کیا آپ کا وصیت نامہ آپ کے تکیے کے نیچے موجود ہے؟ نہیں تو! بھلا زندگی میں اس کا کیا کام___ جی نہیں‘جلدی کیجیے۔ آپ کے اوپر دو راتیں بھی ایسی نہ گزریں کہ آپ کا وصیت نامہ آپ کے پاس تیار نہ ہو۔ ذرا یاد تو کیجیے کہ سورئہ بقرہ آیت ۱۸۰ میں اللہ تعالیٰ کیا فرما رہے ہیں: ’’تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آئے اور وہ اپنے پیچھے خیر (مال) چھوڑ رہا ہو تو والدین اور رشتے داروں کے لیے معروف طریقے سے وصیت کرے‘ یہ حق ہے متقی لوگوں پر‘‘۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’کسی ایسے مسلمان بندے کے لیے جس کے پاس کوئی ایسی چیز (جایداد‘ سرمایہ‘ امانت‘ قرض وغیرہ) ہو جس کے بارے میں وصیت کرنی چاہیے تو درست نہیں کہ وہ دو راتیں گزار دے مگر اس حال میں کہ اس کا وصیت نامہ لکھا ہوا اس کے پاس نہ ہو‘‘۔ (بخاری‘ مسلم)
وصیت ہر اس کام کو کہا جاتا ہے جس کے کرنے کا تاکیدی حکم دیا جائے خواہ وہ کام زندگی میں ہو یا بعد الموت۔ البتہ عرف عام میں اُس کام کو کہا جاتا ہے جس کے کرنے کا تاکیدی حکم بعدالموت ہو۔ سورئہ بقرہ کی آیت ۱۸۰ میں آنے والے لفظ خیر کے بہت سے معنوں میں سے ایک معنی مال کے بھی آتے ہیں‘ جیسے سورئہ عادیات میں ہے: وَاِنَّہٗ لِحُبِّ الْخَیْرِ لَشَدِیْدٌ o (العٰدیٰت:۸)۔ (معارف القرآن‘ مفتی محمد شفیع‘ جلد۱‘ ص ۴۳۸)
حدیثِ مبارکہ کے الفاظ ’دو راتیں نہ گزریں‘، اس امر پردلالت کرتے ہیں کہ اس کام کے لیے موت کے وقت کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ نہ معلوم موت کب اور کس حال میں آئے اور اُس وقت انسان کو اتنی مہلت ملے یانہ ملے۔ یہ ضروری بھی نہیں کہ کوئی ہمارے پاس ہو جسے ہم وصیت کے الفاظ سنا سکیں۔ بعض اموات حادثاتی یا ناگہانی بھی ہوتی ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسولؐ اللہ کا یہ ارشاد سننے کے بعد ایک دن بھی ایسا نہ گزرا کہ میرا وصیت نامہ میرے پاس نہ ہو۔ (معارف الحدیث‘ منظورنعمانیؒ،ج ۶‘ص ۱۸۹)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے وصیت کی حالت میں انتقال کیا‘ یعنی اس حالت میں جس کا انتقال ہوا کہ اپنے مال اور معاملات کے بارے میں جو وصیت اس کو کرنی چاہیے تھی‘ وہ اُس نے کی اور صحیح اور لوجہ اللہ کی تو اس کا انتقال ٹھیک راستے پر شریعت پر چلتے ہوئے ہوا‘ اور اس کی موت تقویٰ اور شہادت والی موت ہوئی اور اس کی مغفرت ہوگی‘‘۔(سنن ابن ماجہ بحوالہ معارف الحدیث‘ ج ۷‘ ص ۱۹۰)
