یہ وقت جس سے ہم آج گزر رہے ہیں، ہماری قومی و ملّی تاریخ کے نازک ترین اوقات میں سے ہے۔ اس وقت ہم ایک دوراہے پر کھڑے ہیں اور ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہمارے سامنے جو دو راستے کھلے ہیں، اُن میں سے کس کی طرف بڑھیں۔ اس موقع پر جو فیصلہ بہ حیثیت قوم ہم کریں گے، وہ نہ صرف ہمارے مستقبل پر، بلکہ نہ معلوم کتنی مدّت تک ہماری آیندہ نسلوں پر اثرانداز ہوتا رہے گا۔ ہمارے سامنے ایک راستہ تو یہ ہے کہ ہم ان اصولوں پر اپنے نظامِ زندگی کی بنیادیں کھڑی کریں جو اسلام نے ہم کو دیے ہیں۔ ہماری ساری کی ساری زندگی___ ہماری معاشرت، ہماری معیشت، ہمارا تمدن، ہماری سیاست، غرض سب کچھ ان اصولوں پر استوار ہو جو اسلام نے مقرر کر دیے ہیں۔ دوسرا راستہ ہمارے سامنے یہ ہے کہ ہم کسی مغربی قوم کے نظامِ زندگی کو قبول کرلیں خواہ وہ اشتراکیت ہو، لادینی جمہوریت ہو یا کوئی اور نظامِ زندگی ہو۔
اگر خدانخواستہ ہم نے دوسرے راستے کو پسند کیا، تو ہم اپنے اسلام کی بہ حیثیت قوم نفی کریں گے، اور اپنے ان تمام اعلانات سے منحرف ہوں گے جو ایک مدت سے ہم خدا اور خلق دونوں کے سامنے کرتے رہے ہیں اور اس اجتماعی وعدہ خلافی کی وجہ سے خدا و خلق دونوں کے سامنے ہمیں رسوا ہونا پڑے گا، پھر اس راستے پر چلنے کا سب سے زیادہ افسوس ناک نتیجہ یہ ہوگا کہ ہندستان میں اسلام کی تاریخ کا قطعی خاتمہ ہوجائے گا۔ بخلاف اس کے اگر ہم پہلا راستہ انتخاب کریں اور خالص اسلامی اصولوں پر اپنی قومی زندگی کو قائم کریں تو ہم دنیا میں بھی سرفراز ہوں گے اور آخرت میں بھی ہمارے لیے کامیابی ہوگی، ہم خدا کے حضور بھی سرخ رو ہوں گے اور خلق کے سامنے بھی ہمارا وقار قائم ہوسکے گا۔ ہم اسلامی نظامِ زندگی کے علَم بردار بن کر پھر اسی مقام پر کھڑے ہو جائیں گے جس پر ہزاروں برس پہلے جب ایک قوم کھڑی ہوئی تھی تو اللہ تعالیٰ نے اسے مخاطب کرکے ارشاد فرمایا تھا کہ اِنِّی فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ، یعنی تمھیں دنیا کی ساری اقوام پر فضیلت دی جاتی ہے۔ پھر اس کے بعد جب اسی مقامِ عظمت پر ایک دوسری قوم کھڑی ہوئی تو اسے کہا گیا: کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اور کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا ، یعنی تم بہترین اُمت ہو اور تمھیں مرکز اُمت بنایا گیا ہے۔ (’مطالبۂ نظامِ اسلامی‘، سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، ترجمان القرآن، جلد ۳۲، عدد۱، رجب ۱۳۶۸ھ، جون ۱۹۴۹ء، ص ۱۲-۱۳)
انبیا کا طریقۂ تبلیغ کوئی جامد طریقہ نہیں ہے بلکہ انسان کی علمی و ذہنی ترقیوں کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلی اور ترقی ہوتی رہی ہے جس سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ سائنس اور تمدن کی ترقی سے انسان کے وسائل کار اور ذرائع معلومات میں جو اضافے ہوئے ہیں ان سے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے کا حق داعیانِ حق کو ہے۔ مثلاً آج پریس اور ریڈیو وغیرہ نے انسان کی قوتِ ابلاغ کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا ہے۔ ایک بڑی سے بڑی تقریر چند منٹوں کے اندر دنیا کے ایک گوشے سے لے کر دوسرے گوشے تک پہنچائی جاسکتی ہے، کسی وسیع سے وسیع تحریک سے چند دنوں کے اندر اندر دنیا کے تمام پڑھے لکھے انسانوں کو آشنا کیا جاسکتا ہے، مشکل سے مشکل باتیں بہت معمولی محنت سے عوام اور خواص سب کے ذہن نشین کی جاسکتی ہیں۔ اس وجہ سے ضروری ہے کہ آج حق کی تبلیغ کے لیے ان ذرائع پر قبضہ کیا جائے۔
اگر اہلِ حق یہ خیال کر کے ان چیزوں کو نظرانداز کردیں کہ انبیا نے تبلیغ دین کے کام میں ان چیزوں کو استعمال نہیں کیا ہے بلکہ دروازے دروازے پر پہنچ کر ایک ایک شخص پر تبلیغ کی ہے، اس وجہ سے ہمارے لیے بھی اولیٰ یہی ہے کہ ہم ان چیزوں کو ہاتھ نہ لگائیں بلکہ گھر گھر پہنچ کر لوگوں کو تبلیغ کریں، تو یہ انبیا کے طریقے کی پیروی نہیں ہے بلکہ شیطان کا ایک بہت بڑا دھوکا ہے، جو وہ اس لیے دے رہا ہے تاکہ جب تک آپ اپنے ’دین دارانہ‘ طریقے پر چل کر دو آدمیوں سے کوئی بات کہیں، اس وقت تک وہ ان سائنٹی فک وسائل سے کام لے کر ہزاروں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں انسانوں تک اپنی دعوتِ باطل نہایت مؤثر طریقہ پر پہنچا دے۔ شیطان نے یہی دھوکا دے کر اکثر اہلِ حق کی کوششوں اور قابلیتوں کو نقصان پہنچا دیا ہے اور ان کے مقابل میں خود اپنا پلّہ بھاری رکھا ہے۔ یہاں تک آہستہ آہستہ اب زندگی کے ہرمیدان میں یہ پیچھے ہیں اور وہ آگے ہے اور دونوں کی کوششوں کے نتائج میں سرے سے کوئی نسبت ہی باقی نہیں رہ گئی ہے، اور یہی صورت حال اس وقت تک باقی رہے گی جب تک اہلِ حق ان زبردست قوتوں کو حق کی خدمت میں استعمال کرنے کا ڈھنگ نہ سیکھ جائیں جو آج ۱۰۰ فی صد شیطان کے تصرف میں ہونے کی وجہ سے باطل کی خدمت میں صرف ہو رہی ہیں۔ (’دعوت کے طریقے‘، مولانا امین احسن اصلاحی، ترجمان القرآن، جلد ۳۰، عدد ۵،جمادی الثانی ۱۳۶۶ھ، اپریل ۱۹۴۷ء، ص ۱۹-۲۰)