اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام کا نظامِ معیشت ایک مستحکم اور پُر رحمت معاشی نظام ہے، جس کی بنیاد انسان دوستی پر ہے۔ ’’جو کچھ ہے، انسان کے لیے ہے اور جو کچھ بھی کیا جائے گا، انسانوں ہی کے لیے کیا جائے گا‘‘، یعنی اصل اہمیت انسان کی اور اُسے آسانی اور سہولت مہیا کرنے کی ہے، جب کہ دیگر معاشی نظاموں میں ذاتی مفادات، خواہشاتِ نفس اور پرستش دولت و وقار کو تمام تر اہمیت حاصل ہے۔ یہ ایک بہت بڑا جوہری فرق ہے جو اسلامی اور غیر اسلامی معاشی نظاموں کو ایک دوسرے سے جدا کرتاہے۔ لہٰذا بنیادی مقاصد کے شدید اختلاف کے باعث ہی ہردو کے معاشی اقدامات بھی بالکل جدا جدا ہوتے ہیں۔ ایک کے اقدامات انسانوں کے باہمی احترام اور ان کی لازوال فلاح و بہبود کی طرف رہنمائی کرتے ہیں، جب کہ دوسرے نظام کے اقدامات سے سنگ دلی، انسانوں کی بے احترامی اور آمدوخرچ میں استحصال کا راستہ کھلتا ہے۔
مغربی نظام معیشت کا رائج الوقت مادی اصول یہ ہے کہ قیمتوں کا تعین طلب و رسد کی فضا سے ہوتا ہے۔ بظاہر دل کو لگنے والا یہ اصول اندر سے دراصل ایک جارح اصول ہے۔ مغربی ماہرین معیشت فرماتے ہیں کہ مارکیٹ میں جب طلب اشیا میں اضافہ ہوگا تو لازم ہے کہ وہاں قیمتوں میں بھی اسی حساب سے اضافہ ہو، اور جب رسد اشیا (supply) میں اضافہ ہوگا تو قدرتی طور پر اشیا کی قیمتوں میں بھی اسی حساب سے کمی ہوگی۔ حالانکہ دیکھا گیا ہے کہ جب اشیا کی رَسد میں اضافہ ہوا ہے تو عموماً ان اشیاء کی قیمتیں نہیں گر سکی ہیں، یا اگر گرائی گئی ہیں تو متناسب لحاظ سے نہیں گرائی گئی ہیں۔ خصوصاً ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک میں تواس کلیے پر بہت ہی کم عمل ہوتا ہے۔ تاہم اپنی جگہ پر یہ بات بھی بہت اہمیت کی حامل ہے کہ اگر طلب بڑھ بھی جائے تب بھی اشیا کی قیمتیں بڑھا دینا محض منافع خوری اور بے رحمی کا ایک طریقہ ہے۔ ان ’سنہری‘ موقعوں پر تاجران و صنعت کاران کی دیرینہ تمنا ہوتی ہے کہ مذکورہ اصول کو آڑ بنا کر ڈھیروں منافع ایک ساتھ کما لیا جائے۔ حالانکہ انسان دوستی کے لحاظ سے اگر اس طرزِعمل کا جائزہ لیا جائے تو یہ وہ زمانہ ہوتا ہے جب ضرورت کے مارے ہوئے لوگوں کو کم از کم پرانی قیمت پر تو اشیا کی فراہمی جاری رکھی ہی جانی چاہیے۔ انسانوں کو مصیبت میں مبتلا دیکھ کر بے رحمی سے اپنی جیبیں بھرنا مغربی طرزِ معیشت تو ہوسکتا ہے،اسلامی نہیں۔ اگر مارکیٹ میں اشیا کی قلّت پائی جاتی ہے اور ان کی مانگ میں اضافہ ہوگیا ہے تو وہاں موجود ذخیرۂ اشیا کو تو بہرحال ایک مقام پر آکے ختم ہو ہی جانا ہے، خواہ پرانی قیمت پر فروخت کرکے یا خواہ من مانی زائد قیمت پر نکاسی کرکے۔ اس لیے ایسے موقعوں پر بے رحمی اختیار کرنا اور ناجائز منافع خوری کا فیصلہ کرنا کہاں کی انسان دوستی اور کہاں کا ’سنہرا‘ اصول ہے؟
