ابھی کعبے کے سایے میں طے پانے والے ’معاہدۂ مکہ‘ کی سیاہی بھی خشک نہ ہونے پائی تھی کہ اس کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔ ۱۹۴۸ء میں آدھے سے زائد فلسطین کو اسرائیل قرار دے دیے جانے اور ۱۹۶۷ء میں پورے فلسطین‘وادیِ سینا اور جولان کی پہاڑیوں پر قابض ہوتے ہوئے عرب افواج کو شکست فاش دینے کے علاوہ بھی فلسطینی قوم کو بہت بڑے بڑے صدمے‘ سانحے اور قیامتیں دیکھنا پڑی ہیں لیکن حالیہ سانحہ ۱۹۴۸ء اور ۱۹۶۷ء کے بعد سب سے تکلیف دہ گھائو ہے۔ دشمن کے وار سہنا اور اس کی طرف سے ظلم‘ زیادتی اور سازشوں کی توقع رکھنا تو سمجھ میں آتا ہے کہ درندے درندگی نہ دکھائیں تو اور کیا کریں، لیکن ’اپنے‘ بھی ان کی صف میں جاکھڑے ہوں تو صدمہ و اذیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔
۲۵ جنوری ۲۰۰۶ء کو بھاری اکثریت سے جیتنے کے باوجود حماس نے حیرت انگیز اصرار کیا کہ تنہا ہم حکومت نہیں بنائیں گے۔ انتخاب میں ہمارے مقابل شکست کھانے والی الفتح بھی آئے‘ ہم سب کے ساتھ مل کر قومی حکومت تشکیل دینا چاہتے ہیں۔ الفتح سے پہلے امریکا اور اسرائیل کی طرف سے جواب آیا: خبردارکسی صورت حماس سے اشتراک نہ کیا جائے‘ ہم ایسی کسی حکومت کو تسلیم نہیں کریں گے۔ انتخاب کے بعد حکومت سازی کے لیے دی گئی مدت ختم ہونے لگی تو حماس نے مجبوراً تنہا حکومت بنانے کا اعلان کردیا۔ الفتح کے سابق وزرا نے نئی تشکیل شدہ حکومت سے ’بھرپور تعاون‘ کیا، اور وہ یوں کہ دفاتر چھوڑتے ہوئے وہاں سے سارا فرنیچر‘ اسٹیشنری کا سامان‘ گاڑیاں حتیٰ کہ چائے کے برتن تک اپنے ساتھ لے گئے۔ ساتھ ہی امریکا‘ یورپ اور اسرائیل نے ہر طرح کی مالی امداد بند کردی۔ اسرائیل اپنے مقبوضہ علاقوں میں فلسطینی سامان رسد پر ماہانہ ۵۵ملین ڈالر کے ٹیکس جمع کرتا ہے جو اس کے پاس فلسطینی اتھارٹی کی امانت قرار دی گئی ہے‘ اس نے وہ بھی اداکرنے سے انکار کردیا۔ حکومت کے پاس کسی چپڑاسی تک کو تنخواہ دینے کے لیے کچھ نہ تھا۔ اس سارے کھیل کا اصل ہدف یہ تھا کہ فلسطینی عوام‘ حماس کو اپنے سارے دکھوں کا سبب قرار دیتے ہوئے بھوکے مریں گے تو ازخود بغاوت کردیں گے‘ حماس کی ناکامی درودیوار پر ثبت ہوجائے گی‘ لیکن صہیونی لومڑی دن رات ناچتے رہنے کے باوجود ’کھٹے انگوروں‘ تک نہ پہنچ سکی۔ فلسطینی عوام نے پہلے سے بھی بڑھ کر حماس پر اعتماد کیا۔ حماس کے وزیراعظم سمیت تمام ذمہ داروں نے بھی اپنا چولھا بجھا کر اپنے عوام کی خدمت کا بیڑا اُٹھا لیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب بلدیہ کے جمعداروں کو بھی تنخواہ دینا ممکن نہ رہا تھا تب وزیراعظم خود ان کے ساتھ مل کر غزہ کی سڑکوں پر صفائی کرنے کے لیے اُتر آیا۔
