نومبر ۲۰۱۰

فہرست مضامین

پاکستان اور امریکا اسٹرے ٹیجک تعلقات یا مغالطہ انگیزی اور دھوکا دہی؟

پروفیسر خورشید احمد | نومبر ۲۰۱۰ | اشارات

Responsive image Responsive image

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۲۰ تا ۲۲؍اکتوبر ۲۰۱۰ء واشنگٹن میں پاکستان اور امریکا کے درمیان ’اسٹرے ٹیجک مذاکرات‘ کے نام سے جاری بات چیت کا تیسرا دور منعقد ہوا، جس میں پاکستانی وفد کی قیادت وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے انجام دی ہے۔ ۱۳ وزارتوں کے نمایندوں (بشمول پانچ وزرا) نے ان مذاکرات میں شرکت کی ہے لیکن پاکستان کی جانب سے کلیدی کردار بری افواج کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی ہی نے ادا کیا ہے۔

جنرل صاحب حسب معمول خاموش ہیں، لیکن پاکستانی وزیرخارجہ اور وزیر اطلاعات پھولے نہیں سما رہے اوریہ دعویٰ تک کر رہے ہیں کہ: ’’ہمیشہ امریکا ہمیں سناتا اور مطالبات کرتا تھا، لیکن اب وہ ہماری بھی سن رہا ہے اور ہم نے ’برابری کی بنیاد‘ پر بات چیت کی ہے‘‘۔ ایک وزیرصاحب نے ارشاد فرمایا:  ’’امریکا ہمیں کمزور نہیں دیکھنا چاہتا‘‘۔ ایک اور شریکِ سفر وزیر کا فرمانا ہے: ’’امریکا ملک کے شمال مغربی علاقے میں دو چھوٹے ڈیم بنانے کے مصارف برداشت کرے گا‘‘، اور سب ہی آواز میں آواز ملا کر کہہ رہے ہیں: ’’ان مذاکرات کے نتیجے میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات کو نئی زندگی اور تقویت میسر آئی ہے‘‘۔

ملک کے کم و بیش تمام اخبارات نے اپنے ادارتی تبصروں میں، حزبِ اختلاف کے   تمام قائدین نے بیانات کے ذریعے، اور ٹی وی کے معروف ٹیلی میزبانوں میں سے بیش تر نے اپنے تجزیاتی پروگراموں میں ان دعووں کو بڑی حد تک ہوائی باتیں اور حقیقت سے عاری اور خوش فہمی پر مبنی خام خیالیاں قرار دیا ہے۔ امریکا سے پاکستان کے خارجہ تعلقات کی تقریباً ۶۰برسوں پر پھیلی ہوئی تاریخ کی روشنی میں اس دعوے کو تسلیم کرنے کے لیے کوئی بنیاد موجود نہیں ہے کہ پاک امریکی تعلقات محض وقتی اور مالیاتی لین دین کے مرحلے (transanctional framework) سے نکل کر اب زیادہ اصولی، دیرپا اور بنیادی نوعیت کے تعاون میں داخل ہوگئے ہیں، جسے بین الاقوامی تعلقات کی اصطلاح میں برابری کے اسٹرے ٹیجک تعلقات کہا جاتا ہے۔ زبانی کلامی ایسے دعووں کا آغاز بش کے آخری دور میں ہوگیا تھا، مگر اس کو ایک متعین شکل اب صدر اوباما کے دور میں دی جارہی ہے اور عملاً اس کا آغاز فروری ۲۰۱۰ء سے ہوا ہے۔ حالیہ مذاکرات اس سلسلے کی تیسری کڑی ہیں اور چوتھا رائونڈ ۲۰۱۱ء کے آغاز میں متوقع ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ زیادہ گہرائی میں جاکر پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی اصل حقیقت کو متعین کریں، تاکہ قوم، پارلیمنٹ، میڈیا اور اگر  اللہ توفیق دے تو موجودہ قیادت حالات کا صحیح صحیح ادراک کرسکے اور اس کی روشنی میں سیاسی، عسکری، معاشی اور تہذیبی حکمت عملی کی صورت گری کرے۔

خارجہ پالیسی کا مسلّمہ اصول

ویسے تو خارجہ تعلقات کا ایک مسلّمہ اصول یہ ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں نہ دوست مستقل ہوتے ہیں اور نہ دشمن، مستقل اور دائمی اگر کوئی چیز ہے تو وہ صرف مفادات ہیں۔ اس لیے ایک ملک کی خارجہ پالیسی انھی مفادات کے گرد گردش کرتی ہے۔ البتہ ان مفادات کے تعین میں متعلقہ ملک کے عالمی اور علاقائی مقاصد اور اہداف، اس کے سیاسی اور معاشی عزائم اور اس کی معاشی، عسکری اور سیاسی قوت پر مشتمل عناصر کارفرما ہوتے ہیں۔ ہمہ وقت بنتے اور بدلتے تعلقات پر جہاں وقتی عناصر اور تقاضے اثرانداز ہوتے ہیں، وہیں کچھ دیرپا تعلقات اور روابط بھی ہیں جو لنگر کی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں، اور ان کا انحصار بھی مقاصد کی ہم آہنگی، اقدار میں اشتراک اور مفادات کی یکسانی پر ہوا ہے اور انھی کی بنیاد پر ایک تعمیری یا افادی انداز میں تزویراتی (strategic) شراکت وجود میں آتی ہے۔

نظری طور پر ایسی حکمت عملی کے تصور کا شجرہ نسب یونان کے مفکرین سے جا ملتا ہے۔ یونانی زبان میں اس کا اصل مفہوم generalship ہے، جس کے معنی جنگ میں اعلیٰ ترین سطح پر مقاصد اور حکمت عملی مرتب کرنے کا نظام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹرے ٹیجی [حکمت کاری]کا تصور فلسفۂ جنگ کا ایک کلیدی تصور رہا ہے اور وہیں سے یہ علمِ سیاست اور بین الاقوامی تعلقات میں داخل ہوا اور پھر تزویراتی ہیکل یا strategic structure خود ایک مستقل مضمون بن گیا۔ دورِ حاضر میں جنگ اور اس کی صورت گری کرنے والے داخلی اور خارجی عوامل، اور خود جنگ کی حکمت عملی اور اس حکمت عملی کو عمل کا روپ دینے اور معاملات کا گہرائی کے ساتھ جس شخص نے مطالعے کا آغاز کیا ہے، وہ  ایک جرمن فوجی کمانڈر اور استاد کارل وون کلازے ویٹز (۱۸۳۳ئ-۱۷۸۰ئ) ہے، جس کی کتاب On Warایک کلاسیک کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں اس نے اسٹرے ٹیجی اور چال (tactic) کے فرق کو نمایاں کیا ہے۔ تزویری حکمت عملی کا تعلق مقصد اور اصل جنگی اہداف سے ہے، جب کہ ٹیکٹک ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے استعمال کیے جانے والے ذرائع، اعمال اور تنفیذی اقدام سے متعلق ہیں۔ گذشتہ دو صدیوں میں ملٹری سائنس، علمِ سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات میں اپنے اپنے انداز میں ان تصورات کو مزید نکھارا گیا اور اسٹرے ٹیجی میں بھی ’عظیم تر اسٹرے ٹیجی‘ اور ’عملی اسٹرے ٹیجی‘ کی درجہ بندی کی گئی۔ پھر جنگ، سرد جنگ، توازن، قوت وغیرہ کے پس منظر میں ان تصورات کو مزید ترقی دی گئی۔۱؎

خارجہ سیاست کے ان مباحث کی روشنی میں اگر دیکھا جائے، تو ایک عالمی طاقت کی حیثیت سے امریکا کے اسٹرے ٹیجک تعلقات صرف تین ممالک سے ہیں، یعنی برطانیہ، جو اب ایک صدی پر محیط ہیں، اور اسرائیل اور ناٹو ممالک جو تقریباً ۶۰ سال کے نشیب و فراز دیکھ چکے ہیں۔ دنیا کے باقی ممالک سے اس کے تعلقات محض کاروباری معاملہ فہمی  کی حد تک رہے ہیں اور مفادات کی دھوپ چھائوں کے مطابق اس میں تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں، جس کی زیادہ تر حیثیت آنکھ مچولی کی رہی ہے۔ کلنٹن کی صدارت کے دور میں بھارت سے امریکا کے تعلقات کو کاروباری سطح سے بلند کرکے اسے اسٹرے ٹیجک تعلقات کی طرف لے جانے کا آغاز ہوا۔ گذشتہ ۱۰، ۱۵ برسوں میں آہستہ آہستہ معاشی، عسکری اور سیاسی میدانوں میں اس سمت میں پیش رفت ہوئی، جسے بالآخر صدبش کے دور میں ۲۰۰۶ء میں نیوکلیر تعاون کے معاہدے کے ذریعے اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ کی شکل دے دی گئی۔ امریکا میں بھارتی کمیونٹی نے بھی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔   اب صورت حال یہ ہے کہ صدراوباما کی حکومت کے ایک درجن سے زیادہ کلیدی مناصب پر بھارتی نژاد امریکی رونق افروز ہیں۔ بھارت اور امریکا کی تجارت کا حجم اس وقت ۶۱ ارب ڈالر سالانہ ہے۔ پھر بھارت اور امریکا کی براہِ راست سرمایہ کاری ۱۶ ارب ڈالر سالانہ سے متجاوز ہے۔ امریکا سے کمپیوٹر ٹکنالوجی کی ہر پانچ کمپنیوں میں سے دو بھارت میں اپنا کام پھیلا چکی ہیں اور دفاعی میدان میں اسلحے کی خریداری، بھارتی مسلح افواج کی جنگی تربیت اور مشترکہ شعبوں میں تعاون کے لیے حیرت انگیز حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ بھارت نے اگلے  پانچ سال کے لیے جس ۱۰۰ ملین ڈالر کی جنگی خریداریوں کا منصوبہ بنایا ہے، اس کا بڑا حصہ امریکا اور اسرائیل سے حاصل کیا جانا ہے۔ بھارت اور امریکا کا نیوکلیر تعاون کوئی حادثاتی یا وقتی تعاون کا معاہدہ نہیں ہے، بلکہ ہموار تعلقات کا ایک حصہ ہے، جس میں بھارت کو چین کے مقابلے ایک علاقائی سوپر پاور سے بڑھ کر ایک عالمی  جنگی کھلاڑی کے کردار پر مامور کرنے کی مشترک حکمت عملی کا حصہ ہے۔ افغانستان میں بھی بھارت کے کردار کا معاملہ اسی ’عظیم تر حکمت عملی‘ کا ایک پہلو ہے۔

