جولائی۲۰۰۷

فہرست مضامین

وفاقی بجٹ ۰۸-۲۰۰۷ء __ایک جائزہ

پروفیسر خورشید احمد | جولائی۲۰۰۷ | پاکستانیات

Responsive image Responsive image

بجٹ بنانا بلاشبہہ ایک انتہائی اہم سرگرمی ہے اور بجٹ جہاں حکومت کی کُل آمدنی اور خرچ کا میزانیہ اور معاشی پالیسی اور ترجیحات کا عکاس ہوتا ہے وہیں اس کی حیثیت قانون سازی کے ایک ایسے کام کی ہے جس کے ذریعے معاشی مشکلات کے حل کے لیے قوم کے عزائم اور طرزِفکر کی نشان دہی ہوتی ہے۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ کوئی قوم ملکی معیشت کے تمام شعبوں میں معاشی خودکفالت کے حصول کے لیے دستیاب وسائل کو کتنی ہنرمندی سے استعمال کرتی ہے۔

بدقسمتی سے حکومت کی طرف سے مالی سال ۲۰۰۷ء-۲۰۰۸ء کے لیے پیش کیا گیا بجٹ انتہائی مایوس کن ہے۔ یہ یقینا ایک الیکشن بجٹ ہے جسے کسی بھی لحاظ سے حقیقی معاشی بنیادوں پر تیار کیا گیا بجٹ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے جی ڈی پی میں ۷ فی صد اضافہ کرنے کے علاوہ زرمبادلہ کے ذخائر کو ۱۵ ارب روپے تک پہنچا دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ     یہ کامیابی کہاں تک حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کا ثمرہ اور ان کے مؤثر ہونے کی دلیل ہے اور کہاں تک نائن الیون کے بعد بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کا اپنا سرمایہ پاکستان منتقل کرنے اور پاکستانی حکومت کے امریکا کے آگے ہتھیار ڈالنے کی وجہ سے سیاسی اور معاشی امداد کا نتیجہ ہے۔

عالمی بنک کی جانب سے ترقیاتی اشاریوں کے حالیہ مطالعے میں‘ جو ۱۵ اپریل ۲۰۰۷ء کو جاری کیا گیا ہے‘ قوتِ خرید کے تطابق (parity) کی بنیاد پر پاکستان میں ۱۹۹۹ء سے ۲۰۰۵ء تک جی ڈی پی میں فی کس اضافہ ۶۲ء۴ فی صد رہا‘ جب کہ اسی دورانیے میں دوسرے ترقی پذیر ممالک کی فی کس اوسط اضافہ کچھ اس طرح رہا: فلپائن ۱۷ء۵ فی صد‘ انڈونیشیا ۷۷ء۵ فی صد‘ ترکی ۷۹ء۵ فی صد‘ جب کہ بھارت ۳۲ء۷ فی صد۔ یاد رہے کہ اسی دورانیے میں کم آمدنی والے ممالک میں اوسط فی کس اضافہ ۳۸ء۶ فی صد تھا جو پاکستان میں اس اضافے سے ۳۰ فی صد زیادہ ہے۔ گویا اس حوالے سے حکومتِ پاکستان جو بلندبانگ دعوے کر رہی ہے اس علاقائی تناظر میں اس کا قدکاٹھ بہت ہی کم ہوجاتا ہے۔

حکومت کا ایک اور دعویٰ یہ ہے کہ اس کے دور میں غربت میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے اور کُل آبادی کا ۱۰ فی صد غربت سے نجات پا چکا ہے‘ یعنی اس حکومت سے پہلے ملک کی ۳۴ فی صد آبادی غربت کی حد سے نیچے تھی جو اَب صرف ۲۴ فی صد ہے۔ یہ دعویٰ بھی درست ثابت کرنا مشکل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ خط ِ غربت سے نیچے رہنے والوں میں سے ۳۳ فی صد اس خط کو عبور کرگئے ہیں۔ گویا ہرسال کُل آبادی کا دو سے تین فی صد خط ِ غربت سے اُوپر چلا گیا ہے۔ دیکھا جائے تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ غربت کے خط سے نیچے رہنے والے ۵کروڑ ۲۰ لاکھ افراد میں سے ایک کروڑ ۳۰لاکھ افراد غربت کی گرفت سے نکل گئے ہیں۔ اُسے محض ایک شماریاتی کرشمہ ہی کہا جاسکتا ہے!

