جولائی۲۰۰۷

فہرست مضامین

تربیت .ِاولاد میں باپ کا خصوصی کردار

شمع سلیم | جولائی۲۰۰۷ | اسلامی معاشرت

Responsive image Responsive image

عموماً خیال کیا جاتا ہے کہ تربیت اولاد کا معاملہ بھی امورِخانہ داری ہی کی کوئی شاخ ہے اور چونکہ گھر کے اندر کا میدان خواتین ہی کے لیے مخصوص سمجھا جاتا ہے‘ اس لیے تربیت ِ اولاد صرف ماں کی ذمہ داری ہے۔ بے شک تربیت کا یہ کام ہوتا گھر کے اندر ہی ہے‘ اِس سے بھی انکار نہیں کہ    یہ امورِخانہ داری ہی کی ایک شاخ ہے مگر گھر کے اِس کام کو دوسرے تمام امور پر ویسی ہی برتری حاصل ہے جیسی اللہ تعالیٰ کی کائنات کی تمام مخلوق میں انسان کو حاصل ہے۔ یہ ان ذمہ داریوں میں سے ہے جن کے اہتمام پر اسلام نے بہت زوردیا ہے اور ماں باپ دونوں کو اُن کے بدرجۂ اتم پورا کرنے پر اُبھارا ہے۔ قرآن و حدیث کا مطالعہ اِس بات پر دلیل ہے کہ یہ دونوں کے کرنے کا کام ہے۔ چند آیات قرآنی ملاحظہ فرمائیں:

یاد کرو جب لقمان ؑ اپنے بیٹے کو نصیحت کر رہا تھا تو اس نے کہا بیٹا اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا۔ حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ (لقمان ۳۱:۱۳-۱۹)

اور ابراہیم ؑـنے اپنی اولاد کو اسی دین اسلام پر چلنے کی وصیت کی‘اور یہی وصیت یعقوب ؑ  اپنی اولاد کو کرگیا۔ اُس نے کہا تھا کہ ’’میرے بچو! اللہ نے تمھارے لیے یہی دین پسند کیا ہے‘ لہٰذا مرتے دم تک مسلم ہی رہنا‘‘ پھر کیا تم اس وقت موجود تھے‘ جب یعقوب ؑ اس دنیا سے رخصت ہو رہا تھا۔ اُس نے مرتے وقت اپنے بیٹوں سے پوچھا: بچو! میرے بعد تم کس کی بندگی کرو گے۔ ان سب نے جواب دیا ہم سب اُسی ایک اللہ کی بندگی کریں گے جسے آپ ؑ نے اور آپ ؑ کے بزرگوں: ابراہیم ؑ، اسماعیل ؑاور اسحاقؑ نے خدا مانا اور ہم اسی کے مسلم ہیں‘‘۔ (البقرہ ۲:۱۳۲-۱۳۳)

اور اپنے متعلقین کو نماز کا حکم دیں اور خود بھی اس کے پابند رہو۔(طٰہٰ۲۰:۱۳۲)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ بچائو اپنے آپ کو اور گھر والوں کو اُس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔ (التحریم ۶۶:۶)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملے کی نزاکتوں کو سمجھتے ہوئے متعدد بار اس کی تاکید ووصیت فرمائی۔ چند احادیث درج ذیل ہیں:

اپنے بچوں کو ادب سکھائو اور ان کی اچھی تربیت کرو۔ (ابن ماجہ)

اللہ اُس والد پر رحم کرے جو بھلائی میں اپنے بچے کی معاونت کرے۔(کتاب الثواب )

مرد اپنے گھر کا رکھوالا (راعی) ہے اور اُس سے اس کی رعیت (گھر والوں) کے بارے میں بازپُرس ہوگی۔ (بخاری، مسلم)

کسی باپ نے اپنے بیٹے کو اچھے ادب سے بہتر عطیہ نہیں دیا۔ (ترمذی)

مندرجہ بالا آیاتِ قرآنی و احادیث مبارکہ سے آخر کس طرح ثابت ہوتا ہے کہ یہ ذمہ داری صرف ماں پر ڈالی گئی ہے‘ بلکہ ان سے تو پتا چلتا ہے کہ یہ ایک مشترکہ عمل ہے جو میاں بیوی باہمی تعاون سے آپس میں مل جل کر کرتے ہیں۔ اسی لیے سلف صالحین اپنے بچوں کی تربیت کے لیے اعلیٰ فضا  مہیا کرتے تھے۔ چنانچہ امام راغب اصفہانی لکھتے ہیں کہ خلیفہ منصور نے بنی اُمیہ کے  جیل خانے میں قیدیوں سے دریافت کیا کہ قید کے دنوں میں آپ لوگوں کو سب سے زیادہ تکلیف کس چیز سے ہوئی؟ انھوں نے بتایا کہ اس چیز سے کہ ہم اپنے بچوں کی تربیت کرنے سے محروم   رہ گئے۔ (تربیتِ اولاد کا اسلامی نظام، عبداللہ ناصح علوان)

تعلیم و تربیت کا مفھوم

آیئے سب سے پہلے ’تعلیم و تربیت‘ کے معنی پر غور کرتے ہیں:

تعلیم: سکھانا‘ تلقین‘ ہدایت‘ تربیت۔

تربیت: پرورش‘ پرداخت (دیکھ بھال‘ حفاظت)‘ تعلیم و تہذیب‘ تعلیم.ِ اخلاق۔ (فیروز اللغات اُردو جدید، نیا اڈیشن)