اس پس منظر میں پاکستانی قوم اور قیادت دونوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ حقیقت پسندی کے ساتھ پاکستان اور امریکا کے تعلقات کے حال اور مستقبل کے امکانات کا صحیح صحیح ادراک کرے، اور محض خوش فہمیوں، سر ٹکرانے کی مشقوں اور خوش نما مگر بے معنی الفاظ کے طلسم کا شکار ہوکر،  اسٹرے ٹیجک مغالطوں اور دھوکوں کی دلدل سے ملک و قوم کو محفوظ رکھے۔ حال اور مستقبل کا کوئی مبنی برحقیقت نقشہ ماضی کے تجربات کی روشنی میں عالمی اور علاقائی حالات کو سمجھے بغیر بنانا ممکن  نہیں ہے۔

پاک امریکا تعلقات: تاریخی پس منظر

پاکستان نے اپنے قیام کے فوراً بعد امریکا کے جمہوری دعووں اور سامراج کی گرفت سے آزاد ہونے والے ممالک کی تحریکاتِ آزادی کے بارے میں امریکی قیادت اور دانش وروں کے اعلانات کی روشنی میں معاشی تعاون اور سیاسی دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ خود قائداعظم نے میرلائق علی کے ذریعے امریکی صدر کو خصوصی پیغام بھیجا، لیکن اس کا کوئی بامعنی ردعمل رونما نہ ہوا۔ پھر جب  خان لیاقت علی خاں کو اشتراکی روس کے دورے کی دعوت ملی تو امریکا نے نہ صرف ان کو دورے کی دعوت دے دی، بلکہ اس کے لیے سیاسی چال بازی سے بھی کام لیاجس کے نتیجے میں روس کا دورہ منسوخ اور امریکا کا دورہ کرنا منظور ہوا۔ اس دورے کے نتیجے میں عملاً کچھ حاصل کیے بغیر ہم اپنے اڑوس پڑوس میں روس سے دُور اور ہزاروں کلومیٹر دُور امریکا کے کیمپ کی طرف سرکنے بلکہ لڑھکنے لگے۔ اس موقع پر امریکا نے ایک نئی چال چلی، جس کے بڑے دور رس اثرات پاکستان کی پوری تاریخ، اس کے بین الاقوامی تعلقات کے رُخ اور سب سے بڑھ کر ملک کی اندرونی سیاست اور قومی سلامتی کی نئی صورت گری اور پاکستانی مسلح افواج کے سیاسی کردار کی شکل میں مرتب ہوئے۔ بلاشبہہ اس میں پاکستانی افواج کی اس وقت کی قیادت کے اپنے عزائم کا بھی ایک اہم کردار ہے، لیکن یہ معاملہ یک طرفہ نہیں تھا۔ تالی کے دونوں ہی ہاتھ سرگرم تھے۔ گویا ’’دونوں طرف تھی آگ برابر لگی ہوئی‘‘۔

پاکستان کے پہلے فیلڈمارشل محمد ایوب خان کا سرکاری سوانح نگار، ایک حاضرسروس لیفٹیننٹ کرنل، ان کی داستانِ حیات My Chiefمیں، جو ان کے دورِاقتدار ہی میں شائع ہوئی، لکھتا ہے:

پاکستان کے لیے امریکی فوجی امداد جنرل ایوب کی اقدامی کوشش سے ممکن ہوئی۔ یہ خیال ان کے دماغ میں آیا اور امریکا کے سیاسی اور فوجی قائدین سے ان کے مذاکرات کے نتیجے میں امریکی حکومت نے پاکستان کو باہمی دفاعی معاہدہ کرنے کی دعوت دی۔ (دیکھیے: My Chief، لیفٹیننٹ کرنل محمداحمد، ۱۹۶۰ئ، ص ۷۳-۷۴)

جنرل ایوب خان کی کوششوں سے پاکستان سیٹو (SEATO)  اور سنٹو (CENTO) کے جال میں پھنسا۔ دوسرے فوجی ڈکٹیٹر جنرل یحییٰ کے دورِ حکومت میں امریکا چین تعلق کا باب کھلا۔ تیسرے فوجی ڈکٹیٹر جنرل محمد ضیاء الحق کے زمانے میں فوجی اور معاشی تعاون نئی بلندیوں پر پہنچا۔ چوتھے فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے امریکا کی’ دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں پاکستان کو جھونک دیا، جس آگ میں افغانستان اور عراق کے ساتھ پاکستان بھی جل رہا ہے اور خصوصیت سے اس کے شمالی علاقے اور ان علاقوں میں بھی خصوصیت سے سوات، باجوڑ،شمالی اور جنوبی وزیرستان برستی آگ اور بہتے خون کی لپیٹ میں ہیں۔ اب ’اسٹرے ٹیجک تعلقات‘ کے عنوان سے اس آگ کو شمالی وزیرستان میں بھی بھڑکانے کے لیے ترغیب و ترہیب کا ہر حربہ استعمال کیا جارہا ہے اور ۲ارب ڈالر کے وعدۂ فردا پر مبنی فوجی امداد کا چکمہ بھی دیا گیا ہے۔

یہ تصویر کا ایک رُخ ہے، دوسرا اور اصل چہرہ یہ ہے کہ ہر دور میں پاکستان کو تو اپنے مقاصد کے لیے بے دریغ استعمال کیا گیا، لیکن جب بھی پاکستان پر کوئی کڑا وقت پڑا تو بے رُخی سے منہ دوسری طرف موڑ لیا گیا۔ جب ۱۹۶۵ء میں بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو اسی لمحے امریکا نے پاکستان کی فوجی اور اقتصادی امداد کو بند کر دیا حتیٰ کہ ان فاضل پرزوں سے بھی فوج کو محروم کر دیا گیا، جو ملک کی سیکورٹی کے لیے ضروری تھے۔ یہی ڈراما دسمبر ۱۹۷۱ء میں ہوا۔ پھر اپنی بدترین شکل میں افغانستان سے روسی فوجیوں کے انخلا کے معاً بعد نہ صرف افغانستان کو غیریقینی پن اور بدترین انتشار میں دھکیل دیا گیا اور پاکستان کو اس کے نتائج بھگتنے اور ۳۰لاکھ سے زائد مہاجرین کے بوجھ کو تن تنہا سنبھالنے کی آزمایش میں ڈال دیاگیا۔ یہی نہیں بلکہ چشم زدن میں امریکی صدر کو نیوکلیر پھیلائو میں پاکستان کا کردار بھی نظر آنے لگا اور اسے پوری بے دردی سے معاشی پابندیوں کا نشانہ بنا دیا گیا۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستانی عوام امریکا کی دوستی کو محض مطلب براری کا ایک ڈھکوسلا سمجھتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم (۴۵-۱۹۳۹ئ) کے بعد سے دنیا کے تقریباً ہر اس ملک سے، جسے امریکا نے اپنی دوستی کے جال میں پھنسایا ہے، اپنا کام نکالنے کے بعد ٹشوپیپر کی طرح پھینک دیا ہے۔ اس کا مقصد محض اپنے ایجنڈے کی تکمیل رہا ہے، کسی نوعیت کی حقیقی دوستی اور شراکت نہیں۔ امریکا کا کردار مفاد پرستی کے ساتھ ساتھ دوغلے پن، رعونت اور دوسروں کی تحقیر و تذلیل کا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے پاکستان کے عوام نے ۱۹۶۵ء کے بعد کبھی بھی امریکا کو اپنا دوست تصور نہیں کیا، حتیٰ کہ اس زمانے میں بھی جب افغان جہاد کے سلسلے میں امریکا، پاکستان اور عالمِ اسلام میں خاصی قربت تھی۔ عراق ایران جنگ کے دوران میں تو امریکا مخالف لاوا بری طرح پھٹ پڑا۔ تمام اسلامی ایشوز کے سلسلے میں امریکا کی پالیسیوں اور اس کی اسرائیل نوازیوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا ۔

امریکا کے خلاف نفرت

۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے قابلِ مذمت واقعے کو جس طرح امریکا نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا اور افغانستان، عراق، اور خود پاکستان کے علاقوں کو جنگ کا میدان بنا دیا، اس نے امریکا مخالف کے جذبات کو تقویت دی، اور ان مسلمان حکمرانوں کو بھی نفرت کا ہدف بنادیا، جو امریکا کا ساتھ اپنے عوام کے جذبات اور احساسات کے برعکس دے رہے تھے۔ ۲۰۰۲ء سے آج تک جتنے بھی سروے پاکستان، عالمِ اسلام اور تیسری دنیا میں ہوئے ہیں، ان میں آبادی کی عظیم اکثریت نے مسلمان ممالک بشمول پاکستان ۷۰ سے ۸۰ فی صد آبادی نے امریکا کی پالیسیوں، اس کے جارحانہ اقدامات، اور اس کے دوغلے پن پر شدید نفرت اور غصے کا اظہار کیا ہے۔ گیلپ کے سروے ہوں، یا پیوگلوبل کے، یا خود امریکی اداروں کے۱؎، ان سب کا حاصل امریکا کے خلاف شدید     بے زاری، اس کے سامراجی ایجنڈے کی مخالفت رہا ہے۔ مسلمان ممالک میں اس کی فوجی کارروائیوں کی شدید مذمت، امریکا اور اس کی ان پالیسیوں اور اقدام کو اپنی آزادی، سلامتی اور نظریاتی اور تہذیبی شناخت کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھنا ہے۔ امریکا نے جو بھی کوشش مسلمانوں کے دل و دماغ میں کوئی خوش گوار تصور قائم کرنے کے لیے کی، وہ بُری طرح ناکام رہی ہے۔ مسلمان عوام کا عزم اور ارادہ بالکل واضح ہے، یعنی امریکا کی گرفت سے آزادی۔ جہاں بھی وہ فوج کشی کر رہا ہے، اس کے خاتمے اور اپنے معاملات کو خود اپنے نظریات، تصورات اور خود اپنے مفادات کی روشنی میں منظم اور مرتب کرنے کے عزم اور امریکا کی گرفت سے نجات کی کوشش ایک عملی جذبے کی صورت میں دیکھی جاسکتی ہے۔

