جولائی۲۰۰۷

فہرست مضامین

مدیر کے نام

| جولائی۲۰۰۷ | مدیر کے نام

Responsive image Responsive image

ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی‘کراچی

امام حسن البنا شہیدنمبر میں ماشاء اللہ کافی اچھے مضامین ہیں‘ خاص طور پر وہ انٹرویو جو عبدالغفار عزیز صاحب نے لیے ‘ اور ان میں بھی عبدالمعز عبدالستار سے انٹرویو بہت معلومات آفریں ہے۔ شمارے میں تین باتوں کی کمی محسوس ہوئی‘ ایک تو ضروری تھا کہ ایک خاص صفحے پر شہید امام کا سوانحی خاکہ دیا جاتا‘ بچپن سے شہادت تک کے واقعات سال بہ سال۔ دوسرے یہ کہ ان پر لکھی جانے والی تصنیفات ایک مضمون میں جمع کر دی جاتیں‘ خاص طور پر جو عربی‘ اُردو اور انگریزی میں خاص ہیں۔ تیسرے یہ کہ عالمِ عرب میں‘ شہید اور ان کی تحریک کے اثرات‘ جو آپ سے پوشیدہ نہیں ہیں ان کا تذکرہ کیا جاتا۔ ڈاکٹر انیس احمد صاحب کے مضمون میں پروفیسر کینٹ ویل اسمتھ کا ایک اقتباس اس کی کتاب Islam in Modern History سے دیا گیا ہے‘ جس میں اخوان کی یک گونہ تعریف ہے۔ لیکن اسی مصنف نے اپنی  اسی کتاب میں سید قطب اور مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے خلاف بہت زہر اگلا ہے۔ پروفیسر اسمتھ نے میک گل یونی ورسٹی‘ کینیڈا کے ادارہ تحقیقات اسلامی سے وظائف  دلوا کر متعدد پاکستانیوں کو وہاں تعلیم و تحقیق کے لیے بلایا‘ جن میں سے متعدد ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کی تصویر ثابت ہوئے ہیں۔[ترجمان: ڈاکٹر صاحب کی بیان کردہ پہلی دونوں چیزیں‘ آنے والے مجموعہ مضامین کے خاکے میں شامل ہیں‘ البتہ تیسرے نکتے پر کوئی جامع تحریر حاصل نہیں کرسکے۔]

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی‘معاون مدیر سہ ماہی تحقیقاتِ اسلامی‘ علی گڑھ‘ بھارت

اشاعتِ خاص خوب صورت ‘ دل آویز اور مؤثر تحریروں پر مشتمل ہے۔ بیش تر قدیم تحریریں‘ جن کے ترجمے شاملِ اشاعت ہیں پہلی مرتبہ نظر سے گزری ہیں۔ جہاں تک یہ کہا گیا ہے کہ: ’’یہ [تحریریں] ابھی تک اُردو میں شائع نہیں ہوئیں‘‘ (ص ۴) عرض ہے کہ ان میں سے ’قرآن کی تفسیر کا اسلوب‘ (ص ۲۰۹) اور’اُمت کا معمار (ص ۸۵) بالترتیب سہ ماہی تحقیقاتِ اسلامی علی گڑھ جنوری ۱۹۹۰ء میں اور مکتبہ اسلامی دہلی ۱۹۹۶ء سے شائع ہوچکی ہیں۔ترجمے کی سعادت راقم کو حاصل ہوئی۔ ایک جگہ طٰہ حسین کی بے دینی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے: ’’لوگوں نے بجاطور پر گرفت کی‘اور وہ بعدازاں یہ کہنے پر مجبور ہوئے: لیکن میں قرآن مجید پر ایمان رکھنے کے باعث دونوں [ابراہیم اور اسماعیل علیہم السلام] کے تاریخی وجود کا اقرارکرتا ہوں‘‘ (ص ۲۲۲)۔ یہ بات درست نہیں ہے‘ انھوں نے اپنی بات سے رجوع نہیں کیا تھا‘ دیکھیے: فی الادب الجاہلی۔پروف کی چند دیگر غلطیوں کے باوجود ترجمان کی اشاعتِ خاص کی اہمیت مسلّم ہے۔ اتنا معیاری‘ خوب صورت اور وقیع نمبر شائع کرنے پر ‘ پُرخلوص مبارک باد قبول فرمائیں۔

