نزولِ قرآن کے بعد کوئی صدی ایسی نہیں گزری جس میں قرآن کے اعجاز بیان کے موضوع پر علمی مباحث کی گرم بازاری نہ رہی ہو۔زیرنظر کتاب عالمِ اسلام کی ایک محقق استاذہ ڈاکٹر عائشہ عبدالرحمن کی عربی تالیف الاعجاز البیانی للقرآن الکریم کا اُردو ترجمہ ہے۔مصنفہ متعدد بین الاقوامی کانفرنسوں اور سیمی ناروں میں قرآنی موضوعات پر مقالات پیش کرچکی ہیں اور ان کے زیرنگرانی متعدد پی ایچ ڈی اسکالر قرآنی موضوعات پر ریسرچ کرچکے ہیں۔
اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ منکرین‘ قرآن کے ہر چیلنج کے سامنے عاجز آگئے۔ وہ عرب قوم جو اپنی فصاحت و بلاغت اور خطابت و زبان آوری پر فخر کرتی تھی‘ اس کے شاعر و خطیب اس قرآن کی معجزبیانی کے سامنے اپنی بے بسی کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئے۔ آخر وہ قرآن کی مثل ایک سورت بھی لاسکنے سے کیوں عاجز رہے؟ جب کہ عربی ان کی مادری زبان تھی اور وہ زبان و بیان پر پوری طرح قادر تھے‘ اس سوال کا جواب مصنفہ نے کتاب میں دینے کی بڑی اچھی کوشش کی ہے۔ ان کے نزدیک اہلِ عرب نے قرآن کے اعجاز بیان کا ادراک کرلیا تھا جس نے انھیں کسی بھی ایسی کوشش سے مایوس کردیا کہ وہ قرآن کے کسی بھی لفظ کی جگہ کوئی دوسرا لفظ لاسکیں یا کسی آیت کو دوسرے انداز میں پیش کرسکیں۔ (ص ۱۵)
قرآن کا اعجاز کیا تھا؟ اس سوال کا احاطہ کرنے کی کوشش کرنے والوں کے دلائل اور تذکروں سے تاریخ ادب کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ کتاب کے مقدمے میں مصنفہ نے بڑی عرق ریزی سے علماے سلف کی عبارات کے حوالے سے یہ دل چسپ حقیقت بیان کی ہے کہ ہرزمانے کے محققین نے یہ دعویٰ کیا کہ اعجاز قرآن پر جو کچھ وہ لکھ رہے ہیں‘ وہ حرف آخر ہے۔ حافظ ابن قتیبہ سے ابوبکرالسجستانی تک‘ رمّانی و قاضی عبدالجبار سے باقلانی تک‘ یحییٰ علوی وابن رشد سے ابن سراقہ و برہان الدین بقاعی تک‘ جرجانی سے رافعی تک‘ انھی دعووں کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ لیکن ایک صدی بھی نہ گزر پاتی تھی کہ ان کے دعوے پر خط تنسیخ کھینچنے والا نیا دعوے دار اُٹھ کھڑا ہوتا اور قرآن کے اعجازِ بیان کو اپنی عقل و فکر کی محدودیتوں کا پابند کرنے کی کوشش کرتا حالانکہ قرآن کا اعجازبیان ان کی قائم کردہ حدبندیوں سے بالاتر تھا۔
اعجاز اور تحدی (چیلنج) میں فرق کیاہے؟ اس پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے۔ ماہرین بلاغت کی عبارات و اقتباسات کے ذریعے اعجاز قرآن کی بابت ان کا نظریہ بیان کیا ہے۔ مصنفہ نے اپنی تحقیقات کو تین فصول ’’اعجاز قرآن (۱) حروف میں (۲) الفاظ میں (۳) اسالیب میں‘‘ تقسیم کرکے ہر ایک کی وضاحت کے لیے آیات و سورتوں سے مثالیں دی ہیں اور یہ ثابت کرنے کی بہترین کوشش کی ہے کہ قرآن کا ہر لفظ‘ ہر حرف اور ہر اسلوب اپنی جگہ بھرپور بلاغت رکھتا ہے اور یہی اعجازِ قرآن ہے۔ کسی بھی قرآنی لفظ کے معانی کا تعین یا حرف کی وضاحت ’’تفسیر القرآن بالقرآن‘‘ کے اصول پر کی گئی ہے۔ کتاب اپنے موضوع کا مکمل احاطہ کرتی ہے۔ موضوع کے اعتبار سے ثقیل ہونے کے باوجود مترجم نے جملوں کو بوجھل نہیں ہونے دیا۔ ترجمہ سلیس اور رواں ہے۔ (ڈاکٹر اختر حسین عزمی)
