کیا آپ کا وصیت نامہ آپ کے تکیے کے نیچے موجود ہے؟ نہیں تو! بھلا زندگی میں اس کا کیا کام___ جی نہیں‘جلدی کیجیے۔ آپ کے اوپر دو راتیں بھی ایسی نہ گزریں کہ آپ کا وصیت نامہ آپ کے پاس تیار نہ ہو۔ ذرا یاد تو کیجیے کہ سورئہ بقرہ آیت ۱۸۰ میں اللہ تعالیٰ کیا فرما رہے ہیں: ’’تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آئے اور وہ اپنے پیچھے خیر (مال) چھوڑ رہا ہو تو والدین اور رشتے داروں کے لیے معروف طریقے سے وصیت کرے‘ یہ حق ہے متقی لوگوں پر‘‘۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’کسی ایسے مسلمان بندے کے لیے جس کے پاس کوئی ایسی چیز (جایداد‘ سرمایہ‘ امانت‘ قرض وغیرہ) ہو جس کے بارے میں وصیت کرنی چاہیے تو درست نہیں کہ وہ دو راتیں گزار دے مگر اس حال میں کہ اس کا وصیت نامہ لکھا ہوا اس کے پاس نہ ہو‘‘۔ (بخاری‘ مسلم)
وصیت ہر اس کام کو کہا جاتا ہے جس کے کرنے کا تاکیدی حکم دیا جائے خواہ وہ کام زندگی میں ہو یا بعد الموت۔ البتہ عرف عام میں اُس کام کو کہا جاتا ہے جس کے کرنے کا تاکیدی حکم بعدالموت ہو۔ سورئہ بقرہ کی آیت ۱۸۰ میں آنے والے لفظ خیر کے بہت سے معنوں میں سے ایک معنی مال کے بھی آتے ہیں‘ جیسے سورئہ عادیات میں ہے: وَاِنَّہٗ لِحُبِّ الْخَیْرِ لَشَدِیْدٌ o (العٰدیٰت:۸)۔ (معارف القرآن‘ مفتی محمد شفیع‘ جلد۱‘ ص ۴۳۸)
حدیثِ مبارکہ کے الفاظ ’دو راتیں نہ گزریں‘، اس امر پردلالت کرتے ہیں کہ اس کام کے لیے موت کے وقت کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ نہ معلوم موت کب اور کس حال میں آئے اور اُس وقت انسان کو اتنی مہلت ملے یانہ ملے۔ یہ ضروری بھی نہیں کہ کوئی ہمارے پاس ہو جسے ہم وصیت کے الفاظ سنا سکیں۔ بعض اموات حادثاتی یا ناگہانی بھی ہوتی ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسولؐ اللہ کا یہ ارشاد سننے کے بعد ایک دن بھی ایسا نہ گزرا کہ میرا وصیت نامہ میرے پاس نہ ہو۔ (معارف الحدیث‘ منظورنعمانیؒ،ج ۶‘ص ۱۸۹)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے وصیت کی حالت میں انتقال کیا‘ یعنی اس حالت میں جس کا انتقال ہوا کہ اپنے مال اور معاملات کے بارے میں جو وصیت اس کو کرنی چاہیے تھی‘ وہ اُس نے کی اور صحیح اور لوجہ اللہ کی تو اس کا انتقال ٹھیک راستے پر شریعت پر چلتے ہوئے ہوا‘ اور اس کی موت تقویٰ اور شہادت والی موت ہوئی اور اس کی مغفرت ہوگی‘‘۔(سنن ابن ماجہ بحوالہ معارف الحدیث‘ ج ۷‘ ص ۱۹۰)
یہ حدیث وصیت کے ہر وقت تیار کرنے کی اہمیت کو واضح کرتی ہے لیکن بات صرف یہی نہیں کہ یہ وصیت اللہ کی رضا (لوجہ اللّٰہ) کی خاطر ہو بلکہ کسی حق دار کو کسی بھی طرح کا نقصان نہ پہنچایا جائے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیںکہ: ’’(کبھی ایسا ہوتا ہے کہ) کوئی مرد یا کوئی عورت ۶۰سال تک اللہ کی فرماں برداری والی زندگی گزارتے رہتے ہیں‘ پھر جب ان کی موت کا وقت آتا ہے تو وصیت میں (حق داروں کو) نقصان پہنچادیتے ہیں اور ان کے لیے دوزخ واجب ہوجاتی ہے‘‘(مسنداحمد‘ ترمذی‘ سنن ابی داؤد و ابن ماجہ بحوالہ معارف الحدیث‘ جلد۷‘ ص ۱۹۷)۔ ذرا غور کیجیے‘ ۶۰سال کی عبادت کے بعد بھی دوزخ کا واجب ہونا‘ آخر کیوں؟
دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے قانونِ وراثت کے باضابطہ اعلان سے پہلے صاحبِ دولت حضرات کے لیے وصیت ہی وہ واحد ذریعہ تھا جس سے تعین کیا جاتا تھا کہ مرنے کے بعد اس کے مال و دولت اور جایداد پر کس کا حق ہے۔ اس ضمن میں وہی طرزِعمل رائج الوقت تھا جوباپ دادا سے چلا آرہا تھا۔ چونکہ یہ اصول و ضوابط انسانوں کے وضع کیے ہوئے تھے اس لیے اوّل تو حسبِ ضرورت بدلتے رہتے تھے‘ نیز اکثر انصاف سے بھی بے گانہ ہوتے تھے۔ عورتیں اور بچے اس ناانصافی کا خصوصی ہدف تھے۔ زندگی کے آخری لمحات تک وصیت لکھنے کا یہ کام ملتوی رکھا جاتا۔ اگر کہیں لکھا بھی جاتا تو صاحبِ جایداد اپنی مرضی سے جسے چاہتا اور جیسے چاہتا نوازتا اور جسے چاہتا محروم کردیتا‘ کوئی پوچھنے والا نہ ہوتا۔ کبھی یوں ہوتا کہ مرنے والا مر جاتا اور وصیت کی عدم موجودگی کے باعث اُس کا مال پسماندگان میں باہمی رنجشوں‘ تنازعات اور تعلقات کے ٹوٹنے کاباعث بن جاتا‘ گویا وصیت کا قانون ہونے کے باوجود حالات انتہائی دگرگوں تھے۔
اس فضا میں ایک عادلانہ اور منصفانہ قانون کی اشد ضرورت تھی‘ خاص کر ایسی بالادست ہستی کا دیا ہوا قانون جس کی خلاف ورزی آسان نہ ہو۔ یوں اِن حالات میں اللہ تعالیٰ نے قانونِ وراثت نازل فرمایا‘ اور نزدیکی رشتے داروں کے حصے ازخود مقرر فرما دیے۔ اب اگر کوئی روگردانی کرتاہے تو گناہ گار ہوتا ہے اور ربِ کائنات کو ناراض کرتا ہے۔ لیکن قانونِ وراثت (النساء ۴:۷-۱۴)کے آجانے کے بعد بھی کُل مال کے
حصے پر صاحب ِ مال کو وصیت کا اختیار دیا گیا تاکہ دُور کے رشتے داروں اور ضرورت مندوں کی مدد یقینی بنائی جاسکے۔ اس سے دین اسلام میں اقربا کے حقوق کی ادایگی اور خبرگیری کی اہمیت اُجاگر ہوتی ہے۔
اسلام میں انسانی تعلقات و معاملات کی اہمیت واضح ہے۔ معاشرے کے استحکام کی بنیاد انھی تعلقات پر ہے‘ خاص کر وہ افراد جن کا تعلق ایک گھرانے یا خاندان سے ہو۔ حالات شاہد ہیں کہ وہ صاحبِ حیثیت اشخاص جنھیں اللہ تعالیٰ نے نعمتوں سے نوازا ہے خصوصاً مال و دولت سے‘ وہ اگر اپنی زندگی میں یہ فیصلہ نہ کردیں کہ کس چیز پر کس کا حق ہے‘ توان کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد یہی مال آپس کے تعلقات میں کدورتیں ڈالتا ہے‘ بلکہ بسااوقات بات بڑھتے بڑھتے خون خرابے تک جاپہنچتی ہے۔
مال سے انسان کی دل چسپی طبعی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے کو فساد سے بچانے کے لیے شریعت نے مال و دولت کی متوازن اور منصفانہ تقسیم کا قانون مقرر کیا‘ اور اُس پر عمل کی تاکید فرمائی تاکہ لوگ اُسے حکمِ الٰہی سمجھ کر بروقت انجام دیں۔ اللہ تعالیٰ حق بات کہنے سے نہیں شرماتا‘ جب کہ انسان سوچتا ہے کہ اگر ہم نے کسی کو اس کی زندگی میں وصیت تحریر کرنے کا مشورہ دیا تو وہ سوچے گاکہ ’’انھیں ابھی سے ہمارے مرنے کے بعد تقسیم ہونے والے مال کی فکر لاحق ہوگئی‘‘۔ بلاشبہہ اس سوچ کو تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ وصیت نامے کے ذریعے ہی عزیزوں‘ رشتے داروں اور وارثوں کے درمیان بعد میں پیدا ہونے والے تنازعات اور غلط فہمیوں سے بچا جاسکتا ہے۔
