علامہ عنایت اللہ رحمۃ اللہ علیہ ۱۹ستمبر ۲۰۱۰ء کو ۷۵برس کی عمر میں اس دارفانی سے رحلت فرما گئے، اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔ ان کی وفات سے ملت اسلامیہ پاکستان اور جماعت اسلامی ایک مایہ ناز خطیب، مخلص اور بے لوث داعی الی اللہ سے محروم ہوگئی۔ علامہ صاحب علم و فضل، ذہانت و فطانت، فصاحت و بلاغت اور تحریر و تقریر کے میدان میں صفِ اوّل کی شخصیات میں شامل تھے۔
علامہ عنایت اللہ منڈی بہائوالدین کے ایک گائوں ہیڈ فقیریاں میں ۱۹۳۵ء میں پیدا ہوئے اور یہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ قرآن پاک ناظرہ مکمل کیا اور کچھ حصہ حفظ بھی کیا۔ مڈل اور میٹرک تک سکول کی تعلیم حاصل کی، پھر مدرسہ عربیہ چوکیرہ میں مولانا سید احمد شاہ کے مدرسے میں داخل ہوگئے جو مفکرِاسلام مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ سے متاثر اور ان کے نظریۂ اقامت دین سے متفق تھے اور جید عالم دین، مبلغ، داعی اور مربی تھے۔
علامہ صاحب نے یہاں رہ کر علوم عربیہ و اسلامیہ کے ماہر اساتذہ اور مذاہب اسلامیہ اور ادیانِ باطلہ پر عبور رکھنے والے محققین سے استفادہ کیا۔ مذاہب اسلامیہ کا تعارف اور ادیانِ باطلہ کی تردید اس مدرسے کا امتیاز تھا۔ اسی لیے علامہ صاحب کو اس میدان میں سبقت حاصل تھی۔ موقوف علیہ (مشکوٰۃ جو حدیث کی ۱۰ کتب سے ماخوذ احادیث کا جامع مجموعہ ہے اور تفسیر جلالین اور ہدایۃ اوّلین و اخیرین اور شرح عقائد و تفسیر بیضاوی اور اصولِ تفسیر پر مشتمل نصاب ہے) سے فراغت حاصل کی۔ اس دوران میں ان کی زبان و بیان کی صلاحیتیں اُبھر کر سامنے آگئیں اور وہ اسٹیج کی زینت بن گئے۔ تھوڑے ہی عرصے میں ان کی شہرت کو چار چاند لگ گئے۔ علامہ کا لقب ان کے استاذ و مربی سید احمد شاہ چوکیروی نے طالب علمی کے دوران ہی میں انھیں دے دیا تھا اور یہ ان کے نام کا اسی زمانے سے مستقل حصہ بن گیا تھا اور پھر خطابت ان کا اوڑھنا بچھونا بن گئی۔ صحاح ستہ میں سندالاجازۃ خطابت کے دوران میں حاصل کی۔ شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان رحمۃ اللہ علیہ سے دورہ تفسیر بھی اسی دوران میں شعبان و رمضان کے مہینے میں کیا اور تفسیری اسلوب اور مباحث اور مشکلات القرآن میں خصوصی قابلیت اور صلاحیت پیدا کی۔ فاضل فارسی و فاضل عربی کے امتحانات پاس کیے۔ میانوال رانجھا کے مشہور و معروف عالم دین استاذ العلما مولانا غلام رسول فاضل دیوبند اور مولانا سلطان محمود کٹھیالہ شیخان سے استفادہ کیا۔
آپ کے والد ایک متوسط درجے کے زمین دار تھے۔ فارسی زبان کا دینی نصاب پڑھا تھا اور اسے پڑھاتے تھے۔ علامہ صاحبؒ نے بھی یہ نصاب انھی سے پڑھا۔ والدہ کا نام فاطمہ بی بی تھا۔ علامہ صاحب پانچ سال کے تھے کہ فاطمہ بی بی کا انتقال ہوگیا۔ ان کی دو بہنیں اور ایک بھائی تھے۔ بھائی کا نام محمد شفیع، ایک بہن کا نام غلام عائشہ اور دوسری کا نام مریم بی بی تھا۔ مریم بی بی تقریباً ۹۰برس کی ہیں، جب کہ باقی بہن بھائی فوت ہوگئے ہیں۔ علامہ صاحبؒ کے آٹھ بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ چھے بیٹے شادی شدہ اور دو بیٹے زیرتعلیم ہیں۔
