جون ۲۰۰۹

فہرست مضامین

کتاب نما

| جون ۲۰۰۹ | کتاب نما

Responsive image Responsive image

اسلام اپنی نگاہ میں، ڈاکٹر ساجیکو مراتا ، ولیم سی چیٹک۔ مترجم: محمد سہیل عمر۔ ناشر: اقبال اکیڈیمی پاکستان، لاہور و ادارہ تحقیقات اسلامی، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد۔ طبع اول ۲۰۰۸ء، صفحات: ۶۳۳۔ قیمت: ۶۰۰ روپے۔

عالمی جامعات میں خصوصاً امریکا میں انڈر گریجوایٹ  طلبہ کے لیے انسانی علوم میں تعارفی کورس لینے کا رواج ہے اور اکثر طلبہ مذہبیات، عمرانیات، نفسیات یا موسیقی بطور ایک مددگار کورس کے لیتے ہیں۔ شعبہ ہاے فلسفہ و مذہب طلبہ کی سہولت، ذہنی ترقی اور معلومات کے لیے اکثر ایسے کورس وضع کرتے ہیں اور طلبہ کی ایک اچھی خاصی تعداد ان میں دل چسپی لیتی ہے، جب کہ ہمارے ہاں اس کے بالکل برعکس اسلامیات ایک لازمی مضمون ہونے کے باوجود اساتذہ، لوازمہ اور طرزِ تدریس تینوں پہلوئوں سے عدمِ دل چسپی کی اعلیٰ مثال نظر آتا ہے۔

زیرنظر کتاب اسلام اپنی نگاہ میں دراصل انگریزی کتاب Vision of Islam کا ترجمہ ہے جو ۱۹۹۴ء میں طبع ہوئی۔ چیٹک اور مراتا اپنے پیش لفظ میں وضاحت کرتے ہیں کہ  یہ کتاب ان کے اسلام پر تعارفی کورس پڑھانے کے نتیجے میں وجود میں آئی اور اس میں طلبہ اور خصوصاً مغربی ذہن کو سامنے رکھتے ہوئے اسلام کا ایک عمومی تعارف پیش کیا گیا ہے۔

کتاب کی خوبی یہ ہے کہ اس سے قبل اسلام کے تعارفی مطالعہ کے لیے جو کتب امریکا میں عموماًاستعمال کی جاتی رہی ہیں ان سے استفادہ کے ساتھ ایک قدم آگے بڑھ کر یہ کوشش کی جائے کہ قرآن و حدیث اور خصوصاً امام غزالی کی احیا علوم الدین سے مدد لیتے ہوئے جابجا حوالے شامل کرلیے جائیں اور بڑی حد تک غیرمتعصبانہ انداز میں اسلام کا ایک تصور (vision) سامنے آجائے۔ اس سے قبل ایچ آر گب کی Mohammdanism (طبع اول ۱۹۴۹ء)، الفرڈ گیوم کی Islam (طبع اول ۱۹۵۴ء)، جان اے ولیمز کی Islam (طبع اول ۱۹۶۳ء)، کینٹ ول اسمتھ کی Islam in Modern History (طبع اول ۱۹۵۷ء)، فلپ کے ہٹی کی Islam: A Way of Life(طبع اول ۱۹۷۰ء)، فضل الرحمن کی Islam (طبع ۱۹۶۶ء)، کینتھ کریگ  کی Islam from Within(طبع اول ۱۹۸۰ء) اور بعد میں آنے والی کتب میں وکٹر ڈینر کی The Islamic Tradition: An Introduction (طبع ۱۹۸۸ء)، گائی ایٹن کی Islam and The Destiny of Man(طبع ۱۹۸۵ء)، جان اسپوزیٹو کی Islam: The Straight Path (طبع ۱۹۸۸ء)، جے رینارڈ کی In the Footsteps of Muhammad (طبع ۱۹۹۲ء)،  این میری شمل کی Islam: An Introduction (طبع ۱۹۹۲ء) مختلف جامعات میں اساتذہ کی اپنی ترجیحات کے پیشِ نظر بطور تعارفی کتب استعمال ہوتی رہی ہیں۔ ان سب کی موجودگی میں چیٹک جو اس سے قبل Imaginal World: Faith and Practice of Islam; The Sufi Path of Love; The Self Disclosure of God طبع کر چکے تھے، کا اس کتاب کو تحریر کرنا اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ جملہ کتب کی موجودگی میں طلبہ اور خصوصاً مغربی ذہن کی ضرورت کے پیش نظر ایک تعارفی کتاب کی مزید ضرورت تھی اور یہ ضرورت سابقہ کتب سے پوری نہیں ہو رہی تھی۔

