قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۰۹ کا جومسودہ وفاقی وزارتِ تعلیم، حکومت پاکستان نے مشتہر کیا ہے، وہ ۱۱ ابواب اور ۶۴ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں پیش کردہ حقائق کا مطالعہ اور بیان کردہ اہداف کا تجزیہ کرتے ہوئے چند باتیں نمایاں طور پر سامنے آتی ہیں، جنھیں اختصار کے ساتھ یہاں پیش کیا جارہا ہے:
اس دستاویز کو تعلیمی پالیسی کہنا نامناسب ہوگا۔اس کا بیش تر حصہ، ماضی کے تعلیمی عمل پر غیر مربوط تنقید پہ مشتمل ہے۔ اسے پڑھتے ہوئے اندازہ نہیں ہوتا کہ کوئی صحت مند تعلیمی منصوبۂ عمل پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کی تیاری میں نہ قومی مشاورت کی گئی ہے، اور نہ پہلے سے موجود تعلیمی دستاویزات کو اہمیت دی گئی ہے۔
اس میں پاکستان کے نظامِ تعلیم کا جو مقصد اور وژن متعین کیا گیا ہے(ص۱۹)، وہ پالیسی سازوں کی سیکولر ذہنیت کا آئینہ دار ہے۔ اس میں خاص طور پر ایسے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں کہ جن سے کسی درجے میں پاکستان کی اسلامی شناخت کا شائبہ تک نہ دکھائی دے۔ کہا گیا ہے:’’پاکستانیوں کی اکثریت اپنی تہذیبی اقدار اسلام سے اخذ کرتی ہے۔ کوئی بھی نظامِ تعلیم کسی بھی معاشرے کی سماجی ،ثقافتی اور اخلاقی قدروں کے اظہار کا ذریعہ ہوتا ہے۔ پاکستان کے تعلیمی نظام میں بڑی مداخلت تو ایمانی اقدار کی بنا پر ہے… قومی تعلیمی پالیسی اسلامی اقدار کی اہمیت کو تسلیم کرتی ہے، تاہم پالیسی کے اصول، دستور پاکستان کے آرٹیکل ۲۹، ۳۰، ۳۳، ۳۶، ۳۷، ۴۰ کی روشنی میں وضع کیے جائیں گے‘‘(ص۹) اگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ پہلے آرٹیکل تو ریاست کی حکمت عملی سے متعلق ہیں اور اگلے آرٹیکلز کا تعلق پس ماندہ علاقوں اور اقلیتوں کے حقوق وغیرہ سے ہے۔ یہاں پر پالیسی سازوں کی جانب سے آرٹیکل ۲۹ سے آرٹیکل ۴۰ کے اس سفر میں دانستہ طور پر، آرٹیکل ۳۱ کو بھلا دینے، نظر انداز کر دینے، چھوڑ دینے یا کوئی بے کار چیز سمجھنے کا شعوری تاثر دیا گیا ہے۔ اب دیکھیے دستور پاکستان کا آرٹیکل۳۱:
۱- پاکستان کے مسلمانوں کو، انفرادی اور اجتماعی طور پر، اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے کے لیے اور انھیں ایسی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے، جن کی مدد سے وہ قرآن پاک اور سنت [رسولؐ] کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔ (۲) پاکستان کے مسلمانوں کے بارے میںمملکت مندرجہ ذیل کے لیے کوشش کرے گی: (الف) قرآن پاک اور اسلامیات کی تعلیم کو لازمی قرار دینا، عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی کرنا، اور اس کے لیے سہولت بہم پہنچانا اور قرآن کی صحیح اور من و عن طباعت اور اشاعت کا اہتمام کرنا۔ (ب) اتحاد اور اسلامی اخلاقی معیارات کی پابندی کو فروغ دینا۔