فراغت کے بعد شاہی مسجد منڈی بہائوالدین میں خطابت کے منصب پر فائز ہوگئے لیکن بعد میں محکمہ اوقاف کے زیراہتمام مرکز کو چھوڑ کر مدنی مسجد میں منتقل ہوگئے اور ساری زندگی مدنی مسجد کے منبر سے منڈی بہائوالدین اور گردونواح کے مسلمانوں کو جواہر خطابت سے فیض یاب کرتے رہے۔ ان کو سننے والوں کا ایک مستقل حلقہ وجود میں آگیا جو ان سے گہری محبت اور عقیدت رکھتا تھا۔ منڈی بہائوالدین کی مدنی مسجد کو علامہ صاحبؒ کی بدولت پورے ملک میں شہرت حاصل ہوگئی۔ علامہ صاحب یہیں سے دعوتی اورتبلیغی دوروں پر روانہ ہوتے اور یہیں واپس آجاتے۔
مولانا گلزار احمد مظاہریؒ نے حضرت استاذ العلما مولانا محمد چراغ ؒ، مولانا مفتی سید سیاح الدین کاکاخیلؒ کی سرپرستی اور تعاون سے ۱۹۶۳ء میں جمعیت اتحاد العلما کی بنیاد ڈالی تو اس تنظیم میں جن علماے کرام کو شمولیت اور کام کی سعادت نصیب ہوئی ان میں علامہ عنایت اللہ صاحب سرفہرست تھے۔ جمعیت اتحاد العلما پاکستان کو جلد ہی علما کی تنظیموں میں نمایاں مقام حاصل ہوگیا۔ اس سے صفِ اوّل کی علمی شخصیات مولانا عبدالعزیزؒ کوئٹہ، مولانا معین الدین خٹک، مولانا گوہر رحمان، مولانا عنایت الرحمن، علامہ عبدالرشید ارشد، مولانا عبدالرحیم چترالی، مولانا نثار احمد اور بعض مشائخ منسلک ہوگئے، اور یہ تنظیم جماعت اسلامی کے لیے تقویت کا ذریعہ ثابت ہوئی۔
مولانا گلزار احمد مظاہریؒ مشرقی پاکستان [بنگلہ دیش]اور مغربی پاکستان کے دعوتی اور تبلیغی دورے پر جاتے۔ استاذ العلما حضرت مولانا محمد چراغ صاحب اور مفتی سید سیاح الدین ان کے ہمراہ ہوتے تھے۔ بڑے مدارس کا دورہ اور ان کے اساتذہ سے ملاقاتیں اور بعض مدارس میں علما کے اجتماعات سے خطابات ہوتے۔ مشرقی پاکستان کے تقریباً تمام بڑے مدارس میں علما کے اجتماعات منعقد ہوئے اور ان سے خطابات کیے۔ مغربی پاکستان میں علما و مشائخ کنونشنز منعقد کیے گئے۔ بڑی بڑی دو روزہ، سہ روزہ کانفرنسیں منعقد کیں جن میں مولانا مظاہری کے ساتھ علامہ عنایت اللہ اور علامہ عبدالرشید ارشد کے خصوصی خطابات ہوتے تھے۔ ۱۹۷۰ء کے انتخابات اور ۱۹۷۷ء کے انتخابات اور تحریک میں مولانا مظاہریؒ کے ساتھ مفتی سید سیاح الدین کاکاخیل، علامہ عنایت اللہ، علامہ عبدالرشید ارشد اور علامہ غلام رسول راشدی نے بھرپور شرکت کی۔
جمعیت اتحاد العلما اور جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے علامہ عنایتؒ اللہ نے بامقصد خطابت کی۔ علما اور عوام کو ایک عقیدے اور نصب العین کے گرد جمع اور منظم کرنے میں حصہ لیا۔ اقامتِ دین کے لیے جدوجہد کی۔ لہلہاتے کھیتوں کی طرح سرسبز و شاداب تنظیم کو کھڑا کرنے، اس کے ذریعے اسلامی انقلاب برپا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ علامہ عنایتؒ اللہ اس قافلۂ انقلاب کے بہت بڑے حدی خواں تھے۔ ان کے نغموں نے اس قافلے کو جوش و جذبے اور عشق و محبت کے ساتھ رواں دواں رکھا۔ ان کے دور میں جماعت اسلامی نے جو مختلف مہمات اور عشرے ترتیب دیے، ان کو کامیاب بنانے کے لیے اور علما کو ان میں شریک کرنے کے لیے ملک بھر کے دورے کیے۔ علما کی شمولیت کی بدولت یہ مہمات مؤثر اور بارآور ثابت ہوئیں۔
