پاکستان کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ بار بار کی فوجی مداخلت سے ملک میں سیاسی عمل کو پنپنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ یہاں براہِ راست سول اور ملٹری انتظامیہ حکمران رہی یا ان کی پسند کے لوگوں کو محدود وقت کے لیے محدود دائرے میں حکومت کرنے کا موقع دیا گیا۔ حقیقی جمہوریت، دستور اور قانون کی بالادستی‘ عدلیہ کی آزادی کے فقدان اور سیاست میں فوجی مداخلت کی وجہ سے ملک دولخت ہوگیا اور باقی ماندہ ملک بھی مسلسل بحرانوں کا شکار ہے۔
امریکا میں ۱۱ ستمبر۲۰۰۱ء کے واقعے کے بعد مسلمانوں کو بالعموم اور افغانستان و پاکستان کو بالخصوص ہدف بنا لیا گیا۔ امریکی سرکردگی میں نام نہاد دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا آغاز ہوا تو پرویز مشرف نے اس جنگ میں صف اول کا اتحادی بننے کا اعلان کردیا۔ اس طرح امریکی جنگ کو پرویز مشرف کی حکومت پاکستان کے اندر لے آئی‘ جس کے نتیجے میں ہمارا ملک ایک بڑے بحران سے دوچار ہوگیا۔ یہ بحران آئے دن پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتا جا رہا ہے۔سیکڑوں لوگوں کو پاکستان کے اندر اور پاکستان سے باہر امریکی دباؤ پر عقوبت خانوں میں رکھا گیاہے۔ اپنے جگر گوشوں اور بزرگوں اور سرپرستوں سے محروم ورثا مسلسل احتجاج کے باوجود ان کی خیریت سے لاعلم ہیں اور اعلیٰ عدالتوںکی مداخلت اور حکم کے باوجود حکمران مفقود الخبرسیکڑوں شہریوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنے سے انکاری ہیں۔ جو لوگ پاکستان کے اندر ان عقوبت خانوں سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے ہیں، وہ اپنے گزرے ایام کی رونگٹے کھڑے کردینے والی داستانیں سناتے ہیں۔
باجوڑ اور وزیرستان میں براہ راست امریکی میزائل حملوں اور بمباری کے نتیجے میں سیکڑوں معصوم لوگ جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، شہید ہوچکے ہیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ امریکا کی کاسہ لیسی میں اس جرنیلی قیادت نے امریکی جرائم کو بھی اپنے کھاتے میں ڈال لیا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستانی فوج نے اپنے بازوے شمشیر زن قبائلی علاقے کو اپنا مدمقابل بنا لیا ہے۔ جن مجاہدین نے افغانستان میں روسی اورکشمیر میں بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف تحریک مزاحمت کی مدد کی ہے، ان پر عرصۂ حیات تنگ کیا جا رہا ہے اور ان سربکف مجاہدین کو دہشت گردی کا ملزم گردانا جا رہا ہے۔ پرویز مشرف کی امریکا نوازپالیسی کی وجہ سے پاکستان نہ صرف داخلی انتشار سے دوچار ہے بلکہ اس کی سرحدیں بھی غیر محفوظ ہو گئی ہیں ، خاص طور پر مغربی سرحد جس سے پاکستان بننے کے بعد قائد اعظم نے افواج پاکستان کو واپس بلا لیا تھااور جہاں سے پرویز مشرف کی حکومت سے قبل ہمیں کوئی خطرہ نہیں تھا، آج انتہائی غیر محفوظ ہو گئی ہے۔
ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت متحدہ مجلس عمل سمیت تمام دینی اور مذہبی گروہوں کو پرویز مشرف انتہاپسندی کا طعنہ دے رہے ہیں اورعوامی جلسوں میںکھلم کھلا ان کے مقابلے میں نام نہاد اعتدال پسندوں کے لیے ووٹ مانگ رہے ہیں، حالانکہ اس طرح کی سیاسی مداخلت کی اجازت دستور پاکستان نہ آرمی چیف کو دیتا ہے اور نہ صدرِ پاکستان ہی اس کا مجاز ہے۔دستورِ پاکستان اور قانون کو بالاے طاق رکھ کر پرویز مشرف مسلسل اپنی من مانی کر رہے ہیں۔ اہم فیصلے پارلیمنٹ اور اسمبلیوں سے باہر کور کمانڈروں کی میٹنگوں اور نیشنل سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں فردِ واحد اپنی مرضی سے کر لیتا ہے۔ پارلیمنٹ اور اسمبلیاں محض نمایشی کاموں کے لیے رکھی گئی ہیں۔ اس سب کے باوجود پرویزمشرف اس خوف میں مبتلا ہیں کہ ان کے خلاف سازش ہو رہی ہے۔ انھوں نے کئی عوامی جلسوں میں اس کااظہار کیا ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ سازش کرنے والے کون ہیں۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کراچی اسٹیل مل کے کیس میں حکومت کی مرضی کے خلاف آزادانہ فیصلہ صادر کیاتھا۔ اسی طرح انھوں نے مفقود الخبرافراد (missing persons) کے بعض لواحقین کی درخواستوں پر ہمدردانہ رویہ اختیار کیا، کئی اور معاملات میں بھی انھوں نے آزاد انہ فیصلے کیے جس کی وجہ سے پرویز مشرف نے طے کیا کہ ان کی جگہ کسی ایسے شخص کو لایا جائے جس کے بارے میں انھیں اس حوالے سے مکمل اطمینان ہوکہ وہ ان کے لیے کوئی مسئلہ کھڑا نہیں کرے گا۔ ان کے لیے یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ نومبر میں ان کی صدارت کی میعاد ختم ہورہی ہے۔ وردی میں صدر رہنے کا نام نہاد قانون بھی اس کے ساتھ ختم ہو جائے گا۔ چیف آف آرمی سٹاف کے صدر بننے کے لیے دستور کی جن دفعات کومعطل کیا گیا تھا‘وہ بھی نومبر میں بحال ہوجائیں گی۔ موجودہ الیکٹورل کالج سے صدر منتخب ہونے کی خواہش کو پورا کرنے میں بعض آئینی دفعات حائل ہیں جن کی تعبیر کا مسئلہ بھی سپریم کورٹ میں اٹھایا جا سکتا ہے۔
