نومبر ۲۰۱۰

فہرست مضامین

بابری مسجد اور اصل برہمنی چہرہ

عبد الغفار عزیز | نومبر ۲۰۱۰ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

آج سے ۶۱ سال پہلے ۲۳ دسمبر ۱۹۴۹ء کی رات اہلِ علاقہ بابری مسجد میں عشاء کی نماز ادا کرکے گھروں کو چلے گئے۔ ہر چیز حسب ِ معمول تھی لیکن اگلی صبح فجر کی نماز کے لیے مسجد آئے تو عجیب منظر تھا۔ مسجد کے اندر ’رام‘، ’لکشمن‘ اور’ سیتا‘ کے بت رکھے تھے ۔ مسلح ہندو ان کا پہرا دیتے ہوئے اعلان کررہے تھے کہ رات یہاں ’رام‘ کا ظہور ہوگیا ہے اور اب یہ جگہ ان کی ملکیت ہے۔ محلے کی مسلم آبادی نے قریب واقع تھانہ فیض آباد میں اس قبضے کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی، بدقسمتی سے کچھ شنوائی نہ ہوئی۔ صدیوں سے قائم تاریخی مسجد پر اچانک ہندو قبضے سے علاقے میں اشتعال پھیلنے لگا، تو صوبائی اور مرکزی حکومت نے مسلمانوں کو وہاں نماز پڑھنے سے عارضی طور پر منع کردیا۔ بعد ازاں یہ پروپیگنڈا پورے ملک میں پھیلایا جانے لگا کہ صدیوں پہلے تعمیر ہونے والی یہ مسجد ’رام‘ کی جاے ولادت ہے۔ ظہیر الدین بابر نے رام مندر ڈھا کر مسجد تعمیر کردی تھی۔ مسجد کا گنبد عین اس جگہ کے اُوپر بنایا گیا ہے جہاں رام نے جنم لیا تھا۔ کئی عشرے تک یہ پروپیگنڈا کرنے کے بعد بالآخر ۱۹۹۲ء میں آر ایس ایس اور بی جے پی کے سورماؤں نے ملک بھر سے اپنے مسلح کارکنان کو جمع کرکے تاریخی مسجد پر دھاوا بولا اور اسے شہید کرتے ہوئے وہاں ایک چھولداری میں رام کا بت نصب کر دیا۔ پوری دنیا میں مسلمانوں نے اس گہرے گھائو کی ٹیسیں محسوس کیں۔ ہرطرف سے احتجاج سامنے آیا۔ ہندو بنیے نے معاملہ ٹھنڈا کرنے کے لیے اسے عدالت کے سردخانے میں ڈال دیا۔ ۱۸سال انتظار، تحقیقات اور بحث و تمحیص کے بعد جو فیصلہ آیا تو یہ کہ ’’صدیوں پرانی جس مسجد کو جنونی ہندؤوں نے شہید کردیا تھا، اس کا ایک تہائی مسلمانوں کو دیا جائے باقی پر اب ان کا کوئی حق نہیں ہوگا۔ وہاں اب باقاعدہ رام مندر تعمیر کردیا جائے‘‘۔ گویا ڈاکو آکر گھر پر قابض ہوگئے اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی دعوے دار ریاست نے یہ فیصلہ صادر کیاکہ گھر کا صرف ایک تہائی اہل خانہ کو دے دیا جائے، باقی پر ڈاکوؤں کا قبضہ قانونی قراردیا جاتا ہے۔

عدالتی فیصلے کے بعد ہندستان سے موصول ہونے والے ایک مضمون میں بابری مسجد اور ہندوئوں کے دعوے کے بارے میں بہت سے دل چسپ حقائق یک جا کیے گئے ہیں۔ آیئے ان میں سے چند چشم کشا نکات کا جائزہ لیتے ہیں:

  • ہندو تاریخ میں زمانے کو چار مختلف ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر دور کو یوگا (Yuga) کہا جاتا ہے۔ کیرودھا  یوگا (Kirudha Yuga) ۱۷ لاکھ ۲۸ ہزار سال پہلے شروع ہوا۔ پھر دِھیریدھا  یوگا (Dhiredha Yuga) ۱۲ لاکھ ۹۶ ہزار سال پہلے شروع ہوا۔ تیسرا دوابا یوگا (Duvaba Yuga) ۸لاکھ ۶۴ہزار سال پہلے، اور آخری دورکالی یوگا (Dorkali Yuga) ۴لاکھ ۳۲ ہزار سال پہلے شروع ہوا جو ہنوز جاری ہے۔