معلوم ہوا تعلیم سے مراد علم حاصل کرنے کی وہ کیفیت ہے جو بہرحال اپنی انتہا کو پہنچ سکتی ہے۔ چند خال خال اشخاص ہی ملیںگے جو اپنی زندگی کا بیشتر حصہ ڈگریاں جمع کرنے پر صَرف کردیتے ہیں ورنہ آدمی اپنی تعلیم کا سلسلہ ایک حدتک جاکرمنقطع کردیتا ہے‘ جب کہ تربیت کا سلسلہ مرتے دم تک چلتا رہتا ہے۔ زندگی کے ابتدائی چند سال نہایت مؤثر ہوتے ہیں۔ موقع محل کی مناسبت سے اپنے اندر مناسب تبدیلی لانا‘ ہمہ وقت اپنا احتساب مدنظر رکھنا وغیرہ ایک نہ ختم ہونے والی تربیت ہی کا حصہ ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ تربیت ہی تعلیم کو چمکاتی ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ فرد اگر اچھی تربیت سے بھی آراستہ ہو تو اپنا الگ نمایاں مقام پیدا کرلیتا ہے اور مہذب بھی کہلاتا ہے‘ جب کہ تربیت سے تہی دامن تعلیم یافتہ فرد معاشرے میں خاطرخواہ مقام حاصل کرنے سے قاصر رہتا ہے۔

دوسری طرف ایک بہترین تربیت یافتہ فرد اگر کسی وجہ سے زیادہ اعلیٰ تعلیم نہ بھی حاصل کرسکے تو اس کی تھوڑی سی حاصل شدہ تعلیم بھی اسے معاشرے میں اچھا مقام عطا کرتی ہے۔ شاید اسی لیے کسی عقل مند کا قول ہے کہ ’’نرا علم کافی نہیں ہوتا لیکن نری صحبت کافی ہوجاتی ہے‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے دور میں تعلیم یافتہ زیادہ اور تہذیب یافتہ کم ملتے ہیں‘تاہم تعلیم بھی ناگزیر ہے‘     اس لیے اس کا حصول بھی لازم ہے۔

آیئے اب دیکھتے ہیں کہ بحیثیت ’باپ‘ ایک فرد کی کیا ذمہ داریاں ہیں۔

بچہ اور دینِ فطرت

اس ضمن میں باپ کی اوّلین کوشش یہ ہو کہ اس کے بچے کی ماں دینی شعور رکھنے والی ہو۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: ’’اپنی اولاد کے لیے اچھے خاندان والی عورت کا انتخاب کرو‘ اس لیے کہ خاندان کا اثر سرایت کرجاتا ہے‘‘۔ (ابنِ ماجہ)

اگر اس سلسلے میں ذرا بھی عدمِ اطمینان ہو تو یہ مرد کی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کی ماں کو ایسی فضا فراہم کرے جو حصولِ علم کے لیے سازگار ہو‘ نیز کم از کم ہفتے میں ایک بار اتنا وقت ضرور نکالے کہ جو دعائیں‘ قرآنی آیات اور تاریخی واقعات ماں نے بچے کو سکھائے یا سنائے ہیں‘ انھیں سنے اور بچے کے ساتھ کچھ وقت گزارے۔ تربیت کے اس مرحلے میں باپ کا عملی کردار بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ایک بہت چھوٹا بچہ نہ نماز پڑھتا ہے‘ نہ روزہ رکھ سکتا ہے اور نہ اپنے ہاتھ سے انفاق ہی پر قادر ہے‘ مگر جب باپ کو عملی طور پر ان دینی فرائض کو انجام دیتے ہوئے دیکھتا ہے تو یہ چیز اس کے ذہن پر نقش ہوجاتی ہے اور جب وہ خود عمل کی عمر کو پہنچتا ہے تو باپ کے کردار کی یہی تصویر اس کی رہنمائی کرتی ہے۔

تعلیم و تربیت کے تمام مراحل میں یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ بچے کی عمر کے حساب سے کام کریں۔ اگر آپ چاہیں گے کہ ایک چھوٹی عمر کا بچہ ہر وقت ہاتھ میں قرآن لیے بیٹھا رہے تو یقینا آپ اسے انحراف اور بے زاری کا راستہ دکھائیں گے۔ جس وقت وحی کے ذریعے احکامات نازل کیے جاتے تھے تو وہ بھی بتدریج نازل ہوتے تھے تاکہ پیروی میں آسانی ہو۔ یہی انسانی فطرت ہے۔ بچے کو آہستہ آہستہ چھوٹی چھوٹی باتوں اور مثالوں سے اسلام‘ رسولؐ، اہلِ بیتؓ، صحابہ کرامؓ اور صالحین سے محبت کرنا سکھایئے اور اس کام میں تعاون اور نرمی کو یقینی بنایئے۔ یاد رکھیے‘ آپ سے آپ کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ کون پوچھے گا یہ سوال؟ کیا آپ اس سوال کے جواب کے لیے تیار ہیں؟ اس جواب کی تیاری کے لیے آپ درج ذیل باتوں سے مدد لے سکتے ہیں:

۱- جونہی بچہ ذرا بڑا ہو اسے تلاوتِ قرآن پاک کی ابتدا کرایئے۔

۲- استاد اصولِ تجوید اور دینی بصیرت کا حامل ہو۔ ان امور سے ناواقف استاد باعثِ نقصان ہے‘ نیز لڑکیوں کے لیے کوشش کی جائے کہ کسی خاتون کا انتظام ہو۔ اگر ممکن نہ ہو تو چھوٹی عمر میںقرآن ختم کرانے کی طرف توجہ دیں اور گھر کے ایسے حصے میں بٹھا کر پڑھانے کا بندوبست کریں جو سب کی نظروں میں ہو۔ اس دوران بچیوں کو تنہا چھوڑ دینا باعثِ فتنہ ہے۔