سپریم کورٹ اور اعلیٰ عدالتوں کو زیر کرنے کے لیے اپنی مرضی کا چیف جسٹس ضروری ہے، اس لیے انھوں نے چیف آف آرمی سٹاف کی وردی پہن کر چیف جسٹس آف پاکستان کو آرمی ہاؤس میں رام کرنے کی کوشش کی اور خفیہ ایجنسیوں کے سربراہوں کی موجودگی میںان سے استعفے کا مطالبہ کیا۔ افتخار محمد چودھری کے مستعفی ہونے سے انکار نے پرویز مشرف کے لیے ایک نیا عدالتی بحران پیدا کیا اور ملک و قوم کے لیے عدالتوں کی آزادی کی تحریک کا ایک راستہ کھل گیا۔ وکلا برادری نے آگے بڑھ کرچیف جسٹس کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ ہم نے فوری طور پر چند بڑے سیاسی اور دینی رہنماؤں سے مشورے کے بعداسلام آباد میں ۱۲ مارچ کو ایک قومی مجلس مشاورت منعقد کی۔ اس میں ایم ایم اے، اے آرڈی اور پونم کے علاوہ تحریک انصاف اور اے این پی کے رہنماؤںنے بھی شرکت کی۔ اس اجلاس میں وکلا ، سول سوسائٹی اور مفقود الخبر افراد کے ورثا کی نمایندگی بھی تھی۔ ۹مارچ کے بعدچیف جسٹس کو اپنے گھر میں محبوس کردیا گیا تھا اور ان سے ملاقات پر پابندی تھی لیکن حکومت پابندی کا انکار کر رہی تھی۔حکومت کے اس جھوٹ کی قلعی کھولنے کے لیے ہم لوگوں نے اپنے اجلاس کے فوراً بعد چیف جسٹس کے گھر جانے کا فیصلہ کیا۔ ہمیں زبردستی وہاں جانے سے روکا گیا اور اس طرح عدلیہ کی آزادی کی تحریک عملی طور پر شروع ہو گئی۔ عدلیہ کی آزادی کی اس تحریک میں خود وکلا کی خواہش پر سیاسی جماعتوں نے بھرپور حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔
عدل و انصاف انسانی معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے۔ جہاں عدل و انصاف ہوگا وہاں سارے مسائل خود بخود حل ہوتے رہیں گے اور تمام ادارے اپنی اپنی جگہ پر درست کام کرتے رہیں گے۔جہاں عدل و انصاف کا ادارہ ٹوٹے گا وہاں ہر ادارہ انتشار اور افراتفری کا شکار ہو جائے گا۔ اللہ رب العالمین نے تمام رسولوں اور کتابوں کے بھیجنے کا مقصد یہی بیان کیا ہے کہ تمام لوگوں کو انصاف پر کھڑا کیا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ج (الحدید۵۷:۲۵)ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے اللہ کے لیے کھڑے ہونے اور انصاف کی علَم برداری‘ اللہ کے لیے گواہ بننے اور انصاف کے لیے گواہ بننے کو برابر قرار دیا ہے۔فرمایا:
یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ وَ لَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَج (النساء۴:۱۳۵) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علَم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔
اسی لیے عدلیہ کی آزادی کی تحریک میںمتحدہ مجلس عمل اور جماعت اسلامی نے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کا فیصلہ کیا کہ عدلیہ کی آزادی کے ساتھ تمام اداروں کی آزادی اور عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے مسائل وابستہ ہیں، اور پھر عدل و انصاف کے قیام کے لیے کھڑے ہونا ایک دینی فریضہ بھی ہے۔
فوج جب سیاسی معاملات میں مداخلت کرتی ہے تو وہ دستور اور دستور میں شامل اپنے اس حلف کی خلاف ورزی کرتی ہے جس کے تحت وہ دستور کی پابندی اور سیاست میں مداخلت نہ کرنے کی مکلف ہے۔نام نہاد اور بدنام زمانہ نظریۂ ضرورت کے تحت سپریم کورٹ نے ہمیشہ فوج کی اس مداخلت کے لیے جواز فراہم کیا ہے حالانکہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے جج صاحبان نہ صرف دستور کی پابندی بلکہ اس کی ’حفاظت‘ کا حلف لے کر جج بنتے ہیں‘ اور عدلیہ کا فرض منصبی ہی یہ ہے کہ وہ دستور کی حفاظت اور دستور کے مطابق سب کو انصاف فراہم کرے۔ جب اعلیٰ عدالتوں کے جج اپنے حلف سے منحرف ہو کرپی سی او کا حلف اٹھا کر دستور کے بجاے فوجی سربراہ کے وفادار بن جاتے ہیں تو ملک کے ادارے تباہ اور ملک کا پورا نظام تلپٹ ہو جاتا ہے۔ اس وقت پاکستان اسی حالت سے دوچار ہے اور سپریم کورٹ جن مسائل پر غور کررہی ہے اس سے ملک کا مستقبل وابستہ ہے۔اسے بجا طور پر ’فیصلہ کن مرحلہ‘ قرار دیا گیا ہے۔ اگر سپریم کورٹ مصلحتوں کا شکار ہونے کے بجاے آزادانہ فیصلہ کرتی ہے تو ہماری قومی زندگی سے تذلیل کے وہ سارے داغ دھل جائیں گے جو جسٹس منیر کے وقت سے بار بار کی فوجی مداخلت کو نظریۂ ضرورت کے تحت جواز عطاکرنے کی وجہ سے لگے ہوئے ہیں۔ ایک اچھے فیصلے سے ہمیں نئی زندگی مل جائے گی۔
