نومبر ۲۰۱۰

فہرست مضامین

کتاب نما

| نومبر ۲۰۱۰ | کتاب نما

Responsive image Responsive image

قرآنِ حکیم اور ہماری عملی زندگی، علامہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی۔ تلخیص و ترجمہ: ڈاکٹر عطیہ خلیل عرب۔ ناشر: مکتبہ تعمیرانسانیت، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۲۳۷۵۰۰۔ ۳۷۳۱۰۵۳۰۔ صفحات: ۲۷۸۔ قیمت (مجلد): ۳۰۰ روپے۔

قرآنِ حکیم شریعت ِ اسلامیہ کا مصدر اوّل ہونے کے اعتبار سے اُمت مسلمہ کے لیے ایک اٹل قانون ہے۔ اس الٰہی قانون کی حُرمت کو دانستہ یا نادانستہ توڑنا اُمت کے لیے باعث ِ ہلاکت ہے اور اس کو حرزِجاں بنالینا عروج و نجات کا مژدئہ جاں فزا۔ علامہ یوسف القرضاوی کی عربی تالیف کیف نتعامل مع القرآن الکریم (ہم قرآن پر عمل کیسے کریں؟) اسی حقیقت کا بیان ہے۔ انھوں نے قرآن حکیم کی عظمت و حفاظت، جمع و تدوین، اس کی تلاوت و تعلیم کے آداب و فضیلت، قرآن حکیم کے اعجاز و تفوق سے اپنی بات کو شروع کر کے عقیدہ و عمل کے بیان کے ساتھ ساتھ حقوق و فرائض اور معاملاتِ انسانی کے لیے قرآنی ہدایت کو پیش کیا ہے۔ تلاوتِ قرآن مجید کے انسانی زندگی پر اثرات کو خصوصاً بیان کیا گیا ہے۔ انسانی زندگی کے دستور و منشور کے طور پر قرآنِ مجید کی فرد اور معاشرے کے لیے ہدایات بھی بیان کی گئی ہیں۔ انفرادی و اجتماعی معاملات کے ساتھ حکومت و سیاست اور دعوت و ارشاد کے نکات بھی زیربحث آئے ہیں۔

پروفیسر خورشیداحمد صاحب ’پیش لفظ‘ میں لکھتے ہیں: یہ اُردوخواں طبقے کے لیے ایک بڑا قیمتی علمی تحفہ ہی نہیں زندگی کو قرآن کے سایے تلے گزارنے کے لیے نسخۂ عمل بھی ہے۔ علامہ یوسف القرضاوی نے قرآن کے پیغام کو بڑے مؤثر انداز میں اس طرح پیش کیا ہے کہ پوری زندگی کا نقشۂ کار قاری کے سامنے آجاتا ہے۔ (ص ۱۸)

ڈاکٹر عطیہ خلیل عرب نے اس کتاب کو اپنی تحقیق و تعلیق اور تلخیص و تجزیہ کے ساتھ پیش کیا ہے۔ کتاب بہت مفید اور اہم ہے لیکن یہ کمی رہ گئی ہے کہ ۲۷۸ صفحات کی کتاب میں ابواب بندی واضح نہیں جس سے قاری کو مطالعے کے دوران دقت پیش آتی ہے۔اسی طرح مصنف کے متن اور مترجمہ کی تحقیق و تعلیق کے درمیان بھی کوئی امتیاز نہیں ہے۔ (ارشاد الرحمٰن)


پیغامِ حدیث، یوسفِ ثانی۔ ملنے کا پتا: توکل اکیڈمی، کاشانۂ خلیل، اُردو بازار، کراچی۔ فون: ۸۷۶۲۲۱۳-۰۳۲۱۔ صفحات: ۳۶۰۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

امام محمد بن اسماعیل بخاری (۱۹۴ھ-۲۵۶ھ) نے لاکھوں احادیث میں سے چند ہزار احادیث کو اپنی قائم کردہ شرائط پر پرکھ کر فقہی ترتیب کے مطابق یک جا کیا ہے۔ بخاری کی الجامع الصحیح میں بار بار آنے والی احادیث کے بغیر احادیث کی تعداد تقریباً ۴ہزار ہے۔ امام بخاری کا یہ تکرارِ حدیث ایک حدیث سے متعدد مسائل اخذ کرنے کی بنا پر ہے۔ عنواناتِ ابواب سے امام بخاری کی فقہی بصیرت اور وسیع نظری کا اظہار ہوتا ہے۔