قائداعظم محمدعلی جناح کو اپنی زندگی میں متحدہ ہندی قومیت کے علَم برداروں کی تنقید کا سامنا تھا‘اور انتقال کے بعد پاکستان کے کانگرسی عناصر اور بالخصوص ’روشن خیال اور ماڈریٹ‘ دانش وروں کی مخالفت بلکہ کردار کشی کی مہم کا نشانہ بننا پڑا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ دوسری قسم کے لکھنے والوں کے جارحانہ رویے میں وسعت آئی‘ جب کہ قائداعظم کے بارے میں حقیقت پسندی اور ہمدردی سے لکھنے والے اہلِ قلم میں ویسا عزم اور ویسی قوت سے نظر نہیں آتی۔ اس فضا میں پاکستان کے معروف صحافی اور دانش ور شریف فاروق کی زیرنظر کتاب متعدد حوالوں سے ایک گراں قدر کاوش ہے۔
مؤلف نے قائداعظم پر ولی خاں کی الزام تراشی کا مسکت جواب دیا ہے (ص ۲۳‘ ۲۸۵)۔ انھوں نے بجاطور پر یہ گلہ کیا ہے کہ: ’’پاکستانی مصنفین نے قائداعظم کے برطانوی سامراج کے خلاف انقلابی رول [کو نمایاں کرنے] کی طرف کوئی توجہ نہیں دی‘‘ (ص ۲۰۵)‘جب کہ اس کتاب میں اس موضوع پر بہت سے چشم کشا حوالے درج ہیں۔ بھارتی اسکالر ڈاکٹر اجیت جاوید کی کتاب سے اس ضمن میں نہایت دل چسپ حقائق پیش کیے ہیں (ص ۳۳۹-۳۷۹)۔ قائداعظم کی اسلامی یا سیکولر سوچ کے موضوع پر بڑی سیرحاصل بحث پیش کی گئی ہے۔ اسی طرح سٹینلے ولپرٹ کی جانب سے قائد کی سوانح پر سیرحاصل گفتگو کی گئی ہے۔
اسلوبِ بیان کسی خشک تحقیقی کتاب کا سا نہیں ہے‘ بلکہ صحافتی اسلوبِ نگارش میں تحقیقی حقائق کو عام فہم انداز میں ’جوشِ پاکستانی‘ (بروزن جوشِ ایمانی) کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ پروفیسر پریشان خٹک‘ شریف الدین پیرزادہ اور ڈاکٹر جاوید اقبال کی تقاریظ نے کتاب کے داخلی حسن کو نمایاں کیا ہے۔ کتاب مختلف اوقات میں مذکورہ بالا موضوع پر لکھے جانے والے مقالات کا مجموعہ ہے۔ ہماری نئی نسل کو اس طرح کی کتابیں پڑھنا چاہییں۔ (سلیم منصور خالد)
یہ سوال بار بار اٹھایا جاتا ہے کہ مذہب و سیاست کی حدود کیا ہیں؟ کیا انھیں ایک دوسرے کے ساتھ متحرک ہونا چاہیے یا دونوں کے اہداف و دائرہ کار مختلف ہیں‘ اس لیے ایک کو دوسرے کے امور میں دخل نہ دینا چاہیے۔ جدید تہذیب کی تو بنیاد ہی یہ ہے کہ مذہب کو کاروبارِ زندگی سے بالکل الگ تھلگ رکھنا چاہیے۔ اس موضوع پر بحث جاری ہے۔
انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی‘کوالالمپور‘ ملایشیا میں شعبہ اقتصادیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر محمد عارف ذکاء اللہ کی کتاب Religion and Politics in America: The Rise of Christian Evangaelists and Their Impact فروری ۲۰۰۷ء میں منظرعام پر آئی ہے۔ کتاب کا بنیادی خیال امریکا میں مذہب اور سیاست کا باہمی تعامل اور اس کی جہات کا تعین ہے۔ اس کتاب میں مسیحی ایوینجیلیکل (بنیاد پرست) مذہب کے تاریخی پس منظر اور نشوونما کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مصنف نے دلائل اوراعداد و شمار بھی پیش کیے ہیں لیکن اس تحقیق کا مقصد کسی ملک یا اس کے عوام کو موردالزام ٹھیرانا نہیں ہے بلکہ بین التہذیبی مکالمے کے لیے فضا ہموار کرنا ہے۔