۳- اگر اولاد کا رجحان دیکھیں توحفظِ قرآن پر توجہ دیں اور اس خواہش کو اُبھارنے کی کوشش کریں‘ نیز ناظرہ ختم ہوجانے کے بعد قرآن کے معنی اور تفسیر بھی پڑھوائیں۔ وہ لوگ جو ایسے معلم حضرات کا انتظام کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں وہ سمجھ لیں کہ وہ بڑی اعلیٰ جگہ اپنا پیسہ لگا رہے ہیں۔ یاد رکھیں‘ بیٹی کو شادی سے پہلے اور بیٹے کو نوکری سے پہلے پہلے جس قدر دینی علوم میں مہارت دلوا سکتے ہیں ضرور دلوایئے۔ یہ آپ کے لیے سب سے بڑا صدقۂ جاریہ ہوگا اور… یہ بچے پھر بڑی مشکل سے ہاتھ آئیں گے۔

۴- جب بچہ اسکول جانے کی عمر کو پہنچ جائے تو مناسب ’تربیت گاہ‘ کا انتخاب کیجیے جو بچے کو دنیاوی علوم کے ساتھ ساتھ دینی علوم میں بھی مستند بنائے۔ اس موقعے پر بھی بچیوں کے لیے  مخلوط نظام کا انتخاب مت کیجیے۔

۵- فرائض کے ساتھ ساتھ نوافل کی اہمیت بتایئے اور ان کا شوق دلایئے۔

بچہ اور اس کی ذات

تربیت کے سلسلے میں توازن کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ یہ تربیت روحانی ہو یا جسمانی‘ فکری ہو یا ایمانی‘ نفسیاتی ہو یا معاشرتی‘ ہر حیثیت میں بچے کی انفرادی اہمیت کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔ یہ چیز جہاں اُس میں عزتِ نفس اور اعتماد پیدا کرتی ہے وہاں آپ سے محبت کو بھی مضبوط بناتی ہے۔ یاد رکھیے‘ آپ کی طرح آپ کے اہلِ خانہ بھی دن بھر اپنے فرائض منصبی میں مصروف رہے اور اب وہ شام میں آپ کے منتظر ہیں اور آپ کی ایک مسکراہٹ کو ہرچیز سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔ ایسے باپ جو گھرمیں داخل ہوتے ہی دن بھر کی تھکن اور کوفت کو اپنے اہلِ خانہ پر غصہ‘ چیخ پکار کی شکل میں ظاہر کرتے ہیں‘ بہت جلد جان لیتے ہیں کہ بچپن میں سر جھکا لینے والے یہ بچے اپنے پیروں پر کھڑا ہوتے ہی انحراف‘ فرار اور نفرت کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ کس نے سکھایا      یہ طرزِعمل؟ آپ آج جس چیز کا بیج بوئیں گے‘ کل اُسی کی فصل کاٹیں گے۔

لڑکے اور لڑکی کی تربیت میں بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں‘ تاہم لڑکیاں نسبتاً زیادہ حسّاس ہوتی ہیں۔ باپ کی نرمی یا سختی کو خصوصی طور پر محسوس کرتی ہیں۔ ان کی ذات کا احترام اور ان کی موجودگی کو باعثِ رحمت ظاہر کرنا ان کی ذات میں پختگی پیدا کرتا ہے۔ لیکن لڑکوں کی تربیت میں باپ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ روزمرہ معاملات میں بچوں سے راے لینا‘ ان کی باتوں کو اہمیت دینا‘ ان کی پسند اور ناپسند کو جائز امور میں فوقیت دینا‘ ان کی غلطیوں سے چشم پوشی کرنا‘ان کے نقصان کی تلافی کرنا‘ ان کی ضروریات کو پورا کرنا خاص کر اُن چھوٹی چھوٹی خواہشات کو جن کا اظہار وہ خود کریں___ یہ تمام وہ امور ہیں جو بچے کو نفسیاتی بالیدگی عطاکرکے اُن میں اعتماد و وقار پیدا کرتے ہیں۔ وہ باپ جو گھر کا سودا سلف خریدنے کے دوران اپنے لڑکوں کو ساتھ رکھتے ہیں‘ وہ نہ صرف انھیں دوستی کا ماحول فراہم کرتے ہیں بلکہ خریداری کا سلیقہ بھی سکھاتے ہیں۔ ناپسندیدہ رویے پر سرزنش کیجیے مگر ساتھ ہی کوئی سخت جسمانی سزا دینے میں جلدی نہ کیجیے۔ کوشش کریں‘ مارپیٹ کی نوبت ہی نہ آئے۔ یہ سمجھ لیں کہ جب کبھی اور جہاں کہیں یہ نوبت آتی ہے تو اس کے لانے میں بڑی حد تک باپ کاہاتھ بھی ہوتا ہے کیونکہ ان کے حساب سے ان کی ذمہ داری بس  پیسہ کماکر لانے کے بعد ختم ہوجاتی ہے۔ بعض ایسے باپ اگر کبھی اتفاق سے بچے کو پڑھانے بھی بیٹھ جائیں تو ابتدا ہی سے چیختے ہیں اور بالآخر بچے کے سر پر کتاب دے مارتے ہیں۔ ایسے غصہ ورباپوں سے اکثر مائیں بچوں کی بہت سی باتیں پوشیدہ رکھتی ہیں اور یوں حالات مزید بگڑتے ہیں۔