یہ حدیث وصیت کے ہر وقت تیار کرنے کی اہمیت کو واضح کرتی ہے لیکن بات صرف یہی نہیں کہ یہ وصیت اللہ کی رضا (لوجہ اللّٰہ) کی خاطر ہو بلکہ کسی حق دار کو کسی بھی طرح کا نقصان نہ پہنچایا جائے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیںکہ: ’’(کبھی ایسا ہوتا ہے کہ) کوئی مرد یا کوئی عورت ۶۰سال تک اللہ کی فرماں برداری والی زندگی گزارتے رہتے ہیں‘ پھر جب ان کی موت کا وقت آتا ہے تو وصیت میں (حق داروں کو) نقصان پہنچادیتے ہیں اور ان کے لیے دوزخ واجب ہوجاتی ہے‘‘(مسنداحمد‘ ترمذی‘ سنن ابی داؤد و ابن ماجہ بحوالہ معارف الحدیث‘ جلد۷‘ ص ۱۹۷)۔ ذرا غور کیجیے‘ ۶۰سال کی عبادت کے بعد بھی دوزخ کا واجب ہونا‘ آخر کیوں؟
دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے قانونِ وراثت کے باضابطہ اعلان سے پہلے صاحبِ دولت حضرات کے لیے وصیت ہی وہ واحد ذریعہ تھا جس سے تعین کیا جاتا تھا کہ مرنے کے بعد اس کے مال و دولت اور جایداد پر کس کا حق ہے۔ اس ضمن میں وہی طرزِعمل رائج الوقت تھا جوباپ دادا سے چلا آرہا تھا۔ چونکہ یہ اصول و ضوابط انسانوں کے وضع کیے ہوئے تھے اس لیے اوّل تو حسبِ ضرورت بدلتے رہتے تھے‘ نیز اکثر انصاف سے بھی بے گانہ ہوتے تھے۔ عورتیں اور بچے اس ناانصافی کا خصوصی ہدف تھے۔ زندگی کے آخری لمحات تک وصیت لکھنے کا یہ کام ملتوی رکھا جاتا۔ اگر کہیں لکھا بھی جاتا تو صاحبِ جایداد اپنی مرضی سے جسے چاہتا اور جیسے چاہتا نوازتا اور جسے چاہتا محروم کردیتا‘ کوئی پوچھنے والا نہ ہوتا۔ کبھی یوں ہوتا کہ مرنے والا مر جاتا اور وصیت کی عدم موجودگی کے باعث اُس کا مال پسماندگان میں باہمی رنجشوں‘ تنازعات اور تعلقات کے ٹوٹنے کاباعث بن جاتا‘ گویا وصیت کا قانون ہونے کے باوجود حالات انتہائی دگرگوں تھے۔
اس فضا میں ایک عادلانہ اور منصفانہ قانون کی اشد ضرورت تھی‘ خاص کر ایسی بالادست ہستی کا دیا ہوا قانون جس کی خلاف ورزی آسان نہ ہو۔ یوں اِن حالات میں اللہ تعالیٰ نے قانونِ وراثت نازل فرمایا‘ اور نزدیکی رشتے داروں کے حصے ازخود مقرر فرما دیے۔ اب اگر کوئی روگردانی کرتاہے تو گناہ گار ہوتا ہے اور ربِ کائنات کو ناراض کرتا ہے۔ لیکن قانونِ وراثت (النساء ۴:۷-۱۴)کے آجانے کے بعد بھی کُل مال کے
حصے پر صاحب ِ مال کو وصیت کا اختیار دیا گیا تاکہ دُور کے رشتے داروں اور ضرورت مندوں کی مدد یقینی بنائی جاسکے۔ اس سے دین اسلام میں اقربا کے حقوق کی ادایگی اور خبرگیری کی اہمیت اُجاگر ہوتی ہے۔
اسلام میں انسانی تعلقات و معاملات کی اہمیت واضح ہے۔ معاشرے کے استحکام کی بنیاد انھی تعلقات پر ہے‘ خاص کر وہ افراد جن کا تعلق ایک گھرانے یا خاندان سے ہو۔ حالات شاہد ہیں کہ وہ صاحبِ حیثیت اشخاص جنھیں اللہ تعالیٰ نے نعمتوں سے نوازا ہے خصوصاً مال و دولت سے‘ وہ اگر اپنی زندگی میں یہ فیصلہ نہ کردیں کہ کس چیز پر کس کا حق ہے‘ توان کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد یہی مال آپس کے تعلقات میں کدورتیں ڈالتا ہے‘ بلکہ بسااوقات بات بڑھتے بڑھتے خون خرابے تک جاپہنچتی ہے۔