اس پالیسی دستاویز میںدستور پاکستان کا حوالہ دیتے وقت دانستہ طورپراس آرٹیکل کو نظر انداز کرنا خود ایک مشکوک عمل ہے۔ یہ ایک طرح سے قرآن، سنت ِ رسولؐ، اسلامی تصورِ زندگی اور عربی سے چھٹکارا پانے کی خواہش کا اظہار ہے۔
یہ دستاویز اُن تمام بکھرے اور غیر منطقی بیانات کا مجموعہ ہے، جسے جنرل (ر) پرویز مشرف کی سرپرستی میں ،۲۰۰۶ کے دوران تعلیم کا وائٹ پیپر کی صورت میں متعارف کرایا گیا تھا، اور جسے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اسی لیے وہ تعلیمی شب خون پالیسی نہ بن سکا، لیکن اب وزارت تعلیم اسی فکری و تعلیمی تخریب کو نافذ کرنے کا خواب دیکھ رہی ہے۔
مختلف بلائیں ایک ہی وقت میں نازل ہوں تو خطرات اور تباہی کی شدت کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ گذشتہ ۸ برسوں کے دوران میں امریکی حکومت کی جانب سے جاری ہونے والی پے در پے دستاویزات میں یہ سفارش کی جا رہی ہے کہ: مسلم دنیا کے نظامِ تعلیم کو سرکاری کنٹرول سے نکال باہر کیاجائے۔ یہی سفارش نائن الیون کمیشن نے بھی کی ہے، اور بدقسمتی یہ ہے کہ اس پالیسی دستاویز نے بھی ’پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ‘ (PPP) یعنی سرکاری نجی شراکت کو ترویج دینے کے لیے خوش نما الفاظ کا سہارا لیا ہے۔ ایک جگہ کہا ہے: ’’اس مقصد کے لیے تمام صوبائی بجٹوں میں رقوم مختص کی جائیں گی، تاکہ خیراتی تنظیمیں اس میدان میں خدمات انجام دے سکیں‘‘ (ص۲۱) ’’صوبائی حکومتیں، نجی شعبہ تعلیم کی حوصلہ افزائی کریں گی۔ سرکاری تعلیمی اداروں کو ابھارا جائے گا کہ وہ نجی شعبۂ تعلیم سے استفادہ کریں‘‘ [ص۲۶] ۶۷ ہزار نجی تعلیمی اداروں میں کتنے خیراتی یا غریب پرور تعلیمی ادارے کام کر رہے ہیں؟ اس سوال کا جواب پوری قوم جانتی ہے، اور یہ حقیقت بھی ہرکس و ناکس پر واضح ہے کہ خیرات، انسان دوستی اور تعلیم کے نام پر ارب پتی اور کروڑ پتی حضرات یا بیگمات کس کس حربے سے سرکاری وسائل ہڑپ کرکے، اندھیروں میں ڈوبے عوام کو مزید اندھیروں میں دھکیل رہے ہیں۔ مگراس کے ساتھ جس دوسری بلاکا ذکر ضروری ہے، اس کا تعلق امریکا کی جانب سے دیے جانے والے اس ڈیڑھ ارب ڈالرسالانہ قرضے سے ہے، جسے تعلیم اور صحت کے نام پر، امریکی حکومت براہ راست، غیر سرکاری عناصر کے ذریعے پاکستان کے طول و عرض میں خرچ کرے گی۔ جو ظاہر ہے مالی رشوت، سماجی و ثقافتی تخریب کاری اور سرکاری تعلیمی اداروں پر نام نہاد این جی اوز کے قبضے اور عوامی سطح پر امریکی رشوت ستانی کا ایکشن پلان ہے۔
