۴ سالہ فر.اس کا ایک ہاتھ اس کی والدہ کے ہاتھ میں تھا۔ وہ گاہے اسے سہلاتی اور گاہے اپنے بیٹے کی بند آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کرتی۔ جو انجکشن نرس کے پاس تھا وہی بار بار لگاکر اس کی تکلیف کم کرنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی، حالانکہ اسے علم تھا کہ یہ انجکشن اس کا علاج نہیں ہے۔ اس کے والد کو معلوم تھا کہ نسخے میں درج ادویات نہیں مل سکیں گی، لیکن بے تاب ہوکر وہ مزید تلاش کے لیے ہسپتال کے باہر بھاگ دوڑ کر رہا تھا۔ اسی دوران میں اچانک فر.اس کی سانس اکھڑی اور پھر چند لمحوں میں، والدہ کے ہاتھ میں تھامی ہوئی اس کی کلائی کسی مرجھائی ہوئی شاخ کی طرح جھولنے لگی۔ ماں باپ آنسوئوں کی جھڑی میں بیٹے کی لاش سنبھالنے لگ گئے۔ یہ منظر غزہ کے ایک ہسپتال کا تھا جہاں ایک فر.اس نہیں، روزانہ کئی فر.اس صرف اس وجہ سے علاج نہیں کروا پاتے کہ ان کے لیے مطلوب ادویات غزہ میں نہیں پہنچائی جاسکتیں۔ اس لیے کہ غزہ کو تین اطراف سے یہودی ملک اسرائیل نے گھیر رکھا ہے اور چوتھی جانب سے مسلم ملک مصر نے دروازے بند کر رکھے ہیں۔
فر.اس کی رخصتی کا یہ پورا منظر، براہِ راست الجزیرہ ٹی وی پر اس لیے آگیا کہ وہ فلسطین پر صہیونی قبضے کے ۶۱ برس پورے ہونے، اور پوپ مقرر کیے جانے کے بعد پہلی بار کسی مسلمان علاقے کے دورے پر آئے ہوئے عیسائی پیشوا کی مصروفیات پر غزہ سے ایک رپورٹ دے رہا تھا۔ اُردن اور پھر مقبوضہ فلسطین کے اپنے ۸ روزہ دورے میں پوپ بینی ڈِکٹ شانزدہم نے کئی خطبے اور بہت سے اہم پیغامات دیے۔ پوپ بینی ڈِکٹ کا یہ دورہ ابتدا ہی سے متنازع تھا۔ سب سے پہلا اعتراض اُردن کی سیاسی اور دینی جماعتوں کی طرف سے کیا گیا کہ: پوپ یا مسیحیوں سے ہماری کوئی دشمنی نہیں ہے، لیکن پوپ نے اپنا یہ مذہبی منصب سنبھالنے کے فوراً بعد ہی اپنے ایک لیکچر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کرکے پوری اُمت محمدیؐ کے دل زخمی کیے تھے۔ اسلام کو بزور تلوار پھیلنے والا مذہب قرار دیا تھا، اور ۱۴ویں صدی عیسوی کے ایک بازنطینی حکمران کے وہ قبیح الفاظ دہرائے تھے، جو اس نے ایک مسلمان فلسفی سے مناظرہ کرتے ہوئے آں حضوؐر کے بارے میں کہے تھے۔ اب اگر پوپ واقعی عالمِ اسلام کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں تو رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارک کے بارے میں کہے ہوئے الفاظ واپس لے لیں۔ مگر افسوس کہ پوپ نے کوئی معذرت نہیں کی اور صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا تھا کہ: ’’مجھے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہونے پر افسوس ہے‘‘۔
اپنے تین روزہ دورۂ اُردن اور پانچ روزہ دورۂ مقبوضہ فلسطین کے دوران میں پوپ نے اپنی تمام گفتگوئوں میں یہودیوں کو خوش کرنے کی بار بار کوشش کی۔ اُردن میں واقع جبل نیبو جو کہ عیسائیوں اور یہودیوں دونوں کے نزدیک مقدس مقام تھا، کے دورے سے ہی انھوں نے محبت ناموں کا آغاز کردیا تھا۔ مثال کے طور پر سب سے پہلے تو اپنے دورئہ مشرق وسطیٰ کو ’سفرِحج‘ قرار دیتے ہوئے کہا: ’’سرزمین مقدس کا حج ہماری قدیم روایت ہے اور یہ سفر ہمیں مسیحی کنیسے اور یہودی قوم کے درمیان وحدت اور ناقابلِ انقطاع تعلقات کی یاد دہانی کرواتا ہے‘‘۔
انھوں نے مسیحی پیشوا ہونے کے ناتے اپنا مغفرت و معافی کا اختیار استعمال کرتے ہوئے یہودی قوم کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی (نام نہاد) پھانسی کی سزا سے بھی بری الذمہ قرار دے دیا۔ انھوں نے یہودیوں پر نازیوں کے (مبالغہ آمیز) جرائم پر اپنے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس کی مذمت کی اور دیوارِ گریہ کا دورہ کرتے ہوئے یہودی عبادات کی پیروی کی اور یہودی روایات کے مطابق دیوار کے شگافوں میں سے ایک شگاف میں اپنی دعائوں اور آرزوئوں پر مشتمل پرچی ٹھونس دی۔ پھر توازن پیدا کرنے کے لیے بعض مسلم مقامات مقدسہ کا دورہ بھی کیا۔ اُردن میں شاہی مسجد، مسجدحسین بن طلال اور بیت المقدس میں گنبد صخرہ بھی گئے لیکن نہ جانے اسے غفلت کہا جائے یا عمداً کی گئی غلطی کہ انھوں نے مسجدحسین کے اندر جاتے ہوئے جوتے اتارنے تک کا تکلف نہیں کیا اور جب یہ عمل احتجاج کا سبب بنا تو ان کے دفتر نے یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ ’’کسی نے انھیں جوتے اتارنے کا کہا ہی نہیں‘‘۔
سوال یہ ہے کہ پوپ نے اپنے اس ’حج‘ کے لیے فلسطین پر یہودی قبضے اور اسرائیلی ناجائز ریاست کے قیام کی ’برسی‘ کا انتخاب ہی کیوں کیا؟ خود فلسطینی عیسائی باشندوں کے مطابق یہ دورہ سال کے کسی بھی دوسرے موقع پر ہوسکتا تھا۔ پوپ اور ان کا دفتر شاید اپنے تئیں اس کی کوئی تاویل رکھتا ہو لیکن ’’شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے‘‘ کے مصداق، وقت کے اس انتخاب نے ان کے سیاسی مقاصد کو پوری طرح بے نقاب کر دیا۔ اپنے اس دینی دورے میں انھوں نے اسرائیلی ذمہ داران اور یہودی مذہبی پیشوائوں سے ملاقاتیں کیں اور ساتھ ہی ساتھ تقریباً چار سال قبل اغوا ہونے والے یہودی فوجی گلتاد شالیط کے گھر جاکر ان کے اہلِ خانہ سے بھی اظہار ہمدردی و یک جہتی کیا۔ معلوم تو انھیں بھی تھا کہ اس وقت صہیونی جیلوں میں ۱۱ ہزار فلسطینی باشندے قید ہیں، جن میں ۳۰۰ بچے اور ۲۹ خواتین بھی ہیں۔ ۴۳ منتخب ارکان اسمبلی اور حماس کے وزرا بھی ہیں اور ان ہزاروں قیدیوں میں نائل البرغوثی (ابوالنور) نامی ایک قیدی ایسا بھی ہے، جو گذشتہ ۳۵ سال سے مسلسل قید میں ہے۔ ۵۰سالہ نائل ۱۵برس کی عمر میں قید ہوا اور اب وہ دنیا کا سب سے طویل قید بھگتنے والا قیدی بن چکا ہے۔ اس کے ماں باپ اپنے قیدی بیٹے سے ملاقات کا خواب آنکھوں میں سجائے دنیا کی قید سے آزاد ہوگئے لیکن ابوالنور آزادی کا نور نہیں دیکھ سکا۔ پوپ ان ہزاروں مسلم قیدیوں کی رہائی نہ سہی، صرف عیسائی قیدیوں کی رہائی کے لیے ہلکا سا اشارہ کر دیتے، مگر یہودیوں کے مقابلے میں وہ اپنے ہم مذہبوں کے لیے بھی یہ ہمت نہ دکھا سکے۔
اس عدمِ توازن کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ نازی جرائم کی مذمت، اور ان پر پوری یہودی قوم سے معذرت تو کر لی گئی، حالانکہ یہ کہانی اپنی انتہائی مبالغہ آمیزی کے باعث متنازع ہے۔ اس کے برعکس جن جرائم کے وقوع پذیر ہونے پر کوئی اختلاف نہیں ہے، جن جرائم کو پوری دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ غزہ پر گذشتہ دسمبر اور جنوری میں توڑی جانے والی قیامت تو آج بھی غزہ کے حصار کی صورت میں جاری ہے، جہاں نہ جانے کتنے بچے صرف دوا نہ ملنے کے باعث مائوں کی آغوش میں دم توڑ رہے ہیں، اس اکیسویں صدی کے ’نازی ازم‘ کے بارے میں پوپ کے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں ادا ہوسکا۔ بس اتنا فرمایا کہ: فلسطینی اور یہودی شدت پسندی چھوڑ کر بقاے باہمی کی راہ اختیار کریں۔ گویا صہیونی ریاست کی طرف سے فاسفورس بموں کی بارش، گذشتہ ۶۱ برسوں سے جاری بے محابا مظالم، فلسطین کے لاکھوں باشندوں کو اجنبی قرار دے کر انھیں بے گھر کردینا، غزہ کے ۱۵ لاکھ باشندوں کا مسلسل محاصرہ، اور یہودی غاصبوں کے مقابلے میں بچوں کا پتھرائو، غلیلیں لے کر آجانا، اپنی جان پر کھیل کر احتجاج کرنا کیا شدت پسندی ہے…؟ چلیے ۶۱سال کے جرائم کو بھی چھوڑ دیتے صرف غزہ میں وقوع پذیر حالیہ درندگی کی مذمت اور اس پر افسوس ہی ظاہر کردیتے کہ جس میں ۱۳۱۲ فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، جن میں ۴۱۰ بچے بھی تھے۔ ۵۳۴۰ زخمیوں کی بیمارپرسی کرلیتے، جن میں سے ۳۵فی صد بچے تھے، ۲۰ ہزار تباہ شدہ گھر نہ دیکھتے ان میں سے ۲۳ مساجد اور ۶۰ اسکولوں کی تباہی پر ہی احتجاج کرلیتے۔
جناب پوپ نے اہلِ فلسطین کی حمایت میں جو کلماتِ دل پذیر ادا کیے اور جن پر عالمِ اسلام کے کئی مقتدر لوگوں نے تعریف و ستایش کے ڈونگرے برسائے ہیں، بلکہ یہاں پاکستانی اخبارات میں بھی اداریے لکھے گئے، حالاں کہ ان کلماتِ دلنشیں میں، ’جناب پوپ‘ کا ایک بیان یہ بھی تھا کہ: ’’فلسطینی اور یہودی دو ریاستوں کی بنیاد پر اپنے تنازعات حل کرلیں‘‘۔ یہ دو ریاستی فلسفہ سادہ الفاظ میں یہ ہے کہ فلسطینی اور مسلمانانِ عالم یہودی ریاست اسرائیل کو تسلیم کرلیں اور اسرائیلی، فلسطین نام کی ایک ریاست بناکر اسے تسلیم کرلیں۔ یہ فلسفہ جناب پوپ ہی نہیں ایہود باراک، ایہود اولمرٹ اور سیبی لیفنی سمیت متعدد حالیہ اور سابقہ ذمہ داران کئی بار دہرا چکے ہیں۔ ۱۹۹۳ء میں اوسلو معاہدے کی بنیاد بھی اسی فلسفے پر رکھی گئی تھی، لیکن اس فلسفے کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ اوسلو معاہدہ اور متعدد روڈمیپ آجانے کے ۱۶ برس بعد بھی یہ نہیں بتایا جا رہا کہ فلسطینی ریاست کی حدود کیا ہوں گی اور صہیونی ریاست کی سرحدیں کہاں جاکر رکیں گی۔ اگر غزہ اور مغربی کنارے کے کٹے پھٹے علاقے پر فلسطینی ریاست کی تہمت لگا کر کوئی سمجھتا ہے، کہ وہ کوئی مبنی برانصاف یا قابلِ قبول حل پیش کر رہا ہے تو بصد افسوس عرض ہے کہ وہ اپنے تمام تر مذہبی رتبے اور دعوی ہاے پارسائی کی توہین کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر رہا۔
باعث ِ تشویش امر یہ ہے کہ ایک طرف تو مسلم دنیا کو دو ریاستی فارمولے کے کھلونے سے بہلایا جا رہا ہے اور دوسری طرف انھی دنوں بیت المقدس میں ظلم و تعدّی کا نیا بازار گرم کیا جا رہا ہے۔ بیت المقدس کو مکمل یہودی شہر بنانے کے منصوبے پر ایک بار پھر پورے زوروشور سے کام شروع کردیا گیا ہے۔ اس وقت بھی بیت المقدس میں ۶۰ ہزار فلسطینی بستے ہیں۔ وہ خود کو مسجداقصیٰ کے محافظ و خادم سمجھتے ہیں۔ صہیونی ریاست نے بیت المقدس کو ہمیشہ اپنا ابدی دارالحکومت قرار دیا ہے۔ قیامت ِ غزہ کے بعد اب تہویدِ قدس کے نام سے ان ۶۰ ہزار فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کا آغاز کردیا گیا ہے۔ ایک ایک کرکے ان کے گھر چھینے جارہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ مسجداقصیٰ کو شہید کرکے وہاں نام نہاد ہیکل سلیمانی لاکھڑا کرنے کی نئی تاریخیں دی جارہی ہیں۔ مگر جناب پوپ کو یہ چیخیں، ظلم کی داستانیں اور حق و انصاف کی پامالیوں پر مبنی اقدامات دکھائی نہیں دیتے۔
یہ پوپ ہوں یا صہیونی قیادت اور اس کے ناپاک ارادے ہوں، ان سے تو شکوہ نہیں کیا جاسکتا۔ اصل شکوہ تو مسلم دنیا کے حکمرانوں سے ہے۔ ۱۰ مئی کو نئے صہیونی وزیراعظم نتن یاہو نے خود بیماری کی اصل جڑ کی نشان دہی کردی۔ اس نے مصری صدر حسنی مبارک اور اُردنی شاہ عبداللہ سے ملاقات کے بعد بیان دیا کہ ’’صہیونیت کی تاریخ میں پہلی بار عربوں کے ساتھ ہمارا ایسا وسیع تر اتفاق ہوا ہے کہ جس میں مشترکہ خطرات کی نشان دہی کی گئی ہے۔ یہ خطرہ ہم سب کے لیے باعث ِ تشویش ہے‘‘۔ وہ ایران کے ایٹمی پروگرام پر تبصرہ کر رہا تھا۔ اس سے پہلے اس کا وزیرخارجہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو عالمی امن کے لیے اصل خطرہ قرار دے چکا ہے۔
ہر آنے والا دن جعفر و صادق کے پردے میں چھپے غداروں کو بے نقاب کر رہا ہے۔ ۴سالہ فر.اس کی ماں صدمے کے باوجود، تدفین کے بعد کہہ رہی تھی: ’’فِراس زندہ ہے، وہ مجھے اور مجھ جیسی کروڑوں مائوں کو جدوجہد کا پیغام دے رہا ہے، جدوجہد اور مسلسل جدوجہد ہی اصل علاج ہے‘‘۔