زیرنظر کتاب میں بخاری کی مکرر احادیث کو چھوڑ کر احادیث کا مفہومی ترجمہ پیش کیا گیا ہے۔ ترتیب اصل کتاب کے مطابق ہے، البتہ احادیث کی اسناد اور ابواب کے عنوانات حذف کردیے گئے ہیں۔ طویل اور مفصل احادیث کے مضامین کو مختصر کیا گیا ہے۔ مؤلف نے اتنی بڑی فنی کتاب کے مفہوم کو عام لوگوں تک پہنچانے کے لیے بڑی محنت کی ہے اور اپنی حد تک کتاب کو عام فہم بنانے کی پوری سعی کی ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ بخاری کی اصل اہمیت اس کی ’صحت‘ کے ساتھ ساتھ اس کے   اخذِ مسائل کے پہلو سے بھی ہے، لہٰذا امام کے اخذِ مسائل کو نظرانداز کرکے اس سے بہتر عنوانات قائم کرنا کارے دارد ہے۔ حذفِ تکرار کی بنا پر بعض ضروری باتیں بھی شامل ہونے سے رہ گئی ہیں۔ عنوانات کی تبدیلی نے بھی بہت سے ابہامات پیدا کردیے ہیں۔ عنواناتِ ابواب کی تبدیلی سے بعض احادیث سے اخذ کردہ امام کے بہت اہم مسائل نظرانداز ہوکر رہ گئے ہیں۔ باریک خط اور اغلاط کی کثرت سے بھی کتاب کی ساکھ متاثر دکھائی دیتی ہے۔ بخاری پر ہونے والا  کوئی بھی کام امام بخاری کے ذاتی حزم و احتیاط کے پیش نظر پوری دقت نظر سے انجام دیا جانا چاہیے۔ (ا- ر)


اصولِ دعوت، ڈاکٹر عبدالکریم زیدان، مترجم: گل زادہ شیرپائو۔ ناشر: البدر پبلی کیشنز، ۲۳-راحت مارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۲۲۵۰۳۰۔ صفحات: ۷۷۶۔ قیمت (مجلد، بڑی تقطیع): ۷۰۰ روپے ۔

احیاے اسلام کے لیے تحریکیں بھی اُٹھیں اور انفرادی مساعی بھی کی گئیں۔ بیسویں صدی میں تو یہ موضوع یونی ورسٹیوں کی اعلیٰ تعلیم کا نصاب بن گیا۔ بہت سے علما و اساتذہ نے اس پر قلم اٹھایا۔ ان میں سے ایک کاوش بغداد یونی ورسٹی کے شعبۂ اسلامیت کے سابق صدر ڈاکٹر عبدالکریم زیدان کی اصول الدعوۃ (اصولِ دعوت) کے نام سے سامنے آئی۔ مصنف نے دعوتِ اسلام پر   اظہارِ خیال سے پہلے اسلام کا ایک جامع تعارف پیش کر کے دعوت کے جواز بلکہ فرضیت کو ثابت کیا ہے۔ کتاب کا نصف سے زیادہ حصہ اسلام کے معنی و مفہوم، مدعا و مقصود اور طریق و نظام کی وضاحت پر مشتمل ہے۔ اسلام کی تعریف، خصوصیات، اور زندگی کے مختلف شعبوں کے لیے اسلام کی تعلیمات (اخلاق، معاشرت، اِفتا و احتساب، حکومت، معیشت، جہاد اور عدالت) پہلے باب کا موضوع ہے، جو قریباً ۴۸۰ صفحات پر محیط ہے۔ اس کے بعد دعوت کا موضوع چار ابواب قریباً ۳۰۰صفحات میں سمیٹا گیا ہے۔ داعی کا مفہوم، صفات، معاونات، اخلاق، دعوت کے مخاطبوں کی اقسام اور ان کی نفسیات پر دوسرے اور تیسرے باب میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ چوتھے اور پانچویں باب میں دعوت کے اسالیب، طریقوں اور وسائل کا بیان ہے۔ ان ابواب میں مرض کی تشخیص و علاج اور مخاطبینِ دعوت کے شبہات اور ان کے ردّ اور ازالے کا طریقِ کار بتایا گیا ہے۔