زمینی حقائق کیا ہیں؟ کیا یہ حقائق حکومتی دعوؤں کی تصدیق کرتے ہیں؟ خود یہی سروے (پی ایس ایل ایم ۰۵-۲۰۰۴ء) جس کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا گیا ہے‘ اسی میں ایسے شواہد موجود ہیں جو سرکاری دعوؤں کی نفی کرتے ہیں۔ اس سروے رپورٹ کی جلد دوم میں‘ جس میں صوبائی اور ضلعی ڈیٹا کے حوالے سے ص ۴۰۶‘ جدول ۱.۵ میں کہا گیا ہے کہ انٹرویو کیے گئے افراد میں سے ۱۵ء۲۴ فی صد نے کہا کہ وہ ۲۰۰۵ء میں ۲۰۰۱ء کے مقابلے میں کہیں خراب یا بہت زیادہ خراب حالت میں رہ رہے ہیں‘ جب کہ اسی گروپ کے ۵ء۵۱ فی صد لوگوں نے بتایا کہ اس دوران ان کی حالت میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوسکی۔ اس صورت حال کی روشنی میں حکومتی بیان کی قلعی کھل جاتی ہے جس میں انھوں نے غربت کے خط کے نیچے کے ۳۳ فی صد افراد کے غربت سے نکل آنے کا دعویٰ کیا ہے۔ پاکستان میں ’غربت کے خاتمے‘ کے رواں پروگرام سے متعلق ایشیائی ترقیاتی بنک کی تازہ ترین رپورٹ (ورکنگ پیپر نمبر۴‘ ۲۰۰۷ء) میں کہا گیا ہے کہ اس ضمن میں عوام کا تاثر یہ ہے کہ       اس پروگرام کے نتیجے میں (جس میں سوشل ایکشن پروگرام بھی شامل ہے) خصوصاً ملک کے   دیہی علاقوں میں کوئی خوش گوار تبدیلی یا ترقی کے مظاہر نظر نہیں آتے۔

حکومت کا حقائق کو مسخ کر کے اعداد و شمار کو غلط انداز میں پیش کرنا ہرسنجیدہ شہری کے لیے فکروتشویش کا باعث ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بجٹ کی دستاویز اور بجٹ تقریر میں بہت سے واضح تضادات ہیں جو حیرت کا باعث ہیں۔ مثلاً وزیرمملکت براے خزانہ‘ وزیراعظم اور ان کے مشیران کے بقول بجٹ کا کُل حجم ۱۸ کھرب ۷۵ ارب روپے ہے‘ جب کہ بجٹ میں جو مختلف اخراجات کے تخمینے دیے گئے ہیں ان کا میزان ۱۵ کھرب ۹۹ ارب روپے بنتا ہے (خلاصہ بجٹ‘ باب دوم‘ ص ۷)۔ اور اس امر کی وضاحت نہیں کی گئی کہ ۱۸ کھرب والی رقم میں صدیوں کے بجٹ کی رقوم بھی شامل کرلی گئی ہیں تاکہ تاثر یہ ہو کہ تاریخ کا سب سے بڑا بجٹ پیش کیا گیا ہے۔

بجٹ کا سرسری جائزہ لینے سے ہی کم از کم چھے ناکامیوں کی نشان دہی کی جاسکتی ہے:

۱-  ملک کو ادایگیوں اور تجارتی خسارے کے حوالے سے سخت عدم توازن کا سامنا ہے۔ جب ۱۹۹۹ء میں حکومت نے اقتدار سنبھالا تھا‘ اس وقت تجارتی خسارے کا حجم ایک ارب ۷۴ کروڑ ڈالر تھا‘ جب کہ آج سات سال کے عرصے میں یہ ۱۱ ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ بلکہ یہ بھی خدشہ ہے کہ اس خسارے کا اصل حجم ۱۳ ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہوگا۔ اسی طرح ادایگیوں کے خسارے کا حجم ۰۰-۱۹۹۹ء میں ایک ارب ۱۴ کروڑ ڈالر تھا‘ جب کہ یہ خسارہ ۰۳-۲۰۰۲ء یعنی جس سال موجودہ قومی اسمبلی کا انتخاب ہوا مثبت ہوگیا اور ۳ ارب ۱۶کروڑ ڈالر ہوگیا۔ بدقسمتی سے اب‘ یعنی ۲۰۰۷ء میں ادایگیوں کے توازن میں خسارے کا حجم ۶ ارب ۲۰کروڑ ڈالر کی ہوش ربا حد تک ہوچکا ہے جو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا ادایگیوں کا خسارہ ہے۔ اس سے زیادہ حیرت اور تشویش کی بات یہ ہے کہ اس بجٹ میں ان دو قسم کے خساروں کو فوری طور پر نیچے لانے کے لیے کوئی حکمت عملی تجویز نہیں کی گئی ہے۔