کتاب ۴ حصوں میں اور ۹ ابواب پر مشتمل ہے جن میں ارکانِ دین، ایمان، توحید، نبوت، آخرت، مسلم فکر، احسان کی قرآنی بنیادیں اور اسلام، تاریخ اور تصورِ تاریخ شامل ہیں۔

کتاب کا مرکزی مضمون حدیث جبریل ؑ کے تین اہم نکات اسلام، ایمان اور احسان ہیں۔ مندرجہ بالا ابواب انھی تین بنیادوں کے گرد گھومتے ہیں۔ اس لحاظ سے مغربی طالب علم کے لیے یہ اسلام کا ایک مختلف نوعیت کا تعارف ہے۔ اپنے تمام تر متوازن اور ہمدردانہ طرزِبیان کے باوجود بعض فکری پہلو اختلاف اور اصلاح کی گنجایش رکھتے ہیں مثلاً تقابلی مطالعہ کرتے ہوئے اللہ اور الٰہ کی بحث میں یہ بات کہی گئی ہے کہ ’’اسلام میں ایمان کا پہلا رکن خدا ہے‘‘ (ص ۱۱۳)۔ آگے چل کر اس کی وضاحت کی گئی ہے: ’’الٰہ ہر وہ چیز ہے جسے پرستش، عقیدت اور اطاعت کا مرکز بنایا جائے‘‘ (ص ۱۱۴)۔ تفصیلی بحث کے بعد ’’الٰہ کو god یعنی جھوٹا خدا یا سچا خدا‘‘ اور ’’Godکو ازروے تعریف سچا خدا‘‘ (ص ۱۱۶) سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہ بات بار بار کہی گئی ہے کہ انگریزی میں ’اللہ‘ کی اصطلاح مغربی ذہن کو پریشان کرتی ہے، جب کہ اللہ کی جگہ God کہنا زیادہ درست اور افضل ہے۔

ہمیں اس سے فکری بنیاد پر اختلاف ہے۔ اگر ہندوازم کو پڑھاتے ہوئے ایک امریکی غیرہندو استاد Brahma کو ہندو God نہیں کہتا بلکہ برہما ہی کہتا ہے اور یہودیت پڑھاتے ہوئے  یہودیوں کے God کی جگہ Yahweh ہی کہتا ہے تو اسلام کے درس میں اللہ کیوں نہیں کہا جاسکتا۔ ایک پہلو جسے اکثر مسلم مفکرین نے بھی بغور نہیں دیکھا، یہ ہے کہ اللہ اسمِ ذات ہونے اور خود قرآن کے تجویز کردہ اسمِ باری تعالیٰ ہونے کے ساتھ عدد اور جنس کی قید سے آزاد اور اللہ کی صمدیت کی علامت ہے، جب کہ God چاہے بڑے G سے ہو چاہے چھوٹے g سے۔اس کی جمع اور تانیث، یونانی مذہب ہو یا ہندو ازم، دونوں جگہ عدد اور جنس کی شکل میں پائی جاتی ہے، چنانچہ Goddess اور Gods دونوں کا وجود تاریخِ ادیان کا حصہ ہے۔

دورِ حاضر میں اسلام سے بحث کرتے ہوئے مصنف نے جو خیالات ظاہر کیے ہیں ان میں سے بعض قابلِ غور ہیں۔ اس بات کی صداقت کے باوجود کہ دورِ حاضر میں اسلام، ایمان اور احسان کی تین جہات شاید تمام تحریکاتِ اسلامی میں بدرجۂ اتم نہ پائی جاتی ہوں، تحریکاتِ اسلامی کی اسلام کی تعبیر کو سیاسی اور اس بنا پر انھیں جدیدیت پرست کہنا محلِ نظر ہے (ص ۵۷۱- ۵۷۴)۔ ’’جدیدیت زدہ اسلام عمومی طور پر روایت کی عقلی تفہیم کو رد کر دیتا ہے مگر یہ کہ اسے سیاسی اصطلاحات کے لبادے میں پیش کیا جائے۔ اسلام کی سیاسی تعلیمات اپنی جگہ ایک چیز ہیں لیکن ان کی حیثیت ہمارے ہاں ثانوی اور غیراہم رہی ہے۔ ان سیاسی تعلیمات کو مرکزی حیثیت دینے کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ اپنی روایت سے کٹ رہے ہیں۔ ہمارے زمانے کی اسلامی تحریکوں کے سیاسی منشور اور اس کی تہ میں کارفرما آئیڈیالوجی کا اسلام کی تعلیمات سے شاذ ونادر ہی اساسی تعلق ہوتا ہے۔ اس کی جگہ ان میں قرآن و حدیث کی ایک ایسی تعبیرِ نوملتی ہے جس کی بنیاد جمہوریت یا دوسری قسم کی ’اچھی‘ طرزِ حکومت کے متعلق جدید مفروضات پر رکھی جاتی ہے (ص ۵۷۴)۔ طویل تر لذیذ حکایت کے بعد یہ حاصلِ تحقیق کلمات بظاہر نہ معروضی کہے جاسکتے ہیں نہ مبنی برعدل۔