تقسیم وراثت کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے باضابطہ قانون بن جانے کے بعد وصیت کی شرعی حیثیت کچھ اس طرح سے ہوگئی:
۱- جن وارثوں کے حصے قرآن میں مقرر کر دیے گئے ہیں اُن میں نہ تو وصیت کے ذریعے کمی بیشی کی جاسکتی ہے اور نہ کسی وارث کو میراث سے محروم کیا جاسکتاہے‘ اور نہ کسی وارث کو اس کے قانونی حصے کے علاوہ کوئی چیز بذریعہ وصیت دی جاسکتی ہے۔(تفہیم القرآن‘ ج ۱‘ ص ۱۴۰)
۲- وصیت کُل جایداد کے صرف ایک تہائی ( )حصے کی حد تک کی جاسکتی ہے ۔ وہ بھی ایسے قرابت داروں کے لیے جو وارث نہ ہوں اور ایسے لوگوں کے لیے جو قرابت نہ رکھتے ہوں لیکن اس بات کے مستحق ہوں کہ ان کے لیے وصیت کی جائے۔ (ایضاً)
۳- لیکن اگر وارثوں کی اجازت اور خوشی شاملِ حال ہے تو ایک تہائی سے زائد بلکہ پورے مال کی بھی وصیت جائز ہے۔ (معارف القرآن‘ ج ۱‘ ص ۴۴۰)
۴- جس شخص پر کسی کے حقوق واجب ہوں‘ یا کسی کا قرض ہو یا کسی کی امانت رکھی ہو اس پر واجب ہے کہ وصیت میںاس کا ذکر کرکے متعلقین کو ادایگی کی ہدایت کرے۔
۵- ایک تہائی مال کی وصیت لکھنے والا اپنی زندگی میں کوئی بھی تبدیلی کرنے کا حق رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ اسے بالکل ختم بھی کرسکتا ہے ۔ (ایضاً‘ ج ۱‘ ص ۴۴۱)
۶- وصیت کی بعض شکلیں فرض ہیں‘ مثلاً ایسے والدین جو غیرمسلم ہوں یا بہن بھائی جو غیرمسلم ہوں‘ ان کا وراثت میں حصہ نہیں‘ اس لیے ان کے لیے وصیت فرض ہے۔
وصیت نامے میں مالی وصیت اور لوگوں کی امانتوں وغیرہ سے متعلق لکھنا بے شک اہم حصہ ہے‘ مگر چونکہ قرآن پاک میں‘ اللہ تعالیٰ نے لفظ خیر (البقرۃ ۲:۱۸۰) استعمال کیاہے‘ اس لیے وصیت کی اس تحریر کو کسی خاص دائرے تک محدود نہیں کیا جاسکتا۔ یوں بھی یہ بات یقینی نہیں کہ ہرآدمی اس حد تک صاحبِ جایداد ہو کہ اس کا ترکہ قابلِ تقسیم ہو۔ اب اگر کسی کا جی چاہے تو آخر وہ اپنے وصیت نامے میں کیا لکھے؟ اس میں بے شمار باتیں شامل کی جاسکتی ہیں جو بلاشبہہ معاشرے میں باعثِ خیر ہیں اور ہوسکتی ہیں۔
انسانوں کی اس بستی میں سب کی ضرورتیں اور حالات مختلف ہیں۔ تربیت ِ اولاد اور دیگر معاملات میں انسان اپنی زندگی ہی میں نہیں مرنے کے بعد بھی کچھ باتوں کی خواہش رکھتا ہے۔ اس کے لیے زبانی تاکید بھی کرتا ہے مگر ممکن ہے بعد میں یہ تاکید کسی کو یاد رہے اور کسی کو نہیں۔ ایسا بارہا دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ اپنے متعلقین کی زندگی میں ان کی نصیحتوں اور اچھے عمل کی قدر نہیں کرتے لیکن ان کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد یہی نصیحتیں اور عمل ان کی زندگی بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ یوں وصیت نامہ ہی وہ ذریعہ نظر آتا ہے جس میں ہم اپنے پیچھے رہ جانے والے رشتوں کے لیے کچھ لکھ سکتے ہیں۔
آیئے دیکھتے ہیں کہ ہم اپنے وصیت نامے میں کیا کیا شامل کرسکتے ہیں تاکہ ہماری اولاد بعض کام کر کے نہ صرف ہمارے لیے صدقۂ جاریہ بنے بلکہ اپنی عاقبت بھی سنوارے:
۱- آج زندگی میں اپنی اولاد کو اپنے لیے دعا کرنا سکھایئے اور بعد میں دعا کرتے رہنے کی تاکید لکھیے اور یہ بھی ضرور لکھیے کہ کس طرح مرنے والا قبر میں اِن دعائوں کا منتظر رہتا ہے۔
۲- آپس کے حقوق و لحاظ کی تاکید لکھیے۔ جڑ کر رہنے کے فوائداور بکھر جانے کے نقصانات تحریر کیجیے۔
۳- کسی خاص بچے کے لیے خاص نصیحت کے پیشِ نظر ہدایات تحریر کیجیے۔
۴- اچھے کاموں کی نصیحت کرتے ہوئے انھیں آخرت میں اللہ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بنانا بتایئے اس لیے کہ دنیا میں بہت سی کوششیں بظاہر ناکام نظر آتی ہیں‘ اور اچھے کام تو اللہ پر ایمان نہ رکھنے والے بھی بہت کرتے ہیں۔
۵- تربیتِ اولاد اور ان کے دینی فہم کے حصول کے لیے آپ آج جو محنت اور کوشش کررہے ہیں‘ انھیں مختصراً ضبطِ تحریر میں لایئے۔ ممکن ہے کل آپ نہ رہیں تو آپ کے لکھے ہوئے یہ الفاظ ہی اولاد کی زندگی بدل دیں۔
۶- باقاعدہ بیٹھ کر ایسی باتوں کی فہرست مرتب کیجیے جن کے لیے آپ کی خواہش یا ضرورت ہو کہ آپ کی غیر موجودگی میں انھیں کس کس طرح ہونا چاہیے۔
۷- خاندانی معاملات میں اُن معاملات کی طرف توجہ دلایئے جن سے بچنا یا جن کی پابندی آپ کے پسماندگان کوسکون و راحت فراہم کرے۔ اس ضمن میں اولاد کو ان کی شادیوں کے بعد کے رہن سہن سے متعلق ہدایات بھی مفید ہوں گی۔
۸- خاندان یا احباب میں سے کسی خاص فرد کے بارے میں کوئی ہدایت ہو تو وہ لکھیے۔
۹- اپنی ذات یا اپنے کسی ادھورے کام کی تکمیل کے لیے کوئی ہدایت ہو توتحریر کیجیے۔
۱۰- اپنی اولاد (بہن بھائیوں) کو ایک دوسرے کی زندگی کے اہم معاملات کا خیال رکھنے کی ازحد تاکید لکھیے‘ مثلاً تعلیم‘ شادی یادیگر ضروریات۔ ضروری نہیں کہ والدین اپنے تمام بچوں کی ساری ضروریات و فرائض اپنی زندگی ہی میں پورے کرچکے ہوں۔
۱۱- اپنی زندگی کے ساتھی سے متعلق نصیحت ضرور کیجیے کہ آپ کے بعد آپ کے شوہر یا بیوی کا کس طرح خیال رکھا جائے۔
۱- سب سے پہلے صفحے پر اسے کم از کم ایک بار پڑھ لینے کی ’وصیت‘ لکھیے۔
۲- آج جب آپ اسے لکھ رہے ہیں تو کھلے عام اس کا تذکرہ کیجیے۔ اس کی نشان دہی کیجیے کہ کس کاپی میں ہے اور کہاں رکھا ہے‘ چھپاکر مت رکھیے کیونکہ آپ کا تو ایمان و یقین ہے کہ موت کسی وقت بھی آسکتی ہے۔ آپ کے اہلِ خانہ کو اس کی بابت علم ہوناچاہیے۔
۳- اسے پڑھنے کے فوائد ابھی سے ہی متعلقین کو سمجھایئے۔
۴- اسے پنسل یا ہلکی سیاہی سے نہیں‘ قلم سے نمایاں لکھیے اور اس کے لیے مجلد کاپی کا انتخاب کیجیے تاکہ عرصۂ دراز تک چلے۔
۵- ایک صفحے پر صرف ایک وصیت لکھیے اور ترتیب کا خیال رکھیے۔
۶- ایک ساتھ سارا وصیت نامہ لکھنے نہ بیٹھ جایئے۔ سب کام ایک نشست میں ختم کرنے کا خیال ممکن ہے آپ میں سُستی پیدا کردے اور آپ اسے آج کل پر ٹالتے رہیں‘ جب کہ آپ کو یہ کام پہلی فرصت میں ’شروع‘ کرنا ہے، ’ختم‘ نہیںکرنا۔ پھر جوں جوں خیال آتارہے اُس دن کی تاریخ ڈال کر لکھتے جایئے۔ گویا یہ آپ کے روز مرہ کاموں میں سے ایک اہم کام ہے۔