کتاب کی جامعیت، افادیت اور اہمیت کا اندازہ پہلے باب کے مطالعے ہی سے ہوجاتا ہے کہ مصنف نے اختصار مگر ٹھوس دلائل اور ضروری تفاصیل کے ساتھ اسلام کا تعارف کرایا ہے۔ اختصار کے باوجود ہرپہلو اور موضوع کی جزئیات تک کا احاطہ مصنف کی وسیع نظر اور موضوع پر دسترس کا اظہار ہے۔ کارکنان کے ساتھ ساتھ مربی حضرات بالخصوص قائدین تحریک کے لیے اس کتاب کا مطالعہ غوروفکر کے کئی گوشے وا کرے گا۔ مترجم نے بڑی محنت سے مباحث کو آسان بناکر پیش کیا ہے۔(ا- ر)


جادۂ نسیاں (بھولتی یادیں) حکیم سید محمود احمد برکاتی۔ ناشر: کتاب سرائے، فرسٹ فلور، الحمدمارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۲۴۷۔ قیمت: ۲۲۵ روپے۔

اُردو ادب میں خاکہ نگاری ایک مستقل صنفِ نثر کی حیثیت رکھتی ہے مگر بہت سی دوسری اصناف (ناول، ڈراما، آپ بیتی، نظم وغیرہ) کی طرح خاکہ نگاری کی حتمی تعریف بھی متعین نہیں ہے، تاہم جو مضمون کسی معروف یا غیر معروف شخصیت پر لکھا جائے، اور وہ شخصیت خواہ کسی بھی شعبۂ حیات سے متعلق ہو اور مضمون طویل ہو یا مختصر___ وہ خاکہ کہلاتا ہے۔

زیرنظر کتاب کے ۴۰ خاکوں میں سے بعض (اخترشیرانی: ۱۲ص۔ سیدابوالاعلیٰ مودودی: ۱۷ص)، تو مائل بہ طوالت نظر آتے ہیں مگر بحیثیت مجموعی مصنف اختصارپسند ہیں (حسین احمد مدنی: ۲/۱  ۲ص۔ مولانا احمد سعید دہلوی: ۴/۱  ۲ص۔ مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ۴/۱  ۲ص) ۔تین تین یا چارچار صفحات میں پیش کردہ جھلکیاں بھی قاری پر بعض شخصیات کا دیرپا نقش مرتسم کرتی ہیں۔ اس میں حکیم محمود احمد برکاتی کی سادہ اور بامحاورہ زبان اور دل کش اسلوب کو دخل ہے۔ کسی شخص سے ان کا جتنا واسطہ رہا، یا کسی شخصیت میں انھیں کوئی خاص بات نظر آئی، یا انھوں نے کسی کو جتنا کچھ دیکھا___ ان کا بیان اسی کے بقدر اکتفا کرتا ہے۔ برکاتی صاحب کے ان خاکوں کو دل چسپ واقعات، طرزِ بیان کی سادگی، جامعیت اور اثرانگیزی کے اعتبار سے ’گُہرپارے‘ کہنا زیادہ موزوں ہوگا۔ یادوں کی اس بازیافت میں (سرورق پر عنوانِ کتاب کے ساتھ ’بھولتی یادیں‘ کی وضاحت درج ہے۔) چار شہروں (ٹونک، اجمیر، دہلی، کراچی) کی معروف اور غیرمعروف معاصر شخصیات سے ملاقاتوں اور باتوں کا ذکر ملتا ہے۔

برکاتی صاحب کی منصف مزاجی نے افراد و شخصیات کی شخصی خوبیوں کے ساتھ، اُن کی بعض خامیوں کا بھی مختصراً ذکر کر دیا ہے مگر ایسے مہذب لب و لہجے میں کہ کسی خامی کے ذکر سے متعلقہ شخصیت مجروح نہیں ہوتی۔ اس کتاب کے مرتب ڈاکٹر مظہرمحمود شیرانی کے بقول: یہ چند ’’یادگار زمانہ لوگوں کی قلمی تصویریں ہیں‘‘ (ص ۵)۔ مصنف نے ان قلمی تصویروں میں بعض باکمال لوگوں کو گوشۂ گم نامی سے نکال کر (صفحۂ قرطاس پر ہی سہی) زندگی بخش دی ہے۔

مولانا حکیم محمود احمد برکاتی، ایک جیّد عالمِ دین، اور بلندپایہ محقق ہیں مگر شگفتہ بیانی ان کے دل کش اسلوب کا نمایاں وصف ہے جو قاری کو مجبورکرتی ہے کہ ان خاکوں کو مسلسل پڑھتا جائے۔

محمود احمد عباسی کا خاکہ عبرت انگیز ہے۔ خلاصہ یہ کہ عباسی عربی جانتے تھے نہ فارسی۔ انھیں کبھی نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔ وہ دل سے یزید دوست اور شیعہ دشمن نہیں تھے۔ دانستہ یا نادانستہ کسی اسلام دشمن تحریک یا طاقت کا آلۂ کار تھے اور افتراق بین المسلمین کی مہم میں سرگرم تھے۔ اسی طرح یہ کہ نیاز فتح پوری کی دین دشمنی کی مہم میں، ان کی حوصلہ افزائی اور مدد کیا کرتے تھے (ص۱۶۳)۔ برکاتی صاحب، مولانا حسین احمد مدنی کے کانگریسی نقطۂ نظر کے مخالف مگر ان کے حُسنِ اخلاق کے مدّاح ہیں۔ کہتے ہیں مولانا مدنی نے تحریکِ پاکستان کی مخالفت کی لیکن جب پاکستان بن گیا تو پھر اس کی ترقی کے لیے پُرخلوص طور پر خواہش مند رہے (ص۹۳)۔ بحیثیت مجموعی کتاب بہت دل چسپ، نہایت معلومات افزا اور سبق آموز ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


کلامِ اقبال، مؤلفین: عامرشہزاد، طارق محمود۔ ناشر: منشورات، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲۔ صفحات: ۱۷۶۔ قیمت: ۱۹۰ روپے۔

اسلامی نظامت تعلیم، پاکستان میں نظامِ تعلیم کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے کی داعی ہے اور زیرنظر کتاب اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یہ کتاب پہلی جماعت سے انٹرمیڈیٹ سطح تک کے طلبہ کے لیے کلامِ اقبال سے ایک انتخاب ہے۔ اس کے تین حصے ہیں۔ پہلا حصہ ۱۲ سال کی عمر تک کے طلبہ، دوسرا حصہ ایلیمنٹری جماعتوں کے طلبہ اور تیسرا حصہ سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری سطح کے طلبہ کے لیے ہے۔ مرتبین نے کلامِ اقبال کے انتخاب میں طلبہ کی ذہنی سطح کا خیال رکھا ہے۔ ہر نظم کے متن کے ساتھ اس کا مختصر تعارف اور مشکل الفاظ کے معانی بھی دیے گئے ہیں جس سے کلامِ اقبال کی تفہیم کسی قدر آسان ہوگئی ہے۔ کلامِ اقبال اساتذہ کے لیے ایک معاون کتاب ہے۔ ابھی مزید مشکل الفاظ و معانی شامل کرنے اور شعروں کی تشریح کرکے، تفہیم کو سہل بنانا ضروری ہے۔

ابتدائی جماعتوں اور انٹر کے طلبہ کی ذہنی سطح میں خاصا فاصلہ ہوتا ہے۔ اس لیے مناسب ہوتا کہ یہ انتخاب الگ الگ شائع کیا جاتا۔ الفاظ و معانی کے ساتھ تراکیب کی توضیحات اور بعض تلمیحات کا پس منظر بھی واضح کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ مضامین کے اختتام پر حیاتِ اقبال کے اہم اور دل چسپ واقعات کے اقتباسات دینے کی گنجایش تھی جس سے کتاب کی افادیت مزید بڑھ جاتی۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)


بندگیِ رب کے تقاضے، ڈاکٹر فرحت علی برنیؒ، مرتب: عبدالستار خان۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی، کراچی۔ ملنے کا پتا: اکیڈمی بک سنٹر، ڈی-۳۵، بلاک ۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی-۷۵۹۵۰۔ فون: ۳۶۳۴۹۸۴۰-۰۲۱۔ صفحات: ۶۹۔ قیمت: درج نہیں۔

دعوتِ دین، درسِ قرآن اور ایک مربی کی حیثیت سے تحریکی حلقوں میں ڈاکٹر فرحت علی برنی (م: اگست ۲۰۰۹ئ) ایک معروف نام ہے۔ سعودی عرب، خلیجی ممالک، یورپ اور امریکا میں آپ کے دروس قرآن سے بذریعہ کیسٹ ہزاروں لوگوں نے استفادہ کیا ہے۔ مرحوم انڈسٹریل انجینیرنگ میں پی ایچ ڈی تھے۔ کنگ عبدالعزیز یونی ورسٹی، جدہ سے وابستہ رہے۔ اور ۲۰۰۳ء میں ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد امریکا چلے گئے مگر زندگی کے آخری ایام اسلام آباد میں گزارے۔ آپ نے تمام عمر قرآن کے پیغام کو عام کرنے اور احیاے اسلام کی جدوجہد میں گزاری۔یوں وہ ان سعید روحوں میں سے تھے جنھوں نے اللہ تعالیٰ سے کیا ہوا عہد سچ کر دکھایا۔

ڈاکٹر فرحت علی برنی بہترین مقرر تھے اور مؤثر درسِ قرآن دیتے تھے۔ زیرنظر کتاب سورئہ حم السجدہ کی سات آیات (۳۰-۳۶) پر مبنی ایک درسِ قرآن ہے۔ آیاتِ قرآنی کا پس منظر، اہم نکات، قرآن و حدیث سے استدلال کے ساتھ آیات کا فہم واقعاتی انداز میں پیش کرتے ہوئے حالاتِ حاضرہ پر آیات کا انطباق اور درپیش مسائل پر رہنمائی دی گئی ہے، نیز تحریکی تقاضوں کو بھی اُجاگر کیا گیا ہے۔ اسلوبِ بیان عمدہ ہے اور قدیم و جدید علوم کا امتزاج پایا جاتا ہے۔ استقامت کی مثالوں میں امام مالکؒ اور امام حنبلؒ کے ساتھ ساتھ مولانا مودودیؒ اور سید قطب شہیدؒ کی مثالیں بھی دی گئی ہیں۔ مرتب نے ڈاکٹر صاحب کے علمی ورثے کو افادۂ عام کے لیے وضاحتی حاشیوں اور حوالوں کے ساتھ کتابی صورت میں شائع کیا ہے اور دیگر کیسٹوں کو کتابی صورت میں لانے کا سلسلہ جاری ہے۔ تحریکی لٹریچر میں یہ ایک مفید اضافہ ہے۔ (امجد عباسی)


ارقم، مدیر اعلیٰ: ڈاکٹر ظفر حسین ظفر، مدیر: فیاض نقی۔ ناشر: دارارقم ماڈل کالج، راولاکوٹ، آزاد کشمیر۔ صفحات حصہ اُردو: ۶۲، حصہ انگریزی: ۱۰۴۔قیمت: درج نہیں۔

کالجوں اور یونی ورسٹیوں سے عام طور پر دو طرح کے مجلات شائع ہورہے ہیں۔ کالجوں کے رسالوں میں بالعموم طلبہ اور طالبات کی نگارشات (افسانے، ڈرامے، مزاحیہ مضمون، نظمیں، غزلیں، ادبی سرگرمیاں، کھیلوں وغیرہ کی رودادیں) شائع ہوتی ہیں۔ یونی ورسٹی کے مجلات کا مزاج تحقیقی اور تنقیدی ہوتا ہے اور انھیں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے معیار پر شائع کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

دارارقم ماڈل کالج راولاکوٹ آزاد کشمیر کے ضخیم مجلے ارقم میں متذکرہ بالا دونوں نوعیتوں کی تحریروں کو شامل کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر، ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد اور ڈاکٹر ظفرحسین ظفر کے مضامین ہائر ایجوکیشن کمیشن کے معیار پر پورے اُترتے ہیں۔ البتہ مجموعی طور پر اور مقداری اعتبار سے بھی رسالے میں طلبہ و طالبات کی نگارشات کا پلّہ بھاری ہے۔ طالب علمانہ معیار کے لحاظ سے یہ تحریریں اچھی ہیں اور لکھنے والوں کے روشن مستقبل کی غماز ہیں۔ انگریزی رسالے میں طلبہ و طالبات کی خاصی بڑی تعداد کی انگریزی نظمیں، انگریزی کے روزافزوں اثرات (تسلط) کا ایک نتیجہ ہے۔ ایک گوشہ کلامِ اقبال فارسی کے مترجم عبدالعلیم صدیقی مرحوم کے لیے اور ایک گوشہ کشمیری مزاح نگار کبیرخان کے لیے مختص ہے۔ کتابوں پر تبصرے بھی شامل ہیں اور کالج کے اساتذہ اور رسالے کے مدیران کے علاوہ ہم نصابی سرگرمیوں کی تصویریں بھی شامل ہیں۔ (قاسم محمود احمد)