بعض اوقات حکایت کا تذکرہ حکایت سے زیادہ لذیذ ہوتا ہے جس کی زندہ مثال برادرعزیز سہیل عمر صاحب کا یہ ترجمہ ہے۔ ایک عرصہ بعد ایسا ترجمہ دیکھنے کا اتفاق ہوا جو ترجمہ بھی ہے اور ترجمانی بھی۔ کسی لمحے یہ احساس نہیں ہوتا کہ آدمی ترجمہ پڑھ رہا ہے، اس کے باوجود چند ایک مقامات پر اگر دوبارہ غور کرلیا جائے تو اچھا ہو۔ تلک اٰیات الحکیم کا اُردو ترجمہ ’’یہ آیات ہیں پکی کتاب کی‘‘ ( لقمان ۳۱:۲) ص ۱۲۱ اگرچہ مستعمل ہو، الحکیم کے مفہوم کو واضح نہیں کرتا بلکہ محکم کے مفہوم سے قریب تر ہے۔ بہترترجمہ ’’یہ حکمت کی (بھری ہوئی) کتاب کی آیات ہیں‘‘ ہوگا۔

مصنف نے دین کا مفہوم بیان کرتے وقت سیدابوالاعلیٰ مودودی کی معرکہ آرا کتاب قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں سے بھرپور استفادہ کے باوجود کہیں حوالہ دینا پسند نہیں کیا۔ ایسے ہی تنزیہہ کی بحث کرتے ہوئے ہم عصر مفکر اسماعیل الفاروقی الراجی کا تذکرہ نہ کرنا علمی معروضیت کے منافی نظر آتا ہے۔ اسلام پر کسی تعارفی کتاب میں خود علامہ اقبال اور علامہ مودودی کا تذکرہ نہ آنا اجنبی معلوم ہوتا ہے۔ علمی تحریرات مسلکی اور ذاتی تعصبات سے پاک ہوں تو وقعت میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)


آزادی اور جمہوریت کا تصور اُردو نظموں میں ، ڈاکٹر شائستہ نوشین۔ ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس،دہلی۔ صفحات: ۱۹۸۔ قیمت: ۱۵۰ روپے (بھارتی)۔

۱۸۵۷ء کے حادثے نے زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح برعظیم کے اُردو شعروادب پر بھی اثرات مرتب کیے خصوصاً اُردو شاعری اور بطور خاص نظم کے میدان میں نئے نئے اسالیب اور ہئیتوں کے تجربات ہوئے۔ ۲۰ویں صدی کے ابتدائی ۴،۵ عشروں میں اس حوالے سے بہت سی چیزیں لکھی گئیں کیونکہ اس دور میں برعظیم کے عوام فرنگی قابضین کے خلاف ایک مسلسل جدوجہد سے گزر رہے تھے اور ان کے جذبات اُردو ادب، خاص طور سے اُردو نظم میں ظاہر ہو رہے تھے۔