۲-  معاشی ترقی کو برقرار رکھنے کے لیے معیشت کا اشیا کی پیدایش کے سیکٹر (commoduty sector) میں اضافہ ضروری ہے کیونکہ اسی سے ترقی اور معیشت نمو پاتی ہے۔ اس وقت جس بڑھوتری کو ہم دیکھ رہے ہیں اس کی بنیاد دراصل خدمات کے شعبے اور خارجی عوامل پر ہے۔ جن میں بیرونِ ملک پاکستانیوں کا بھیجا ہوا سرمایہ (جو حکومت کی ملکیت نہیں) اور وہ امداد شامل ہے جو نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے معاوضے کے طور پر امریکی حکومت سے حاصل ہوتی ہے۔ اسی طرح زراعت کے شعبے میں‘ جو پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے‘ کوئی قابلِ ذکر اور دیرپا معیاری یا مقداری بہتری نہیں ہوئی ہے۔ درحقیقت زراعت کے شعبے کو مسلسل نظرانداز کیاجاتا رہا ہے۔ اس میں پیداوار کی لاگت میں اضافہ ہوا ہے جو اشیاے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے کاسبب بنا ہے۔ اسی طرح صنعتی شعبے خصوصاً ٹیکسٹائل کی صنعت سخت عدم توجہی کا شکار رہی ہے جس پر پاکستان کی ۶۰ فی صد سے زیادہ برآمدات کا دارومدار ہے۔ یہ ٹیکسٹائل کے شعبے میں بحران ہی ہے جس کے باعث ہماری برآمدات کافی کم ہوئی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اب تیار شدہ مال (جس کی زیادہ قیمت ہوتی ہے) کے بجاے خام روئی برآمد کی جارہی ہے (اس سال ۳ ارب ڈالر کی روئی برآمد ہوئی ہے)۔ اسی طرح بعض دوسری صنعتیں مثلاً چمڑاسازی‘ سرجیکل آلات اور کھیلوں کے سامان کی صنعت بھی بحران کا شکار ہیں۔ ان صنعتوں میں بھی پیداواری اخراجات اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ ان کی مصنوعات عالمی منڈی میں دوسرے ممالک کی مصنوعات کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔ حکومت نے ان مسائل کو نظرانداز کردیا ہے۔ اگر ان مسائل سے عہدہ برآ نہیں ہوا گیا تو پاکستان چند ہی سالوں میں ایک غیرصنعتی ملک بھی بن سکتا ہے۔ ۱۱۶ ٹیکسٹائل مِلیں پچھلے دو سال میں بند ہوچکی ہیں۔ کوئی پانچ لاکھ تکلے ساکت ہوگئے ہیں اور لاکھوں افراد کو روزگار سے محروم ہونا پڑا ہے اور زورِخطابت کے باوجود‘ ملک کی سب سے اہم اور نازک پیداوار کے بارے میں بجٹ خاموش ہے۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے اور زندگی کی عام ضروریات بھی پوری کرنا ہرکسی کے بس سے باہر ہے۔ عام شہری اس کی تکلیف دہ گرفت میں ہے۔ اسے دو وقت کی روٹی کا یارا نہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کھانے پینے کی اشیا میں افراطِ زر ۱۰ فی صد‘ جب کہ غیرسرکاری اندازوں کے مطابق ۱۵ سے ۲۰ فی صد ہے۔ شاندار فصلوں (گندم اور چاول) کی موجودگی میں یہ اعدادوشمار عجب لگتے ہیں۔ بجٹ میں جن امدادی اقدامات کا ذکر کیا گیا ہے ان کا شاید آغاز بھی نہ ہوسکے۔ تاریخ شاہد ہے کہ زرتلافی سے بدعنوانی بڑھتی ہے اور اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اس سبسڈی کی جو بظاہر پُرکشش رقم بجٹ میں دی گئی ہے یعنی ۲ کھرب ۱۰ ارب روپے اس میں ۹۰ ارب تو واپڈا اور کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کے لیے ہیں۔ ہم حیران ہیں کہ کھانے پینے کی اشیا کے باب میں دی جانے والی زرتلافی جو ۶ ارب روپے کے لگ بھگ ہے اور دو ڈالر سے کم آمدنی والی آبادی پہ اگر اسے تقسیم کیا جائے تو بمشکل ۷روپے فی کس فی مہینہ آتا ہے۔ ہرشخص سوچ سکتا ہے کہ اتنی ’بڑی رقم‘سے عام آدمی مہنگائی پر کیا قابو پاسکے گا اور اس سے غریبوں کو کیا ریلیف مل سکے گا؟

