’رُکو نہیں، تھمو نہیں کہ معرکے ہیں تیز تر‘ (مئی ۲۰۰۹ء) محترم امیر جماعت سید منور حسن کی تحریر جذبوں کو مہمیز بخشنے والی تھی۔
’مغرب اور اسلام کی کش مکش ___ ایک مغربی نقطۂ نظر‘ (مئی ۲۰۰۹ء) ہر باشعور مسلمان کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ صلیبی جنگوں سے لے کر اب تک، مغرب کے اہلِ دانش نے اسلام اور اسلامی تحریکوں کے خلاف کیا کیا منصوبہ بندی کی ہے؟ اسی منصوبہ بندی کے ثمرات تو آج کل عالمِ اسلام دیکھ رہا ہے۔ حد یہ ہے کہ خود مسلمان ممالک کے اندر سے اسلامی تحریکوں پر فکری حملے ہونے لگے ہیں اور ’معتدل اسلام‘ کے نام پر باطل سے سمجھوتہ کرنے پر نہ صرف فخر کیا جاتا ہے بلکہ اسے مسلمانوں کی آزادی کا ذریعہ بتایا جاتا ہے۔ علامہ اقبال تو پہلے ہی فرما گئے ہیں ؎
دِیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملّت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا
’مفاہمت کے نام پر‘ـ تبصرہ صحیح معنوں میں اس کتاب کا پوسٹ مارٹم ہے۔ یہ تبصرہ بروقت، مدلّل اور سچائی پر مبنی ہے۔
’مفاہمت کے نام پر‘ مضامین (مارچ-اپریل ۲۰۰۹ء) شاہ کار ہیں۔ انھیں قرآن و سنت کے دلائل سے مزید مزین کیا جاسکتاہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ بے نظیر جیسے لوگ اسلام اور اسلامی تحریکوں کا فہم کن کتابوں سے حاصل کرتے ہیں، اور اُس کے انسانی ذہن پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ قرآن وسنت کے راست علم کی دانش مختلف ہوتی ہے۔مصلحت پسند سیاسی سوچ رکھنے والوں کی عقل پر حیرت اور افسوس ہے۔
’مفاہمت کے نام پر‘ (مارچ-اپریل ۲۰۰۹ء) وقت کی آواز ہے۔ وطنِ عزیز کی سیاست کی طرح یہاں کی سیاسی تاریخ کے ساتھ میکیاولی کے پیروکار سیاست دانوں نے جو سلوک کیا ہے، اسے ’تاریخ کی آبروریزی‘ سے بہتر نام نہیں دیا جاسکتا۔ ایسے لوگ جب اپنے ہی پیدا کردہ فساد کی نذر ہو جاتے ہیں تو انھیں اُوتار بناکر پیش کیا جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کو معاشرے کے سامنے بے نقاب کرنا ترجمان جیسے جریدے کی وقعت میں کمی نہیں، اضافے کا باعث ہے۔
ایک اور اہم معاملہ بھی توجہ کا محتاج ہے۔ بجلی کی کمی کے اسباب اور پٹرولیم کی خرید اور فروخت میں قیمتوں کے تفاوت کے اصل اعداد و شمار پوری قوم کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ بڑے بڑے وقیع ادارے اور تنظیمیں بھی اصل حقائق سامنے نہیں لاسکیں۔ حد سے حد، سیاسی بیان بازی، مطالبات یا چند غیرمصدقہ اعداد وشمار ہی پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ اہلِ علم کو توجہ دلائی جائے کہ پوری باریک بینی سے مصدقہ اور مستند حقائق قوم کے سامنے پیش کیے جائیں۔
اپریل ۲۰۰۹ء کا ترجمان کھولا تو ۶۰ سال پہلے کے تحت ’ایک وقت آئے گا…‘ نظرافروز ہوا۔ بے اختیار زبان سے سبحان اللّٰہ وبحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم نکلا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضلِ خاص سے، سیدابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ کو فراستِ مومن کے خزانوں میں سے وافر مقدار میں مالامال کیا تھا۔ انھوں نے اسلام پر اور مستقبلِ اسلام پر اپنے غیرمتزلزل ایمان کی روشنی میں اُن دنوں کو دیکھ لیا تھا جب کمیونزم خود ماسکو میں اپنے بچائو کے لیے پریشان ہوگا، سرمایہ دارانہ ڈیموکریسی خود واشنگٹن اور نیویارک میں اپنے تحفظ کے لیے لرزہ براندام ہوگی۔ یہ سنہری سرمدی کلمات ان کے جادو اثر قلم سے اس وقت نکلے___ مارچ ۱۹۴۷ء___ جب ان دونوں باطل نظاموں کا چاردانگ عالم میں طوطی بول رہا تھا۔ اس وقت کوئی ایسی بات سوچنے کی جرأت بھی نہیں کرسکتا تھا، کجا ہ وہ اس کو تحریر میں لے آئے اور شائع کرنے کی جسارت بھی کرے۔ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌo (المائدہ ۵:۵۴)
اللہ تعالیٰ کا ہم پر بھی فضلِ خاص ہے کہ اس نے ہم کو ۱۹۹۱ء کے آخری ایام میں اپنی چشم سر سے کمیونزم کو خود ماسکو میں نیست و نابود ہوتے دیکھنے کا موقع عنایت فرمایا، اور اب واشنگٹن میں سرمایہ دارانہ ڈیموکریسی کو حالیہ معاشی بحران سے اپنے تحفظ کے لیے لرزہ براندام دیکھ رہے ہیں۔