بچہ اپنے آپ کو شتر بے مہار سمجھنے لگتا ہے۔ بات بات پر تنقید‘ نکتہ چینی اور نامناسب برتائو بچوں میں شدید ہیجانی کیفیت پیدا کرتا ہے جسے وہ وقتی طور پر روک لیتے ہیں لیکن یہ عمل لاتعداد جسمانی اور نفسیاتی بیماریوں کا دروازہ کھولتا ہے۔ ماہرین نفسیات کی راے میں وہ مرد جو گھروں میں اُونچی آواز سے چیخ کر غصے کا اظہار کرتے ہیں‘ ان کے اہلِ خانہ ہکلاہٹ‘ عدم توجہی و دل چسپی‘ بھول‘ نسیان وغیرہ جیسی بیماریوں میں مبتلا ہوکر بالآخر نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں۔

جسمانی نشوونما کے لیے بھی محتاط رہیں۔ حسبِ توفیق صحت مند غذا فراہم کرنا اور بیماری کی صورت میں مناسب علاج معالجہ بچے کا حق ہے۔ یہی نہیں‘ ہلکی پھلکی تیمارداری سے آپ بچے کے دل میں اپنی محبت کے مزید چراغ جلا سکتے ہیں۔ غرض بچے پر جو کچھ خرچ کریں خوش دلی سے کریں۔ اس کے اثرات نہایت مؤثر ہوںگے۔ وہ بچے جو بچپن میں بلاوجہ معمولی چیزوں کے لیے ترسائے جاتے ہیں‘ بڑے ہوکر کسی چھوٹے سے مقصد کا حصول بھی ان کے لیے دشوار ہوجاتا ہے اور یوں وہ احساسِ کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ آپ کے پیسے پر سب سے زیادہ حق آپ کی اولاد کا ہے جو آپ کی توجہ کی بھی محتاج ہے۔ بہت سے حضرات اپنے اہلِ خانہ پر بڑی مشکل سے اور گن گن کر خرچ کرتے ہیں‘ یہ نہایت ناپسندیدہ عمل ہے اور اسلام اس کی شدید مذمت کرتا ہے۔ تربیتی نکتے مدنظر رکھتے ہوئے اپنے بچے کے معاملے میں حددرجہ نرمی و شفقت کو اپنا شعار بنایئے‘ انھیں لپٹایئے‘ پیار کیجیے۔ یاد رکھیے‘ یہ کام آپ صرف اُن کے بچپن ہی میں کرسکتے ہیں‘ بڑے ہوتے ہی ان کے اندر ایک قدرتی جھجک پیدا ہوجائے گی۔ ایک بار ایک صحابیؓ نے آنحضرتؐ کو ایک بچے کو پیار کرتے دیکھ کر کہا: اے اللہ کے رسولؐ میرے تو کئی بچے ہیں مگر میں نے کبھی انھیں لپٹا کر اس طرح پیار نہیں کیا۔ حضوؐر نے فرمایا: اگر اللہ نے تیرے دل میں رحم نہیں ڈالا تو میں کیا کرسکتا ہوں۔

بچہ اور گہر کے افراد

ایک گھرانے کے تمام افراد کے درمیان باہمی ربط کا موجود ہونا ضروری ہے۔ اگر چھوٹے بڑے کی تمیز‘ بڑوں کی عزت اور چھوٹوں پر شفقت نہ ہو تو توازن بگڑ جاتاہے۔ ایک صحت مند ماحول کے لیے ضروری ہے کہ بچوں کو آپس میں کھیل کود کی مکمل آزادی ہو۔ ان کی عمر اور رجحان کے مطابق کھلونے اورسامان مہیا کرنا باپ کی ذمہ داری ہے‘ مگر خیال رکھیں ایسے کھلونے جو تخریبی رجحان پیدا کرنے والے ہوں‘ گھر میں نہ لائے جائیں مثلاً بندوق یا چاقو وغیرہ۔ یہی معاملہ اخلاق بگاڑنے والے کھیل کھلونوں کا ہے۔

اپنے اہلِ خانہ کو سیروتفریح کے مواقع مہیا کیجیے۔ ہرطبقے کا گھرانہ اپنے ماحول اورحالات کا لحاظ رکھتے ہوئے چھوٹی موٹی تفریح فراہم کرسکتا ہے۔ بنیادی بات اس نظریے کی موجودگی ہے کہ شرعی حدود میں رہ کر جائز تفریح کو اسلام پسند کرتاہے۔ مہینے میں ایک بار گھر میں تیار کیا گیا سادہ سا کھانا ساتھ لے جاکر اگر کسی نزدیکی پارک میں کھا لیا جائے تو اس کے بے شمار مثبت اثرات نکلتے ہیں۔ یہ چیز جہاں ایک گھر کے افراد کو قریب لاتی ہے‘ وہاں روزمرہ کام کاج اور معمول کے منفی اثرات کو دُور کرکے ذہن کو تازگی دیتی ہے۔