اودھ یونی ورسٹی (بھارت) کی پی ایچ ڈی اسکالر شائستہ نوشین نے آزادی اور جمہوریت کے موضوع پر اُردو کے ذخیرۂ منظومات کا تنقیدی جائزہ (۱۹۴۷ء-۱۹۰۱ء) لیا ہے۔ اُن کا یہ مقالہ کتابی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ ۵ ابواب پر مشتمل اس مقالے میں آزادی اور جمہوریت کا مفہوم، اُردو ادب میں آزادی و جمہوریت کی جھلک اور ۲۰ویں صدی کے اہم شعرا کے اُردو نظموں میں آزادی اور جمہوریت کے تصورات سے بحث کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں حالی و شبلی کے بعد شعرا کی دو درجہ بندیاں کی گئی ہیں۔ ایک درجے میں ترقی پسند شعرا اور دوسرے زمرے میں غیرترقی پسند شعرا کی کاوشوں کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ فیض، ساحر، مجاز، مخدوم، کیفی، علی سردار جعفری ایسے شعرا کو   اس لیے پہلے درجے میں جگہ ملی ہے کہ وہ ترقی پسندوں کے زمرے میں شامل ہیں، جب کہ اقبال، اکبر الہ آبادی، ظفر علی خاں، اور چکبست وغیرہ کو غیرترقی پسند شعرا کے زمرے میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ ایک مضحکہ خیز صورت ہے۔ مزیدبرآں اکبر الہ آبادی اور ظفر علی خاں ایسے شعرا کو ۴،۴صفحات میں سمیٹا گیا ہے اور تلوک چند محروم اور ساغر نظامی کو ان سے زیادہ صفحات کا مستحق سمجھا گیا ہے، حالانکہ اس سلسلے میں اکبر اور ظفرعلی خاں کی خدمات کسی طور تلوک چندمحروم اور ساغر نظامی سے کم نہیں۔

مجموعی جائزے میں بجا طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ آزادی اور جمہوریت کے تصورات کی ترجمانی اور عوامی بیداری کے فروغ میں اُردو نظم نے تاریخ ساز اور ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا ہے اور اس ضمن میں شعرا حضرات کی خدمات کسی سیاسی کارکن سے کسی طور کم نہیں۔

کتاب کے سرورق پر موجود بھارت کے نقشے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ آزادی اور جمہوریت کی جدوجہد فقط انھی علاقوں میں ہوتی رہی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ آزادی و جمہوریت کے ضمن میں بنگال اور پنجاب کے شعرا اور عوام کی خدمات بھی برعظیم کے دیگر علاقوں کے باشندوں سے کم نہیں۔ اس اعتبار سے یہاں صرف بھارت کے بجاے پورے برعظیم کا نقشہ دینا زیادہ قرینِ انصاف ہوتا۔مجموعی طور پر کتاب اپنے موضوع پر ایک اچھی کاوش ہے، تاہم اس موضوع پر مزید کام کی گنجایش موجود ہے۔ (ساجد صدیق نظامی)


احمدی دوستو! تمھیں اسلام بلاتا ہے؟ محمد متین خالد۔ ناشر: علم و عرفان پبلشرز، اُردو بازار، لاہور۔ فون:۷۳۵۲۳۳۲۔ صفحات: ۳۸۲۔ قیمت: ۲۵۰ روپے (مجلد)

۱۹ ویں صدی میں انگریزی سامراج نے ہندستان میں پنجے گاڑے تو اس نے مختلف سطحوں پر اپنے اقتدار کے جواز کے لیے کام کیا۔ مثال کے طور پر جنگی میدان میں، تعلیمی محاذ پر، ثقافتی پہلو سے اور مذہبی دنیا کے اندر۔ ان کے لیے ایک بڑا مسئلہ یہ تھا کہ مسلمان اس کافرانہ حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھے، اس لیے انھوں نے اسلام کی من مانی تعبیر کے لیے مختلف حلقوں کو اُبھارا۔ اس مہم میں مرزا غلام احمد آف قادیان انگریزوں کے ہم سفر اور رفیق بنے اور اسلام کی ایک نئی تعبیر پیش کی، جو بہت سے لوگوں کی گمراہی اور ارتداد کا سبب بنی۔ مسلمانوں نے اس چیلنج کا ہر سطح پر مقابلہ کیا اور بالآخر پاکستان کی پارلیمنٹ نے کھلے مباحث کے بعد قادیانیوں کو کافر قرار دے دیا۔

محمد متین خالد قادیانیت پر لکھنے والوں میں ایک معروف نام ہے۔ آپ قادیانیت کے تضادات اور اس کے باطل ہونے اور اسلام کی حقانیت پر بہت سی کتب، ٹھوس دلائل اور کھلے کھلے شواہد کے ساتھ لکھ چکے ہیں۔ اسلام چونکہ صراطِ مستقیم اور راہِ اعتدال کی دعوت کا علَم بردار ہے، لہٰذا ایسی کتاب کی ضرورت بھی محسوس ہو رہی تھی جس میں نہایت دل سوزی کے ساتھ قادیانیوں کو اسلام اور نجات کی راہ کی طرف دعوت دی جائے۔ زیرتبصرہ کتاب اسی ضرورت کے پیش نظر لکھی گئی ہے۔