اہل وطن کو جاننا چاہیے کہ جس رقم کو حکومتیں ’امداد ‘ (Aid)کا نام دیتی ہیں، یہ بیرون ممالک سے کوئی تحفہ یا خیرات نہیں ہوتی، بلکہ یہ قرضے ہوتے ہیں جنھیں بھاری سود کے ساتھ واپس لوٹایا جاتا ہے۔ ایک طرف نجی شعبے کو آگے بڑھ کر سبھی کچھ سمیٹنے کی دعوت دی جا رہی ہے، جب کہ دوسری جانب اربوں روپے خرچ کرنے کے منصوبے بھی پیش کیے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر کہا گیا ہے: ’عالمی ترقیاتی معاونین‘ سے مل کر اسکولوں کو بہترین شکل دی جائے گی‘‘ (ص۳۲)۔ کیا یہ سب کام عالمی امدادوں سے ہوگا؟کیا یہ رقوم خرچ کرکے اسکولوں کو این جی اوز کے سپرد کیاجاے گا یا بیچ دیا جائے گا، یا پھر اس رقم کا بڑا حصہ ’پڑھا لکھا پنجاب‘ جیسی تشہیری مہمات پر خرچ کرکے عوام کو بے وقوف بنایا جائے گا اور چند سو گھرانوں میں دولت کو منتقل کرنے کا اہتمام کیا جائے گا؟
’دہشت گردی‘ کے خلاف موجودہ نام نہاد ’جنگ‘ میں دینی مدارس کا کتنا کردار ہے، اس سوال کا جواب ہر پاکستانی جانتا ہے :’نہ ہونے کے برابر‘، مگر اسی امریکی ’خوف‘ کو سامنے رکھتے ہوئے مال اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ صدر آصف علی زرداری پیرس میں انٹرویو دیتے ہوئے کہتے ہیں: ’’پاکستان کے مذہبی تعلیمی اداروں کے طالب علموں کو متبال تعلیم کے مواقع دینے کے لیے سالانہ دوبلین ڈالر [یعنی ایک کھرب ۶۲ ارب روپے] چاہییں‘‘ (روزنامہ نوائے وقت، جنگ،۱۸ مئی ۲۰۰۹ء)۔ دوسری طرف تعلیمی پالیسی میں کہا جا رہا ہے: ’’مرکزی اور صوبائی حکومتیں مل کر ایسی مشترکہ حکمت عملی اپنائیں گی، کہ جس کے تحت، دینی مدارس کے طالب علموں کو ایسے مضامین پڑھائے جائیں گے کہ ان کے لیے روزگار کے مزید مواقع پیدا ہوں‘‘ (ص۲۸)۔ عملاً صورت حال یہ ہے کہ ان مدارس نے کبھی حکومتوں سے امداد یا ملازمتوں کی درخواست نہیں کی، تو پھر بن مانگے یہ عنایات کیوں؟ ظاہر ہے کہ دینی تعلیم سے چونکہ امریکا کو چڑ ہے، اس لیے امریکی امداد کے بل بوتے پر، اور خود ساختہ ہمدردی کے نام پر رفتہ رفتہ ان اداروں کے خود کار نظام کو جکڑنا مطلوب ہے۔ حالانکہ جدید تعلیم کے جن اداروںپر یہ برسر اقتدار گروہ فخر کرتے نظر آتے ہیں، ان کا اپنا حال خاصا پتلا ہے، نہ تعلیم کے معقول مواقع، نہ نظم و ضبط کا اچھا معیار اور نہ روزگار کی کوئی ضمانت، مگر ان کے بجاے فکرمندی بے چارے دینی مدارس کی؟
اردو کی قومی شناخت کو گم اور علاقائی زبانوں کو نعرہ بازی کا شکار کرنے کے پردے میں، انگریزی کے اقتدار کو مضبوط کرنے کا عزم اس پالیسی میں نمایاں طور پر دکھائی دیتا ہے۔ سب سے پہلے کہا گیا ہے: ’’پہلی کلاس سے نصاب میں انگریزی بطور مضمون، اردو، ایک علاقائی زبان اور ریاضی شامل ہوگی‘‘ (ص۲۷)۔ اگلی شق میں کہا گیا ہے:’’ علاقائی شعبہ ہاے تعلیم یا صوبے اس امر کا اختیار رکھیں گے کہ پانچویں تک جو چاہیں ذریعۂ تعلیم منتخب کریں‘‘ (ص۲۷)۔ اس کے بعد لکھا ہے: ’’کلاس چہارم سے اگلے درجوں تک سائنس اور ریاضی کے مضامین انگریزی میں پڑھائے جائیں گے‘‘ (ص۲۷)۔ اس سے اگلی شق میں پھر یہ کہا گیا ہے: ’’۵ سال تک، صوبوں کے پاس اختیار ہوگا کہ وہ ریاضی اور سائنس کو انگریزی، اردو یا سرکاری طور پرمنظور شدہ علاقائی زبان میں پڑھائیں، مگر پانچ سال بعد وہ یہ مضامین صرف انگریزی میں پڑھائیں گے‘‘۔ (ص۲۷)