عوام کی سوچ ، اور حکمرانوں کی سوچ اور پالیسیوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس کا اندازہ اس سروے سے کیا جاسکتا ہے، جو خالص امریکی ادارے ’نیوامریکن فاونڈیشن‘ نے سوات، باجوڑ اور فاٹا کے دوسرے علاقوں میں ابھی ۲۰۱۰ء کے وسط میں کیا ہے اور جس سے خود ان کے دانش ور انگشت بدنداں ہیں۔ یہ سروے صرف اس علاقے کے لوگوں کی آرا پر مبنی ہے، جہاں اس وقت دہشت گردی اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا محاذ گرم ہے۔ جہاں پاکستانی فوج اور امریکی ڈرون حملے بظاہر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سرگرم ہیں، اور اس طرح مقامی آبادی کو دہشت گردوں سے بچانے کی خدمت انجام دے رہے ہیں، لیکن آگ اور خون کی اس ہولی کے ستم زدہ عوام کا ۷۵ فی صد امریکا کے ڈرون حملوں کا مخالف ہے۔ سروے میں جواب دینے والوں میں سے ۴۸ فی صد کی راے میں ان حملوں سے صرف معصوم انسان لقمۂ اجل بن رہے ہیں۔  ۳۳فی صد کا دعویٰ ہے کہ سویلین اور دہشت گرد دونوں ان کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اس سروے کا سب سے زیادہ چشم کشا حصہ وہ ہے، جس میں اعتراف کیا گیا ہے کہ وہ لوگ جو دہشت گردوں کے خلاف ہیں، ان میں سے بھی ۱۰ میں سے ۶، یعنی ۶۰ فی صد یہ کہتے ہیں کہ: ’’امریکی افواج کے خلاف خودکش حملے اپنا جواز رکھتے ہیں‘‘۔ اور ستم بالاے ستم یہ کہ ۱۰ فی صد کی نگاہ میں پاکستانی فوج  جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک ہے، اسے بھی نشانہ بنایا جانا درست ہے۔     (ڈیلی ٹائمز، اسلام آباد، ۸؍اکتوبر ۲۰۱۰ئ، دی نیشن، لاہور، ۱۰؍اکتوبر ۲۰۱۰ئ)

سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس ملک کی آبادی کا ۸۰ فی صد دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ اور اس میں پاکستان کی حکومت اور فوج کی شرکت کے خلاف ہو اور فاٹا کا وہ علاقہ جسے دہشت گردی سے پاک کرنے کے لیے امریکی فوج ڈرون حملے کر رہی ہو، وہاں کی آبادی بھی ۷۵فی صد، ڈرون حملوں کے خلاف ہو، وہاں کے ۶۰ فی صد لوگ امریکی فوج کے خلاف خودکش حملوں تک کو صحیح سمجھتے ہوں اور جس ملک کی پارلیمنٹ نے اپنے مشترک اجلاس میں مکمل یکسوئی کے ساتھ متفقہ طور پر خارجہ پالیسی کو آزاد بنانے، ملک کی حاکمیت پر حملوں کا جواب دینے، اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی پالیسی پر نظرثانی کرنے کا مطالبہ کیا ہو، اس کی حکومت اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ کے نام پر امریکی پالیسیوں کو جاری رکھنے اور امریکا کے لیے اپنے لوگوں کو مارنے اور اپنے ہی علاقوں میں بم باری کرنے کی خدمات کا صلہ وصول کرنے کا راستہ اختیار کرتی ہے، تو کیا اسے قوم کے عزائم اور خواہشات کے مطابق کہا جائے گا یا ان کی مکمل نفی سمجھا جائے گا؟

حکومت کی پالیسیوں اور عوام کی خواہشات میں جتنی وسیع خلیج حائل ہے، اور خود ملک میں پائے جانے والے ایک نہیں کئی کئی حوالوں سے اعتماد کا بحران ہے۔ ایک پالیسی کے واضح تفاوت (policy deficit) کی غمازی کرتا ہے۔ یہ عمل اپنی اصل کے اعتبار سے بالآخر خود جمہوریت کے فقدان (democracy deficit) کی شکل اختیار کرتا ہے۔ جمہوریت نام ہے عوام کی مرضی کے مطابق حکمرانی کا۔ جمہوریت، حکمرانوں اور ان کے بیرونی آقائوں کی خواہشات مسلط کرنے کا نام نہیں اور یہی وجہ ہے کہ امریکی پالیسیوں کو خواہ کچھ بھی نام دیا جائے اور ان کو قابلِ قبول بنانے کے لیے کتنی ہی شکرآمیز(sugar coated) امداد کا اضافہ کردیا جائے، قوم انھیں قبول تو کیا، برداشت بھی نہیں کرے گی۔ نتیجہ یہ کہ حکومت، فوج اور عوام میں دُوری اور مغائرت بڑھتی جائے گی جس  کے نتیجے میں امریکا کے خلاف نفرت اور غصے میں اور بھی اضافہ ہوگا۔ کش مکش اور تصادم کی کیفیت روز افزوں ہوگی اور معاشرہ امن و چین سے محروم رہے گا۔

اس تصویر کا ایک اور رُخ بھی ہے جو پریشان کن ہے اور وہ خود امریکا کے حکمرانوں، پالیسی سازوں، میڈیا اور بالآخر عوام میں پاکستان کے امیج اور تصور سے متعلق ہے۔ اسٹرے ٹیجک تعلقات تو تاریخی بات ہیں، عام تعلقات کا انحصار بھی اعتمادِ باہمی، اور ایک دوسرے کے بارے میں منافقت پر مبنی نہیں۔ خلوص اور شفاف انداز میں اچھے جذبات اور قابلِ بھروسا توقعات پر ہونا چاہیے۔ اگر دل کی گہرائیوں سے ایک دوسرے پر بھروسا نہ ہو، صداقت کے بجاے کذب، دھوکا اور گندم نما جو فروشی کا خدشہ بلکہ یقین ہو اور ہر قدم پر دوغلی پالیسی پر عمل دکھائی دے رہا ہو تو اس فضا میں دوستی اور تعاون مغالطے اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ پاکستان کے عوام اور اغلباً اس کی فوج اور وہ حکمران جو عملاً امریکا سے معاملات کرتے رہے ہیں اور باربار کے ڈسے ہوئے ہیں، امریکا کے ناقابلِ اعتماد ہونے کی شہادت دیتے ہیں۔ عوام سے کیے گئے تمام ہی اہم راے عامہ کے جائزوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستانی عوام امریکا کی دوستی کو اثاثہ نہیں ایک بوجھ، مصیبت اور خطرہ سمجھتے ہیں۔ ایک غیرملکی ادارے ورلڈ پبلک اوپنین آرگنائزیشن (WPOO) کے جنوری ۲۰۰۸ء کے ایک سروے کے مطابق: ’’صرف ۶ فی صد عوام یہ سمجھتے ہیں کہ پاک امریکا دوستی سے پاکستان کو فائدہ پہنچا ہے۔ اس کے مقابلے میں ۴۴ فی صد کا کہنا ہے کہ یہ تمام پالیسیاں صرف امریکا کے مفاد میں تھیں اور ۲۹ فی صد نے کھل کر کہا ہے: ’’امریکا نے پاکستانی مفادات کو نقصان پہنچایا ہے‘‘۔

بحیثیت مجموعی ۷۲ فی صد پاکستانی عوام اس راے کے حامل ہیں کہ ایشیا میں امریکی افواج کی موجودگی پاکستان کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے، جب کہ مزید: ’’۱۲ فی صد کا خیال ہے بڑا تو نہیں، لیکن خطرہ ضرور ہے۔ گویا ۸۴ فی صد اس علاقے میں امریکا اور روس کی افواج کی موجودگی کو کسی نہ کسی شکل میں خطرہ سمجھتی ہے۔ کیا اس احساس کے باوجود پاکستان اور امریکا میں کسی حقیقی اسٹرے ٹیجک تعاون کا امکان ہے؟