۷- ایک مؤثر وصیت نامے کی بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ ضرررساں نہ ہو‘ یعنی کسی کو اذیت پہنچانے والا نہ ہو (دیکھیے سورۂ نساء‘ آیت ۱۲)۔ اس ضرر رسانی میں جہاں بہت سی دوسری چیزیں شامل ہیں‘ مثلاً غیرمتوازن وصیت‘ جھوٹی شہادتیں‘ فرضی واقعات درج کر دینا اور وصیت کو حق داروں کے خلاف کردینا وغیرہ‘ وہاں یہ چیز بھی یقینا شامل ہے کہ وہ فرائضِ منصبی جو ہر مرد اور عورت کو اپنی زندگی میں بذاتِ خود ادا کرنا لازم ہیں انھیں غفلت‘ لاپروائی‘ معاملاتِ زندگی کو کھیل سمجھ لینے کی وجہ سے چھوڑ دینا‘ اور اب وصیت لکھتے ہوئے اپنے متعلقین کے اُوپر غیرضروری بوجھ ڈالتے ہوئے انھیں ادا کرنے کی تاکید کرنا۔ اس طرح آپ اللہ کے آگے جواب دہی سے بچ نہیں سکتے بلکہ آپ تو دہرے مجرم ہوگئے۔ اوّل تو اپنے اُوپر عائد فرائض کی عدم ادایگی‘ پھر اسے خواہ مخواہ دوسرے کے سر پر لاد دینا___ یہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر زندگی کے کسی بھی میدان میں کمی رہ گئی ہے تو اب ’کم وقت میں زیادہ کام‘ کرکے اس کمی کو پورا کرنے کی سعی کیجیے۔ پھر اس کے بعد کی کسی چھوٹی موٹی کسر کو پورا کرنے کے لیے آپ ضرور وصیت کرسکتے ہیں۔
۸- جس وقت آپ کو احساس ہو کہ اس کا بیش تر حصہ مکمل ہوچکا تو اس کی فوٹوکاپی بنوا کر دو ایک قریبی بااعتماد لوگوں کے پاس بھی رکھوا دیجیے‘ چاہے وہ آپ کی اولاد میں سے ہوں یا کوئی دوسرا قریبی رشتے دار ہو۔
وصیت اور وراثت کی اصطلاحات میں بھی فرق ہے‘ اس کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔
قانونِ وراثت و وصیت سے متعلق چند اہم نکات ہیں جو پیش نظر رہنے چاہییں:
۱- میراث کے حق دار صرف مرد نہیں بلکہ عورتیںاور بچے بھی ہیں۔
۲- میراث بہرحال تقسیم ہوگی خواہ کتنی ہی کم ہو۔ حتیٰ کہ اگر مرنے والے نے ایک گز کپڑا چھوڑا ہے اور ۱۰ وارث ہیں تو اُسے بھی ۱۰ حصوں میں تقسیم ہوناچاہیے۔ یہ اور بات ہے کہ ایک وارث باقی سب کے حصے خرید لے۔
۳- قانونِ وراثت ہر قسم کے مال و املاک پر جاری ہوگا۔
۴- قریب تر رشتے دار کی موجودگی میں بعید تر رشتے دار میراث نہ پائے گا۔ (تفہیم القرآن‘ ج۱‘ ص ۳۲۴)
۵- مرنے والے کے مال سے پہلے کفن دفن کا انتظام ہوگا‘ اس کے بعد اگر میت کا قرض ہے تو وہ ادا کیا جائے گا۔ اگر قرضہ ادا کرنے میں تمام مال ختم ہوجاتا ہے تو وراثت تقسیم نہیں کی جائے گی۔ لیکن اگر قرض نہیں تو اب ایک تہائی ( )مال پر وصیت لاگو ہوگی۔ بالفرض وصیت نہیں ہے تو پھر تمام مال شرعی وارثوں میںتقسیم کردیا جائے گا ۔خیال رہے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد جو فرض اور واجب کے درجے میں ہوں ان سے متعلق وصیت فرض ہے‘ اور جو سنت اور مستحب کے درجے میں ہوں ان کی وصیت مستحب ہے۔ تمام صورتوں میں تحریری وصیت مستحب ہے‘ فرض نہیں۔ قانونِ وراثت کے آنے کے بعد صرف مال پر وصیت کی جاسکتی ہے۔ اگر کوئی صاحبِ مال ایسی وصیت کی حاجت محسوس نہ کرتا ہو تو تمام مال وارثوں کا ہوگا۔
۶- تقسیم ِ وراثت قربت کی بنیاد پر ہوگی‘ ضرورت کی بنیاد پر نہیں۔ دُور کا رشتے دار خواہ کتنا ہی ضرورت مند ہو مگر قریب کے رشتے دار کی موجودگی میں وراثت کا حق دار نہیں۔ ہاں‘ ایسا شخص وصیت سے لے سکتا ہے یا کوئی وارث اپنا حصہ لینے کے بعد پھر جس کو دل چاہے دے سکتا ہے۔
۷- میراث کے حصے اللہ تعالیٰ کی جانب سے مقرر ہیں۔ اب اِن کو کم زیادہ یا تبدیل کرنے کا کسی کو حق نہیں‘ نہ محروم کرنے سے کوئی شرعی وارث محروم ہوتا ہے‘ البتہ محروم کرنے والا گناہ گار ہوتا ہے۔
۸- وہ دور کے رشتے دار جو ضرورت مند ہوں اور تقسیم کے وقت موجود بھی ہوں انھیں بھی کُل مال میں سے تمام بالغ ورثا کی رضامندی سے کچھ نہ کچھ دے دیا جائے۔ یہ نہ صرف اخلاقی فرض ہے بلکہ شکرانہ ہے اُن لوگوں کی طرف سے جنھیں اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی محنت کے یہ مال عطا فرمایا۔
۹- ایسے رشتے داروں کو اگر دیا جائے تو نابالغ اور غیرحاضر شرعی وارث کے حصے سے نہ دیا جائے۔ جو حصہ پاچکے ہیں وہ اپنے حصے سے دیں تو زیادہ مناسب ہے۔
۱۰- اگر ایسے رشتے دار اپنے حق سے تجاوز کرکے شرعی حق داروں کے برابر مطالبہ کریں تو کوئی ان کا یہ ناجائز مطالبہ پورا کرنے کا پابند نہیں مگر بات احسن انداز سے ہو‘ دل شکنی نہ کی جائے۔
۱۱- کسی شخص کو ضرر رساں وصیت کرتے ہوئے پائیں تو لازم ہے کہ اُسے اِس ظلم سے باز رکھیں۔
۱۲- میت کے بدن کے کپڑے بھی ترکے میں شامل ہیں۔ انھیں حساب میں لگائے بغیر صدقہ کر دینا جائز نہیں۔
۱۳- ترکے کی تقسیم سے پہلے اُس مال سے مہمانوں کی تواضع کرنا‘ صدقہ خیرات کرنا جائز نہیں۔ ایسا کرنے والے سخت گناہ گار ہیں‘ اور اس صدقے سے میت کو کوئی فائدہ نہ ہوگا۔
ایک بزرگ کسی کی عیادت کو گئے۔ ان کے سامنے ہی وہ آدمی مر گیا۔ بزرگ نے چراغ بجھا کرکے اپنے پیسوں سے تیل منگوا کر چراغ جلایا اور فرمایا: وہ چراغ وارثوں کی امانت تھا۔
۱۴- غرض کہ تقسیم سے پہلے وارثوں سے ’اجازت‘ لے کر بھی صدقہ کرنا جائز نہیں۔ مبادا کوئی شرما شرمی میں اجازت دے دے مگر دل سے راضی نہ ہو۔ (معارف القرآن‘ ج ۲)
صنفِ نازک وہ طبقہ ہے کہ جس کے حقوق واضح طور پر بتائے گئے اور ان کی حفاظت کو ہرممکنہ طریقے سے لازم بنایا گیاہے۔ اسلام میں عدل و انصاف کے معاملے میں مرد و عورت برابر ہیں۔ دونوں کے حقوق صاف صاف بیان کردیے گئے مگر صدافسوس انھیں پورا کرنا تو دُور کی بات ہے‘ ان کی مکمل آگاہی بھی عام نہیں ہے۔ عورتوں کی اکثریت اپنے اُن حقوق سے واقف ہی نہیں جو اسے اللہ رب العزت کی طرف سے عطا کیے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں رائج باپ دادا کے اکثر اصول اور سوچ کے مخصوص انداز عورتوں کو محرومی‘ ذہنی تنائو اور انتشار کے علاوہ کچھ نہیںدے رہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان غلط رسوم و رواج کو ختم کر کے اللہ رب العالمین کے قوانین سے آگاہی حاصل کی جائے۔ اس طرح اُس عذابٌ مُّھِیْن سے بچنے کی تیاری کی جائے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے احکامِ وراثت والی آیات کے آخر میں کیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کی شادی پر بے جا اسراف ‘ جہیز کی شکل میں بے پناہ سامان‘ شادی کے بعد بچوں کی ولادت (خاص کر پہلی بار) کے لیے والدین کا خرچ اٹھانا‘ ان کے علاج معالجے کی ضرورت پڑنے پر انھیں والدین کے گھر چھوڑ دینے کا عام رواج ہے لیکن ان کی کوئی شرعی حیثیت نہیں اور ان اخراجات کا تقسیم وراثت سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ شادی کے بعد عورت کی کفالت اور ضروریات پورا کرنے کی تمام ذمہ داری اس کے شوہر کی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی تقسیم ہے۔