حافظ عبدالمجید‘ باجوڑ ایجنسی‘ سرحد

خصوصی شمارہ پڑھ کر دل میں جذبہ اور تڑپ پیدا ہوئی۔ اس طرح کی دستاویزات کے مطالعے سے اسلام سے عقیدت اور تحریک کی خدمت کا جذبہ سِوا ہوجاتا ہے۔ پروفیسر خورشیداحمد کے دل کش اور معلومات افزا مضمون نے گویا کہ رسالے میں جان ڈال دی ہے۔ میاں طفیل محمدصاحب کے پُرسوز انٹرویو نے دل کو موم کردیا۔ حسن البنا اور قائداعظم کے خطوط پر مشتمل مضمون سے حسن البنا کی پاکستان سے محبت اور عالمِ اسلام کے تعلق کا لازوال پہلو  اُبھر کر سامنے آیا۔ ہمارے مرشدین اور قائدین کس طرح زمینی فاصلوں کی دُوری کو ایمان کی تڑپ سے اتنا قریب کردیتے تھے کہ مصر میں بیٹھا فرد پاکستان کے بارے میں اس طرح سوچتا نظر آتا ہے جیسے وہ یہاں پر سب کچھ دیکھ کراپنے جذبات بیان کر رہا ہے۔ افسوس کہ مشکل اور مصیبت کے لمحات میں پاکستانی حکام نے اخوان کی مدد کے لیے کچھ نہ کیا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ یہ شمارہ پاکستان کے ہرکالج‘ اسکول اور یونی ورسٹی کو بھیجا جاسکے۔[ترجمان: کیوں نہیں‘ کوئی صاحب ِ دل (و جیب )اسپانسر کرے۔]

حامد عبدالرحمٰن الکاف‘یمن

سرورق اخوان المسلمون کی دعوت کا خلاصہ ہے۔ سلیم منصورخالد نے جس سلیقے سے‘ بانیِ اخوان اور  بانیِ پاکستان کی ملاقات‘ ان کے باہمی تعلقات‘ مسلمانانِ ہندوپاک سے اخوان اور بانیِ اخوان کے خالص   اخوتِ اسلام پر مبنی تعلقات جن کی کڑیاں تقسیم کے جان لیوا اور خون چکاں فسادات اور حیدرآباد دکن پر فوج کشی سے جاملتی ہیں‘ پیش کیا ہے اور اس سلسلے میں وثائق کو برسرِعام لائے ہیں‘ وہ بجاے خود تاریخ کو زندہ کرنے کے مترادف ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ دونوں طرف کے سیکولر ذہن کے علَم برداروں نے کس طرح اس اُمت کو بحرانوں کا شکار کیا ہے۔ ان سازشوں کا سلسلہ آج بھی ہر جگہ جاری ہے۔ دیگر مقالات ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ علامہ یوسف القرضاوی کی تحریر کا نہ ہونا باعثِ حیرت ہے۔ سیف الاسلام حسن البنا نے اگرچہ نادر وثائق فراہم کرکے ایک بڑی خدمت انجام دی‘ تاہم ان کی تحریر کی کمی محسوس ہوئی۔

ملک عبدالرشید عراقی‘سوہدرہ‘ وزیرآباد

حسن البنا شہید نمبر کے جن مضامین نے بالخصوص متاثر کیا‘ اور حسن البنا کی شخصیت سے آگاہی ملی ہے‘ ان میں احمد عبدالرحمن‘ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی‘ ڈاکٹر رضوان علی ندوی‘ میاں طفیل محمد‘ جنرل عزیز مصری‘ عبدالحلیم وشاحی اور ڈاکٹر صلاح الدین شامل ہیں‘ جزاکم اللّٰہ!