’راماین‘ کے مطابق رام نامی خدا دوسرے دور کے آخر میں ۸لاکھ ۶۹ہزار ایک سو ۱۰ سال قبل پیدا ہوا۔ یعنی تقریباً پونے نو لاکھ سال پہلے پیدا ہونے والے رام کی جاے پیدایش اس قدر دقیق انداز سے معلوم ہے کہ اس کا بابری مسجد کے گنبد تلے واقع ہونا بھی یقینی ہے۔

  • دلی سے شائع ہونے والے معروف رسالے ریڈینس نے ۱۲نومبر ۱۹۸۹ء کے شمارے میں متعدد ہندو مذہبی پیشوائوں اور تاریخ دانوں کی ایک اور تحقیق شائع کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ۱۱۰۰عیسوی سے پہلے رام نام کا کوئی خدا ظاہر ہی نہیں ہوا تھا۔پورے خطے میں اس سے پہلے کسی ہندو نے رام کی پوجا ہی نہیں کی، یعنی لاکھوں سال پہلے پیدا ہونے والے رام تب تک کسی کو معلوم ہی نہیں ہوا تھا۔
  • راماین نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’رام‘ ایودھیا شہر میں پیدا ہوا۔ یعنی کہ بابری مسجد والا ایودھیا شہر بھی ۸لاکھ ۶۹ ہزار ایک سو ۱۰سال پہلے بھی موجود تھا۔ اب ایک اور حقیقت ملاحظہ ہو: ۱۹۷۶ء میں بھارتی مرکزی آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ نے ایودھیا شہر کے بارے میں اپنی ایک رپورٹ پیش کی تھی، رپورٹ کے ص ۵۲-۵۳ پر لکھا ہے کہ ’’ایودھیا نام کی ایک بستی ۷۰۰ قبل مسیح میں بسائی گئی‘‘۔ اب ۲۰۱۰ عیسوی ہے تو اس کا مطلب ہوا کہ ایودھیا آج سے دوہزار سات سو دس سال پہلے وجود میں آیا۔ متعدد بھارتی تاریخ دانوں نے اس سرکاری رپورٹ کی تصدیق کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہندوئوں کی مقدس ترین کتاب رامائن کے ’فرمان‘ کے مطابق تقریباً پونے نو لاکھ سال پہلے پیدا ہونے والا رام، صرف ۲۷۱۰ سال پہلے وجود میں آنے والے شہر میں کیسے جنم پذیر ہوگیا۔
  • ایودھیا کے بارے میں رامائن کی مزید تفاصیل کچھ یوں ہیں: ’’ایودھیا سے ۵۰ئ۱ یوجن (۲۳کلومیٹر) کے فاصلے پر دریاے سارایو بہتا ہے۔ یہ دریا مشرق سے مغرب کی طرف بہتا ہے اور آگے جاکر دریاے گنگا میں جا ملتا ہے۔ بھارت کے شہر ایودھیا کو دیکھا جائے تو وہاں دریا تو بہتا ہے، لیکن شہر سے ۲۳کلومیٹر دُور نہیں شہر کے بیچوں بیچ۔ اس دریا کا پانی مشرق سے مغرب نہیں مغرب سے مشرق کی جانب بہتا ہے۔ یہ دریا کہیں بھی دریاے گنگا سے نہیں ملتا بلکہ دریاے رآبتھی (Raabthi) سے ملتا ہے۔ ہاں، البتہ ایک اور تحقیق کارسیر سنگھ (Saer Singh) کا کہنا ہے کہ پڑوسی ملک نیپال میں ایودھیا نامی ایک بستی پائی جاتی ہے، اس سے ۲۰کلومیٹر کے فاصلے پر ایک دریا بھی بہتا ہے جس کا رُخ مشرق سے مغرب کو ہے اور وہ گنگا میں جاکر ملتا ہے۔ یعنی اگر بالفرض کوئی ایسا مقدس ایودھیا ہے بھی جہاں رام صاحب کی ولادت ہوئی تھی، تو خود رامائن کی نشان دہی کے مطابق وہ نیپال میں ہوسکتا ہے، اترپریش بھارت میں نہیں۔
  • بابری مسجد کی بنیادیں سولھویں صدی (۱۵۲۴ئ) میں ابراہیم لودھی کے ہاتھوں رکھی گئی تھیں جو بعد میں ظہیرالدین بابر کے ہاتھوں مکمل ہوکر بابری مسجد کہلائی۔ بابر کے بعد پورے مغلیہ دور اور اس کے بعد طویل برطانوی استعمار کے اختتام تک پورے چار سو پچیس سال کے دوران میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ملتا کہ جس نے دعویٰ کیا ہو کہ بابری مسجد کی جگہ پہلے رام مندر تھا، اسی میں رام کی پیدایش عمل میں آئی تھی اور مسلمانوں نے اسے منہدم کر کے وہاں مسجد تعمیر کرڈالی۔ ۲۳دسمبر ۱۹۴۹ء کی شب اچانک کچھ متعصب ہندوئوں کو ایک الہام ہوا اور پھر سادہ لوح ہندو عوام کو مذہبی اشتعال دلا کر پوری دنیا کے مسلمانوں کے دل چھلنی کردیے گئے۔