اس کے برعکس اسلامی نظامِ معیشت ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ضرورت کے موقعوں پر ہم اپنے بھائیوں کے لیے دستِ تعاون مزید دراز کریں اور منافع جاتی لحاظ سے اگر قیمتیں کم نہ کرسکیں تو انھیں کم از کم اتنی بلندی پر تو نہ لے جائیں کہ ضرورت مند فرد سسکنے اور مرنے پر تیار ہوجائے۔ خلیفۂ ثانی حضرت عثمان غنیؓ بذاتِ خود ایک بڑے تاجر و کامیاب درآمد و برآمد کنندہ تھے۔ لیکن مکّے کے ایک سنگین قحط کے دوران آپؓ نے اشیاے خوردونوش سے بھرے ہوئے کئی اُونٹوں کو مکّے کے شہریوں میں فی سبیل اللہ محض مفت تقسیم کروا دیا حالانکہ مکّے کے تمام بڑے تاجر آپ کو مذکورہ مال کی ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر پیش کش کررہے تھے۔ کیا حضرت عثمانؓ کے لیے یہ ایک بہترین موقع نہیں تھا کہ وہ بھی ایک عام تاجر کی مانند مذکورہ اصول پر عمل کر کے زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹ لیتے؟ لیکن اس موقع پر انھوں نے محض خوفِ خدا اور انسان دوستی کا ثبوت دیا۔ اسلام دراصل کاروباری شخصیات کو آنے والی دوسری دنیا کے منافع کی طرف بھی متوجہ رہنے کی ہدایت کرتا ہے۔
معیشت کے سلسلے میں ایک معروف حدیث یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی ہے کہ مزدور کو مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اداکردو۔ اگرچہ یہ ایک مختصر سی ہدایت ہے لیکن اپنی روح کے اعتبار سے یہ ایک ایسا زریں اصول ہے جس کی بنیاد پر ملازمین کو دکھ اور غم سہنے کا کوئی موقع ہی نہ ملے۔ پسینہ خشک ہونے سے قبل ہی ادایگی کر دینے کا مطلب اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ اوّل تو ملازم کو اس کی گھریلو معیشت چلانے میں کبھی کوئی دقت پیش نہ آئے، اور دوسرے آجر کے خلاف اس کے دل میں کبھی کوئی کینہ نہ پیدا ہو۔ ملازموں سے کام تو پورا لینا لیکن معاوضوں کے لیے انھیں تڑپانا، استحصال نہیں تو اور کیا ہے! ہمارے تمام آجران اگر اس سنہرے اصول پر عمل کرنا شروع کر دیں تو ملازموں کی جانب سے انھیں کبھی ہڑتال یا فیکٹری کا پہیہ آہستہ کر دو اور مظاہروں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ خود صنعتی امن قائم رکھنے کے لیے بھی یہ ایک سنہرا اصول ہے۔
ایک دوسری ہدایت میں آپؐ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر تمھارا غلام (ملازم) دھوئیں، گرمی اور دھوپ سے گزر کر تمھارے کھانے کے لیے کچھ لائے تو تم پر لازم ہے کہ اس کھانے میں سے کچھ حصہ اسے بھی دیا کرو۔ یہ ہدایت آپؐ نے اس لیے جاری فرمائی کہ خوراک کی تیاری کی مشقت کے بعد اس خوراک میں ملازم کا حصہ ازخود بن جاتا ہے۔ یہ اصول گویا ملازموں کے اضافی فوائد، مثلاً بونس، گریجوئیٹی اور دیگر فوائد کی طرف رہنمائی کرتا ہے کیونکہ کھانا پکانے کی تنخواہ تو ملازم کی پہلے سے طے ہوتی ہے، البتہ کھانا کھلانا اس کا ایک اضافی حق بن جاتا ہے۔ اگرچہ یہ ایک مختصر ہدایت ہے لیکن اس سے آپؐ نے ملازمین کے حقوق کا مزید تعین کیا ہے۔ یوں ایک طرف آجر و اجیر کے درمیان بہترین رشتہ استوار ہوتا ہے، اور دوسری جانب ملازم کو بھی ذہنی سکون حاصل ہوتا ہے۔
ایک اور اہم ہدایت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمائی ہے کہ معیشت کے معاملے میں تم اپنے سے نیچے والوں کو دیکھو جب کہ نیکیوں کے معاملے میں تم اپنے سے اُوپر والوں کو دیکھو۔ آپؐ کی یہ مختصر سی ہدایت کیا ہے، گویا ہماری زندگی کے بہت سے معاملات کو ازخود درست کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔ کھاتے پیتے اور صاحب ِ ثروت لوگوں سے مقابلہ کر کے گویا ہم اپنی ذاتی معیشت کو خود ہی غیرمتوازن کرنے کا سامان کرتے ہیں، اور حسد، طبقاتی کش مکش، حرام آمدنی اور قرض کے دروازے کھولنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ اپنے سے کم حیثیت افراد کی زندگیوں کو سامنے رکھ کر ہماری اپنی زندگی میں اطمینان و قناعت کا رنگ اُبھرتا ہے بلکہ اس کے برعکس یہ جذبہ بھی زور کرتا ہے کہ کیوں نہ ہم بھی ان کم استطاعت والے اپنے بھائیوں کی مدد کو آگے بڑھیں۔ یہ ہدایت بھی گویا فضول معاشی کش مکش اور بے جا اصراف کی جڑ کاٹتی ہے۔
معاشی حالات مزید درست کرنے کی خاطر آپؐ نے ایک ہی نوعیت کی مزید کئی اور ہدایات بھی دی ہیں۔ ایک حدیث میں آپؐ نے فرمایا: ’’محنت اور جدوجہد کرکے رزق حاصل کرنے والا شخص اللہ کا بہت محبوب ہوتا ہے‘‘۔ ایک موقع پر آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ بے عمل بن کر تم مسلمانوں (معاشرے) پر بوجھ نہ بنو۔ اسی کے ساتھ آپؐ نے یہ بھی ہدایت فرمائی ہے کہ اُوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے۔ بظاہر ایک ایک سطر کے یہ تین مختصر سے ارشادات ہیں لیکن دیکھا جائے تو ان میں انسانی زندگی کی کم از کم آدھی معیشت پنہاں ہے۔ معیشت کا تمام تر دارومدار دراصل معاشی نقل و حرکت اور پیداواری عمل میں شرکت پر ہوتا ہے۔ معاشی سرگرمی جتنی تیز اور پیداواری نقل و حرکت جتنی زیادہ ہوگی، معاشرے میں معاشی بہتری بھی اتنی ہی زیادہ آئے گی۔ اسی لیے ہدایت کی گئی ہے کہ انسان محنت مزدوری (پیداواری عمل) میں ضرور حصہ لے اور نکمّا بن کر گھر میں نہ بیٹھ جائے۔ اسے بھیک اور مفت خوری سے کنارہ کشی اختیار کرنی چاہیے بلکہ معاشرے کا فعال حصہ بننا چاہیے، اور معاشرے پر کبھی بوجھ نہ بننا چاہیے۔ یہ تمام اقدامات نجی و ملکی معیشت درست کرنے کا آسان نسخہ ہیں۔ ہدایت کی گئی ہے کہ نیچے والا ہاتھ بننے کے بجاے اُوپر والا ہاتھ بننے کی جدوجہد کرو کیونکہ نیچے والا ہاتھ عموماً غیرپیداواری (non-productive) ہوتا ہے۔
