اب یہ صاف نظر آرہا تھا کہ ہندستان کی تاریخ کا وہ عارضی دور عن قریب ختم ہونے والا ہے جس میں ایک بیرونی قوم کے مٹھی بھر افراد یہاں حکومت کر رہے تھے اور وہ مستقل دور شروع ہونے والا ہے جس میں واحد قومیت، جمہوریت اور لادینی کے اصولوں پر اسی ملک کی اکثریت یہاں حکومت کرے گی۔ اس موقع پر ہمارے لیے یہ ضروری ہوگیا کہ اس آنے والے دور کے خطرات مسلمانوں کے سامنے صاف صاف کھول کر پیش کردیں، کیونکہ ہمارے سامنے یہ بات بالکل واضح تھی کہ اس نظام میں کوئی آئینی تحفظ مسلمانوں کو اور ان کی تہذیب کو اکثریت اور اس کی تہذیب میں گم ہونے سے نہ بچا سکے گا۔ اس صورت میں ہمارے لیے اپنے نصب العین کا حصول اگر ناممکن نہیں تو نہایت دشوار ضرور ہوجائے گا۔ چنانچہ اسی خطرے کو محسوس کر کے ۱۹۳۷ء سے ۱۹۳۹ء تک مسلسل تین سال ان صفحات میں وہ مضامین لکھے جاتے رہے جو مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش حصہ اوّل و حصہ دوم اور ’مسئلہ قومیت‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوچکے ہیں۔ ان مضامین میں ہم نے مسلمانوں کو یہ احساس دلایا کہ اگر انھوں نے واحد قومیت کا اصول تسلیم کرکے ایک جمہوری لادینی نظام کے قیام کو قبول کرلیا تو یہ ان کے لیے خودکشی کا ہم معنی ہوگا۔
ہمیں یہ دعویٰ نہیں ہے کہ ان تین سالوں کے دوران میں مسلمانوں کے اندر کانگریسی نظریے کا زوال اور اپنی جداگانہ قومیت کے احساس کا نشوونما جو کچھ بھی ہو ا، وہ ہماری ان کوششوں کا نتیجہ تھا، مگر اس بات سے شاید ہمارا کوئی مخالف بھی سچائی کے ساتھ انکار نہیں کرسکتا کہ نتیجے کے ظہور میں کچھ ہماری کوششوں کا دخل بھی تھا۔ (’اشارات‘ سید ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۳۵، عدد۱، محرم ۱۳۷۰ھ، نومبر ۱۹۵۰ئ، ص۶-۷)