عدلیہ کی آزادی کے ساتھ دستور کی بالا دستی، قومی حاکمیت، بنیادی انسانی حقوق، پارلیمنٹ کی بالادستی، صوبائی خود مختاری اور عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنے سے سارے اعلیٰ مقاصد حاصل اور سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اگر اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان دستور کے مطابق قرآن و سنت کی پابندی کرنے کے عہد کو پورا کریں گے تو اسلامی نظام زندگی اور اسلامی قوانین کے احیا کی قومی آرزو بھی آزاد عدلیہ اور صاحب ضمیر جج صاحبان کے ذریعے سے پوری ہو سکتی ہے۔ تاہم عدلیہ کی آزادی کا مقصد اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جب اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان اعلیٰ و ارفع کردار کا مظاہرہ کریں گے اور اس ضابطۂ اخلاق کی مکمل پاس داری کریں گے جسے ان اعلیٰ مناصب کے حامل افراد کے لیے شریعت، قانون، اخلاق اور صحت مند روایات نے معتبر قرار دیا ہے۔ ملک بھر کے عوام جس طرح وکلا کے شانہ بشانہ چیف جسٹس کی حمایت میں کھڑے ہوگئے ہیں، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام فوجی ڈکٹیٹر شپ کے مقابلے میں آزاد عدلیہ اور دستور کی پابندی کے حامی ہیں اور امریکی دباؤ اور ذاتی خواہشات کے تحت بنیادی انسانی حقوق کو پاکستان میں جس طرح پامال کیا جا رہا ہے، اس سے نفرت کرتے ہیں۔
آزاد عدلیہ کے حق میں عوامی حمایت کے مظاہرے سے گھبرا کرحکومت بدحواسی میں غلطی پر غلطی کر رہی ہے۔ چیف جسٹس کے راولپنڈی سے لاہور تک پرجوش عوامی استقبال کے بعد کراچی میں حکومت نے چیف جسٹس کے استقبال کو ناکام بنانے کا فیصلہ کیا۔ پرویز مشرف نے اس سلسلے میں ایم کیو ایم کا سہارا لیا اور اسے (free hand)‘ یعنی کھلی آزادی دے دی گئی کہ وہ کراچی میں اپنی تنظیمی قوت اور گروہی تائید و حمایت کے ذریعے طاقت کا متوازی مظاہرہ کرکے چیف جسٹس کی کراچی آمدکو روک دے۔ لیکن پرویز مشرف کو شاید یہ اندازہ نہیں تھا کہ کراچی میں ایم کیو ایم کی طاقت کا اصل منبع عوامی پذیرائی نہیںبلکہ گولی اور دہشت گردی کی قوت ہے۔
ایم کیو ایم کراچی میں اپنی قوت کا لوہا منوانے کے شوق میںاپنی پوری قوت سے میدان میں اتری۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں اور خفیہ اداروں کی مکمل سرپرستی اسے حاصل تھی۔ رینجرز اور پولیس نے ’اُوپر والوں‘ کی ہدایت پر خاموش تماشائی کا کردار اختیار کرکے اسے کھل کھیلنے کا ہرموقع فراہم کیا۔ الیکٹرانک میڈیا کو دہشت زدہ کرکے اسے اپنے حق میں کرنے کی پوری منصوبہ بندی کی گئی۔ائیرپورٹ تک جانے والے سارے راستے مکمل طور پر سیل کردیے گئے اور ان راستوں پر ایم کیوایم کے مسلح تربیت یافتہ دہشت گرد کارکنوں نے مورچے سنبھال لیے۔اس کے ساتھ وہ راستے کھلے رکھے گئے جہاں سے ایم کیوایم کے جلوسوں نے گذر کر اپنی جلسہ گاہ میں پہنچنا تھا۔ دہشت کی فضا اتنی خوف ناک تھی کہ عوام کی بڑی تعداد اپنے گھروں میں دبک کر بیٹھ گئی اور ایم کیو ایم کی عوامی قوت کا مظاہرہ بھی فلاپ ہو گیا۔ سیاسی جماعتوں کے پرجوش کارکن قربانی کے جذبے کے ساتھ مختلف مقامات پر جمع ہوئے تو ایم کیو ایم کے مسلح دہشت گردوں نے انھیں روکنے کے لیے خون کی ہولی کھیلی۔ الیکٹرانک میڈیا کو دباؤ میںرکھا گیا لیکن اس کے باوجود کراچی کے ساتھ جو خونی کھیل کھیلا جا رہا تھا وہ چھپائے نہیں چھپ سکتا تھا۔’’آج‘‘ چینل کے دفتر کے اوپر جو کیمرے لگے ہوئے تھے، ان کے ذریعے پوری دنیا مسلح غنڈا گردی اور فوج، رینجرز اور پولیس کی بے حسی کا تماشااپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ غنڈا گردی اور تشدد کی سیاست تو پہلے دن سے ایم کیو ایم کا شعار رہی ہے لیکن ۱۲ مئی ۲۰۰۷ء کو پہلی دفعہ ایم کیو ایم کی غنڈا گردی برہنہ ہو کر قوم اور پوری دنیا کے سامنے آگئی۔
ادھر اسلام آباد میںجنرل پرویز مشرف کی قیادت میں ’ق‘ لیگ عوامی طاقت کے مظاہرے کا جشن منا رہی تھی۔ میلے کا سماں تھا، سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے بے دریغ خرچ کر کے لائے ہوئے کرائے کے لوگوں کو پورے ملک سے جمع کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن وہ ایک جگہ بیٹھ کرتقریر سننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ کچھ لوگ تو کراچی کے قتل عام سے باخبر تھے اور حاضری لگوا کر واپس جا رہے تھے اور کچھ لوگ اسلام آباد کی سیر کے لیے مختلف مقامات میں بکھرے ہوئے تھے۔ جلسہ گاہ سے بڑھ کر حاضری فیصل مسجد کے اطراف میں نظر آرہی تھی۔پرویز مشرف نے اسلام آباد میں اپنی تقریر میں بڑھک ماری کہ کراچی میں’عوامی طاقت‘ سے ہم نے چیف جسٹس کے دورے کو ناکام بنا دیا۔ انھیں شاید اندازہ نہیں تھا کہ کراچی میں ایم کیوایم کی عوامی طاقت کا جنازہ نکل چکا تھا۔ پوری قوم کے سامنے وہ ایک فاشسٹ اور دہشت گرد تنظیم کے طور پر برہنہ ہو چکی تھی اور ایم کیوایم کی کھلی سرپرستی کے مظاہرے سے خود پرویزمشرف بھی دہشت گرد تنظیم کے سرپرست کے طور پر عریاں ہو چکے تھے۔تقریباً ۵۰شہدا اور سیکڑوں زخمیوں اور ایم کیوایم کے ظالمانہ رویے سے پوری قوم سوگوار تھی۔چنانچہ ۱۳ مئی کو یوم سیاہ منانے کا اعلان کیا گیالیکن ہم نے عوام کے صدمے اور غم و جذبات کے اظہار کے لیے قومی رہنماؤں کے مشورے سے ۱۴ مئی کو پورے ملک میں عام ہڑتال کی اپیل کی،جس کا قوم نے مثبت جواب دیا اور ۱۴ مئی کو پورے ملک کے بازار اور سڑکیں سنسان ہو گئیں۔