علامہ صاحب اپنی ذہانت و فطانت اور قرآن و حدیث کے مضامین اور نصوص و آیات کے استحضار کی بنا پر ہرموضوع پر خطاب کے لیے تیار ہوتے تھے۔ انھوں نے اپنے سامعین کو کبھی مایوس نہیں کیا۔ علامہ صاحب خود تحریر فرماتے ہیں: نوجوانوں کے ایک اجتماع میں تقریر کے لیے جو موضوع تجویز ہوا وہ تھا: ’سائنس اور اسلام‘۔ ایک خیال آیا کہ منتظمین سے کہہ دیا جائے کہ میں اس موضوع کا حق ادا کرنا تو دُور کی بات ہے، اس پر زیادہ دیر بول بھی نہ سکوں گا اور تیاری وغیرہ کا تکلف سفر میں کہاں ممکن ہوگا، لیکن دوسری سوچ نے اسے بھی تکلف ہی گردانا کہ نوجوانوں اور وہ بھی برطانیہ میں مقیم مسلم نوجوانوں سے کچھ نہ کہنے کے بجاے کچھ کہنا ہی مناسب ہے۔ زیادہ معلومات فراہم نہ ہوسکیں تو خطابت سے محظوظ ہوں گے۔ اسی خطابت ہی کا کرشمہ ہے کہ اس مسافر نے ہرقسم کے موضوعات پر خطابت کے جوہر دکھائے ہیں‘‘ (راقم کے نام ارسال کردہ مضمون سے اقتباس)۔ اس موضوع پر خطاب کے نکات میں انھوں نے قرآنِ پاک میں مذکور آیات انفس و آفاق کا تفصیل سے ذکر کیا اور ان کے تذکرے کا مقصد قرآن پاک کے حوالے سے ذکر کیا کہ َتِلْکَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُھَا لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَo (الحشر ۵۹:۲۱) ’’یہ اللہ کی نشانیاں ہیں جنھیں ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ ان میں غوروفکر کریں‘‘۔ ان نشانیوں میں جو قومیں غور کرتی ہیں فلاح پاتی ہیں۔ غور سے مراد تحقیق و تجربہ ہے جسے آپ ریسرچ کا نام دیتے ہیں۔ ان کا یہ خطاب علمی و تحقیقی نکات سے مزین ہے۔
علامہ صاحب حسنِ اخلاق، عزم و ہمت، جرأت و شجاعت اور صبرواستقامت کا پیکر تھے۔ ساری زندگی دین کی اشاعت و ترویج اور اس کی اقامت کے لیے جدوجہد اور تحریک کو منظم اور قوت بخشنے میں کھپا دی۔ اندرون و بیرون ملک سفروں میں رہے۔ اسی وجہ سے وہ اپنے آپ کو مسافر کہتے تھے۔ وَاعْبُدْ رَبُّکَ حَتّٰی یَاتَیکَ الْیَقِیْنَ کا پیکر بن کر سامنے آئے۔ عمر کے آخری چند برسوں میں بیماریوں کا شکار رہے لیکن ان کے صبر، خندہ پیشانی اور گفتگو میں کبھی بھی اس بات کا اظہار نہ ہوتا کہ وہ بیماری سے دوچار ہیں۔ دوستوں سے ملنا، ان کے احوال معلوم کرنا، ان کے لیے دعائیں اور حوصلہ افزائی کرنا اور کسی نے کچھ اعانت کردی ہو تو اس کا شکریہ ادا کرنا، ان کی عادت اور مزاج تھا جو آخر وقت تک قائم رہا۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور ان کی قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ اور جنت الفردوس میں انبیا، صدیقین اور شہدا و صالحین کی معیت نصیب فرمائے،آمین!