یہ تو پاکستانی عوام کے جذبات اور خدشات ہیں، لیکن خود امریکا کے کارفرمائوں کا پاکستان، اس کی قیادت، اس کی افواج کے ذمہ داران اور ان کی پالیسیوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اس کا اندازہ ہر وہ شخص کرسکتا ہے، جو امریکی سول اور فوجی قیادت کے بیانات اور میڈیا کی گل افشانیوں پر کچھ بھی نظر رکھتا ہے۔ اس چیز کے عملی تجربے سے ہر وہ شخص گزرتا ہے، جو پاکستانی پاسپورٹ پر امریکا کے سفر کی اذیت سے گزرتا ہے۔ واشنگٹن کے حالیہ مذاکرات کی روداد نگاری کے لیے جو صحافی پاکستانی وفد کے ساتھ گئے تھے، وہ اس کے چشم دید گواہ ہیں۔ جسے کچھ شک ہو وہ جاوید چودھری کا کالم ۲۱؍اکتوبر کے ایکسپریس ٹربیون میں پڑھ لے۔ راقم الحروف نے تو اپریل ۲۰۰۴ء میں ایرپورٹ کے عملے کے ہتک آمیز رویے کے وقت ہی کہہ دیا تھا کہ اس کے بعد امریکا سفر نہیں کرے گا۔ یہ ذاتی تجربات بھی قوموں کے تعلقات کی صورت گری کو متاثر کرتے ہیں، لیکن ہم یہاں پاکستانی قوم اور اس کی قیادت کی توجہ باب ووڈ ورڈ (Bob Woodward) کی حالیہ کتاب Obma's Wars: The Inside Storyکی طرف مبذول کرائیں گے، جو اوباما اور ان کی پالیسی ساز ٹیم کے ذہن کی عکاس ہے، اور جسے بھی امریکا سے معاملہ کرنا ہو، اس کے لیے  اس کتاب کا مطالعہ ازبس ضروری ہے۔

امریکی حکمت عملی ___ ایک فکرانگیز تجزیہ

باب ووڈورڈ، امریکا کا ایک چوٹی کا صحافی اور نہایت وسیع تعلقات رکھنے والا سیاسی  تجزیہ نگاراور مصنف ہے۔ اس کی کتاب Bush's Warsصدر بش کے دورِ حکومت میں شائع ہوئی، اور بش کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ اس کے حقیقی مقاصد، پالیسی ساز افراد کی سوچ، اور اس کی روشنی میں بننے والی آخری حکمت عملی پر ایک مستند دستاویز سمجھی جاتی ہے۔ اب امریکی صدر اوباما کی حکمرانی کے دو سال پورے ہونے سے قبل Obama's Wars کی شکل میں اوباما کے دور میں خارجہ پالیسی اور خصوصیت سے جنگی حکمت عملی میں جوتبدیلیاں آئی ہیں، ان کا احوال اس کتاب میں مذکور ہے۔ ان دونوں کتابوں کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ دونوں امریکی صدور اور  ان کے چوٹی کے مشیروں اور پالیسی ساز افراد کی سوچ اور پالیسی سازی کے پیچھے جو مشورہ، فکر، بحث و مباحثہ ہوا ہے، اس کا ایک معتبر مرقع ہے۔ یہ امریکی جمہوریت کا ایک مثبت پہلو ہے کہ اس میں پالیسی سازی کے بارے میں ایسی معلومات قوم کے سامنے لائی جا سکتی ہیں، اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے علم کی حد تک ان دونوں کتابوں میں جو باتیں کہی گئی ہیں اور امریکی صدر، پالیسی ساز افراد اور دنیا کے دوسرے لیڈروں سے جو باتیں منسوب کی گئی ہیں، ان کی تردید نہیں آئی۔ اس لیے اس کتاب کے مندرجات کو معتبر ماننے میں کوئی چیز مانع نہیں۔

یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ امریکا کا صدر اور پالیسی ساز اپنے ملک کے مفادات کے مطابق پالیسی سازی کے لیے کتنے بحث ونظر کے بعد پالیسیاں بناتے ہیں، جب کہ ہمارا حال یہ ہے کہ جس کا جی چاہتا ہے چلتے پھرتے نہایت بنیادی پالیسی بیان داغ دیتا ہے، اور تمام بنیادی مشاورتی اداروں کو نظرانداز کرکے پالیسیوں کا اعلان کر دیتا ہے۔ جنرل مشرف تو ڈکٹیٹر تھا، جو خواہ معاملہ نائن الیون کے بعد کی پالیسی کا ہو اور خواہ کشمیر کے حل کی تلاش میں اقوامِ متحدہ کی قراردادوں تک کو نظرانداز کرنے کا، وہ اپنی من مرضی کی بنیاد پر قوم کی قسمت سے کھیلتا تھا۔ اب یہی حال زرداری صاحب، گیلانی صاحب اور حتیٰ کہ وزیرخارجہ صاحب کا بھی ہے کہ جو منہ میں آتا ہے، بے دریغ بیان فرما دیتے ہیں اور کوئی احتساب نہیں ہوتا۔ اس کی تازہ ترین مثال وزیرخارجہ کا وہ ناقابلِ فہم بیان ہے، جو انھوں نے ہاورڈ یونی ورسٹی میں ایران کے ایٹمی پروگرام اور اس کے سکیورٹی معاملات کے بارے میں ارشاد فرمایا۔ امریکا میں جو وقت اور صلاحیت، پالیسی سازی کے لیے صرف کی جاتی ہے، پھر تحقیق، بحث و مباحثہ اور افہام و تفہیم سے قومی امور کو طے کرنے کے لیے دماغ سوزی کی جاتی ہے، ہمارے یہاں وہ بدقسمتی سے سازشوں اور ذاتی مفادات کے حصول کی نذر ہوجاتی ہے۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے جو پالیسیاں بنتی ہیںعارضی نوعیت کی ہوتی ہیں اور قومی مفادات اور تاریخی تقاضوں سے کوئی مطابقت نہیں رکھتیں۔

اوباما صاحب کے ایک مشیر بروس ریڈل (Bruce Ridel) جس کا افغانستان اور پاکستان کے بارے میں پالیسی بنانے میں کلیدی کردار ہے اور جو AFPAK (افغانستان، پاکستان) جیسی مکروہ اصطلاح کا خالق ہے، اس کا کہنا ہے کہ ’’امریکا کی سلامتی کے لیے پاکستان ایک خطرہ ہے‘‘۔ ملاحظہ ہو:

آج کی دنیا کا خطرناک ترین ملک [پاکستان ہے] جہاں اکیسویں صدی کے تمام  خوف ناک امور___ دہشت گردی، حکومت کا عدمِ استحکام، کرپشن اور ایٹمی ہتھیار جمع ہیں۔ (باب ووڈ ورڈ، Obma's Wars: The Inside Story، ص ۸۹)

موصوف ہی نہیں صدر اوباما کی ابلیس کی مجلسِ شوریٰ کے تمام ہی ارکان کا فتویٰ ہے کہ: ’’پاکستان دہشت گردی کا مرکز ہے‘‘۔ اور اصل خطرہ گویا نہ عراق میں ہے اور نہ افغانستان میں___ بلکہ خود پاکستان ہے:

لیکن امریکا کوفوری خطرہ ان وار زونز سے نہیں ہے بلکہ پاکستان سے ہے جو ۱۷کروڑ آبادی کا ایک غیرمستحکم ملک ہے اور جس کی جنوبی افغانستان کے ساتھ ۱۵۰۰ میل کی سرحد ہے اور جس کے پاس تقریباً ۱۰۰ ایٹمی ہتھیار ہیں۔ (ایضاً، ص ۳)

ایک اور مشیر وائس ایڈمرل مائیکل میک کونیل کا ارشاد گرامی ہے: ’’پاکستان افغان جنگ میں امریکا کا بددیانت پارٹنر ہے۔ وہ [پاکستانی] جھوٹ بولتے ہیں‘‘(ایضاً، ص ۳)۔ ایک اور مشیر ڈینس بلیر نے لکھا ہے: ’’مختلف اسلامی گروپوں کو جڑ سے اُکھاڑنے میں حکومتِ پاکستان زیادہ مددگار نہیں رہی ہے‘‘۔(ایضاً، ص ۱۶۲)

ان بیانات کی روشنی میں ہمیں کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ یہ خیالات صرف مشیروں کے نہیں، خود صدرباراک اوباما ساری بحث سن کر جو واضح بات کہتے ہیں، وہ امریکی قیادت کے اصل ذہن اور ہدف کے بارے میں کوئی شبہہ باقی نہیں رہنے دیتی: ’’ہمیں لوگوں کو واضح طور پر یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ سرطان پاکستان میں ہے‘‘۔(ایضاً، ص ۳۰۲)

یہی وجہ ہے کہ نئی حکمت عملی کا عنوان AFPAK )(ایفپاک) رکھا گیا، بلکہ ایک موقع پر تو اسے PAKAF رکھا جانے کا مشورہ دیا گیا، مگر بطور مصلحت یا دھوکا دینے کے لیے افغانستان کو پہلے اور پاکستان کو بعد میں رکھا، البتہ مقصد بالکل واضح تھا___ افغانستان اور پاکستان دونوں اب ایک مشترکہ ہدف کے طور پر نشانے پر ہیں۔ بروس ریڈل کے الفاظ میں: ’’بڑی تبدیلی یہ ہے کہ امریکا، افغانستان اور پاکستان کے دو ممالک کا نہیں بلکہ ایک چیلنج: AFPAK کا سامنا کرے گا‘‘۔ (ایضاً، ص ۹۹)

امریکی حکمت عملی کا اصل ھدف

امریکا کی ’عظیم تر حکمت عملی‘ کے اس منظرنامے میں، وہ کیا اقدام کر رہا ہے یا کرنا چاہتا ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے ذہن میں یہ بات تازہ کرنے کی ضرورت ہے کہ امریکا، پاکستان، اس کی سیاسی قیادت، عسکری قیادت، اور اس کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے بارے میں کئی مفروضوں پر اپنی سوچ اور اپنے اثرات مرتب کررہا ہے۔

امریکا کا اندازہ ہے کہ پاکستان میں فیصلہ سازی کے عمل میں سول حکومت کے مقابلے میں فوجی قیادت کا کردار زیادہ اہم ہے، اس لیے اس کی توجہ کا اصل مرکز فوجی قیادت ہے: ’’بہت سے حوالوں سے پاکستانی فوج کو ملک کی قسمت اور سمت پر تاریخی طور پر کمزور سول قیادت کی      بہ نسبت بہت زیادہ اختیار حاصل ہے‘‘۔ (جنرل کیانی، جو پاکستان کی فوج کے سربراہ ہیں، ان کا اثرورسوخ بڑھ رہا ہے، ص ۱۸۸)