مال سے انسان کی دل چسپی طبعی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے کو فساد سے بچانے کے لیے شریعت نے مال و دولت کی متوازن اور منصفانہ تقسیم کا قانون مقرر کیا‘ اور اُس پر عمل کی تاکید فرمائی تاکہ لوگ اُسے حکمِ الٰہی سمجھ کر بروقت انجام دیں۔ اللہ تعالیٰ حق بات کہنے سے نہیں شرماتا‘ جب کہ انسان سوچتا ہے کہ اگر ہم نے کسی کو اس کی زندگی میں وصیت تحریر کرنے کا مشورہ دیا تو وہ سوچے گاکہ ’’انھیں ابھی سے ہمارے مرنے کے بعد تقسیم ہونے والے مال کی فکر لاحق ہوگئی‘‘۔ بلاشبہہ اس سوچ کو تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ وصیت نامے کے ذریعے ہی عزیزوں‘ رشتے داروں اور وارثوں کے درمیان بعد میں پیدا ہونے والے تنازعات اور غلط فہمیوں سے بچا جاسکتا ہے۔
تقسیم وراثت کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے باضابطہ قانون بن جانے کے بعد وصیت کی شرعی حیثیت کچھ اس طرح سے ہوگئی:
۱- جن وارثوں کے حصے قرآن میں مقرر کر دیے گئے ہیں اُن میں نہ تو وصیت کے ذریعے کمی بیشی کی جاسکتی ہے اور نہ کسی وارث کو میراث سے محروم کیا جاسکتاہے‘ اور نہ کسی وارث کو اس کے قانونی حصے کے علاوہ کوئی چیز بذریعہ وصیت دی جاسکتی ہے۔(تفہیم القرآن‘ ج ۱‘ ص ۱۴۰)
۲- وصیت کُل جایداد کے صرف ایک تہائی ( )حصے کی حد تک کی جاسکتی ہے ۔ وہ بھی ایسے قرابت داروں کے لیے جو وارث نہ ہوں اور ایسے لوگوں کے لیے جو قرابت نہ رکھتے ہوں لیکن اس بات کے مستحق ہوں کہ ان کے لیے وصیت کی جائے۔ (ایضاً)
۳- لیکن اگر وارثوں کی اجازت اور خوشی شاملِ حال ہے تو ایک تہائی سے زائد بلکہ پورے مال کی بھی وصیت جائز ہے۔ (معارف القرآن‘ ج ۱‘ ص ۴۴۰)
۴- جس شخص پر کسی کے حقوق واجب ہوں‘ یا کسی کا قرض ہو یا کسی کی امانت رکھی ہو اس پر واجب ہے کہ وصیت میںاس کا ذکر کرکے متعلقین کو ادایگی کی ہدایت کرے۔
۵- ایک تہائی مال کی وصیت لکھنے والا اپنی زندگی میں کوئی بھی تبدیلی کرنے کا حق رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ اسے بالکل ختم بھی کرسکتا ہے ۔ (ایضاً‘ ج ۱‘ ص ۴۴۱)
۶- وصیت کی بعض شکلیں فرض ہیں‘ مثلاً ایسے والدین جو غیرمسلم ہوں یا بہن بھائی جو غیرمسلم ہوں‘ ان کا وراثت میں حصہ نہیں‘ اس لیے ان کے لیے وصیت فرض ہے۔
وصیت نامے میں مالی وصیت اور لوگوں کی امانتوں وغیرہ سے متعلق لکھنا بے شک اہم حصہ ہے‘ مگر چونکہ قرآن پاک میں‘ اللہ تعالیٰ نے لفظ خیر (البقرۃ ۲:۱۸۰) استعمال کیاہے‘ اس لیے وصیت کی اس تحریر کو کسی خاص دائرے تک محدود نہیں کیا جاسکتا۔ یوں بھی یہ بات یقینی نہیں کہ ہرآدمی اس حد تک صاحبِ جایداد ہو کہ اس کا ترکہ قابلِ تقسیم ہو۔ اب اگر کسی کا جی چاہے تو آخر وہ اپنے وصیت نامے میں کیا لکھے؟ اس میں بے شمار باتیں شامل کی جاسکتی ہیں جو بلاشبہہ معاشرے میں باعثِ خیر ہیں اور ہوسکتی ہیں۔
