیں، انھیں ایک واضح طریق کار اور ٹائم ٹیبل کے مطابق ختم کیا جائے۔
۶- پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد اور اس کی روشنی میں پارلیمانی کمیٹی براے قومی سلامتی کی سفارشات کی بنیاد پر ایک جامع اور مربوط حکمت عملی بنائی جائے۔ مرکز اور صوبوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے ۵۸ (۲-بی) اور دوسری متعلقہ دستوری ترمیمات کرکے دستور اور پارلیمنٹ کو اس حیثیت میں بحال کیا جائے جو ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء سے قبل تھی۔
۷- نقل مکانی کرکے مہاجرت اور بے سروسامانی کی زندگی بسر کرنے والے اہلِ وطن کے لیے جنگی بنیادوں پر، شفاف انداز میں زندگی کی تمام ضروری سہولتیں فراہم کی جائیں، اور جلداز جلد گھروں کو واپسی کا انتظام کیا جائے، نیز ان کے نقصانات کی مکمل تلافی کی جائے۔
۸- ملک میں قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی اور عدل کی فراہمی کا جلد از جلد اہتمام کیا جائے۔ اس سلسلے میں لاپتا افراد کی فوری بازیابی اور رہائی کو اوّلیت دی جائے۔ جو ادارے اور افراد اس لاقانونیت اور ظلم کے ذمہ دار ہیں، ان پر قانون کے مطابق گرفت کی جائے تاکہ یہ دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہوسکے۔
۹- قوم بجلی، پانی اور گیس کی عدم فراہمی، بے روزگاری اور غربت و ناداری اور اشیاے صرف کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے سے سخت تنگ ہے۔ فوری طور پر معاشی حکمت عملی کو تبدیل کیا جائے، عوام کے لیے نت نئی مشکلات پیدا کرنے کے بجاے انھیں حقیقی سہولت اور فوری سہولت دینے کا اہتمام کیا جائے۔ مفاد پرست طبقات بشمول سیاسی اور انتظامی اشرافیہ کے طرزِ زندگی کو ان حدود کا پابند کیا جائے، جو اجتماعی انصاف کے قیام کے لیے ضروری ہیں۔
۱۰- عوام کو تعلیم، صحت اور رہایش کی سہولتیں فراہم کرنے کا انتظام کیا جائے، اور قومی پالیسی کے ہرپہلو کو اسلام اور مسلم تمدن کی روایات سے ہم آہنگ کیا جائے۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے عوامی بیداری اور مؤثر سیاسی جدوجہد وقت کی اولیں ضرورت ہے۔
۱۱- سوات، دیر، بونیر اور فاٹا کے حالات میں گھرے ہونے کے باوجود بلوچستان کے مسئلے کو قرارواقعی اہمیت دی جائے اور حالات کی نزاکت کے بھرپور احساس کے ساتھ وہاں کے تمام عناصر کو مذاکرات میں شریک کر کے متفقہ لائحہ عمل تیار کیا جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔ بلوچستان کے اصل مسئلے کی تشخیص کوئی مشکل بات نہیں۔ اس پر خود پارلیمنٹ کی کمیٹی تفصیل سے غورکرچکی اور سفارشات دے چکی ہے۔ اصل مسئلہ مفاد پرست عناصر کا کردار، حکومت کی بے عملی اور بیرونی قوتوں کے تاخیری حربے اورسازشیں ہیں۔ کُل جماعتی کانفرنسیں مسئلے کا حل نہیں، مسئلے کا حل علاقے کے لوگوں کے ساتھ انصاف، فوجی ایکشن اور قوت کے استعمال کی حکمت عملی کو یکسر ختم کرنا اور سیاسی حل کی تلاش اور اس سے بھی زیادہ اس کے لیے فوری عملی اقدام ہے۔ دستوری ترامیم بھی اس پیکج کا حصہ ہیں۔ اس سلسلے میں تاخیر تباہ کن ہوسکتی ہے۔ لہٰذا دونوں میدانوں، یعنی صوبہ سرحد اور قبائلی علاقے اور بلوچستان میں فوری سیاسی حل اور نئے بندوبست کے اہتمام کو اولیت دینا ضروری ہے۔