ان معروضات کی حیثیت کسی رہنمائی کی نہیں بلکہ صرف یاد دہانی کی ہے۔ ان کے اندر کوئی نئی بات بھی نہیں، بلکہ سب کچھ آپ کا بارہا سنا اور پڑھا ہوا ہے۔ اس کے باوجود میں نے یہ باتیں آپ کے سامنے اس لیے رکھی ہیں کہ آدمی رہنمائی کا محتاج تو صرف ایک وقت تک ہوتا ہے یا کبھی کبھار ہو جایاکرتا ہے مگر یاددہانیوں کا محتاج وہ ہمیشہ رہتا ہے۔
نصب العین اور اس کے صحیح، واضح اور جامع مفہوم کے استحضار کی طرف سے کبھی غافل نہ رہا جائے۔ اس کے یقین اور شعور کو زندہ و بیدار رکھنے کی ہر آن فکر رکھی جائے اور اسے اپنے امکان بھر برابر حرزِجاں بنائے رکھا جائے۔ ماحول کی کسی بھی ناسازگاری کو اور کسی بھی ظاہری بے اثری اور ناکامی کو اس امر کی اجازت ہرگز نہ دی جانی چاہیے کہ یہ شیطانی حربے اور وسوسے ہمارے تحریکی عزائم کو متاثر کر دیں،اور صورت حال، خدا نہ کرے کچھ ایسی بنا دیں کہ زبانوں پر تو اقامت دین کے نصب العین کا دعویٰ اور اعلان حسب معمول پورے زور شور سے جاری رہے مگر دلوں اور دماغوں میں اس کے ساتھ وابستگی کی لَو بہ تدریج مدھم پڑتی جائے۔ یہاں تک کہ حالات کی اس مار سے بے حال ہو کر کچھ لوگ تو بیٹھ رہنے یا الٹے پائوں پھر جانے تک کی سوچنے لگیں۔
جہاں تک اس تحریک کے لیے ماحول کی سازگاری اور راہ کی ہمت شکن مشکلات کا سوال ہے، ان سے سابقہ پیش آنا تو ممکن یا متوقع ہی نہیں، بالکل ناگزیر ہے۔ دین اور دینی تحریکات کی پوری تاریخ میں ہمیشہ ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ اس ا مرِواقعی کی تفصیل سے قرآن عزیز کے صفحات بھرے ہوئے ہیں۔ گویا روزِاوّل سے سنت اللہ یہی رہی ہے۔ اس لیے آج یہ ہمارے لیے بدل نہیں جائے گی۔ پھر یہ صرف سنت اللہ ہی نہیں ہے بلکہ حکمت اللہ بھی ہے۔ آزمایشوں کی یہ بھٹی بھڑکائی ہی اس لیے جاتی ہے کہ کھوٹے اور کھرے چھٹ کر الگ ہو جائیں اور تحریک کو صاف صاف معلوم ہو جائے کہ اس کی اصل طاقت کیا ہے۔ اس آزمایش میں کامیاب ثابت ہونا اور اپنی دعوتی جدوجہد کی ظاہری بے اثری و ناکامی سے بددل ہو کرنہ رہ جانا اسی وقت ممکن ہے جب اللہ کے دین کی نصرت اور اقامت کا عہدِ وفا دل و دماغ پر برابر چھایا رہے۔ غالباً وہ تاریخی جملے آپ بھولے نہ ہوں گے جو بانیِ جماعت مرحوم و مغفور نے فرمائے تھے۔ ان جملوں کے الفاظ کچھ اس طرح تھے کہ اگر ایک شخص نے بھی میری پکار کوسن کر نہ دیا تب بھی میں اپنی اس پکار کو کبھی بند نہ کروں گا، اور اگر موانع و مشکلات نے میرے پائوں اس طرح جکڑ لیے کہ میں ایک قدم بھی آگے نہ بڑھ سکوں تب بھی میں اپنا رخ منزلِ مقصود کی طرف کیے زندگی بھر کھڑا رہوں گا!