عین انھی لمحات میں امریکا نے صدر محمود عباس (ابومازن) کی ذاتی حفاظت کے لیے آٹھ کروڑ ۶۰ لاکھ (۸۶ ملین) ڈالر کی امداد فراہم کی۔ صدر کے مشیرخاص اور خود الفتح کی صفوں میں بھی بدنام اورمتنازع ترین شخصیت محمد دحلان کو اسلحے اور سرمایے کے ڈھیر فراہم کرنا شروع کردیے گئے تاکہ فلسطینی حکومت کی تابع سیکورٹی فورسز کے مقابل صدارتی فوج تیار کی جائے۔ تقریباً ۳۳ہزار افراد پرمشتمل متوازی سیکورٹی کھڑی کردی گئی‘ حماس کے ذمہ داران کے علاوہ ان کی حمایت کرنے والے عوام کے خلاف بھی کارروائیاں شروع کردی گئیں اور بالآخر فلسطینی صہیونی کے بجاے الفتح حماس جھڑپیں ہونے لگیں۔ اس موقع پر مختلف اطراف و اکناف سے مصالحت کی کوششیں ہوئیں اور گذشتہ مارچ میں طرفین نے سعودی فرماںروا شاہ عبداللہ کی دعوت پر مکہ آکر مذاکرات کیے‘ جن کے نتیجے میں ایک سال سے زائد عرصے کے بعد حماس کی یہ خواہش پوری ہوئی کہ فلسطین میں متفق علیہ قومی حکومت تشکیل دی جائے۔ حماس نے اس ضمن میں کئی کڑوے گھونٹ پیے‘ واضح اکثریت رکھنے کے باوجود خزانہ‘ خارجہ اور داخلہ سمیت کئی اہم وزارتوں سے دست برداری قبول کرلی اور حکومت میں امریکا کے منظورنظر کئی نام بھی قبول کرلیے جیسے خزانہ کے لیے سلام فیاض۔
معاہدۂ مکہ اور قومی حکومت کی تشکیل فلسطینی تاریخ میں ایک اہم موڑ ثابت ہوسکتا تھا لیکن بدقسمتی سے دحلان گروپ نے اس پر ایک روز کے لیے بھی عمل درآمد نہیں ہونے دیا۔ وزیرداخلہ (جس کا تعلق حماس سے نہیں تھا) نے وزارت سنبھالنے کے چند ہفتے بعد ہی استعفا دے دیا کہ فلسطینی پولیس کی کوئی حیثیت نہیں ہے‘ دحلان سیکورٹی فورس ہرطرف غالب ہے اور خود کو ہرحکومت سے بالاتر سمجھتی ہے۔ حماس کے مختلف مراکز‘ اس کی سرپرستی میں چلنے والے رفاہی اداروں‘ اسکولوں اور یتیم خانوں پر ہلے بولے جانے لگے اور عملاً خانہ جنگی کی شروعات کردی گئیں۔ عین انھی دنوں میں مصری اور اُردنی سرحدوں سے صدر کی حفاظت کے نام پر جدید اسلحے کی بڑی کھیپ محمود عباس اور ان کے مشیر سیکورٹی دحلان کو پہنچائی گئی۔ یہ سیکورٹی فورس مسجدوں اور تعلیمی اداروں میں گھس گھس کر حماس کی قیادت کو نشانہ بنانے لگی۔ صہیونی حکومت نے بھی ۶۰ افراد پر مشتمل مطلوبہ افراد کی ایک ہٹ لسٹ جاری کردی جس میں وزیراعظم اسماعیل ھنیہ اور حماس کے سیاسی امور کے سربراہ خالدالمشعل سمیت تمام سرکردہ قائدین کے نام شامل تھے۔ پھر گلیوں اور بازاروں میں باقاعدہ لڑائیاں ہونے لگیں۔ الفتح کے نام پر دحلان سیکورٹی اور حماس کے افراد باقاعدہ مورچہ بند ہوکر لڑنے لگے۔ حماس نے اس موقع پر بھی حالات کا رخ موڑنے کی ایک اور کوشش کی۔ اس نے مقابل فلسطینی دھڑے کے حملے تو روکے‘ لیکن خود اپنے حملوں کا رخ اسرائیلی یہودی بستیوں کی طرف موڑ دیا۔ ان پر خودساختہ راکٹوں کے سیکڑوں حملے کیے اور فلسطینی عوام کو یاد دلایا کہ ہمارا اصل دشمن کون ہے؟
