سوال: شریعت کے مختلف ستون ہیں، مثلاً عبادات، اخلاقیات اور معاملات۔ ان میں ترجیح کس طرح متعین ہوگی؟ مثال کے طور پر ایک شخص عبادات میں بہت اچھا ہے لیکن معاملات اور اخلاقیات بالکل ادا نہیں کرتا تو کیا ایسی صورت میں وہ عبادات کے اجر کا مستحق ہوگا؟ اسی طرح اگر معاملات اور اخلاقیات میں بہت اچھا ہو لیکن عبادات میں کمزور ہو تو کیا اللہ کے نزدیک اس کا رتبہ بہ نسبت پہلے کے زیادہ ہوگا؟
جواب: آپ نے اپنے سوال میں عبادات، اخلاقیات اور معاملات کے حوالے سے یہ جاننا چاہا ہے کہ ان میں ترجیح کیا ہوگی، یعنی اگر ایک شخص یہ سمجھتا ہو کہ وہ انسانوں کی خدمت کے خیال سے سیلاب زدگان یا زلزلہ کے متاثرین کا کسی کچی آبادی کے رہنے والوں کی طبی امداد میں لگا ہوا ہے، ان میں کھانا تقسیم کر رہا ہے، اس لیے اذان ہورہی ہے تو ہوتی رہے، وہ بعد میں جب فرصت ہوگی نماز پڑھ لے گا تو کیا اس کا ایسا کرنا شریعت کے اصولوں کی روشنی میں درست ہے؟
یہ بات ہمارے ذہن میں واضح ہونی چاہیے کہ اسلام دو چیزوں سے عبارت ہے۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی غیرمشروط اطاعت، اور جس طرح اللہ اور رسولؐ چاہتے ہوں اللہ کے بندوں اور دیگر موجودات کے حقوق کی ادایگی، ان میں نہ کوئی تضاد ہے اور نہ کوئی ابہام۔ فرائض کی اوّلیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حالت ِ جہاد میں بھی نماز کی پابندی کا حکم ہے۔ گو اس کی شکل بدل جاتی ہے اور بجاے مکمل نماز بیک وقت پڑھنے کے ایک ایک رکعت کی شکل میں اسے ادا کیا جاتا ہے۔ اس طرح کہ پہلے فوج کا ایک حصہ امام کے پیچھے ایک رکعت نماز ادا کرتا ہے، جب کہ دوسرا حصہ دشمن کے مدمقابل حفاظت کے لیے کھڑا ہو جاتا ہے۔ ایک رکعت ادا کرنے کے بعد سپاہی دشمن کے مدمقابل حفاظت کے لیے چلے جاتے ہیں، جب کہ پہلے سے حفاظت پر مامور سپاہی امام کے پیچھے کھڑے ہوکر ایک رکعت ادا کرتے ہیں۔ امام کے سلام پھیرنے کے بعد دونوں باری باری اپنی بقیہ رکعت ادا کرلیتے ہیں۔ اگر صرف عقل کی بنیاد پر فیصلہ کرنا ہوتا تو جان کی حفاظت اور دفاعی ضرورت کے پیش نظر عقل یہی فیصلہ کرتی کہ پہلے اپنی اور دوسروں کی جان بچانے کے لیے میدانِ جہاد میں فتح حاصل کرو۔ اس کے بعد یکسوئی اور خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرنا۔ لیکن شریعت کی بنیاد ادلہ (دلیل)، مقصد اور حکمت تینوں پر ہے۔ دلیل قرآن و سنت سے، مقصد شریعت کے اصولوں سے، اور حکمت دین کے فہم کی بنیاد پر تلاش کی جاتی ہے۔ چنانچہ حالتِ جہاد میں نماز کی ایک رکعت کا اس طرح ادا کرنا کہ اسلحہ رکھ دیا ہے اور بقیہ اہلِ ایمان جنگ میں مصروف ہیں اور نمازیوں کی حفاظت بھی کر رہے ہیں عین شریعت، مقاصد اور عقل کے مطابق ہے۔