توراکینہ قاضی‘ گجرات

حسن البنا شہید نمبر ہراعتبار سے شان دار‘ پُروقار ‘ مکمل اور وقیع دستاویز ہے۔ ہرمضمون دل چسپ‘   توجہ کھینچنے والا اور اس عظیم شخصیت سے آگاہ کرنے والا ہے۔ ’حسن البنا اور قائداعظم‘ خاصا معلوماتی مضمون ہے۔ میری طرح اکثر پاکستانیوں کو بھی اس سے قبل یہ معلوم نہیں تھا کہ امام شہید کی قائداعظم مرحوم سے کبھی کوئی ملاقات بھی ہوئی تھی۔ امام شہیدکے قلم سے سورہ الحجرات کی تفسیر پڑھ کر روحانی مسرت ہوئی۔

محمد کلیم اکبر صدیقی ‘ لندن‘ برطانیہ۔ ڈاکٹر رئیس احمد نعمانی‘ علی گڑھ‘ بھارت

اشاعتِ خاص کی خصوصی کاوش پر ہدیہ تبریک پیش خدمت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو امام شہید کی طرح زندگی کا ایک ایک لمحہ‘ دین اسلام کی خدمات اور اس کی سربلندی کے لیے وقف کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ جناب میاں طفیل محمد کا انٹرویو بہت پُراثر اور ایک اعلیٰ کردار اور وسیع الظرف شخصیت کا مظہر ہے۔

جمیل احمد رانا ‘کلورکوٹ‘ بھکر

ایمان اور دین اسلام سے وابستگی کے جذبوں سے لبریز اور معلومات و دل چسپی سے بھرپور ترجمان کی اشاعتِ خاص کواوّل سے آخر تک میں نے اس انہماک سے پڑھا کہ جب آخری صفحے پر پہنچا تو اس دعوت‘ اس تحریک اور اس شخصیت کے بارے میں پڑھنے کی پیاس اور زیادہ بڑھ گئی۔ کیا آپ کے بس میں یہ ہے کہ اس کا دوسرا حصہ جلد از جلد لائیں‘ اور اس سے زیادہ اہم یہ بات کہ اشاعتِ خاص تحریک کے ہرکارکن تک پہنچ جائے‘ اور اس سے بھی زیادہ اہم تر یہ امر کہ کارکن اس کو پڑھ بھی لیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ دستاویز‘ کارکنوں کو ایک نئی قوت اور ایمان کی نہ ختم ہونے والی لذت دے سکتی ہے۔

ڈاکٹر کوکب صدیق‘ مدیر New Trend‘امریکا

اشاعتِ خاص حسن البنا بہت سے قیمتی ہیروں سے آراستہ دستاویز ہے‘ جنھوں نے اخوان المسلمون کی تاریخ اور داخلی خوبیوں کو آشکارا کیا ہے۔ ان تحریروں میں خصوصی دل چسپی کا حامل وہ حصہ ہے‘ جس میں حسن البنا کے محمدعلی جناح کے نام خطوط ہیں‘ اور ان دونوں عظیم شخصیتوں کی ملاقات کا تذکرہ ہے‘ جب کہ سب سے زیادہ حیرت زدہ کردینے والی وہ تصویر ہے‘ جس میں حسن البنا کی جانب سے جناح مرحوم کو پیش کیا جانے کا نسخہ قرآن ہے اور جو آج بھی قائداعظم کے مزار کے گوشہ نوادرات میں موجود ہے۔

احمد علی محمودی‘ حاصل پور

اشاعتِ خاص بلاشبہہ ایک اہم تاریخی دستاویز ہے۔اگر فکری سطح پر دیکھیں تو سیدمودودی‘ حسن البنا اور علامہ اقبال ایک ہی فکری دھارے کی عظیم شخصیات ہیں۔ اس لیے مستقبل قریب میں علامہ اقبال پر ایک اشاعتِ خاص کا بھی اہتمام ہونا چاہیے۔