اس ملک کو ایسی معاشی اور صنعتی پالیسیوں کی ضرورت ہے جو روزمرہ استعمال کی اشیا پر درآمدی ڈیوٹی اور سیل ٹیکس کم کر کے پیداواری اخراجات میں کمی کرے۔ یوٹیلٹی سٹور سے صرف دوفی صد آبادی فائدہ اٹھا سکتی ہے اور یہ دو فی صد بھی صرف غریب افراد نہیں ہوتے۔کسی بھی طرح  یہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔ افراطِ زر پر ہمیشہ مالیات اور محاصل پالیسیوں کے اشتراک سے ہی قابو پایا جاسکتا ہے جن میں طلب و رسد دونوں کی ایک ساتھ فکر کی جائے‘ جب کہ یہ نہیں کیا جا رہا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس حکومت کے دورِاقتدار میں مہنگائی کا بھوت لوگوں کی خوشیوں کے قتل میں مصروف رہا ہے۔ ۲۰۰۰ء-۱۹۹۹ء میں افراطِ زر کی شرح صرف ۵۸ء۳ فی صد تھی۔ ۰۳-۲۰۰۲ء میں یہ تناسب ۱ء۳ فی صد رہا‘ جب کہ صرف ایک سال میں یعنی ۰۵-۲۰۰۴ء میں یہ ۳ء۹ فی صد تک پہنچ گیا۔ موجودہ اور گذشتہ سالوں کے دوران یہ اوسطاً ۸ فی صد رہا۔ موجودہ بجٹ کسی بھی پہلو سے افراطِ زر جیسے شدید اہم مسئلے کے مختلف پہلوؤں سے سنجیدگی سے نبٹنے میں بُری طرح ناکام رہا ہے۔

۴-  ملک کو جس دوسرے اہم مسئلے کا سامنا ہے‘ اس کا تعلق غربت اور بے روزگاری سے ہے۔ دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ یہی حال انسانی وسائل کی ترقی و تربیت‘ افرادی قوت اور تعلیمی منصوبہ بندی کا ہے۔ بجٹ ان کے متعلق بھی بلندبانگ دعوؤں پر مشتمل ہے مگر ان چیلنجوں کا ٍمؤثر طور پر مقابلہ کرنے کے لیے کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ غربت میں کمی اور صحت کی سہولیات کی بڑے پیمانے پر فراہمی کے لیے بڑی رقوم مختص نہیں کی گئی ہیں۔ تعلیم جیسے اہم شعبے کے لیے وسائل کا قحط ہے‘ جب کہ حکومت نے اپنے اخراجات میں اضافہ کیا ہے اور شان و شوکت کی زندگی کا جیسے نشہ ہوگیا ہے۔ ترقیاتی بجٹ پر نظرثانی کرکے ۳۶ ارب تک کم کردیا گیا ہے۔ بجٹ حقیقی ترقی‘ غربت کے خاتمے‘ انسانی وسائل میں بہتری اور معاشرتی فلاح و بہبود کے حوالے سے ایک ناکام بجٹ ہے۔

۵-  پرویز مشرف اور شوکت عزیز کی پالیسیوں نے غریبوں کو غریب تر اور امیروں کو امیر تر کردیا ہے۔ گذشتہ آٹھ برسوں کے دوران یہ فاصلہ شرمناک حد تک بڑھا ہے۔ اکنامک سروے جیسی اہم سرکاری دستاویز میں اعتراف کیا گیا ہے کہ اس وقت اُوپر کے ۲۰ فی صد افراد کے پاس نیچے کے ۲۰فی صد افراد کے مقابلے میں قومی وسائل کا بہائو ۴۰۰ فی صد زیادہ ہے۔ ایک اور تحقیق کے مطابق حکومتی آمدنی میں ۱۰۰ روپے اضافہ ہو تو صرف ۳ روپے نیچے کی ۱۰ فی صد آبادی تک پہنچتے ہیں اور ۳۴ روپے اُوپر کے ۱۰ فی صد تک۔ اسٹاک ایکسچینج اور جایداد (رئیل اسٹیٹ) کے کاروبار میں تیزی جس کے نتیجے میں لوگ لکھ پتی اور کروڑپتی ہوگئے ہیں‘ سٹہ بازی کا مرہونِ منت ہے۔ یہ معاشی پالیسیوں کی خوبیوں کی وجہ سے نہیں ہے۔ ملک میں بڑے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کا اشرافیہ طبقہ ڈاکوؤں کے سرداربن چکے ہیں۔ ان پر کوئی ٹیکس نہیں لگتا۔ عام آدمی تمام   براہِ راست اور بالواسطہ ٹیکسوں کے بوجھ تلے پس رہا ہے اور جو استحصال کرنے والا طبقہ ہے وہ کسی بھی قابلِ ذکر ٹیکس سے مبرا ہے۔ عدمِ مساوات میں غیرمعمولی اضافے کے باعث معاشرہ تقسیم اور پولارائزیشن کا شکار ہوچکا ہے۔ اس خوف ناک صورت حال کا بجٹ میں ذکر تک نہیں ہے۔