جنرل جونز اور رابرٹ گیٹس نے بروس رڈل سے صاف صاف پوچھا: ’’کیا یہ ممکن ہے کہ پاکستانیوں پر اعتماد کیا جائے؟‘‘ جواب ملاحظہ فرمایئے:

۱۹۸۰ء کے وسط کے بعد سے میں آئی ایس آئی کے ہر سربراہ کو جانتا ہوں۔ کیانی کو یا تو اپنی تنظیم پر کنٹرول نہیں ہے یا وہ سچ نہیں بول رہا۔ امریکا کو یہ واضح بات دیکھنا چاہیے۔ اس نے کہا کہ پاکستانی جھوٹ بول رہے ہیں۔ اس نے مولن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: تم کیانی سے درجنوں بار ملے ہو، تم یہاں موجود لوگوں میں سب سے زیادہ اسے جانتے ہو۔ میرا تاثر ہے کہ وہ دوسرے زمرے میں آتا ہے، یعنی جھوٹا۔ مولن نے اختلاف نہیں کیا۔(ایضاً، ص ۱۰۱)

افغانستان کے کٹھ پتلی صدر حامد کرزئی نے بھی پاکستان اور اس کی افواج پر گنداُچھالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی:

کرزئی نے اس یقین کا اظہار کیا کہ پاکستان کی آئی ایس آئی نے طالبان کو بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ کلنٹن نے پوچھا کہ کیا تم واقعی سمجھتے ہو کہ اگر آئی ایس آئی چاہے تو ملاعمر کو پکڑ سکتی ہے؟ کرزئی نے اپنے سامنے پلیٹ سے ایک چاکلیٹ بسکٹ اُٹھاتے ہوئے کہا کہ وہ ملاعمر کو اس طرح پکڑ سکتے ہیں جس طرح میں نے یہ بسکٹ اُٹھایا ہے۔(ایضاً، ص ۳۵۵)

ایک طرف پاکستان کی بے وفائیوں اور کذب بیانیوں کی یہ افسانہ سازی ہے، تو دوسری طرف یہ بھی دیکھیں کہ عملاً جنرل پرویز مشرف اور صدر آصف زرداری کا ہاتھ مروڑ کر امریکا نے پاکستان میں اپنی عسکری اور سیاسی سیادت کس حد تک قائم کی ہوئی ہے اور پھر بھی ’ہل من مزید‘ یا ’کچھ اور کرو‘  کا مطالبہ ہے اور ساتھ ہی ساتھ دوغلے پن کا طعنہ اور بلیک میل بھی کیا جا رہا ہے۔

صدر اوباما سی آئی اے کے ڈائرکٹر جنرل مائیکل ہیڈن سے پوچھتے ہیں:

اوباما نے پوچھا: آپ پاکستان میں کتنا کر رہے ہیں؟ بائیڈن نے کہا: پوری دنیا میں ہونے والے امریکی حملوں کا ۸۰ فی صد یہاں ہوتے ہیں۔ آسمان کے ہم مالک ہیں، ڈرون پاکستان میں خفیہ بیس سے اُڑتے ہیں اور واپس آتے ہیں۔ القاعدہ قبائلی علاقے میں ایسے لوگوں کو تربیت دے رہی ہے جن کو اگر آپ ڈلس کی ویزا لینے والوں کی قطار میں دیکھیں گے تو ان کو خطرے کے طور پر نہیں پہچان پائیں گے۔(ایضاً، ص ۵۲)

صدر آصف زرداری کس طرح امریکی نائب صدر جوبائیڈن کے سامنے اپنی اسنادِ خدمت پیش کرتے ہیں، اس کی ایک جھلک بھی دیکھ لیں کہ پاکستان اور امریکا کے نام نہاد اسٹرے ٹیجک تعلقات کا ایک منظر یہ بھی ہے:

آپ کو میری مدد کرنے کی ضرورت ہے تاکہ میں اپنے ملک میں کافی اثرورسوخ حاصل کروں۔ آپ کو معلوم ہے کہ ملک امریکا دشمنی سے بھرا ہوا ہے اور وہ ایک امریکی   آلہ کار کی حیثیت سے مجھ سے نفرت کریں گے۔ آپ کو مجھے اقتصادی وسائل دینا ہوں گے تاکہ میں لوگوں کی حمایت حاصل کرسکوں کہ ان کے لیے بھی اس میں کچھ ہے۔ زرداری نے کہا: میں آئی ایس آئی کو ٹھیک کرنے میں مدد دینا چاہتا ہوں۔ ہمیں اس کھیل سے باہر نکلنا چاہیے۔(ایضاً، ص ۶۳-۶۴)

ڈرون حملے، جن کے بارے میں ڈھائی سال کے انکار کے بعد اب پاکستان کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے فضائی نگرانی کے لیے اجازت دی تھی، لیکن اب بھی یہ اعتراف نہیں کیا کہ میزائل گرانے کی اجازت کس نے دی ہوئی ہے۔ دوسری طرف امریکی قیادت اس سلسلے میں کوئی پردہ نہیں رکھتی اور برملا کہتی ہے ہم سب کچھ پاکستان کی سرزمین سے کر رہے ہیں اور پاکستانی حکومت اور فوج کے تعاون سے کررہے ہیں۔ جنرل مائیکل ہیڈن کا بیان اُوپر آگیا ہے۔ اب خود صدر پاکستان کی شہادت بھی دیکھ لیں۔ باب ووڈورڈ صدر زرداری سے جنرل مائیکل ہیڈن کی ۱۲نومبر ۲۰۰۹ء نیویارک میں ملاقات کی کچھ جھلکیاں یوں دکھاتا ہے:

ڈرون حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکت پر پاکستانی میڈیا امریکا کو بُرا بھلا کہتا رہا ہے لیکن پاکستانی شہریوں کی اتفاقیہ ہلاکتیں کہانی کا صرف نصف حصہ ہیں۔

بہت سے مغرب کے افراد جن میں امریکی پاسپورٹ رکھنے والے بھی کچھ شامل ہیں، پانچ دن قبل شمالی وزیرستان کے قبائلی علاقے میں ’کیم شام ٹریننگ کیمپ‘میں ہلاک ہوئے تھے۔ پاکستانیوں کو سی آئی اے کا ایک نہایت خفیہ نقشہ دیا گیا تھا جس میں حملے کی تفصیل بتائی گئی تھی لیکن اس میں ہلاکتوں کے چونکا دینے والے اس واقعے کا ذکر نہ تھا۔ سی آئی اے تفصیلات بتانے کو تیار نہیں تھا۔

پاکستانی سفیر نے ہیڈن سے پوچھا کہ آپ ہدف کا انتخاب کیسے کرتے ہیں؟ ہیڈن نے جواب دیا: سی آئی اے بہت زیادہ احتیاط کرتی ہے۔ القاعدہ کے سات چوٹی کے لیڈر اس سال بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ ایک گھنٹے کی گفت و شنید کے بعد صدر پاکستان کی ہیڈن سے ون آن ون ملاقات ہوئی۔ زرداری ڈرون حملوں سے شہری ہلاکتوں کے بارے میں تنازعے کی بوجھل فضا کو صاف کرنا چاہ رہے تھے۔ زرداری نے کہا: سینیرز کو ہلاک کرو۔ ضمنی نقصانات امریکیوں کو پریشان کرتے ہیں، مجھے نہیں۔

اس کے بعد باب ووڈورڈ لکھتا ہے: ’’زرداری نے سی آئی اے کو اہم گرین سگنل دے دیا۔ ہیڈن نے حمایت کی تحسین کی، مگر اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اس سے القاعدہ کو تباہ کرنے کا مقصد حاصل نہیں ہوگا‘‘۔(ایضاً، ص ۲۶)

صدر جارج بش کے دورِصدارت کے بارے میں باب ووڈورڈ لکھتا ہے: ’’بش نے ہدایت کی تھی کہ پاکستان کو ڈرون حملے کی اطلاع ساتھ ہی ملنا چاہیے، یعنی جب حملہ ہو رہا ہو تو انھیں اس کا علم ہو، یا یقینی بات کرنے کے لیے چند منٹ کے بعد‘‘۔(ایضاً، ص ۵)

باب ووڈورڈ، صدر بش کے دور میں امریکی ڈرون حملوں کے علاوہ باقاعدہ امریکی فوجی آپریشن کا بھی ذکر کرتا ہے، اور بش کا یہ فیصلہ بھی ریکارڈ کرتا ہے کہ: ’’امریکی ڈرون اب پاکستانی آسمانوں کے مالک ہیں۔ اب پاکستان کی حدود کے اندر مزید کوئی زمینی حملہ نہیں کیا جائے گا‘‘۔(ایضاً، ص ۸)

البتہ ایسے آپریشن کی تیاری اور اگر ضرورت محسوس ہو تو اسے کر گزرنے کی تیاریاں پوری طرح ہیں:

ایک اہم خفیہ راز جو میڈیا یا کہیں بھی رپورٹ نہیں ہوا ہے، افغانستان میں سی آئی اے کی ۳ہزار افراد پر مشتمل خفیہ فوج کی موجودگی ہے۔ دہشت گردی کا پیچھا کرنے والی یہ ٹیمیں (سی ٹی پی ٹی) بیش تر افغانوں پر مشتمل ہیں جو سی آئی اے کی راے میں فوج کا بہترین عنصر ہیں۔ ان ٹیموں کو سی آئی اے تنخواہ دیتی ہے، تربیت دیتی ہے، اور یہ    سی آئی اے کے آلۂ کار ہیں اس کی اجازت بش نے دی تھی۔ یہ ٹیمیں طالبان باغیوں کو قتل کرنے یا پکڑنے کے لیے آپریشن کرتی تھیں اور قبائلی علاقوں میں بھی امن قائم کرنے یا حمایت حاصل کرنے کے لیے ان علاقوں کے اندر چلی جاتی تھیں۔(ایضاً، ص ۸)