معاملہ صرف بابری مسجد کی شہادت پر ختم نہیں ہوا، اب یہی متعصب ٹولہ سیکڑوں دیگر مساجد کے بارے میں بھی دعویٰ کر رہا ہے کہ یہ سب رام جنم بھومیاں تھیں، انھیں بھی منہدم کرکے رام مندر تعمیر کریں گے۔ کچھ لوگ اس خدشے کی سنگینی کم کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں کہ بھارتی پارلیمنٹ نے طے کردیا ہے کہ بابری مسجد کے عدالتی فیصلے کو اسی طرح کے کسی دوسرے مقدمے کے لیے بنیاد نہیں بنایا جا سکے گا۔ سوال یہ ہے کہ دنیا کی اس سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت میں کیا اس سے پہلے کوئی ایسا قانون نہیں تھا کہ جو دوسروں کی ملکیت پر قبضہ کرنے سے روکتا ہو؟ اگر پہلے ان قوانین نے تعصب کی آگ کو نہیں روکا تو آیندہ کوئی قانون اسی طرح کے جنونیوں کو کیسے روکے گا؟

بابری مسجد کی جگہ مندر تعمیر کرنے کے عدالتی فیصلے کا اگر کوئی ایک مثبت پہلو ہے تو وہ یہ کہ دنیا اب ہندوازم کا اصل چہرہ زیادہ بہتر طور پر دیکھ سکے گی۔ دنیا دیکھ سکے گی کہ ۱۸کروڑ سے زائد ہونے کے باوجود، مسلمان وہاں کس طرح بے سہارا اور ہندو تعصب کے رحم و کرم پر ہیں۔ اس سے پہلے گجرات کے قتلِ عام کی تحقیقاتی رپورٹیں بھی مکار ہندو کو بے نقاب کرچکی ہیں کہ خود سرکاری سرپرستی میں کچھ ہندوئوں کو قتل کیا گیا اور پھر اس کا سارا ملبہ مسلمانوں پر ڈالتے ہوئے ہزاروں مسلمانوں کا قتلِ عام کرکے وحشی پن کا مظاہرہ کیا گیا۔ اس سے پہلے ایک اور سرکاری رپورٹ ’سچر رپورٹ‘ میں بھی واضح اعتراف کیا جا چکا ہے کہ اتنی بڑی اقلیت ہونے کے باوجود ہندستانی مسلمانوں کو معاشرے میں نکّو بناکر رکھا گیا ہے۔ نہ ملازمتوں میں مناسب حصہ اور نہ تعلیم و ترقی میں برابری کے مواقع۔ بابری مسجد فیصلے کے بعد اب ہندوئوں کا یہ مطالبہ زور و شور سے سامنے آیا ہے کہ اذانوں پر پابندی لگائی جائے، ہمارے آرام میں خلل پڑتا ہے۔ نقاب پر پابندی لگائی جائے اس سے دہشت گردی پھیلتی ہے۔

انصاف اور انسانی حقوق کی اس واضح توہین کے باوجود ہندستان کے لیے امریکی اور عالمی سرپرستی میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے۔ مسلمان ملکوں سے دوستی بڑھانے اور سیکورٹی کونسل کا مستقل رکن بنانے کے وعدے، ایٹمی پروگرام میں مزید تعاون اور دہشت گردی کی جنگ میں اپنے حلیف اوّل پاکستان کو چھوڑ کر امریکی صدر کے طویل ہندستانی دورے، سب انھی مسلمان دشمن پالیسیوں کو مزید آگے بڑھانے کے پیغامات ہیں۔ اُمت مسلمہ صرف اس قرآنی آیت ’’تم اہلِ ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پائو گے، اور ایمان لانے والوں کے لیے دوستی میں قریب تر ان لوگوں کو پائو گے جنھوں نے کہا تھا کہ ہم نصاریٰ ہیں۔ یہ اس وجہ سے کہ ان میں عبادت گزار عالِم اور تارک الدنیا فقیر پائے جاتے ہیں اور اُن میں غرورِ نفس نہیں ہے‘‘ میں ’’اور جنھوں نے شرک کیا‘‘ پر غور کر لے، پوری حقیقت بے نقاب ہوجائے گی۔