مصنف نے دلیل اور ثبوت کے ساتھ دردمندی سے ’احمدیوں‘ [قادیانیوں] کو یہ دعوتِ فکر دی ہے کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی اور مرزا بشیرالدین صاحبان کی اصل تحریروں کو پڑھ کر کسی نتیجے پر پہنچیں، اور ظاہر ہے وہ نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ جس چیز کو مرزا صاحب نے پیش کیا ہے وہ فکری پراگندگی ہے، اسلام نہیں۔ کتاب کا اسلوب مناظرانہ نہیں، تحقیقی اور داعیانہ ہے۔ اس میں بڑے مرزا صاحب کی ۴۷ اور بشیرالدین صاحب کی ۱۰ کتب کے صفحات سے اصل عکس پیش کرکے اسلام اور قادیانیت کا مقدمہ پیش کیا گیا ہے۔ اس مناسبت سے یہ کتاب قادیانی حضرات کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دینے اور تحفے میں پیش کرنے کے قابل ہے۔ (سلیم منصور خالد)


منّتِ ساقی، محمد سرور رجا۔ ناشر: اوٹی انٹرپرائزز۔ پتا: ایم ایس رجا، ۶۰ روسل ڈرائیو، سٹیپل فورڈ نوٹنگھم، این جی ۹، ۷-ای جے، برطانیہ۔ پاکستان میں ملنے کاپتا: منشورات، منصورہ، لاہور-۵۴۷۹۰۔ صفحات: ۱۵۳۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

جناب محمد سرور رجا طویل عرصے سے دُور دیس (برطانیہ) میں مقیم ہیں تاہم اُردو زبان و ادب، پاکستان اور علامہ اقبال سے ان کا رشتہ و رابطہ، وطن عزیز میں رہنے والے اہلِ قلم ہی کی طرح قائم و استوار ہے۔ اس تعلق کا سب سے اہم پہلو علامہ اقبال اور ان کے افکار و تصورات سے ان کی دلی وابستگی ہے۔ چنانچہ انھوں نے علامہ کے فارسی کلام کا بہت سا حصہ منظوم اُردو میں منتقل کرکے اس کا ثبوت مہیا کیا ہے۔ اس سلسلے میں ان کی متعدد کتابیں چھپ چکی ہیں۔ زیرنظر کتاب منّتِ ساقی ایک تازہ کڑی ہے جو پیامِ مشرق کے تقریباً تین چوتھائی منتخب کلام کا منظوم اُردو ترجمہ ہے۔

اقبال کا فارسی کلام اور اس کا منظوم اُردو ترجمہ آمنے سامنے (باہم بالمقابل) دیے گئے ہیں۔ اس کا کچھ حصہ قبل ازیں ہالۂ نور کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ بقول مترجم: ترجمے میں التزام ملحوظ رکھا گیا ہے کہ ترجمہ بھی اسی بحر میں ہو جس میں فارسی غزل ہے۔ اور جہاں ممکن ہو،  قوافی بھی اصل کے مطابق لائے گئے ہیں۔ اسی طرح فارسی اور اُردو دونوں زبانوں میں جو حسین مطابقت ہے، اسے اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

کلامِ اقبال کا زیرنظر ترجمہ اُردو اور فارسی دونوں زبانوں اور فنِ شاعری پر مترجم کی دسترس کا ثبوت ہے۔ متعدد فاضل اہلِ قلم نے رجاصاحب کی زیرنظر کاوش کو سراہا ہے۔ مجلسِ اقبال لندن کے ناظم جناب محمد شریف بقا لکھتے ہیں: ’’اکثر مقامات پر آپ نے علامہ اقبال کے فارسی اشعار کا اتنا مناسب، برمحل اور عمدہ ترجمہ کیا ہے کہ بے اختیار آپ کی شعری مہارت اور خوبی ٔترجمہ کی داددینا پڑتی ہے‘‘۔

جلی کتابت، پایدار کاغذ، اُجلی طباعت اور مضبوط جِلد کے ساتھ کتاب اچھے معیار پر شائع کی گئی ہے۔ ہمیں امید ہے اقبالیات کے شعبۂ تراجم میں یہ مجموعہ ایک قابلِ قدر اضافہ قرار پائے گا۔(رفیع الدین ہاشمی)