بچوں کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی تعلیم دیں اور انھیں ایک دوسرے پر ترجیح نہ دیں۔ ان کے ساتھ برتائو اور لین دین میںبرابری و مساوات کا خیال نہ رکھا جائے تو ان میں تفریق و امتیاز کا عنصر پیدا ہوگا جو آگے چل کر باہمی حسدو رقابت کا باعث بنے گا۔ بہن بھائیوں کے درمیان چھوٹے چھوٹے مقابلے کرانا‘ انعام دینا‘ عید اور دیگر خوشی کے موقعوں پر انھیں تحائف دینا جہاں اسلامی اقدار کے عین مطابق ہے وہاں بچوں میں عزتِ نفس اور اطمینان کے جذبات پیدا کرتا ہے۔ یوں انھیں اپنا ایک مقام نظر آتا ہے۔ اسلام نے اچھے اوصاف و کارکردگی کو سراہنے کی تاکید کی ہے اور سب کے سامنے شرمندہ کرنے سے منع کیا ہے۔

اپنے گھر کو لڑائی جھگڑوں اور ایک دوسرے کی مخالفتوں کا اکھاڑہ مت بنایئے۔ آپس کے تنازعات کے لیے وقت مخصوص کر کے بچوں سے علیحدہ ہوکر بات کیجیے۔ ان کے سامنے چیخ پکار اور غصے کا مظاہرہ کرکے آپ ان سے کس سیرت و کردار کی توقع کریں گے؟ اپنے ماحول کو ہروقت کے تنائو سے بھی محفوظ رکھیے۔ اپنے اہلِ خانہ کو خوش رکھ کر آپ یہ کام کرسکتے ہیں۔ بچے میں انحراف اور بغاوت کا ایک بہت بڑا سبب باپ کی سخت مزاجی اور ڈکٹیٹرشپ ہے۔ جب بچہ خود کو‘ اپنے بہن بھائیوں کو اور اپنی ماں کو ہروقت بے جا پابندیوں میں جکڑا ہوا دیکھتا ہے تو دکھی ہوجاتا ہے اور اس ماحول سے فرار کے راستے ڈھونڈتا ہے۔ ایسے ماحول کے اکثر بچے بڑے ہوکر گھر سے بھاگ جاتے ہیں یا بھاگنے کی ترکیبیں سوچتے رہتے ہیں اور اپنے اندر باپ کے لیے وہ الفت اور محبت محسوس نہیں کرتے جس کا تقاضا فطرت کرتی ہے۔ یوں اللہ کے سپاہی بننے والے یہ فرشتے جسمانی و نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں۔ ذرا قرآن کا مطالعہ کیجیے‘ جب اللہ تعالیٰ نے انبیاے کرام کو اپنے کام کے لیے چنا تو انھوںنے اپنے اہلِ خانہ اور بھائی بندوں کو اپنی مدد پر مامور کرانے کے لیے اللہ سے دعا فرمائی۔ (طٰہٰ ۲۰:۲۹-۳۴)

اسلامی قوانین کی رو سے ایک گھرانہ ہی اس اعلیٰ منصب کو پورا کرنے کی اہلیت رکھتا ہے اور اس کے سربراہ آپ ہیں۔ افرادِ خانہ کے اندر ایک دوسرے کی مدد کا جذبہ پیدا کیجیے۔ خصوصی طور پر لڑکوں کو بچپن ہی سے گھرکے چھوٹے موٹے کام کرنے کی عادت ڈالیے۔ ہمارے گھروں میں عام رواج یہ ہے کہ اگر مرد گھریلو کام کاج کو ہاتھ لگا لیں تو یہ اُن کی مردانگی کے خلاف سمجھا جاتاہے۔ اسی طرز پر لڑکوں کی پرورش بھی ہوتی ہے‘ جب کہ اللہ کے رسولؐ جب اپنے گھروالوں کے   درمیان ہوتے تو ان کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹھاتے۔ بچہ جب باپ کو خود یہ عمل کرتے دیکھتا ہے تو اس کے ذہن میں اس عمل کی کوئی قباحت نہیں رہتی بلکہ وہ باپ کی طرح بننے کو قابلِ فخر سمجھتا ہے۔

یہ بات ہمیشہ مدنظر رکھیں کہ والدین کا اچھا طرزِعمل بچپن میں تو اولاد کے لیے صرف اچھی تربیت حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہوتا ہے مگر جب اولاد جوان اور باشعور ہوتی ہے تو والدین کی یہی تصویر ان کے دل میں وہ عزت اور محبت پیدا کردیتی ہے‘ جس سے وہ والدین محروم رہتے ہیں جن کا کردار اور عمل بچوں کے بچپن میں کمزور رہا تھا۔

بچہ اور معاشرہ

گھر کے باہر کے ماحول میں خاندان کے دیگر لوگ‘ پڑوسی اور میل جول کے دوسرے لوگ شامل ہیں۔ اسلام نے واضح طور پر ایسے احکام دیے ہیں جن کی رو سے ایک مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ حقوق العباد کا خیال رکھے اور میل جول کے ذریعے لوگوں کی خوشی اور غمی میں شریک رہے۔ اس اسلامی فریضے کو پورا کرنے کے لیے اہلِ خانہ کو سہولت دیجیے‘ انھیں باہر لے جایئے اور ان کی سرگرمیوں پر خوش دلی کا مظاہرہ کیجیے۔ اپنی استطاعت اور موقع محل کی مناسبت سے عزیزوں اور دوستوں کو خود بھی ہدیہ دیں اور اہلِ خانہ کو بھی ترغیب دیں۔ اللہ کے رسولؐ ہدیہ دیتے بھی تھے اور قبول بھی کرتے تھے۔ اپنے حقیقی بہن بھائیوں کے علاوہ بھی بچے کو ہم عمر دوستوں میں اٹھنے بیٹھنے کی سہولت دیجیے۔ صحت مند جسمانی اور ذہنی نشوونما کے لیے بچوں کو کھیلنے کا وقت زیادہ دینا مفید ہے۔ اس طرح بچے میں تخلیقی صلاحیتیں پیدا ہوں گی۔ بچوں کے دوستوں کا احترام کیجیے۔ ان کے سامنے بچے کی اچھی عادتوں کا ذکر کیجیے۔ بچوں سے باہر ہونے والی سرگرمیوں کو دل چسپی لے کر سنیے۔ جو والدین خصوصاً باپ اس کام کے لیے وقت نکالتے ہیں وہ بہت سی حقیقتوں سے واقف رہتے ہیں‘ اُنھیں اصلاح کا موقع ملتا ہے اور یہ کہ بچہ والدین ہی کو اپنا دوست سمجھتا ہے۔ بس خیال رہے کہ یہ گفتگو غیبت یا عیب جوئی کا رنگ اختیار نہ کرے۔