آیئے ذرا دیکھتے ہیں کہ خواتین سے متعلق وراثت کا شرعی قانون کیا ہے:
۱- عورت مردکی طرح وراثت کی جائز حق دار ہے‘ نہ کسی طرح محروم کی جاسکتی ہے اور نہ اس کا حصہ ہی معاف کرانے کا کسی کو بھی حق ہے۔ البتہ اس کا حصہ مرد سے آدھا ہے کیونکہ اُس پر کسی کی کفالت کا بوجھ نہیں ڈالا گیا۔
۲- اگر مرنے والا مسلمان مرد ہے تو دیکھا جائے گا کہ اُس نے بیوی کا مہر ادا کیا یا نہیں۔ اگر نہیں تو پہلے تمام مال سے مہر ادا ہوگا۔ بالفرض مال صرف اتنا ہے کہ مہر کی ادایگی کے بعد ختم ہوجاتا ہے تو پھر صرف مہر ادا کیا جائے گا اور کسی طرح کی وراثت تقسیم نہیں ہوگی۔ اگر مال مہر سے زائد ہے تب وراثت تقسیم کی جائے گی۔
۳- اگر کسی خاتون کے ساتھ یہ معاملہ پیش آیا کہ اس کا مہر اس طرح شوہر کی وفات پر دیاگیا تو اب وہ مہر کی رقم کے علاوہ وراثت سے اپنا مقررہ جائز حصہ بھی پائے گی۔ یہ نہیں کہہ دیا جائے گا کہ تم نے ابھی ابھی تو مہر لیا ہے اب اپنی وراثت چھوڑ دو…
۴- قرآن کریم نے لڑکیوں کو حصہ دلانے کا اس قدر اہتمام کیا ہے کہ لڑکیوں کے حصے کو ’اصل‘ قرار دے کر اس کے اعتبار سے لڑکوں کا حصہ بتایا۔ چنانچہ سورئہ نساء‘ آیت ۱۱ کا ایک حصہ ہے۔ ’’لڑکے کو دو لڑکیوں کے حصے کے بقدر ملے گا‘‘۔ (معارف القرآن‘ ج ۲‘ ص ۳۲۱)
احکامِ وراثت کا خاتمہ جس آیت پر ہوتا ہے اُس میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَتَعَدَّ حُدُوْدَہٗ یُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِیْھَاص وَلَہٗ عَذَابٌ مُّھِیْنٌ o (النسآء۴:۱۴) اور جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں سے تجاوز کرے گا‘ اسے اللہ آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رسوا کن سزا ہے۔
اس آیت سے درج ذیل باتیں سامنے آتی ہیں:
۱- قانونِ وصیت و وراثت اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حدود ہیں۔ ان کے خلاف کرنا اِن سے تجاوز کرنا ہے۔
۲- اس تجاوز کی سزا دوزخ کی آگ ہے۔
۳- یہ آگ کسی محدود مدت کے لیے نہیں ’ہمیشہ‘ کے لیے ہے۔
۴- اس آگ میں ’رسوا کن‘ عذاب (عَذَابٌ مُّھِیْنٌ) دیا جائے گا (اگرچہ قانونِ وراثت پر ایمان کی صورت میں بالآخر عذاب سے نجات ہوجائے گی لیکن طویل عرصے تک عذاب مھین تو بھگتنا پڑے گا)۔ آج کے قانون وراثت پر عمل نہ کرنے والے اور وصیت سے غفلت برتنے والے مسلمان غور کرلیں کہ وہ کس مقام پر کھڑے ہیں! اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کی زندگی اور صحت میں برکت عطا فرمائے اور ہمیں اپنے فرائضِ منصبی کی تکمیل کی توفیق اور مہلت عطا فرمائے۔ آمین
عموماً خیال کیا جاتا ہے کہ تربیت اولاد کا معاملہ بھی امورِخانہ داری ہی کی کوئی شاخ ہے اور چونکہ گھر کے اندر کا میدان خواتین ہی کے لیے مخصوص سمجھا جاتا ہے‘ اس لیے تربیت ِ اولاد صرف ماں کی ذمہ داری ہے۔ بے شک تربیت کا یہ کام ہوتا گھر کے اندر ہی ہے‘ اِس سے بھی انکار نہیں کہ یہ امورِخانہ داری ہی کی ایک شاخ ہے مگر گھر کے اِس کام کو دوسرے تمام امور پر ویسی ہی برتری حاصل ہے جیسی اللہ تعالیٰ کی کائنات کی تمام مخلوق میں انسان کو حاصل ہے۔ یہ ان ذمہ داریوں میں سے ہے جن کے اہتمام پر اسلام نے بہت زوردیا ہے اور ماں باپ دونوں کو اُن کے بدرجۂ اتم پورا کرنے پر اُبھارا ہے۔ قرآن و حدیث کا مطالعہ اِس بات پر دلیل ہے کہ یہ دونوں کے کرنے کا کام ہے۔ چند آیات قرآنی ملاحظہ فرمائیں:
یاد کرو جب لقمان ؑ اپنے بیٹے کو نصیحت کر رہا تھا تو اس نے کہا بیٹا اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا۔ حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ (لقمان ۳۱:۱۳-۱۹)
اور ابراہیم ؑـنے اپنی اولاد کو اسی دین اسلام پر چلنے کی وصیت کی‘اور یہی وصیت یعقوب ؑ اپنی اولاد کو کرگیا۔ اُس نے کہا تھا کہ ’’میرے بچو! اللہ نے تمھارے لیے یہی دین پسند کیا ہے‘ لہٰذا مرتے دم تک مسلم ہی رہنا‘‘ پھر کیا تم اس وقت موجود تھے‘ جب یعقوب ؑ اس دنیا سے رخصت ہو رہا تھا۔ اُس نے مرتے وقت اپنے بیٹوں سے پوچھا: بچو! میرے بعد تم کس کی بندگی کرو گے۔ ان سب نے جواب دیا ہم سب اُسی ایک اللہ کی بندگی کریں گے جسے آپ ؑ نے اور آپ ؑ کے بزرگوں: ابراہیم ؑ، اسماعیل ؑاور اسحاقؑ نے خدا مانا اور ہم اسی کے مسلم ہیں‘‘۔ (البقرہ ۲:۱۳۲-۱۳۳)
اور اپنے متعلقین کو نماز کا حکم دیں اور خود بھی اس کے پابند رہو۔(طٰہٰ۲۰:۱۳۲)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ بچائو اپنے آپ کو اور گھر والوں کو اُس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔ (التحریم ۶۶:۶)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملے کی نزاکتوں کو سمجھتے ہوئے متعدد بار اس کی تاکید ووصیت فرمائی۔ چند احادیث درج ذیل ہیں:
اپنے بچوں کو ادب سکھائو اور ان کی اچھی تربیت کرو۔ (ابن ماجہ)
اللہ اُس والد پر رحم کرے جو بھلائی میں اپنے بچے کی معاونت کرے۔(کتاب الثواب )
مرد اپنے گھر کا رکھوالا (راعی) ہے اور اُس سے اس کی رعیت (گھر والوں) کے بارے میں بازپُرس ہوگی۔ (بخاری، مسلم)
کسی باپ نے اپنے بیٹے کو اچھے ادب سے بہتر عطیہ نہیں دیا۔ (ترمذی)
مندرجہ بالا آیاتِ قرآنی و احادیث مبارکہ سے آخر کس طرح ثابت ہوتا ہے کہ یہ ذمہ داری صرف ماں پر ڈالی گئی ہے‘ بلکہ ان سے تو پتا چلتا ہے کہ یہ ایک مشترکہ عمل ہے جو میاں بیوی باہمی تعاون سے آپس میں مل جل کر کرتے ہیں۔ اسی لیے سلف صالحین اپنے بچوں کی تربیت کے لیے اعلیٰ فضا مہیا کرتے تھے۔ چنانچہ امام راغب اصفہانی لکھتے ہیں کہ خلیفہ منصور نے بنی اُمیہ کے جیل خانے میں قیدیوں سے دریافت کیا کہ قید کے دنوں میں آپ لوگوں کو سب سے زیادہ تکلیف کس چیز سے ہوئی؟ انھوں نے بتایا کہ اس چیز سے کہ ہم اپنے بچوں کی تربیت کرنے سے محروم رہ گئے۔ (تربیتِ اولاد کا اسلامی نظام، عبداللہ ناصح علوان)
آیئے سب سے پہلے ’تعلیم و تربیت‘ کے معنی پر غور کرتے ہیں:
تعلیم: سکھانا‘ تلقین‘ ہدایت‘ تربیت۔
تربیت: پرورش‘ پرداخت (دیکھ بھال‘ حفاظت)‘ تعلیم و تہذیب‘ تعلیم.ِ اخلاق۔ (فیروز اللغات اُردو جدید، نیا اڈیشن)