ایم کیو ایم ۱۲ مئی کے واقعات کے بعد منہ چھپاتی پھر رہی ہے اور اپنی روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہر ہ کرنے میں بھی ناکام ثابت ہوچکی ہے ۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے مغربی دنیا میں اپنے تعارف کا فائدہ اٹھاتے ہوئے برطانیہ کے ایوانوں میں الطاف حسین کا اصل چہرہ دکھانے کی کوشش کی ہے اور اگر وہ الطاف حسین کو برطانیہ کی عدالتوں میں لانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ان کی دہشت گردی کا شکار ہونے والے مظلوموں کی فریاد سننے کا دروازہ کھل جائے گا ۔ ان کی دہشت گردی کا شکار ہونے والے ہزاروں افراد میں ان کے سیاسی مخالفین کے علاوہ ایک بڑی تعداد خود ان کی اپنی پارٹی کے کارکنوں کی بھی ہے جو اپنی فریاد کے لیے کسی موقع کے منتظر ہیں ۔
عوام نے وکلا کے ساتھ تحریک میں پوری طرح اپنی شمولیت کا برملا اظہار کیاتو میڈیا نے اس حقیقت کو چھپانے کے بجاے اس کی بھرپور کوریج کا اہتمام کیا۔ اس پر ’آج‘، ’جیو‘ اور ’اے آروائی‘ پر خصوصی دباؤ پڑنے لگا اور اس کے ساتھ کیبل کے مالکان کو دھونس اور دھمکی کے ذریعے آزاد چینلوں کو بلیک آئوٹ کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اس سب کے باوجود جب ان اداروں کے خلاف غنڈا گردی کا ہر حربہ ناکام ہوچکا تو پھر ایک نیاوار پیمرا کے قوانین میں ترمیمی آرڈی ننس کی مکروہ شکل میں کیا گیا۔ یہ حکومت کی بدحواسی کا ایک اور مظاہرہ تھا۔، اس کے بعدوکلا کے ساتھ صحافی برادری بھی کھل کر میدان میں نکل آئی۔
اس فضا میں متحدہ مجلس عمل کی پوری مرکزی قیادت نے راولپنڈی سے گوجرانوالہ، گوجرانوالہ سے فیصل آباد اور فیصل آباد سے لاہور تک کا تین روزہ تاریخی ’روڈکارواں‘ چلایا، جس کی عوامی پذیرائی کا مظاہرہ پوری قوم کے سامنے آگیا۔موجودہ عوامی تحریک کے دو بڑے مراحل ہیں۔ پہلے مرحلے میں اپوزیشن کی تمام جماعتیں متفقہ طور پر مطالبہ کررہی ہیں کہ:
۱۔ پرویز مشرف اور حکمران ٹولہ استعفا دے۔
۲۔ قومی اتفاق راے سے ایک عبوری حکومت قائم ہو۔
۳۔ دستور کو اکتوبر۱۹۹۹ء کے پہلے والی صورت میں بحال کردیا جائے۔
۴۔ آزاد الیکشن کمیشن کی تشکیل کر کے منصفانہ انتخابات کی راہ ہموار کی جائے۔
دوسرے مرحلے میں انتخابات میں ہر جماعت اپنے اپنے منشور کے ساتھ انتخاب لڑے اور انتخابات جیتنے والی اکثریت کو حکومت کرنے کا موقع دیا جائے جو آئین و قانون کی حدود میں رہ کر حکومت کرنے کا حق استعمال کرے۔
ان مطالبات کو روبۂ عمل لانے کے لیے متفقہ جدوجہد کی ضرورت ہے لیکن بوجوہ اب تک پیپلزپارٹی اس طرح کے اتحاد کا حصہ بننے سے کترا رہی ہے ۔ لیکن اس کا یہ رویہ نہ عوام میں مقبول ہے اور نہ پیپلز پارٹی کے کارکن ہی کھل کر اس رویے کی حمایت کرسکتے ہیں ۔ اگر پیپلز پارٹی کی قیادت اپنے اس رویے پر قائم رہتی ہے تو عوا م اس کو پرویز مشرف کے ساتھ خفیہ ڈیل کا حصہ سمجھیں گے۔ متحدہ مجلس عمل اور پیپلزپارٹی کے پروگرام اور داخلہ و خارجہ پالیسیوں میں بنیادی اختلاف ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کھل کر امریکا کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہے اور پرویز مشرف کے ساتھی جرنیلوں پر ’اسلامی دہشت گردوں‘ کاساتھ دینے کا الزام عائد کررہی ہے ۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ امریکا اور بھارت کے ساتھ تعلقات کے آئینے میں اپنے مستقبل کا اقتدار دیکھ رہی ہیں اور ان دونوں طاقتوں کو ابھی سے یقین دلانے کی کوشش کررہی ہیں کہ وہ پرویز مشرف سے بھی بہتر اتحادی ثابت ہوسکتی ہیں لیکن اس طرح وہ عوامی تائید سے محروم ہو رہی ہیں۔ اگر بے نظیر صاحبہ نے اپوزیشن کی دوسری جماعتوں کی بار بار کی دعوت کو نظر اندار کرتے ہوئے اپنا الگ راستہ بنانے کی کوشش جاری رکھی تو خود ان کی پارٹی کے لیے یہ رویہ نقصان دہ ثابت ہوگا۔