ایک ہی صفحے پر متضاد اور غیر حقیقی دنیا کے مشورے دینے والے اِن حضرات سے کسی معقول پالیسی سازی کی توقع رکھنا عبث ہے۔ یہ باتیں وہی لوگ کر سکتے ہی جو چند بڑے شہروں کے امیر علاقوں کے رہایشی ہوں اور جنھیں پاکستان کے طول وعرض کے سماجی، معاشی اور تعلیمی حالات کا کچھ علم نہ ہو۔ ایک جانب خود سرکاری کا لجوں اور ہائی اسکولوں میں انگریزی کے معقول اساتذہ کا قحط، اور دوسری جانب بنیادی تعلیم کی فراہمی کے لیے تربیت یافتہ اساتذہ کی کمی ہے۔ اس صورت حال میں دیہی علاقوں کا بچہ جسے اردو پڑھنے کے مواقع بھی پوری طرح میسرنہیں ہیں، وہ بھلا کس طرح انگریزی میں ریاضی پڑھ سکے گا۔ ریاضی ،سائنس اور غور وفکر کے حامل مضامین کے لیے جتنا بے ساختہ اور فطری ابلاغی عمل مادری یا قومی زبان میں ممکن ہے، انگریزی یا بدیسی زبان میں ممکن نہیںہے۔ کیا اس غیر سائنسی اقدام کے ذریعے بچوں کو ابتدائی درجے ہی میںاسکولوں سے بھگانے یا رٹہ لگا کر بے سمجھے بوجھے ، انگریزی اور سائنس و ریاضی سے بے بہرہ کرنے کے عمل کو دانش مندی تصور کیا جا سکتا ہے؟ یادرہے ۱۹۷۳ میں نافذ ہونے والے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کے آرٹیکل ۲۵۱ میں قوم سے وعدہ کیا گیا تھا: (۱) پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور یومِ آغاز سے ۱۵ برس [یعنی ۱۹۸۸] کے اندر اندر اس کو سرکاری و دیگر اغراض کے لیے استعمال ہونے کے انتظامات کیے جائیں گے۔ (۲) شق (۱) کے تابع انگریزی زبان اس وقت تک دفتری اغراض کے لیے استعمال کی جا سکے گی، جب تک کہ اس کو اردو سے تبدیل کرنے کے انتظامات نہ ہو جائیں‘‘ … بجاے اس کے کہ دستور کے اس تقاضے کو پورا کرنے کے لیے اقدام کیا جاتا، تجویز یہ کیا جا رہا ہے کہ اس ہدف سے جتنا ممکن ہودور ہوا جائے۔ جمہوری حکومت اور دستور کا یہ انہدام عبرت کا مقام ہے۔
پالیسی میں تجویز کردہ درسی اور نصابی کتب کے لیے حکمت عملی، بذات خود ایک عجوبہ ہے۔ اگر اس پالیسی میں ’فیڈرل سپر ویژن آف ٹیکسٹ بکس اینڈ مین ٹیننس آف سٹینڈرڈز آف ایجوکیشن ایکٹ ۱۹۷۶ء‘ ہی کو نکتۂ آغاز بنا لیا جاتا، تو بہت سے مسائل حل ہو جاتے لیکن اس ایکٹ کا نام لینے (ص۳۹) کے باوجود جو تجاویز (ص ۴۰-۴۱) دی گئی ہیں، وہ نہ صرف قومی مفادات سے ٹکراتی ہیں، بلکہ خود ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے منظورکردہ مذکورہ ایکٹ کی دھجیاں بکھیرنے کے مترادف ہیں۔ یہ ایکٹ، نصاب اور درسی کتب کو ایک قومی معیار اور ضابطے کا پابند بناتا ہے، جب کہ زیربحث دستاویز، صرف نصابی خاکے کو تجویز کرکے، درسی کتب میں بھانت بھانت کی بولیاں بولنے کا پھاٹک کھولتی ہے۔ جس کے متعدد مضمرات ہیں، مثلاً: کتب کا غیر معیاری ہونا، کتب کا مہنگا ہونا، کتب کا آپس میں متحارب ہونا، اور چند اداروں کی اجارہ داری اور فکر و دانش کی دنیا میں انتشار کو پروان چڑھانا۔ بھارت جیسا کثیر آبادی کا ملک ایک نصاب، ایک نوعیت کی درسی کتب اور ایک امتحانی نظام کے ساتھ پورے تعلیمی عمل کو چلا سکتا ہے تو ہمارے لیے آخر یہ کیوں مشکل ہے؟ کیا اس کا بڑا سبب یہ نہیں ہے کہ ہمارے عالمی نگران یہ چاہتے ہیں کہ قوم میں یک رنگی اور فکری حسنِ توازن پیدا نہ ہو، قوم اور اس کی آیندہ نسلیں چار پانچ نہیں بلکہ بیسیوں طبقوں میں تقسیم ہو کر باہم جنگ وجدل کا منظر پیش کریں۔ ظاہر ہے کہ نصابی خاکے کی بنیادپر تو پرچے ترتیب نہیں دیے جائیں گے،بلکہ کسی مصنف کی درسی کتاب کو بنیاد بنایا جائے گا۔ ہمارے ملک کا بکھرا ہوا نظامِ تعلیم اور اس کا طالب علم اس مناسبت سے جس ذہنی اذیت اور مایوسی کی کیفیت سے گزرے گا، اس کا اندازہ بیوروکریسی نہیں کر سکتی۔ اس کے لیے منتخب عوامی نمایندوںکو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، اور ایک ملک، ایک ذریعۂ تعلیم اور ایک نصاب تعلیم یا یکساں نظامِ تعلیم کی پالیسی کو نافذ کرنا ہوگا۔
اس پالیسی میں اعلیٰ طبقاتی نظام ہاے تعلیم کو تو پورا تحفظ حاصل ہے، لیکن غریب اہل وطن کا تعلیمی ڈھانچا مسلسل تجربوں کی بھینٹ چڑھتا نظر آتا ہے، اور یہ بھی کوئی حادثاتی عمل نہیں ہے بلکہ ایک سوچا سمجھا رویہ ہے۔ کبھی میٹرک میں نہم دہم کا امتحان جدا جدا، پھر اکٹھا، اس کے بعد دوبارہ جدا جدا۔ یہی حال انٹر میڈیٹ کے امتحانی عمل کا کیا جاتا رہا ہے۔ بیان کیا گیاہے: ’’۱۱ویں اور ۱۲ویں جماعت کے طلبہ کوکالج نہیں بلکہ اسکول کا حصہ بنایا جائے گا‘‘(ص ۳۳)… ظاہر ہے کہ یہ بات چلے گی نہیں، مگر اس اکھاڑ پچھاڑ میں کم از کم دو تین بیج خوار بلکہ برباد ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ ان کالجوں کا مصرف آخر کیا ہوگا؟ کیا ۴سالہ ڈگری کورس۔ اگر دیکھیں تو جن چند تعلیمی اداروں کو خود مختاری دے کر ۴ سالہ ڈگری کی راہ پر لگایا گیا ہے، وہ بھی ابھی تک اسے وضع نہیں کرسکے، ایسے میں کالج سے انٹر کلاسیں نکال کر کیا کارنامہ انجام دیا جائے گا؟ یوںہزاروں کالجوں کویا تو اس ادھورے اور ناکام تجربے کی بھینٹ چڑھایا جائے گا، یا پھر سیدھا این جی اوز اور امریکی یا دولت مند اقلیت کے ہاتھوں ان کالجوں کو ۹۹ سالہ لیز پر فروخت کر دیا جائے گا۔ یہ باتیں کسی وہم کی بنا پر نہیں بلکہ گذشتہ ۱۲ سال کے تعلیمی ڈراموں اور ڈی نیشنلایزیشن کے ملفوف ماڈل کو دیکھ کر کہنا پڑ رہی ہیں۔
