جولائی۲۰۰۷

فہرست مضامین

شیعہ سنی مکالمہ ‘ وقت کی ضرورت

نظرحجازی | جولائی۲۰۰۷ | شذرات

Responsive image Responsive image

دیوار برلن کو گرے ہوئے دو عشروں سے زیادہ عرصہ گزرچکا ہے۔یورپ سمیت دنیا کے مختلف ممالک مضبوط تر بلاک بنانے میں مصروف ہیںمگرایک اُمت مسلمہ ہے جسے ٹکڑیوں میں بانٹنے کے لیے بغداد میں دیوار تعمیر ہو رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان باڑ لگائی جارہی ہے اور ایران‘ پاکستان کی سرحد پر رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں۔ اُمت مسلمہ اپنے نازک ترین دور سے گزر رہی ہے۔۱۴سو سالہ تاریخ میں خون مسلم اتنا ارزاں نہیں ہوا جتنا آج ہے۔ یہ اُمت اپنی تاریخ کے مختلف ادوار میں کئی بحرانوں سے گزرچکی ہے۔کبھی تاتاریوں نے اس پر حملہ کیا تو کبھی صلیبی یلغار نے اس کے وجود کو مٹانے کی کوشش کی۔دور جدید میں مغربی استعمار نے اس کی شناخت مسخ کرنے کی پوری کوشش کی مگر اس دین نے ثابت کردیا ہے کہ وہ بڑے سے بڑے بحران کا  ڈٹ کر مقابلہ کرسکتا ہے۔اس دین کے مزاج میں زیر ہوکر رہنا نہیں۔یہ حق کا غلبہ اور دیگر باطل ادیان کو سچی الہامی ہدایت کے سایے میں لانا چاہتا ہے کہ یہی خالق کائنات کی مرضی ہے۔ اس چراغ کو پھونکوں سے بجھایا نہیں جاسکتا ۔

تاریخ کے مختلف ادوار میں اس پر حملے ہوتے رہے مگر ہر حملہ آور پر یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ اس دین کے پیروکاروں کو زیر کرنے کے لیے اس میں نقب لگانا ضروری ہے ۔اُمت سے تعلق رکھنے والے چند افراد کا ایمان و ضمیر خرید نے پر ہر حملہ آور مجبور ہوا کہ اس کے بغیر اسے تمکنت حاصل نہ ہوسکی۔اس کارگرطریقہ کار کے علاوہ نقب لگانے والے دشمنوںنے ایک اور چال یہ چلی کہ اُمت میں تفرقے کو ہوا دی ۔مسالک اور گروہوں میں بٹی اُمت کا ہر گروہ خود کو حق پر اور دوسرے کو غلط سمجھتارہا ۔دور جدید کا ہلاکو بھی اُمت پر اپنا حق حکمرانی جتاتا ہے مگراپنے پیش روؤں کی طرح  اسے بھی معلوم ہے کہ اُمت میں نقب لگانے کے لیے کارگر نسخہ یہی ہے کہ اس کی وحدت کو ختم کر دیا جائے اور تفرقہ بازی کواس قدر ہوا دی جائے کہ اُمت کے افراد باہم دست وگریباں ہوجائیں۔

اُمت کو گروہوں میں بانٹنا فرعون کا طریقہ ہے۔قرآن مجید میں اس حوالے سے ہمیں ملتا ہے:

اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِی الْاَرْضِ وَ جَعَلَ اَھْلَھَا شِیَعًا (القصص ۲۸: ۴)    واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کردیا۔

قرآن مجید میں فرعون کا ذکر ۷۰سے زاید مقامات پر ملتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فرعون ایک شخص کا نام نہیں بلکہ یہ ایک ایساکردار ہے جس سے تاریخ کے مختلف ادوارمیں اُمت کو سابقہ پڑا۔موجودہ دور میں اُمت کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو مختلف واقعات اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ ہمارے دشمن فرعون کے وتیرے کا دوبارہ احیا کرتے ہوئے ہمیں ٹکڑیوں میں بانٹنے کی سعیِ مذموم کررہے ہیں۔پاکستان میں پارہ چنار کے واقعات سے لے کر بغداد میں سنی شیعہ آبادی کے درمیان دیوار کی تعمیر، اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ ہمارے دشمن شیعہ سنی فسادات کو ہوا دینے میں جتے ہوئے ہیں۔ستم بالاے ستم یہ کہ دونوں گروہوں کے سادہ لوح پیروکار خود کو حق پر کاربند اور دوسرے کو باطل کا پیروکار قرار دے رہے ہیں۔ستم ظریفی یہ ہے کہ اُمت کے دونوں گروہ جس قرآن مجید پر ایمان رکھتے ہیں اس کی واضح ہدایت ہے کہ:

اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَھُمْ وَکَانُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْھُمْ فِیْ شَیْئٍط (الانعام ۶: ۱۵۹)جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور گروہ گروہ بن گئے‘ یقینا ان سے تمھارا کچھ واسطہ نہیں۔