عدلیہ، وکلا، صحافی برادری اور سیاسی اور دینی جماعتوں کے تحرک کے نتیجے میں پرویز مشرف اور ان کی حکومت بد حواسی کا شکار ہے ۔ پرویز مشرف نے برسرعام حکمران جماعت سے شکایت کی ہے کہ انھیں میدان میں اکیلاچھوڑ دیا گیا ہے اور حکمران جماعت خود اپنی بقا کے لیے بھی میدان میں اترنے سے کترا رہی ہے ‘ جب کہ وزیراعظم شوکت عزیز نے کہاہے کہ حکمران جماعت کے بعض ارکان اپوزیشن کے ساتھ ملے ہوئے ہیں‘ نیز سپریم کورٹ میں حکومتی وکیل ملک قیوم نے کہاہے کہ ریفرنس کا فیصلہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے حق میں ہوجائے تو وزیر اعظم شوکت عزیز کو استعفا دے دینا چاہیے ۔ یہ رویہ ظاہر کرتاہے کہ پرویز مشرف حکومت کا چل چلائو ہے اور انھیں اپنے چاروں طرف سازشیں اور سازشی عناصر نظر آرہے ہیں۔ ایسے وقت میں کور کمانڈروں کا اجلاس طلب کرکے آئی ایس پی آر کی طرف سے سیاسی بیا ن جار ی کروانا کمزوری کی علامت ہے ۔ فوجی کمانڈروں کا اس نوعیت کا ایک بیان ذوالفقار علی بھٹو کے آخری ایام میں بھی جاری ہواتھا لیکن کسی ڈکٹیٹر کے آخری ایام میں اس طرح کے بیانات سے کوئی بھی مرعوب نہیں ہوتا۔
ملک میں ایمرجنسی یا نیا مارشل لا نافذ ہونے کے خطرے کااظہار کیا جارہا ہے لیکن ملک کی موجودہ بحرانی کیفیت کا علاج مارشل لا یا ایمرجنسی نہیں ہے کیونکہ ملک میں پہلے ہی فوجی آمریت ہے اور بحران کا بڑا سبب بھی یہی ہے۔ اگر کوئی فوجی جرنیل نئے مارشل لا کے نفاذ کی حماقت کرے گا تویہ خود فوج کے حق میں سمِ قاتل ثابت ہوگا اور فوج اور عوام میں جو خلیج حائل ہوچکی ہے اس میں اضافے کا سبب بنے گا۔
عام انتخابات کے حوالے سے صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت کی کارکردگی ہر مجلس میں موضوع سخن رہتی ہے۔ اگرچہ فوجی حکومت کی وجہ سے آئین عملاً معطل ہے اور صوبوں کو آئین کے عطاکردہ اختیارات حاصل نہیں ہیں۔ چیف سیکرٹری اور آئی جی پی کے دو بڑے اور اہم مناصب پر مرکز اپنی صواب دید سے اشخاص کی تعیناتی کرتا ہے اور انھیں مرکز سے براہ راست ہدایات بھی ملتی رہتی ہیں۔ واپڈا کے ذمے صوبائی حکومت کے رائلٹی کے واجبات کی ادایگی سے کھلم کھلا پہلوتہی کی جارہی ہے لیکن اس کے باوجود صوبہ سرحد نے ہرمیدان میں ترقی کی ہے۔
صحت اور تعلیم کے دو اہم شعبوں کا سابقہ ادوار کی کارکردگی سے موازنہ کیا جائے تو مجلس عمل کی حکومت کی اچھی کارکردگی بالکل واضح ہوجاتی ہے۔ بچیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ خواتین کے لیے الگ میڈیکل کالج قائم کیا گیا ہے اور الگ اسکولوں کی سہولت کے پیش نظر اسکول جانے والی بچیوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ہرضلعی ہیڈکوارٹر میں اعلیٰ درجے کی سہولتوں کے ساتھ ایک بڑا ہسپتال تعمیر کرنے کا کام جاری ہے۔ ایک آسان اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ صحت پر سالانہ ترقیاتی اخراجات سابقہ ادوار میں ۳۰ کروڑ روپے سے آگے نہیں بڑھ سکے تھے‘ جب کہ مجلس عمل کی حکومت میں صحت کے شعبے کا ترقیاتی بجٹ ۳ ارب ۱۳ کروڑ تک پہنچ گیا ہے۔ صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت سے قبل کالجوں کی کل تعداد ۱۳۴ تھی‘ جب کہ گذشتہ چارسالوں میں ۸۰ نئے کالج تعمیر کیے گئے۔
سب سے اہم اور نمایاں تبدیلی حکومتی ایوانوں میں کلچر اور ثقافت کی تبدیلی ہے۔ گورنمنٹ ریسٹ ہائوس سابقہ ادوار میں عیاشی کے اڈے ہواکرتے تھے۔ اب یہ سادگی اور پاکیزگی کا نمونہ ہیں۔ وزرا باقاعدہ مساجد میںحاضری دیتے ہیں۔ لوگوں کے ساتھ گھلے ملے ہوئے ہیں۔ دفاتر میں عوام کا آزادانہ آنا جانا ہے اور حکومتی ایوانوں میں صوم و صلوٰۃ کی پابندی کی وجہ سے عوام اور خواص میں حائل پردے ہٹ گئے ہیں۔ دینی جماعتوں کی باہمی آویزش ختم ہونے کی وجہ سے عوام نے سکھ کا سانس لیا ہے۔ صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کے مقابلے میں کسی علاقائی یا سیکولر سیاسی تنظیم کی کوئی حیثیت نہیںہے۔ ایم ایم اے اگر داخلی طور پر مضبوط اور مستحکم ہو تو کوئی دوسری جماعت انتخابات میں اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔
ایم ایم اے کی اس کارکردگی سے گھبرا کر عالمی قوتوں نے صوبہ سرحد میں بدامنی اور انتشار پھیلانے کی مذموم سازشیں شروع کردی ہیں۔ پہلے مرحلے میں قبائلی علاقوں میں میزائل حملوں اور بم باریوں کے ذریعے معصوم اور بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔ خاص طور پر باجوڑ اوروزیرستان میں بم باری کی گئی۔ خیبر ایجنسی میں عوام کو تقسیم کرنے کے لیے پیر اور مفتی کا جھگڑا کھڑا کیا گیا۔ ہنگو‘ پاراچنار اور ڈیرہ اسماعیل خان میں شیعہ سنی کی تفریق پیدا کرنے کی کوشش کی گئی‘ اور بعض علاقوں میں کچھ دینی عناصر کے ذریعے متشدد طالبان کا رنگ اُبھارنے کی کوشش کی گئی جو بم دھماکوں‘ دھمکی آمیز خطوط اور تشدد کی کارروائیوں کے ذریعے صوبے میں بدامنی اور افراتفری کی فضا پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ جو افراد ان کارروائیوں میں ملوث ہیں ان کا بعض حکومتی ایجنسیوں کے ساتھ تعلق صوبائی حکومت پر واضح ہے‘ اور اس کے شواہد موجود ہیں کہ ان کی سرپرستی مرکزی حکومت کی ایجنسیوں کی طرف سے ہو رہی ہے۔