صحت و صفائی اور ابتدائی طبی امداد کی تربیت ہر پڑھے لکھے فرد کو ضرورملنی چاہیے، لیکن یہاں اس باب میں موضوع بحث بنایا گیا ہے: ’ایڈز، اور بچوں کی بے حرمتی‘ کو (ص۴۰)۔ حالانکہ دیگر خوفناک بیماریاں (ہیپاٹائٹس، تپ دق وغیرہ)اور طبی مسائل اور ماحولیات کے معاملات وغیرہ بھی نمایاں طور پر چاروں طرف پھیلے ہوئے ہیں، مگر مذکورہ ۲ ایشوز کی بنیاد پر کلاس روم میں بہت کچھ ناگفتی کہنے کی مشق، کھلے عام جنسی مکالمے کو راہ دے گی۔ پالیسی سازوں کے پیش نظر غالباً اسی آزاد خیالی کی مکالمہ گوئی کو پروان چڑھاناہے۔
ایک اور دل چسپ صورت حال اعلیٰ تعلیم کے باب (ص۴۸-۵۳) میں ہے۔ بحث کا آغاز بڑی بلندی سے ہوتا ہے، لیکن تان اس بات پر توڑی جا رہی ہے کہ گویااعلیٰ تعلیم عوام الناس کا مسئلہ نہیں ہے۔ پھر اعلیٰ تعلیم کے میدان میں نجی و سرکاری شعبے کی جانب سے قوم کو جس استحصالی صورت حال کا سامنا ہے، اس کا کوئی جواب اس دستاویز میں موجودنہیں۔ کہیں ۴سالہ اور کہیں ۲سالہ ڈگری کورس، کہیں سمسٹر سسٹم اور کہیں کمپوزٹ پاس کورس۔ ایک ہی وقت میں بھانت بھانت کے ماڈل اور فیس لاکھوں میں۔ قوم پریشان ہے کہ کس طرف جائے، کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ اس صورت حال کا نہ جائز ہ پیش کیا گیا ہے اور نہ روشنی کی کوئی کرن ہی دکھائی گئی ہے۔ مزید یہ کہ گذشتہ دورِ حکومت میں جو کروڑوں اربوں روپے وظائف کی صورت میں جھونک دیے گئے، ان کے بارے میں بھی کسی شفاف پالیسی کا اعلان نظر نہیں آتا۔
’اسٹوڈنٹس یونین کی بحالی‘ (ص۴۳) کا وعدہ بھی کیا گیا ہے، مگر کیا صرف سرکاری اداروں میں یہ انتخابات ہوں گے یا تمام نجی اداروں میں بھی؟ دوسری جانب خود وائس چانسلر یونین بحالی کی مخالفت کر چکے ہیں۔مسئلہ کیسے حل ہو؟ اس کا کوئی جواب موجود نہیں۔
یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ پالیسی دستاویز سرتاپا محض منفی چیزوں کا ملغوبہ ہے، بہرحال جا بجا اس میں مناسب اور اچھی تجاویز بھی ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں ہیئت ِ حاکمہ کا جو رویہ اپنی تاریخ رکھتا ہے، وہ یہی ہے کہ اچھی چیزوں پر عمل ہو یا نہ ہو، مگر منفی چیزوں پر تو پوری قوت سے عمل کرہی لیا جاتا ہے۔ اس لیے ہمارے نزدیک اس دستاویز میںموجود روشنی پر اندھیرا غالب ہے۔جس سے بچنے کے لیے سیاہ رُو چیزوں کو ابتدا ہی میں نکال دینا چاہیے۔ قومی تعلیمی پالیسی کسی سیاسی پارٹی کا ایجنڈا نہیں، بلکہ پوری قوم اور اس کی آیندہ نسلوں کا حق ہے۔ اس لیے تمام منتخب عوامی نمایندوں کو کھلے دل و دماغ کے ساتھ اس پر غور و فکر کرنا اور قوم کوراستہ دکھانا چاہیے۔