بچوں کے سامنے ماںاور ماں کے گھر والوں کو عزت اور توقیردیجیے۔یہ چیز بچے کو دہری شخصیت کا شکارہونے سے بچائے گی۔ یہ مت بھولیے کہ یہ سب بھی بچے کے رشتے دار ہیں‘ ان کی مخالفت بچے کو آپ کا مخالف بناکر چھوڑے گی۔ اکثر معزز داماد حضرات کا رویہ اپنی بیوی کے گھر والوں کے ساتھ بڑا عجیب و غریب اور ہتک آمیز ہوتا ہے۔ ایسے داماد سمجھ لیں کہ انھیں محبت کا ملنا تو دُور کی بات ہے‘ جو تھوڑی بہت عزت ملتی ہے وہ بھی بس اوپرائی ہوتی ہے‘ نہ بیوی کے دل میں کوئی وقعت رہتی ہے اور نہ اولاد کے دل ہی میں۔ سسرال والوں کو تو خیر اپنا بنایا ہی نہ تھا… حالانکہ اسلامی قوانین کی رُو سے شادی دو خاندانوں کاملاپ اور باہمی طاقت اور اخوت کا ذریعہ ہونا چاہیے۔

خاندان کے دیگر گھرانوں کے معاملات و تقاریب میں خود بھی دل چسپی لیں اور بچوں کو بھی اس کی عادت ڈالیں۔ خاص کر قریبی رشتوں کی پہچان اور عزت افزائی یقینی ہونی چاہیے۔ اپنے دفتری اوقات اور دوسرے اہم مواقع پر وقت کی پابندی کا خیال رکھیے۔ آپ کا یہ ڈسپلن بچے کے لیے مشعلِ راہ ہوگا۔

کبھی کبھی بچوں کے دوستوں کو گھر مدعو کرنے کی اجازت دیں‘ان کے دوستوں سے بات چیت کریں۔ وقفے وقفے سے دوستوں کا حال احوال اور ان کی سرگرمیوں کو پوچھتے رہیں۔ باپ کے نہایت اہم فرائض میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ باہر لڑکوں کے دوستوں پر نظر رکھیں اور اُس صحبت کی جانچ پڑتال کرتے رہیں جس میں بچہ وقت گزارتا ہے۔ یہ کام صرف ایک دن کے کرنے کا نہیں ہے بلکہ متواتر عمل ہے۔ آپ کا لڑکا جس دوست سے ملنے جائے اس کا نام پتا اور فون نمبر لے کر رکھیں لیکن اس تمام کارروائی میں آپ کا رویہ مخلصانہ اور بچے کی حفاظت پر مبنی ہو۔ جاسوسی کے انداز میں ہرگز نہیں۔ اپنی اس نیت کا آپ برملا اظہار بھی کریں تاکہ بچے کے سامنے آپ کے طریقۂ کار کی وضاحت ہو۔ ہمارے گھروں میں اولاد اور والدین‘ خصوصاً باپ کے درمیان عدمِ رابطہ یا ناقص رابطے کی بنیادی وجہ یہی اظہارِ خیال کا فقدان ہے۔ افرادِ خانہ ایک دوسرے کے بنیادی خیالات ہی کو نہیں سمجھ پاتے اور بعض اوقات بڑی بڑی غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں۔ لہٰذا گھر کا عام ماحول کھل کر بات کرنے کا ہو۔ اسلام مبہم بات چیت سے منع کرتا ہے۔

بچہ اور والدین کے آپس کے تعلقات

یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بچے کی تربیت کا تمام دارومدار والدین کے آپس کے تعلقات پر ہے۔ زوجین کی ذہنی ہم آہنگی جہاں اس دشوار کام کو آسان بلکہ پُرکیف بناتی ہے وہیں یہ تعلق اُن عوامل اور محرکات کو استحکام اور دوام بخشتا ہے جن کی مدد سے زوجین بچوں کی تربیت کرتے ہیں۔ والدین کے خیالات کا فرق و تکرار بچے کو دوراہے پر لاکھڑا کرتا ہے۔ ایک کی راے کچھ اور دوسرے کی کچھ اور۔ بچہ کس کی مانے‘ اس کے لیے تو دونوں برابر ہیں۔ ایسا بچہ اپنی منزل کا تعین کس طرح کرے گا جس کے سامنے ابھی غلط اور صحیح کی گتھی ہی نہیں سلجھی۔ اس طرح کے اکثر بچوں میں قوتِ فیصلہ کی سخت کمی ہوتی ہے اور واقعے کو سمجھنے میں انھیں دشواری رہتی ہے۔ بعض بچے والدین کی اس کمزوری کو بھانپ لیتے ہیں اور اس کمزوری سے غلط فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ والدین سے الگ الگ اپنی باتیں منواتے ہیں لہٰذا حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ باہمی اختلاف کو محسوس کرتے ہی خاموشی اختیار کرلی جائے۔ بچے کے سامنے اس کا اظہار نہ کیا جائے اور باہمی معاملات کو طے کرنے کے لیے ہفتے میں کم از کم ایک دن ایسا رکھا جائے جس میں گفتگو کے ذریعے ایک نتیجے پر پہنچا جائے۔