تعارف کتب

  • مسلمان مثالی اساتذہ ، مثالی طلبہ ،پروفیسر سیدمحمدسلیم۔ ناشر: زوار اکیڈمی پبلی کیشنز، اے-۴/۱۷،  ناظم آبادنمبر۴، کراچی-۷۴۶۰۰۔ فون: ۳۶۶۸۴۷۹۰۔ صفحات:۱۲۶۔ قیمت: ۱۳۰ روپے۔[بقول مصنف: انگریزی نظامِ تعلیم نے سب سے بڑا ظلم یہ ڈھایا ہے کہ مسلمانوں کو ان کے شان دار ماضی سے کاٹ دیا۔ آج کے مسلمان اساتذہ اسلاف کے کارناموں سے بے گانہ ہیں، آج کے مسلمان طلبہ ماضی میں مسلمان طلبہ کے ذہن وفکر کی کیفیات سے ناآشنا ہیں۔ ’مثالی اساتذہ‘ میں مسلمان اساتذہ کے فکروعمل کی جھلکیاں پیش کی گئی ہیں۔ پیش نظر یہ ہے کہ ع  بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل___ کتاب اساتذہ و طلبہ کے لیے ایک آئینہ اور اپنی اقدار سے آگہی کا ذریعہ ہے۔ پروفیسر سیدمحمدسلیم اکیڈمی کے زیراہتمام شائع کی گئی ہے۔]
  • فروغ نوا، رئیس احمد نعمانی۔ ملنے کا پتا: ۹-ڈی، عماد الملک روڈ، (ٹنکی والی مسجد) مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ۔ ۲۰۲۰۰۲، بھارت۔ صفحات: ۱۶۰۔ ہدیہ: ۸۰ روپے بھارتی۔ [بھارت کے معروف شاعر رئیس احمد نعمانی کا مجموعۂ نعت۔ اُردو کی نعتیہ شاعری کی تاریخ میں غالباً پہلا مجموعۂ نعت جس میں ذاتِ نبویؐ کے احترامِ واقعی کو ملحوظ رکھتے ہوئے ’عش‘، ’عاشق‘، ’معشوق‘ جیسے معیوب الفاظ کو قطعاً استعمال نہیں کیا گیا۔ ’تو‘ اور ’تیرا‘ جیسے الفاظ کسی شعر میں نہیں لائے گئے۔ نبی کریمؐ کا اسمِ گرامی احتراماً عبارات میں نہیں لایا گیا، نیز خدا اور رسولؐ کے امتیاز کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ آخر میں منظوم ترجمہ قصیدہ بردہ بھی شاملِ مجموعہ ہے۔]
  • معیار:۴، مجلس ادارت: ڈاکٹر معین الدین عقیل۔ ڈاکٹر نجیبہ عارف۔ ناشر: شعبۂ اُردو، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد۔ صفحات اُردو حصہ: ۴۳۸، انگریزی حصہ:۸۵۔ قیمت: درج نہیں۔ [سہ لسانی شش ماہی تحقیقی مجلے کا چوتھا شمارہ حسب سابق تحقیقی و تنقیدی اور حوالہ جاتی مضامین ، چند مطبوعہ و غیرمدّون متون، تبصراتی مقالوں اور بعض نوادر کے ساتھ بروقت سامنے آیا ہے۔ ہائرایجوکیشن کمیشن کے منظور شدہ رسائل کا جائزہ لیں تو کسی مجلے کی بروقت اشاعت ایک عنقا قسم کی خوبی معلوم ہوتی ہے۔ معیار کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ اس کے چاروں شمارے بروقت شائع ہوئے ہیں۔گوشۂ نوادر کے اُردو حصے میں اخبار ایمان (پٹی) کے پاکستان نمبر ۱۹۴۵ کا عکس اور انگریزی حصے میں ڈاکٹر محمدحمیداللہ کے ایک نایاب مضمون (ماخوذ از کریسنٹ، ۱۹۴۶ئ) کا عکس شائع کیا گیا ہے۔ معیار کے سابقہ شماروں کے بعض مضامین پر قارئین کے استدراک بھی شامل کیے گئے۔]