معلوم ہوا تعلیم سے مراد علم حاصل کرنے کی وہ کیفیت ہے جو بہرحال اپنی انتہا کو پہنچ سکتی ہے۔ چند خال خال اشخاص ہی ملیںگے جو اپنی زندگی کا بیشتر حصہ ڈگریاں جمع کرنے پر صَرف کردیتے ہیں ورنہ آدمی اپنی تعلیم کا سلسلہ ایک حدتک جاکرمنقطع کردیتا ہے‘ جب کہ تربیت کا سلسلہ مرتے دم تک چلتا رہتا ہے۔ زندگی کے ابتدائی چند سال نہایت مؤثر ہوتے ہیں۔ موقع محل کی مناسبت سے اپنے اندر مناسب تبدیلی لانا‘ ہمہ وقت اپنا احتساب مدنظر رکھنا وغیرہ ایک نہ ختم ہونے والی تربیت ہی کا حصہ ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ تربیت ہی تعلیم کو چمکاتی ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ فرد اگر اچھی تربیت سے بھی آراستہ ہو تو اپنا الگ نمایاں مقام پیدا کرلیتا ہے اور مہذب بھی کہلاتا ہے‘ جب کہ تربیت سے تہی دامن تعلیم یافتہ فرد معاشرے میں خاطرخواہ مقام حاصل کرنے سے قاصر رہتا ہے۔
دوسری طرف ایک بہترین تربیت یافتہ فرد اگر کسی وجہ سے زیادہ اعلیٰ تعلیم نہ بھی حاصل کرسکے تو اس کی تھوڑی سی حاصل شدہ تعلیم بھی اسے معاشرے میں اچھا مقام عطا کرتی ہے۔ شاید اسی لیے کسی عقل مند کا قول ہے کہ ’’نرا علم کافی نہیں ہوتا لیکن نری صحبت کافی ہوجاتی ہے‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے دور میں تعلیم یافتہ زیادہ اور تہذیب یافتہ کم ملتے ہیں‘تاہم تعلیم بھی ناگزیر ہے‘ اس لیے اس کا حصول بھی لازم ہے۔
آیئے اب دیکھتے ہیں کہ بحیثیت ’باپ‘ ایک فرد کی کیا ذمہ داریاں ہیں۔
اس ضمن میں باپ کی اوّلین کوشش یہ ہو کہ اس کے بچے کی ماں دینی شعور رکھنے والی ہو۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: ’’اپنی اولاد کے لیے اچھے خاندان والی عورت کا انتخاب کرو‘ اس لیے کہ خاندان کا اثر سرایت کرجاتا ہے‘‘۔ (ابنِ ماجہ)
اگر اس سلسلے میں ذرا بھی عدمِ اطمینان ہو تو یہ مرد کی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کی ماں کو ایسی فضا فراہم کرے جو حصولِ علم کے لیے سازگار ہو‘ نیز کم از کم ہفتے میں ایک بار اتنا وقت ضرور نکالے کہ جو دعائیں‘ قرآنی آیات اور تاریخی واقعات ماں نے بچے کو سکھائے یا سنائے ہیں‘ انھیں سنے اور بچے کے ساتھ کچھ وقت گزارے۔ تربیت کے اس مرحلے میں باپ کا عملی کردار بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ایک بہت چھوٹا بچہ نہ نماز پڑھتا ہے‘ نہ روزہ رکھ سکتا ہے اور نہ اپنے ہاتھ سے انفاق ہی پر قادر ہے‘ مگر جب باپ کو عملی طور پر ان دینی فرائض کو انجام دیتے ہوئے دیکھتا ہے تو یہ چیز اس کے ذہن پر نقش ہوجاتی ہے اور جب وہ خود عمل کی عمر کو پہنچتا ہے تو باپ کے کردار کی یہی تصویر اس کی رہنمائی کرتی ہے۔
تعلیم و تربیت کے تمام مراحل میں یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ بچے کی عمر کے حساب سے کام کریں۔ اگر آپ چاہیں گے کہ ایک چھوٹی عمر کا بچہ ہر وقت ہاتھ میں قرآن لیے بیٹھا رہے تو یقینا آپ اسے انحراف اور بے زاری کا راستہ دکھائیں گے۔ جس وقت وحی کے ذریعے احکامات نازل کیے جاتے تھے تو وہ بھی بتدریج نازل ہوتے تھے تاکہ پیروی میں آسانی ہو۔ یہی انسانی فطرت ہے۔ بچے کو آہستہ آہستہ چھوٹی چھوٹی باتوں اور مثالوں سے اسلام‘ رسولؐ، اہلِ بیتؓ، صحابہ کرامؓ اور صالحین سے محبت کرنا سکھایئے اور اس کام میں تعاون اور نرمی کو یقینی بنایئے۔ یاد رکھیے‘ آپ سے آپ کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ کون پوچھے گا یہ سوال؟ کیا آپ اس سوال کے جواب کے لیے تیار ہیں؟ اس جواب کی تیاری کے لیے آپ درج ذیل باتوں سے مدد لے سکتے ہیں:
۱- جونہی بچہ ذرا بڑا ہو اسے تلاوتِ قرآن پاک کی ابتدا کرایئے۔
۲- استاد اصولِ تجوید اور دینی بصیرت کا حامل ہو۔ ان امور سے ناواقف استاد باعثِ نقصان ہے‘ نیز لڑکیوں کے لیے کوشش کی جائے کہ کسی خاتون کا انتظام ہو۔ اگر ممکن نہ ہو تو چھوٹی عمر میںقرآن ختم کرانے کی طرف توجہ دیں اور گھر کے ایسے حصے میں بٹھا کر پڑھانے کا بندوبست کریں جو سب کی نظروں میں ہو۔ اس دوران بچیوں کو تنہا چھوڑ دینا باعثِ فتنہ ہے۔
۳- اگر اولاد کا رجحان دیکھیں توحفظِ قرآن پر توجہ دیں اور اس خواہش کو اُبھارنے کی کوشش کریں‘ نیز ناظرہ ختم ہوجانے کے بعد قرآن کے معنی اور تفسیر بھی پڑھوائیں۔ وہ لوگ جو ایسے معلم حضرات کا انتظام کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں وہ سمجھ لیں کہ وہ بڑی اعلیٰ جگہ اپنا پیسہ لگا رہے ہیں۔ یاد رکھیں‘ بیٹی کو شادی سے پہلے اور بیٹے کو نوکری سے پہلے پہلے جس قدر دینی علوم میں مہارت دلوا سکتے ہیں ضرور دلوایئے۔ یہ آپ کے لیے سب سے بڑا صدقۂ جاریہ ہوگا اور… یہ بچے پھر بڑی مشکل سے ہاتھ آئیں گے۔
۴- جب بچہ اسکول جانے کی عمر کو پہنچ جائے تو مناسب ’تربیت گاہ‘ کا انتخاب کیجیے جو بچے کو دنیاوی علوم کے ساتھ ساتھ دینی علوم میں بھی مستند بنائے۔ اس موقعے پر بھی بچیوں کے لیے مخلوط نظام کا انتخاب مت کیجیے۔
۵- فرائض کے ساتھ ساتھ نوافل کی اہمیت بتایئے اور ان کا شوق دلایئے۔
تربیت کے سلسلے میں توازن کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ یہ تربیت روحانی ہو یا جسمانی‘ فکری ہو یا ایمانی‘ نفسیاتی ہو یا معاشرتی‘ ہر حیثیت میں بچے کی انفرادی اہمیت کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔ یہ چیز جہاں اُس میں عزتِ نفس اور اعتماد پیدا کرتی ہے وہاں آپ سے محبت کو بھی مضبوط بناتی ہے۔ یاد رکھیے‘ آپ کی طرح آپ کے اہلِ خانہ بھی دن بھر اپنے فرائض منصبی میں مصروف رہے اور اب وہ شام میں آپ کے منتظر ہیں اور آپ کی ایک مسکراہٹ کو ہرچیز سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔ ایسے باپ جو گھرمیں داخل ہوتے ہی دن بھر کی تھکن اور کوفت کو اپنے اہلِ خانہ پر غصہ‘ چیخ پکار کی شکل میں ظاہر کرتے ہیں‘ بہت جلد جان لیتے ہیں کہ بچپن میں سر جھکا لینے والے یہ بچے اپنے پیروں پر کھڑا ہوتے ہی انحراف‘ فرار اور نفرت کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ کس نے سکھایا یہ طرزِعمل؟ آپ آج جس چیز کا بیج بوئیں گے‘ کل اُسی کی فصل کاٹیں گے۔