یہ ایک سانحہ ہے کہ الفتح کے دحلان دھڑے نے صدر محمود عباس کی سرپرستی میں حماس کے پائوں تلے سے بساط کھینچنے کی کوششیں عروج پر پہنچا دیں اور وزیراعظم کے دفتر پر بھی ہلہ بول دیا گیا۔ اس موقع پر حماس کے مسلح بازو نے بھی دحلان سیکورٹی سے نجات کا آپریشن شروع کردیا اور حیرت انگیز طور پر ۴۸ گھنٹے کے اندر اندر ان کے اہم ترین جاسوسی قلعے سمیت ان کے تمام مراکز پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا۔ حماس کے اس آپریشن کے بارے میں خود الفتح کے دحلان مخالف دھڑے اور دیگر فلسطینی تنظیموں کے ذمہ داران نے بیانات دیے ہیں کہ اگر حماس یہ کارروائی نہ کرتی تو الفتح غزہ پر ایک مہیب خانہ جنگی مسلط کردیتی۔ غزہ میں موجود الفتح کے اعلیٰ عہدے دار احمد حلس نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا: اس ساری خوں ریزی اور حماس سے الفتح کی شکست کی ذمہ داری محمود عباس اور دحلان کے سرعائد ہوتی ہے۔ انھوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ دحلان پر انقلابی عدالت میں بغاوت کا مقدمہ چلایا جائے اور محمود عباس جیسے کمزور صدر کو جس کے اعصاب پر دحلان سوار تھا‘ ہٹا کر الفتح کے گرفتار لیڈر مروان البرغوثی کو اپنا سربراہ بنایا جائے۔
حماس کی یہ کارروائی اور الفتح کی سیکورٹی فورسز کا غزہ سے انخلا ۱۴ جون کو ہوا۔ اسی شام محمودعباس کے ساتھیوں کی طرف سے بیان آگیا کہ یہ کارروائی حماس کی طرف سے کھلی بغاوت ہے‘ اس کی حکومت فوراً ختم کی جائے اور جلد دوبارہ انتخاب کروائے جائیں۔ کچھ ہی دیر بعد محمودعباس کا فرمان جاری ہوا کہ ھنیہ حکومت ختم کردی گئی ہے‘ جلد ایمرجنسی حکومت قائم کی جائے گی اور پھر ۱۵ جون کو وزیرخزانہ سلام فیاض سے وزیراعظم کا حلف پڑھوا کر ہنگامی حکومت قائم کردی گئی۔
اس موقع پر ایک انوکھی لیکن پوری طرح سمجھ میں آنے والی پیش رفت یہ ہوئی کہ اس عبوری حکومت کو سب سے پہلی مبارک باد اسرائیلی وزیراعظم ایہود اولمرٹ اور امریکی صدر جارج واکر بش کی طرف سے موصول ہوئی۔ فوراً ہی ان اعلانات کا تانتا بندھ گیا کہ محمود عباس اور ہنگامی حکومت کو مالی امداد دی جائے گی‘ ان پر سے تمام پابندیاں اٹھا لی جائیں گی‘ غزہ پر مزید پابندیاں عائد کی جائیں گی۔ تیل‘ بجلی اور غذائی سامان بھی نہیں جانے دیا جائے گا۔ ساتھ ہی اسرائیلی ٹینکوں نے غزہ کے گردونواح میں گھیرا ڈالنا شروع کردیا ہے اور چھے فلسطینی نوجوان شہید کردیے ہیں۔
اب مقبوضہ فلسطین دوہری آگ میں جل رہا ہے۔ ایک طرف صہیونی تسلط اور مظالم اور دوسری طرف خود فلسطینی عوام کی دو علیحدہ علیحدہ حکومتیں۔ غزہ میں اسماعیل ھنیہ نے اعلان کیا ہے کہ ہم کسی سے انتقام نہیں لیں گے‘ الفتح کے جو کارکنان و ذمہ داران یہاں رہنا چاہیں‘ رہیں یہ ان کا گھر ہے اور جو مغربی کنارے جانا چاہیں ان پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ لیکن دوسری جانب مغربی کنارے میں حماس سے تعلق رکھنے والوں کو چن چن کر پکڑا جارہا ہے۔ کئی ماہ سے اسرائیلی جیلوں میں پڑے فلسطینی منتخب اسپیکر عبدالعزیز الدویک کا گھر نذرِآتش کردیا گیا ہے۔ایک بحث ھنیہ کی منتخب حکومت کے مقابلے میں بنائی جانے والی ہنگامی حکومت کی دستوری حیثیت کی بھی ہے‘ کیونکہ فلسطینی دستور کے مطابق اگر صدر کو ہنگامی حکومت بنانا بھی پڑے تو اسے ۳۰دن کے اندر اندر پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا ہوتا ہے‘ اور حماس کی اکثریت کے باعث پارلیمنٹ کو یہ زحمت نہیں دی جارہی۔ پارلیمنٹ کی منظوری سے بھی ایسی حکومت صرف۳۰ روز کے لیے ہی بنائی جاسکتی ہے۔ اور اگر پارلیمنٹ توثیق کرے تو مزید ۳۰دن کے لیے اس کی عمر بڑھائی جاسکتی ہے۔ لیکن اس بحث سے قطع نظر‘ اصل سوال یہ ہے کہ کیا ۲۰لاکھ آبادی پر مشتمل مغربی کنارے اور پندرہ لاکھ کی آبادی پر مشتمل غزہ کی پٹی کو دو الگ الگ کنٹونمنٹس میں تقسیم و مقید کیا جاسکتا ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ عوام کو عوام سے اس طور لڑا دیا جائے کہ لاکھوں لوگ اپنے لاکھوں بھائیوں کو بھوک اور ہلاکت کی نذر ہونے دیں اور امداد کے وعدوں اور تسلیم کرلیے جانے کی صحرا نوردی کو اپنی گم شدہ جنت قرار دے لیں۔ اس سوال کا جواب غزہ سے واپس آنے والے مصری وفد میں شامل ایک اعلیٰ سیکورٹی افسر نے اپنا نام خفیہ رکھے جانے کے وعدے پر مصری اخبار ’المصری الیوم‘ کو دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ لڑائی فلسطینیوں کی فلسطینیوں سے نہیں بلکہ ۷۰ فی صد فلسطینی عوام کی دحلان سے ہے۔فلسطینی عوام کی بھاری اکثریت دحلان اور اس کے ساتھیوں سے نجات چاہتی ہے۔
دوسری طرف غزہ کے لاکھوں لوگ ایک اور معمے پر حیرت زدہ ہیں اور وہ یہ کہ غزہ کی فضائوں میں مسلسل ۲۴ گھنٹے بغیر پائلٹ کے جاسوسی صہیونی طیارے محوپرواز رہتے تھے۔ بعض اتنے قریب ہوتے تھے کہ فضا میں ہر وقت ان کی آواز سنائی دیتی رہتی تھی۔ جب سے غزہ سے الفتح کا انخلا ہوا ہے یہ جاسوسی طیارے غائب ہوگئے ہیں۔ ۱۸جون کو معروف عربی اخبار الحیاہ میں فکری عابدین نے ایک مضمون میں اسرائیلی جاسوسی ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ غزہ سے الفتح کے جاسوسی مراکز سے معلومات کا بے حد قیمتی خزانہ ہاتھ لگا ہے۔ اس میں صرف حساس معلومات ہی نہیں‘ جدید ترین آلات اور حساس اسلحے کی بڑی مقدار بھی ان کے ہاتھ چلی گئی ہے۔ حماس حکومت کے وزیرخارجہ محمود الزھار نے‘ جنھیں اصرار کرکے متفق علیہ قومی حکومت سے باہر رکھا گیا‘ اپنے ایک انٹرویو میں ۱۴ جون کے بعد غزہ کی صورت حال کے بارے میں کہا ہے کہ غزہ کے عوام کو ۱۴ سال بعد سکھ کا سانس لینے کا موقع ملا ہے۔ اب انھیں کسی سیکورٹی فورس کی دہشت گردی کا خطرہ اور خوف لاحق نہیں ہے۔
فلسطینی سیکورٹی فورسز کی حد تک تو شاید یہ درست ہو لیکن اب ایک بڑا خطرہ اور خدشہ یہ ہے کہ حماس سے نجات پانے کے لیے اسرائیلی افواج غزہ پر خوفناک چڑھائی کردے۔ بن گوریون یونی ورسٹی کے پروفیسر ڈرور زئیفی نے اس موقع کو اسرائیل کے لیے ایک سنہری موقع قرار دیتے ہوئے ۱۸جون کو اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ’’ہم اگر کسی اعلیٰ پایے کی لیبارٹری میں بھی کوئی ایسا فارمولا تیار کرنے کی کوشش کرتے تو ناکام رہتے۔ اب حالات نے خود یہ فارمولا فراہم کردیا ہے کہ ہمارے سامنے دو فلسطینی دھڑے واضح تقسیم میں بٹے ہوئے ہیں جو جغرافیائی لحاظ سے بھی ایک دوسرے سے دُور ہیں۔ ہمیں کسی صورت یہ سنہری موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے‘‘۔ ۱۸جون ہی کو عبرانی روزنامے ھآرٹز نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ ’’محمود عباس کے اس دلیرانہ اقدام سے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے اور اسرائیل کو اس سے بھرپور استفادہ کرنا ہے‘‘۔ لیکن اسی روز کے روزنامہ معاریف میں اسرائیلی فوجی انٹیلی جنس کے سابق سربراہ شلومو گازیٹ کی راے اس سے بالکل مختلف ہے۔ اس کے بقول: ’’الفتح اور ابومازن اب تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بن چکے ہیں اور ہمیں کسی ایسی فلسطینی قیادت یا تحریک پر بھروسا نہیں کرنا چاہیے جسے مستقبل بہت پیچھے چھوڑ آیا ہے‘‘۔ اس کا مزید کہنا ہے کہ: ’’اسرائیل نے پہلے بھی تباہ کن غلطی کی تھی کہ فلسطینی عوام کو فوجی اور اقتصادی دبائو کی نذر کیا۔ اب اگر ہم نے دوبارہ یہ غلطی دہرائی تو اس کے علاوہ کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا کہ فلسطینی عوام حماس کی جانب مزید یکسوئی سے لپکیں گے۔ ہمیں خود کو اس وہم کا شکار نہیں کرنا چاہیے کہ ہم گھڑی کی سوئیاں ۴۰ سال پیچھے گھما سکتے ہیں‘‘۔
ان دونوں متضاد آرا پر مشتمل دسیوں تحریریں عبرانی صحافت اور ذرائع ابلاغ میں بکھری ہوئی ہیں لیکن ایک بات پر تقریباً سب اسرائیلی تجزیہ نگاروں کا اتفاق ہے کہ اسرائیل کو اب اپنے پڑوسی عرب ممالک کی پہلے سے بھی زیادہ ضرورت ہے‘ خاص طور پر اُردن اور مصر کی۔ اس بحران کے فوراً بعد عرب لیگ کے وزراے خارجہ کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا جس کے اختتام پر فریقین سے تحمل اختیار کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا گیا کہ عرب لیگ دونوں میں سے کسی کی طرف داری نہیں کرے گی ساتھ ہی مصر‘ اُردن‘ سعودی عرب‘ تیونس اورعرب لیگ سیکرٹریٹ پر مشتمل ایک پانچ رکنی کمیٹی بنائی گئی ہے کہ وہ ایک ماہ کے اندر اندر اپنی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرے۔ حماس نے اس وفد کا خیرمقدم کیا ہے لیکن غیر جانب داری کا اعلان کرنے کے باوجود مصر نے سب سے پہلے غزہ میں قائم اپنا سفارت خانہ مغربی کنارے منتقل کرنے کا اعلان کردیا ہے۔
ان تمام بیانات اور اقدامات کاتجزیہ اپنی جگہ بہت اہم ہے لیکن گذشتہ ۵۹سالہ صہیونی دہشت گردی‘ جہاد کو کچلنے کی کوششوں اور فلسطینی قوم میں سے کچھ غداروں کے ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہونے کے باوجود ہم برسرِزمین عملی نتیجہ کیا دیکھتے ہیں؟ کیا یہی نہیں کہ فلسطینی جہاد اور اس کی سرخیل تحریک حماس اب پہلے سے کہیں زیادہ توانا‘ کہیں زیادہ فعال اور کہیں زیادہ مؤثر ہے۔ کیا ربانی ہستی شیخ احمد یاسین کی یہ پیش گوئی تکمیل کی جانب بڑھ رہی ہے کہ ۲۱ویں صدی کی پہلی چوتھائی میں ہماراجہادی سفر نصرت الٰہی کی منزل پالے گا۔