اس کے لیے چھٹی کے دن نمازِ فجر کے بعد کا وقت نہایت موزوں رہتا ہے۔ عموماً اس وقت بچے سو رہے ہوتے ہیں۔ دورانِ گفتگو اگر کوئی بدمزگی ہو بھی جائے تو بچے اُس سے متاثر نہیں ہوتے۔ بچوں کے سامنے اپنے آپ کو ایک راے والا بناکر پیش کریں۔ یاد رکھیے‘ بچے والدین کے درمیان اعتماد اور پیارو محبت کا سلوک دیکھ کر اپنے اندر محفوظ ہونے کی ایک عجیب کیفیت محسوس کرتے ہیں۔ ہمارے اکثر گھرانوں میں خواتین کو دباکر رکھنے کا رجحان ہے۔ بچے قدرتی طور پر ماں سے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ کیا ایسے بچوں سے کسی مضبوط شخصیت کی توقع کی جاسکتی ہے جس کے باپ بات بات پر ماں کو طلاق کی یا چھوٹی چھوٹی باتوں سے گھبرا کر گھر سے بھاگ جانے کی دھمکیاں دیتے ہوں۔ یہ دھمکیاں ان کے ننھے ننھے دلوں کو ہرلمحہ لرزاتی رہتی ہیں۔ ’’کہیں یہ ہمیں چھوڑ کر نہ چلے جائیں‘‘ یہ خوف ان کے شعور اور لاشعور کی دنیا کو تباہ کردیتا ہے۔

اگر کسی وقت محسوس کریں کہ آپ کے مقابلے میں آپ کی بیوی کا موقف زیادہ وزنی ہے تو بلاتامل اُس کی بات چلنے دیں۔ زبردستی اپنی بے تکی راے جمانے والے باپ بڑی جلدی اپنی حیثیت متاثر کرلیتے ہیں‘ خاص کر جب اولاد بڑی ہوکر صحیح اور غلط کو سمجھنے کی اہل ہوجائے۔

اپنی بیوی کی بیماری یا مصروفیت کے دوران روز مرہ کے چھوٹے چھوٹے کام اپنے ہاتھ سے کرلینے کو اپنی شان کے خلاف نہ سمجھیے۔ اس طرح بچہ نہ صرف اپنی ماں بلکہ ضرورت پڑنے پر آپ کی مصروفیت کو بھی اہم جانے گا۔ اس طرح بچوں میں ایسے حالات میں باہمی مدد کا جذبہ بھی پیدا ہوگا اور وہ یہ بھی سیکھیں گے کہ ’’جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو۔ اللہ سے ڈرو‘ اس کی سزا بہت سخت ہے‘‘۔(المائدہ ۵:۲)

ہمارے نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنے گھروالوں کے ساتھ اچھا برتائو کرتا ہو اور میں اپنے گھروالوں کے ساتھ تم سب سے بہتر برتائو کرتا ہوں‘‘ (ابن ماجہ‘ حاکم)۔ حدیث کا آخری حصہ ظاہر کرتاہے کہ سیرتِ طیبہ کا مطالعہ ایک مسلمان کے لیے بہترین رہنمائی ہے۔

بچہ اور باپ کی دعا

شادی کے مقدس بندھن کے بعد نیک اور صالح اولاد کے لیے اللہ سے دعا کرنا چاہیے۔ ’’میرے رب! تواپنے پاس سے مجھے پاک باز اولاد عطا فرما‘بے شک تو دعا کا سننے والا ہے‘‘۔  (اٰل عمرٰن ۳:۳۸) ۔جب اللہ تعالیٰ یہ نعمت عطا فرما دیں تو بچے کی پرورش میں جہاں وہ تمام امور ضروری ہیں جن کا ابھی تک ذکر ہوا‘ وہاں قدم قدم پر اُسے باپ اور اُس کی دعائوں کی ضرورت پیش آئے گی۔ اپنی بھرپور عملی کوششوں کے ساتھ ساتھ بچے کے لیے دعا بھی کرتے رہیے۔ یہ دعائیں صرف حال کے لیے نہیں بلکہ اس کے مستقبل اور پھر مستقبل بعید کے لیے بھی ہوں۔ انسان کی زندگی کا کوئی بھروسا نہیں۔ اللہ نے آپ کو ’آج‘ دیا ہے‘ اس میں اپنے بچے کے ’آج اورکل‘ کے لیے دعا کریں۔ اگر آپ کا بچہ ۳‘۴ سال کا ہے تو اس کی معاش اور پھر شادی شدہ زندگی کے مراحل جیسے دُور کے کام آپ کے ذہن میں نہیں آتے‘ مگر نہیں‘ بچے کے ہردَور کے لیے دعاکریں۔ حضرت عبداللہ بن مبارک جیسے بزرگ کا دل والدین کی شبانہ روز دعائوں سے ہی پلٹا تھا۔ قرآن پاک اس ضمن میں ایک مسلمان کی مکمل رہنمائی کرتا ہے۔ چنانچہ دیکھیے سورۂ فرقان (۲۵:۷۴): ’’اے ہمارے رب! ہمیں ہمارے جوڑوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا امام بنا‘‘۔ حضرات غور کریں آپ کی ذریت کون ہے؟؟ آپ کے بچے اور پھر ان کی اولادیں… سورئہ ابراہیم (۱۴:۳۵) میں ہے: ’’اور جب ابراہیم ؑنے دعا کی پروردگار! اس شہر کو امن کا شہر بنا اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا‘‘۔ اسی سورہ میں آیت ۴۰ میں ہے: ’’اے رب! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد سے بھی۔ بے شک تو دعا قبول کرنے والا ہے‘‘۔ (ابراہیم ۱۴:۴۰)