اس ضمن میں حضرت عمر فاروقؓ کا ایک واقعہ ہمارے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ایک بار جب آپؓ نے چند نوجوانوں کو مسجد میں بیٹھے ذکر اذکار کرتے دیکھا تو انھیں تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اُٹھو اور محنت مزدوری کر کے اپنا رزق حاصل کرو۔ یاد رکھو کہ آسمان سے کبھی سونے اور چاندی کے سکّے نہیں گرتے۔ جو شخص محنت و مزدوری کا عادی ہوگا،اسے جب شام میں مزدوری ملے گی تبھی اسے صحیح معنوں میں حقیقی مسرت حاصل ہوسکے گی۔ (لاتحزن از حیدرقرنی، سعودیہ)
ایک موقع پر نبی کریمؐ نے محض چند الفاظ میں ایک اہم معاشی نکتہ بیان کیا۔ آپؐ نے فرمایا: ’’جس چیز کے پیسے میرے پاس نہیں ہوتے، میں وہ چیز نہیں خریدتا‘‘۔ اپنی ذاتی و قومی معیشت درست کرنے کا یہ کتنا سادہ سا نسخہ ہے۔ اسراف، فضول خرچی اور ہوسِ زر کی اس نسخے سے جڑ کٹ جاتی ہے۔ محض شان و شوکت، آرایش و سجاوٹ، نقالی اور نام و نمود کی خاطر انسان آخر خود کو کیوں ہلاکت میں ڈالے اور کیوں قرضوں اور دُہری تہری ملازمتوں کی دلدل میں پھنسے؟ قرضوں اور حرام آمدنیوں نے کسی انسان/معاشرے کی معیشت آخر کب سدھاری ہے، بلکہ یہ تو ذہنی و روحانی دونوں لحاظ سے نقصان کے سودے ہیں۔ کتنی بڑی بات ہے کہ انسان اپنی کوئی جائز خواہش محض اسی وقت پوری کرسکے، جب کہ اس کے پاس اس کے حصول کے جائز ذرائع موجود ہوں۔ وسائل نہ ہوں تو وہ بس قناعت ہی کا رویّہ کیوں نہ اپنائے؟ یہ وہ معاشی سبق ہے جو ایک عام فرد پر منطبق ہونے کے ساتھ ساتھ اداروں اور حکومتوں پر بھی یکساں لاگو ہوتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ اس مختصر سی سنہری ہدایت پر عمل کر کے ہمارا وطن بھی ان بھاری قرضوں کی دلدل سے نکل سکے جن کے باعث ہمارے حکمرانوں نے اسے غیرملکی قوتوں کے ہاتھوں میں دھکیل دیا ہے۔
دولت اگر تالوں اور خزانوں میں بند کر کے رکھ دی جائے اور اسے گردش میں نہ رکھا جائے تو معیشت پر اس کے ہمیشہ منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ معاشیات کا واضح کلیہ یہی ہے کہ دولت کو مسلسل گردش میں رکھا جائے۔ اسلام بھی اس اہم کلیے سے پوری طرح باخبر ہے۔ اسی لیے اس نے معاشرے میں سود کو جبراً روکنے اور زکوٰۃ کو قانوناً نافذ کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ سودی نظام کے تحت سرمایہ کروڑوں لوگوں کے ہاتھوں سے نکل کر محض چند افراد کے ہاتھوں میں جمع ہوتا ہے، جب کہ نظامِ زکوٰۃ میں دولت چند صاحب ِ ثروت لوگوں کے ہاتھوں سے نکل کر لاکھوں کمزور لوگوں کے ہاتھوں میں منتقل ہوتی ہے۔ دولت کو جمود سے روکنے اور زر کو گردش میں لانے کے لیے یہ ایک بہت بڑی ہدایت ہے۔ اسی لیے اسلام نے اس کے نفاذ کے لیے قوت کے استعمال کا بھی حکم دیا ہے، جیساکہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے منکرین زکوٰۃ سے جہاد کرتے وقت دوٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ اگر انھوں نے زکوٰۃ کی مد میں اُونٹ کی ایک رسّی بھی روکی تو میں ان سے ضرور جہاد کروں گا۔ زکوٰۃ کی مانند نبی کریمؐ نے انسانی ذاتی اقتصادیات درست رکھنے کی خاطر عید میں فطرے، معذوری کی صورت میں روزوں کے فدیے اور عیدالاضحی میں قربانی کے گوشت کی تقسیم کی بھی ہدایات فرمائی ہیں تاکہ سرمایہ (روپیہ اور اشیا دونوں) گردش میں رہیں۔ زکوٰۃ کے علاوہ دیگر نفلی صدقات کے لیے بھی مسلمانوں کو مسلسل اُبھارا گیا ہے۔ اسی طرح وراثت کے اسلامی اصولوں پر بھی سختی سے عمل درآمد کرنے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ جایداد کی تقسیم آگے منتقل ہوتی رہے اور معاشرے میں آسودہ حال لوگوں کا تناسب بڑھتا رہے۔
ایک بار آپؐ نے فرمایا تھا: قیامت کے دن مَیں تین آدمیوں کا مخالف ہوں گا، جن میں سے ایک وہ ہوگا جو مالک ہے اور مزدور سے کام تو پورا لیتا ہے، لیکن اس کی مزدوری اس کی محنت و صلاحیت کے مطابق ادا نہیں کرتا۔ معاشرے کو استحصال اور نفرتوں سے محفوظ رکھنے کے لیے یہ بھی ایک عمدہ معاشی ہدایت ہے جو اگرچہ مختصر ہے لیکن اپنے ہمہ گیر اثرات رکھتی ہے۔
پیداواری عمل میں مسلسل شرکت، راہِ قناعت کی جانب رغبت، آجروں کے استحصالی رویے کی مذمت، اور ملازمین کے حقوق کے تحفظ کی مسلسل ہدایات کے باوجود معاشرے کا کوئی فرد یا گھرانہ اگر بے یارومددگار، غربت کا شکار، اور لاوارث و لاچار رہتا ہے تو پھر حکومت (ریاست) خود اس شخص کی مدد کو آتی ہے اور اس کی تمام ضروریات کو اپنے سر لے لیتی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مقروض و صاحب ِ اولاد فرد کی وفات کے بعد مَیں اس کا کفیل ہوں گا۔ اس کے وارثین اپنے مسائل کے حل کے لیے میرے (یعنی حکومت کے) پاس آئیں۔ نیز فرمایا: جس مرد و عورت نے اپنے پیچھے کوئی ذمے داری چھوڑی تو اس کی ادایگی کرنا ہماری (سربراہِ مملکت کی) ذمے داری ہے، جب کہ اس کی چھوڑی ہوئی وراثت سے ہمارا (ریاست کا) کوئی تعلق نہیں ہوگا، یعنی واجبات حکومت کے ہوں گے اور اثاثہ جات وارثین کے ہوں گے۔ انسان کی معاشی زندگی سدھارنے کی یہ کتنی بڑی ہدایت ہے جس کا اعلان اسلام ازخود کرتا ہے۔
اسلامی نظامِ معیشت کے یہ چند نمایاں پہلو ہیں: lقیمتوں کے تعین کے لیے طلب و رسد کے اصول کو استعمال نہ کیا جائے l مزدور کو مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دی جائے l ملازم کو اس کی محنت کے عوض حقِ اُجرت کے علاوہ کچھ اور فوائد بھی پہنچائے جائیں lمعیشت کے معاملے میں اپنے سے نیچے والوں کو دیکھا جائے lمحنت اور جدوجہد کرکے رزق حاصل کیا جائے l بے عمل بن کر معاشرے پر بوجھ نہ بنا جائے l لینے والا ہاتھ بننے کے بجاے دینے والا ہاتھ بنا جائے l خواہ مخواہ قرض لے کر خریداری نہ کی جائے l زکوٰۃ ادا کی جائے lسود کو ممنوع قرار دیا جائے l مزدور کو اس کی صلاحیت کے مطابق پورا معاوضہ دیا جائے lاسلامی حکومت ’جو کچھ نہیں رکھتے‘ کی کفالت کرے۔ ان قیمتی نکات پر اگر غور کیا جائے تو ہر صاحب ِ دانش پکار اُٹھے گا کہ اقتصادیات کو کسی بھی سطح پر درست کرنے کے لیے ان سے بہتر کوئی اور اصول نہیں ہوسکتے۔