ایم ایم اے کے گرد تمام مسلمانوں کے متحد ہونے کے خدشے کے پیش نظر عالمی طاقتوں اور پرویز مشرف کی حکمت عملی ہوگی کہ خود مذہب کی بنیاد پرایم ایم اے کے لیے دوسرے حریف پیدا کیے جائیں اور انھیں منظم کیا جائے۔ ان گروہوں میں ایک گروہ وہ ہے جو لوگوں کو ووٹ دینے اور انتخابی عمل میں شریک ہونے سے منع کرتا ہے۔ ایک گروہ کو فرقہ وارانہ بنیاد پر منظم کرکے مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کی کوشش ہورہی ہے۔ اسی طرح کے اوچھے ہتھکنڈوں کے باوجود متحدہ مجلس عمل کے گرد لوگ اکٹھے ہورہے ہیں اور صوبہ سرحد کے بعد اب پنجاب کے عوام میں ایم ایم اے کو پذیرائی مل رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں پنجاب میں کامیاب علما و مشائخ کانفرنسوں کا انعقاد اور مجلس عمل کے مرکزی رہنمائوں کا تین روزہ کارواں ایک روشن مستقبل کا اشارہ دے رہے ہیں۔
گرینڈ اپوزیشن الائنس کے لیے جب اپوزیشن جماعتوں کو دعوت دی جاتی ہے تو مجلس عمل پر مخالفین کی طرف سے دو اہم اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں۔ پہلا اعتراض ۱۷ویں آئینی ترمیم میں حکومت کا ساتھ دینے کا ہے‘ اور دوسرا اعتراض بلوچستان کی حکومت میں ’ق ‘ لیگ کا حلیف ہونے کا ہے ۔
سترھویں ترمیمی بل پر حکومتی پارٹی سے مفاہمت اور بلوچستان میں ق لیگ سے اتحاد بنیادی طور پر اس کمزوری کی علامت ہیں جو ملٹری سویلین اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے باہمی گٹھ جوڑ کی وجہ سے سیاسی اور دینی جماعتوں کو لاحق ہے۔ جب تک عوامی بیداری کے نتیجے میں عدل وانصاف پر مبنی بنیادی تبدیلی رونما نہیں ہوتی ہمارا ملک اس نوعیت کی مشکلات اور الجھنوں سے دوچار رہے گا ۔ ہم نے سترھویں ترمیمی بل کے موقع پر جو مفاہمت کی تھی‘ اس وقت ہمارا خیال تھا کہ اس طرح ہم نے پرویز مشرف کو آئینی طور پر چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے سے دستبردار کرکے جمہوریت کی طرف قدم آگے بڑھایا ہے‘ لیکن جو لوگ طاقت کے بل بوتے پر حکمران بن جاتے ہیں وہ اپنی مرضی سے نہیں جاتے۔ انھیں قانون اور عہدوپیمان کا کوئی پاس نہیں ہوتا‘ اور اپنے مفادات کے حصول کے لیے وہ بڑی سے بڑی بدعہدی سے بھی باز نہیں رہتے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے اور سترھویں ترمیم کے باب میں بھی ہمیں اور پوری قوم کو یہی تجربہ ہوا۔
ہم نے نیک نیتی سے ایک کام کیا تھا مگر فی الحقیقت ہمیں اور پوری قوم کو بلکہ پوری دنیا کو دھوکا دیا گیا۔جب ہم نے دھوکا کھانے پر معذرت کی تو ہمارے کچھ ساتھیوں نے دلیل پیش کی کہ دھوکا کھانا گناہ نہیں ہے بلکہ دھوکا دینا گناہ ہے۔ اس لیے ہم کس بات کی معذرت پیش کریں لیکن دھوکا دینے والوں کے ساتھ بلوچستان حکومت میں شریک رہنے کی ہمارے پاس کوئی قوی دلیل نہیں ہے۔ اگرچہ اس بارے میں بھی کہا جاتاہے کہ اگر ہم حکومت سے نکل آئیں تو گویا گورنر راج ہوگا یا نیشنلسٹ قوتیں شریک اقتدار ہو کر مزید مشکلات پیدا کریں گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر سیاسی مسئلے کے کئی رخ ہوتے ہیں اور جس رخ کو بھی اختیار کیا جائے اس کے لیے دلائل فراہم کیے جاسکتے ہیں۔ اگر ہم عدلیہ اور فوجی ٹولے کے درمیان موجودہ آویزش میں عوام کو منظم کرکے عدلیہ کی آزادی کا راستہ کھول سکیں تو ہمیں اس طرح کے جوڑ توڑ (compromises)کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ اللہ پر بھروسے اور صراط مستقیم پر چل کر ہر طرح کی مشکلات کا مقابلہ کرنا اور حق و باطل کے درمیان ہر طرح کی شراکت سے گریز کرنا ہی سیدھا راستہ ہے جس کی نشان دہی علامہ اقبال ؒنے اپنی اس دل نشیں نظم میں کی ہے :
تازہ پھر دانش حاضر نے کیا سحر قدیم
گزر اس دور میں ممکن نہیںبے چو ب کلیم
عقل عیار ہے‘ سو بھیس بنا لیتی ہے
عشق بے چارہ نہ زاہد ہے نہ ملا نہ حکیم
عیش منزل ہے غریبان محبت پہ حرام
سب مسافر ہیں بظاہر نظر آتے ہیںمقیم
ہے گراں سیر غم راحلہ و زادسے تو
کوہ و دریا سے گزر سکتے ہیں مانند نسیم
مرد درویش کا سرمایہ ہے آزادی ومرگ
ہے کسی اور کی خاطر یہ نصاب زر و سیم
عزیمت کے اس راستے پر چلنے کے لیے ایم ایم اے کے سب ساتھیوں کو آمادہ کرنا ضروری ہے ۔ وقتی اختلاف راے پر علیحدگی اختیار کرنے یا کسی کو علیحدہ کرنے کے بجاے صبراور حکمت سے معاملات کو سلجھانا بہتر ہے اور یہی جماعت اسلامی اور ایم ایم اے کی دوسری جماعتوں کی پالیسی ہے۔ اس راستے میں مشکلات ہیں لیکن ہر مشکل کو حل کرنے کے لیے راستہ موجود ہے ؎
مشکلے نیست کہ آساں نہ شو د
مردباید کہ ہراساں نہ شود