گلزار احمد اصغر ‘اسلام آباد

اشاعت ِ خاص کے مطالعے سے معلومات میں وہ گراں قدر اضافہ ہوا جو شاید بہت سے متفرق لوازمے یا کتب کے مطالعے سے حاصل نہ ہوپاتا۔ شرق اوسط میں شہید حسن البنا اور برعظیم پاک و ہند میں مولانا سیدابوالاعلیٰ کی کاوش و جدوجہد بلاشبہہ بڑی عزیمت کی مثالیں ہیں‘ لیکن اس دوران میں ایران میں آیت اللہ روح اللہ خمینی مرحوم کی قیادت میں‘ وہاں کے عوام نے طاغوت کی غلامی سے نجات پاکر اسلامی جمہوریہ قائم کی۔ وہاں پر لادینی اور مغربی سامراج کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے اس تجربے کا بھی مطالعہ پیش کیا جانا چاہیے۔

ملک نواز احمد اعوان ‘ کراچی

یہ ایک جامع اشاعت ہے جس میں معلومات افزا اور امام حسن البنا کی حیات و خدمات کے متنوع گوشوں کی وضاحت پر مبنی مقالات شامل ہیں۔ امام البنا کے قائداعظم کے نام خطوط‘ ان کی مسلمانوں سے محبت‘ اوردردمند دل کا ثبوت ہیں۔ اس اشاعتِ خاص سے مسلمانانِ عالم میں باہمی تعلق اور فکری آگہی کی ترقی ہوگی۔ رسالہ دوچار بار کھولنے سے ہی اوراق علیحدہ ہوکر باہرآجاتے ہیں‘ افسوس کہ اتنی قیمتی اشاعت کی جلدبندی ناقص ہے۔

خالد ندیم ‘شیخوپورہ

’علامہ اقبال کی وابستگیِ رسولؐ: چند پہلو‘ (اپریل ۲۰۰۷ء) سے ایک طرف تو اقبال کے حبِ رسولؐ سے بے قرار دل کے احوال کا علم ہوتا ہے اور کلامِ اقبال کے بعض نکات کی وضاحت ہوتی ہے‘ دوسری طرف قاری کے دل میں عشقِ رسولؐ کی شمع جگمگا اُٹھتی ہے۔

عبدالحق ‘اسلام آباد

’کون مہذب ہے؟ کون غیرمہذب؟‘ (اپریل ۲۰۰۷ء) ’وُون رِڈلے‘ کی تحریر ہے۔ ان کے نام کا  صحیح تلفظ اِی وان رِڈلے ہے۔یہ خاتون برطانیہ میں ایک ٹی وی چینل (اسلام چینل) میں کمپیئرنگ بھی کرتی ہیں۔ ان کے نام کا تلفظ سب لوگوں سے وہاں ’اِی وان‘ ہی سنا ہے۔

محمود حسین ‘کراچی

’قائداعظم اور سیکولرزم‘ (مارچ ۲۰۰۷ء) میں اگر قائداعظم کی ۱۱؍اگست کی تقریر کے متنازع حصے کو     بہ مقابلہ ان حصوں کے جو غلط نقل کیے گئے ہیں یا کیے جاتے ہیں‘نقل کردیا جاتا تو قاری کے لیے اس بددیانتی کو سمجھنے میں آسانی ہوجاتی‘ اور یہ breaking news ہوتی۔

عبدالستار ‘امریکی جیل سے

مولانا مودودیؒ کا لٹریچر جیلوں کی مسجدوں سے اٹھایا جا رہا ہے۔ سرعام مولانا کو ’منحرف‘ (deviant) کہا جا رہا ہے۔ تکفیر کے فتوے انگلش میں چھاپے جارہے ہیں۔ سیدقطب‘ حسن البنا‘ مولانا اشرف تھانوی کو بھی حقارت آمیز لہجے میں یاد کیا جارہا ہے۔امام مسجد بھی بدل گیا ہے۔ مسجد میں سے سب کتابیں اٹھا لی گئی ہیں۔   بہت پریشان ہوں۔ اپنی  کم علمی پر شدیدرونا آتا ہے۔ میرے لیے بہت ساری دعا فرمائیں۔