کتاب کا آغاز مسلم دنیا اور امریکا کے درمیان پائے جانے والے موجودہ حالات کے جائزے سے کیا گیا ہے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ ۲۰ویں صدی کے پہلے ۱۰برسوں میں دونوں اطراف کے انتہاپسندوں نے کچھ ایسے اقدامات کیے جن کی بدولت غلط فہمی اور بداعتمادی کی خلیج زیادہ گہری ہوگئی۔ مغربی ممالک اور عالمِ اسلام دونوں کی اکثریت امن سے محبت کرنے والی ہے۔ مغرب کے شاطروں نے تہذیبی کش مکش اور اسلامی فوبیا جیسے نظریات پیش کرکے سارا الزام مسلمانوں اور اسلام کے سرمنڈھ دیا ہے۔ دوسری طرف مسلم دنیا کا یہ عالم ہے کہ مسائل کے حل کے لیے جو ماڈل پیش کیے گئے ہیں ان سب میں ہر الزام مغرب پر جاتا ہے یا اسرائیل پر۔ مصنف کا خیال ہے کہ ایک مختلف اپروچ کی شدید ضرورت ہے۔
مسلم دنیا کو اس بات کی قدر کرنا چاہیے کہ مغربی معاشروں میں عوامی راے کو غیرمعمولی قدروقیمت حاصل ہے۔ وہاں صدر‘ وزیراعظم اور کابینہ کی خواہشات کو راے عامہ پر فوقیت حاصل نہیں ہے۔ کتاب میں امریکا میں مسیحیت کے پس منظر کو بیان کیا گیا ہے۔ ذکاء اللہ نے ان اقتصادی و معاشرتی اسباب کا جائزہ بھی لیا ہے جن کی بدولت امریکی معاشرہ ’موجودہ مسیحی بنیاد پرستی‘ کی طرف راغب ہوا اور قدامت پسند اقلیت بن گئے۔یہ ’بنیاد پرست مسیحیت‘ فکری، تعلیمی اور تنظیمی میدانوںمیں سرگرم ہوگئی۔ اس کا زیادہ انحصار ذرائع ابلاغ پر رہا‘ تاہم اس نے ’سیاست میں عدم شرکت‘ کی پالیسی پر بھرپور عمل کیا‘یہاں تک کہ ۱۹۷۶ء کے صدارتی انتخابات نے مسیحی بنیاد پرستی کا راستہ ہموار کیا اور اسے سیاسی قوت کا راستہ مل گیا۔
آخر میں مصنف کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے تعلیمی و فکری حلقوں میں نئی تہذیبی اپروچ اور بیداری کی ضرورت ہے۔ مسلمان دانش وروں‘ ذرائع ابلاغ اور پالیسی سازوں کو سنجیدگی کے ساتھ سمجھنا چاہیے کہ مغرب میں معاشرہ کس طرح کام کرتا ہے۔ انھیں مغرب کی راے عامہ سے تعمیری انداز میں معاملہ کرنا چاہیے۔ اس کے نتیجے میں تہذیبوں کے درمیان ایک حقیقی‘ بامعنی اور بین التہذیبی مکالمے کا آغازہوسکتا ہے۔ اس کے ذریعے کئی مسائل کے حل کے لیے پرامن اور باہمی طور پر فائدہ مند فضا پیدا ہوسکتی ہے۔ کتاب کا عربی میں ترجمہ بھی دستیاب ہے۔ (محمد ایوب منیر)
محمودعالم (م: ۲۴ مارچ ۲۰۰۷ء) ایک حساس دل کے مالک تھے۔ ان کے زیرنظر مجموعے میں شامل ۱۶کہانیوں کے موضوعات بالکل منفرد ہیں۔ ادگھڑ‘ خواجہ سراڈائسٹی‘ تماشا میرے آگے‘ اب کوئی گلشن نہ اُجڑے‘ صاحب کا کتا‘ برمردار‘ ایک دوست کا مرثیہ‘ سونامی اور اصیل مرغ۔ بعض افسانوں میں کہانی پن تو بہت کم ہے لیکن احساسات و جذبات کا ایک سیلِ رواں ہے۔ ان کے ہاں اُمت مسلمہ کی حالتِ زار اور اس کی وجوہ کی بنیادیں تلاش کرنے کی کامیاب کوشش دکھائی دیتی ہے۔ سپرطاقتوں کے ہاتھ میں بنے کٹھ پتلی مسلم حکمرانوں نے ذاتی مفادات کی خاطر کس طرح وحدت ملّی کو پارہ پارہ کردیا‘ اپنے پرائے کی پہچان ختم ہوگئی اور یہود و نصاریٰ کے اشاروں پر اپنے ہی بھائی بندوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔
محمودعالم کی ان کہانیوں میں قرآن و حدیث کے حوالے بکثرت ملتے ہیں۔’انوکھا تجربہ‘ میں اخلاق کی تبلیغ خاص طور پر بوڑھوں کے ساتھ برتائو کو موضوع بنایا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ خدا کے ہاں اس عمل کا کیا درجہ ہے۔ ’خوشبو‘ اور ’طائران حرم‘ میں سچے اور پاک جذبات کی ترجمانی کی گئی ہے۔ ’دیدۂ تر‘ ایک معصوم خوب صورت لڑکی کی کہانی ہے جو محبت کے پاکیزہ جذبات رکھتی ہے اور فطرت کی طرح نہایت ہی سادہ و معصوم اور مادیت پرستی سے بے گانہ ہے۔ ’سفید جھوٹ‘ اور ایک ’دل ناصبور‘ میں بھی محبت کے پاکیزہ جذبات کو بیان کیا گیا ہے۔ ایک چھوٹی سی کہانی ’پشیمانی‘ کے نام سے ہے جو اگرچہ بچوں کے لیے ہے لیکن اس میں ایک بھائی کی محبت کا قصہ ہے خاص طور پر جب انسان کسی نعمت سے محروم ہوجاتا ہے تو عمربھر اس کی تلافی نہیں ہوسکتی۔
محمودعالم کی یہ کہانیاں تصنع اور بناوٹ سے پاک ہیں‘ بلکہ ایک ایسے شخص کی آواز ہیں جو اپنے گھر کو جلتا ہوا دیکھتا ہے اور بے اختیار چلّاتا ہے۔چلّانے کے اس عمل میں اگرچہ فنی تقاضوں کا خیال رکھنا مشکل ہوتا ہے لیکن اس کی ایک خوبی یہ ہوتی ہے کہ ’ازدل خیز دبر دل ریزد‘ یعنی دل سے یہ جذبات اُٹھتے ہیں اور دل پر اثر کرتے ہیں۔(محمد ایوب لِلّٰہ)
ماہ نامہ بتول گذشتہ ۶۰ سال سے شائع ہو رہا ہے۔ ’اشاعتِ خاص‘ بتول کی روایت رہی ہے۔ زیرنظر ’افسانہ نمبر‘ اسی کا تسلسل ہے۔ اس میں افسانوں اور کہانیوں کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ ادب کی ماہیت و مقاصد اور اسلامی ادب کی بنیادی اقدار کی وضاحت پر سیدامجدالطاف‘ عمادالدین صدیقی اور ماہرالقادری کے خاص مضامین‘ بتول کی قلم کاروں کے بارے میں فرزانہ چیمہ کا سروے‘ شاہدہ ناز قاضی سے ایک ملاقات‘ سلمیٰ اعوان کے سفرِاستنبول کی ایک جھلک‘طویل اور مختصر افسانے۔ کلاسیکی ادب سے پریم چند کا معروف اضافہ ’حج اکبر‘ اور امریکی افسانہ نگار کیٹ چوپن کا شاہ کار افسانہ ’پچھتاوا‘ جسے خاص نمبر کی بہترین تحریر کہا جاسکتاہے۔
بتولکے نئے پرانے لکھنے والوں کے یہ افسانے‘ اس خاص ذوق اور ذائقے کے آئینہ دار ہیں جو بتولکا نصب العین اور اس کی پہچان ہیں‘ یعنی حسنِ معاشرت کا وہ اسلوب اور وہ طریقہ جس میں حضرت فاطمۃ الزہراؓ ، اسوۂ کامل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان افسانوں میں ایک پاکیزہ اور صالح زندگی کے نمونے ملتے ہیں اور یوں یہ افسانے ایک مثبت اور تعمیری فکر کی نمایندگی کرتے ہیں۔(رفیع الدین ہاشمی)
اشاعت خاص حسن البنا کا دوسرا حصہ جیسا کہ اعلان کیا گیا ہے کتاب ہوگی۔ اشاعت کے بارے میں آیندہ شمارے میں اطلاع ملاحظہ فرمایئے۔ (ادارہ)