لڑکے اور لڑکی کی تربیت میں بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں‘ تاہم لڑکیاں نسبتاً زیادہ حسّاس ہوتی ہیں۔ باپ کی نرمی یا سختی کو خصوصی طور پر محسوس کرتی ہیں۔ ان کی ذات کا احترام اور ان کی موجودگی کو باعثِ رحمت ظاہر کرنا ان کی ذات میں پختگی پیدا کرتا ہے۔ لیکن لڑکوں کی تربیت میں باپ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ روزمرہ معاملات میں بچوں سے راے لینا‘ ان کی باتوں کو اہمیت دینا‘ ان کی پسند اور ناپسند کو جائز امور میں فوقیت دینا‘ ان کی غلطیوں سے چشم پوشی کرنا‘ان کے نقصان کی تلافی کرنا‘ ان کی ضروریات کو پورا کرنا خاص کر اُن چھوٹی چھوٹی خواہشات کو جن کا اظہار وہ خود کریں___ یہ تمام وہ امور ہیں جو بچے کو نفسیاتی بالیدگی عطاکرکے اُن میں اعتماد و وقار پیدا کرتے ہیں۔ وہ باپ جو گھر کا سودا سلف خریدنے کے دوران اپنے لڑکوں کو ساتھ رکھتے ہیں‘ وہ نہ صرف انھیں دوستی کا ماحول فراہم کرتے ہیں بلکہ خریداری کا سلیقہ بھی سکھاتے ہیں۔ ناپسندیدہ رویے پر سرزنش کیجیے مگر ساتھ ہی کوئی سخت جسمانی سزا دینے میں جلدی نہ کیجیے۔ کوشش کریں‘ مارپیٹ کی نوبت ہی نہ آئے۔ یہ سمجھ لیں کہ جب کبھی اور جہاں کہیں یہ نوبت آتی ہے تو اس کے لانے میں بڑی حد تک باپ کاہاتھ بھی ہوتا ہے کیونکہ ان کے حساب سے ان کی ذمہ داری بس پیسہ کماکر لانے کے بعد ختم ہوجاتی ہے۔ بعض ایسے باپ اگر کبھی اتفاق سے بچے کو پڑھانے بھی بیٹھ جائیں تو ابتدا ہی سے چیختے ہیں اور بالآخر بچے کے سر پر کتاب دے مارتے ہیں۔ ایسے غصہ ورباپوں سے اکثر مائیں بچوں کی بہت سی باتیں پوشیدہ رکھتی ہیں اور یوں حالات مزید بگڑتے ہیں۔
بچہ اپنے آپ کو شتر بے مہار سمجھنے لگتا ہے۔ بات بات پر تنقید‘ نکتہ چینی اور نامناسب برتائو بچوں میں شدید ہیجانی کیفیت پیدا کرتا ہے جسے وہ وقتی طور پر روک لیتے ہیں لیکن یہ عمل لاتعداد جسمانی اور نفسیاتی بیماریوں کا دروازہ کھولتا ہے۔ ماہرین نفسیات کی راے میں وہ مرد جو گھروں میں اُونچی آواز سے چیخ کر غصے کا اظہار کرتے ہیں‘ ان کے اہلِ خانہ ہکلاہٹ‘ عدم توجہی و دل چسپی‘ بھول‘ نسیان وغیرہ جیسی بیماریوں میں مبتلا ہوکر بالآخر نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں۔
جسمانی نشوونما کے لیے بھی محتاط رہیں۔ حسبِ توفیق صحت مند غذا فراہم کرنا اور بیماری کی صورت میں مناسب علاج معالجہ بچے کا حق ہے۔ یہی نہیں‘ ہلکی پھلکی تیمارداری سے آپ بچے کے دل میں اپنی محبت کے مزید چراغ جلا سکتے ہیں۔ غرض بچے پر جو کچھ خرچ کریں خوش دلی سے کریں۔ اس کے اثرات نہایت مؤثر ہوںگے۔ وہ بچے جو بچپن میں بلاوجہ معمولی چیزوں کے لیے ترسائے جاتے ہیں‘ بڑے ہوکر کسی چھوٹے سے مقصد کا حصول بھی ان کے لیے دشوار ہوجاتا ہے اور یوں وہ احساسِ کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ آپ کے پیسے پر سب سے زیادہ حق آپ کی اولاد کا ہے جو آپ کی توجہ کی بھی محتاج ہے۔ بہت سے حضرات اپنے اہلِ خانہ پر بڑی مشکل سے اور گن گن کر خرچ کرتے ہیں‘ یہ نہایت ناپسندیدہ عمل ہے اور اسلام اس کی شدید مذمت کرتا ہے۔ تربیتی نکتے مدنظر رکھتے ہوئے اپنے بچے کے معاملے میں حددرجہ نرمی و شفقت کو اپنا شعار بنایئے‘ انھیں لپٹایئے‘ پیار کیجیے۔ یاد رکھیے‘ یہ کام آپ صرف اُن کے بچپن ہی میں کرسکتے ہیں‘ بڑے ہوتے ہی ان کے اندر ایک قدرتی جھجک پیدا ہوجائے گی۔ ایک بار ایک صحابیؓ نے آنحضرتؐ کو ایک بچے کو پیار کرتے دیکھ کر کہا: اے اللہ کے رسولؐ میرے تو کئی بچے ہیں مگر میں نے کبھی انھیں لپٹا کر اس طرح پیار نہیں کیا۔ حضوؐر نے فرمایا: اگر اللہ نے تیرے دل میں رحم نہیں ڈالا تو میں کیا کرسکتا ہوں۔
ایک گھرانے کے تمام افراد کے درمیان باہمی ربط کا موجود ہونا ضروری ہے۔ اگر چھوٹے بڑے کی تمیز‘ بڑوں کی عزت اور چھوٹوں پر شفقت نہ ہو تو توازن بگڑ جاتاہے۔ ایک صحت مند ماحول کے لیے ضروری ہے کہ بچوں کو آپس میں کھیل کود کی مکمل آزادی ہو۔ ان کی عمر اور رجحان کے مطابق کھلونے اورسامان مہیا کرنا باپ کی ذمہ داری ہے‘ مگر خیال رکھیں ایسے کھلونے جو تخریبی رجحان پیدا کرنے والے ہوں‘ گھر میں نہ لائے جائیں مثلاً بندوق یا چاقو وغیرہ۔ یہی معاملہ اخلاق بگاڑنے والے کھیل کھلونوں کا ہے۔
اپنے اہلِ خانہ کو سیروتفریح کے مواقع مہیا کیجیے۔ ہرطبقے کا گھرانہ اپنے ماحول اورحالات کا لحاظ رکھتے ہوئے چھوٹی موٹی تفریح فراہم کرسکتا ہے۔ بنیادی بات اس نظریے کی موجودگی ہے کہ شرعی حدود میں رہ کر جائز تفریح کو اسلام پسند کرتاہے۔ مہینے میں ایک بار گھر میں تیار کیا گیا سادہ سا کھانا ساتھ لے جاکر اگر کسی نزدیکی پارک میں کھا لیا جائے تو اس کے بے شمار مثبت اثرات نکلتے ہیں۔ یہ چیز جہاں ایک گھر کے افراد کو قریب لاتی ہے‘ وہاں روزمرہ کام کاج اور معمول کے منفی اثرات کو دُور کرکے ذہن کو تازگی دیتی ہے۔
بچوں کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی تعلیم دیں اور انھیں ایک دوسرے پر ترجیح نہ دیں۔ ان کے ساتھ برتائو اور لین دین میںبرابری و مساوات کا خیال نہ رکھا جائے تو ان میں تفریق و امتیاز کا عنصر پیدا ہوگا جو آگے چل کر باہمی حسدو رقابت کا باعث بنے گا۔ بہن بھائیوں کے درمیان چھوٹے چھوٹے مقابلے کرانا‘ انعام دینا‘ عید اور دیگر خوشی کے موقعوں پر انھیں تحائف دینا جہاں اسلامی اقدار کے عین مطابق ہے وہاں بچوں میں عزتِ نفس اور اطمینان کے جذبات پیدا کرتا ہے۔ یوں انھیں اپنا ایک مقام نظر آتا ہے۔ اسلام نے اچھے اوصاف و کارکردگی کو سراہنے کی تاکید کی ہے اور سب کے سامنے شرمندہ کرنے سے منع کیا ہے۔
اپنے گھر کو لڑائی جھگڑوں اور ایک دوسرے کی مخالفتوں کا اکھاڑہ مت بنایئے۔ آپس کے تنازعات کے لیے وقت مخصوص کر کے بچوں سے علیحدہ ہوکر بات کیجیے۔ ان کے سامنے چیخ پکار اور غصے کا مظاہرہ کرکے آپ ان سے کس سیرت و کردار کی توقع کریں گے؟ اپنے ماحول کو ہروقت کے تنائو سے بھی محفوظ رکھیے۔ اپنے اہلِ خانہ کو خوش رکھ کر آپ یہ کام کرسکتے ہیں۔ بچے میں انحراف اور بغاوت کا ایک بہت بڑا سبب باپ کی سخت مزاجی اور ڈکٹیٹرشپ ہے۔ جب بچہ خود کو‘ اپنے بہن بھائیوں کو اور اپنی ماں کو ہروقت بے جا پابندیوں میں جکڑا ہوا دیکھتا ہے تو دکھی ہوجاتا ہے اور اس ماحول سے فرار کے راستے ڈھونڈتا ہے۔ ایسے ماحول کے اکثر بچے بڑے ہوکر گھر سے بھاگ جاتے ہیں یا بھاگنے کی ترکیبیں سوچتے رہتے ہیں اور اپنے اندر باپ کے لیے وہ الفت اور محبت محسوس نہیں کرتے جس کا تقاضا فطرت کرتی ہے۔ یوں اللہ کے سپاہی بننے والے یہ فرشتے جسمانی و نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں۔ ذرا قرآن کا مطالعہ کیجیے‘ جب اللہ تعالیٰ نے انبیاے کرام کو اپنے کام کے لیے چنا تو انھوںنے اپنے اہلِ خانہ اور بھائی بندوں کو اپنی مدد پر مامور کرانے کے لیے اللہ سے دعا فرمائی۔ (طٰہٰ ۲۰:۲۹-۳۴)