(ایسی کوئی مشکل نہیں ہے جو آسان نہ ہوسکے۔ مرد کو چاہیے کہ ہروقت حوصلہ مند رہے۔)
پشتو میں مثل ہے کہ ’’پہاڑ کی چوٹی اگرچہ بلند ہے لیکن اس کے اوپر راستہ ہے‘‘۔ ان شاء اللہ وقت آرہاہے کہ مومنانہ بصیرت ،باہمی اتحاداور اللہ پر توکل کے ذریعے دشمنوں کے مکر و فریب کا پردہ چاک ہوجائے گا اور اسلامی قوتیں کامیاب و کامران ہوں گی‘ کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے :
جَآئَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُط اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا o
(بنی اسرائیل۱۷:۸۱) اور اعلان کردو کہ ’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے‘‘۔
بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُہٗ فَاِذَا ھُوَ زَاھِقٌ ط (الانبیاء۲۱:۱۸) مگر ہم تو باطل پر حق کی چوٹ لگاتے ہیں جو اس کا سر توڑ دیتی ہے اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے مِٹ جاتا ہے۔
یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاھِہِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَo (الصف ۶۱:۸) یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں‘ اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔
اس آیت کا حوالہ دے کر علامہ اقبال ایمان کامل کے ساتھ فرماتے ہیں : ؎
تاخدا اَنْ یُّطْفِئُوْا فرمودہ است
از فسردن ایں چراغ آسودہ است
(جب اللہ تعالیٰ نے کہہ دیا ہے کہ یہ اللہ کا روشن کردہ چراغ ہے تو اس چراغ کو بجھنے کا کوئی خطرہ درپیش نہیں ہے)
کچھ لوگ درحقیقت ایم ایم اے کے اتحاد کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ اس معذرت کو بنیاد بناکر ایم ایم اے کی یک جہتی پر ضرب لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ایم ایم اے کی دو بڑی جماعتوں کی سیاسی حکمت عملی میں کچھ امور پر اختلاف موجود ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی ان وقتی اختلافات کی بنیاد پر ایم ایم اے کے اتحاد کو توڑنا نہیں چاہتی ہے ۔ اگر ایم ایم اے کے فوائد اور اس کی مشکلات کا موازنہ کیا جائے تو اس کے فوائد کہیں زیادہ اور دور رس مثبت نتائج کے حامل ہیں اور دینی جماعتوں کی یہ یکجہتی پورے مسلم معاشرے کو اغیار کی سازشوں سے بچانے اور اسے اصل چیلنج کی طرف متوجہ کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہے ۔ ایم ایم اے کی دعوت پر کامیاب قومی مجلس مشاورت کے بعددرج ذیل چھے افراد پر مشتمل ایک قومی رابطہ کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیاگیا جو آگے کی سیاسی تحریک کا نقشہ بنائے گی اور ان شاء اللہ عوامی تحریک کی رہنمائی کرے گی: قاضی حسین احمد‘ راجا ظفر الحق‘ مولانا فضل الرحمن‘ عمران خان‘ اسفند یار ولی خان‘ محمود خان اچکزئی۔
۷ اور۸جولائی کو اے آرڈی کی طرف سے میاں نوازشریف نے لندن میں اپوزیشن جماعتوں کی ایک کانفرنس بلائی ہے ۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ کی طرف سے ابھی سے شرکت سے معذرت آئی ہے ۔ پیپلز پارٹی کا وفد شرکت کرے گا لیکن اب تک کے تجربے سے یہ ثابت ہے کہ بے نظیر صاحبہ کی عدم موجودگی میں پیپلز پارٹی کا کوئی بھی وفد فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس لیے ہوسکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کو نظرانداز کرکے فیصلے کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہے۔مسلم لیگ (ن) عرصے سے پیپلز پارٹی کے ساتھ چلنے میں مشکلات سے دوچار ہے لیکن اسے چھوڑ کر الگ راستہ اختیار کرنا بھی اس کے لیے بوجوہ مشکل ہے ۔ اپوزیشن اور ملک کے سیاسی مستقبل کے لیے بھی مفید راستہ یہ ہے کہ دستور کی بالادستی ،عدلیہ کی آزادی اور فوجی آمریت سے نجات کی جدوجہد میں زیادہ سے زیادہ قومی اتفاق راے پیدا کرنے کی کوشش کی جائے ۔ اس کی ایک بار پھر پوری کوشش ہونی چاہیے لیکن وقت اس بات کا تقاضا کر رہا ہے کہ اب فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے اور انتظار اور مزید کوشش کے لیے کوئی گنجایش باقی نہیں رہی ہے۔ اس لیے اب یکسوئی اختیار کرنا اور عملی جدوجہد کو مہمیز دینا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