یہی نہیں اپنے بچے کو بھی اپنے لیے دعا کرنا سکھایئے۔ یہ بھی اسلامی تربیت کا حصہ ہے۔ رسولؐ اللہ کا فرمان ہے کہ ’’جب کوئی آدمی مرجاتاہے تو اس کے عمل کی مہلت ختم ہوجاتی ہے۔ صرف تین چیزیں مرنے کے بعد بھی فائدہ پہنچاتی ہیں: ایک صدقۂ جاریہ‘ دوسرے اس کا پھیلایا ہوا وہ علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں‘ تیسرے وہ صالح اولاد جو اس کے لیے دعاے مغفرت کرتی رہے‘‘(آدابِ زندگی، یوسف اصلاحی‘ ص ۱۹۹)۔’’اوردعا کرو پروردگار ان دونوں پر رحم فرما جس طرح بچپن میں انھوں نے میری پرورش کی‘‘(بنی اسرائیل ۱۷: ۲۴)۔ اس کے علاوہ سورئہ نوح آیت ۲۸ اور سورئہ ابراہیم آیت ۴۱ میں اولاد کو اپنے والدین کے لیے بہترین انداز سے دعا کی ترغیب دلائی گئی ہے۔

اولاد کے لیے والدین اور والدین کے لیے اولاد دنیا کی بہت بڑی نعمت ہیں۔ پس ہرکسی کو اس معاملے میں اللہ رب العزت کا شکرگزار ہونا چاہیے۔ قرآن ہمیں ایسی جامع دعائیں سکھاتا ہے جن کے ذریعے ہم نیک و صالح اولاد کے لیے شکرگزاری بجا لاسکتے ہیں۔ شکرگزاری کا لازمی نتیجہ برکت ہے۔ ’’شکر ہے اُس خدا کا جس نے مجھے اس بڑھاپے میںاسماعیل اور اسحاق جیسے بیٹے دیے۔ حقیقت یہ ہے کہ میرا رب ضرور دعا سنتا ہے‘‘۔(ابراہیم ۱۴:۳۹)

اسی طرح اولاد بھی ہرلمحہ والدین کے احسان یاد کرکے ان کے لیے دعاگو رہے۔ ’’اے رب! مجھے توفیق دے کہ میں تیری اُن نعمتوں کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھے اور میرے والدین کو  عطا کیں اور ایسا نیک عمل کروں جس سے تو راضی ہوجا۔ اور میری اولاد کو بھی نیک بنا کہ مجھے سکھ دے۔ میں ترے حضور توبہ کرتا ہوں اور تابع فرمان (مسلم) بندوں میں سے ہوں‘‘۔ (احقاف ۴۶:۱۵)

تمام گفتگو کا حاصل یہ ہوا کہ کمزوریوں سے زیادہ سے زیادہ پاک گھرانہ ہی وہ ادارہ ہے جہاں صحت مند شخصیت کی نشوونما ممکن ہے۔ بطور سربراہِ خانہ اپنے اہل و عیال کو اپنے لیے    صدقۂ جاریہ بنائیں۔ غالباً آپ کا معاملہ کچھ یوں ہے: حیثیت بڑی‘ ذمہ داریاں زیادہ‘ جواب دہی سخت۔

آیئے آخر میں مختصراً کچھ باتوں کا جائزہ لیں اور دیکھیں ہم نے اِس بھاری ذمہ داری کی جواب دہی کے لیے کتنی تیاری کی:

                ۱-  اپنے اہلِ خانہ سے گفتگو کے دوران آپ کا لہجہ ویسا ہی میٹھا اور نرم ہے جتنا باہر لوگوں سے گفتگو کے وقت تھا؟

                ۲-  آپ ان کی راے پر بھی اعتماد کرتے ہیں یا بس اپنی چلاتے رہتے ہیں؟

                ۳- کبھی آپ کو اپنی کمزوریاں بھی نظر آئیں یاقصور اکثراہلِ خانہ ہی کا ہوتا ہے؟

                ۴-  کمزوری سب میں ہوتی ہے۔ اس کی نشان دہی پر اُسے دور کرنے کی کوشش کی یا ___ آپ تو قبیلے کے سردار ہیں‘ سب کچھ چلے گا‘ والا معاملہ ہے۔

                ۵-  کیا واقعی آپ کی گھر میں موجودگی اہلِ خانہ کے لیے خوشی کا باعث ہے یا یہ صرف  آپ کا خیال ہے؟

                اللہ تعالیٰ سے استقامت کی دعا کرتے ہوئے سچائی سے ان سوالات کا جواب تلاش کیجیے۔