اسلامی قوانین کی رو سے ایک گھرانہ ہی اس اعلیٰ منصب کو پورا کرنے کی اہلیت رکھتا ہے اور اس کے سربراہ آپ ہیں۔ افرادِ خانہ کے اندر ایک دوسرے کی مدد کا جذبہ پیدا کیجیے۔ خصوصی طور پر لڑکوں کو بچپن ہی سے گھرکے چھوٹے موٹے کام کرنے کی عادت ڈالیے۔ ہمارے گھروں میں عام رواج یہ ہے کہ اگر مرد گھریلو کام کاج کو ہاتھ لگا لیں تو یہ اُن کی مردانگی کے خلاف سمجھا جاتاہے۔ اسی طرز پر لڑکوں کی پرورش بھی ہوتی ہے‘ جب کہ اللہ کے رسولؐ جب اپنے گھروالوں کے درمیان ہوتے تو ان کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹھاتے۔ بچہ جب باپ کو خود یہ عمل کرتے دیکھتا ہے تو اس کے ذہن میں اس عمل کی کوئی قباحت نہیں رہتی بلکہ وہ باپ کی طرح بننے کو قابلِ فخر سمجھتا ہے۔
یہ بات ہمیشہ مدنظر رکھیں کہ والدین کا اچھا طرزِعمل بچپن میں تو اولاد کے لیے صرف اچھی تربیت حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہوتا ہے مگر جب اولاد جوان اور باشعور ہوتی ہے تو والدین کی یہی تصویر ان کے دل میں وہ عزت اور محبت پیدا کردیتی ہے‘ جس سے وہ والدین محروم رہتے ہیں جن کا کردار اور عمل بچوں کے بچپن میں کمزور رہا تھا۔
گھر کے باہر کے ماحول میں خاندان کے دیگر لوگ‘ پڑوسی اور میل جول کے دوسرے لوگ شامل ہیں۔ اسلام نے واضح طور پر ایسے احکام دیے ہیں جن کی رو سے ایک مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ حقوق العباد کا خیال رکھے اور میل جول کے ذریعے لوگوں کی خوشی اور غمی میں شریک رہے۔ اس اسلامی فریضے کو پورا کرنے کے لیے اہلِ خانہ کو سہولت دیجیے‘ انھیں باہر لے جایئے اور ان کی سرگرمیوں پر خوش دلی کا مظاہرہ کیجیے۔ اپنی استطاعت اور موقع محل کی مناسبت سے عزیزوں اور دوستوں کو خود بھی ہدیہ دیں اور اہلِ خانہ کو بھی ترغیب دیں۔ اللہ کے رسولؐ ہدیہ دیتے بھی تھے اور قبول بھی کرتے تھے۔ اپنے حقیقی بہن بھائیوں کے علاوہ بھی بچے کو ہم عمر دوستوں میں اٹھنے بیٹھنے کی سہولت دیجیے۔ صحت مند جسمانی اور ذہنی نشوونما کے لیے بچوں کو کھیلنے کا وقت زیادہ دینا مفید ہے۔ اس طرح بچے میں تخلیقی صلاحیتیں پیدا ہوں گی۔ بچوں کے دوستوں کا احترام کیجیے۔ ان کے سامنے بچے کی اچھی عادتوں کا ذکر کیجیے۔ بچوں سے باہر ہونے والی سرگرمیوں کو دل چسپی لے کر سنیے۔ جو والدین خصوصاً باپ اس کام کے لیے وقت نکالتے ہیں وہ بہت سی حقیقتوں سے واقف رہتے ہیں‘ اُنھیں اصلاح کا موقع ملتا ہے اور یہ کہ بچہ والدین ہی کو اپنا دوست سمجھتا ہے۔ بس خیال رہے کہ یہ گفتگو غیبت یا عیب جوئی کا رنگ اختیار نہ کرے۔
بچوں کے سامنے ماںاور ماں کے گھر والوں کو عزت اور توقیردیجیے۔یہ چیز بچے کو دہری شخصیت کا شکارہونے سے بچائے گی۔ یہ مت بھولیے کہ یہ سب بھی بچے کے رشتے دار ہیں‘ ان کی مخالفت بچے کو آپ کا مخالف بناکر چھوڑے گی۔ اکثر معزز داماد حضرات کا رویہ اپنی بیوی کے گھر والوں کے ساتھ بڑا عجیب و غریب اور ہتک آمیز ہوتا ہے۔ ایسے داماد سمجھ لیں کہ انھیں محبت کا ملنا تو دُور کی بات ہے‘ جو تھوڑی بہت عزت ملتی ہے وہ بھی بس اوپرائی ہوتی ہے‘ نہ بیوی کے دل میں کوئی وقعت رہتی ہے اور نہ اولاد کے دل ہی میں۔ سسرال والوں کو تو خیر اپنا بنایا ہی نہ تھا… حالانکہ اسلامی قوانین کی رُو سے شادی دو خاندانوں کاملاپ اور باہمی طاقت اور اخوت کا ذریعہ ہونا چاہیے۔
خاندان کے دیگر گھرانوں کے معاملات و تقاریب میں خود بھی دل چسپی لیں اور بچوں کو بھی اس کی عادت ڈالیں۔ خاص کر قریبی رشتوں کی پہچان اور عزت افزائی یقینی ہونی چاہیے۔ اپنے دفتری اوقات اور دوسرے اہم مواقع پر وقت کی پابندی کا خیال رکھیے۔ آپ کا یہ ڈسپلن بچے کے لیے مشعلِ راہ ہوگا۔
کبھی کبھی بچوں کے دوستوں کو گھر مدعو کرنے کی اجازت دیں‘ان کے دوستوں سے بات چیت کریں۔ وقفے وقفے سے دوستوں کا حال احوال اور ان کی سرگرمیوں کو پوچھتے رہیں۔ باپ کے نہایت اہم فرائض میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ باہر لڑکوں کے دوستوں پر نظر رکھیں اور اُس صحبت کی جانچ پڑتال کرتے رہیں جس میں بچہ وقت گزارتا ہے۔ یہ کام صرف ایک دن کے کرنے کا نہیں ہے بلکہ متواتر عمل ہے۔ آپ کا لڑکا جس دوست سے ملنے جائے اس کا نام پتا اور فون نمبر لے کر رکھیں لیکن اس تمام کارروائی میں آپ کا رویہ مخلصانہ اور بچے کی حفاظت پر مبنی ہو۔ جاسوسی کے انداز میں ہرگز نہیں۔ اپنی اس نیت کا آپ برملا اظہار بھی کریں تاکہ بچے کے سامنے آپ کے طریقۂ کار کی وضاحت ہو۔ ہمارے گھروں میں اولاد اور والدین‘ خصوصاً باپ کے درمیان عدمِ رابطہ یا ناقص رابطے کی بنیادی وجہ یہی اظہارِ خیال کا فقدان ہے۔ افرادِ خانہ ایک دوسرے کے بنیادی خیالات ہی کو نہیں سمجھ پاتے اور بعض اوقات بڑی بڑی غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں۔ لہٰذا گھر کا عام ماحول کھل کر بات کرنے کا ہو۔ اسلام مبہم بات چیت سے منع کرتا ہے۔
یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بچے کی تربیت کا تمام دارومدار والدین کے آپس کے تعلقات پر ہے۔ زوجین کی ذہنی ہم آہنگی جہاں اس دشوار کام کو آسان بلکہ پُرکیف بناتی ہے وہیں یہ تعلق اُن عوامل اور محرکات کو استحکام اور دوام بخشتا ہے جن کی مدد سے زوجین بچوں کی تربیت کرتے ہیں۔ والدین کے خیالات کا فرق و تکرار بچے کو دوراہے پر لاکھڑا کرتا ہے۔ ایک کی راے کچھ اور دوسرے کی کچھ اور۔ بچہ کس کی مانے‘ اس کے لیے تو دونوں برابر ہیں۔ ایسا بچہ اپنی منزل کا تعین کس طرح کرے گا جس کے سامنے ابھی غلط اور صحیح کی گتھی ہی نہیں سلجھی۔ اس طرح کے اکثر بچوں میں قوتِ فیصلہ کی سخت کمی ہوتی ہے اور واقعے کو سمجھنے میں انھیں دشواری رہتی ہے۔ بعض بچے والدین کی اس کمزوری کو بھانپ لیتے ہیں اور اس کمزوری سے غلط فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ والدین سے الگ الگ اپنی باتیں منواتے ہیں لہٰذا حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ باہمی اختلاف کو محسوس کرتے ہی خاموشی اختیار کرلی جائے۔ بچے کے سامنے اس کا اظہار نہ کیا جائے اور باہمی معاملات کو طے کرنے کے لیے ہفتے میں کم از کم ایک دن ایسا رکھا جائے جس میں گفتگو کے ذریعے ایک نتیجے پر پہنچا جائے۔