ایک مستحکم اسلامی سیاسی جمہوری پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ دستور اور قانون کی بالادستی قائم کی جائے۔ عدلیہ کی آزادی یقینی بنا دی جائے اور عوام کو دینی تشخص رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے ساتھ وابستہ کیا جائے۔ عوام کی تنظیم کے بغیر دستور کی بالادستی اور عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانا ممکن نہیں ہے۔ متحدہ مجلس عمل میں شامل جماعتوں کی جڑیں عوام میں گہری ہیںلیکن مشترکات پر متحدہونے کے باوجودجماعت اسلامی کے سوا باقی جماعتیں اب تک اپنے اپنے مسلک کے دائرے سے اوپر نہیں اٹھ سکیں۔جماعت اسلامی اگرچہ اپنی تنظیمی قوت اور کارکنان کی اعلیٰ مقاصد کے ساتھ وابستگی کے سبب ایک مضبوط سیاسی جماعت ہے اور الحمدللہ عوام میں اچھی شہرت اور پذیرائی رکھتی ہے لیکن بڑے پیمانے پر عوام کو اپنے ساتھ وابستہ کرنے اور عام آدمی کو یہ یقین دلانے میں کہ ’جماعت اسلامی اس کی ہے اور وہ جماعت اسلامی کا ہے‘ابھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام کچھ مدت پیش تر ممبر سازی مہم اور محلہ وار رابطہ کمیٹیوں کے قیام کے ذریعے شروع کیا گیا تھا لیکن نامکمل رہ گیا تھا۔ اب جماعت نے نئے سرے سے اس کا آغاز کردیا ہے۔
اگر ہم ۱۵ کروڑ کی آبادی میں ۱۰ فی صد یعنی ڈیڑھ کروڑ مرد اور خواتین کو ممبر بنا کر رابطہ کمیٹیوں کے ذریعے منظم کر سکیںاور مجلس عمل کی دوسری جماعتیں بھی اپنے اپنے دائرے میںمنظم اور عوامی پذیرائی حاصل کرلیں‘ اور ساتھ ہی ہم اس میں کامیاب ہوجائیں کہ مجلس عمل میں شامل جماعتوںکے افراد کو قدر مشترک اور درد مشترک پر جمع کرکے ایک جماعت ہونے کا احساس ابھار سکیں‘ اور دین کے ساتھ وابستگی رکھنے والے تمام افراد میں’ترجیحات‘ کے بارے میں صحیح فہم اور یکسوئی پیدا کرسکیں کہ وہ فروعی اختلافات سے اٹھ کر اعلاے کلمۃاللہ کے مقصد پر متحد ہوجائیں اور قرآن و سنت کی مشترک بنیاد کو مرکز و محور بنا کر آپس میں ایک دوسرے کی تعبیر کو تسلیم کر لیں‘ اور ایک دوسرے کے لیے دل میں جگہ پیدا کر لیں تو متحدہ مجلس عمل ایک مستحکم اسلامی‘ جمہوری‘ فلاحی اور وفاقی پاکستان کی تعمیر میں اہم کردار اداکرسکتی ہے۔ اس کے لیے قیادت اور کارکنوں کا اخلاص اور للہیت سب سے بڑا وسیلہ ہے۔ اخلاص اور للہیت سے ہی قربانی کا جذبہ اور محنت شاقہ کی عادت پنپ سکتی ہے۔
پوری اسلامی دنیا میں ہر جگہ عوام دینی طور پر بیدار ہو رہے ہیں اور اغیار کی سازشوں سے باخبر بھی ہورہے ہیں کیونکہ میڈیا کے اس دور میںکوئی بھی بات چھپی ہوئی نہیں رہ سکتی۔ امریکی دانش ور جس طرح مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کے منصوبے پیش کررہے ہیں اور مسلمانوں ہی میں سے اپنے ڈھب کے لوگوں کو منظم کرنے اور انھیں مسلمانوں کے خلاف میدان میں لانے کی تیاری کررہے ہیں‘ وہ انفارمیشن ٹکنالوجی کے عام ہونے کی وجہ سے مسلمان نوجوانوںسے مخفی نہیں ہیں۔ اگرچہ فحش اور بے حیائی عام کرنے اور مسلمانوں کی نئی نسل کو اس کے ذریعے بے ہمت اور بودہ بنانے کی کوششیں بھی بڑے منظم انداز میں اور بڑے پیمانے پر ہورہی ہیں لیکن مسلمانوں کی بڑی اکثریت حالات حاضرہ اور سیاسی تجزیوں پر مشتمل پروگراموں میں دل چسپی لینے لگی ہے۔
اس رجحان کی وجہ سے آمرانہ فوجی حکومت کو پیمرا آرڈیننس میں ایسی ترامیم کرنی پڑی ہیں جو اظہار راے اور پریس کی آزادی کے منافی ہیں۔ اس ترمیمی آرڈی ننس کے خلاف جو شدید ردعمل صحافی برادری میں نمودار ہوا‘ حکومت اس سے گھبرا گئی اور پرویز مشرف کو پسپائی اختیار کرکے اس ترمیم کو واپس لینا پڑا۔ تاہم حالیہ عوامی بیداری اور خاص کر ۱۲ مئی کو ایم کیو ایم اور پرویز مشرف کا دہشت گرد چہرہ لوگوں کو دکھانے میں میڈیا نے جو کردارادا کیا ہے اور اب تک بڑی حد تک میڈیا اپنے اس آزادانہ کردار پر قائم ہے‘ وہ عوامی بیداری کے ایک نئے دور کی نوید سنا رہا ہے۔ علامہ اقبالؒ نے ۱۹۰۷ء میں اسلام کے روشن مستقبل کی جو خوش خبری سنائی تھی‘ اس میں بھی ’بے حجابی‘ اور تمام حقائق کے آشکارا ہونے کا ذکر ہے:
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدارِ یار ہوگا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہوگا
سنا دیا گوشِ منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر
جو عہد صحرائیوں سے باندھاگیا تھا پھر استوار ہوگا
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو اُلٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا
ان حالات میں ہمارا پیغام صرف ایک ہے۔ اس نازک اور فیصلہ کن لمحے میں کوئی باشعور مسلمان خاموش تماشائی نہیں بن سکتا۔ یہ وقت اپنی آزادی‘ اپنے ایمان‘ اپنی شناخت‘ اپنی تہذیب و ثقافت اور اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کی حفاظت کی جدوجہد میں سردھڑ کی بازی لگادینے کا وقت ہے۔ یہ وقت فیصلہ‘ یکسوئی‘ جدوجہد اور قربانی کا وقت ہے‘ اور اللہ سے اپنے کیے ہوئے عہدوفا کو پورا کرنے کا وقت ہے۔ جماعت اسلامی اور متحدہ مجلس عمل پوری قوم کو اس ملک عزیز کی بقا‘ استحکام اور اس کے نظریاتی کردار کی ادایگی کی اس تاریخی جدوجہد میں بھرپور شرکت کی دعوت دیتی ہے ؎
یہ گھڑی محشر کی ہے‘ توعرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل اگر کوئی عمل دفتر میں ہے