اس کے ساتھ امریکا ایک طرف ڈرون حملوں کے دائرے کو وسیع کرنے کے مطالبات کررہا ہے اور دوسری طرف مختلف طریقوں سے پاکستان کی سرزمین پر فوجی آپریشن کے لیے مطالبات میں اپنی راہ کشادہ کر رہا ہے۔ یہ دھمکی اور تیاری بھی ساتھ ساتھ ہے کہ: ’’اگر امریکا میں کوئی بھی دہشت گردی کا واقعہ ہوتا ہے تو پاکستان کی خیر نہیں اور اجازت تو کیا اطلاع کے بغیر امریکا اقدام کرگزرے گا، اور اس کے لیے ۱۵۰ مقامات کی نشان دہی کی جاچکی ہے‘‘۔

سیاسی اور عسکری قیادت کا مایوس کن کردار

اس کتاب میں دو جگہ صاف صاف اس عندیے کا اظہار کیا گیا ہے اور فیصل شہزاد کے واقعے کے بعد خصوصی ایلچی کے ذریعے صدر زرداری صاحب کو صاف پیغام دے دیا گیا ہے اور اس کی تازہ ترین قسط وہ ہے، جو حالیہ واشنگٹن مذاکرات کے موقعے پر صدر اوباما سے ’اتفاقیہ‘ ملاقات میں پوری شانِ تحکم کے ساتھ ادا کی گئی___ یعنی: اگر کوئی واقعہ ہوتا ہے تو امریکی فوجوں کی براہِ راست مداخلت کا مزا چکھنے کے لیے تیار رہو:

اصل مسئلہ یہ تھا کہ کیا امریکی فوجی پاکستان کی سرزمین پر آپریشن کرسکتے ہیں؟ روایتی طور پر یہ ایک سرخ لکیر ہوتی تھی لیکن یہی مسئلے کی جڑ تھی جسے حل ہونا تھا۔ سلامتی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے انھیں مرکزثقل کی طرف جانا ہوگا اور یہ انھیں کرنا ہوگا۔(ایضاً، ص ۲۰۸)

اور کتاب کے آخر میں ایک بار پھر واضح پیغام اور عزائم کا یہ اظہار :

پاکستان نے ڈورن پروازوں کی اجازت مخصوص علاقوں کے لیے دی تھی جن کو ’باکس‘ کہا جاتا ہے کیونکہ جنوب میں پاکستان کی زمینی فوج بہت بڑی تعداد میں موجود ہے، لہٰذا وہ اس علاقے میں ’باکس‘ کی اجازت نہیں دیں گے۔ پینیٹر نے کہا: اس ’باکس‘ کو حاصل کرنا ہماری ضرورت ہے۔ ہمیں اپنا آپریشن کرنے کے لیے اس کی ضرورت ہے۔

باب ووڈورڈ کے بقول یہ بحث جنرل اشفاق کیانی کی موجودگی میں ہورہی تھی، اور اس کا دعویٰ ہے کہ: ’’جنرل کیانی وضاحت پیش نہ کرسکے‘‘۔ بالآخر امریکا نے اپنے اصل مقصد کو یوں بیان کردیا:

پینیٹرنے کہا: امریکا کو کچھ نہ کچھ زمینی افواج کی ضرورت ہے۔ ہم یہ کام زمین پر اپنے فوجیوں کے بغیر نہیں کرسکتے۔ یہ پاکستانی ہوسکتے ہیں یا ہمارے۔ بہرحال ہمیں زمین پر کچھ فوجی ضرور چاہییں۔ امریکا کی تیزی سے حملہ آور جے سی او سی یونٹس بہت زیادہ نظروں میں آتی ہیں۔ اس کا اصل متبادل خفیہ جنگ کی بہت بڑی توسیع ہے۔ اب اس کی ۳ہزار افواج پر مشتمل سی ٹی پی ٹی کے دستے سرحد پار کرکے پاکستان کے اندر آپریشن کر رہے ہیں۔(ایضاً، ص ۳۶۰-۳۶۱)

کیا اس سے بھی زیادہ کھلے لفظوں میں امریکا کے اصل اسٹرے ٹیجک اہداف کی کسی نشان دہی کی ضرورت ہے؟ کتاب کے آخری ابواب میں باب ووڈورڈ امریکا کے مخمصے کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی اورعسکری قیادتیں اپنے اپنے انداز میں مایوس کن ہیں:

ان لوگوں کے ذریعے امریکا کچھ حاصل نہیں کر رہا۔ زرداری سے بات کرکے جس کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے، یا کیانی سے جس کے پاس کچھ کرنے کے اختیارات ہیں لیکن اس نے کچھ زیادہ کرنے سے انکار کر دیا۔ کوئی اس کو کچھ نہیں کہہ سکتا۔ آخری حد مایوس کن تھی۔(ایضاً، ص ۳۶۷)

یہ ہے وہ پس منظر جس میں پاکستان کے بارے میں امریکا کے اصل اسٹرے ٹیجک مقاصد اور اہداف کو سمجھا جاسکتا ہے۔ مسئلہ صرف امریکا کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے پاکستان کو دھونس، دبائو، دھمکی کی لاٹھی اور معاشی اور عسکری امداد کے لالچ کے ذریعے آمادہ کرنا ہے۔ اس کتاب میں اس اسٹرے ٹیجک مقصد اور پاکستان کی سیاسی قیادت کی آمادگی دونوں کو کتاب کے اوراق اور لفظوں کی روح میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اِلا یہ کہ کوئی آنکھیں رکھتے ہوئے بھی دیکھنے کی کوشش نہ کرے، ملاحظہ ہو: پالیسی کے جائزے کی ساری بحث کے بعد صدر اوباما نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ:

ہمیں وہاں سے شروع کرنا چاہیے جہاں ہمارے مفادات ہیں۔ اور یہ پاکستان ہے، افغانستان نہیں۔

امریکا کے اہداف یہ ہیں:

ا- امریکی سرزمین ، اس کے حلیفوں اور بیرونِ ملک امریکی مفادات کا تحفظ۔

ب- پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں اور استحکام کے بارے میں تشویش

ج- بھارت پاکستان تعلقات (ایضاً، ص ۱۸۷)

واضح رہے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں مسئلہ کشمیر، پانی کا مسئلہ یا پاکستان کے دوسرے مسائل و معاملات کا کوئی مقام نہیں، ضمنی طور پر بھی نہیں۔ اصل مسئلہ پاکستان کو یہ باور کرانا ہے کہ بھارت اس کے لیے کوئی خطرہ نہیں اور اسے اپنی خارجہ پالیسی میں سے ’بھارتی خطرے‘ کے لفظ کو کھرچنا ہوگا۔ پاکستان کی سوچ کو بدلنا ہوگا۔ اوباما کے الفاظ میں: ’’ہمارے بنیادی مقاصد کے حصول کی کلید پاکستان کی سوچ کو بدلنا ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۱۸۷)

بروس رِڈل نے اس مقصد کو اور اس کے لیے امریکی پالیسی کو جو ہدف سامنے رکھنا چاہیے، اسے اور بھی زیادہ صاف اور واضح ترین الفاظ میں ادا کیا ہے: ’’خلاصے کے طور پر رڈل نے کہا کہ انھیں پاکستان کی اسٹرے ٹیجک سمت کو بدلنا ہوگا‘‘۔(ایضاً، ص ۱۰۸)

جس مقصد کے لیے امریکا نے اسٹرے ٹیجک مذاکرات کا جال پھیلایا ہے، وہ فی الحقیقت پاکستان اور امریکا کے تعلقات کو کاروباری سطح سے بلند کرکے اسٹرے ٹیجک سطح پر لانا نہیں ہے، بلکہ امریکا کے مقاصد کے لیے پاکستان کے موقف میں اسٹرے ٹیجک تبدیلی لانا ہے، جس کا اظہار صدراوباما نے کچھ اس طرح کیا:

بعد میں صدر نے تصدیق کی کہ کسی بھی نئی اسٹرے ٹیجی کا مرکزی نکتہ پاکستان ہوگا۔ ہمیں پاکستان کی سول، فوجی اور اہلِ دانش قیادت سے سنجیدگی سے قریبی تعلقات رکھنے ہوں گے۔ (ایضاً، ص ۱۰۹)

صدر زرداری کا کردار

فوجی قیادت کے تحفظات کا ذکر تو اُوپر آچکا ہے، لیکن صدر زرداری نے جس گرم جوشی سے امریکی ایجنڈے کو قبول کیا ہے، اس کا کچھ ذکر تو اُوپر آیا ہے، لیکن قوم کے لیے ضروری ہے کہ اسے معلوم ہو کہ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرپرسن صدرمملکت اور اس ذوالفقار علی بھٹو کے داماد جس نے پاکستان کے حقوق کے لیے ہزار سال تک بھارت سے جنگ کا عندیہ دیا تھا، امریکا کی قیادت کے سامنے اپنے کس عزم کا اظہار کیا:

آپ کے لیے ضروری ہے کہ آپ میرے ملک میں اچھا خاصا آگے بڑھنے کے لیے میری مدد کریں۔ آپ کو مجھے اقتصادی وسائل دینے ہوں گے تاکہ میں عوام کو جیت سکوں۔ میں آئی ایس آئی کو ٹھیک کرنے میں مدد کروں گا۔(ایضاً، ص ۶۳-۶۴)

زرداری صاحب جب وہ اپنے صاحب زادے بلاول کے ساتھ صدر اوباما سے اوول آفس میں ملے تو اوباما نے کہا:

