جولائی۲۰۰۷

فہرست مضامین

مغرب میں بڑھتی ہوئی مسلم آبادی

رضی الدین سید | جولائی۲۰۰۷ | اسلام اور مغرب

Responsive image Responsive image

مغرب ہمیں ’کم بچے خوش حال گھرانا‘ کا سبق پڑھا رہا ہے۔ ہمارے حکمران اسے ترقی کے پھل ہر گھر تک پہنچانے کا نسخہ سمجھ کر بے سوچے سمجھے اس پر دل و جان سے عمل پیرا ہیں‘ لیکن خود مغرب کو جو قانونِ قدرت سے لڑنے میں ایک مدت گزار چکے ہیں اس کے کیا پھل مل رہے ہیں‘ اس نے ان کے اہلِ فکر کو پریشان کر رکھا ہے۔ اس پر مستزاد اس مسئلے میں مسلم عنصر کا دخل بھی ہے جس کی وجہ سے انھیں کافی ڈرائونے خواب آرہے ہیں۔ معلوم نہیں کیا سمجھ کر خود ہی نائن الیون کیا‘ اور کیوں خود ہی اپنی رات کی نیندیں حرام کرلی ہیں۔ بے بنیاد افواہ پر بھی شہر کے شہر سُونے ہوسکتے ہیں۔ مل جل کر رہنے کے بجاے‘ تصادم کا راستہ اپنایا‘ اب اسی کے نتائج کا سامنا کررہے ہیں۔ مالتھس نے نظریہ پیش کیا‘ مغربی تہذیب نے اسے اپنا لیا۔ اس کے پیچھے یہودی ہاتھ بتایا جاتا ہے جس نے اس طرح عیسائی دنیا کو مسائل کا شکار کردیا۔

تاریخ نے دیکھا ہے کہ تاتاریوں کے قبولِ اسلام کے بعد کعبے کو صنم خانے سے پاسباں  مل گئے‘ آج بھی یہ عمل دہرایا جاسکتا ہے اس لیے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ اگر آج مسلمان صرف رفتارِ پیدایش پر تکیہ نہ کریں‘ بلکہ عصرِحاضر کے دعوتی تقاضوں کو کماحقہ پورا کریں‘ چیلنجوں کا ادراک کریں اور ان کا قرار واقعی مقابلہ کریں تو جو بات مغرب کے اہلِ فکر کچھ دُور دیکھ رہے ہیں‘ اللہ اپنی مشیت سے اسے بہت جلدی برپا کرسکتا ہے۔ اگر غیرمسلم معاشرے مسلمان ہوجائیں تو ہمیں اور کیا چاہیے۔ ہمارے لشکر جب کہیں حملہ کرنے جاتے تھے تو پہلا آپشن یہی دیتے تھے۔ نئے تناظر میں سارا مغرب دارالدعوۃ ہے۔ ہم جو وہاں موجود ہیں ‘ اسلام کے سچے داعی ہوں‘ اور ہم ۱۵۷ نہ سہی‘ ۱۰‘ ۲۰ ممالک میں اسلامی معاشرہ قائم کرلیں‘ تو رسل و رسائل کی ترقی کی وجہ سے اس کے اثرات پریشان اور سکون سے محروم معاشروں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل جائیں گے۔ انسان اپنے فطری دین کی طرف پلٹ آئے گا۔

عیسائی مملکتوں میں آبادی آج اتنی گھٹ گئی ہے کہ وہاں خطرے کا الارم بج چکا ہے۔ دسیوں قسم کے خطرے وہاں کے حکمرانوں اور دانش وروں کو آیندہ محض چند برسوں میں پیش آتے نظر آرہے ہیں۔ اسی حوالے سے بعض چونکا دینے والے حقائق قابلِ غور ہیں:

  •   برطانوی ماہرین اپنے ملک میں خطرناک حد تک کم شرح پیدایش سے انتہائی پریشان ہیں (روزنامہ اسلام‘ کراچی‘ ۲۵ جنوری ۲۰۰۶ء) کیونکہ وہاں ملک چلانے کے لیے مطلوبہ افراد موجود نہیں ہیں۔
  •    آیندہ تین عشروں میں (یعنی ۲۰۳۰ء تک) جاپان‘ یورپ اور امریکا میں بچوں کے چچا‘ ماموں اور پھوپھا نہیں ہوں گے بلکہ ان کے رشتے دار صرف دادا اور پردادا ہوں گے کیونکہ وہاں بچوں (بھائی بہنوں) کی پیدایش خطرناک حد تک گر گئی ہے۔ (معارف فیچر سروس‘ ۱۶مئی ۲۰۰۱ء)
  •  ۲۰۴۰ء تک برطانیہ میں عیسائی آبادی ۷۲ فی صد سے گھٹ کر صرف ۳۲ فی صد رہ جائے گی۔ (نواے وقت‘ کراچی‘ ۶ستمبر ۲۰۰۵ء)
  •  جاپان کا معاشرہ اس وقت ایک ایسا معاشرہ ہے جو بچوں سے خالی ہے کیونکہ وہاں   شرح پیدایش تیزی سے گر گئی ہے۔ جاپانی خواتین کی انجمنوں کا کہنا ہے کہ معاشرے کا عمومی رویہ بچے پیدا کرنے کے حق میں نہیں ہے۔ (نواے وقت‘کراچی‘ ۵دسمبر ۲۰۰۶ء)
  •  جاپان میں اگر بچوں کی شرح پیدایش موجودہ ۲۹ء۱ کے حساب سے برقرار رہی تو ۳۳۰۰ء تک پوری جاپانی قوم دنیا سے ختم ہوجائے گی۔ (معارف فیچرسروس‘ کراچی‘ ۱۶فروری ۲۰۰۶ء بحوالہ ٹائم میگزین‘ ۱۶ جنوری ۲۰۰۶ء)
  •  روس میں شرح پیدایش آج ۰۳ء۱ ہے‘ جب کہ ۱۹۸۰ء کے عشرے میں یہ ۳ء۲ تھی۔ (نیوزویک‘ ۴ نومبر ۲۰۰۶ء)
  •  فرانس میں ایک خاتون پر بچوں کی اوسط تعداد آج ۹ء۱ ہے‘ جب کہ آبادی میں اضافے کے لیے اسے کم از کم ۰۷ء۲ ہونا چاہیے۔ (معارف سروس فیچر‘ کراچی‘ ۱۶اکتوبر ۲۰۰۵ء بحوالہ ٹائم میگزین ۳اکتوبر ۲۰۰۵ء) گویا فرانس کی شرحِ پیدایش کو اس وقت موجودہ سے ڈیڑھ گنا ہونا چاہیے۔
  •  فرانس میں زیادہ بچے پیدا کرنے والی مائوں کے لیے پُرکشش مراعات کا اعلان کیا گیا ہے کیونکہ وہاں شرحِ پیدایش خطرناک حد تک گر گئی ہے جو شرحِ اموات سے بھی کم ہے۔ (روزنامہ اسلام‘ کراچی‘ ۲۵ستمبر ۲۰۰۵ء)
  •  آسٹریلیا میں بھی کم سن لڑکیوں کے حاملہ ہوجانے کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے اور بچے کی پیدایش پر انھیں بونس دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ پہلے انھیں ۲۱۰۰ امریکی ڈالر فی بچہ دیے جائیں گے جسے بڑھا کر بعد میں ۳۵۰۰ امریکی ڈالر کردیا جائے گا۔ (نواے وقت‘ کراچی ۳۰ جون ۲۰۰۶ء)
  • دنیا میں ۲۰۵۰ء تک ہر تین میں سے ایک فرد بوڑھا ہوگا۔ ۲۰۵۰ء تک جاپان‘ آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ‘ یورپ اور جنوبی امریکا میں سالانہ ۱۰ لاکھ افراد کی کمی ہوگی‘ جب کہ اس سال تک جاپان میں ۸۰ فی صد آبادی بوڑھوں پر مشتمل ہوگی۔ (روزنامہ عوام‘ کراچی‘ ۸مارچ ۲۰۰۵ء بحوالہ رپورٹ اقوام متحدہ)
  •   چین کے ایک صوبے گوانگ ڈونگ میں حکومت نے فی خاندان ایک بچے کے حکم کی خلاف ورزی کے جرم میں خواتین کے ۲۰ہزار حمل ضائع کروا دیے۔ (نواے وقت‘ کراچی‘ اے این پی ۹اگست ۲۰۰۱ء)
  •  چین میں ایک بچے کی پالیسی کی وجہ سے لڑکیاں ’قتل‘ کی جارہی ہیں۔ اندازہ ہے کہ  ۲۰۲۰ء تک ۳۰ کروڑ چینی لڑکے اپنے لیے بیوی تلاش نہیں کرسکیں گے۔ (روزنامہ جسارت‘ ۳۰مئی ۲۰۰۷ء)