۶-  جہاں تک حکومت کے اس دعوے کا تعلق ہے کہ ملک میں مالیاتی ڈسپلن قائم ہوگیا ہے‘ یہ محض ایک افسانہ ہے۔ بجٹ کا خسارہ ۳ کھرب سے زیادہ ہے‘ جب کہ بیرونی اور اندرونی دونوں طرح کے قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہوا ہے۔ پچھلے سات برسوں میں قرضوں کا کُل حجم بڑھ کر ۱۵ کھرب روپے ہوچکا ہے‘ جب کہ قرضوں سے نمٹنے کی سرکاری حکمت عملی مکمل طور پر ناکارہ ثابت ہوئی ہے۔ حکومت کی مالیاتی ناکامی کا ایک اور منہ بولتا ثبوت تقریباً ۴۰ ارب ڈالر کا قومی مقاصد کے لیے مفید استعمال نہ کرنا ہے‘ جس میں ۲۶ ارب ڈالر وہ ہیں جو بیرون ملک پاکستانیوں نے بھیجے ہیں اور ۱۰ سے ۱۲ ارب ڈالر وہ ہیں جو بیرونی امداد کے طور پر وصول کیے گئے ہیں۔ یہ خطیر وسائل سرمایہ کاری میں نہیں گئے‘ زیادہ تر خرچ شان و شوکت کے لیے‘ جایدادوں کی خریدوفروخت میں اور اسٹاک ایکسچینج میں سٹہ بازی کی صورت میں ہوا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ملک کی حالت اس فرد کی سی ہے جو چادر سے زیادہ پائوں پھیلاتا ہے۔ اس سلسلے میں خود حکمرانوں نے بدترین مثالیں قائم کی ہیں۔ غیرپیداواری اخراجات میں غیرمعمولی اضافہ ہوگیا ہے۔ یہی حال مسلح افواج کے بجٹ کا ہے جسے ۰۸-۲۰۰۷ء کے لیے تین کھرب کردیا گیا ہے جو ۱۹۹۹ء کے مقابلے میں ڈھائی گنا زیادہ ہے۔ اس سے معیشت عدمِ توازن کا شکار ہوئی ہے۔ موجودہ حکومت کو حکمت عملی کی ناکامی کے لیے یقینا جواب دہ ہونا پڑے گا۔

آخری بات یہ کہ اس سال ضلعی اور تحصیل حکومتوں کے علاوہ یونین کونسلوں کو جو بے حساب اور غیرمنطقی طور پر زیادہ رقوم فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے‘ یہ دراصل انتخابات میں استعمال کے لیے دی جانے والی سیاسی رشوت ہے۔ یہ عوام کے خون پسینے کی کمائی کا بدترین اور بددیانتی پر مبنی استعمال ہے۔ یہ رقوم صرف سرکاری پارٹی سے متعلق افراد کو دی جارہی ہیں۔

اس تبصرے کے بعد یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ بجٹ (۰۸-۲۰۰۷ء)اس قابل ہے کہ اسے پارلیمنٹیرین بالکل اُسی طرح ایوان سے باہر پھینک دیں جس طرح ۸۷-۱۹۸۰ء کے جناب یٰسین وٹو کی طرف سے پیش کیے گئے بجٹ کے ساتھ ہواتھا۔ اس سال کے بجٹ کا بھی وہی حشر ہونا چاہیے۔ کیا قومی اسمبلی اس ضمن میں اپنا قومی اور اخلاقی فریضہ ادا کرے گی یا وردی والی حکومت کے سامنے سرتسلیم خم کردے گی؟