شیعہ اور سنی، مسلمانوں کے دو بنیادی فرقے ہیں جن کے درمیان ۱۴صدیاں پہلے خوںریزیاں ہوچکی ہیں۔ان اختلافات پر اب زمانوں کی گرد پڑی ہوئی ہے ۔اس گرد کو جھاڑنا نادانی ہی نہیںبلکہ خودکشی ہے۔ فتنے کا سر کچلنا اُمت کے ہر صاحب شعور کا فرض ہے۔ ان خوںریزیوں کو یاد کرنا سوئے ہوئے فتنے کو جگانے کے مترادف ہے۔یہ بات تو مسلمہ ہے کہ ہمارا مشترکہ دشمن اس گرد کو جھاڑ کر دونوں فرقوں میں سے کسی کی خدمت نہیں کررہا بلکہ ’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ کے قدیم اصول پر عمل پیرا ہے۔ ۱۱ستمبر کے بعد ہمارے دشمن نے ہمیں زیر کرنے کی ہر ممکن کوشش کرڈالی مگر آخر کار وہ فرعون کے طریقے پر عمل پیرا ہونے پر مجبور ہوا۔پاکستان اور عراق سمیت مختلف مسلم ممالک میں شیعہ سنی تصادم کو ہوا دینے کی کوشش کی جارہی ہے ۔دشمن اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ اُمت کو زیر کرنے کے لیے جو کام اسے انجام دینا ہے‘ وہ کام اُمت کو تفرقے میں ڈال کر  خود اسی کے ہاتھوں لیا جا سکتا ہے۔

اُمت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ متعدد مسالک اور فرقے بذات خود معیوب نہیں‘ نہ یہ اجماع اُمت میں ہی مخل ہیںبلکہ مختلف مکاتب فکر سے پیدا ہونے والا تنوعِ افکار، اُمت کی تقویت کا باعث ہے۔مختلف مکاتب فکر کی موجود گی دین میں آزادیِ اظہار اور آزادیِ فکر کا باعث ہے۔ ہرمکتب فکر کا اپنا تشخص ہے جسے کسی طور مسخ کیا جاسکتا ہے نہ نظرانداز۔ صدیوں کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ مسلمانوں میں دو مکاتب فکر‘ شیعہ اور سنی‘ میں ہر ایک کے اپنے نظریات و افکار ہیں۔ تنوع افکار کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دونوں الگ الگ قومیں ہیں ۔علماے اُمت کا اس بات پر اجماع ہے کہ چند اصولی اور بیش تر فروعی اختلافات کے باوجود اہلِ تشیع اُمت کا حصہ ہیں اور مل جل کر رہنا ہی سب کے لیے زندگی اور ترقی کا راستہ ہے۔ موجودہ دور کے جید علما کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مسلمانوں کے کسی گروہ کو کافر یا خارج از ملت قرار نہیں دیا جاسکتا، نیز ملت سے اخراج کا فیصلہ افراد کے ذمے نہیں بلکہ یہ شرعی عدالت کا کام ہے۔اس میں یہ اصول بھی طے ہے کہ انفرادی اعمال کا انطباق اجماع پر نہیں کیا جاتا۔قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔دین اسلام، مسلمان کی عزت و آبرو اور اس کی جان و مال کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔کسی  سنی کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی شیعہ کو برا کہے‘ نہ کسی شیعہ کے لیے جائز ہے کہ وہ کسی سنی کی عزت پر حملہ کرے۔ مسلمان خواہ وہ شیعہ ہوں یا سنی‘ دونوں کے درمیان بے شمار مشترکہ اقدار ہیں۔وہ ایک اللہ، ایک رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، ایک قبلہ اور ایک قرآن کریم کو مانتے ہیں۔دین کی بنیادی چیزوں پر دونوں کا اتفاق ہے‘ ایک آدھ مسئلے کے سوا سارے اختلافات فروعی ہیں اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فروعی معاملات میں تو اختلاف خود سنی مسالک میں بھی ہے۔ ان اختلافات کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے اور تفرقہ اور تصادم کا ذریعہ ہرگز نہیں بننے دینا چاہیے۔

اُمت کے دشمن صدیوں پرانے تفرقے کو ہوا دے کر اُمت کی وحدت کو مٹانے کے درپے ہیں ۔ اُمت کے مفکرین ، اہل قلم اور عوام کو دشمن کی چالوں سے باخبر رہنا چاہیے۔دونوں مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علما پر بھاری ذمہ داری ہے اوروقت کی ضرورت ہے کہ عوام الناس کو بتایا جائے کہ ہمارا مسلک صحیح ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ دوسرے مسالک غلط ہیں۔ہم نے جس طرح نصوص کو سمجھا ہے، ضروری نہیں کہ دوسرا بھی اسی طرح ان نصوص کو سمجھے۔دونوں مکاتب فکر کے مابین قدر مشترک کو ایک دوسرے سے قربت کا ذریعہ بنایا جائے اور جن باتوں میں اختلاف ہے‘ انھیں اچھالنے سے گریز کیا جائے ۔آج سب سے زیادہ زور تہذیبوں کے درمیان مکالموں پر دیا جارہا ہے مگر ایک ہی تہذیب کے پیروکاروں کے مابین مکالمے کی ضرورت اس سے کہیں زیادہ ہے۔

دونوں مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد اور گروہوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ وقت ہمارا ساتھ نہیں دے رہا۔ہماری سرحدیں محفوظ ہیں نہ ہمارے ہوائی اڈے دشمن کی دسترس سے باہر ہیں۔دشمن گھات لگائے بیٹھا ہے۔اس کے فوجی اڈے اور جنگی بیڑے ہمارے چاروں طرف ہیں۔ اس کے دو ر مار میزائلوں کا نشانہ ہمارے شہر اور دیہات ہیں۔اس کی نظر میں شیعہ، سنی کی کوئی تفریق نہیں۔یہ نازک ترین وقت تصادم کا نہیںتفاہم کاہے،دوری کا نہیںقربت کا ہے۔ طوفان ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے اور ہم اس سے غافل ہیں    ؎

میری مانو چلو منجدھار میں موجوں سے ٹکرائیں
وگرنہ دیکھنا ، ساحل پہ سارے ڈوب جائیں گے