آبادی میں کمی کے جو حقائق اُوپر بیان کیے گئے ہیں‘آبادی منصوبہ بندی کا وہ صرف ایک پہلو ہیں۔ یعنی کام کرنے والے ہاتھوں کی شدید کمی۔ لیکن اس کا دوسرا پہلو بھی اہمیت کا حامل ہے وہ یہ کہ  یورپ اور امریکا میں مقامی عیسائی آبادی کا تناسب تیزی سے کم‘ اورمسلم آبادی کا تناسب تیزی سے زیادہ ہورہا ہے۔ مغرب اس وقت افزایش نسل پر عمل پیرا نہیں ہے۔ اگرچہ تحدید آبادی کا اثر مسلمانوں پر بھی پڑا ہے‘ لیکن اس کے باوجود ایک مسلم خاندان میں آج بھی تین چار بچے تو ہوتے ہی ہیں۔ یوں آبادی کا تناسب ازخود مسلمانوں کے حق میں جارہا ہے۔ دوسری طرف مغرب میں افرادِ کار کی شدید قلت کے باعث اسلامی ممالک سے مسلم نوجوانوں کی مغرب میں تیزی سے آمد کے باعث بھی وہاں مسلمانوں کی آبادی عیسائیوں سے بڑھ رہی ہے‘ یا کم از کم ان کے برابر آرہی ہے۔ وہ اپنے ہاں مسلمانوں کی آمد کو روک نہیں سکتے کیونکہ انھیں اپنا کاروبارِ ریاست بھی چلانا ہے۔ یوں آبادی کے لحاظ سے وہ دوطرفہ دبائو میں ہیں۔ وہاں کے دانش ور‘ صحافی‘ پروفیسر اور حکمران سب واویلا مچارہے ہیں کہ اگر آبادی کا تناسب اسی طرح الٹتا رہا تو عیسائی خود اپنے ہی ممالک میں اقلیت بن کر رہ جائیں گے۔ ملاحظہ ہو:

  •  مشہور اطالوی صحافی خاتون اوریانا فلاسی نے اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ آیندہ ۲۰ برس کے اندر نصف درجن یورپی شہر ۳۰ تا ۴۰ فی صد مسلمان ہوجائیں گے اور اسلام کی ایک کالونی بن جائیں گے۔ اس نے کہا کہ اس کی اصل وجہ یورپ میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ (ڈان‘ کراچی‘ ۱۳ مارچ ۲۰۰۵ء)
  •  آج یورپی یونین کے اہم رکن فرانس میں مسلمانوں کی آبادی ۵۰لاکھ (یعنی یورپ میں سب سے بڑی مسلم آبادی) اور جرمنی میں ۳۵ لاکھ ہے۔ آیندہ چند عشروں میں یورپ کے کئی بڑے شہروں کے مسلم اکثریتی شہر بننے کا امکان ہے۔ (نواے وقت‘کراچی‘ ۱۹ جون ۲۰۰۵ء)
  •  یورپ میں اشاعتِ اسلام کی رفتار اگر یہی رہی تو آیندہ ۲۵ برسوں میں مسلمانوں کی تعداد وہاں ۶ کروڑ سے تجاوز کرجائے گی۔ (واضح رہے کہ اکثر یورپی ممالک کی آبادی بمشکل ۵تا ۶ کروڑ ہے)۔ یورپی یونین میں ترکی کی شمولیت کی مخالفت کی ایک بڑی وجہ  اس کی مسلم آبادی بھی ہے جس کے باعث یورپی یونین کی مسلم آبادی عیسائی آبادی سے بڑھ جائے گی۔ (جنگ‘ کراچی‘ ۱۶ فروری ۲۰۰۷ء )
  •  برطانوی پالیسی ساز ادارے کرسچین ریسرچ کے مطابق ۲۰۲۲ء تک برطانیہ کے ۴ ہزار چرچ بند ہوجائیں گے۔ (نواے وقت‘ کراچی‘ ۱۵ مارچ ۲۰۰۷ء)
  •  مشہور مستشرق برنارڈ لیوس نے پیشن گوئی کی ہے کہ ۲۱ویں صدی کے اختتام یعنی ۲۰۹۰ء تک سارا یورپ مسلم اکثریتی علاقہ بن جائے گا۔ (نواے وقت‘ کراچی‘ ۱۹جون ۲۰۰۵ء)

مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی اور بنیاد پرستی کا جو عالمی پروپیگنڈا ہورہا ہے‘ اس سے خیر کا یہ پہلو برآمد ہوا ہے۔ مغرب میں اسلام کو سمجھنے اور پھر قبول کرنے کا رجحان بڑھا ہے۔ اس وقت جاپان سمیت امریکا اور یورپ میں مقامی عیسائی آبادی کے قبولِ اسلام کے واقعات تیزی کے ساتھ رونما ہورہے ہیں جس میں ان کے نمایاں اور ممتاز افراد بھی شامل ہیں۔

