مغرب ہمیں ’کم بچے خوش حال گھرانا‘ کا سبق پڑھا رہا ہے۔ ہمارے حکمران اسے ترقی کے پھل ہر گھر تک پہنچانے کا نسخہ سمجھ کر بے سوچے سمجھے اس پر دل و جان سے عمل پیرا ہیں‘ لیکن خود مغرب کو جو قانونِ قدرت سے لڑنے میں ایک مدت گزار چکے ہیں اس کے کیا پھل مل رہے ہیں‘ اس نے ان کے اہلِ فکر کو پریشان کر رکھا ہے۔ اس پر مستزاد اس مسئلے میں مسلم عنصر کا دخل بھی ہے جس کی وجہ سے انھیں کافی ڈرائونے خواب آرہے ہیں۔ معلوم نہیں کیا سمجھ کر خود ہی نائن الیون کیا‘ اور کیوں خود ہی اپنی رات کی نیندیں حرام کرلی ہیں۔ بے بنیاد افواہ پر بھی شہر کے شہر سُونے ہوسکتے ہیں۔ مل جل کر رہنے کے بجاے‘ تصادم کا راستہ اپنایا‘ اب اسی کے نتائج کا سامنا کررہے ہیں۔ مالتھس نے نظریہ پیش کیا‘ مغربی تہذیب نے اسے اپنا لیا۔ اس کے پیچھے یہودی ہاتھ بتایا جاتا ہے جس نے اس طرح عیسائی دنیا کو مسائل کا شکار کردیا۔
تاریخ نے دیکھا ہے کہ تاتاریوں کے قبولِ اسلام کے بعد کعبے کو صنم خانے سے پاسباں مل گئے‘ آج بھی یہ عمل دہرایا جاسکتا ہے اس لیے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ اگر آج مسلمان صرف رفتارِ پیدایش پر تکیہ نہ کریں‘ بلکہ عصرِحاضر کے دعوتی تقاضوں کو کماحقہ پورا کریں‘ چیلنجوں کا ادراک کریں اور ان کا قرار واقعی مقابلہ کریں تو جو بات مغرب کے اہلِ فکر کچھ دُور دیکھ رہے ہیں‘ اللہ اپنی مشیت سے اسے بہت جلدی برپا کرسکتا ہے۔ اگر غیرمسلم معاشرے مسلمان ہوجائیں تو ہمیں اور کیا چاہیے۔ ہمارے لشکر جب کہیں حملہ کرنے جاتے تھے تو پہلا آپشن یہی دیتے تھے۔ نئے تناظر میں سارا مغرب دارالدعوۃ ہے۔ ہم جو وہاں موجود ہیں ‘ اسلام کے سچے داعی ہوں‘ اور ہم ۱۵۷ نہ سہی‘ ۱۰‘ ۲۰ ممالک میں اسلامی معاشرہ قائم کرلیں‘ تو رسل و رسائل کی ترقی کی وجہ سے اس کے اثرات پریشان اور سکون سے محروم معاشروں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل جائیں گے۔ انسان اپنے فطری دین کی طرف پلٹ آئے گا۔
عیسائی مملکتوں میں آبادی آج اتنی گھٹ گئی ہے کہ وہاں خطرے کا الارم بج چکا ہے۔ دسیوں قسم کے خطرے وہاں کے حکمرانوں اور دانش وروں کو آیندہ محض چند برسوں میں پیش آتے نظر آرہے ہیں۔ اسی حوالے سے بعض چونکا دینے والے حقائق قابلِ غور ہیں:
آبادی میں کمی کے جو حقائق اُوپر بیان کیے گئے ہیں‘آبادی منصوبہ بندی کا وہ صرف ایک پہلو ہیں۔ یعنی کام کرنے والے ہاتھوں کی شدید کمی۔ لیکن اس کا دوسرا پہلو بھی اہمیت کا حامل ہے وہ یہ کہ یورپ اور امریکا میں مقامی عیسائی آبادی کا تناسب تیزی سے کم‘ اورمسلم آبادی کا تناسب تیزی سے زیادہ ہورہا ہے۔ مغرب اس وقت افزایش نسل پر عمل پیرا نہیں ہے۔ اگرچہ تحدید آبادی کا اثر مسلمانوں پر بھی پڑا ہے‘ لیکن اس کے باوجود ایک مسلم خاندان میں آج بھی تین چار بچے تو ہوتے ہی ہیں۔ یوں آبادی کا تناسب ازخود مسلمانوں کے حق میں جارہا ہے۔ دوسری طرف مغرب میں افرادِ کار کی شدید قلت کے باعث اسلامی ممالک سے مسلم نوجوانوں کی مغرب میں تیزی سے آمد کے باعث بھی وہاں مسلمانوں کی آبادی عیسائیوں سے بڑھ رہی ہے‘ یا کم از کم ان کے برابر آرہی ہے۔ وہ اپنے ہاں مسلمانوں کی آمد کو روک نہیں سکتے کیونکہ انھیں اپنا کاروبارِ ریاست بھی چلانا ہے۔ یوں آبادی کے لحاظ سے وہ دوطرفہ دبائو میں ہیں۔ وہاں کے دانش ور‘ صحافی‘ پروفیسر اور حکمران سب واویلا مچارہے ہیں کہ اگر آبادی کا تناسب اسی طرح الٹتا رہا تو عیسائی خود اپنے ہی ممالک میں اقلیت بن کر رہ جائیں گے۔ ملاحظہ ہو:
مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی اور بنیاد پرستی کا جو عالمی پروپیگنڈا ہورہا ہے‘ اس سے خیر کا یہ پہلو برآمد ہوا ہے۔ مغرب میں اسلام کو سمجھنے اور پھر قبول کرنے کا رجحان بڑھا ہے۔ اس وقت جاپان سمیت امریکا اور یورپ میں مقامی عیسائی آبادی کے قبولِ اسلام کے واقعات تیزی کے ساتھ رونما ہورہے ہیں جس میں ان کے نمایاں اور ممتاز افراد بھی شامل ہیں۔
مغرب میں مسلمانوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کا ایک لازمی نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ عیسائیوں کی تہذیب و ثقافت پر مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت اثرانداز ہورہی ہے۔ یورپ اور امریکا کے ہر بڑے شہر میں مسجدوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور بلند ہوتے ہوئے مینار جابجا اسلامی اثرات کو نمایاں کر رہے ہیں۔ وہاں سڑکوں پر اسکارف پہنی خواتین اور داڑھی ٹوپی والے مرد زیادہ نظر آنے لگے ہیں۔ دکانوں پر عربی اور دوسری مشرقی زبانوں کے بورڈ بھی پہلے سے زیادہ آویزاں نظر آتے ہیں۔ اُردو اور عربی اخبارات ورسائل کی اشاعت میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے۔ مسلم آبادی کے بڑھتے ہوئے دبائو کے باعث اب وہاں مقامی اور ریاستی حکومتوں میں مسلم شخصیات کی تعداد بڑھ رہی ہے‘ جب کہ ایوانِ عام اور ایوانِ بالا میں بھی مشرقی و نومسلم افراد نشستیں حاصل کر رہے ہیں۔ حال ہی میں امریکی کانگریس میں ایک نومسلم فرد نے قرآن پاک پر حلف اٹھانے کا تاریخی کارنامہ انجام دیا ہے۔ نواے وقت(کراچی ‘ ۲۱ مئی ۲۰۰۷ء) کی ایک خبر کے مطابق فرانس میں پہلی بار ایک مسلمان خاتون وزیر نے حکومت میں شمولیت اختیار کی ہے۔ اس خاتون کا تعلق شمالی افریقہ سے ہے۔ لہٰذا جیسے جیسے ان ممالک میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جائے گا‘ مرکزی حکومتوں اور سینٹ و کانگریس میں ان کی نمایندگی کا تناسب بھی بڑھتا چلا جائے گا۔
مسلم آبادی میں اضافے کی وجہ سے مغرب میں عملی‘ دعوتی اور اسلام پسند نوجوانوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگا اور ان کے اثرات وسیع ہوں گے۔ لہٰذا مغرب جو یہ خدشہ ظاہر کررہا ہے کہ عنقریب عیسائی دنیا اپنے ہی اکثریتی علاقوں میں اقلیت بن کر رہ جائے گی اور مسلمان وہاں غالب آجائیں گے تو اس میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے۔ اس سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ یورپی عیسائی ایک بار پھر اپنی آبادی بڑھانے کی کوشش کریں۔ لیکن مغربی مرد و عورت اپنے عیش و آزادی میں اب اتنے آگے جاچکے ہیں کہ وہاں سے پلٹ کر آنا ان کے بس میں نہیں رہا ہے۔