ہم بھارت کے بارے میں آپ کی تشویش پر آپ کو الزام نہیں دیتے۔ مجھے معلوم ہے کہ بہت سے پاکستانیوں کو تشویش ہے لیکن ہم بھارت کے خلاف آپ کو مسلح کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کرنا چاہتے۔ اس بارے میں میرا موقف بالکل واضح ہے۔

زرداری نے کہا: ہم اپنا ورلڈ ویو بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر یہ راتوں رات نہیں ہوسکتا۔(ایضاً، ص ۱۱۵)

پاکستان میں امریکا کی سفیر اینی پیٹرسن نے آصف زرداری کے بارے میں گواہی دی ہے کہ:

زرداری، حکومت کرنے کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ وہ مسٹر بے نظیر بھٹو ہونے سے کبھی باہر نہیں نکلے گا لیکن وہ بنیادی طور پر ہمارا طرف دار ہے۔(ایضاً، ص ۱۳۶)

اس نے اپنے لبرل اقدام پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے کہا: بھارتی فلموں کی پہلی دفعہ اجازت میں نے دی ہے۔(ایضاً، ص ۱۳۷)

یہ مکالمات امریکی سفیرصاحبہ اور جنرل جونز کے درمیان ہیں، جو موصوف سے اسلام آباد کے دورے کے دوران میں ہوئے۔ واشنگٹن میں پینٹاگون کے ہال اے میں پاکستانی سفیر حسین حقانی صاحب، رابرٹ گیٹس کو مطلع کرتے ہیں کہ:

اگلے چند ہفتوں میں پاکستانی فوج وزیرستان میں داخل ہوجائے گی۔ اس اقدام کے لیے زرداری نے کوشش کی۔ کیونکہ امریکا کا حامی ہونے کی وجہ سے اس کی حمایت ختم ہورہی تھی۔ زرداری نے خیال کیا کہ وہ طالبان کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرکے حمایت حاصل کرسکتا ہے۔

یہ ہے اصل حقیقت، اس فوجی آپریشن کی جس کے بارے میں قوم سے کہا جاتا ہے کہ: ’’فیصلہ ہم کرتے ہیں‘‘۔

جن مذاکرات اور تعلقات کو اسٹرے ٹیجک کا نام دیا جا رہا ہے، وہ بالکل اسی نوعیت کے تعلقات ہیں جن کا تجربہ گذشتہ ۶۰برس سے پاکستان کر رہا ہے۔ یہ بات کہ مذاکرات اسٹرے ٹیجک ہیں اور عملاً تیسرا گروپ بنا کر ہر نوعیت کے امور پر بات چیت ہورہی ہے جس کا حاصل صرف یہ ہے کہ ڈیڑھ سو صحافیوں اور وزارتِ اطلاعات کے ۸۰ افراد کو ذہنی غسل (brain washing) کے لیے ان کو ایک ایک ماہ کے لیے امریکا کے مطالعاتی دورے پر بھیجا جائے گا اور شمالی علاقہ جات میں دو چھوٹے ڈیم میں امریکا سرمایہ کاری کرے گا۔ کیا اسٹرے ٹیجک مذاکرات کے یہ موضوع ہوتے ہیں؟

امریکی اھداف اور قومی ترجیحات

امریکا کے اسٹرے ٹیجک مقاصد اور اہداف بالکل واضح ہیں۔ اس کا اصل مقصد اپنے مفادات کا تحفظ ہے۔ امریکا، پاکستان اور بھارت کے تعلقات کا جو ٹرائی اینگل اسلوب ۱۹۵۰ء کی دہائی سے قائم تھا، اسے بش کے دور میں درہم برہم کردیا گیا اور اسے پاکستان اور بھارت کے امریکا تعلقات کے ربط ختم کرنے (de-hyphenization) کا عنوان دیا گیا حالانکہ اصل مقصد بھارت سے اسٹرے ٹیجک شراکت کا قیام تھا جسے ۲۰۰۶ء میں ایک واضح شکل دے دی گئی ہے اور پاکستان کے تمام خدشات و تحفظات کو یکسر نظرانداز کردیا گیا ہے۔ اوباماصاحب کو نومبر ۲۰۱۰ء میں ہونے والا چار ممالک کا دورہ جس میں بھارت سرفہرست ہے امریکی حکمت عملی کا علامتی اظہار ہے، اس راستے میں پاکستان کہیں بھی نہیں ہے البتہ اشک شوئی کے لیے کہا جارہا ہے کہ ۲۰۱۱ء میں پاکستان کا دورہ کیا جائے گا مگر امریکا نے اپنی ترجیحات واضح کر دی ہیں:

  • اشتراکِ مقاصد و اقدار
  • مشترک مفادات
  • درج بالا مقاصد اور مفادات کے حصول کے لیے ذرائع اور طریق کار پر رضامندی
  • طویل المدت، مستقل اور دیرپا پالیسیاں اور پروگرام
  • باہمی اعتماد

اگر پاکستان اور امریکا کے تعلقات کا گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو ان دونوں ممالک کے باب میں یہ پانچوں چیزیں مفقود ہیں۔

امریکا کا مقصد اپنے عالمی غلبے کو باقی رکھنا اور کم از کم اکیسویں صدی کے اوّلین نصف میں اپنی عالمی بالادستی کا تحفظ اور ہر متبادل قوت کو اپنے گھیرے میں لینا ہے۔ اس وجہ سے وہ دنیا کے ۱۴۸ممالک میں اپنی فوجیں رکھے ہوئے ہے اور سیاسی اور معاشی معاہدات کے ذریعے اپنی گرفت کو مستحکم رکھنا چاہتا ہے۔ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر یہ سارا منظرنامہ اس کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے سے جو خلا پیدا ہوگیا تھا، اسے اس نئی جنگ اور اس کی بنیاد پر کون کس کے ساتھ ہے؟ کے فلسفے کی روشنی میں عالمی سیاست کا دروبست قائم کیا گیا ہے۔ اس میں ناٹو کے لیے ایک نیا کردار تراشا جارہا ہے۔ اسرائیل، شرق اوسط کا اہم ترین کھلاڑی ہے۔ ایشیا کو اپنی گرفت میں رکھنے اور چین کے گرد گھیرا مضبوط کرنے کے لیے امریکا اور بھارت کی اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ وجود میں آئی ہے۔

ان امریکی مقاصد میں سے کوئی بھی ہدف پاکستان کے مقاصد سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ ایسی عالمی بساط پر ہم کوئی کھلاڑی نہیں۔ چین سے ہمارا تعلق حقیقی اسٹرے ٹیجک نوعیت کا ہے،  جب کہ ہمارے سارے تنازعات کا تعلق بھارت سے ہے۔ افغانستان اور ایران سے متعلق ہماری سرحدات تاریخی اعتبار سے محفوظ ترین تھیں اورسارے خطرات صرف بھارت کی طرف سے تھے۔ امریکا کی حکمت عملی ہمیں شمال اور شمال مغرب میں اُلجھانا ہے اور بھارت کے لیے برعظیم ہی میں نہیں جنوبی، شرقی اور وسطی ایشیا میں بھی کردار کو فروغ دینا ہے۔ اس فریم ورک میں امریکا اور پاکستان کے عالمی مقاصد میں کوئی مطابقت نہیں۔

جہاں تک مفادات کا تعلق ہے امریکا کا مسئلہ تیل اور دوسرے معاشی وسائل پر تسلط اور اپنی مصنوعات اور سرمایے کے لیے منڈیوں کا حصول ہے۔ اس کی نگاہ میں کسی بھی ملک اور خاص طور پر پاکستان، ایران، کوریا، عراق یا کسی بھی عرب ملک یا اسلامی ملک کی نیوکلیر صلاحیت ایک خطرہ ہے۔ہر ایسی معاشی صف بندی جو دنیا کے ان ممالک میں خودانحصاری کی کیفیت پیدا کرسکے، امریکا اور عالمی سرمایہ دارانہ سامراج کے مفادات کے خلاف ہے، جب کہ عالمی تجارت کی راہوں کے کھلے ہونے کے ساتھ پاکستان، عالمِ اسلام اور تیسری دنیا کے ممالک کا مفاد اس میں ہے کہ وہ اپنے پائوں پر کھڑے ہوسکیں۔ بنیادی ضروریات اور ٹکنالوجی کے میدان میں امریکا اور مغرب پر ان کا انحصار کم ہو۔ وہ خود اپنے وسائل کو اپنی ترجیحات اور اپنے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرسکیں۔

یہاںبھی امریکا، مغرب کے سامراجی ممالک اور پاکستان، دوسرے مسلمان اور تیسری دنیا کے ممالک کے مفادات سے متصادم ہیں۔ پھر پاکستان کے فوری مسائل اور مفادات ہیں، جن کا تعلق مسئلہ کشمیر، مسئلہ فلسطین، پانی کا مسئلہ، خوراک میں خودانحصاری، معاشی ترقی اور استحکام اور نظریاتی اور تہذیبی شناخت کی حفاظت اور پرورش ہیں۔ یہاں بھی پاکستان اور امریکا کے مفادات میں فاصلے زیادہ اور قربت کم اور واجبی ہے۔