  •  یورپی نوجوانوں میں اسلام سے دل چسپی کا رجحان بہت بڑھا ہے۔ اس لیے یورپی ممالک کو اندیشہ ہے کہ وہاں اسلامی انقلاب کی آواز زیادہ بلند ہوجائے گی۔ (نواے وقت‘ ۱۹ جون ۲۰۰۵ء)
  •  فرانس اور برطانیہ میں گذشتہ ۱۰ برسوں کے اندر ایک لاکھ سے زیادہ مقامی افراد نے اسلام قبول کیا ہے۔ (جنگ‘ کراچی‘ ۱۶ فروری ۲۰۰۷ء بحوالہ ایک فرانسیسی جریدہ)
  • امریکی عیسائیوں میں قرآن پاک کے مطالعے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔   (نواے وقت‘ کراچی‘۴ جون ۲۰۰۵ء)
  • امریکا میں اس وقت مسلمانوں کی تعداد ایک کروڑ ہے‘ جب کہ ہر سال ۶ فی صد کے حساب سے ۲۰ ہزار لاطینی امریکی اسلام قبول کر رہے ہیں (نواے وقت‘ کراچی ۷فروری ۲۰۰۵ء)۔ واضح رہے کہ شمالی امریکا میں لاطینی امریکیوں کی بھی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔
  •  فرانس میں مساجد کی تعداد ۴ ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ تحقیقی ادارے اسلام آرکائیوز سنٹرل انسٹی ٹیوٹ نے تخمینہ پیش کیا ہے کہ ۲۰۴۶ء تک مسلمان جرمنی کی اکثریتی آبادی بن جائیں گے۔ گلاسگو یونی ورسٹی برطانیہ میں مذہبی مطالعے کی پروفیسر نکول بورگ کا کہنا ہے کہ وہ تنہا گلاسگو کے علاقے میں ۲۰۰ ایسے افراد کو جانتی ہے جنھوں نے عیسائیت ترک کرکے اسلام قبول کیا ہے۔ (نواے وقت‘ کراچی‘ ۵ مارچ ۲۰۰۷ء)
  •  آسٹریلیا کی ایک نومسلم خاتون عائشہ نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ یہاں ہرہفتے آپ کو ملک بھر سے نئے لوگوں کے مسلمان ہوجانے کی خبریں سنائی دیتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ آسٹریلیا میں مسلمان ہونے والی ۸۰ فی صد تعداد خواتین کی ہوتی ہے۔ (مضمون از پال لمیاتھاکس‘ جنگ سنڈے میگزین‘۲۹ اپریل ۲۰۰۷ء)

مغرب میں مسلمانوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کا ایک لازمی نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ عیسائیوں کی تہذیب و ثقافت پر مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت اثرانداز ہورہی ہے۔ یورپ اور امریکا کے ہر بڑے شہر میں مسجدوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور بلند ہوتے ہوئے مینار جابجا اسلامی اثرات کو نمایاں کر رہے ہیں۔ وہاں سڑکوں پر اسکارف پہنی خواتین اور داڑھی ٹوپی والے مرد زیادہ نظر آنے لگے ہیں۔ دکانوں پر عربی اور دوسری مشرقی زبانوں کے بورڈ بھی پہلے سے زیادہ آویزاں نظر آتے ہیں۔ اُردو اور عربی اخبارات ورسائل کی اشاعت میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے۔ مسلم آبادی کے بڑھتے ہوئے دبائو کے باعث اب وہاں مقامی اور ریاستی حکومتوں میں مسلم شخصیات کی تعداد بڑھ رہی ہے‘ جب کہ ایوانِ عام اور ایوانِ بالا میں بھی مشرقی و نومسلم افراد نشستیں حاصل کر رہے ہیں۔ حال ہی میں امریکی کانگریس میں ایک نومسلم فرد نے قرآن پاک پر حلف اٹھانے کا تاریخی کارنامہ انجام دیا ہے۔ نواے وقت(کراچی ‘ ۲۱ مئی ۲۰۰۷ء) کی ایک خبر کے مطابق فرانس میں پہلی بار ایک مسلمان خاتون وزیر نے حکومت میں شمولیت اختیار کی ہے۔ اس خاتون کا تعلق شمالی افریقہ سے ہے۔ لہٰذا جیسے جیسے ان ممالک میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جائے گا‘ مرکزی حکومتوں اور سینٹ و کانگریس میں ان کی نمایندگی کا تناسب بھی بڑھتا چلا جائے گا۔

مسلم آبادی میں اضافے کی وجہ سے مغرب میں عملی‘ دعوتی اور اسلام پسند نوجوانوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگا اور ان کے اثرات وسیع ہوں گے۔ لہٰذا مغرب جو یہ خدشہ ظاہر کررہا ہے کہ عنقریب عیسائی دنیا اپنے ہی اکثریتی علاقوں میں اقلیت بن کر رہ جائے گی اور مسلمان وہاں غالب آجائیں گے تو اس میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے۔ اس سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ یورپی عیسائی ایک بار پھر اپنی آبادی بڑھانے کی کوشش کریں۔ لیکن مغربی مرد و عورت اپنے عیش و آزادی میں اب اتنے آگے جاچکے ہیں کہ وہاں سے پلٹ کر آنا ان کے بس میں نہیں رہا ہے۔