اخلاق اور معاملات میں کوئی تفریق کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ اسلام میں معاملات کی بنیاد اخلاق پر ہے۔ اخلاق چند نظریاتی باتوں اور اصولوں کا نام نہیں ہے بلکہ عمل کا نام ہے۔ اس بنا پر اُم المومنین سیدہ عائشہؓ نے فرمایا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق دیکھنا ہو تو قرآن میں دیکھ لو۔ جو کچھ قرآن نے کہا، آپؐ نے اسے اپنی حیاتِ مبارکہ میں ڈھال دیا۔ گویا جس طرح اداراتی علوم کے ماہرین تجارتی اخلاقیات پر کتب لکھتے ہیں، جامعات میں پڑھاتے ہیں اور اچھی خاصی فیس لے کر ورکشاپ میں مشق کراتے ہیں، اسی طرح نہ صرف تجارت بلکہ اسلامی نقطۂ نظر سے ہرکام کا ایک اخلاق ہے۔ نماز کا اخلاق خشیت ہے۔ زکوٰۃ کا اخلاق اخفا اور اظہار کے ساتھ دینا ہے۔ لیکن اس طرح کہ وہ کسی پر احسان ہے نہ خیرات بلکہ مستحق کو اس کا حق پہنچانا ہے۔ ایسے ہی جہاد کا اخلاق یہ ہے کہ اسے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے کیا جا رہا ہے۔ اس میں نہ نمایش مقصود ہے نہ کسی تمغے کا حصول۔ والدین کے ساتھ اخلاق، ان کے حقوق کی ادایگی ہے۔ ایسے ہی ہمسایہ کے ساتھ اخلاق، اس کے حقوق کی ادایگی ہے۔ گویا اسلام میں تمام معاملات اخلاق کے تابع ہیں۔
ان دو گزارشات کے بعد اگر آپ کے سوال پر غور کیا جائے تو اوّلاً معاملات اور اخلاقیات میں کوئی فرق نہیں ہوسکتا۔ ثانیاً، عبادت اللہ کا بندے پر حق ہے۔ اسی طرح حقوق العباد کا ادا کرنا نہ صرف معاملات بلکہ عبادت کے دائرے میں بھی شامل ہے۔ والدین کے حقوق ہوں یا ہمسایے اور اقربا یا احباب اور دیگر مستحقین کے، ان کی ادایگی کا سبب صرف ایک ہی تو ہے، یعنی رب کریم اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم۔ اس لیے حقوق العباد کی ادایگی عبادت کی طرح اجر کا باعث ہے۔ لیکن عبادات میں بعض فرض ہیں، بعض سنت، بعض سنت مؤکدہ اور بعض نفل۔ ایسے ہی حقوق العباد ادا کرتے وقت یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ اگر نماز کا وقت ہے اور جماعت ۱۵:۶ پر ہے، جب کہ ایک سرجن کو ۵بجے سے سرجری کا آغاز کرتا ہے جو تین گھنٹے جاری رہے گی تو کیا یہ ممکن ہے کہ وہ سرجری کا وقت ۲۵:۶ سے رکھے تاکہ نماز ادا کرنے کے بعد حقوق العباد کی طرف متوجہ ہو یا وہ ایک جان بچانے کے بدلے قضا نماز ادا کرے۔
عام حالاتِ زندگی میں صورت حال، اس کے مقابلے میں بہت آسان ہوگی۔ مندرجہ بالا مثال کو سامنے رکھتے ہوئے بہت سے ایسے کام جو حقوق العباد سے تعلق رکھتے ہیں، بہ آسانی اس طرح ادا کیے جاسکتے ہیں کہ فرائض کی ادایگی بھی متاثر نہ ہو اور اللہ کے حقوق کے ساتھ انسانوں کے حقوق بھی ادا کیے جاسکیں۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
س: آج کل خواتین میں ویکسنگ، تھریڈنگ وغیرہ کا رواج عام ہوگیا ہے۔ اس کے بارے میں اسلامی احکامات کیا ہیں؟ کس حد تک جسم کے بالوں کی صفائی کا حکم ہے اور شرعاً اس کے لیے کون سے ذرائع جائز ہیں؟ حوالوں کے ساتھ تفصیل سے بتایئے تاکہ میں لڑکیوں اور عورتوں کو آگاہ کرسکوں۔
ج: اسلام ایسی زیب و زینت جو محض مصنوعی اور جھوٹی ہو، جس میں مرد یا عورت کا اصلی چہرہ اور ساخت تبدیل ہوجائے، کی اجازت نہیں دیتا۔ مرد اور خواتین کا جسم کے غیرضروری بالوں کو صاف کرنا تو فطرتِ انسانی اور انبیاء علیہم السلام کی سنت میں داخل ہے۔ عورت کے سر کے بال چھوٹے ہوں تو انھیں بڑا اور زیادہ دکھلانے کی خاطر، اس کے ساتھ انسانوں، مردوں یا خواتین کے بالوں کو جوڑنا ممنوع ہے، ایسا کرنے والی اور ایسا کرانے والی عورت پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے۔ اس سلسلے میں صرف ایسے جان داروں کے بال جو حلال اور پاک ہوں (مُردار نہ ہوں) جن کو دیکھ کر صاف معلوم ہوتا ہو کہ یہ عورت کے اپنے بال نہیں ہیں، یا اُون اور دھاگوں کے بنے ہوئے بال پیوند کیے جاسکتے ہیں۔
بھووں کے بڑھے ہوئے بالوں کو بقدرِ ضرورت قینچی سے کاٹا جاسکتا ہے۔ چہرے یا جسم کے کسی حصہ میں سوئی سے گود کر رنگ بھرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ چہرے پر قدرتی چھوٹے چھوٹے بال جو دیکھنے والے کو نظر بھی نہیں آتے ان کو نوچنے اور ختم کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ جسم کے باقی حصوں، ہاتھوں، بازووں، سینے اور ٹانگوں اور پیٹھ کے بالوں کو مشین یا کسی دوسری چیز سے صاف کردینے کی اجازت نہیں ہے۔ زینت کی یہ تمام صورتیں جھوٹے میک اپ کا درجہ رکھتی ہیں۔ عورت کے چہرے پر غیرقدرتی اور غیرطبعی بال نکل آئیں، مثلاً بعض خواتین کے چہرے پر ڈاڑھی کی طرح کے کچھ بال ایک جگہ یا مختلف جگہوں پر نکل آئیں تو ان کو نوچنے کی اجازت ہے کیونکہ ان کو نوچنا حسن کی جھوٹی نمایش میں نہیں آتا بلکہ عیب کی اصلاح ہے۔
ویکسنگ اور تھریڈنگ کی وہ تمام شکلیں جو مندرجہ بالا اصولوں کی حدود میں نہ ہوں، مکروہ ہیں اور زیب و زینت کی جھوٹی نمایش اور بناوٹ کے زمرہ میں آتی ہیں۔ اس سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات درج ذیل ہیں:
۱- اسماء بنت ابی بکرؓ سے روایت ہے کہ ایک خاتون نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: میری ایک لڑکی دلہن بنی ہے اور اسے چیچک نکل آئی ہے، جس کی وجہ سے اس کے بال جھڑ گئے ہیں۔ کیا میں اس کے بالوں کے ساتھ بال ملا کر پیوند کردوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بال جوڑنے اور جڑوانے والی پر اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے۔ (مسلم، کتاب اللباس والزینۃ)
۲- ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بال جوڑنے اور جڑوانے والی اور گودنے اور گودوانے والی پر لعنت فرمائی ہے۔ (مسلم)
۳- عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے گودنے والی اور گدوانے والیوں، بالوں کو نوچنے والیوں، نچوانے والیوں اور خوبصورتی کی خاطر دانتوں کو کشادہ کرنے والیوں، اللہ کی خلقت میں تبدیلی کرنے والیوںپر لعنت کی ہے۔ (مسلم)
۴- بالوں کو بنانے، ویکسنگ اور تھریڈنگ غیرمحرم مردوں یا آزاد منش عورتوں سے کرانا بھی مکروہ فعل ہے۔ زیب و زینت کی معروف صورتیں سرخی، سرمہ مہندی، جب کہ حُسن کا گھر کی چار دیواری سے باہر بے پردگی کے ساتھ مظاہرہ نہ ہو، جائز ہیں۔
امید ہے آپ بچیوں کو تعلیم و تربیت دے کر اسلامی تہذیب کو پروان چڑھانے میں اپنا کردار ادا کریں گی اور زیب و زینت کے لیے نیک اور پابند صوم و صلوٰۃ اور اسلامی حجاب سے مستور خواتین کے ادارے قائم کریں گی۔(مولانا عبدالمالک)
س: ’رسائل و مسائل‘ میں ’سود پر قرض کے لیے تصدیق کرنا‘ (اکتوبر ۲۰۱۰ئ) کے تحت جواب سے ایک اُلجھن پیدا ہوگئی ہے۔ اگر سنار یا فرد تقسیم فراہم کرنے والا شخص محض تصدیق کرتے ہیں اور سود پر قرض لینے والے کو تنبیہہ کرتے ہیں تو وہ گناہ گار نہ ہوں گے، لیکن جب یہ واضح ہو کہ سونے کے زیور یا فرد تقسیم کی تصدیق سود پر قرض لینے کے لیے کروائی جارہی ہے اور اس غرض کے لیے بنک نے ان کا تقرر کیا ہو تو اس موقع پر محض تنبیہہ کرنے کا کیا فائدہ؟ کیا یہ سود کے عمل میں شرکت نہیں ہے؟