اس کے لیے چھٹی کے دن نمازِ فجر کے بعد کا وقت نہایت موزوں رہتا ہے۔ عموماً اس وقت بچے سو رہے ہوتے ہیں۔ دورانِ گفتگو اگر کوئی بدمزگی ہو بھی جائے تو بچے اُس سے متاثر نہیں ہوتے۔ بچوں کے سامنے اپنے آپ کو ایک راے والا بناکر پیش کریں۔ یاد رکھیے‘ بچے والدین کے درمیان اعتماد اور پیارو محبت کا سلوک دیکھ کر اپنے اندر محفوظ ہونے کی ایک عجیب کیفیت محسوس کرتے ہیں۔ ہمارے اکثر گھرانوں میں خواتین کو دباکر رکھنے کا رجحان ہے۔ بچے قدرتی طور پر ماں سے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ کیا ایسے بچوں سے کسی مضبوط شخصیت کی توقع کی جاسکتی ہے جس کے باپ بات بات پر ماں کو طلاق کی یا چھوٹی چھوٹی باتوں سے گھبرا کر گھر سے بھاگ جانے کی دھمکیاں دیتے ہوں۔ یہ دھمکیاں ان کے ننھے ننھے دلوں کو ہرلمحہ لرزاتی رہتی ہیں۔ ’’کہیں یہ ہمیں چھوڑ کر نہ چلے جائیں‘‘ یہ خوف ان کے شعور اور لاشعور کی دنیا کو تباہ کردیتا ہے۔
اگر کسی وقت محسوس کریں کہ آپ کے مقابلے میں آپ کی بیوی کا موقف زیادہ وزنی ہے تو بلاتامل اُس کی بات چلنے دیں۔ زبردستی اپنی بے تکی راے جمانے والے باپ بڑی جلدی اپنی حیثیت متاثر کرلیتے ہیں‘ خاص کر جب اولاد بڑی ہوکر صحیح اور غلط کو سمجھنے کی اہل ہوجائے۔
اپنی بیوی کی بیماری یا مصروفیت کے دوران روز مرہ کے چھوٹے چھوٹے کام اپنے ہاتھ سے کرلینے کو اپنی شان کے خلاف نہ سمجھیے۔ اس طرح بچہ نہ صرف اپنی ماں بلکہ ضرورت پڑنے پر آپ کی مصروفیت کو بھی اہم جانے گا۔ اس طرح بچوں میں ایسے حالات میں باہمی مدد کا جذبہ بھی پیدا ہوگا اور وہ یہ بھی سیکھیں گے کہ ’’جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو۔ اللہ سے ڈرو‘ اس کی سزا بہت سخت ہے‘‘۔(المائدہ ۵:۲)
ہمارے نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنے گھروالوں کے ساتھ اچھا برتائو کرتا ہو اور میں اپنے گھروالوں کے ساتھ تم سب سے بہتر برتائو کرتا ہوں‘‘ (ابن ماجہ‘ حاکم)۔ حدیث کا آخری حصہ ظاہر کرتاہے کہ سیرتِ طیبہ کا مطالعہ ایک مسلمان کے لیے بہترین رہنمائی ہے۔
شادی کے مقدس بندھن کے بعد نیک اور صالح اولاد کے لیے اللہ سے دعا کرنا چاہیے۔ ’’میرے رب! تواپنے پاس سے مجھے پاک باز اولاد عطا فرما‘بے شک تو دعا کا سننے والا ہے‘‘۔ (اٰل عمرٰن ۳:۳۸) ۔جب اللہ تعالیٰ یہ نعمت عطا فرما دیں تو بچے کی پرورش میں جہاں وہ تمام امور ضروری ہیں جن کا ابھی تک ذکر ہوا‘ وہاں قدم قدم پر اُسے باپ اور اُس کی دعائوں کی ضرورت پیش آئے گی۔ اپنی بھرپور عملی کوششوں کے ساتھ ساتھ بچے کے لیے دعا بھی کرتے رہیے۔ یہ دعائیں صرف حال کے لیے نہیں بلکہ اس کے مستقبل اور پھر مستقبل بعید کے لیے بھی ہوں۔ انسان کی زندگی کا کوئی بھروسا نہیں۔ اللہ نے آپ کو ’آج‘ دیا ہے‘ اس میں اپنے بچے کے ’آج اورکل‘ کے لیے دعا کریں۔ اگر آپ کا بچہ ۳‘۴ سال کا ہے تو اس کی معاش اور پھر شادی شدہ زندگی کے مراحل جیسے دُور کے کام آپ کے ذہن میں نہیں آتے‘ مگر نہیں‘ بچے کے ہردَور کے لیے دعاکریں۔ حضرت عبداللہ بن مبارک جیسے بزرگ کا دل والدین کی شبانہ روز دعائوں سے ہی پلٹا تھا۔ قرآن پاک اس ضمن میں ایک مسلمان کی مکمل رہنمائی کرتا ہے۔ چنانچہ دیکھیے سورۂ فرقان (۲۵:۷۴): ’’اے ہمارے رب! ہمیں ہمارے جوڑوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا امام بنا‘‘۔ حضرات غور کریں آپ کی ذریت کون ہے؟؟ آپ کے بچے اور پھر ان کی اولادیں… سورئہ ابراہیم (۱۴:۳۵) میں ہے: ’’اور جب ابراہیم ؑنے دعا کی پروردگار! اس شہر کو امن کا شہر بنا اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا‘‘۔ اسی سورہ میں آیت ۴۰ میں ہے: ’’اے رب! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد سے بھی۔ بے شک تو دعا قبول کرنے والا ہے‘‘۔ (ابراہیم ۱۴:۴۰)
یہی نہیں اپنے بچے کو بھی اپنے لیے دعا کرنا سکھایئے۔ یہ بھی اسلامی تربیت کا حصہ ہے۔ رسولؐ اللہ کا فرمان ہے کہ ’’جب کوئی آدمی مرجاتاہے تو اس کے عمل کی مہلت ختم ہوجاتی ہے۔ صرف تین چیزیں مرنے کے بعد بھی فائدہ پہنچاتی ہیں: ایک صدقۂ جاریہ‘ دوسرے اس کا پھیلایا ہوا وہ علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں‘ تیسرے وہ صالح اولاد جو اس کے لیے دعاے مغفرت کرتی رہے‘‘(آدابِ زندگی، یوسف اصلاحی‘ ص ۱۹۹)۔’’اوردعا کرو پروردگار ان دونوں پر رحم فرما جس طرح بچپن میں انھوں نے میری پرورش کی‘‘(بنی اسرائیل ۱۷: ۲۴)۔ اس کے علاوہ سورئہ نوح آیت ۲۸ اور سورئہ ابراہیم آیت ۴۱ میں اولاد کو اپنے والدین کے لیے بہترین انداز سے دعا کی ترغیب دلائی گئی ہے۔
اولاد کے لیے والدین اور والدین کے لیے اولاد دنیا کی بہت بڑی نعمت ہیں۔ پس ہرکسی کو اس معاملے میں اللہ رب العزت کا شکرگزار ہونا چاہیے۔ قرآن ہمیں ایسی جامع دعائیں سکھاتا ہے جن کے ذریعے ہم نیک و صالح اولاد کے لیے شکرگزاری بجا لاسکتے ہیں۔ شکرگزاری کا لازمی نتیجہ برکت ہے۔ ’’شکر ہے اُس خدا کا جس نے مجھے اس بڑھاپے میںاسماعیل اور اسحاق جیسے بیٹے دیے۔ حقیقت یہ ہے کہ میرا رب ضرور دعا سنتا ہے‘‘۔(ابراہیم ۱۴:۳۹)
اسی طرح اولاد بھی ہرلمحہ والدین کے احسان یاد کرکے ان کے لیے دعاگو رہے۔ ’’اے رب! مجھے توفیق دے کہ میں تیری اُن نعمتوں کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھے اور میرے والدین کو عطا کیں اور ایسا نیک عمل کروں جس سے تو راضی ہوجا۔ اور میری اولاد کو بھی نیک بنا کہ مجھے سکھ دے۔ میں ترے حضور توبہ کرتا ہوں اور تابع فرمان (مسلم) بندوں میں سے ہوں‘‘۔ (احقاف ۴۶:۱۵)
تمام گفتگو کا حاصل یہ ہوا کہ کمزوریوں سے زیادہ سے زیادہ پاک گھرانہ ہی وہ ادارہ ہے جہاں صحت مند شخصیت کی نشوونما ممکن ہے۔ بطور سربراہِ خانہ اپنے اہل و عیال کو اپنے لیے صدقۂ جاریہ بنائیں۔ غالباً آپ کا معاملہ کچھ یوں ہے: حیثیت بڑی‘ ذمہ داریاں زیادہ‘ جواب دہی سخت۔
آیئے آخر میں مختصراً کچھ باتوں کا جائزہ لیں اور دیکھیں ہم نے اِس بھاری ذمہ داری کی جواب دہی کے لیے کتنی تیاری کی:
۱- اپنے اہلِ خانہ سے گفتگو کے دوران آپ کا لہجہ ویسا ہی میٹھا اور نرم ہے جتنا باہر لوگوں سے گفتگو کے وقت تھا؟
۲- آپ ان کی راے پر بھی اعتماد کرتے ہیں یا بس اپنی چلاتے رہتے ہیں؟
۳- کبھی آپ کو اپنی کمزوریاں بھی نظر آئیں یاقصور اکثراہلِ خانہ ہی کا ہوتا ہے؟
۴- کمزوری سب میں ہوتی ہے۔ اس کی نشان دہی پر اُسے دور کرنے کی کوشش کی یا ___ آپ تو قبیلے کے سردار ہیں‘ سب کچھ چلے گا‘ والا معاملہ ہے۔
۵- کیا واقعی آپ کی گھر میں موجودگی اہلِ خانہ کے لیے خوشی کا باعث ہے یا یہ صرف آپ کا خیال ہے؟
اللہ تعالیٰ سے استقامت کی دعا کرتے ہوئے سچائی سے ان سوالات کا جواب تلاش کیجیے۔