انسانوں کی اس بستی میں سب کی ضرورتیں اور حالات مختلف ہیں۔ تربیت ِ اولاد اور دیگر معاملات میں انسان اپنی زندگی ہی میں نہیں مرنے کے بعد بھی کچھ باتوں کی خواہش رکھتا ہے۔ اس کے لیے زبانی تاکید بھی کرتا ہے مگر ممکن ہے بعد میں یہ تاکید کسی کو یاد رہے اور کسی کو نہیں۔ ایسا بارہا دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ اپنے متعلقین کی زندگی میں ان کی نصیحتوں اور اچھے عمل کی قدر نہیں کرتے لیکن ان کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد یہی نصیحتیں اور عمل ان کی زندگی بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ یوں وصیت نامہ ہی وہ ذریعہ نظر آتا ہے جس میں ہم اپنے پیچھے رہ جانے والے رشتوں کے لیے کچھ لکھ سکتے ہیں۔
آیئے دیکھتے ہیں کہ ہم اپنے وصیت نامے میں کیا کیا شامل کرسکتے ہیں تاکہ ہماری اولاد بعض کام کر کے نہ صرف ہمارے لیے صدقۂ جاریہ بنے بلکہ اپنی عاقبت بھی سنوارے:
۱- آج زندگی میں اپنی اولاد کو اپنے لیے دعا کرنا سکھایئے اور بعد میں دعا کرتے رہنے کی تاکید لکھیے اور یہ بھی ضرور لکھیے کہ کس طرح مرنے والا قبر میں اِن دعائوں کا منتظر رہتا ہے۔
۲- آپس کے حقوق و لحاظ کی تاکید لکھیے۔ جڑ کر رہنے کے فوائداور بکھر جانے کے نقصانات تحریر کیجیے۔
۳- کسی خاص بچے کے لیے خاص نصیحت کے پیشِ نظر ہدایات تحریر کیجیے۔
۴- اچھے کاموں کی نصیحت کرتے ہوئے انھیں آخرت میں اللہ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بنانا بتایئے اس لیے کہ دنیا میں بہت سی کوششیں بظاہر ناکام نظر آتی ہیں‘ اور اچھے کام تو اللہ پر ایمان نہ رکھنے والے بھی بہت کرتے ہیں۔
۵- تربیتِ اولاد اور ان کے دینی فہم کے حصول کے لیے آپ آج جو محنت اور کوشش کررہے ہیں‘ انھیں مختصراً ضبطِ تحریر میں لایئے۔ ممکن ہے کل آپ نہ رہیں تو آپ کے لکھے ہوئے یہ الفاظ ہی اولاد کی زندگی بدل دیں۔
۶- باقاعدہ بیٹھ کر ایسی باتوں کی فہرست مرتب کیجیے جن کے لیے آپ کی خواہش یا ضرورت ہو کہ آپ کی غیر موجودگی میں انھیں کس کس طرح ہونا چاہیے۔
۷- خاندانی معاملات میں اُن معاملات کی طرف توجہ دلایئے جن سے بچنا یا جن کی پابندی آپ کے پسماندگان کوسکون و راحت فراہم کرے۔ اس ضمن میں اولاد کو ان کی شادیوں کے بعد کے رہن سہن سے متعلق ہدایات بھی مفید ہوں گی۔
۸- خاندان یا احباب میں سے کسی خاص فرد کے بارے میں کوئی ہدایت ہو تو وہ لکھیے۔
۹- اپنی ذات یا اپنے کسی ادھورے کام کی تکمیل کے لیے کوئی ہدایت ہو توتحریر کیجیے۔
۱۰- اپنی اولاد (بہن بھائیوں) کو ایک دوسرے کی زندگی کے اہم معاملات کا خیال رکھنے کی ازحد تاکید لکھیے‘ مثلاً تعلیم‘ شادی یادیگر ضروریات۔ ضروری نہیں کہ والدین اپنے تمام بچوں کی ساری ضروریات و فرائض اپنی زندگی ہی میں پورے کرچکے ہوں۔
۱۱- اپنی زندگی کے ساتھی سے متعلق نصیحت ضرور کیجیے کہ آپ کے بعد آپ کے شوہر یا بیوی کا کس طرح خیال رکھا جائے۔
۱- سب سے پہلے صفحے پر اسے کم از کم ایک بار پڑھ لینے کی ’وصیت‘ لکھیے۔
۲- آج جب آپ اسے لکھ رہے ہیں تو کھلے عام اس کا تذکرہ کیجیے۔ اس کی نشان دہی کیجیے کہ کس کاپی میں ہے اور کہاں رکھا ہے‘ چھپاکر مت رکھیے کیونکہ آپ کا تو ایمان و یقین ہے کہ موت کسی وقت بھی آسکتی ہے۔ آپ کے اہلِ خانہ کو اس کی بابت علم ہوناچاہیے۔
۳- اسے پڑھنے کے فوائد ابھی سے ہی متعلقین کو سمجھایئے۔
۴- اسے پنسل یا ہلکی سیاہی سے نہیں‘ قلم سے نمایاں لکھیے اور اس کے لیے مجلد کاپی کا انتخاب کیجیے تاکہ عرصۂ دراز تک چلے۔
۵- ایک صفحے پر صرف ایک وصیت لکھیے اور ترتیب کا خیال رکھیے۔
۶- ایک ساتھ سارا وصیت نامہ لکھنے نہ بیٹھ جایئے۔ سب کام ایک نشست میں ختم کرنے کا خیال ممکن ہے آپ میں سُستی پیدا کردے اور آپ اسے آج کل پر ٹالتے رہیں‘ جب کہ آپ کو یہ کام پہلی فرصت میں ’شروع‘ کرنا ہے، ’ختم‘ نہیںکرنا۔ پھر جوں جوں خیال آتارہے اُس دن کی تاریخ ڈال کر لکھتے جایئے۔ گویا یہ آپ کے روز مرہ کاموں میں سے ایک اہم کام ہے۔
۷- ایک مؤثر وصیت نامے کی بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ ضرررساں نہ ہو‘ یعنی کسی کو اذیت پہنچانے والا نہ ہو (دیکھیے سورۂ نساء‘ آیت ۱۲)۔ اس ضرر رسانی میں جہاں بہت سی دوسری چیزیں شامل ہیں‘ مثلاً غیرمتوازن وصیت‘ جھوٹی شہادتیں‘ فرضی واقعات درج کر دینا اور وصیت کو حق داروں کے خلاف کردینا وغیرہ‘ وہاں یہ چیز بھی یقینا شامل ہے کہ وہ فرائضِ منصبی جو ہر مرد اور عورت کو اپنی زندگی میں بذاتِ خود ادا کرنا لازم ہیں انھیں غفلت‘ لاپروائی‘ معاملاتِ زندگی کو کھیل سمجھ لینے کی وجہ سے چھوڑ دینا‘ اور اب وصیت لکھتے ہوئے اپنے متعلقین کے اُوپر غیرضروری بوجھ ڈالتے ہوئے انھیں ادا کرنے کی تاکید کرنا۔ اس طرح آپ اللہ کے آگے جواب دہی سے بچ نہیں سکتے بلکہ آپ تو دہرے مجرم ہوگئے۔ اوّل تو اپنے اُوپر عائد فرائض کی عدم ادایگی‘ پھر اسے خواہ مخواہ دوسرے کے سر پر لاد دینا___ یہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر زندگی کے کسی بھی میدان میں کمی رہ گئی ہے تو اب ’کم وقت میں زیادہ کام‘ کرکے اس کمی کو پورا کرنے کی سعی کیجیے۔ پھر اس کے بعد کی کسی چھوٹی موٹی کسر کو پورا کرنے کے لیے آپ ضرور وصیت کرسکتے ہیں۔
۸- جس وقت آپ کو احساس ہو کہ اس کا بیش تر حصہ مکمل ہوچکا تو اس کی فوٹوکاپی بنوا کر دو ایک قریبی بااعتماد لوگوں کے پاس بھی رکھوا دیجیے‘ چاہے وہ آپ کی اولاد میں سے ہوں یا کوئی دوسرا قریبی رشتے دار ہو۔
وصیت اور وراثت کی اصطلاحات میں بھی فرق ہے‘ اس کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔
قانونِ وراثت و وصیت سے متعلق چند اہم نکات ہیں جو پیش نظر رہنے چاہییں:
۱- میراث کے حق دار صرف مرد نہیں بلکہ عورتیںاور بچے بھی ہیں۔
۲- میراث بہرحال تقسیم ہوگی خواہ کتنی ہی کم ہو۔ حتیٰ کہ اگر مرنے والے نے ایک گز کپڑا چھوڑا ہے اور ۱۰ وارث ہیں تو اُسے بھی ۱۰ حصوں میں تقسیم ہوناچاہیے۔ یہ اور بات ہے کہ ایک وارث باقی سب کے حصے خرید لے۔
۳- قانونِ وراثت ہر قسم کے مال و املاک پر جاری ہوگا۔
۴- قریب تر رشتے دار کی موجودگی میں بعید تر رشتے دار میراث نہ پائے گا۔ (تفہیم القرآن‘ ج۱‘ ص ۳۲۴)
۵- مرنے والے کے مال سے پہلے کفن دفن کا انتظام ہوگا‘ اس کے بعد اگر میت کا قرض ہے تو وہ ادا کیا جائے گا۔ اگر قرضہ ادا کرنے میں تمام مال ختم ہوجاتا ہے تو وراثت تقسیم نہیں کی جائے گی۔ لیکن اگر قرض نہیں تو اب ایک تہائی ( )مال پر وصیت لاگو ہوگی۔ بالفرض وصیت نہیں ہے تو پھر تمام مال شرعی وارثوں میںتقسیم کردیا جائے گا ۔خیال رہے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد جو فرض اور واجب کے درجے میں ہوں ان سے متعلق وصیت فرض ہے‘ اور جو سنت اور مستحب کے درجے میں ہوں ان کی وصیت مستحب ہے۔ تمام صورتوں میں تحریری وصیت مستحب ہے‘ فرض نہیں۔ قانونِ وراثت کے آنے کے بعد صرف مال پر وصیت کی جاسکتی ہے۔ اگر کوئی صاحبِ مال ایسی وصیت کی حاجت محسوس نہ کرتا ہو تو تمام مال وارثوں کا ہوگا۔
۶- تقسیم ِ وراثت قربت کی بنیاد پر ہوگی‘ ضرورت کی بنیاد پر نہیں۔ دُور کا رشتے دار خواہ کتنا ہی ضرورت مند ہو مگر قریب کے رشتے دار کی موجودگی میں وراثت کا حق دار نہیں۔ ہاں‘ ایسا شخص وصیت سے لے سکتا ہے یا کوئی وارث اپنا حصہ لینے کے بعد پھر جس کو دل چاہے دے سکتا ہے۔
۷- میراث کے حصے اللہ تعالیٰ کی جانب سے مقرر ہیں۔ اب اِن کو کم زیادہ یا تبدیل کرنے کا کسی کو حق نہیں‘ نہ محروم کرنے سے کوئی شرعی وارث محروم ہوتا ہے‘ البتہ محروم کرنے والا گناہ گار ہوتا ہے۔
۸- وہ دور کے رشتے دار جو ضرورت مند ہوں اور تقسیم کے وقت موجود بھی ہوں انھیں بھی کُل مال میں سے تمام بالغ ورثا کی رضامندی سے کچھ نہ کچھ دے دیا جائے۔ یہ نہ صرف اخلاقی فرض ہے بلکہ شکرانہ ہے اُن لوگوں کی طرف سے جنھیں اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی محنت کے یہ مال عطا فرمایا۔
