نومبر ۲۰۱۰

فہرست مضامین

بنگلہ دیشی حکومت کی انتقامی سیاست اور بھارت نوازی

عبد الغفار عزیز | نومبر ۲۰۱۰ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

۱۵؍اگست ۱۹۷۵ء کی صبح ریڈیو پاکستان سے خبریں سنیں تو میں بھاگم بھاگ ۵- اے ذیلدار پارک پہنچا اور بغیر اجازت سید مودودی رحمہ اللہ کے کمرے میں جاگھسا۔ مولانا میز پر کہنی ٹکائے لکھنے میں مصروف تھے۔ اچانک میرے آجانے پر قلم روکا، ہاتھ اٹھایا تو آستین سرک کر کہنیوں پر آٹکی۔ مجھے دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ مسلسل لکھتے رہنے اور میز پر ٹکے رہنے سے ان کی کہنی سے کلائی تک گٹے پڑ چکے تھے___ ۱۹۷۱ء کے ہنگاموں سے جان بچا کر مغربی پاکستان آنے والا ایک عزیز ساتھی ۳۵ سال بعد اس واقعے کی تفصیل سنا رہا تھا۔

مولانا نے اطمینان سے پوچھا:کیسے آنا ہوا؟ میری سانس پھولی ہوئی تھی، میں نے شدت جذبات سے کہا: مولانا! شیخ مجیب قتل ہوگیا۔ مولانا نے بغیر کوئی تبصرہ کیے سامنے کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’بیٹھیے‘۔ میں بیٹھ گیا تو مولانا نے تسلی سے پوچھا: اب بتائیے کیا ہوا؟ آپ کو کس نے بتایا؟ میں نے کہا: مولانا میں نے خود ابھی ریڈیو سے سنا۔ بنگلہ دیش میں فوج نے تختہ الٹ دیا ہے اور شیخ مجیب قتل ہوگیا ہے۔ مولانا نے کہا: کتنے بجے کی خبروں میں سنا؟ خبریں اُردو تھیں یا انگریزی میں؟ میں نے کہا: ’’مولانا ابھی ۱۰ بجے کی انگریزی خبروں میں سنا ہے۔ مولانا نے میری تصدیق کرتے ہوئے کہا:ہاں ۱۰ بجے انگریزی خبریں نشر ہوتی ہیں۔ مولانا نے خبر کے بارے میںاپنی تسلی کرلی اور کوئی تبصرہ نہ کیا۔ میں نے مولانا کا سکوت دیکھ کر حیرت اور کسی حد تک جذبات سے پوچھا: مولانا! آپ کو یہ سن کر خوشی نہیں ہوئی؟ مولانا مودودی نے جواب نفی میں دیا۔ میں نے مزید حیرت سے پوچھا: اس شخص نے ملک توڑا، ہمارے اتنے ساتھیوں پر ظلم ڈھائے، اتنی بڑی تعداد میں قتل کروائے، پھر بھی اس کے قتل پر آپ خوش نہیں ہوئے۔۔؟ مولانا نے افسوس بھرے لہجے میں کہا: مجھے خدشہ ہے یہ قتل وہاں کا آخری قتل نہیں ہوگا۔ سیاسی قتل و غارت اور انتقام کا سلسلہ کئی نسلوں تک چل سکتا ہے۔ ہم سے الگ کردیے جانے والے ہمارے بھائیوں میں سے کسی بھی بنگالی یا غیر بنگالی کا قتل، خوں ریزی اور تمام تر نقصان، سراسر ہمارا ہی نقصان ہوگا۔

۳۵ برس سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد آج پھر مولانا مودودیؒ کی یہ بات حرف آخر ثابت ہورہی ہے۔ ایک کے بعد دوسرا قتل، ایک کے بعد دوسرا انقلاب اور ایک کے بعد دوسری شورش اس عزیز اور برادر ملک کو مسلسل آبلہ پا کیے ہوئے ہے۔ دسمبر ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں حسینہ شیخ مجیب الرحمن کی ’عوامی لیگ‘ کو اتنی ’بڑی اکثریت‘ ملی کہ خود پارٹی قیادت کے لیے بھی حیرت کا باعث بنی۔ انتخاب سے پہلے تقریباً تین سالہ عبوری دور میں مسلح افواج اور بیوروکریسی میں بڑے پیمانے پر کلیدی تبدیلیاں کی گئی تھیں۔ انتخابات کے بعد عوامی لیگ کے پاس قیمتی موقع تھا کہ وہ ملک میں تعمیر و ترقی کا ایک نیا باب شروع کرتی۔ مگر ایسا کرنا اس کی ترجیحات میں شامل نہ تھا، انتخابی مہم کے دوران ہی انتقام کا نعرہ بلند کر دیا گیا تھا۔ ۱۹۷۱ء میں ہونے والے کشت و خون کی تمام تر ذمہ داری ۴۰ سال بعد اپنے سیاسی مخالفین پر ڈال دی گئی۔ انھیں جنگی مجرم قراردیتے ہوئے سزاے موت دینے کی گردان شروع کر دی گئی۔

برسر اقتدار آتے ہی ملکی اداروں کو باہم لڑوادیا گیا۔ بنگلہ دیش بارڈر فورس اور بنگلہ دیش فوج کے مابین جھڑپوں کی آڑ میں، بھارتی بارڈر فورس کے ذریعے فوج کے ۷۶ فوجی افسر قتل کروادیے گئے۔ ان افسروں کو فوج میں بھارت مخالف عناصر سمجھا جاتا تھا۔ کچھ ہی عرصے کے بعد شیخ مجیب الرحمن کے قتل کے الزام میں ۱۵ فوجی افسروں کے خلاف مقدمے کی سماعت شروع کردی گئی۔ ۳۵ سال پرانے اس مقدمے میں جو چھے افسر ہاتھ لگے، چند روز کی براے نام عدالتی کارروائی کے بعد انھیں پھانسی پر لٹکادیا گیا۔ نہ کوئی تحقیق نہ تفتیش اور نہ اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا کوئی موقع۔ دنیا میں بھی کہیں اس ’انصاف‘ کا چرچا نہیں ہوا۔ انسانی حقوق، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور جمہوریت کی چیمپیئن عالمی قوتیں سب اس پر خاموش رہے۔ یہ واقعی انصاف تھا تو ان سب کو اس پر اظہار اطمینان کرنا چاہیے تھا اور اگر ظلم تھا تو اسے بے نقاب کرنا چاہیے تھا لیکن .....

اس انوکھے انصاف کے لاشے ٹھنڈے نہیں ہوئے تھے کہ پورے ملک میں وسیع تر محاذ آرائی کا بازار گرم کردیا گیا۔ اس بار ہدف دستور کی اسلامی دفعات، ملک کی اسلامی شناخت، اسلامی لٹریچر اور اسلامی جماعتیں تھیں۔ ملک کی اسلامی شناخت کا تعین کرنے والی دستوری شقیں تبدیل کرکے، سیکولر شناخت لازم کرنے والے الفاظ شامل کر دیے گئے۔ سرکاری لائبریریوں، مدارس اور دفاتر میں مولانا مودودی کی کتب پر پابندی لگا دی گئی اور اسلام پسند عناصر بالخصوص جماعت اسلامی کے قائدین کو مختلف حیلوں بہانوں سے گرفتار کرنا شروع کردیا گیا۔ جماعت اسلامی کے امیر مولانا مطیع الرحمن نظامی، سیکریٹری جنرل علی احسن مجاہد، ملک کے مایہ ناز مفسر قرآن مولانا دلاور حسین سعیدی، اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل قمر الزمان اور عبد القادر ملا صاحب سمیت اب تک گرفتار شدگان کی تعداد کئی ہزار ہوچکی ہے۔ مزید کئی ہزار کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔ ان حضرات بالخصوص نظامی صاحب کو جاننے والا ہر شخص ان کی شرافت، ایمان داری اور قانون کی  پاس داری کی گواہی دے گا۔ لیکن ان حضرات پر الزام لگایا جارہا ہے کہ یہ ۱۹۷۱ء میں جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے اور انھوں نے لاکھوں انسانوں کو قتل کیا۔ کچھ عرصہ قبل ایک بین الاقوامی کانفرنس میں بعض بنگلہ دیشی ذمہ داران سے ملاقات ہوئی۔ وفد میں شریک حکمران عوامی لیگ کے ایک اہم وزیر نے کھلم کھلا اعتراف کیا کہ ’’یہ سراسر ایک سیاسی مسئلہ ہے کوئی عدالتی مسئلہ نہیں۔ ۴۰سال بعد کسی پر کوئی سنگین الزام لگانا اور اسے ثابت کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہے، لیکن---‘‘ اس لیکن کے بعد وزیر موصوف کچھ نہ کہہ پائے، لیکن سب جانتے ہیں کہ یہ سارا کھیل کیوں کھیلا جارہا ہے۔

حسینہ شیخ کی عوامی لیگ اپنے روز تاسیس ہی سے بھارت نواز جماعت کے طور پر جانی جاتی ہے۔ حالیہ دور حکومت میں یہ جادو خوب سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ بنگلہ دیش کی نظریاتی شناخت مسخ کرنے سے لے کر اسلامی عناصر کی سرکوبی تک اور بنگلہ دیش کے ریاستی اداروں میں جابجا بھارت نواز عناصر ٹھونس دینے سے لے کر، تمام ریاستی پالیسیوں میں بھارتی مفادات کی آب یاری تک، ہرقدم تیزی سے آگے بڑھایا جارہا ہے۔ مثال کے طور پر اس سال جنوری میں حسینہ شیخ کے     دورۂ بھارت کے دوران ہونے والے علانیہ اور خفیہ معاہدوں ہی کو دیکھ لیجیے۔ ان میں سے ایک زمینی راستوں سے نقل و حمل کا معاہدہ، بھارت کے دیرینہ خواب کی تکمیل کرتا ہے۔ بنگلہ دیش کا جغرافیائی محل وقوع، بھارتی مفادات کے لیے انتہائی اہم ہے۔ بھارت کی تیل و معدنی وسائل سے مالا مال سات ریاستیں ایسی ہیں کہ ان کے اور باقی ہندستان کے درمیان بنگلہ دیش واقع ہے۔ اس وقت ان ساتوں ریاستوں میں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ بھارت اپنی ان ریاستوں کے ساتھ صرف تقریباً ۳۳کلومیٹر چوڑی دشوار گزار پٹی کے ذریعے جڑا ہوا ہے، جب کہ بنگلہ دیش کے ساتھ بھارتی سرحدوں کی لمبائی ۳ہزار ۴ سو ۶ کلومیٹر ہے۔ بھارت ہمیشہ خواہاں رہا ہے کہ بنگلہ دیش کے ساتھ خشکی کے راستوں کا ایسا معاہدہ کر لے کہ یہ سارا سرحدی علاقہ، اس کے لیے ایک گزرگاہ کی حیثیت اختیار کرجائے۔ اس سے نہ صرف اپنی ان ریاستوں تک اس کی رسائی آسان ہوجائے گی بلکہ بنگلہ دیش میں بھی ہر جانب پاؤں پھیلائے جاسکیں گے۔ بھارت نے بنگلہ دیش کو اس دام میں پھانسنے کے لیے ایک ارب ڈالر یعنی، ۸۴ارب روپے کا قرض دینے کا اعلان بھی کیا ہے۔

اس معاہدے کے علاوہ، حسینہ شیخ نے کھلُنا اور چٹا گانگ کی بندر گاہ ہندستانی استعمال میں لانے کے معاہدے بھی کیے ہیں۔ غیر قانونی سمگلنگ کے ذریعے ہندستانی مصنوعات کی یلغار اس کے علاوہ ہے، جس سے ملکی صنعت ٹھپ ہوتی جارہی ہے۔ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ نے زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ ہندستانی تسلط صرف اقتصادی میدان میں ہی نہیں، ملک کی تمام تر اندرونی و بیرونی پالیسیاں بھارتی شکنجے میں جکڑی جارہی ہیں۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کے خلاف کارروائیوں کا اصل سبب بھی ان جماعتوں کا ہندستانی تسلط کی سازش کی راہ میں مزاحم ہونا ہے۔

جماعت اسلامی کے ہزاروں کارکنان کی گرفتاری، بزرگ قیادت پر جنگی جرائم کی تہمت، ہولناک ابلاغیاتی جنگ، پورے ملک پر پولیس راج اور سرکاری سرپرستی میں عوامی غنڈا گردی کے ذریعے، خوف و دہشت کی فضا پیدا کرنے کے بعد اب بھارت مخالف سمجھی جانے والی خالدہ ضیاء کی سیاسی جماعت بی این پی سے بھی جھڑپیں شروع کردی گئی ہیں۔ ان کے کارکنان کو بھی گرفتار کرنا شروع کر دیا گیا ہے۔ ان کارروائیوں میں شدت اس وقت آئی جب ۱۱؍اکتوبر کو سعید آباد ضلع سراج گنج میں بی این پی کی طلبہ تنظیم سابق صدر حسین محمد ارشاد کے عہد اقتدار میں قتل ہوجانے والے اپنے کارکن نذیر الدین جہاد کی یاد میں ’یومِ جہاد شہید‘ منارہی تھی۔ اس موقع پر رکھے گئے اجتماع سے سابق وزیراعظم خالدہ ضیاء کو بھی خطاب کرنا تھا، جب کہ حکومت کی خواہش تھی کہ وہ یہاں خطاب نہ کریں۔ جلسے کا اعلان کرنے پر عوام کی اتنی بڑی تعداد اُمڈ آئی۔ لوگ جلسہ گاہ کے قریب سے گزرنے والی ریلوے لائن پر بھی دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ اتفاق سے اس وقت وہاں سے ایک ٹرین گزرنے کا وقت تھا۔ یہ سہ پہر کے تین بجے کا وقت تھا۔ دن کی روشنی میں ریلوے لائن پر بڑا ہجوم دیکھ لینے کے باوجود ٹرین کے ہندو ڈرائیور نے گاڑی نہ روکی اور وہاں جمع بہت سے افراد کو کچلتے ہوئے گزر گیا۔ چھاترودل کے چھے کارکنان ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے اور پھر ہنگامے پھوٹ پڑے۔ یہ واقعہ دونوں بڑی پارٹیوں کے مابین ایک اور نزاع و تصادم کی بنیاد بن گیا۔ اس کے بعد سے مسلسل ہنگامے جاری ہیں اور خالدہ ضیاء کے درجنوں کارکنان گرفتار کیے جاچکے ہیں۔

جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے تمام تر انتقامی کارروائیوں کے باوجود اپنے روایتی نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا ہے۔ حکومتی میڈیا نے مسلسل طعنہ زنی اور طنز و تشنیع کرتے ہوئے کارکنان کو مشتعل کرنے کی کوشش کی۔ نظامی صاحب ، مجاہد صاحب، سعیدی صاحب جیسے بزرگ رہنماؤں کو بھاری پولیس نفری کے ساتھ عدالت میں پیش کیا جاتا ہے تو دونوں طرف کھڑے اوباش ان پر آوازے کستے ہیں: ’’پاکستانی ایجنٹ --- پاکستانی دلال--- پاکستانی جاسوس--- لیکن جماعتی زعما یہ آیت پڑھتے ہوئے گزر جاتے ہیں: وَّاِِذَا خَاطَبَھُمُ الْجٰہِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا(الفرقان ۲۵:۶۳)۔ گذشتہ دو ماہ میں تین بار ایسا ہوچکا ہے کہ اچانک مرکز جماعت کو ہرطرف سے گھیر کر چھاپے مارے، درجنوں سادہ اور وردی پوش افراد نے آکر ایک ایک کمرہ چھان مارا اور اپنے تئیں خوف و دہشت کی ایک فضا قائم کرنے کے بعد واپس چلے گئے۔ گرفتار شدہ رہنمائوں کو متعدد بار پولیس جیل سے تفتیشی مراکز لے جایا جاتا ہے، ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ جماعت اسلامی کے کارکنان سڑکوں پر آنے کے بجاے گھر گھر رابطے کا کام کررہے ہیں۔ عدالت میں قانونی جنگ لڑ رہے ہیں اور انھیں یقین ہے کہ کائنات کا مالک خبیر و قدیر اللہ تعالیٰ اس آزمایش اور تندی باد مخالف کو بھی ان کے لیے بلندی پرواز اور مزید کامیابیوں کا ذریعہ بنائے گا۔ یہ مقدمہ ہر حوالے سے بے بنیاد، غیرقانونی اور غیراخلاقی ہے۔ بنگلہ دیش کے عوام صرف بھارتی اشارے پر کیے جانے والے کسی ظالمانہ فیصلے کو قبول نہیں کریں گے۔

جنگی جرائم کے کئی مقدمات میں عالمی شہرت یافتہ، اعلیٰ پائے کے برطانوی وکیل اسٹیون کولیس نے بھی ۱۳؍ اکتوبر کو بنگلہ دیش سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ایک سیمی نار سے خطاب کرتے ہوئے برملا کہا ہے: یہ پورا مقدمہ، اس کے لیے بنایا جانے والا خصوصی ٹربیونل، اور کارروائی کا طریق کار، خود بنگلہ دستور، بین الاقوامی قوانین اور جنگی جرائم کے مقدمات کے لیے مطلوبہ کوائف و دستاویز سے متصادم ہے۔ ججوں کی تقرری اور ان کی واضح جانب داری سب پر عیاں ہے اور اس صورت میں ملزمین کے خلاف آنے والا عدالت کا ہر فیصلہ واضح انتقامی کارروائی سمجھا جائے گا۔

بنگلہ دیش کی عمومی فضا بھارت مخالف ہے۔ بھارت کی متکبرانہ و سازشی ذہنیت کے باعث یہ بات یقینی ہے کہ بنگلہ دیش اس کی باج گزار ریاست کی حیثیت اختیار نہیں کرسکے گا۔ البتہ امریکی اور اسرائیلی سرپرستی میں پورے خطے میں مسائل پیدا کرتا رہے گا۔ امریکا بھارت کو بنگلہ دیش کے علاوہ افغانستان میں بھی مکمل طور پر حاوی اور مؤثر قوت بنانا چاہتا ہے۔ بھارتی فلموں، گانوں اور بے حیائی کلچر کے ذریعے افغانوں کے دل و دماغ مسحور کرنے کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ بھارت وہاں تعلیم، صحت اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لیے بڑے بڑے منصوبوں کا اعلان کر رہا ہے۔ ان کی آڑ میں جاسوسی کا گہرا، وسیع اور مضبوط جال بھی بُن رہا ہے۔ مستقبل کی افغان فوج اور پولیس میں اپنی جڑیں مضبوط کر رہا ہے لیکن یہ عجیب امر ہے کہ صرف بنگلہ دیش یا پاکستان ہی کو نہیں  بھارت کے تمام پڑوسی ممالک کو بھارتی تعلّی سے شکایات ہیں۔ چین، نیپال، سری لنکا، میانمار اور بھوٹان سب کے ساتھ بھارت کا کوئی نہ کوئی تنازع چلتا رہتا ہے۔ بھارت اگر انصاف، برابری اور احترامِ باہمی کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے خطے پر قبضے کے خواب دیکھنا نہیں چھوڑے گا تو نہ صرف پڑوسی ممالک کے لیے بحرانوں کا باعث بنتا رہے گا بلکہ خود بھی بہت جلد اور یقینا مکافاتِ عمل کا شکار ہوگا۔