یہ کوئی شاعری نہیں تھی بلکہ ایک صاف اور سیدھی سی ایمانی صداقت کا اظہار تھا۔ جس کسی بندئہ خدا نے اس کے دین کی اقامت کو اپنی زندگی کا پہلا اور آخری فریضہ تسلیم کر رکھا ہو اس کے عزم کی کیفیت ایسی ہی ہوتی ہے بشرطیکہ وہ اپنے قول میں سچا بھی ہو اور اپنے اس فریضے کے استحضار کا برابر اہتمام بھی رکھے۔ نصب العین کا یہ استحضار جہاں افرادِ جماعت کو عزمِ صادق سے سرشار رکھے گا وہیں جماعت کی اجتماعی زندگی کے لیے حفظانِ صحت کی ضمانت بھی بنا رہے گا۔ جب ہمارے دلوں میں اپنے نصب العین کی سچی محبت اور بے لوث وابستگی گھر کیے رہے گی اور ہمارے افکار وجذبات پر اس کے تقاضے چھائے رہیں گے تو جماعت کے اندر ردّ و کد اور افتراق و انتشارکی نامبارک صورت حال پیدا کر دینے والے مسائل یا تو پیدا ہی نہ ہوں گے یا اگر کبھی پیدا ہو گئے تو انھیں سلجھالینا چنداں دشوار نہ ہوگا۔
ایک بات جو خاص اہمیت کی حامل ہے، اس کا تعلق موجودہ ماحول اور اس کی روز افزوں آلودگیوں سے ہے۔ اس سے میری مراد اس خارجی ماحول سے نہیں ہے جس کی آلودگیاں ہوا، پانی، اشیاے خوردنی، غرض ان سب چیزوں کو جن پر انسانی زندگی کا انحصار ہے زہرآلود بناتی چلی جا رہی ہیں اور جن کی دہشت سے آج ہر طرف ہاہاکار مچی ہوئی ہے بلکہ اس داخلی ماحول سے ہے جو انسان کے اندرون میں پایا جاتا اور اس کے دل و دماغ سے تعلق رکھتاہے۔ خارجی ماحول کی آلودگیوں نے اگر حیاتِ انسانی کے لیے خطرات پیدا کر دیے ہیں تو اس اندرونی اور باطنی ماحول کی آلودگیوں نے بھی حیاتِ انسانی کی بنیادوں کو زیروزبر کر کے رکھ دیا ہے۔ ان کی وجہ سے اخلاقی قدروں کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ہے۔معروف و منکر میں کوئی امتیاز باقی نہیں رہ گیا ہے، بلکہ معروف کی جگہ منکر نے اور منکر کی جگہ معروف نے لے لی ہے۔ اصول پسندی ، دیانت داری، حق شناسی ، عدل پروری، ایفاے عہد اور بر و تقویٰ کا نام تاریک خیالی ، ظلمت پسندی اور بنیاد پرستی قرار پاگیا ہے۔ پھر اگر بات یہیں تک محدود رہتی تو شاید کسی غیرمعمولی تشویش کی موجب نہ ہوتی، مگر صورت حال تو یہ ہو چکی ہے کہ اس سراپا شروفساد اندازِ فکر کو نام نہاد ’فلسفیانہ اور دانش ورانہ‘ دلائل سے آراستہ کر کے اتنا جاذبِ نظر اور خوش نما بنا دیا گیا ہے کہ دُنیا کی دُنیا اس کے سحر سے مسحور ہوتی چلی جا رہی ہے۔
ہمارے لیے یہ آلودگیوں اور فتنوں بھرا ذہنی و فکری ماحول اخلاق و کردار کے پہلو سے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اللہ کے فضل و کرم سے اس کے مہلک نظریے اور فلسفے ان چیزوں کے بارے میں ہمیں ہرگز متاثر نہیں کرسکتے، مگر دوسرے بہت سے تحریکی اُمور کی نسبت سے یہ یقینا ہمارے لیے بھی مسئلہ ہیں اور خاصا اہم مسئلہ۔ یہ اپنی بے پناہ قوت کے بل پر ہمارے اندازِ فکر میں دراندازی کرسکتے ہیں، تحریکی سرگرمیوں کے مابین ترجیحات کے ٹھیک ٹھیک تعین میں اور کام کے صحیح تر واَنْسَبْ طریقوں کے انتخاب میں ہمیں ٹھوکر کھلا سکتے ہیں، ذاتی اور ملّی مصالح و مفادات کی طرف توجہ دینے کے معاملے میں غیر محتاط بنا سکتے ہیں، کامیابی اور ناکامی کے صحیح تصورات سے غیرشعوری طور پر بے گانہ کر سکتے ہیں، جوش اور ہوش کے تقاضوں میں توازن کی طرف سے توجہ ہٹاسکتے ہیں، سست گامی اور بے عملی کو حکمت اور دُور اندیشی کا مقتضا باور کرا سکتے ہیں اور پھر خوش نما تاویلوں کا ایسا انداز بھی سکھا سکتے ہیں کہ آدمی خود اپنے آپ سے چھپ کر رہ جائے۔
جب انسانیت کا اندرونی ماحول ایسے خوف ناک اندیشوں سے بھرا ہوا ہے تو ضروری ہے کہ ہم غیر معمولی حد تک چوکنّے رہیں۔ اس بیدار مغزی کا ثبوت دیتے رہیں جس کا مطالبہ ہمارا نصب العین ہم سے کر رہا ہے تاکہ ہماری تحریکی راست فکری اور راست رَوی پوری طرح محفوظ رہے۔ شیطان کا کید بڑا بے پناہ ہوتا ہے۔ اللہ کے مخلص بندوں کے لیے وہ نہ جانے کیسے کیسے جال بچھاتا رہتا ہے۔ حق کے طالب کو فضولیات میں اُلجھا کر رکھ دینے کے لیے پرُفریب تاویلوں کا القا کیا کرتا ہے۔آدمی کو ریاض اور مجاہدے کی راہ سے ہٹا کر تن آسانیوں کا خوگر بنا دینا اس کا محبوب ترین مشغلہ ہے۔ حق اور باطل کے لیے آمیزے تیار کر کے بندگانِ خدا کے ذہنوں میں اُتار دینا اس کا آزمودہ اور نہایت کارگر نسخہ ہے۔ وہ اپنی ان کوششوں کو اس وقت تک ترک نہیں کرتا جب تک کہ ابن آدم کو وَھُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا o ]وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں۔ الکہف ۱۸: ۱۰۴[ کے مقامِ عبرت تک نہ پہنچا دے۔عام لوگوں کے لیے بھی یہ خطرہ کچھ کم سنگین نہیں ہوتا، مگر ان لوگوں کے لیے اس خطرے کی سنگینی کی کوئی انتہا نہیں ہوتی جو اللہ کے دین کی نصرت اور اقامت کے لیے اٹھے ہوئے ہوں۔ لہٰذا اس امر کی شدید ضرورت آج بھی ہے اور ہر آنے والے کل کے دن بھی رہے گی کہ ہم اپنے اندرون کا جائزہ لیتے رہیں۔ پوری دقت ِ نظرسے دیکھتے رہیں کہ نفس اور شیطان کی فریب کاریاں ہمیں اور ہمارے اندازِ فکر کو اپنا شکار بنا لینے کی کوششوں میں کسی پہلو سے کامیاب تو نہیں ہو رہی ہیں۔ اس جائزے اور خود احتسابی کے بغیر نہ تو فکروعمل کی راہ راست پر استقامت کے ساتھ چلتے رہنے کی ضمانت ہو سکتی ہے، نہ اس فریضۂ اقامت ِدین کا کم سے کم حق ادا ہو سکنے کی توقع کی جا سکتی ہے، جس کی ادایگی کا عہد ہم نے اپنے رب سے کر رکھا ہے۔
آخری بات دراصل ایک سوال کے جواب کی حیثیت رکھتی ہے جو ذہنوں میں اُبھر سکتا ہے، یعنی یہ کہ یہ ساری مطلوبہ صفات اپنے اندر کس طرح پیدا کی جا سکتی ہیں؟ ہم اپنی دہری ذمّہ داریوں کا بوجھ اٹھا سکنے کے قابل کیوں کر ہو سکتے ہیں؟ ہمارے اندر اپنے نصب العین سے سچاّ قلبی لگائو کیسے پیدا ہو سکتا اور اس کا استحضار کیسے پیہم برقرار رہ سکتا ہے؟ ہمارے تحریکی شعور کو بیداری کس طرح حاصل رہ سکتی ہے؟ ہم وقت کے نظریاتی فتنوں کی یلغار سے اپنے ذہنوں کو کس طرح محفوظ رکھ سکتے ہیں؟ اس سوال یا اِن سوالوں کا جواب قرآن حکیم کے اندر آپ کو جگہ جگہ مل سکتا ہے۔ میں اس وقت اس کے صرف ایک ارشاد کے الفاظ سنا دینے پر اکتفا کروں گا:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنْ تَـتَّـقُوا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا … الخ (انفال ۸:۲۹) اے ایمان والو! اگر تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو گے تو وہ تمھارے اندر حق اور باطل کے درمیان تمیز کر لینے والی قوت پیدا کر دے گا…
یہ کلماتِ خداوندی اگرچہ چند ہی ہیں، مگر ان کے اندر واضح طور پر وہ سب کچھ موجود ہے جو ہم اس وقت جاننا چاہتے ہیں۔ ضرورت صرف اتنی ہے کہ ان کی گہرائیوں میں اتر کر غور کر لیا جائے اور صرف غور ہی نہ کر لیا جائے بلکہ صدقِ دل سے یہ دُعا بھی کی جائے کہ بارالٰہا! ہم سب کو تقویٰ کی اس نعمت سے نواز دے اور برابر نوازے رکھ، جو بندئہ مومن کے لیے راہِ حق کا چراغ روشن کیے رہتی ہے، تاکہ تیرے یہ کمزور و ناتواں بندے، جو تیرے دین کی اقامت کے لیے اٹھے ہوئے ہیں، کہیں بھی اور کبھی بھی نہ ہمت چھوڑ بیٹھیں، نہ کسی غلط رُخ کی طرف نادانستہ مڑ جانے پائیں۔ آمین! (ماہنامہ زندگی نو، دہلی، جولائی ۱۹۹۲ء)