۹- ایسے رشتے داروں کو اگر دیا جائے تو نابالغ اور غیرحاضر شرعی وارث کے حصے سے نہ دیا جائے۔ جو حصہ پاچکے ہیں وہ اپنے حصے سے دیں تو زیادہ مناسب ہے۔
۱۰- اگر ایسے رشتے دار اپنے حق سے تجاوز کرکے شرعی حق داروں کے برابر مطالبہ کریں تو کوئی ان کا یہ ناجائز مطالبہ پورا کرنے کا پابند نہیں مگر بات احسن انداز سے ہو‘ دل شکنی نہ کی جائے۔
۱۱- کسی شخص کو ضرر رساں وصیت کرتے ہوئے پائیں تو لازم ہے کہ اُسے اِس ظلم سے باز رکھیں۔
۱۲- میت کے بدن کے کپڑے بھی ترکے میں شامل ہیں۔ انھیں حساب میں لگائے بغیر صدقہ کر دینا جائز نہیں۔
۱۳- ترکے کی تقسیم سے پہلے اُس مال سے مہمانوں کی تواضع کرنا‘ صدقہ خیرات کرنا جائز نہیں۔ ایسا کرنے والے سخت گناہ گار ہیں‘ اور اس صدقے سے میت کو کوئی فائدہ نہ ہوگا۔
ایک بزرگ کسی کی عیادت کو گئے۔ ان کے سامنے ہی وہ آدمی مر گیا۔ بزرگ نے چراغ بجھا کرکے اپنے پیسوں سے تیل منگوا کر چراغ جلایا اور فرمایا: وہ چراغ وارثوں کی امانت تھا۔
۱۴- غرض کہ تقسیم سے پہلے وارثوں سے ’اجازت‘ لے کر بھی صدقہ کرنا جائز نہیں۔ مبادا کوئی شرما شرمی میں اجازت دے دے مگر دل سے راضی نہ ہو۔ (معارف القرآن‘ ج ۲)
صنفِ نازک وہ طبقہ ہے کہ جس کے حقوق واضح طور پر بتائے گئے اور ان کی حفاظت کو ہرممکنہ طریقے سے لازم بنایا گیاہے۔ اسلام میں عدل و انصاف کے معاملے میں مرد و عورت برابر ہیں۔ دونوں کے حقوق صاف صاف بیان کردیے گئے مگر صدافسوس انھیں پورا کرنا تو دُور کی بات ہے‘ ان کی مکمل آگاہی بھی عام نہیں ہے۔ عورتوں کی اکثریت اپنے اُن حقوق سے واقف ہی نہیں جو اسے اللہ رب العزت کی طرف سے عطا کیے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں رائج باپ دادا کے اکثر اصول اور سوچ کے مخصوص انداز عورتوں کو محرومی‘ ذہنی تنائو اور انتشار کے علاوہ کچھ نہیںدے رہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان غلط رسوم و رواج کو ختم کر کے اللہ رب العالمین کے قوانین سے آگاہی حاصل کی جائے۔ اس طرح اُس عذابٌ مُّھِیْن سے بچنے کی تیاری کی جائے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے احکامِ وراثت والی آیات کے آخر میں کیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کی شادی پر بے جا اسراف ‘ جہیز کی شکل میں بے پناہ سامان‘ شادی کے بعد بچوں کی ولادت (خاص کر پہلی بار) کے لیے والدین کا خرچ اٹھانا‘ ان کے علاج معالجے کی ضرورت پڑنے پر انھیں والدین کے گھر چھوڑ دینے کا عام رواج ہے لیکن ان کی کوئی شرعی حیثیت نہیں اور ان اخراجات کا تقسیم وراثت سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ شادی کے بعد عورت کی کفالت اور ضروریات پورا کرنے کی تمام ذمہ داری اس کے شوہر کی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی تقسیم ہے۔
آیئے ذرا دیکھتے ہیں کہ خواتین سے متعلق وراثت کا شرعی قانون کیا ہے:
۱- عورت مردکی طرح وراثت کی جائز حق دار ہے‘ نہ کسی طرح محروم کی جاسکتی ہے اور نہ اس کا حصہ ہی معاف کرانے کا کسی کو بھی حق ہے۔ البتہ اس کا حصہ مرد سے آدھا ہے کیونکہ اُس پر کسی کی کفالت کا بوجھ نہیں ڈالا گیا۔
۲- اگر مرنے والا مسلمان مرد ہے تو دیکھا جائے گا کہ اُس نے بیوی کا مہر ادا کیا یا نہیں۔ اگر نہیں تو پہلے تمام مال سے مہر ادا ہوگا۔ بالفرض مال صرف اتنا ہے کہ مہر کی ادایگی کے بعد ختم ہوجاتا ہے تو پھر صرف مہر ادا کیا جائے گا اور کسی طرح کی وراثت تقسیم نہیں ہوگی۔ اگر مال مہر سے زائد ہے تب وراثت تقسیم کی جائے گی۔
۳- اگر کسی خاتون کے ساتھ یہ معاملہ پیش آیا کہ اس کا مہر اس طرح شوہر کی وفات پر دیاگیا تو اب وہ مہر کی رقم کے علاوہ وراثت سے اپنا مقررہ جائز حصہ بھی پائے گی۔ یہ نہیں کہہ دیا جائے گا کہ تم نے ابھی ابھی تو مہر لیا ہے اب اپنی وراثت چھوڑ دو…
۴- قرآن کریم نے لڑکیوں کو حصہ دلانے کا اس قدر اہتمام کیا ہے کہ لڑکیوں کے حصے کو ’اصل‘ قرار دے کر اس کے اعتبار سے لڑکوں کا حصہ بتایا۔ چنانچہ سورئہ نساء‘ آیت ۱۱ کا ایک حصہ ہے۔ ’’لڑکے کو دو لڑکیوں کے حصے کے بقدر ملے گا‘‘۔ (معارف القرآن‘ ج ۲‘ ص ۳۲۱)
احکامِ وراثت کا خاتمہ جس آیت پر ہوتا ہے اُس میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَتَعَدَّ حُدُوْدَہٗ یُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِیْھَاص وَلَہٗ عَذَابٌ مُّھِیْنٌ o (النسآء۴:۱۴) اور جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں سے تجاوز کرے گا‘ اسے اللہ آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رسوا کن سزا ہے۔
اس آیت سے درج ذیل باتیں سامنے آتی ہیں:
۱- قانونِ وصیت و وراثت اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حدود ہیں۔ ان کے خلاف کرنا اِن سے تجاوز کرنا ہے۔
۲- اس تجاوز کی سزا دوزخ کی آگ ہے۔
۳- یہ آگ کسی محدود مدت کے لیے نہیں ’ہمیشہ‘ کے لیے ہے۔
۴- اس آگ میں ’رسوا کن‘ عذاب (عَذَابٌ مُّھِیْنٌ) دیا جائے گا (اگرچہ قانونِ وراثت پر ایمان کی صورت میں بالآخر عذاب سے نجات ہوجائے گی لیکن طویل عرصے تک عذاب مھین تو بھگتنا پڑے گا)۔ آج کے قانون وراثت پر عمل نہ کرنے والے اور وصیت سے غفلت برتنے والے مسلمان غور کرلیں کہ وہ کس مقام پر کھڑے ہیں! اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کی زندگی اور صحت میں برکت عطا فرمائے اور ہمیں اپنے فرائضِ منصبی کی تکمیل کی توفیق اور مہلت عطا فرمائے۔ آمین