یہی معاملہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا ہے، جس کی سب سے بھاری قیمت پاکستان، افغانستان اور عراق نے ادا کی ہے۔ امریکا کے جتنے فوجی اور شہری افغانستان اور عراق میں ہلاک ہوئے ہیں، ان سے کہیں زیادہ پاکستانی فوجی اور عام شہری محض امریکا کی جنگ میں شرکت کی سزا میں ہلاک ہوچکے ہیں۔ معاشی اور فوجی امداد کا بڑا چرچا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اگر جانی نقصان کو نظرانداز کردیا جائے (گو ایسا کرنا ایک سنگین جرم ہوگا) اور صرف معاشی پہلو کو لیا جائے تو امریکا نے جو ۱۹بلین ڈالر گذشتہ نوسال میں دیے ہیں ان میں ۱۱بلین ڈالر ان اخراجات اور خدمات کی مد میں ہیں، جو پاکستان نے امریکی افواج اور ضروریات کے لیے انجام دی ہیں، اور جسے ’کولیشن سپورٹ فنڈ‘ کہتے ہیں، جب کہ اس جنگ میں شرکت کا جو معاشی نقصان پاکستان کو ہوا ہے، وہ وزارتِ خزانہ کے ہر اعتبار سے کم سے کم ترین پر تخمینوںکے مطابق بھی ۴۳ارب ڈالر سے زیادہ ہیں، اور خود ’کولیشن سپورٹ فنڈ‘ کے اس وقت ڈھائی ارب ڈالر واجب الادا ہیں۔ یہ وہ خرچہ ہے جو حکومتِ پاکستان، اسٹیٹ بنک سے قرض لے کر کرچکی ہے، اور جس کی وجہ سے وہ اس وقت اسٹیٹ بنک کی ۱۸۵ ارب کی مقروض ہے، اور جس پر ۲ ارب روپے ماہانہ سود بھی حکومتِ پاکستان کو ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ نفع کا سودا ہے یا صریح نقصان کا۔ یہ صورت حال مفادات کے اشتراک کی تصویر پیش کرتی ہے یا ان میں تصادم اور تناقض کی۔

تیسرے نکتے کا حال بھی ذرا مختلف نہیں۔ معاشی تعاون اور سرمایہ کاری میں اشتراک کے چند منصوبوں کو چھوڑ کر، زیادہ معاملات میں پاکستان اور امریکا کے درمیان اشتراکِ عمل کے جو پروگرام ہیں، وہ نمایشی زیادہ اور حقیقی کم ہیں۔ پھر ان تعلقات میں سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ یہ وقتی اور ہوا کے جھونکوں کے ساتھ بدل جانے والے ہیں۔ برابری کی بنیاد پر توازنِ قوت کے تفاوت کی وجہ سے معاملات مرتب کرنے کا کوئی امکان ہی نہیں ہے۔ لیکن کم از کم مقدار میں بھی ایک دوسرے کی آزادی، عزتِ نفس، قومی مفادات، نظریاتی اور تہذیبی اختلافات بلکہ احترام کا بھی فقدان ہے، اور تعلقات اور منصوبوں میں کوئی تسلسل اور دوام نہیں۔ آج دوستی میں گاڑھی چھن رہی ہے اور کل پابندیاں مسلط کردی جاتی ہیں، تمام منصوبوں کو بیچ میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ دفاعی سسٹم کے باب میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ دفاعی تنصیبات سے متعلق فاضل پُرزوں اور مرمت تک کی سہولت کو منقطع کردیا جاتا ہے، جس سے ملک کی سلامتی کو شدید خطرات درپیش ہوتے ہیں۔ مختلف عذرات کی بنیاد پر پاکستانی مصنوعات کو عالمی مارکیٹ تک رسائی حاصل نہیں ہوپاتی۔ جہاں تجارتی تعلقات ہیں وہاں بھی ایسی ہی امتیازی پالیسیاں اختیار کی جاتی ہیں جو ترقی پذیر ممالک کے مفادات کے خلاف ہیں۔ اپنے پسندیدہ ممالک کو اور جہاں ضرورت محسوس ہو تحفظ دیا جاتا ہے، لیکن دوسروں کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اپنے قومی مفاد کی روشنی میں انھی حربوں کو استعمال کریں۔ اس طرح تیسرے اور چوتھے دونوں نکات کے سلسلے میں بھی اتفاق کے نکات کم اور محدود اور اختلاف کے وسیع ہیں۔

رہا معاملہ باہمی اعتماد کا تو اس کا دُور دُور تک وجود نہیں اور یہی وجہ ہے کہ لالچ اور خوف ہی کارفرما قوتیں ہیں۔ اعتماد، ایثار اور شراکت کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ہے۔ ان حالات میں ہمارے ارباب حل و عقد کی جانب سے اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ کے دعووں کو خودفریبی کے سوا کس نام سے پکارا جاسکتا ہے۔ ہم پاکستان اور امریکا کے درمیان دوستانہ تعلقات کا فروغ چاہتے ہیں، لیکن یہ تاریخی تجربات اور زمینی حقائق کی بنیاد ہی پر ہوسکتے ہیں۔ امریکا ایک سوپر پاور ہے اور اس سے تصادم بلاشبہہ مفاد میں نہیں۔ بہت سے معاملات میں تعاون کے ہزاروں راستے نکالے جاسکتے ہیں، جس میں دونوں کے لیے بھلائی اور نفع ہو۔عالمی تجارت کے اسی اصول پر فروغ پاتی ہے۔ چھوٹے ممالک کی بھی اسٹرے ٹیجک اہمیت ہوسکتی ہے اور پاکستان کو یہ حیثیت حاصل ہے۔ مختلف ممالک باہمی رضامندی اور باہمی لین دین کے معروف اصولوں کی روشنی میں سب استفادہ کرسکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ حقائق کو کھلے دل سے قبول کیا جائے۔ ایک دوسرے کے جائز مفادات کو سامنے رکھ کر آزاد مرضی سے معاملات طے کیے جائیں۔ پستول تان کر یا رشوت اور دھونس جماکر ایک پارٹی دوسرے پر اپنی راے مسلط نہ کرے اور کمزور ممالک میں اپنے طفیلی عناصر کو حکمران بنا کر ان کے ذریعے قوم کی تمنائوں، عزائم اور مفادات کے برعکس پالیسیاں مسلط نہ کی جائیں۔

ہرملک اور قوم کی اپنی ترجیحات اور ضرورتیں ہیں اور آزادی، عزتِ نفس، نظریاتی اور تہذیبی تشخص اور سیاسی اور معاشی مفادات ہر ایک کے لیے اہم ہیں۔ اس لیے انصاف اور تعاون باہمی کی بنیاد پر تو سب سے تعلقات خوش گوار رہ سکتے ہیں اور یہی مطلوب ہے۔ امریکا سے تعلقات بھی اسی زمرے میں آتے ہیں اس سے ہٹ کر جو راستہ بھی اختیار کیا جائے گا وہ جبر اور مجبوری کی حد تک تو کچھ عرصے کے لیے چل سکتا ہے لیکن نہ وہ دیرپا ہوسکتا ہے اور نہ اس کے نتائج سے خیروفلاح کی توقع کی جاسکتی ہے۔ امریکا کی قیادت کو اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ ایک سوپرپاور ہوتے ہوئے اور دنیا کے مختلف علاقوں اور ممالک میں بعض اچھے اور مفید کام کرنے کے باوجود بھی دنیا کے ممالک کی ایک عظیم اکثریت کے عوام میں اس کے خلاف بے زاری، نفرت اور مخالفت کے جذبات کیوں موجزن ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ   ع

ہم الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا

بلاشبہہ امریکی نظامِ حکومت، معاشرے اور تمدن میں بہت سی چیزیں مثبت بھی ہیں، جن میں تمام کمزوریوں اور مفاد پرست عناصر کے سارے کھیل کے باوجود بڑی حد تک دستور اور قانون کی حکمرانی کا ایک نسبتاً قابلِ بھروسا نظام موجود ہے۔ اس کے پہلو بہ پہلو ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور دوسرے مسلمان، عرب، میکسی کن اور خود ایفرو امریکی حضرات کے باب میں کی جانے والی کھلی کھلی ناانصافیوں اور تعصب کے مظاہر بھی موجود ہیں۔ اسی طرح شخصی، سیاسی اور معاشی آزادی کی روایات، تعلیم، تحقیق، ایجاد و اختراع، معاشی اور سیاسی میدانوں میں بڑی حد تک ترقی کے مواقع کی موجودگی اور فراہمی، خوش حال معاشرے کا قیام اور احتساب کا نظام مثبت پہلو ہیں، جن کا اعتراف نہ کرنا حق و انصاف کے منافی ہوگی۔ پھر اپنی قوم سے قیادت کی وفاداری اور بحیثیت مجموعی قومی مفاد کو ذاتی مفاد پر فوقیت دینا قابلِ قدر پہلو ہے۔ اسی طرح جیساکہ ہم نے عرض کیا باہمی مفاد کی بنیاد پر سیاسی، سماجی، معاشی، تعلیمی اور حتیٰ کہ عسکری تعاون کی گنجایش بھی موجود ہے۔

امریکا پر ہماری تنقید کی بنیادی وجہ امریکا کی وہ پالیسیاں ہیں جو ہمارے مسلم اُمہ کے اور دنیا کے مظلوم عوام کے مفاد کے خلاف، اور اس کے اپنے جہانگیری اور سامراجی مقاصد اور عزائم کے حصول کے لیے اس نے اختیار کی ہیں۔ بین الاقوامی میدان میں اپنی مرضی کو دوسروں پر مسلط کرنے اور ان کے مفادات کو بے دردی سے کچلنے کا ذریعہ ہیں۔ یا پھر وہ منافقت اور دو رنگی ہے، جو قول و عمل کے تضاد یا انسانوں، گروہوں اور اقوام کے درمیان امتیازی سلوک اور سفاکانہ رویوں کا مظہر ہیں۔ اگر امریکا کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے مقاصد اور اپنے مفادات کے لیے کام کرے تو یہی حق ہم کو اور دنیا کی دوسری اقوام اور اہلِ مذہب کو بھی حاصل ہے۔ بین الاقوامی امن اور انصاف کسی ایک کو دوسرے پر اپنی راے قوت، جبر اور دھوکے سے مسلط کرنے کا حق نہیں دیتے۔ دوطرفہ تعلقات صرف افہام و تفہیم اور ایک دوسرے کے حقوق اور مفادات کے احترام سے حاصل ہوسکتے ہیں اور یہی وہ چیز ہے جو پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں مفقود ہے۔


 

(کتابچہ دستیاب ہے، قیمت:۱۲ روپے۔ منشورات، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹)