نومبر ۲۰۱۰

فہرست مضامین

مدیر کے نام

| نومبر ۲۰۱۰ | مدیر کے نام

Responsive image Responsive image

عرفان احمد بھٹی ، بہاول نگر

’اسلامی تحریکات کے لیے طریق کار‘ (اکتوبر ۲۰۱۰ئ) میں مولانا مودودیؒ کے قلم سے مسلمان ممالک اور اُمت مسلمہ کا جو تجزیہ کیا گیا ہے اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی صاحب فکرونظر نے ۲۱ویں صدی کے  مسلم ممالک کا حال لکھ دیا ہے۔ بعدازاں اسلامی تحریکوں اور ان کے کارکنوں کے لیے مولاناؒ نے جو لائحہ عمل تجویز کیا ہے، وہ بھی سنہرے حروف سے لکھنے جانے کے قابل ہے۔ آج نصف صدی سے زیادہ مدت گزرنے کے بعد اسلامی تحریکوں کو ان معیارات پر اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ کیا ہم نے عوام کے ایک بڑے طبقے کو اسلامی نظام کی ضرورت اور اہمیت کا قائل کر کے اس کے لیے عملی جدوجہد پر تیار کرلیا ہے؟ کیا ایسا تو نہیں کہ      آج اسلامی نظام، نظام کی تبدیلی کی جدوجہد میں زیربحث ہی نہ رہا ہو؟ آج بھی نظام کی تبدیلی کے نعرے اور دعوے تو کیے جارہے ہیں، لیکن اسلامی نظام ہی ملک اور عوام کے مسائل کا اصل حل ہے___ اس پر جس شدت سے زور دیا جانا چاہیے، اس کی کمی محسوس ہورہی ہے۔


عبدالرحمٰن ،لاہور

’زائر حج___ حرمین میں‘(اکتوبر ۲۰۱۰ئ) حج کے مختلف سفرناموں سے حج کے مراحل___ خانہ کعبہ پر پہلی نظر سے لے کر روضۂ رسولؐ پر حاضری تک کی کیفیات اور آخر میں خدا کی حقیقی بندگی کی دعوت جو کہ حج کی اصل غرض و غایت ہے، کی طرف توجہ کا اس عمدگی سے تذکرہ کیا گیا ہے کہ قاری اپنے آپ کو حرمین میں موجود پاتا ہے۔ ’استحکامِ پاکستان اور قوم کی ذمہ داری‘، پروفیسرمحمد منور مرزا کی تحریروں میں سے اچھا انتخاب ہے اور  ملکی استحکام کے لیے قوم کے کردار کو بخوبی اُجاگر کیا گیا ہے۔ ’اسلام سے انحراف کا اختیار‘ میں سیکولر اور لادین طبقے کی علمی بدیانتی اور ذہنیت پر بروقت گرفت کی گئی ہے۔


مظہرالحق ،کراچی

ہمارا ملک جس انتشار سے دوچار ہے اس کا تقاضا ہے کہ داعیانِ اسلام باہمی اختلافات اور تعصبات کو نظرانداز کرتے ہوئے قوم کو چند منکرات کے خاتمے اور چند معروف کے قیام کے لیے متحد کرنے کا بیڑا اُٹھائیں۔


عبدالرؤف ،بہاول نگر

’مجالسِ حرم‘ (اکتوبر ۲۰۱۰ئ) میں ترکی کے حالات سے آگہی ہوئی۔ یہ امرخوش آیند ہے کہ اسلامی تحریک کے حامی لوگوں کے دورِ اقتدار میں ملک نے مروجہ پیمانوں پر ترقی کا سفر بھی جاری رکھا ہے (ص ۸۲)، اور  اپنے آپ کو عوام کی نظروں میں اقتدار اور اُس کی ذمہ داریوں کا اہل ثابت کیا ہے۔ اسی طرح ریفرنڈم میں    ۵۸ فی صد ووٹوں کا حصول بھی جمہوری انقلاب کی بڑی واضح مثال ہے۔ مقصد کے حصول کے لیے جو جدوجہد ۱۹۷۰ء میں شروع ہوئی اور آج ۲۰۱۰ء میں کئی ناموں اور قائدین کی تبدیلی اور مختلف مراحل سے گزرتی ہوئی اہم اہداف کے حصول پر منتج ہوئی ہے۔ یقینا ترکی کے مخصوص پس منظر میں یہ ایک بڑی کامیابی ہے۔ اس تناظر میں ہمارے ملک کی اسلامی تحریک کے لیے بھی سبق ہے۔ کیا ہم بھی اپنے آپ کو عوام کے اعتماد کا حق دار   ٹھیرا چکے ہیں، یا کسی مرحلے پر عوام میں ہم بھی زیربحث ہیں کہ اس ملک میں ترقی اور تبدیلی کا سفر اسلامی تحریکوں کے ساتھ چل کر ہی طے ہوسکتا ہے؟


عطاء الرحمٰن ،قصور

امریکی سامراج کی اُمت مسلمہ کے خلاف سازشوں کے مختلف حربوں میں سے ایک حربہ فرقہ واریت کو ہوا دینا اور اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش ہے۔ گذشتہ دنوں صوفیاے کرام کے مزاروں پر حملے اسی سازش کا شاخسانہ ہیں۔ امریکا کی اس سازش کو قومی یک جہتی سے ناکام بنایا جاسکتا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ملک کی قیادت چند بنیادی نکات پر اتفاق راے اور ملّی یک جہتی کا مظاہرہ کرے۔


حافظ محمد ایوب ، اسلام آباد

مولانا معین الدین خٹک سے ایک بار پوچھا کہ تحریک کے ابتدائی کارکنان کے بارے میں کچھ بتائیں۔ کچھ سوچ کر بولے۔ ۱۹۵۲ء کراچی میں جماعت ِ اسلامی کا اجتماعِ عام منعقد ہوا۔ رفقا کے قافلے بسوں اور ٹرینوں کے ذریعے جوق در جوق کراچی کی طرف چل پڑے۔ موضع شیخ سلطان ٹانک (سرحد) کے تین ساتھیوں نے جو بے انتہا غریب تھے، اجتماع میں شرکت کا ارادہ کرلیا۔ کسی دوسرے ساتھی سے نہ مالی تعاون لیا اور نہ جماعت کے بیت المال ہی پر بوجھ بنے۔ یہ مذکورہ تینوں ساتھی کراچی کی جانب پیدل چل پڑے۔ ایک آنہ کی دو روٹیاں اور جی ٹی روڈ پر ایسے ہوٹل بھی ہوا کرتے تھے جہاں آنہ روٹی دال مفت بھی مل جایا کرتی تھی۔ دن بھر سفر کرتے، رات کسی مسجد میں نمازِ عشاء کے بعد آرام کرتے اور نماز فجر پڑھ کر سفر جاری رکھتے۔ استقبالیہ کیمپ سہراب گوٹھ لبِ سڑک تھا۔ ناظم استقبالیہ نے آمدہ قافلہ سے دریافت کیا کہ جناب آپ کہاں سے اور کیسے پہنچے؟ جواب سن کر کیمپ میں موجود کارکنان حیران رہ گئے۔ اجتماع گاہ میں قائد تحریک سیدمودودیؒ کو اطلاع  دی گئی۔ مولانا استقبالیہ میں تشریف لائے اور اس قافلے کا خود استقبال کیا۔ اِس قافلے کو قافلۂ سخت جان کا نام سیدصاحب نے دیا۔ ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھ گئے۔ سب کی آنکھوں سے موتی چھلک پڑے: ’’یااللہ! یہ تیرے بندے صرف تیری رضا اور تیرے دین کی بقا کے لیے جوتکالیف اُٹھا رہے ہیں ان کی قربانیوں کو قبول فرما، آمین!