ج: ایک صورت تو یہ ہے کہ جب ایک آدمی پٹواری سے زمین کی فرد نکلوائے اور تصدیق کروائے، اسی طرح سونے کے کھرا کھوٹا ہونے کی تصدیق کسی سنار سے کروائے، اس کے بعد بنک کو قرض کی درخواست دے۔ اس صورت میں سودی قرض لینے کا آغاز مذکورہ کارروائی کے مکمل ہونے کے بعد ہوتا ہے۔ لہٰذا تصدیق کنندگان گناہ گار نہیں ہوں گے۔ اس کے بجاے اگر کوئی شخص درخواست پہلے دے اور پھر بنک اسے ہدایت کرے کہ تصدیقات کروا کر لے آئے، تو ایسی صورت میں سودی سلسلے کا آغاز تصدیقات سے پہلے شروع ہوگیا اور تصدیقات سودی قرض کے معاملے کے آغاز اور انتہا کے درمیان میں واقع ہوگئیں۔ اس صورتِ حال میں جواب یہ ہے کہ جب تصدیقات کرنے والوں کو علم ہے کہ یہ تصدیقات سودی قرض لینے کے لیے ہیں بلکہ ان کا تقرر ہی بنک کی طرف سے اس غرض کے لیے کیا گیا ہے تو ان کا تصدیق کرنا اور اس غرض کے لیے بنک کا دلال اور مددگار بننا سودی کاروبار میں شرکت ہے۔ ہمارے پہلے جواب کا تعلق پہلی صورت سے ہے۔ واللّٰہ اعلم! (ع - م )
س: ’رسائل و مسائل‘ (اگست ۲۰۱۰ئ) کے ضمن میں صلوٰۃ التسبیح کی باجماعت ادایگی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اگر نمازِ تہجد اتفاقاً بغیر کسی پروگرام کے باجماعت ادا کی جائے تو بلاکراہت جائز ہوگی۔
ہم مشرق وسطیٰ میں قیام پذیر ہیں اور یہاں پر رمضان المبارک کے آخری عشرے میں باقاعدہ پروگرام کے تحت قیام اللیل (تہجد) کا باجماعت اہتمام ہوتا ہے، نیز تحریکی حلقوں میں بھی شب بیداری کے پروگرام کے آخر پر قیام اللیل باجماعت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ کیا یہ قیامِ لیل درست ہے؟ مزید یہ کہ یہ راے کسی ایک مسلک کی ہے یا ائمہ اربعہ کا اس پر کوئی فتویٰ ہے؟
ج: امام ابوحنیفہ اور امام مالک کا معروف مسلک یہ ہے کہ نوافل کی جماعت، جب کہ اس کے لیے باقاعدہ پروگرام ترتیب دے کر لوگوں کو جمع کیا گیا ہو، مکروہ تنزیہی ہے۔ یہ حکم دونوں قسم کی جماعتوں کو شامل ہے، یعنی مردوں کی نوافل میں جماعت اور خواتین کی نوافل میں جماعت دونوں مکروہ تنزیہی ہیں۔ مکروہ تنزیہی خلاف اوّل کے قریب ہے۔ لیکن امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور فقہا احناف میں سے بعض فقہا کے نزدیک نوافل کی جماعتیں بلاکراہت جائز ہیں، جب کہ ان کو معمول نہ بنایا جائے بلکہ کبھی کبھار پڑھی جائیں۔
اس قول کے مطابق شب بیداری اور رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں قیام اللیل کی خاطر جماعت بلاکراہت جائز ہے۔ البتہ صلوٰۃ التسبیح میں قراء ت کے ساتھ تسبیحات بھی جہراً پڑھنا یہ نمازوں کے آداب اور طریقے کے خلاف ہے۔ نماز میں رات کے وقت صرف قراء ت اُونچی آواز سے پڑھی جاسکتی ہے اور دن میں قراء ت بھی سراً پڑھی جاتی ہے اور تسبیحات تو بہرحال سراً پڑھی جاتی ہیں۔
صلوٰۃ التسبیح کی ادایگی کے ضمن میں گذشتہ جواب (رسائل و مسائل، اگست ۲۰۱۰ئ) میں اختصار کے سبب جو اشکال پیدا ہوتا ہے مندرجہ بالا وضاحت سے ان شاء اللہ رفع ہوجائے گا۔ واللّٰہ اعلم! (ع - م )