رہنمایانِ جماعت اسلامی اور مثالی کارکنان ، محمد کلیم اکبر صدیقی۔ ملنے کا پتا: بی-۱۹۰، گلگشت کالونی، ملتان، فون: ۶۲۲۴۲۹۲-۰۶۱۔ صفحات: ۲۰۲۔ قیمت: ۱۴۰ روپے۔

یہ کتاب ایک کارکن کے تاثرات و مشاہدات ہیں جس میں مؤلف نے اپنے مشاہدے میں آنے والے، جماعت کے مرکزی، صوبائی، ضلعی اور مقامی رہنمائوں کا تذکرہ کیا ہے۔ ان میں سے بعض حضرات گرامی فرضِ بندگی ادا کرتے ہوئے اپنے رب کے حضور پہنچ گئے ہیں، اور دوسرے  حقِ بندگی ادا کرنے میں کوشاں ہیں۔ میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد، سید منور حسن، پروفیسر غلام اعظم، چودھری رحمت الٰہی، پروفیسر عبدالغفور، حافظ محمد ادریس، لیاقت بلوچ، میاں مقصود احمد، ڈاکٹر نذیر احمد شہید، محمد باقر خان کھرل، چودھری نذیر احمد، مولانا خان محمد ربانی، مرزا مسرت بیگ، مولانا معین الدین، شیخ عبدالمالک، سیدنصرشاہ، محمد عقیل صدیقی، ملک وزیرغازی، حکیم عبدالکریم جاذب، ڈاکٹر محمداعظم صاحبان کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

جماعت کے ابتدائی کارکنان کی زندگیوں کا یہ تذکرہ، نئے آنے والوں کے لیے جہاں جذبے اور ولولے کا باعث ہے وہیں تاریخ کی جھلکیاں پیش کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔ اس اعتبار سے اس میں متعدد دل چسپ معلومات یک جا ہوگئی ہیں۔(عمران ظہور غازی)

تعارف کتب

  •  سید مودودی کا داعیانہ کردار: محمد حسین شمیم۔ ناشر: مکتبہ معارف اسلامی، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ صفحات: ۵۶۔ قیمت: ۴۰ روپے۔ [مصنف نے کئی برس پہلے سید مودودی: پُرعزم زندگی، گم نام گوشے کے نام سے مولانا مودودی سے متعلق اپنی یادداشتیں کتابی صورت میں مرتب کی تھیں۔ زیرنظر    کتابچہ ایک اعتبار سے انھی یادداشتوں کا تکملہ ہے۔ ’ذاتی مشاہدات و تاثرات‘ کو انھوں نے مختلف عنوانات (سید مودودی: پُروقار شخصیت، سید کے معمولات، بسلسلہ خط کتابت، نماز باجماعت، وقت کی پابندی، بیماری، خوراک، اِستغنا، اہل و عیال، بصیرت) کے تحت پیش کیا ہے۔ سید مودودی کی شخصیت اور گئے وقتوں میں جماعت اسلامی کا مزاج اور افتاد و نہاد کیا تھی، یہ جاننے کے شائق قارئین اس کتاب کو دل چسپ اور معلومات افزا پائیں گے۔]
  •  گنجینہ مہر (اول و دوم) ، مرتب: محمد عالم مختارِ حق۔ ناشر: مغربی پاکستان،اُردو اکیڈمی۔ ۲۵- سی، لوئرمال، لاہور۔ فون: ۷۵۱۲۷۲۴۔ صفحات، اول:۲۸۸، دوم: ۲۷۹۔ قیمت، اول و دوم : ۲۵۰ روپے۔ [جناب محمد عالم مختارِ حق کے نام مولانا غلام رسول مہر مرحوم کے ۳۱۴ طویل اور مختصر رقعات اور مکتوبات کا مجموعہ، مع حواشی و تعلیقات از مکتوب الیہ۔ مہرصاحب کی شخصیت، تصنیفی اور صحافتی سرگرمیاں، علمی ذوق شوق، معاصرین کے ساتھ ان کا تعلق، خصوصاً علامہ اقبال سے ربط و ضبط، اسی طرح تاریخی روایات و واقعات کی صراحت، لفظوں کی لغوی تحقیق، غرض ان مکتوبات میں بلا کا تنوع ہے۔ مہرصاحب کا ذوقِ شعر ان کے مرشدِ معنوی ابوالکلام آزاد کی یاد دلاتا ہے۔ اہلِ علم اور ذوق مطالعہ رکھنے والوں کے لیے ایک دل چسپ کتاب۔]